جمعہ، 10 اکتوبر، 2025

غیر متوقع بارشیں اور تباہ کن صورتحال

 

   بارش، جو کبھی خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب تباہی، سیلاب اور انسانی المیوں کی شکل میں نمودار ہو رہی ہے ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر ہونے والی شدید بارشیں ایک نئے اور غیر متوقع مظہر کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جسے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بارشوں کے اس بگڑتے ہوئے انداز کا تعلق عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہے ؟ اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ؟ماہرین کے مطابق ، زمین کا ماحولیاتی نظام نہایت متوازن اور حساس ہے ۔ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی ہے، تو نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فضائی نمی میں بھی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے ۔نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کے مطابق، ہر ایک ڈگری سیلسیس درجہ حرارت کے اضافے کے ساتھ فضا میں 7 فیصد زیادہ نمی جذب ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں شدید بارشوں اور طوفانی موسم کی شدت کو بڑھا سکتی ہے ۔

 


بین ا لحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2023) میں خبردار کیا گیا کہ کہ ہر گزرتے عشرے کے ساتھ دنیا میں بارش کے پیٹرن میں شدت، طوالت اور بے ترتیبی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ اور لاطینی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024کی رپورٹ میں بتایاگیا کہ عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے، اس وجہ سے بارش کے سائیکل میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے ، کہیں طوفانی بارشیں ہیں تو کہیں مکمل خشک سالی ۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور آئی ایم ایف کی 2024میں کی جانے والی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطاً 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں۔

 


 ان میں زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال شامل ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئےرواں سال 2025 اور گذشتہ سال 2024 کے چند بڑے واقعات کا ذکر کیا جائے تو رواں برس میں برازیل کے جنوبی علاقہ (ریو گراندے دو سل) مئی میں مسلسل دو ہفتے کی طوفانی بارشوں سے 170 افراد ہلاک اور 6000 سے زائد مکانات تباہ ہوئے جب کہ تقریباً 3.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔چین کے صوبہ ہنان میں جولائی کے آغاز میں آنے والی صرف 5 دن کی بارش نے 12 اضلاع کو ڈبوبا دیا نقصا ن کا اندازہ 2 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا جبکہ 200,000 افراد بے گھر ہوئے ۔سن 2024 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں شدید بارشیں ہوئیں ۔ مارچ تا جون میں ہونے والی غیر متوقع بارشوں اور ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہوئیں اورمعاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 180 ارب روپے (تقریباً 630 ملین ڈالر) لگایا گیا ۔جرمنی اور بیلجیم میں دریائے رائن کے کنارے شدید بارشوں سے صنعتی علاقے متاثر ہوئے ۔ نقصان کا اندازہ 1.2 ارب یورو ہے۔

 

سن2025 کے جاری مون سون سیزن کے دوران پاکستان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، این ڈی ایم اے اور مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق ، اب تک 279 افراد جاں بحق اور 676 زخمی ہو چکے ہیں ۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 151 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جبکہ خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 20، سندھ میں 25، گلگت بلتستان میں 9، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 2 اموات رپورٹ ہوئی ہیں ۔شدید بارشوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ 1,500 سے زائد مکانات کو تباہ یا نقصان پہنچایا، 370 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے اور کئی اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پل منہدم ہو گئے ۔جولائی کے وسط تک پاکستان میں ہونے والی بارشیں گزشتہ برس 2024 کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئیں -اور یہ ساری تباہی اس لئے ہے  کہ ہم درختوں سے اپنے سماج سے محروم کر رہے ہیں۔

 

بدھ، 8 اکتوبر، 2025

جب جابر بن حیان نے سونا بنانا چاہا پارٹـ -1

 


 ·

جابر بن حیان (پیدائش: 721ء— وفات: 25 دسمبر 815ء) مسلم کثیر الجامع شخصیت، جغرافیہ نگار، ماہر طبیعیات، ماہر فلکیات اور منجم تھے تاریخ کے سب  سے پہلے کیمیادان اور عظیم مسلمان سائنس دان جابر بن حیان جنہوں نے سائنسی نظریات کو دینی عقائد کی طرح اپنایا-بابائے کیمیا: جابر بن حیان  جن کو زمانہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگر رشید کے نام سے جانتی ہے -جابر بن حیان  نے امام علیہ السلام کے زیر سایہ   بے شمار کتاہیں تصنیف کیں ، جن سے انسانیت آج بھی فیض یاب ہو رہی ہے۔ جابر بن حیّان 721ء میں ایران کے علاقے، طوس میں پیدا ہوئے۔ اُن کا آبائی پیشہ عطر فروشی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے مختلف تجربات کی مدد سے کئی نئے عطر بھی ایجاد کیے۔



بعدازاں، وہ مدینے سے کوفہ چلے گئے اور وہاں اُنہوں نے کیمیا گری کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے اُنہوں نے ایک باقاعدہ تجربہ گاہ بھی قائم کی، جس میں وہ ہمہ وقت مختلف کیمیائی دھاتوں پر تجربات میں مصروف رہتے۔جابر بن حیّان کے دَور میں کیمیا گری ”مہوسی“ (پارے، تانبے یا چاندی جیسی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنےکا علم) تک محدود تھی۔ گرچہ ابتدا میں انہوں نے بھی ان ہی تجربات پر توجّہ مرکوز رکھی، لیکن پھر کیمیا گری کو ایک باقاعدہ علم کے طور پر متعارف کروایا۔ جب جابر بن حیّان کی شُہرت بغداد پہنچی، تو اُنہیں وہاں طلب کر لیا گیا۔ وہاں انہیں سرکاری پزیرائی ملی، تو انہوں نے اس میدان میں ترقّی و استحکام حاصل کیا۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ ’’کیمیا میں سب سے ضروری شے تجربہ ہے۔‘



‘جابر بن حیّان نے اپنے تجربات سے ثابت کیا کہ تمام دھاتیں گندھک اور پارے سے مل کر بنی ہیں۔ نیز، وہ اپنے ہم عصر کیمیا دانوں کی طرح اس نظریے کے بھی حامی تھے کہ عام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ چُناں چہ اُنہوں نے جو تجربات کیے، اُنہیں قلم بند کرتے رہے اور تجربات میں حد درجہ دِل چسپی کی وجہ سے سونے کی طلب کی جگہ علم کیمیا کا حصول اُن کی زندگی کا مطمحِ نظر بن گیا۔ جابر بن حیّان کا سب سے بڑا کارنامہ تیزاب کی ایجاد ہے اور ان میں گندھک، شورے اور نوشادر کے تیزاب شامل ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’شورے کا تیزاب‘‘ ایجاد کیا۔ بعد ازاں، مختلف دھاتوں کے ساتھ نوشادر کو ملا کر تجربہ کیا، تو ایک ایسا تیزاب وجود میں آیا کہ جس نے سونے کو بھی پگھلا دیا۔


 

 جابر بن حیّان نے اس تیزاب کو ”ماء الملوک“ (بادشاہوں کا پانی) کا نام دیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سونا زیادہ تر بادشاہ ہی استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے لوہے پر بھی کئی تجربات کیے اور بتایا کہ لوہے کو کس طرح فولاد بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے لوہے کو زنگ سے بچانے کا طریقہ بھی متعارف کروایا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’موم جامہ‘‘ ایجاد کیا۔ یاد رہے، موم جامہ ایک ایسا کپڑا ہوتا ہے، جس پر پانی اثر نہیں کرتا۔ جابر بن حیّان نے چمڑے کو رنگنے کا طریقہ بھی دریافت کیا، پھرخضاب ایجاد کیا اور شیشے کو رنگین بنانے کے طریقے بھی متعارف کروائے۔جابر بن حیّان نے بہت سی کُتب لکھیں، لیکن اُن کی سب سے مشہور کتاب، ”کتاب الکیمیا“ ہے،


 

گلیشیرز کا غیر فطری انداز میں پگھلنا بڑے خطرے کی علامت ہے؟

 

  انسانی سرگرمیاں، تیزی سے کاربن کے آکسائیڈز کی ماحول میں شمولیت اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہماری زمین کے دردرجہ حرارت کو بڑھا رہا ہے۔ اس وجہ سے  ہمار ے پہاڑوں پر موجود  گلیشیرز کا پگھلاؤ غیر فطری انداز میں ہو رہا ہے۔جس کے سبب  ہماراماحولیاتی نظام اور اس کا توازن دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔یہ گلیشیئرز دنیا کے ہر شخص کے کے لیے اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ سب اس ماحولیاتی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پودوں اور جانوروں کی تمام کمیونیٹیز بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں ہیں۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ نے سطح سمندروں میں بلندی اور مٹی کے بردگی (ایروژن) کے عمل پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اس وجہ سے ساحل سمندروں کے نزدیک جنگلی حیات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔گلیشیئرز کی تباہی نے اور بھی کئی طرح کے مسائل کو جنم دیا ہے۔ انسانی آبادی کے لیے پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ ہائیڈرو الیکٹرک (بجلی) پاور کی پیداوار میں فرق پڑ رہا ہے۔ شعبہ زراعت کا دارومدار بروقت پانی کی فراہمی پر ہے۔یہ شعبہ بھی گلیشیئرز کی کم ہوتی تعداد سے پیداواری صلاحیت کھو رہا ہے۔

  

  طرف بے موسمی بارشیں بارشیں اور بے وقت پانی کی دستیابی بھی ایکو سسٹم کو متاثر کر رہا ہے کیوں کہ ان کے پگھلنے سے تازہ پانی کی بڑی مقدار، رسوب (سیڈیمینٹس)، نمکیات وغیرہ آبی ماحولیاتی نظام و آبی حیات کے مساکن کے توازن اور ساخت سے چھیڑ چھاڑکر رہے ہیں اور رہی سہی کسر انسانی سرگرمیوں سے پوری ہو رہی ہے اور ہمارے تمام ماحولیاتی نظام کی بقا کے سامنے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔اس طرح پانی کا بہاؤ متعدد مچھلیوں اور آبی حیات کو مکمل تحفظ نہیں دے پا رہا جو ان کی بقا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیوں کہ پانی کی پی ایچ (پی ایچ) برقرار رکھنے میں مشکل ہےپ کو اپنے پینے کے پانی کے پی ایچ کے بارے میں کیا معلوم ہونا چاہیے۔پانی پی ایچ کیا ہے؟پی ایچ کا مطلب ممکنہ ہائیڈروجن ہے اور اس کا استعمال مائع میں ہائیڈروجن کی مقدار کا تعین کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ ہر شے کی تیزابیت یا الکلائنٹی کا تعین کرتا ہے۔ پی ایچ پیمانہ 0 سے 14 تک ہے، صفر انتہائی تیزابی اور 14 انتہائی الکلین ہونے کے ساتھ۔

 

 پینے کے قابل قبول پانی کے لیے پی ایچ کی حد 6.5 سے 8.5 ہے۔ یہ رینج غیر جانبدار ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پانی نہ تو ضرورت سے زیادہ تیزابی ہے اور نہ ہی بہت زیادہ الکلین۔ اس حد سے نیچے یا اس سے زیادہ کچھ بھی ہضم کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔کم پی ایچ کے اثرا6.5 سے کم پی ایچ والا پانی تیزابی ہے۔ جب پانی فراہم کرنے والے جراثیم اور دیگر نجاستوں کو ختم کرنے کے لیے کلورین کا استعمال کرتے ہیں، تو تیزابیت والا پانی اچھی طرح سے جواب نہیں دیتا۔ اس کے بجائے، آپ کے گھر کو تیزابی پینے کا پانی فراہم کیا جائے گا جس میں ممکنہ طور پر خطرناک آلودگی موجود ہو۔ اس کے علاوہ، کم پی ایچ پانی پوری پراپرٹی میں پائپوں کو زنگ آلود کر سکتا ہے۔ پانی کی تیزابیت دھاتی پائپوں کے انحطاط کو تیز کرتی ہے، پانی کی فراہمی کو مزید آلودہ کرتی ہے۔ چونکہ تیزابی پانی تیزی سے دھاتوں سے جڑ جاتا ہے، اس لیے اسے استعمال کرنا خطرناک ہے۔ہائی پی ایچ کے اثراالکلائن پانی سے مراد اعلی پی ایچ لیول کے ساتھ پینے کا پانی ہے۔ پی ایچ کی حد 8 اور 10 کے درمیان ہے۔


 زیادہ پی ایچ والے پانی میں سخت ذائقہ یا ناگوار بو ہو سکتی ہے۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ الکلائن پانی بہت سے صحت کے فوائد فراہم کرتا ہے، تاہم ان دعوؤں کی پشت پناہی کرنے کے بہت کم ثبوت موجود ہیں۔ الکلائن پانی پینے کے نتیجے میں آپ کو متلی اور الٹی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ زیادہ پی ایچ پانی آپ کے گھر کی پلمبنگ پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ پانی کی فراہمی میں کیلشیم اور میگنیشیم زیادہ ہوتا ہے، جو جمع ہو سکتا ہے، پائپوں کو روک سکتا ہے اور سنکنرن کا سبب بن سکتا ہے۔آپ پانی کی پی ایچ لیول کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟مقصد 6.5 اور 8.5 کے درمیان پی ایچ کو برقرار رکھنا ہے۔ خوش قسمتی سے، آپ اپنے گھر میں پینے کے پانی کی سطح کو کنٹرول کر سکتے ہیں تاکہ وہ آپ کے گھر اور آپ کی صحت دونوں کے لیے محفوظ ہوں۔ نصب کرنے کے لیے سب سے مؤثر واٹر فلٹرنگ سسٹم ریورس اوسموس واٹر سسٹم ہیں۔ واٹر فلٹر کارٹریجز کو سال میں صرف ایک بار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ تمام زہریلے مادوں کو دور کرنے اور پورے سال کے لیے اپنے پینے کے پانی کے پی ایچ کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ریورس اوسموسس سسٹم پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کے گھر اور پیاروں کو سال بھر محفوظ رکھنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے

'کون ہیں حضرت ابو طالب؟

 

سید نا  عبدالمطلب ؑ کی وفات کے بعد آغوشِ ابوطالب ؑ (۵۴۰تا۶۱۹ء)میں،درّ یتیم کی پرورش کا آغاز ہوا۔ذاتِ قدرت نے نورِ رسالت ؐ کو ابو طالب ؑ کے گھرانے میں ضم کر دیا اور سیدنا ابوطالب ؑ نے آپ ؐ کی حفاظت و خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔اپنے بچوں سے بڑھ کر حضور کوپیار فرمایا۔ایک لمحہ بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔رات ہوئ تو اپنے پہلو میں سلایا۔کھانے کے وقت حضور ؐ سے پہلے کسی کو کھانا نہ کھانے دیا۔قلتِ خوراک ہوئی تو اپنی اولاد کو بھوکا رکھااور حضور کوسیرفرمایا۔ انہی باتوں کا تذکرہ فرما تے حضور ؐ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ قادرِ مطلق نے اسی آغوشِ ابوطالب ؑ کا قرآنِ مجید میں ذکر فرماتے اپنی آغوشِ رحمت سے تشبیہ دی ہے۔ یہ ایسی موزوں اور مامون پناہ تھی کہ جس کی بدولت دینِ متین کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ آپ کی ولادت باسعادت سے پہلے سید العرب کو آپ کی بشارت دی گئی ،’’ اَنَّ عَبْدُالْمُطَّلِبْ رَأیٰ فِیْ مَنَامِہٖ کَانَ قَاءِلاً یَقُوْلَ لَہُ: اِبْشِرْ یا شَیْبَۃِالْحَمْد بِعَظِیْمِ الْمَجْدِ بِاَکْرَمِ وُلْدٍ، مِفْتَاحُ الْرُّشْدِ،لَیْسَ لِلْاَرْضِ مِنْہُ مَنْ بِدُّ‘‘،حضرت عبدالمطلب ؑ نے بعالمِ رؤیاملاحظہ فرمایاکہ کہنے والے نے اُن سے کہا، جنابِ شَیْبَۃِالْحَمْد آپ کوعدیم النظیر، سرچشمہء رشد وہدایت مکرم فرزندکے عظیم الشان شرف و مجد کی بشارت ہو ۔



؎حضرت عبدالمُطّلب ؑ کے انتقالِ پرملال کے بعدنورِرسالتؐ کی حفاظت کے لیے سیّدناابو طالب ؑ کمربستہ ہوگئے اور ہر محاذ پر کفّارِ مکہ اور جہلائے عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا؛جب میں نے قوم میں چاہت کا فقدان ،بے مروتی دیکھی کہ انہوں نے تمام تعلقات اور رشتہ داریوں کوپس پشت ڈال دیا۔ ہمارے ساتھ کھلی دشمنی اور ایذارسانی کی اور ہم سے الگ ہو جانے والے دشمن کی بات مانی ۔نیز ہمارے خلاف تہمت زدہ لوگوں سے معاہدے کیے جو پسِ پشت غصے سے انگلیاں چباتے ہیں۔تو میں بذاتِ خود ایک لچکدار نیزہ اور شاہانِ سلف سے وراثت میں ملی ہوئی ایک چمک دار تلوار ۱؂لے کر ان کے مقابلے میں ڈٹ گیا اور میں نے اپنے جماعت اور اپنے بھائیوں کو بیت اللہ کے پاس بلوایا اور اس (بیت اللہ )کا سرخ دھاری دار غلاف تھام لیا۔اس کے عظیم الشان دروازے کے مقابل اس مقام پر جہاں برأت ثابت کرنے والا حلف اٹھاتا ہے ۔ سب کے ساتھ کھڑے ہو کر (اس کے غلاف کوتھام لیا۔)   مقاول ،مِقْوَلْ کی جمع ہے جویمن کے حمیری بادشاہوں کا لقب تھا۔


سیف بن ذی یزن حمیری نے دیگربیش قیمت تحائف کے ساتھ سفیدچمک دار تلوار حضرت عبدالمطلب ؑ کی خدمت میں پیش کی جووراثت میں حضرت ابوطالب ؑ کے پاس آئی جس کی جانب آپ نے یہاں اشارہ فرمایاہے ۔ابوطالب،جن کی رفاقت و نصرت اسلام کا محکم حصار بن گئی۔ابو طالب ؑ ،جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔ابوطالب ؑ ،جن کی قربانیوں سے محسنِ انسانیت کے بازو مضبوط ہوئے۔ابوطالب ؑ ،جن کے آہنی ارادوں اور کارگزاریوں سے جمعیتِ کفار و مشرکین لرزہ براندام رہی۔ابوطالب ؑ ،جن کی حکمتِ عملی سے کفار کی نیندیں حرام تھیں۔ابوطالب ؑ جو گلشنِ رسالت کی حفاظتی دیوار تھے۔ابوطالب ؑ ،جو حضور ؐ کے شفیق تایااور کفیل تھے۔ابوطالب ؑ ،جو مولائے کائنات علی مرتضیٰ ؑ شیر خدا ،جعفر طیّا ر ؑ اور عقیل ؑ کے والد تھے۔ابو طالب ؑ ،جو سید الشہدا امیر حمزہ ؑ ،شیر رسالت کے بھائی تھے۔ابو طالب ؑ ،جو حسنین کریمین ؑ ،سردارانِ جنت کے داداحضور تھے۔


ابوطالب ؑ ، جو سیدہ زینب ؑ و ام کلثوم ؑ کے دادا تھے۔ابوطالب ؑ ، جو شہدائے کربلا، شہدائے بغداد،شہدائے شیراز،اصفہان و ساوِہ اور شہدائے نیشاپورکے مورثِ اعلیٰ تھے۔ابو طالب ؑ ، جن کی اولاد نسبِ رسول ؐ ہے۔ ۔وہ فرزند جو حافظِ قرآن و حدیث،شب بیدار،تہجدگزار،عابد،زاہد،عالم،فقیہ،محدث اور مفسر قرآن و شارح اسلام تھے۔ جن کی آغوش کو ذاتِ قدرت نے اپنی پناہ قرار دیا وہ سوائے سیدنا ابو طالب ؑ کے اور کون ہے؟سیدنا ابو طالب ؑ نے آنحضرت ؐ کے لیے جو جانثاری فرمائی  ۔ فاقے اٹھائے،شہر بدر ہوئے،تین برس تک آب و دانہ بند رہا۔ ’’شِعْبِ اَبیْ طَالِبؑ ‘‘کے حصار کا تمغہ کس کے سینے پر سجے گا؟مقاطعہ قریش میں حصارِ رسالتؐ کے لیے شعبِ ابی طالب ؑ سے کون واقف نہیں     ا  ور اس دوران پیارے مصطفٰی ؐ کے بستر پر علی مرتضٰی ؑ شیرِخُدا اور جعفرطیار کو سلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے ابو طالب ؑ کے علاوہ اور کون ہیں۔

منگل، 7 اکتوبر، 2025

شاندار 'دلکش مناظر اور چٹانی غاروں کا ملک 'جار جیا

 

جارجیا ویسے تو ایک چھوٹا لیکن ناقابل یقین حد تک   دلکش ملک ہے جو شاندار پہاڑی مناظر سلفر حماموں ' چٹانی  غاروں کی   قدیم تاریخ اور دنیا کی مشہور مہمان نوازی   کے لئے مشہور  ہے۔ قفقاز کے علاقے میں واقع، جارجیا یورپی اور ایشیائی اثرات    کے زیر اثر ہے، جو ثقافتی گہرائی، مہم جوئی اور ناقابل فراموش تجربات کے خواہاں مسافروں کے لیے ایک پوشیدہ جوہر بنا دیتا ہے۔دیکھنے کے لیے بہترین شہرتبلیسی، جارجیا کا دل ہے، تاریخ اور جدید تخلیقی صلاحیتوں کو اپنے رنگین پرانے شہر، متنوع فن تعمیر اور جاندار ماحول کے ساتھ ملا دیتا ہے۔ Narikala قلعہ شاندار شہر کے نظارے پیش کرتا ہے، جبکہ Abanotubani سلفر حمام روایتی، آرام دہ تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ رستاویلی ایونیو ثقافتی مرکز ہے، جس میں تھیٹر، کیفے اور تاریخی مقامات ہیں۔ ایک جدید موڑ کے لیے، فیبریکا، ایک نئے سرے سے تیار کردہ سوویت کارخانے، ایک تخلیقی ہاٹ اسپاٹ کے طور پر کام کرتی ہے جو سلاخوں، آرٹ کی جگہوں، اور ساتھ کام کرنے والے علاقوں سے بھری ہوئی ہے۔


 

    خاص طور پر شہر تبلیسی اپنے منفرد دلکش  مناظر سے دل موہ لیتا ہے۔بچاہے تاریخی سڑکوں کو تلاش کرنا ہو یا اس کے متحرک فنون لطیفہ کا تجربہ کرنا ہو' جارجیا کی سب سے بڑی سمندری منزل، جدید فن تعمیر کو آرام دہ ساحلی ماحول کے ساتھ ملاتی ہے۔ بٹومی بلیوارڈ واٹر فرنٹ کے ساتھ پھیلا ہوا ہے، جو پارکوں اور مجسموں کے ذریعے خوبصورت سیر پیش کرتا ہے۔ الفابیٹ ٹاور، ایک حیرت انگیز فلک بوس عمارت، جارجیائی رسم الخط کی علامت ہے، جبکہ ترکی کی سرحد کے قریب واقع تاریخی گونیو قلعہ، باتومی کے قدیم ماضی کو ظاہر کرتا ہے۔ فطرت سے محبت کرنے والے بٹومی بوٹینیکل گارڈن کو دیکھ سکتے ہیں، جو دنیا کے متنوع پودوں کے مجموعوں میں سے ایک ہے۔ چاہے ساحل کے کنارے آرام ہو یا ثقافتی تلاش کے لیے، باتومی تفریح اور تاریخ کا ایک انوکھا امتزاج پیش کرتا ہےKutaisi-جارجیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک، Kutaisi تاریخ اور یونیسکو کے درج کردہ نشانات سے مالا مال ہے۔ گیلٹی خانقاہ، جو قرون وسطیٰ کا سیکھنے کا مرکز ہے،

 

 شاندار فریسکوز کی نمائش کرتی ہے، جبکہ باگراتی کیتھیڈرل جارجیا کے اتحاد کی علامت کے طور پر کھڑا ہے۔ فطرت سے محبت کرنے والے پرومیتھیس غار کو تلاش کر سکتے ہیں، جو سٹالیکٹائٹس اور جھیلوں کا ایک زیر زمین عجوبہ ہے، یا مارٹویلی وادی سے گزر سکتے ہیں، جہاں مرکت سبز پانی دلکش چٹان کی شکلوں سے تراشتے ہیں۔ Kutaisi تاریخ، ثقافت اور قدرتی خوبصورتی کا بہترین امتزاج ہے-جارجیا کے سابق دارالحکومت اور مذہبی مرکز کے طور پر، Mtskheta ملک کے کچھ مقدس ترین مقامات کا گھر ہے۔ جواری خانقاہ، جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے، مٹکوری اور آرگوی ندیوں کے سنگم کے دلکش نظارے پیش کرتی ہے۔ Svetitskhoveli-Cathedral، جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے، جارجیا کا سب سے اہم مذہبی نشان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ قریب ہی، سامتاورو خانقاہ گہری تاریخی اہمیت کے ساتھ پرامن اعتکاف فراہم کرتی ہے۔ Mtskheta کا بھرپور روحانی ورثہ جارجیا کی ثقافتی جڑوں کو تلاشکرنے والوں کے لیے اسے ایک لازمی دورہ بناتا ہے


مارٹویلی وادی-مارٹویلی وادی  قدرتی عجوبہ ہے، جہاں فیروزی پانی سرسبز، کائی سے ڈھکی چٹانوں سے گزرتا ہے۔ زائرین پُرسکون دریا کے ساتھ کشتی کے سفر کر سکتے ہیں، ماضی کی ڈرامائی چٹانوں کی شکلوں اور چھپے ہوئے گرٹووں کو گلائڈ کر سکتے ہیں۔ حیرت انگیز آبشاریں زمرد کے تالابوں میں جھڑتی ہیں، جو فطرت سے محبت کرنے والوں اور فوٹوگرافروں کے لیے بہترین جادوئی ماحول بناتی ہیں۔ یہ پرفتن وادی جارجیا کی اچھوتی خوبصورتی میں پرامن اعتکاف پیش کرتی ہے۔وردزیا  غار خانقاہ-جنوبی جارجیاکی چٹانوں میں کھدی ہوئی، وردزیا ایک شاندار چٹان سے بنائی گئی خانقاہ ہے جس میں کبھی راہب پناہ گزین رہتے تھے۔ اس قدیم کمپلیکس میں سیکڑوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے غاروں کی خصوصیات ہیں، جن میں رہائشی کوارٹر، چیپل اور سرنگیں شامل ہیں۔ خاص بات چرچ آف دی ڈورمیشن ہے، جو دلکش فریسکوز سے مزین ہے جو اس کی گہری تاریخی اور مذہبی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے۔ وردزیا کا دورہ جارجیا کے قرون وسطی کے ماضی اور آس پاس کے مناظر کے حیرت انگیز پینورامک نظاروں کا سفر پیش کرتا ہے



 

پیر، 6 اکتوبر، 2025

اداکارو صداکارمحمد علی کی دھنک رنگ داستان زندگی'part 1

 

 پاکستان کے مایہ ناز  اداکار محمد علی 19 اپریل، 1931ء میں بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ چار بھائی بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے بھائی ارشاد علی تھے۔ محمد علی ابھی تین سال کے تھے کہ ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ ان کے والد سید مرشد علی نے ان کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کی حالانکہ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی۔  محمد علی کے والد سید مرشد علی بہت بڑے دینی عالم تھے۔ محمد علی نے 14 سال تک اسکول کی شکل نہ دیکھی وہ صرف مدرسے میں اردو، عربی، فارسی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔1943 ء میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے ملتان آ گئے۔  محمد علی کے خاندان کے زیادہ تر لوگ حیدرآباد سندھ میں رہتے تھے اس لیے 1955 ء میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہو گئے۔ اور سٹی کالج حیدرآباد سے انٹر پاس کیا۔محمد علی کو پائلٹ بننے کا شوق تھا اور وہ پائلٹ بن کر ایئر فورس جوائن کرنا چاہتے تھے۔



 مگر معاشی حالات تنگ تھے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ایبٹ آباد جاکر ٹرینینگ حاصل کرسکیں۔انھیں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ ذریعہ معاش کے لیے انھوں نے کوئی کام کرنے کا سوچا۔ ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں بطور ڈراما آرٹسٹ کام کر رہے تھے ۔محمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انھیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انھیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔اس وقت ایک ڈرامے کی صدا کاری کے دس روپے ملا کر تے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کیے۔ ان کی آواز سن کر ریڈیو پاکستان کے جرنل ڈرائریکٹر ذوالفقار احمد بخاری المعروف زیڈ۔ اے بخاری صاحب نے انھیں کراچی بلا لیا۔


 سونے کو کندن بنانے میں زیڈ۔ اے بخاری مرحوم کا بہت ہاتھ تھا۔ انھوں نے محمد علی کو آواز کے اتار چڑھاؤ، مکالموں کی ادائیگی، جذبات کے اظہار کا انداز بیاں اور مائکرو فون کے استعمال کے تمام گرسکھا دیے۔ زیڈ۔ اے بخاری نے ان کی آواز کی وہ تراش خراش کی کہ صدا کاری میں کوئی ان کا مدمقابل نہ رہا۔1962ء میں فِلم ’ چراغ جلتا رہا‘ سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ محمد علی کی اداکاری اور مکالمے بولنے کے انداز نے دوسرے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو متوجہ کر لیا۔ اور جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگا۔ پہلی فلم کے بعد محمد علی نے ابتدائی پانچ فلموں میں بطور ولن کام کیا۔ محمد علی کو شہرت 1963 ء میں عید الاضحی پر ریلیز ہونے والی فلم "شرارت" سے ملی۔ انھوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن ان کی اپنی اہلیہ زیبا تھیں نیز ان فلموں میں زيادہ تر گانے جو ان پر فلمائے گئے ان کے گلوکار مہدی حسن تھے۔انھوں نے 300 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ "علی زیب" کی جوڑی اتنی کامیاب تھی کہ انھوں تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا۔



 فلم "تم ملے پیار ملا" کی شوٹنگ کے دوران ہی بروز جمعرات 29ستمبر، 1966 ء کی سہ پہر تین بجے اداکار آزاد کے گھر واقع ناظم آباد میں محمد علی نے زیبا سے نکاح کر لیا۔ علی زیب نے ایک انتہائی خوش گوار بھر پور ازدواجی زندگی گزاری، کئی یادگار فلموں میں اپنی یادگاری کے جوہر دکھائے، نہ صرف پاکستان، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی علی زیب ایک قابل احترام جوڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں دونوں نے حج بھی کیا اور کئی عمرے بھی ادا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شماردولت، عزت اور شہرت عطا کی، لیکن اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا۔اس پر بھی محمد علی اﷲ کے شکر گزار تھے اور اس محرومی کو اﷲ کی مصلحت قرار دیتے تھے۔ محمد علی نے زیبا کی بیٹی ثمینہ جو لالا سدھیر سے تھی۔ اسے اپنی سگی بیٹی کی طرح پالا اسے اپنا نام دیا۔ پندرہ سال تک وہ اپنا ایک خیراتی ادارہ چلاتے رہے۔ شادی کے بعد محمد علی اور زیبا نے "علی زیب" کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس قائم کیا اور "علی زیب" کے بینر تلے کافی اچھی اور کامیاب فلمیں بنائیں۔سماجی و سیاسی زندگی-محمد علی نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔


یہ تحریر  میں نے انٹرنیٹ سے لی ہے 

اداکارو صداکارمحمد علی کی دھنک رنگ داستان زندگی پارٹ' 2

 

 کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر میں اورمحمد  علی اپنے ایک شناسا کے ساتھ بیٹھے    گفتگو کر رہے تھے۔اتنے میں ان کے  چپڑاسی نے   آ کر کہا کہ  صاحب باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے۔ محمدعلی بھائی نے اسے بلوا لیا۔ کاروباری سا آدمی  نظر آرہا  تھا۔لباس  تو صاف ستھرا  تھا مگر چہرے پر پریشانی   جھلک رہی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی‘ سرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا تو علی بھائی نے کہا۔ جی فرمایئے’فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی! کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا۔ علی بھائی نے اس سے کہا:’آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہئے‘‘اس آدمی نے کہا ’’چوبرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب!‘‘


’’جی‘‘’لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے‘‘’’کیوں‘ کیسے جا رہی ہے؟‘‘ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا’ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا۔‘‘ وہ آدمی بولا ’’میں نے کچھ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے۔ اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے۔آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟’’جی جی وہی‘‘ وہ آدمی بولا ۔۔۔۔۔۔ ’’علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا‘ میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘’’فرمایئے میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘’’میرے پاس بیس ہزار ہیں‘ پچاس ہزار آپ مجھے ادھار دے دیں میں آپ کو قسطوں میں لوٹا دوں گا۔‘‘

:

’محمد علی اٹھ کر اندر چلے گئے۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں نوٹوں کا ایک بنڈل تھا۔ کرسی پر بیٹھ گئے اور اس آدمی سے کہنے لگے:’پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی۔‘‘وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ’’جی! یہ بہت پرانی بات ہے‘‘جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں‘‘ علی بھائی اچانک کہیں کھو گئے۔ سگریٹ کا دھواں چھوڑ کر کچھ تلاش کرتے رہے۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے:’آپ کے پاس تین روپے ٹوٹے ہوئے ہیں؟‘‘جی جی ،ہیں‘‘ اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور ان میں سے تین روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے۔ علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا۔یہ پچاس ہزار روپے ہیں‘ لے جایئے‘‘اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔


 اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا:’’علی بھائی مگر یہ تین روپے آپ نے کس لئے  ۔؟‘‘علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ’’یہ میں نے آپ سے اپنے تین دن کی مزدوری لی ہے۔‘‘’مزدوری …مجھ سے! میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔‘‘ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی۔‘‘علی بھائی نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا۔ علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی۔’’مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا تو میرے تین دن کی مزدوری رکھ لی تھی۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر وہ تین روپے جیب میں ڈال لئے۔آپ یہ پچاس ہزار لے جائیں‘ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا۔‘‘علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے۔   اور سائل شرمندہ قدموں سے  چلا گیا 

 یہ تحریر  میں نے انٹرنیٹ سے لی ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر