اتوار، 2 مارچ، 2025

سندھ پر انگریزسرکار کے قبضے کی کہانی

  


سیٹھ ناؤمل ہوت چند سندھ کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ اگر ان کا نام حذف کر دیا جائے تو سندھ کی تاریخ ادھوری رہ جائے۔حقیقت یہ ہے کہ  ایک مجبور  تالپور افسر خیر محمد نے سات فروری 1839 کو کراچی شہر کی چابیاں انگریزوں کے حوالے کردیں۔اور کلہوڑوں سے جبریہ اقتدار چھیننے کے صرف 60 سال بعد تالپور حاکمان بھی اقتدار سے محروم ہو گئے اور سندھ پر انگریز سرکار کا قبضہ ہو گیا -بتایا جاتا ہے  کہ ’سیٹھ ناؤمل نے برطانوی فوج کی مدد کے لیے 800 اونٹوں کی نقل و حمل اور دیگر ضروری سامان کا انتظام کیا۔‘لیکن اپنی تحریر کو آگے  بڑھانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس وقت کی سماجی تصویر کو پیش کروں جو کسی بھی اقلیت کو بغاوت پر آمادہ کر سکتی ہے  سندھ کی تاریخ لکھنے والے اپنی یاد داشتوں میں بتاتے ہیں  کہ شہر ہوں یا دیہات   ہندوؤں کو گھوڑے کی سواری منع ہے۔ اس لیے دولت مند تاجر بھی گدھے کی سواری کرتے نظر آتے ہیں. ہندوؤں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کسی مسلمان کی سواری گذرے تو اس کے راستے میں ادب سے ایک طرف کھڑے ہوجائیں۔"اور مسلمان گھڑ سوار کے گزرنے کا انتظار کریں (زرا سوچئیے یہ اس نبی ص کی امت تھی جس نے محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا تھا )

اس کے علاوہ   ہند ووں کو وہ نفیس کپڑا پہننے کی اجازت نہیں تھی جو مسلمان پہنتے تھے ان کے لئے گھٹیا کھدر ہی تھا -اس  امتیازی   سلوک سے ہندو بد دل ہو چکے تھے -  لاوہ پک رہا تھا  کہ نصر پور کے ایک ہندو مزدور کا بیٹا اپنے استاد کی سختیوں سے تنگ آکر ایک مسجد کے دروازے کے قریب جا کھڑا ہوا کچھ مسلمانوں کی اس پر نظر پڑی وہ اسے مسجد میں لے گئے اس پر غصے میں آکر ہندو دکاندار   وں نے اپنی دکانیں بند کریں اور مسلمانوں کو سودا سلف دینے سے انکار کر دیا۔ مسلمانوں نے انتقامی طور پر لیاری میں موجود پانی کے کنوؤں میں گندگی ڈال دی۔ ان کنوؤں سے ہندو پینے کا پانی بھرتے تھےدوسرے دن نورل شاہ نامی ایک سید نے ہمارے محلے سے گذرتے ہوئے گالیاں دیں۔ میرا چھوٹا بھائی پرسرام جو اس محلے کے بیرونی دروازے پر کھڑا تھا اس نے نورل شاہ کو نرمی سے سمجھایا کہ اس طرح کی بات مناسب نہیں، دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور جوش میں آکر نورل شاہ نے کہا کہ پر سرام نے میرے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ہے۔ مسلمانوں کا ایک ہجوم اکھٹا ہوگیا۔


بعد میں نورل شاہ نے قرآن گلے میں ڈال کر سندھ کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور لوگوں کو بھڑکایا۔ اس دوران کسی طریقے سے میرا بھائی پرسرام جیسلمیر (موجودہ انڈیا) منتقل ہوگیا۔ معاملہ اس وقت سندھ کے حاکم میر مراد علی تالپور تک پہنچا، مسلمانوں کا دباؤ تھا، میر صاحب نے میرے والد ہوت چند کو فرمان بھیجا کہ سیٹھ پر سرام کو حیدرآباد روانہ کیا جائے۔پرسرام کراچی میں نہیں تھا۔ میر صاحب نے دوسرا فرمان بھیجا کہ ہوت چند خود حاضر ہو۔ میرے والد حیدرآباد پہنچے میر صاحب نے جھگڑے کے حل کے لیے معاملہ نصر پور کے قاضی کی عدالت میں بھیجا (نصر پور حیدرآباد سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر ہے). قاضی نے معاملہ سننے سے انکار کر دیا مسلمانوں نے اس کے بعد اچانک حملہ کرکے سیٹھ ہوت چند کو اغوا کرلیا. وہ دس سے بارہ دن مسلمانوں کی تحویل میں رہے جنہوں نے انہیں زبر دستی مسلمان کرنے کا ارادہ کیا (مراد یہ ہے کہ ان کی ختنہ کرنے کی کوشش کی) لیکن چوں کہ ان کی عمر 50 سال تھی اور ان کی ختنہ کرنا قرآن کے بھی خلاف تھا اس کے علاوہ مسلمانوں کا یہ خوف بھی تھا کہ اس کے نتائج خطرناک بھی ہوسکتے ہیں اس لیے وہ اپنے اس ارادے سے باز رہے ۔ بعد ازاں میر مراد علی کو پچھتاوا ہوا اور میرے والد کی بازیابی کا حکم جاری کیا۔ جس کے بعد میرے والد کو رہائی ملی '


تقسیم سے قبل سندھ کی ہندو برادری بہت زیادہ امیر تھی اور سندھ کے وڈیرے اور جاگیردار تو چوٹی بات حکمران خاندان تک ان کا مقروض ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہیں وہ سماجی رتبہ حاصل نہ تھا جو مسلمانوں کو حاصل ہوتا تھا.جیمز برنز کے مطابق سندھ کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور کیا ہے اس پر بے شمار لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ یہاں تین ہزار سال قبل مسیح کے موئن جودڑو کے آثار   ہیں  -بات ہورہی تھی سیٹھ ناؤ مل ہوت چند کی، تاریخ بتاتی ہے کہ ناؤ مل وہ شخص تھا جس نے سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے لیے ان کی مکمل مدد کی۔اس نے ایسا کیوں کیا؟مالی فائدے کے لیے؟ انگریز سرکار کی جانب سے کوئی خطاب حاصل کرنے کے لیے؟ یا اس کے والد سیٹھ ہوت چند کے ساتھ میروں کی حکومت میں جو کچھ ہوا تھا اس کا بدلہ لینے کے لیے؟ان تمام باتوں پر آگے چل کر بات کریں گے لیکن ایک حقیقت ہمیں ذہن میں رکھنی ہوگی کہ میروں کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب سندھ میں انگریزوں کا راج قائم ہوا تو ایک جدید سندھ نے جنم لیا۔ شہری علاقوں میں روڈ راستے بنے، بجلی آئی، اسکول اسپتال بنے، ریلوے کے نظام نے جنم لیا، جدید نہری نظام اور بہت کچھ نیا متعارف ہوا.بعض ناقدین کا خیال ہے کہ نہری نظام انگریز نے ریونیو حاصل کرنے کے لیے بنایا، ریلوے افغانستان تک فوجی ساز و سامان پہنچانے کے لیے اور اسکول و اسپتال براؤن صاحبوں (جو گورے صاحبوں کے حاشیہ بردار تھے) کے لیے۔انگریزوں کی دیکھا دیکھی ہندوؤں اور پارسیوں نے بھی ایسے بے شمار فلاحی ادارے قائم کیے جس کے بعد مسلمانوں کو بھی ایسے ادارے قائم کرنے کا خیال آیا اور انہوں نے فلاحی اور تعلیمی ادارے قائم بھی کیے.قصہ طویل ہوگیا، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف یعنی سیٹھ ناؤمل  ہوت چند کون تھے اور کیوں غدار وطن ٹھہرے؟ 


محمد عثمان دموہی اپنی کتاب 'کراچی تاریخ کے آئینے میں'، دوسری اشاعت مطبوعہ 2013میں ہوت چند کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛اس شخص کی دولت جاگیر اور مرتبہ حاصل کرنے کی ہوس کی وجہ سے سندھ کے وطن پرست مسلمانوں اور ہندوؤں کو نہ صرف آزادی وطن سے محروم ہونا پڑا بلکہ غلامی کی صعوبتوں کو بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس شخص نے انگریزوں کو سندھ پر قابض کرانے میں میران سندھ کے خلاف مکر و فریب اور دغا بازی کا دلیرانہ مظاہرہ کیا۔"ناؤمل کے خاندانی پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں؛وہ 1729 میں کراچی شہر کی بنیاد رکھنے والے مشہور ہندو تاجر بھوجومل کا پڑپوتا تھا جو 1804 میں کراچی کے قدیم محلے کھارادر میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ہوت چند بھی ایک مشہور تاجر تھا۔ اس کا کاروبار نہ صرف سندھ بلکہ ہندوستان، افغانستان، ایران اور مسقط تک پھیلا ہوا تھا۔ سندھ کے جو ہندو تاجر میران سندھ کو قرض فراہم کرتے تھے ان میں اس کا نام بھی شامل تھا۔ اس کی حیدرآباد دکن  کے دربار تک رسائی تھی"۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بااثر ہونے کے باوجود ناؤمل کے خاندان کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ ناؤمل نے سندھ پر انگریزوں کا قبضہ کروایا؟سیٹھ ناؤمل اپنی یاداشتوں تیسری اشاعت مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ 1996 (یہ یاداشتیں 1930سے 1845) کے واقعات پر مشتمل ہیں.سندھی میں لکھی گئی یہ یاداشتیں بعد میں انگریزی میں ترجمہ کروائی گئیں

ہفتہ، 1 مارچ، 2025

صوبہ سندھ میں آوارہ کتے اور بے یارو مددگار شہری

 - موقر روز نامے انٹر نیٹ پر رقم طراز ہیں -صوبہ سندھ میں آوارہ کتے اور بے یارو مددگار شہری-  رواں برس کتے کے کاٹنے کے سندھ میں کتنے کیس رجسٹر ہوئے کتے  کے کاٹنے کے سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ  ڈویژن میں پیش آئے  -  ڈان نیوز کے مطابق صوبہ سندھ میں رواں سال ستمبر تک کتوں کے کاٹنے سے 12 شہری انتقال کرچکے ہیں جبکہ 2 لاکھ 26 ہزار سے زائد افراد کو کتوں نے کاٹ کر زخمی کیا ہے۔انچارج ڈاگ بائیٹ کلینک سول ہسپتال ڈاکٹر رومانہ فرحت کے مطابق کتوں کے کاٹنے کے یومیہ 120 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، بچے اور بزرگ افراد کم مزاحمت کے باعث زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں 27 ہزار 333، فروری میں 27 ہزار 473، مارچ میں 29 ہزار 426 کتوں کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔رواں سال اپریل میں 25 ہزار 514، مئی میں 25 ہزار 311، جون میں 22 ہزار 305، جولائی میں 22 ہزار 558 کیسز، اگست میں 22 ہزار 575 اور ستمبر میں 24 ہزار سے زائد کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئےکاش  پیپلز پارٹی میں کوئ  ادارہ ایسا بھی ہو جو عوام کی جانوں کا اس طرح بیدردی سے زیاں ہونے سے روک سکے -بخت آور نے حکم تو لگا دیا کہ کتوں کا ہلاک نا کیا جائے لیکن وہ جانوں کے اس زیاں پر تو بلکل خاموش  ہیں۔



رومانہ فرحت کے مطابق کتوں کے کاٹنے پر کم از کم 15 منٹ کے لیے ڈیٹرجنٹ، صابن سے متاثرہ جگہ کو دھونا چاہیے اور اینٹی ریبیز ویکسین اور حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی مکمل کرنا چاہیے۔ کے پہلے پانچ ماہ میں 69 ہزار سے زیادہ کتے کے کاٹنے کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں سندھ میں ساحلی ضلعے ٹھٹہ کے شہر ساکرو میں 14 سالہ کاشف سہراب کو جب کتے نے کاٹا تو ان کے والدین یہ سوچ کر ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے کہ کتا پالتو ہے باؤلا یا آوارہ نہیں۔ لیکن چند ماہ بعد کاشف کی طبیعت بگڑنے لگی اور بروقت ویکسین نہ لگنے کے باعث وہ مر گیا۔ کاشف سہراب کے پڑوسی محمد اسلم نے بی بی سی کو ٹیلیفون پر بتایا کہ تقریباً نو ماہ قبل کاشف کو کتے نے کاٹا اور چند روز قبل جب اس کی حالت بگڑی تو والدین اسے مقامی مولوی کے پاس دم کروانے لے گئے۔ مولوی صاحب کے مشورے پر کاشف کو مقامی ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں ویکیسن دستیاب نہیں تھی۔ بعد ازاں کاشف کے لواحقین اسے جناح ہپستال کراچی لے گئے جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ جناح ہسپتال کے شعبۂ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ کاشف کو دو روز قبل تقریباً صبح چھ بجے ہسپتال لایا گیا تھا لیکن ایک، ڈیڑھ گھنٹے میں ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ 



’جناح ہسپتال میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب ہے لیکن سندھ میں بالعموم اس کی قلت ہے۔ اس ویکسین کے ساتھ متاثرہ فرد کو ربیز امینوگبلن بھی لگنا چاہیے جو ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس صورت حال میں خدشہ یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو ربیز ہو جائے گی۔‘ سندھ کے سب سے بڑے سرکاری ہپستال جناح پوسٹ گریجوئیٹ میں رواں برس کتے کے کاٹنے کے تقریباً چھ ہزار کیسز آ چکے ہیں جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی۔   ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق اسی طرح کیسز آتے رہے تو ان کے ہسپتال میں بھی یہ ویکیسن ختم ہو جائے گی۔ محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے پانچ ماہ میں 69 ہزار سے زیادہ کتے کے کاٹے کے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ اور سب سے کم کراچی ڈویژن میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں کتے کاٹے کے کیسز کی تعداد 22 ہزار 822 ہے، حیدرآباد ڈویژن میں لگ بھگ 21 ہزار، شہید بینظیر آباد ڈویژن میں 12 ہزار سے زیادہ، میر پور خاص ڈویژن میں چھ ہزار 774 اور کراچی ڈویژن میں 320 واقعات پیش آئے ہیں۔


 انڈیا نے ویکسین فراہم کرنے سے معذرت کیوں کی؟ پاکستان میں کتے کاٹے کی ویکیسن پڑوسی ممالک انڈیا اور چین سے درآمد کی جاتی ہے۔ تاہم اب انڈیا نے مزید ویکیسن فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت کی صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد پچھلے دنوں بتا چکی ہیں کہ انڈیا اور چین نے اینٹی ریبیز ویکسین فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یاسمین راشد کے مطابق انڈیا پاکستان کو آگاہ کر چکا ہے کہ ویکسین کی مقامی سطح پر طلب بڑھنے کی وجہ سے انڈیا اس ویکیسن کو مزید برآمد نہیں کر سکتا۔ عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا میں کتے کے کاٹے کے 36 فیصد کیسز انڈیا میں ہوتے ہیں۔  انڈیا پاکستان کو آگاہ کر چکا ہے کہ ویکسین کی مقامی سطح پر طلب بڑھنے کی وجہ سے انڈیا اس ویکیسن کو مزید برآمد نہیں کر سکتا ہے انڈیا اینٹی ریبیز ویکسین پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، ماینمار، ترکی اور افریقی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ جناح ہپستال کے شعبہ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ چین کی ویکسین پر پاکستان کو اعتماد نہیں کیونکہ ویکسین جب تک ایف ڈی اے یعنی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظور شدہ اور عالمی ادارۂ صحت سے تصدیق شدہ نہ ہو تو تب تک وہ اس ویکسین استعمال کرنے سے کتراتے ہیں۔


 سندھ کے ڈائریکٹر جنرل صحت ڈاکٹر مقصود کی جانب سے تمام ڈویژن کے کمشنروں کو خط تحریر کیا گیا ہے جس میں آوارہ کتوں کے معاملے سے نمٹنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ چند سال قبل جب بلدیاتی اداروں نے آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا تو ایک غیر سرکاری تنظیم نے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس تنطیم کا کہنا تھا کہ کتوں کو زہر دیکر مارنے کی بجائے اس کی نس بندی کی جائے، جس کے بعد کراچی میں انڈس ہسپتال میں اس حوالے سے ایک منصوبے پر عملدر آمد جاری ہے۔ ملک میں آوارہ کتوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے جو عوام کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ آوارہ کتے صرف انسانوں کے لیے ہی خوفناک ثابت نہیں ہو رہے بلکہ یہ چند چھوٹے اور معصوم جانوروں پر بھی حملہ آور ہو کر ان کو بآسانی نگل لتیے ہیں، جبکہ انسان ان جانوروں کو زہریلے کتوں کے خوف سے بچا بھی نہیں پاتے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آوارہ کتوں کو ختم کیا جائے اگر بخت آور بھٹو اجازت دیں تب۔

کارل مارکس کوصحافت پر پابند یاں قطعئ پسند نہیں تھیں

 مئی 1818 کو پرشیا (موجودہ جرمنی) کے شہر ٹریئر  میں   اقامت پذیر ایک  وکیل  کے گھر  میں ایک   بچہ پیدا ہوا۔جس کا نام کارل رکھا گیااس کی پیدائش سے ایک سال قبل اسکے والد کو یہودییت چھوڑنی پڑی کیونکہ 1815 میں پرشیا کی حکومت نے یہودیوں پر سرکاری نوکری کرنے پر پابندی لگا دی تھی اور ایک سال بعد وکالت کرنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ وکیل صاحب نے وکالت کے پیشے کی خاطر عیسائیت اختیار کر لی۔کارل نے سترہ سال کی عمر تک اپنے ہی شہر سے تعلیم حاصل کی لیکن اعلی تعلیم کے لیے اسے پہلے بون اور پھر برلن کی درس گاہوں میں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ برلن میں وہ ہیگل نامی فلسفی سے بہت متاثر ہوا اور اس کے نظریات پر ہونے والی بحث میں شریک رہا۔ ہیگل کا ایک بنیادی نقطہ نگاہ یہ تھا کہ انسانی تاریخ تصادم پر قائم ہے، ایک نظریہ دوسرے سے ٹکرا کر تیسرے نظریے کو جنم دیتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔برلن میں ہی کارل نے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ تئیس (23) برس کی عمر میں کارل نے اپنی بچپن کی محبت، ’جینی‘ سے شادی کی۔ شادی کے وقت جینی کی عمر ستائیس سال تھی۔


 کارل نے 1842 میں کولون شہر کا رخ کیا اور وہاں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک سال بعد ہی اس کی ذہانت اور علمیت کے بل بوتے پر اسے اخبار کا مدیر مقرر کر دیا گیا-کارل نے آزادی صحافت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی  کیونکہ اس کے لئے پابند ماحول میں لکھنا   آسان نہیں تھا  اس لئے جب اس نے لکھنے کے لئے قلم کی آزادی  مانگی تو اس پر حکومت وقت کی جانب سے سختی آئ  لیکن  اس کی جرات کو اس دور کے درمیانے طبقے نے سراہا۔ اس نے بادشاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور درمیانے طبقے کی خواہشات کو الفاظ کی شکل میں ڈھالا۔اس دور کی آمریت کو کولون کے درمیانے اور کاروباری طبقے کی آواز میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی اور کچھ ہی مہینوں بعد روس کے زار کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کے جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 


1843ء میں پیرس شہر ہر طرح کے انقلابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کارل نے کولون کے ناکام تجربے کے بعد پیرس سے ایک ماہنامہ شروع کرنے کا ارادہ کیا - اس شمارے میں بھی دو مضامین تو کارل کے ہی تھے۔  ۔ان مضامین کے نتیجے میں اس ماہنامے پر جرمنی میں پابندی لگ گئی،  ۔ان حالات میں کارل نے ہمت نہیں ہاری اور ایک جرمن زبان کے اخبار کے لیے لکھنا شروع کیا۔ ۔فرانس کے بعد کارل، جینی اور کارل کے قریبی دوست اینگلز نے بیلجیم کا رخ کیا۔ وہاں جانے سے پہلے کارل اور اینگلز نے برطانیہ کا ایک دورہ کیا اور مانچیسٹر میں محنت کش طبقے کے حالات نے کارل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔بدحالی اس نہج پر تھی کہ مائیں کام پر جاتے وقت اپنے شیر خوار بچوں کو چرس پلاتیں تاکہ ان کی واپسی تک بچے سوئے رہیں، بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی تاکہ خاندان کا بوجھ کم ہو سکے، سات سال کی عمر تک پہنچتے ہی لڑکے کام پر لگ جاتے۔ ایک سو بیس افراد کے استعمال کے لیے ایک غسل خانہ موجود تھا۔ جوتے پہننا ایک عیاشی سمجھی جاتی تھی۔


بیلجیم میں قیام کے دوران کارل نے اینگلز کے ساتھ مل کر کتابیں لکھنے میں وقت صرف کیا۔ اس کے علاوہ اس نے یورپ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی ایک تنظیم قائم کی اور لندن میں قائم ایک ملتی جلتی تنظیم کا بھی حصہ بنا۔1848 میں اس نے ایک کتابچہ تحریر کیا جس میں اس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو اکٹھے ہو کر جدوجہد کرنے کا پیغام دیا۔ اس کتابچے کا نام “Communist Manifesto” تھا اور پہلی دفعہ وہ جرمن زبان میں لندن سے شائع ہوا۔بعدازاں کارل کو اس ملک سے بھی نکال دیا گیا اور اس نے باقی عمر انگلستان کے شہر لندن میں گزاری۔ کارل کو آج دنیا کارل مارکس کے نام سے جانتی ہے۔ انیسویں صدی کے بعد سے دنیا کی تاریخ پر جتنا اثر کارل مارکس کے نظریات نے ڈالا، اتنا کسی اور انسان کو نصیب نہیں ہوا۔ 


  سنہ    1848ءکا   دور چل رہا تھا    جب  پیرس میں انقلاب آیا جس کے باعث بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور جمہوریت کے قیام کے لیے کوشش کی گئی۔ جب انقلابی کوششیں اور لڑائی طول پکڑ گئی تو پیرس کے درمیانے طبقے نے انقلابیوں کی حمایت ترک کر دی اور انقلاب ناکامی کا شکار ہوا۔ اس واقعے کے بعد سے کارل کو درمیانے طبقے کی سوچ (جسے فرانسیسی زبان میں بورژوا سوچ کہا جاتا ہے) سے سخت نفرت ہو گئی۔ اس نے اس سوچ کو آمریت سے بھی بدتر قرار دیا اور اس کے مطابق محنت کش کو آزادی کے لیے صرف حکومتی نہیں بلکہ بورژوا سوچ کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔کارل مارکس کو اس کی وفات کے بعد جتنی پذیرائی حاصل ہوئی، اس کی زندگی کے دوران اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوئی۔ اس کے نظریات میں اپنی کچھ آمیزش کرنے بعد روس میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے زار کی آمریت کا خاتمہ کیا اور مزدور طبقے کا علم بلند کیا۔مارکس نے کہا تھا کہ ایک خوشحال معاشرے میں جمہوری دور کے بعد سوشلزم کا دور ہو گا ا   جس میں طبقاتی فرق مٹ جائے گا -اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک وہ سرمایہ داری کے خلاف حالت جنگ میں  زندہ رہا اور اپنے ادھورے خوابوں سمیت مر گیا 

جمعہ، 28 فروری، 2025

سندھ مدرستہ الاسلام-ایک مائہ نازاکیڈمی

  پاکستان کے اس ہونہار فرزند   کا تعلق اخوند خاندان سے تھا اور ان کے آباؤ اجداد ترکی ہجرت کر کے حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے انسان دوست کارناموں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں "خان بہادر" کا خطاب دیا۔ وہ 1934 سے 1938 تک مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ اور سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ وہیں 20 اگست 1895 کو انتقال کر گئے۔ حسن علی آفندی" 1830 میں ہالہ حیدرآباد، سندھ میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میاں محمد احسان اخوند ہے۔  اپنے والد کی وفات کے بعد، اس کی پرورش اس کے بھائی امید علی نے کی، جس نے اپنے بچپن میں قرآن پڑھا، اور پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ کچھ دنوں بعد وہ ایک چھوٹے سے شہر میں بیس روپے ماہانہ پر سیکرٹری کے طور پر ملازم ہو گئے۔ملازمت کے بعد اس نے انگریزی زبان سیکھنی شروع کی اور بہت جلد اس پر عبور حاصل کر لیا۔ کچھ دنوں بعد اسے ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں مڈل کلرک کا عہدہ مل گیا۔ دور کراچی آئے اور ضلعی عدالت کے سربراہ اور مترجم مقرر ہوئے۔ عدالت سے تعلق کی وجہ سے وہاں تمام وکلاء دوست بن گئے۔   


 وہاں رہتے ہوئے انہوں نے پرائیویٹ طور پر قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھ کر انگریز جج نے انہیں قانون کا امتحان اور سرٹیفکیٹ دیے بغیر قانون کی مشق کرنے کی اجازت دی۔کراچی آنے کے بعد وہ اپنے پرانے شہر حیدرآباد آ گئے اور قانون کی پریکٹس شروع کی۔ اس وقت سندھ میں زیادہ تر وکلاء ہندو تھے۔ چنانچہ حسن علی آفندی نے جیسے ہی وکالت شروع کی، مسلمانوں نے اپنے مقدمات وہاں لے جانے شروع کر دیے۔ محنت اور ذہانت کی وجہ سے چند ہی دنوں میں شہریت چاروں طرف پھیل گئی۔ حسن علی آفندی کو ملک و قوم کی بھلائی کے وکیل کی حیثیت سے سنیں۔ وہ تمام مسلمانوں سے حقیقی ہمدردی اور محبت رکھتے ہیں۔ "ترکی" اور "روس" کے درمیان "جنگ" کے وقت اس نے ترکی کی مالی امداد کے لیے چندہ جمع کیا۔ اس نے حد تک مالی تعاون کیا۔ ترک حکومت نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں "آفندی" خطوط اور تمغے دئیے۔ "افندی" کو ترکی زبان میں "سردار" نہیں کہا جاتا۔ سندھ مدرسۃ الاسلام حسن علی آفندی کا ’’یونیورسٹی آف سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ کا قیام ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس زمانے میں سندھ کے مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ اسکول اور کالج زیادہ تر ہندو مذہب کی تعلیم دیتے ہیں۔


 حسن علی آفندی نے سندھ کے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ایک انجمن بنائی۔ ایک خیال یہ ہے کہ مسلمان اب تک جدید انگریزی تعلیم حاصل نہیں کریں گے، نہ صرف وہاں اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند ہو جائیں گے، بلکہ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کے لئیے انہوں  نے   نوابوں، وڈیروں اورجاگیرداروں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس دلایا۔ 1885ء کے آخر میں کراچی میں ’’سندھ مدرسۃالا سلام‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس مدرسے کے لیے دور دراز سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل بنایا گیا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سندھ کے پہلے مسلمان گورنر، الحاج سر غلام حسن، ہدایت اللہ پنجم کے طالب علم تھے۔ بعد میں، ایس سی ایسوسی ایشن نے سندھ مسلم کالج اور سندھ لاء کالج قائم کیا۔ ان اداروں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم   رہے  ہیں۔ حسن علی آفندی   کی محنت اور اچھے کام کو دیکھا تو برطانوی حکومت نے انہیں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا۔ 1885ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے وقت پہلے انتظامی بورڈ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے جناب علی محمد اپنے والد حسن علی آفندی کی جانشین ہوئے۔


 اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ مدرسہ کے انتظامات ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں، اس لیے انہوں نے ادارہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حسن علی آفندی برطانوی ہندوستان کے ایک مشہور مسلم دانشور تھے۔ وہ سندھ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے رہے اور ترقی کرتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ پڑھائی کے دوران انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی  مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان  کو سندھی مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ ان کی کوشش میں جسٹس امیر علی تعلیمی نظام دیکھنے کے لیے ان کی دعوت پر کلکتہ گئے۔ آخر کار 1885 میں حسن علی آفندی نے کراچی سندھ مدرسہ اسلام کی بنیاد رکھی۔ اج حسن علی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے سے نکلنے والے ایس اے لاء کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی۔ حسن علی آفندی کی فلاحی کامیابیوں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں یہاں خان بہادر کا خطاب دیا۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے رکن تھے۔ وہ 1934 سے 1938 تک سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ یہاں انہوں نے قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں کو مسلم لیگ سے متعارف کرانے کا کام کیا

جمعرات، 27 فروری، 2025

گوردھن داس قدیم مارکیٹ کھارادر کراچی 'تاریخ کے آئینے میں

 


رائے بھادر شیورتن 


4,994 / 5,000

حسن علی آفندی 14 اگست 1830 کو سندھ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق اخوند خاندان سے تھا اور ان کے آباؤ اجداد ترکی ہجرت کر کے حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے انسان دوست کارناموں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں "خان بہادر" کا خطاب دیا۔ وہ 1934 سے 1938 تک مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ اور سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ وہیں 20 اگست 1895 کو انتقال کر گئے۔ حسن علی آفندی" 1830 میں ہالہ حیدرآباد، سندھ میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میاں محمد احسان اخوند ہے۔ اس نے سنا کہ اس کا باپ مر گیا ہے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد، اس کی پرورش اس کے بھائی امید علی نے کی، جس نے اپنے بچپن میں قرآن پڑھا، اور پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ کچھ دنوں بعد وہ ایک چھوٹے سے شہر میں بیس روپے ماہانہ پر سیکرٹری کے طور پر ملازم ہو گئے۔

ملازمت کے بعد اس نے انگریزی زبان سیکھنی شروع کی اور بہت جلد اس پر عبور حاصل کر لیا۔ کچھ دنوں بعد اسے ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں مڈل کلرک کا عہدہ مل گیا۔ دور کراچی آئے اور ضلعی عدالت کے سربراہ اور مترجم مقرر ہوئے۔ عدالت سے تعلق کی وجہ سے وہاں تمام وکلاء دوست بن گئے۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے پرائیویٹ طور پر قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھ کر انگریز جج نے انہیں قانون کا امتحان اور سرٹیفکیٹ دیے بغیر قانون کی مشق کرنے کی اجازت دی۔

کراچی آنے کے بعد وہ اپنے پرانے شہر حیدرآباد آ گئے اور قانون کی پریکٹس شروع کی۔ اس وقت سندھ میں زیادہ تر وکلاء ہندو تھے۔ چنانچہ حسن علی آفندی نے جیسے ہی وکالت شروع کی، مسلمانوں نے اپنے مقدمات وہاں لے جانے شروع کر دیے۔ محنت اور ذہانت کی وجہ سے چند ہی دنوں میں شہریت چاروں طرف پھیل گئی۔ حسن علی آفندی کو ملک و قوم کی بھلائی کے وکیل کی حیثیت سے سنیں۔ وہ تمام مسلمانوں سے حقیقی ہمدردی اور محبت رکھتے ہیں۔ "ترکی" اور "روس" کے درمیان "جنگ" کے وقت اس نے ترکی کی مالی امداد کے لیے چندہ جمع کیا۔ اس نے حد تک مالی تعاون کیا۔ ترک حکومت نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں "آفندی" خطوط اور تمغے دئیے۔ "افندی" کو ترکی زبان میں "سردار" نہیں کہا جاتا۔ سندھ مدرسۃ الاسلام حسن علی آفندی کا ’’یونیورسٹی آف سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ کا قیام ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس زمانے میں سندھ کے مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ اسکول اور کالج زیادہ تر ہندو مذہب کی تعلیم دیتے ہیں۔ حسن علی آفندی نے سندھ کے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ایک انجمن بنائی۔ ایک خیال یہ ہے کہ مسلمان اب تک جدید انگریزی تعلیم حاصل نہیں کریں گے، نہ صرف وہاں اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند ہو جائیں گے، بلکہ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس نے وڈی نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس دلایا۔ 1885ء کے آخر میں کراچی میں ’’سندھ مدِستا اسلام‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس مدرسے کے لیے دور دراز سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل بنایا گیا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سندھ کے پہلے مسلمان گورنر، الحاج سر غلام حسن، ہدایت اللہ پنجم کے طالب علم تھے۔ بعد میں، ایس سی ایسوسی ایشن نے سندھ مسلم کالج اور سندھ لاء کالج قائم کیا۔ ان اداروں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم نہیں ہیں۔ حسن علی آفندی نے وہاں کی محنت اور اچھے کام کو دیکھا تو برطانوی حکومت نے انہیں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا۔ 1885ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے وقت پہلے انتظامی بورڈ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے جناب علی محمد اپنے والد حسن علی آفندی کی جانشین ہوئے۔ اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ مدرسہ کے انتظامات ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں، اس لیے انہوں نے ادارہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حسن علی آفندی برطانوی ہندوستان کے ایک مشہور مسلم دانشور تھے۔ وہ سندھ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے رہے اور ترقی کرتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ پڑھائی کے دوران انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی ہی عمر کے حسن علی آفندی کو سندھی مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ ان کی کوشش میں جسٹس امیر علی تعلیمی نظام دیکھنے کے لیے ان کی دعوت پر کلکتہ گئے۔ آخر کار 1885 میں حسن علی آفندی نے کراچی سندھ مدرسہ اسلام کی بنیاد رکھی۔ اج حسن علی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے سے نکلنے والے ایس اے لاء کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی۔ حسن علی آفندی کی فلاحی کامیابیوں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں یہاں خان بہادر کا خطاب دیا۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے رکن تھے۔ وہ 1934 سے 1938 تک سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ یہاں انہوں نے قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں کو مسلم لیگ سے متعارف کرانے کا کام کیا۔ اس کے ذریعے اس نے مصر کا دورہ کیا۔موھاٹا خاندان کا سندھ میں کاروبار

       

ویسے تو مارواڑی ھندو اور مسلمان سندھ کے بڑے شہروں میں آباد ہیں جن کا تعلق مارواڑ کے اضلاع جیسلمیر باھڑمیر اور بیکانیر سے تھا، لیکن ان میں سے مشہور موھاٹا خاندان اور ڈالمیا خاندان مشہور کاروباری خاندان گزرے ہیں، آج موھاٹا خاندان کا سندھ میں کاروبار اور ان کی سیاسی و سماجی خدمات بیان کرتے ہیں،کراچی شہر کے ایک بڑے تاجر ھندو مارواڑی رائے بھادر شورتن چندرا رتن گوردھن داس موہٹا گزرے ہیں، آپ کے دادا موتی لال کا تعلق بیکانیر راجستان کے ایک گاؤں سے تھا، موتی لال بیکانیر کو خیرآباد کہہ کر حیدرآباد دکھن "تلنگانہ" میں جا بسے اور ایک دکان پر کلرک کا کام شروع کیا، موتی لال کے بچے جب جوان ہوئے تو ان کے چار بیٹے حیدرآباد سے کلکتہ چلے گئے، جہاں انہوں اعلیٰ کوالٹی کا امپورٹڈ کپڑے کا کام شروع کیا،جب کراچی بندر گاہ بننے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تو ان چار بھائیوںمیں سے گوردھن داس 1883ع میں کلکتہ سے کراچی چلے آئے، 


گوردھن داس نے کراچی میں کپڑے کا کاروبارِ شروع کیا اور کاروبار بڑھا تو ٹاور کے قریب گوردھن داس کلاتھ مارکیٹ کی بنیاد رکھی،گوردھن داس کے سب سے  بڑے بیٹے رام گوپال ایک بڑے پڑھے لکھے  اسکالر تھے، ان  کو کاروبار سے کچھ زیادہ لگاو نہیں تھا  اس لئے انہوں نے کاروبار سے  زیادہ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا، کراچی میں ہندو جم خانے کا بنیاد   رکھنے سے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا  ، جم خانہ کا آفیشل نام آپ کے نام رام گوپال گوردھن داس موھاٹا ھندو جم خانہ سے منسوب کیا گیا۔گوردھن داس کا دوسرا بیٹا سیٹھ شو رتن چندرا رتن موہاٹا صنعتکار بن گئے،شیورتن موہٹا پر اوپر والا مہربان ہوا  دیکھتے دیکھتے شو رتن موہاٹا کراچی کے سب سے بڑے مالدار افراد میں شامل ھو گئے اور شہر کے معروف سماجی شخصیت ابھر کر سامنے آئے،شو رتن کا کاروبارِ جہاز رانی جہاز سازی اور اس کے علاؤہ شوگر مل، اسٹیل مل اور  صابن کے کارخانے تھے، ان کے کراچی میں کئی گھر اور پلاٹ تھے،


حبیب بینک پلازہ کا  پلاٹ گوردھن داس نے ہندو سیٹھ ھری داس رامداس سے 11 جون 1917 میں خریدا تھا جو ان کی ملکیت میں اضافہ بنا، "موہٹا ننگر ريلوي اسٹيشن اور شگر ملز" شو رتن نے بڑے کاروباری ہونے کے ناتے ان کے تعلقات گورنر بمبئی سے تھے، شیو رتن نے گورنر کو خوبصورت جہاز تحفے میں پیش کیا اور اس کے تعلقات رانا آف عمرکوٹ کے ساتھ جودھ پور کے راجا سے بھی اچھے مراسم تھے۔شو رتن نے شگرمل لگانے کا جب ارادہ کیا تو پہلے انہوں نے شاہ پور چاکر کے قریب پریتم آباد میں تین ھزار ایکڑ زمین کا رقبہ خریدا جس میں گنے کی کاشت اور شوگرمل لگائی، شورتن موھاٹا شگر مل برصغیر کی دوسری اور بڑی شگر مل کا بنیاد بن گئی، جب شگر مل اپنا کام شروع کیا تو مال برداری کیلئے شورتن شگرمل سے کھڈڑو ریلوی اسٹیشن تک سامان بیل گاڑیوں کے ذریعے لدا جاتا تھا، اس مسئلے کے حل کیلئے شو رتن نے راجا آف جودھپور اور رانا آف عمرکوٹ سے رابطہ کیا اور انگریز دور میں 20 نومبر 1939ع میں میٹر گیج ٹریک کھڈڑو اسٹشن سے نوابشاھ کیلئے بچھائی گئی، میرپور خاص سے کھڈڑو پہلے موجود تھی بعد میں اسی روٹ پر شاہ پور چاکر سے آگے پریتم آباد کے قریب موھاٹا نگر ریلوے اسٹیشن کا بنیاد پڑا جو اب سرور ننگر کہلاتا ہے، اس کے قریب گوٹھ نما شہر سرور آباد نوابشاھ سانگھڑ روڈ پر بھی واقع ہے،


سرور نام مخدوم سرور نوح سے منسوب کیے گئے ہیں کیوں کے ان کی زمینداری بھی اسی علاقے  میں ہے۔پریتم آباد یا شاہ پور چاکر اور کھڈڑو اس وقت نوابشاھ ضلع کا حصہ تھے، جب سانگھڑ ضلع کا وجود 1951ع آیا تو اب یے شہر ضلع سانگھڑ کا حصہ بن گئے ہیں۔ 27 سال پہلے  میرپور خاص اور کھڈڑو کے درمیان جودھپور ریلوی سروس کے نام سے ریل چلتی تھی جو جودھ پور کے راجا امید سنگھ کی ملکیت تھی، مارواڑ راجستان سے میرپور خاص ریل چلانے کا مقصد راجستان میں قحط سالی کے دوران پانی، گندم، سبزیاں، مرچیں اور مال مویشی کا چارہ یہاں سے لیکر جایا جانا تھا اور بعد میں مسافر ٹرین کا اضافہ ہوا، پاکستان بننے کے بعد یہ ریل پاکستان ریلویز کو فروخت کر دی گئی، یوں 129 کلومیٹر 17 اسٹیشن والی عرف عام راجا ریل 2005ع میں بندکر دی گئی، "موھٹا پیلس اور گوردھن داس ھندو جیم خانہ" دونوں عمارات کی تاریخ ہمارے شہر کراچی جو سندھ کا راجدھانی ہے میں واقع کلفٹن میں موجود ہیں، ان میں ایک محل نما عمارت موھاٹا پیلس کی ہے، موھاٹا پیلس بنانے والے تاریخ کے جبر کے نتیجے میں جب جلاوطن ہوا تو اس پیلس کو بھی سکون نصیب نہیں ہوا،


 راء بھادر شورتن چندرا رتن گوردھن داس موھاٹا کی بیوی بیمار رہنے لگی تو ڈاکٹروں اور حکیموں نے مشورہ دیا کہ اس کو صبح شام سمندر کی ہوائوں کی ضرورت ہے، سمندر کی لہریں اس وقت  حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمہ اللہ کے مزار مقدس  اور روپ چند بیلا رام پارک "باغ ابن قاسم" کے ساتھ رتنیشور مھادیو مندر کی دیواروں سے ٹکراتی تھیں۔ ہوائیں کبھی بھی قید نہیں کی جا سکتی، اس لیے سیٹھ شیو رتن نے اپنی بیوی کے لیے یہ محل 1927ع میں تعمیر کروایا جو موھاٹا پیلس کے نام سے اب بھی مشہور ہے۔ موھاٹا پیلس کا نقشہ اس دور کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ آغا احمد حسین نے بنایا تھا، آغا احمد حسین ھندو جم خانہ، کراچی چیمبرز آف کامرس، انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن اور دوسرے عمارتوں کے آرکیٹیکٹ رہے ہیں، اس لیے ان عمارات میں آپ کو یکسانیت نظر آئے گی۔ آغااحمد حسین کے ہندو جم خانہ اور موھاٹا پیلس فن تعمیر کے لازوال شاہکار ہیں.شورتن موھاٹا اپنی سخاوت اور سماجی کاموں کے حوالے سے مشہور تھا، آپ کراچی میونسپلٹی کا ممبر رہنے کے ساتھ بہت سی کمیٹیوں اور فلاحی اداروں کے ممبر رہے۔شیورتن موہٹا کراچی چیمبر آف کامرس، انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن، دیپ چند ٹی اوجھا سینٹوریم کےبانی ممبر تھے، موھٹا خاندان کا سندھ کے سیاست اور خصوصی طور پر کراچی کے ترقی میں بڑا ہاتھ رہا-لیکن حکومت پاکستان نے ان سے ان کا یہ پسندیدہ محل بذریعہ جبر لے لیا تو وہ بد دل ہو کر پاکستان چھوڑ گئے 

ڈالر منگواو ورنہ مار کھاو اور جیل جاؤ پارٹ2


 


’کام سیکھو ورنہ ہمارا خرچہ واپس دو‘دوسری جانب احمد علی بتاتے ہیں کہ کمبوڈیا میں ’جاب‘ پر پہنچ کر اُنھیں اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب انھیں آٹھ موبائل فون اور آٹھ سم کارڈ دیے گئے۔ ’مجھے نمبروں کی فہرست دے کر کہا گیا کہ اِن نمبرز پر کال کر کے کسی بھی طریقے سے ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاوئنٹ کی تفصیلات اور پاسورڈز حاصل کرنے ہیں۔‘میں نے آئندہ چند روز میں کئی کالیں کیں مگر کوئی بھی شکار نہ پھنسا تو وہ مجھ پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ ایسے نہیں چلے گا۔‘وہاں موجود افراد نے احمد کو متنبہ کیا کہ وہ جلد ہی یہ کام سیکھ لیں ورنہ اُن پر جو ’اخراجات‘ ہوئے ہیں وہ انھیں واپس کرنے ہوں گے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے چند روز مزید کوشش کی مگر دھوکا دہی کا کام نہیں سیکھ سکے جس کے بعد انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کا جھانسہ: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں؟

آواز کی نقل کے ذریعے آن لائن فراڈ کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟دھوکا دینے پر کمیشن ملتا تھا‘انھوں نے بتایا کہ وہاں لائے گئے کئی افراد دھوکا دہی کے اس کام میں ماہر ہو چکے تھے۔ ’اُن کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ اُن میں مختلف ممالک کے لوگ تھے۔‘ان کے مطابق ’کال سینٹر‘ میں کام کرنے والوں کو کوئی باقاعدہ تنخواہ وغیرہ نہیں ملتی تھی بلکہ کمیشن ملتا تھا۔ ’ایک ہزار ڈالر پر دس فیصد کمیشن ملتا تھا۔ جو اُن کو کمائی کر دیتا وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے اور اس کو کھانا پینا بھی بہتر دیا جاتا تھا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’وہاں روزانہ بریفنگ ہوتی تھی اور بتایا جاتا کہ اب وہ کس ملک کے لوگوں کو کال کریں گے اور کس بینک یا کاروباری ادارے کے نمائندے بنیں گے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ عموماً کم پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان کی جانب سے کیے گئے فراڈ کا شکار بن جاتے تھے جبکہ کئی لوگ انعامات کے لالچ میں بھی پھنس جاتے تھے۔


علی کے مطابق عموما کم پڑھے لکھے اور  بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان فراڈز کا شکار ہو جاتے,اختر علی کے مطابق عموما کم پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان فراڈز کا شکار ہو جاتے تھےیہ سب کام کیسے ہوتا تھا؟اختر علی کے مطابق کال سینٹر سے کی جانے والی کالیں خودکار نظام کے تحت ریکارڈ ہو رہی ہوتی تھیں۔’جیسے ہے کوئی شخص فریب میں آ کر اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاؤئنٹ یا دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاؤنٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا۔‘نصیب ساجد کا کہنا ہے وہاں کام کرنے والے کچھ لوگ تجربے کی بنیاد پر اتنے ماہر ہوگئے تھے کہ وہ شکار کی آواز سُن کر بتا دیتے تھے کہ یہ شخص پھنسے گا یا نہیں۔جس کے بارے میں انھیں اندازہ ہو جاتا کہ یہ نہیں پھنسے گا تو اس پر وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔‘رہائی کیسے ممکن ہوئی؟اختر علی بتاتے ہیں کہ کال سینٹر والوں نے انھیں بعدازاں بتایا کہ انھیں ایجنٹ سے دو ہزار ڈالرز میں خریدا تھا۔


ایک روز انھوں نے بتایا کہ اب تک تم پر پانچ ہزار ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، لہذا یہ رقم واپس کرو۔ وہ مجھے اور دیگر کچھ اور افراد کو جو کام نہیں سیکھ پا رہے تھے، سونے نہیں دیتے تھے اور تشدد بھی کرتے تھے۔‘علی نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں فون دیتے اور گھر والوں کو کال ملانے کا کہتے۔ ’جب ہم فون کرتے تو وہ ہمیں کرنٹ لگاتے اور گھر والوں سے کہتے کہ جلدی پیسے بھجوائیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والے پریشان ہو کر وہ پیسے بھجواتے مگر وہاں موجود افراد یہ کہہ کر مزید رقم کا مطالبہ کرتے کہ ہمارے کھانے پینے اور دیگر چیزوں پر ہونے والے اخراجات بڑھ چکے ہیں۔نصیب ساجد کہتے ہیں کہ ناکام ہونے پر انھیں بھی تشدد کا بنایا گیا۔اس ہی دوران وہاں پہلے سے موجود ایک لڑکا اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ واپس پاکستان چلا گیا تھا۔ اُن کی کینیڈا میں موجود ایک پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر رضوان خالد چوہدری نے مدد کی تھی۔ اس نے جاتے جاتے پروفیسر کا رابطہ نمبر ہمیں دے دیا تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ نمبر اپنے گھر والوں کو دیا اور انھوں نے پروفسیر 
ڈاکٹر رضوان کے ذریعے کمبوڈیا کی پولیس سے رابطہ قائم کیا۔ساجد کے مطابق پہلے انھیں گرفتار کر کے جیل میں رکھا گیا اور پھر پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔جیسے ہے کوئی شخص اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاوئنٹ اور دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاونٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا۔


لڑکیاں بھی  مجرموں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں‘پروفیسر ڈاکٹر رضوان یونیورسٹی آف واٹر لو میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔اُن کا کمبوڈیا میں انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر سائبر فراڈ کے مراکز میں پھنسے والے افراد سے رابطہ اپنے ایک شاگرد کی توسط سے ہوا جس کا بڑا بھائی اس گروپ کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ کچھ سال قبل اپنے شاگرد کے بھائی کو چھڑانے کے لیے انھیں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک پچاس کے قریب لوگوں کو اس گروہ کے چنگل سے چھڑا چکے ہیں۔ ان کے مطابق زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے مگر اس میں انڈین اور دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی سینکڑوں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جن میں کچھ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہ گروہ ملازمت اور کام کے بہانے لوگوں کو بلا  لیتے ہیں۔ ’جو سائبر فراڈ کر سکتا ہے وہ اسے رکھ لیتے ہیں  جو یہ فراڈ کام نہیں کر سکتا ہے اسے کھانا بھی بہت کم ملتا ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے 

بدھ، 26 فروری، 2025

ڈالر منگواؤ ورنہ مار کھاؤاور جیل جاؤ-پارٹ 1

 

ابھی تک تو پاکستانی قوم سمندر کی ڈنکیوں کو رو  رہی تھی کہ اچانک کمبوڈیا اسکینڈل سامنے آ گیا -کیسے ارمان سجا کر پاکستانی نوجوان دیار غیر جاتے ہیں اور وہاں جا کر معلو ہوتا ہے کہ وہ اغوا ہو چکے -بی بی سی کی رپورٹ حرف بہ حرف پڑھئے’جب میں پاکستان میں تھا تو بتایا گیا تھا کہ کمبوڈیا میں ڈیٹا انٹری کا کام ہے۔ مگر جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کال سینٹر کا کام ہے اور کچھ ہی دنوں میں یہ بتایا گیا کہ لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔ اگر کام سیکھ لیا اور ماہانہ ایک ہزار ڈالر کما کر دو گے تو اس پر دس فیصد کمیشن ملے گا۔ جب میں یہ کام نہیں سیکھ سکا تو انھوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہم نے تمھیں ایجنٹ سے خریدا ہے، وہ پیسے واپس کرو۔‘یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے رہائشی نصیب ساجد کا جنھیں گذشتہ سال کے آواخر میں جنوب مشرقی ایشیا کے ملک کمبوڈیا سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔لیکن ساجد واحد پاکستانی نہیں جو اس طرح کی دھوکہ دہی کا شکار ہو کر کمبوڈیا میں پھنس گئے تھے۔اتوار (23 فروری) کے روز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں کمبوڈیا کے ایک سرحدی قصبے میں سائبر فراڈ کے ایک مرکز سے 215 غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا ہے


خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بازیاب ہونے والوں میں 50 پاکستانی، 48 انڈین اور 109 تھائی شہری شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائبر فراڈ کے یہ مراکز کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔قوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرائم پیشہ گروہ دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو سمگل کر کے انھیں جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں قائم فراڈ کے مراکز اور غیر قانونی آن لائن آپریشنز میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان غیر قانونی آپریشنز میں ہر سال اربوں ڈالر کا سائبر فراڈ ہوتا ہے اور لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کیا جاتا ہے۔فیصل آباد کے رہائشی احمد علی کی کہانی بھی ساجد سے ملتی جلتی ہے جنھیں بیرون ملک نوکری کا جھانسہ دے کر کمبوڈیا پہنچایا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ کمبوڈیا پہنچے تو انھیں کہا گیا کہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے لوگوں کے بینک اکاؤئنٹس اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات حاصل کرنی ہیں۔ اُن کے مطابق اس سینٹر میں موجود بہت سے لوگ ایسا کرنے میں یعنی 


لوگوں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے مگر اُن سے یہ کام نہیں ہو سکا۔احمد علی بھی گذشتہ سال کے آخر میں کمبوڈیا سے ڈی پورٹ ہو کر واپس پہنچے ہیں۔ احمد علی اور نصیب ساجد کی واپسی کے لیے اُن کے اہلخانہ کو بہت کوششیں کرنی پڑی تھیں۔’ایجنٹ نے کمبوڈیا بھجوانے کے تین لاکھ روپے لیے‘اتوار کے روز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے کمبوڈیا کے ایک سرحدی قصبے میں سائبر فراڈ کے مراکز کے خلاف ایک مشترکہ آپریشن میں 215 غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا ہے۔، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے مشترکہ کارروائی میں 215 غیر ملکیوں کو سائبر فراڈ سینٹر سے بازیاب کروایا گیا ہے جس میں 50 پاکستانی ہیں نصیب ساجد بتاتے ہیں کہ اُن سے پہلے بھی ان کے علاقے کے کافی افراد ایک ایجنٹ کے ذریعے کمبوڈیا جا چکے تھے۔انھوں نے بتایا کہ مذکورہ ایجنٹ سرکاری سکول میں استاد ہیں اور لوگ اُن پر کافی اعتماد بھی کرتے ہیں۔’مجھے پاکستان میں روزگار نہیں مل رہا تھا اور جب سُنا کہ کمبوڈیا میں کال سینٹر اور ڈیٹا انٹری کی ملازمتیں دستیاب ہیں تو میں نے اُن سے رابطہ کیا اور تین لاکھ روپے میں ہمارا معاملہ طے ہوا۔

 انھوں نے مجھے کمبوڈیا کا ویزہ لگوا کر دینا تھا جبکہ ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست مجھے خود کرنا تھا۔‘اُن کے مطابق وہ ستمبر کے مہینے میں کمبوڈیا پہنچے۔ ’کمبوڈیا میں مجھ سے یہ کہ کر پاسپورٹ لے لیا گیا کہ اس پر ایک ماہ کا سیاحتی ویزہ لگا ہوا ہے جسے مستقل ویزہ میں تبدیل کروانا ہے۔‘ساجد نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں دارالحکومت نوم پنہ کے نواحی علاقے لے گئے جہاں بڑی بڑی عمارتیں موجود تھیں۔اُن کے مطابق جس عمارت کے کمرے میں انھیں رکھا گیا وہاں پہلے سے چار پاکستانی موجود تھے جبکہ عمارت کے دیگر کمروں میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس علاوہ وہاں انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان، تھائی لینڈ، میانمار اور دیگر ممالک کے شہری بھی موجود تھے۔اُن کا کہنا ہے کہ وہاں پہنچ کر انھوں نے محسوس کیا کہ ایک خوف کا عالم تھا۔

ساجد بتاتے ہیں کہ ’پہلے سے موجود پاکستانی کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ میرے کمرے میں موجود پاکستانیوں نے بھی بات نہیں کی، مجھے صرف یہی کہا گیا کہ کچھ دن یہاں رہو تو سب خود ہی معلوم ہو جائے گا۔‘’کام سیکھو ورنہ ہمارا خرچہ دو‘دوسری جانب احمد علی بتاتے ہیں کہ کمبوڈیا میں ’جاب‘ پر پہنچ کر اُنھیں اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب انھیں آٹھ موبائل فون اور آٹھ سم کارڈ دیے گئے۔ ’مجھے نمبروں کی فہرست دے کر کہا گیا کہ اِن نمبرز پر کال کر کے کسی بھی طریقے سے ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاوئنٹ کی تفصیلات اور پاسورڈز حاصل کرنے ہیں۔‘’میں نے آئندہ چند روز میں کئی کالیں کیں مگر کوئی بھی شکار نہ پھنسا تو وہ مجھ پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ ایسے نہیں چلے گا۔‘وہاں موجود افراد نے احمد کو متنبہ کیا کہ وہ جلد ہی یہ کام سیکھ لیں ورنہ اُن پر جو ’اخراجات‘ ہوئے ہیں وہ انھیں واپس کرنے ہوں گے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر