اتوار، 9 فروری، 2025

صدر قذافی کی باڈی گارڈ خواتین کے فوجی دستوں کا احوال

    لیبیا کے صدر معمر قذافی صحرا نشین خانہ بدوش قبیلے میں  ایک بدو چرواہے کے بیٹے  تھے1942ء میں ان کی پیدائش ایک خیمے میں ہوئی-یہی بچہ جب بڑا ہوا تو اس نے ایک بغاوت کے  زریعہ  لیبیا کی صدارت کا عہدہ حاصل کیا اور اپنی حفاظت کے لئے لیبین لڑکیوں کا خصوصی دستہ تیار کیا - یہ لڑکیا ں  جان و دل سے معمر قذافی کے ساتھ دیکھی جاتی تھیں- اس دستے کی خصوصیت  یہ تھی کہ وہ مردوں کے لباس میں  ہتھیار بند رہتی تھیں -ان  پانچ سو خوبصورت نوجوان ترک خواتین کا انتخاب   صدر قذافی خود کرتے تھے، ایک جیسا   لباس پہنے، کمانوں اور تیروں سے لیس، دائیں ہاتھ پر کھڑی  ہوتی  تھیں اور انھیں ترک محافظ کہا جاتا تھا۔ ان کے بائیں طرف پانچ سو حبشی خواتین بھی ایک سا لباس پہنے، آتشیں اسلحہ سے لیس تھیں۔‘معمر قذافی کے ساتھ ہمیشہ ہی 30 خواتین کا ایک حفاظتی دستہ موجود رہتا تھا۔


 سن انیس سو اٹھانوے میں ان پر ہونے والے ایک حملے کے دوران ایک خاتون باڈی گارڈ ہلاک جب کہ دو زخمی ہو گئی تھیں۔معمر قذافی کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نیل پالش، آنکھوں پر مسکارا لگانا، میک اپ اور بالوں کا بہترین اسٹائل بنانا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق معمر قذافی کے حفاظتی دستے میں شمولیت کے لیے خواتین کا کنوارا ہونا بھی ضروری تھا۔ معمر قذافی کا بذات خود کہنا تھا کہ ان کی حفاظت پر معمور خواتین کو سخت فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی تاکہ وہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ بنیں۔ا ن کو کشتی  لڑنے سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی -صدر قذافی نے اس فیمیل پلاٹون کے جو قاعدے اور ضوابط مقرر کئے تھے وہ اس طرح تھے ۔ گوریلا یونیفارم کے ساتھ ساتھ لپ اسٹک، اونچی ہیل والی جوتی اور نیل پالش بھی ان کے لیے لازمی تھی۔ حفاطتی دستے میں شمولیت سے پہلے خواتین کو یہ حلف بھی اٹھانا پڑتا تھا کہ وہ مرتے دم تک قذافی کے ساتھ رہیں گی۔


العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والی معمر قذافی بیرونی دوروں پر ان خواتین کو ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔  اپنے دورہ اٹلی کے دوران بدوؤں کے خیمے کے ساتھ ساتھ وہ درجنوں خواتین باڈی گارڈز کو بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس دورے کے دوران قذافی کی طرف سے سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کو کھانے کی ایک دعوت پر بھی مدعو کیا گیا تھا، جس میں قذافی نے انہیں اسلام قبول کرنے کا کہا تھا۔معمر قذافی کا بذات خود کہنا تھا کہ ان کی حفاظت پر معمور خواتین کو سخت فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی-  تاکہ وہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ بنیں۔ا ن کو کشتی  لڑنے سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی -


سن  2009 میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس کے دوران قذافی کا اصرار تھا کہ ان کو گراؤنڈ فلور پر کمرہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 35 قدموں سے زیادہ  چڑھائی طے نہیں کر سکتے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ قذافی اپنے اسٹاف میں سب سے زیادہ انحصار یوکرائن کی چار نرسوں پر کرتےتھے۔۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق معمر قذافی کے حفاظتی دستے میں شمولیت کے لیے خواتین کا کنوارا ہونا بھی ضروری تھا۔ -العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والی ان سینکڑوں خواتین محافظوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ اب کہاں ہیں؟۔پھر بالآخر جس موت سے وہ بھاگ رہے تھے اور محافظ لڑکیوں کے حصار میں رہتے تھے-اپنی زندگی  کی آخری مزاحمت کی گھڑیوں میں وہ     فرار ہوتے ہوئے  دیکھے گئے ان کی  گاڑیوں کے قافلے میں کرنل قذافی کی فوج کے سربراہ ابو بکر یونس اور قذافی کے بیٹے معتصم بھی شامل تھے جب نیٹو افواج میں شامل فرانسیسی طیارے نے گاڑیوں کے اس قافلے پر حملہ کی۔نیٹو کے اس حملے میں اسلحے سے لیس 15 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ لیکن کرنل قذافی اور ان کے کچھ ساتھی اس حملے میں بچ گئے اور انھوں نے پانی کی نکاسی کے دو بڑے پائپوں میں پناہ لے لی مگر جنگجو جلد ہی قریب پہنچ گئے۔سالم بکیر نامی ایک جنگجو نے بعد میں رائٹرز کو بتایا کہ ’پہلے ہم نے اینٹی ائر کرافٹ گنوں سے کرنل قذافی اور ان کے ساتھیوں کی طرف فائرنگ کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر ہم پیدل ان کی طرف گئے۔ جب ہم اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں کرنل قذافی اور ان کے ساتھی چھپے ہوئے تھے تو اچانک ہی قذافی کا ایک جنگجو اپنی بندوق ہوا میں لہراتے ہوئے باہر نکل آیا اور جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا تو اس نے مجھ پر فائرنگ شروع کر دی۔


‘سالم بکیر نے کہا کہ ’اس جنگجو نے چیخ کر کہا کہ میرے آقا یہاں ہیں، میرے آقا یہاں ہیں اور وہ زخمی ہیں۔‘ سالم بکیر کا کہنا تھا کہ ہم نے کرنل قذافی کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت انھوں نے کہا یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ایک اور شخص نے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عینی شاہد ہے کہا کہ اس نے دیکھا کہ نائن ایم ایم گن سے کرنل قذافی کے پیٹ پر گولی ماری گئی۔محمود جبرائیل کے مطابق کرنل قذافی کو زندہ پکڑا گیا تھا اور انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی لیکن جب انھیں ایک گاڑی میں ڈال کر وہاں سے لے جایا جا رہا تھا تو وہ گاڑی دونوں جانب سے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئی اور ایک گولی کرنل قذافی کے سر میں لگی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ اور ان کی محافظین لڑکیوں کا نہیں معلوم کیا ہوا-باقی رہے نام اللہ کا -اللہ کے راستے پر چلنے والوں کو کسی مرد یا عورت کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایسے بندے کی حفاظت اللہ کے فرشتے کرتے ہیں 


ٹرانسپلانٹ - امتحاں کیسے کیسے پارٹ -2

 

تمام سرجن اور ڈاکٹرز18 گھنٹے تک مسلسل کام کرتے رہے‘راولپنڈی میں ایک ہسپتال کے منتظم منور حسین بتاتے ہیں کہ جب لواحقین نے حتمی فیصلہ کیا کہ جسمانی اعضا عطیہ کرنے ہیں تو اس کے بعد ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلا کام عزیر کو دوسرے ہسپتال سے محفوظ انداز میں اپنے ہسپتال منتقل کرنا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا کام یہ دیکھنا تھا کہ کون سے اعضا عطیہ ہو سکتے ہیں اس کے لیے اسلام آباد کی ایک ہسپتال سے ہنگامی بنیادوں پر مدد حاصل کی گئی، جب پتا چل گیا کہ عزیر کا جگر، آنکھیں اور گردے محفوظ انداز میں حاصل کر کے ٹرانسپلانٹ ہو سکتے ہیں تو اس کے بعد ماہرین کنسلٹنٹ کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے آپریشن کی تیاری کریں۔منور حسین کہتے ہیں کہ گردے کے ٹرانسپلانٹ کے ماہرین ہمارے ہسپتال میں موجود تھے اور یہ ٹرانسلانٹ ہمارے پاس ہی ہونا تھا۔ میجر جنرل ریٹائرڈ ارشد محمود اور ڈاکٹر نوید سرور نے اپنے کام کا آغاز کردیا تھا۔ آنکھوں کے لیےآنکھوں کے ایک ہسپتال سے ماہرین کو بلایا گیا جبکہ جگر اور لب لبے کے لیے متعلقہ شعبے کے ماہرین کو بلایا گیا تھا۔ڈاکٹر فیصل ڈار جگر ٹرانسپلانٹ کے ماہر سرجن ہیں۔

 عزیر بن یاسین کے جگر کے عطیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور لب لبا کا ٹرانسپلانٹ کرنے کے آپریشن کی نگرانی انھوں نے کی تھی۔ڈاکٹر فیصل ڈار بتاتے ہیں کہ ’ہمیں دوپہر کے وقت راولپنڈی میں واقع ایک ہسپتال کی جانب سے اطلاع ملی کہ عطیہ کیا گیا جگر اور لبلبا حاصل کر لیں۔ سب سے پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ اس کے لیے مستحق مریضوں کوتلاش کیا گیا۔ جس میں پہلی ترجیح جوان العمر تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری ٹیم نے ضروری ساز و سامان کے ہمراہ جس میں جگر اور ل لبا کو محفوظ بھی رکھنا تھا اسلام آباد کا سفر شروع کر دیا تھا۔’تقریباً چار گھنٹے میں ہم اسلام آباد پہنچے جہاں پر رات کے تقریباً نو بجے جگر حاصل کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں عزیر کے دونوں گردے، آنکھیں حاصل کرنے کا کام شروع تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی نو بجے آپریشن شروع کیا اور یہ کوئی دو، اڑھائی گھنٹے کا تھا۔ اس کے بعد جگر اور لب لبا لے کر واپس لاہور کا سفر شروع کیا۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ لاہور پہنچ کر میں اور میری ٹیم نے دوبارہ اپنا کام شروع کردیا تھا۔


 ہسپتال میں عملہ مریضوں کو آپریشن کے لیے تیار کررہا تھا۔ ہم نے بھی پہنچتے ہی تمام تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس کے لیے تین آپریشن تھیڑ تیار کیے گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان تین آپریشن تھیڑز میں تین ماہر کسنلٹنٹ سرجن اور ان کے زیر تربیت ڈاکٹرز اور عملہ مصروف عمل تھاخوشی ناقابل بیان تھی‘ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ جگر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اور لبلبے کا ٹرانسپلانٹ تو دنیا بھر میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا آپریشن ہو رہا تھا۔ ان کے مطابق ’میرے دیگر دو ساتھی کسنلٹنٹ جگر کا ٹرانسپلانٹ کر رہے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہر جگر کو دو حصوں میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جگر صحت مند ہو۔ عزیر جوان العمر تھے، ان کا جگر صحت مند تھا اور یہ فیصلہ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جگر انسانی جسم میں کمی بیشی پر خود بخود اپنی پرورش کرتا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ جب کسی کا جگر حاصل کیا جائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے دو مریضوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ اسی طرح شوگر کی ایسی سٹیج جہاں پر وہ بالکل ہی نا قابل علاج ہو جائے اس کا واحد حل لب لبے کی تبدیلی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے برطانیہ سے تربیت حاصل کی تھی۔ وہاں پر میں نے ایسے آپریشن پہلے کیے تھے اس لیے ہمارے پاس یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن کرنے کے لیے ضروری تجربہ موجود تھا۔’مگر پاکستان میں اس کا موقع اس لیے نہیں ملا کہ یہاں بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے کا رحجان بہت ہی کم ہے۔ اب یہ موقع ملا تو اس میں سب نے کوشش کی کہ جتنے بھی مریضوں کو فائدہ پہنچ سکے فائدہ پہنچنا چاہیے۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ’میں نے لب لبا اور میرے دو ساتھیوں نے جگر کا ٹرانسپلائنٹ مکمل کیا جو مشن ہم نے اتوار کی دوپہر شروع کیا تھا، وہ مسلسل کام کرتے ہوئے پیر کی صبح کوئی چھ سات بجے مکمل ہوا۔ تینوں مریضوں کی حالت تسلی بخش تھی، جس میں ایک سات سالہ بچہ بھی شام                لزینب امتیاز کہتی ہیں کہ ’میں ڈائیلیسِز پر تھی۔ ٹرانسپلانٹ سے پہلے بس ایک ہی کام ہوتا تھا کہ کب ہسپتال جانا ہے اور کب ڈائیلیسز کروانا ہے


مس رفعت ایک رضاکارانہ اعضاء عطیہ دہندہ تھیں جنہوں نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی۔ ان کے بھائی بریگیڈیئر زاہد بیگ مرزا، جو نیفرولوجسٹ اور کریٹیکل کیئر اسپیشلسٹ ہیں، نے اپنی فیملی کے ساتھ مل کر ان کی خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا اور سی ایم ایچ/ایم ایچ راولپنڈی اور اے ایف آئی یو کی ٹیموں سے اعضاء نکالنے کی رضامندی کے لیے رابطہ کیا۔ مس رفعت کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تاکہ ان کا دل موت کے بعد بھی زندہ رہے۔اے ایف آئی یو، ایم ایچ، سی ایم ایچ، شفا، بحریہ اور سفاری اسپتالوں کی ٹیموں نے مل کر ایک ایسے مریض کا انتخاب کرنے کے لیے کام کیا جسے 18 گھنٹوں کے اندر گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہو، جو اعضاء نکالنے کی ڈیڈ لائن تھی۔ ڈاکٹر فیصل دار کی ٹیم نے جگر نکالنے کے عمل میں حصہ لیا۔ مجموعی طور پر، تین مریضوں کی جان بچائی جا سکتی تھی: ایک جگر اور دو گردے جو 18 گھنٹوں کے اندر میچ کیے گئے اور ٹرانسپلانٹ کیے گئے۔اے ایف آئی پی امیونولوجی ٹیم نے رات بھر کام کرتے ہوئے 12 گھنٹوں کے اندر مطابقت کے ٹیسٹ مکمل کیے۔ الحمدللہ، دو گردے اور ایک جگر تین مریضوں کو پیوند کیا گیا اور وہ اچھی طرح کام کر رہے ہیں۔

یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن ایک انوکھا اور قابلِ ذکر کارنامہ تھا، جو حقیقی صدقہ جاریہ ہے۔ آئیے اس مثبت خبر کو عام کریں تاکہ اعضاء کے عطیات اور پیوند کاری کے اس عظیم مقصد کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے قابلِ تقلید عمل کرنے کی حکمت اور ہمت عطا فرمائے۔مس رفعت کی بیٹیوں (جو سب ڈاکٹر ہیں) نے اپنی والدہ کو آخری الوداع کہا، جب ان کا دل وینٹی لیٹر پر دھڑک رہا تھا لیکن وہ دماغی طور پر مردہ تھیں۔ اعضاء کے عطیہ کے بعد انہوں نے اپنی پیاری اور عظیم ماں کی میت وصول کی۔ کیا بہادر خاندان ہے، کیا عظیم ماں ہے! ان سب کو سلام!

کمبوڈیا میں جرائم پیشہ گروہوں کے جال میں پھنسے پاکستانی

 

یونان اٹلی اور بے شمار یورپی ملکوں کے لئے اخبارات خبروں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن کمبوڈیا کے لئے پہلی مرتبہ انڈیپنڈنٹ اردو سے معلوم ہوا کہ انسانی اسمگلروں نے وہاں بھی پنجے گاڑے ہوئے ہیں -میں انڈپنڈنٹ سے ہی یہ آرٹیکل دے رہی ہوں -کمبوڈیا جانے والے پاکستانی اغوا برائے تاوان کا نشانہ کیسے بنے؟پاکستانی شہریوں محمد حسنین اور حسن رضا سے کمبوڈیا میں اغوا کرنے والوں نے تکئی ہزار ڈالر تاوان طلب کیا جس کی ادائیگی کے بعد انہیں پاکستان آنے کے لیے رہائی ملی۔روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے کئی پاکستانی شہری وہاں اغوا برائے تاوان کا شکار ہوگئے جن کی واپسی تاوان ادا کر کے ہوئی جبکہ کئی تاحال کمبوڈیا کی جیلوں میں قید یا اغوا کاروں کے پاس ہیں۔پاکستان کے مشکل معاشی حالات اور ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث تقریباً ہر شہری نقل مکانی کا خواہاں ہے اور ملک سے باہر کہیں بھی بہتر روزگار ڈھونڈنا چاہتا ہے۔ان ہی میں سے ایک محمد حسنین طلحہ بھی ہیں جن کا تعلق ملتان سے ہے۔


 اُنہوں نے دو ماہ قبل ایک ایجنٹ کو چھ لاکھ روپے دے کر کمبوڈیا کا ویزا حاصل کیا۔ جس میں انہیں دھوکہ دہی کا سامنا کرنا پڑا۔انڈپینڈنٹ اردو کو آپ بیتی سناتے ہوئے محمد حسنین کہا کہ ’مجھے کمبوڈیا کا ویزا دیے جانے سے قبل یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں اردو کال سینٹر میں ملازمت دی جائے گی جس کے عوض ڈالر میں تنخواہ ملے گی جو پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے بہترین تنخواہ ہو گی۔‘بقول حسنین: ’کمبوڈیا جاتے ہی ہوائی اڈے پر پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا اس کے بعد ہمیں نامعلوم مقام پر لے جایا گیا جہاں بہت سارے کمپیوٹر سسٹم تھے اور اردو کال سینٹر کے نام پر ہمارے ساتھ فرا ڈ کیا گیا اور ہمیں من چاہے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا جس کی ہمیں سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی۔’کام نہ آنے پر وہاں کے ویتناموں نے مجھ پر تشدد کیا اور دو دو روز تک کھانا بھی نہیں دیتے تھے۔ ہمارے اغوا کار نے یہ کہا کہ اس نے ہمارے ایجنٹ کو دو ہزار ڈالر دے کر ہمیں کمبوڈیا بلوایا ہے۔یہ بات سن ہماری بے چینی بڑھ گئی اور ہھر پتہ لگا کہ ہم اب اغوا ہو گئے ہیں مجھ سمیت بہت سے پاکستانی نامعلوم جگہ پر اغوا کاروں کے شکنجے میں ہیں۔


‘محمد حسنین طلحہ کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے یہ کہا گیا کہ اپنے گھر سے چار ہزار ڈالر ہمیں لے کر دو اور پاسپورٹ حاصل کر لو۔ میں 20 روز سے زائد وہیں رہا اور میرے گھر والوں نے قرض ادھار لے کر مجھے تین ہزارڈالر بھیجے تب جا کر میں اپنے گھر کو پہنچا۔‘کمبوڈیا میں ہمیں کرنٹ لگا کر تشدد کیا گیا: متاثرین حسن رضا کا تعلق لاہور سے ہے اور انہیں بھی کمبوڈیا بھی جھانسہ دے کر بھیجا گیا کہ یہ ’سنہری موقع‘ہے پیسے کمانے کا۔حسن رضا نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے آٹھ لاکھ دے کر ویزا حاصل کیا اور چھ ستمبر کو کمبوڈیا پہنچتے ہی وہ لوگ اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے۔ ان سے پاسپورٹ چھینے گئے اور جاتے ہی جیل خانے میں یہ کہہ کر ڈال دیا گیا کہ اگر آزاد ہونا ہے تو چار ہزار ڈالر دو اور چلے جاؤ۔حسن رضا نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی یعقوب نے مویشی بیچ کر انہیں اغوا کرنے والوں سے نجات دلائی۔


کمبوڈیا میں پاکستانی جرائم پیشہ گروہوں کے جال میں کیسے پھنسے؟آج کل پاکستانیوں کو افریقی ممالک میں چند ماہ یا ایک سال کا ویزا لگا کر یورپ میں سیٹل کرانے کا شارٹ کٹ راستہ دکھایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ سینکڑوں پاکستانیوں کے کمبوڈیا میں پھنسنے کی شکل میں سامنے آیا۔روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے پاکستانی شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ٹریول ایجنٹس کے ذریعے ان کو کمبوڈیا لایا جا رہا ہے جنہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہاں آئی ٹی کی کمپینوں کو نوجوانوں کی ضرورت ہے مگر وہاں پہنچنے پر صورت حال یکسر مختلف ہوتی ہے۔محمد حسنین اور حسن رضا کی طرح اشرف علی کے صاحبزادے احمد علی بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہوئے جو اب بھی کمبوڈیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اشرف علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے 20 سالہ صاحبزادے احمد علی اس وقت کمبوڈیا کے کسی نامعلوم  مقام پر ہیں جہاں باقی کے دو پاکستانی متاثرین یرغمال بنے ہوئے تھے۔


اشرف علی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ بھی نوکری کا وعدہ کیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ وہ غیر قانونی کام کریں۔ ’کمپیوٹر پر اس کو تنگ کیا جا رہا ہے کے وہ چار ہزار  ڈالر بھی دے اس معاملے پر کئی بار دفتر خارجہ رابطے کی کوشش کی گئی لیکن در بدر بھٹکتے ہی رہ گئے۔‘احمد علی، محمد حسنین اور حسن رضا کی طرح سینکڑوں پاکستانی شہری کمبوڈیا میں ایسے غیر قانونی گروہوں کے شکنجے میں پھنس کر لاکھوں روپے کی ادائیگی کرنے کے باوجود کمبوڈیا سے وطن نہیں آ پا رہے۔اس سارے معاملے کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ کمبوڈیا میں پھنسے پاکستانی شہریوں سے غیر قانونی کام کرایا جا رہا ہے اور احکامات نہ ماننے والوں پر تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔ترجمان پاکستان وزارت خارجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس سارے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کمبوڈیا میں موجود ہمارے سفارتی مشن نے پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے ہیں جس میں سے کچھ پاکستانیوں کی وطن واپسی ہوئی ہے۔ صرف چند پاکستانی ہی ایسے گروہوں کے شکنجے میں ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے ہمارا سفارتی مشن کام کر رہا ہے۔‘ترجمان پاکستان دفتر خارجہ کے مطابق: ’جنوری 2023 سے لے کر اب تک ایسے 90 پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جا چکا ہے۔‘دوسری جانب اس وقت بہت سے پاکستانی کمبو ڈیا کی جیل میں ہیں انہوں نے اپنے ویڈیو بیان انڈپینڈنٹ اردو سے شیئر کیے ہیں جن میں انہوں نے اعلی حکام سے درخواست کی ہے کہ ان کی وطن واپسی کے اقدامات کو تیز تر بنائیں

کراچی میں ڈمپر لوڈر'واٹر ٹینکر'' ٹرالراور بسز کی دہشت گردی

 

   

ٹریفک حادثات میں مزید5افراد زندگی کی بازی ہارگئےکراچی، 2 ماہ میں ٹریفک حادثات میں 96 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں -کراچی  شہر میں بے قابو ڈمپروں اور دیگر گاڑیوں کی ٹکر سے مزید 5افراد جاں بحق ہوگئے ‘خاتون اورکمسن بہن بھائی سمیت 4افراد زخمی‘2دن میں 9افراد زندگی کی بازی ہار گئے ۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں ڈمپر کی ٹکر سے شہریوں کی ہلاکت کاتیسرا واقع سعود آباد تھانے کی حدود ملیر ہالٹ خالد لیبارٹری کے قریب پیش آیا جہاں تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل کو ٹکر مار کر باپ اور بیٹے کی جان لے لی جبکہ ایک خاتون زخمی ہو ئی ۔ ڈمپر کی ٹکر سے جاں بحق افراد کی شناخت 50سالہ محمد سلیم ولد محمد امین اور 13سالہ عفان احمد ولد محمد سلیم کے نام سے ہوئی ہے جبکہ زخمی خاتون کا نام30سالہ روبینہ زوجہ محمد سلیم ہے۔حادثے کے بعد ڈمپر ڈرائیور فرار ہوگیا۔


 اہل خانہ کا کارروائی سے انکار ۔علاوہ ازیںگلشن معمار ایوب حسن شاہ مزار کقریب تیز رفتار گاڑی نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماردی، حادثے میں موٹر سائیکل سوار نوجوان جاں بحق ہوگیا جبکہ اس کے 3 کمسن بہن بھائی زخمی ہو گئے ۔جاں بحق نوجوان کی شناخت 20 سالہ اسماعیل ولد رحیم کے نام سے ہوئی، زخمیوں میں 4 سالہ دعا، 5 سالہ ریحان اور 6 سالہ انس شامل ہیں۔قریب ہی موجود افراد اس بات کا تعین نہ کر سکے کہ حادثے میں ملوث تیز رفتار کون سی گاڑی یا ٹرک تھا ۔ سکھن تھانے کی حدود لانڈھی بھینس کالونی زیرو روڈ کے قریب تیز رفتار گاڑی کی زد میں اکر 50سالہ محمد سعید نامی شخص جاںبحق     ہوگیا ، متوفی کی لاش کو قانونی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ علاوہ ازیں سولجر بازار کے علاقے میں دو روز قبل حادثے میں زخمی ہونے والے معمر شخص 75 سالہ عیسیٰ سول اسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا


۔شہر قائد میں ڈمپر گردی لہر کا آغاز ہوگیا کورنگی میں مزید 3 افراد جان کی بازی ہار گئے ، نادرن بائی پاس پر حادثے میں45 سالہ عبدالمجید ولد محمد حسین کی زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی ۔مشتعل افراد نے ڈمپر کو آگ لگا دی ہمیشہ کی طرح ڈرائیور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ۔تفصیلات کے مطابق ہیوی ٹریفک کے خونی کھیل کو روکا نہ جاسکا، کورنگی ابراہیم حیدری سے کراسنگ جاتے ہوئے CBM کالج کے قریب آنے والی سڑک پر تیز رفتار دندناتے رانگ سائیڈ سے آنے والے ڈمپر نے موٹرسائیکل سوار افراد کو روند ڈالا ، تینوں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ جاں بحق دوافرادکی شناخت 25سالہ آصف ولد حضور بخش ، 27سالہ امجد جیلانی ولد غلام جیلانی اور 24سالہ نوجوان کے نام سے ہوئی ہے۔حادثے کے بعد مشتعل افراد نے ڈمپر کو آگ لگا دی جبکہ ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔


جاں بحق ہونے والے تینوں افراد کی میتوں کو جناح ہسپتال سے قانونی کارروائی کے بعد چھیپا سرد خانے منتقل کر دیا گیا ۔ٹریفک سیکشن افسر نے واقعے کو اتفاقیہ حادثہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ڈمپر تیزرفتاری سے رانگ وے پر جارہا تھا، حادثہ اتفاقیہ طور پر پیش آیا۔ جاں بحق ہونیوالے2افرادپنجاب سے آئے مہمان تھے، جاں بحق تیسرا شخص موٹرسائیکل پر مہمانوں کو گھمانے کیلئے لیکر نکلاتھا، حادثے میں جان سے ہاتھ دھونے والا تیسرا شخص اسٹیل آئرن شاپ پر ملازم تھا۔کورنگی کراسنگ پر ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کا احتجاج کیا ،مظاہرین نے سڑک پر پرانا سامان جلا کر بند کر دی،کراسنگ اور اطراف کی سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا ، احتجاج کے باعث دفاتر سے گھر کو جانے والے افراد ٹریفک جام میں پھنس گئے۔

موقع پر موجود ایک شہری نے کہا کہ ڈمپر دن دیہاڑے رانگ سائیڈ تیز رفتاری کے ساتھ جارہا تھا، ریتی لے جانے والا حادثے کا ذمے ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔کراچی میں ڈمپر ڈرائیورز نے حکومتی اقدامات اور دعووں کو ہوا میں اْڑادیا، حکومتی احکامات کے باجود دن کے اوقات میں بھی ڈمپرز اور بھاری گاڑیاں شہر کی سڑکوں پر دندناتی نظر آرہی ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ بیشتر ڈمپر اور واٹر ٹینکر ڈرائیور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں کم عمر اور نشے کے عادی ڈرائیور بھی شامل ہیں، جو بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرتے ہیں، جب کہ یہ دن کے اوقات میں بھی انتہائی تیز رفتاری سے ڈمپر اور ٹینکر دوڑاتے ہیں۔کراچی میں ٹریفک نظام کی بربادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سال جنوری سے اب تک ہیوی گاڑیوں کے مختلف حادثات میں 33افراد جاں بحق ہوچکے جن میں 10 افراد ٹریلر، 8 افراد ڈمپر، 8 افراد واٹر ٹینکر، 6 بس اور ایک منی بس کی ٹکر سے جاں بحق ہوئے ہیں ،یاد رہے خونیں ٹریفک حادثوں میں گذشتہ دو روز میں 14 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔دو روز قبل بھی کراچی کے علاقے ملیر ہالٹ میں ڈمپر کی ٹکر سے باپ اور بیٹ جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس واقعے سے چند گھنٹے قبل گلستان جوہر میں ملینیئم شاپنگ مال کے قریب ڈمپر کی ٹکر سے میاں بیوی سمیت 3 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔


 گذشتہ روز شیر شاہ کے علاقے میں موٹر سائیکل سوار شہری زندگی کی بازی ہار گیا تھا، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتی مسافر بس نے بیچ سڑک پر بس روک کر تیزی سے آنے والا موٹر سائیکل سوار شہری کو اوورٹیک کیا جس کے باعث موٹر سائیکل سوار بیلنس برقرار نہ رکھ سکا اور 22 ویلر ٹینکر کے ٹائروں کی زد میں آ گیا ۔واضح رہے کہ کراچی میں ٹینکرز، ڈمپرز اور دیگر گاڑیوں کی غفلت کے باعث ٹریفک حادثات تشویش ناک حد تک بڑھ گئے ہیں، جس میں قیمتی انسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں، جن کی روک تھام کے لیے انتظامیہ بھی متحرک ہو گئی ہے۔علاوہ ازیں سندھ حکومت نے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی روک تھام اور ٹریفک کی بہتری کے لیے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے دن کے اوقات میں ڈمپرز کے کراچی میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئے فیصلے کے تحت ڈمپرز کو صرف رات 11 بجے سے صبح 6 بجے تک شہر میں داخلے کی اجازت ہوگی۔یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ کی زیر صدارت ٹریفک حادثات کے حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس، کمشنر کراچی، ایڈیشنل آئی جی کراچی، سیکریٹری ٹرانسپورٹ، ڈی آئی جی ٹریفک اور دیگر متعلقہ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں چلنے والی تمام بڑی گاڑیوں اور ان کے ڈرائیوروں کی جسمانی تصدیق (فزیکل ویری فکیشن) کی جائے گی تاکہ روڈ سیفٹی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ شہر میں چلنے والی تمام گاڑیوں کو محکمہ ٹرانسپورٹ سے QR کوڈ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی ہوگا۔


ہفتہ، 8 فروری، 2025

بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے- امریکہ بدری ۔


 

 امریکہ بدری کی کہانی کوئ نئ تو نہیں زرا یہ تفصیل بھی ملاحظہ کیجئے-30 ستمبر کو ختم ہونے والے مالی سال میں امریکہ نے 271,484 غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کیا۔ملک بدر کیے گئے لوگوں کی تعداد میں رواں سال میں اضافہ ڈی پورٹیشن پروازوں کو زیادہ تعداد میں چلانے، اور گوئٹے مالا، ہنڈوراس اور ایل سلواڈور کے ملکوں کو واپس بھیجے جانے والے لوگوں کے لیے سفری طریقہ کار کو ہموار کرنے سے ممکن ہوا۔جمعرات کو امریکی سرحدوں پر کام کرنے والے ادارے "یو ایس کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن" نے کہا کہ حکام نے رواں سال نومبر میں میکسیکو سے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے 46,612 لوگوں کو گرفتار کیا۔  غیرقانونی انڈین تارکین وطن کو لے کر ایک امریکی فوجی طیارہ انڈیا کے صوبہ پنجاب کے شہر امرتسر کے گرو رویداس ایئر پورٹ پہنچ گیا ہے۔


ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں امریکہ میں مقیم انڈین افراد کی یہ پہلی ملک بدری ہے۔اس سے قبل سیکیورٹی حکام نے بی بی سی کے صحافی رویندر سنگھ رابن کو بتایا کہ انھوں نے آنے والے افراد کی فہرست چیک کی ہے اور اس میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جس پر امریکہ میں کوئی جرم ثابت ہوا ہو۔رویندر سنگھ رابن کے مطابق امرتسر پہنچنے والے کچھ لوگوں کو پولیس کی گاڑیوں میں ان کے گاؤں لے جایا جائے گا۔ باقی ریاستوں کے لوگوں کو فلائٹ سے بھیجا جائے گا۔میڈیا کو ایئرپورٹ کے اندر جانے کی اجازت نہیں لیکن صحافی ایئرپورٹ کے باہر ان لوگوں سے بات کر سکیں گے۔اس سے قبل انڈیا کے معروف وکیل اور ایوان بالا کے رُکن کپل سبل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر انڈین وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’مودی جی، ٹرمپ 104 غیر قانونی تارکین وطن کو انڈیا واپس بھیج رہے ہیں۔ بظاہر انھیں انڈیا جانے والے طیارے میں بٹھانے سے پہلے ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں۔


 در اصل امریکہ نے منگل کے روز فوجی طیارے ’سی 17‘ کی ایک پرواز کے ذریعے 104 غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے بعد انڈیا روانہ کیا تھا۔ اور جب سے وہ وائٹ ہاؤس کے مکین بنے ہیں تب سے اس فیصلے پر پوری شدت کے ساتھ عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔امریکہ میں رہنے والے دنیا بھر کے غیر قانونی تارکین وطن کو کمرشل اور فوجی طیاروں کے ذریعے اُن کے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ امریکی ایئرفورس کا طیارہ سی 17 جنگی سازوسامان اور فوجیوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا ہےتاہم امریکہ میں غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے فوجی طیاروں کا استعمال غیر معمولی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کی فلائیٹ عام کمرشل پرواز کی نسبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔یاد رہے کہ حال ہی میں کولمبیا اور میکسیکو نے اپنے اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو لانے والی امریکی فوجی پروازوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا


 کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے کہا تھا کہ وہ صرف سویلین طیاروں کے ذریعے آنے والے ہی اپنے شہریوں کو قبول کریں گے۔لیکن امریکہ کی جانب سے ’سی 17‘ فوجی طیارے کے ذریعے غیرقانونی انڈین تارکین وطن واپس انڈیا بھیجے جانے کے اعلان کے بعد سے حکومت ہند کی جانب سے اس نوعیت کا کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا۔ماضی میں انڈین حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کو اُن کی شناخت کے بعد قبول کر لیتے ہیں۔ گذشتہ سال بھی بہت سے غیر قانونی تارکین وطن کو یورپی ممالک سے انڈیا واپس بھیجا گيا تھا   رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 18 ہزار غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو واپس انڈیا بھیجنے کی نشاندہی کی ہے، اور اب 104 تارکین وطن پر مشتمل پہلی کھیپ امریکہ سے انڈیا کے لیے روانہ کر دی گئی ہے۔


انڈیا میں سوشل میڈیا پر امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوچھا جا رہا ہے کہ اُن کی ’دوستی میں یہ کیسا مرحلہ آ گیا ہے۔‘بہت سے صارفین انڈین تارکین وطن کو ہتھکڑیوں میں امریکہ بدر کرنے پر بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ نے اس حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے کہ امریکہ کی جانب سے غیرملکی تارکین وطن کو مہنگے فوجی طیارے پر بھیجنے پر کتنی لاگت آ سکتی ہے۔روئٹرز کے مطابق امریکہ غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے عموماً کمرشل طیارے استعمال کرتا ہے اور یہ طیارے امریکی کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ (آئی سی ای) کی نگرانی میں روانہ کیے جاتے ہیں۔امریکہ سے ملک بدری کا عمل برسوں سے جاری ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہاز کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔سی 17 طیارے کی ایک ایسی ہی پرواز کے گواٹیمالا جانے کے متعلق روئٹرز نے تخمینہ لگایا ہے کہ ہر مسافر پر کم از کم 4675 امریکی ڈالر کا خرچ آ رہا ہے جبکہ ایک مسافر طیارے یا کمرشل پرواز میں یہ کام محض 853 ڈالر میں ہو سکتا ہے اور وہ بھی فرسٹ کلاس میں۔روئٹرز کے مطابق امریکی کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ٹائی جانسن نے امریکی قانون سازوں کو ایک سماعت کے دوران بتایا تھا کہ اُن کے ادارے کی نگرانی میں چلنے والی ڈپورٹیشن فلائٹس (فوجی طیاروں پر نہیں بلکہ کمرشل مسافر طیاروں پر) پر فی گھنٹہ 17،000 امریکی ڈالر کا خرچ-امریکہ سے ملک بدری کا عمل برسوں سے جاری ہے  ماہرین کا کہنا ہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہاز کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔

 

جمعہ، 7 فروری، 2025

ٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل

  یہ کیسا ظلم عظیم ہے-بھلا 14سال کی عمر بھی کوئ عمر ہوتی ہے ابھی بچپن بیت رہا ہوتا ہے بھی تو سمجھداری کی پہلی سیڑھی پر بچے کا پہلا قدم ہی ہوتا ہے کہ اس کے خواب کو ریوالور کی چند گولیوں سے موت کی نیند سلا دیا جائےمعصوم چودہ برس کی حرا   کہانی یہ ہے کہ اس کے والدنے اچھی زندگی گزارنے کے لئے ویسٹرن کنٹری کا انتخاب تو کر لیا لیکن وہ یہاں کے ماحول سے مطابقت رکھنے والی تربیت اپنی اولاد کو فراہم نہیں کر سکے اور جب اولاد نے سر اٹھایا تو بس اس کو مارڈالا-.عتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی کے قتل کے الزام میں والد اور ماموں گرفتار-قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب  کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھابلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے ایک 14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کے قتل کے الزام میں اس لڑکی کے والد اور ماموں کو گرفتار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے ’لڑکی کے رہن سہن اور ٹک ٹاک پر قابل اعتراض ویڈیوز پوسٹ‘ کرنے کی وجہ سے اِس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب سوا گیارہ بجے کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھا جس کی ابتدائی ایف آئی آر ہلاک ہونے والی لڑکی کے والد کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروائی گئی تھی۔لڑکی کے والد بھی امریکی شہریت کے حامل ہیں اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ چند روز قبل ہی امریکہ سے پاکستان آئے تھے۔ لڑکی کے قتل میں گرفتار والد اور ماموں کو گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس کی استدعا پر عدالت نے دونوں ملزمان کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ’سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ‘ کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔


کرائمز انویسٹیگیشن یونٹ کوئٹہ سے منسلک ایس ایس پی ذوہیب محسن نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’ابتدائی تفتیش میں یہ سامنے آیا ہے کہ لڑکی کے والد کو اپنی بیٹی کے رہن سہن اور سماجی سرگرمیوں پر اعتراض تھا۔‘نھوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں مزید تفتیش جاری ہے اور ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ 14 سالہ لڑکی کا واقعی کوئی ٹک ٹاک اکاؤنٹ تھا بھی یا نہیں اور اگر تھا تو اس پر کیا مواد موجود ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ لڑکی کا موبائل پولیس کی تحویل میں ہے جس کا لاک کھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔سول ہسپتال کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مقتولہ کو چار گولیاں ماری گئی تھیں جبکہ ان کے اہلخانہ کی درخواست پر باقاعدہ پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا تھا۔جبکہ کیس کی تفتیش سے منسلک ایک اہلکار نے بتایا کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران ملزمان کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا۔


کوئٹہ میں قتل ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کون تھیں؟مقامی عدالت لڑکی کے قتل میں گرفتار والد اور ماموں کو گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیاکوئٹہ میں پولیس نے قتل ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کی شناخت حرا انوار کے نام سے کی ہے جن کی عمر 14 سال کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔مقامی پولیس کے مطابق لڑکی کے خاندان کا تعلق کوئٹہ سے ہی ہے اور وہ یہاں بلوچی سٹریٹ میں عرصہ دراز سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکی کے والد 27 سال پہلے امریکہ گئے تھے اور پھر وہی آباد ہو گئے تھے۔پولیس حکام کے مطابق حرا کی پیدائش بھی امریکہ میں ہوئی اور انھوں نے امریکہ ہی میں تعلیم حاصل کی تھی۔حرا رواں ماہ کی 15 تاریخ کو اپنے والد کے ہمراہ امریکہ سے لاہور آئی تھیں جہاں چند روز گزارنے کے بعد یہ خاندان 22 جنوری کو کوئٹہ آیا تھا۔ملزم والد ہی مدعی مقدمہ بنے: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘غیرت کے نام پر قتل،حرا کے بائیں بازو پر زخم کا نشان تھا جو جسم کے آر پار تھا جبکہ سینے کے بائیں جانب بھی آر پا رزخموں کے نشانات تھے


حرا کے قتل کا ابتدائی مقدمہ اُن کے والد ہی کی مدعیت میں 28 جنوری کو درج کیا گیا تھا۔لزم نے ایف آئی آر میں بتایا کہ وہ گذشتہ 28 سال سے اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ میں مقیم ہیں یف آئی ار میں کہا گیا کہ ’میں 15 جنوری کو اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ سے لاہور پہنچا تھا جہاں چند روز گزارنے کے بعد 22 جنوری کو کوئٹہ آ گیا۔ 27 جنوری کی شب میں اپنی بیٹی حرا کے ہمراہ اپنے برادرِ نسبتی کے گھر جانے کے لیے نکلا۔ میں اور حرا ابھی گھر سے نکلے ہی تھے کہ مجھے معلوم ہوا کہ میری جیب میں میرے بھائی کا فون رہ گیا تھا جسے واپس کرنے کے لیے میں دوبارہ گھر میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میں گھر کے اندر گیا تو باہر سے اچانک فائرنگ کی آواز آئی جبکہ میری بیٹی حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں۔‘ملزم والد کی جانب سے ایف آئی آر میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ ’یہ آوازیں سُن کر میں باہر نکلا تو حرا شدید زخمی حالت میں گیٹ کے پاس پڑی تھی


۔ میں نے محلہ داروں کے ہمراہ حرا کو ہسپتال پہنچایا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی۔‘والد نے پولیس سے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی جس پر پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت یہ مقدمہ درج کر لیا۔پولیس ٹیم کی جانب سے ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ جب وہ اطلاع موصول ہونے کے بعد ہسپتال پہنچے تو وہاں حرا کی خون میں لت پت لاش موجود تھی۔’سرسری جسمانی معائنے میں معلوم ہوا کہ حرا کے بائیں بازو پر زخم کا نشان تھا جو جسم کے آر پار تھا جبکہ سینے کے بائیں جانب بھی آر پار زخموں کے نشانات تھے۔  

جمعرات، 6 فروری، 2025

ڈاکٹر مجھے خوبصور ت بنا دو- کاسمیٹک سرجریز

   قران کریم  میں  ارشاد رب العزت ہے   ہم نے انسان  کو بہترین  صورت پر پیدا کیا - پھر بھی   اور خوبصورتی چاہنے کی  خواہش  بہت سوں کو      کلینک کا راستہ سجھا دیتی ہے! لیکن اگر خوبصورت لگنے کے لیے مختلف قسم کےکاسمیٹک سرجریز کروانا پڑے تو  کوئ حرج تو نہیں ہے ۔اسی لئے پُرکشش لگنے کی آزو کی تکمیل لیے دینا بھر میں کاسمیٹک کلینکس اپنے عروج پر جا رہے ہیں -اگر دیکھا جا ئے تو سرجری اور ایستھیٹک پروسیجرز کا سہارا کچھ عرصے پہلے تک تو صرف سلیبرٹیز  لیا کرتے تھے لیکن اب یہ شوق عام لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے،سیف الاسلام ڈرمٹالوجسٹ  کاکہنا  ہےکہ ’پاکستان میں پچھلے تین چار سالوں میں یہ رجحان بڑھا ہے اور اب ہر عمر اور جنس کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جلد کے مسائل یا پھر بیماری کی وجہ سے ہمارے پاس علاج کے لیے آتے ہیں۔


لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی جو ایسے پروسیجر کروانا چاہتے ہیں جن کے بعد وہ مزید خوبصورت لگ سکیں-کاسمیٹک پروسیجر کسی طبی وجہ کے بجائے اپنے جسم کے مخصوص حصّے میں تبدیلی لانے کے لیے کروائے جانے والے والے میڈیکل پروسیجر یا آپریشن کاسمیٹک سرجری کہلاتا ہے۔یہ عموماً لوگ اس وقت کرواتے ہیں جب وہ اپنے جسم کے کسی حصّے کی ساخت سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ یا پھر وہ اپنی نظرکے مطابق خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں۔ کسی کو اپنے جبڑے پسند  نہیں   ہوتے تو کوئی جبڑ ے چھوٹے  کرنا چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اپنی ناک پسند نہیں ہوتی اور وہ اسے من پسند ناک  بنانے کے لیے سرجری کروا تے ہیں۔لیکن وہ اس پروسیجر کے نتیجے میں  آ نے والے وقت کے نتائج سے بلکل بے خبر ہوتے ہیں قارئین جان لیں اکثر  یہ سرجریز کامیاب ہونے بجائے ناکام بھی ہوجاتی ہیں کاسمیٹک پروسیجر  رجحان   میں   زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواتین ہی پُرکشش لگنے کے  لیے ان چیزوں کا سہارا لیتی ہیں لیکن آج کل مرد بھی ایسے تمام پروسیجرز کرواتے ہیں۔


اسحاق کرمانی  کا شمار بھی ایسے ہی مردوں میں ہے جو مختلف قسم کے استھٹیک اور کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں۔ان کے بقول ’ویسے تو یہ کام ہمارے ارد گرد اکثرلوگ کرواتے لیکن مانتے نہیں ہیں۔ ان سے جب پوچھو کہ آپ نے کچھ کروایا تو ایسے محسوس کرواتے ہیں کہ وہ تو پیدا ہی ایسے ہوئے تھے اور ان میں جو بھی تبدیلی آئی ہے وہ قدرتی ہے۔‘ان کا مزید دعویٰ تھا کہ زیادہ تر مرد ماڈل اور اداکار یہ پروسیجرز کرواتے ہیں تاہم عام مرد حضرات بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں۔درجنوں قسم کے پروسیجرز میں مردوں میں سب سے مقبول ہیئر ٹرانسپلانٹ ہے، جو مرد اپنے گنج پن کو کم کرنے کے لیے کرواتے ہیں۔حال ہی میں اس سرجری سے گزرنے والے محمدعتیق    کا  کہنا   ’ ہےیہ ایک تکلیف دہ سرجری ہے جو تقریبا تیرہ سے چودہ گھنٹے طویل ہے۔ اس میں ڈاکٹر آپ کے سر کے حصے پر بال لگاتے ہیں جہاں گج پن ہوتا ہے اور اس پر کم سے کم ڈھائی سے تین لاکھ روپے تک لاگت آتی ہے۔‘دوسری جانب خواتین میں مختلف اقسام کے فیشل، لپ فلرز، 


لیزر پروسیجرز، مصنوعی پلکیں لگوانے کے علاوہ رنگ گورا کرنے والے انجیکشن لگوانے کا ٹرینڈ زیادہ پایا جاتا ہے۔کاسمیٹک پروسیجرز آپ کو خوبصورت بنانے میں کیسے مدد کرتے ہیں؟ماہرین کے مطابق ان ٹریٹمینٹس سے جہاں آپ ایک طرف خوبصورت دکھائی دے سکتے ہیں تو وہیں ان کے نقصانات بھی موجود ہیں۔ اس لیے ایسے پروسیجرز میں رسک موجود ہوتا ہے۔  جو کئی قسم کے کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں، ان کے مطابق ان کے بیشتر پروسیجرز کے منفی نتائج آئے۔ جیسا کہ سلیمہ  کا کہنا ہے کہ آنکھوں کے گرد حلقوں کو لیزر کے ذریعے کم کروانا چاہا تو ان کو آنکھوں میں جلن اور خارش کی شکایت ہونے لگی جس کی وجہ سے انھوں نے اس پروسیجر کو روک دیا۔سلیمہ کا کہنا ہے کہ آنکھو ں کا پروسیجر تکلیف کے باعث ترک کرنے کے بعد میں نے چہرے کے زیدہ بالوں سے چھٹکارا حاصل کرن چاہاتو یہاں بھی مسلہ دوگنا ہی ہو گیا اب میرے پاس یہی راستہ ہے کہ یا تو میں تھریڈنگ کرواؤں یا پھر سے لیزر کرواؤں۔‘جہاں ایک طرف کچھ لوگوں کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو ان پروسیجرز سے فائدہ بھی ہوا ہے۔ ایک لڑکی کا کہنا ہے کہ ’میرے کیس میں مجھے تو بہت فائدہ ہوا ہے۔ میرے چہرے پر دانے نکلنے کی وجہ سے جلد خراب ہو گئی تھی۔ اس کے لیے میں نے لیزر ٹریٹمنٹ کروائی اور وہ ٹھیک ہو گئے۔نہ صرف  بلکہ پاکستان میں اداکاراؤں کی ایک بڑی تعداد کاسمیٹک سرجریز کروا رہی ہے۔ جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔ لیکن ان سب کے تجربات اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ 



کاسمیٹک سرجری  کروانے کے بعد مشہور انفلوئنسر کی موت ہوگئی، 
میکسیکو سٹی (ڈیلی پاکستان آن لائن) میکسیکو سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ مشہور انفلوئنسر ڈینیز ریس ایک غیر مجاز کلینک میں کاسمیٹک سرجری کروانے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں۔ ڈینیز ریس نے چیاپاس کے شہر ٹکسٹلا گوٹیریز میں واقع سان پابلو میڈیکل کلینک میں لائپوسکشن سرجری کروائی تھی۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا فالوورز کو اطلاع دی تھی کہ وہ سرجری کے بعد صحت یاب ہو رہی ہیں۔ان کے چچا اماو روڈریگز نے ڈیلی میل کو بتایا کہ سرجری کرنے والے ڈاکٹر اورلینڈو گامبوا نے اگلے دن  انہیں ایک دوا دی جس سے ری ایکشن پیدا ہوا۔ چچا کے مطابق "ڈینیز نے طبیعت بگڑنے کی شکایت کی اور انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد انہیں فوری طور پر کلینک کے کمرے سے باہر نکال دیا گیا۔"ریس کی ایک دوست، جو ان کے ساتھ کلینک گئی تھی، کو ریکوری روم کے باہر انتظار کرنے کو کہا گیا اور بتایا گیا کہ ان کی طبیعت "نازک" ہے۔ بعد ازاں ریس کو مانزور ہسپتال منتقل کر دیا گیا کیونکہ سان پابلو کلینک میں انتہائی نگہداشت کی سہولت موجود نہیں تھی۔ بدقسمتی سے ان کی حالت مزید بگڑتی گئی اور وہ  دو دن بعد  انتقال کر گئیں۔ ان کے چچا نے بتایا کہ ڈینیز ریس سرجری سے پہلے مکمل طور پر صحت مند تھیں اور انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں تھی۔اب ان کے اہلِ خانہ نے چیاپاس کے صحت حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ ڈاکٹر گامبوا کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ روڈریگز نے مطالبہ کیا کہ "حکام ڈینیز کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کریں اور ڈاکٹر کو اس کے کیے کی سزا دی جائے۔"

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کا تاریخی سیٹھی ہاؤس معماروں کے زوق تعمیر کا اظہار

   پشاور کا تاریخی محلہ سیٹھیاں اور سیٹھی ہاؤس جسے دیکھ کر اس کے معماروں کا زوق تعمیر عروج پر نظر آتا ہے - اس بے نظیر محلے کی آباد کاری  اس ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر