منگل، 4 فروری، 2025

انڈر پاس کریم آباد 'سندھ حکومت توجہ دے

 42 -رپورٹ:منیر عقیل انصاری)42 دنوں کی ریکارڈ مدت میں جناح ایونیو انڈر پاس کی تکمیل

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے منگل کے روز جناح ایونیو انٹرچینج انڈر پاس منصوبے کو ریکارڈ 42 دنوں میں مکمل کرنے پر وزیر داخلہ، چیئرمین سی ڈی اے سمیت متعلقہ اداروں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبہ سے راولپنڈی، اسلام آباد کی ٹریفک کو بڑا فائدہ ہو گا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی بھی اسی برق رفتاری سے آگے بڑھائیں گے اور پاکستان کو عظیم ملک بنائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو جناح ایونیو انٹرچینج انڈر پاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں وزیر داخلہ سید محسن نقوی، وزیر اطلاعات و نشریات عطا اﷲ تارڑ ، ارکان قومی اسمبلی حنیف عباسی ۔ طارق فضل چوہدری۔ راجہ خرم نواز اور انجم عقیل خان اورچیئر مین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا۔ ممبر انجنئرنگ سی دنفاست رضا ۔ ڈائریکٹر روڈز رانا طارق محمود سمیت سی ڈی اے افسران نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس انڈر پاس کا 5 نومبر کو سنگ بنیاد رکھا گیا تھا یہ خوشی کا موقع ہے کہ یہ انڈر پاس 42 دنوں میں مکمل کرکے ریکارڈ قائم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اسی طرح ترقی کرتی ہیں، شبانہ روز محنت کا اﷲ تعالیٰ پھل ضرور عطا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے، ان کی ٹیم، ٹھیکیداروں، انجینئرز اور کام کرنے والے ورکرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔


 وزیر داخلہ محسن نقوی کی قیادت میں ان کی ٹیم نے انہونی کر دکھائی، ان کی ذاتی نگرانی کے باعث یہ منصوبہ بروقت پایہ تکمیل کو پہنچا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس منصوبہ سے راولپنڈی، اسلام آباد کی ٹریفک کو بڑا فائدہ ہو گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سرینا چوک انڈر پاس منصوبہ بھی اسی برق رفتاری سے مکمل ہو گا۔ جبکہ  صوبہ سندھ پر پیپلز پارٹی کی مکمل گرفت ہے تو پھر کراچی کو لاوارث کیوں چھوڑ دیا گیا  ہے -روزنامہ جسارت  نے دکانداروں کی بے بسی تحریر کی ہے آپ  بھی پڑھئے -سندھ حکومت کی عدم توجہی کے باعث کریم آباد انڈر پاس کی تعمیر دکانداروں کے لیے وبال جان بن گیا ہے انڈر پاس کی تعمیرات کے باعث رمضان المبارک کے دوران تاجراور دکاندار اپنا کاروبار مکمل طور پر نہیں کر سکیں گے دکانداروں کو اپنی دکان کا کرایہ اور سیلز مین کی ماہانہ تنخواہ نکالنا مشکل ہو گیا۔دکانداروں اور سیلز مینوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔ کریم آباد مارکیٹ کے تاجر شدید پریشان ہیں کہ یہ انڈر پاس کب مکمل ہوگا، کریم آباد کے اطراف میں موجود مارکیٹوں کے تاجر اور رہائشی ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔کریم آباد مارکیٹ کے دکاندار نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری دکان میں 6 سیلزمین تھے جس میں سے چار سیلز مین کو فارغ کر دیا ہے ہمیں اپنی دکان کا کرایہ نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔


دکانوں کے کرائے 80 ہزار روپے تک ہیں جب ہمارے پاس کسٹمر نہیں آئیں گے تو ہماری دکانداری کیسے چلے گی ؟دکانوں کا کرایہ سیلزمین بجلی کا بل اور دیگر اخراجات کیسے پورا کریں گے ؟کریم آباد انڈر پاس کی تعمیرات کے باعث ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا ہے ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے ۔انہوں کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کے اطراف میں 35 سے زاید صرف اسپورٹس کی دکانیں ہیں اس کے علاوہ مینا بازار فوٹو اسٹیٹ کی مشینیں فیصل بازار اور اس طرح کے دیگردکانیں اور بازار موجود ہیں سب کا کاروبار تباہ ہو گیا ہے جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلا وجہ انڈر پاس کے نام پر سڑک کو کھود کر چھوڑ دیا گیا ہے ۔تاجروں کا کہنا ہے کہ جب سندھ کا وزیر اعلیٰ پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے ،پاکستان کا صدر پیپلز پارٹی کا ہے ،وزیر بلدیات پیپلز پارٹی کا ہے اور میئر کراچی بھی پیپلز پارٹی کا ہے تو اب کسی فنڈز کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے،


 جب جناح ایونیو اسلام آباد کا انڈر پاس 42 دنوں میں مکمل ہوسکتا ہے تو کیوں کراچی کا کریم آباد انٹر پاس ڈیڑھ سال بعد بھی نا مکمل ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم دکاندار بے روزگاری کے آخری نہج پر آچکے ہیں ،ہمارا گزارا مشکل ہو گیا ہے ہمارا معاشی قتل عام بن کیا جائے اور ہمیں اپنی دکانوں میں اسانی کے ساتھ دوکانداری کرنے دی جائے جتنی جلدی ہو سکے سندھ حکومت کے ڈی اے اس منصوبے کو مکمل کریں دوکاندار نے کہا کہ میئر کراچی بھی کریم آباد انڈر پاس چورنگی پر تشریف لائے تھے اور فوٹو سیشن کر کے چلے گئے پیپلز پارٹی کا المیہ ہے کہ یہ پارٹی خود کوئی کام نہ کرتی ہے اور نہ کسی اور کو کرنے دیتی ہے انہوں نے کہا کہ ہم اپنی مدد اپ کے تحت سڑکوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ملبے ڈال رہے ہیں میری بلاول بھٹو زرداری سے گزارش ہے کہ وہ یہاں آئیں اور دیکھیں کہ دکاندار کتنے پریشان ہیں رمضان المبارک کی امد امد ہے اور ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہے ہمیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے روزی روٹی کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔


انہوں نے کہا کہ کریم آباد کراچی کی مشہور مارکیٹ ہے لیکن انڈر پاس کی تعمیرات میں تاخیر اور سڑکوں پر پڑے گڑھوں کے باعث لوگوں نے کریم آباد مارکیٹ کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔واضح رہے کہ کریم اباد چورنگی پر عثمان میموریل اسپتال سے ضیاء الدین اسپتال جانے اور انے والے دونوں ٹریک کے لیے تقریبا ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس بنایا جا رہا ہے کریم اباد چورنگی پر زیر تعمیر انڈر پاس کی تاخیر کے باعث لاگت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے منصوبہ شروع ہوتے وقت اصل تخمینہ ایک ارب 35 کروڑ روپے تھا جو بڑھ کر 4 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے کریم اباد انڈر پاس منصوبہ کے لیے فنڈ محکمہ لوکل گورنمنٹ سندھ فراہم کر رہی ہے اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی اے انڈر پاس کی تعمیر کر رہی ہے جبکہ کام کا اغاز اپریل 2023 میں ہوا تھا اور اپریل 2025 پہ مکمل کیا جانا ہے تاہم اب تک 35 فیصد کام مکمل ہوا ہے اورابھی تک انڈر پاس کی کھدائی کا کام بھی مکمل نہیں ہوا سکا ہیتقریبا ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس کو 24 ماہ میں مکمل کرنے کا دعوی کیا گیا تھا جو تاحال نامکمل ہے اس حوالے سے روزنامہ جسارت نے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان سے انڈر پاس کے حوالے سے موقف جاننے کی کوشش کی تاہم انہوں نے فون کال اٹینڈ نہیں کی۔

عمر خیام شہرت کی آفاقی بلندی پر

   خیام 427 ہجری شمسی میں خراسان کبیر کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئےخیام بن ابراہیم نیشا پوری،ایران کے عظیم شاعر، دانشور، ریاضی داں، منجم اور فلاسفرہیں جن کی شہرت  ایران کی قلمرو سے ماورا ہے اور آج بھی شعرو ادب اور علم وحکمت کے شیدائیوں کے قلب وذہن پر ان کی حکمرانی باقی ہے۔  اگر غور کیا جائے تو دنیا میں کسی شاعر کو اتنی مقبولیت نہ ملی  ہو گی  جتنی خیّام خیمہ دوز کو ملی۔‘‘ دراصل خیّام کے معنی، خیمہ بنانے والے کے ہیں اور یہ اُن کا خاندانی پیشہ تھا۔ اُردو نظم کے عظیم شاعر، میراجی نے جہاں دنیا بھر کے عظیم شعراء کے کلام کے تراجم کیے، وہیں ’’خیمے کے آس پاس‘‘ کے نام سے ’’رباعیاتِ خیّام‘‘ کا ترجمہ بھی کیا اور یہ وہی کام ہے، جو انگریزی میں فٹز جیرالڈ نے سرانجام دیا تھا؎ جاگو، سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دُور بھگایا ہے..... اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے..... جاگو، اب جاگو، دھرتی پر اس آن سے سورج آیا ہے.....راجا کے محل کے کنگورے پر اجول کا تیر چلایا ہے۔


 خیام کا شمار دنیا کے عظیم شاعروں ، دانشوروں، حکما اور فلاسفروں  میں ہوتا ہے  اور انہیں ریاضی اور علم نجوم میں بھی مہارت حاصل تھی ۔عمرخیام کی رباعیات کا دنیا کی تقریبا سبھی قابل زکر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ انھوں ابتدا تعلیم منجملہ،قرآن پڑھنا، عربی ، فارسی، ریاضی اور فقہی احکام کی تعلیم نیشا پور میں حاصل کی-  ایک   شاعرنے خیّام  کے لئے کہا ہےکس کی کھوج میں گُم صُم ہو، خوابوں کے شکاری، جاگو بھی.....اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چُکا۔آغا شاعر قزلباش نے 1932ء میں ’’خم کدۂ خیّام‘‘ کے عنوان سے خیّام کی200رباعیوں کا ترجمہ کیا،جن میں سے ایک رباعی کا ترجمہ اس طرح ہے؎ آئی یہ صدا صبح کو مئے خانے سے..... اے رندِ شراب خوار، دیوانے سے.....اُٹھ جلد بھریں شراب سے ساغر ہم..... کم بخت چھلک نہ جائے پیمانے سے۔ اِسی طرح برصغیر پاک و ہند کے درجنوں شعراء نے خیّام کی شاعری کے ترجمے اُردو زبان میں علم حضوری  کے مراحل  میں خواجہ ابولحسن انباری سے ریاضیات اور ہندسہ کے بنیادی اصول سیکھے


اور پھر حکمت، فلسفے، عرفان اور اخلاقی علوم نیز قرآن کریم کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے مکتب امام موفق نیشابوری میں داخلہ لیا اور زیور علم ودانش اور اخلاقیات سے آراستہ ہوئے۔     خیام نے نوجوانی میں ہی فلسفے اور علوم ریاضی میں تبحر حاصل کرلیا اور مزید علوم حاصل کرنے کے لئے 461 ہجری میں  نیشاپور سے سمر قند گئے ۔وہ سمرقند سے اصفہان گئے جہاں اپنے اٹھارہ سا لہ قیام کے دوران ملک شاہ کے فرمان پر بننے والی رصد گاہ میں علم نجوم کی تحقیقات میں مصروف رہے۔   پھر جب ملک شاہ کے ورثا میں سلطنت کے لئے لڑائی شروع ہوئی اور علمی فروغ کے مسائل پس پشت ڈال دیئے گئے تو خیام اصفہان سے خرسان روانہ ہوگئے اور اپنی عمر کے باقی ایام مرو سمیت خراسان کے اہم شہروں میں گزارے اور ان کے زیادہ تر علمی کارنامے اصفہان سے واپسی پرخراسان میں ہی  انجام پائے ہیں۔عمرخیام نیشاپوری کا فلسفہ ہمیشہ  پرکشش رہا ہے ۔ جب کہ مغرب میں جیرالڈ کی وجہ سے خیّام کی شہرت اس قدر پھیلی کہ اُن کا نام خمریات کی علامت بن گیا۔


 یوں بھی شراب ان اقوام کی زندگی کا جزوِ لازم، تو خیّام کی شاعری کا بنیادی استعارہ تھی۔خیّام نے مئے خانہ، جام، پیمانہ، پیالہ اور ساقی جیسی لفظیات سے ذکرِ معرفت، سرمستی اور عشق میں ڈوب جانے کی کیفیات کو رباعیات کا موضوع بنایا، تو عیش و عشرت کی دل دادہ یورپ کی اقوام نے اسے مئے نوشی اور وہ بھی بلانوشی سے تعبیر کیا، لہٰذا خیّام کے نام سے شراب خانے، جوا خانے اور نائٹ کلب بناڈالے،عمر خیّام کی سحر انگیز شخصیت پر متعدد ناولز بھی لکھے گئے پورے یورپ میں ایک عرصہ دراز تک انکی  رباعیات کی دھوم رہی ۔ اُن کے اشعار پر انگریزی کے معروف ادیبوں یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی، اسٹیون کنگ اور دیگر نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے، وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیومنرو نے عمر خیّام سے متاثر ہو کر اپنا قلمی نام ہی ’’ساقی‘‘ رکھ لیا۔ اور خیّام کی شہرت صرف یہیں تک محدود نہیں، اُن کی زندگی پر ہالی وڈ کی متعدد فلمیں بھی بن چکی ہیں۔


خیّام کی کتب کے قدیم نسخےعمر خیّام نے اپنی کئی کتب کی نقول تیار کروا کر اپنے عہد کے نام وَر اہلِ علم کو بھیجیں۔ بادشاہوں کے درباروں تک اُن کی رسائی کا اہتمام کیا۔ کتب خانوں تک پہنچائیں، مگر اپنی رباعیات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اس وقت دنیا میں اُس کی رباعیات کا جو سب سے پرانا نسخہ موجود ہے، وہ 1207ء کا ہے  -گوگل ڈوڈل نے کو معروف عالم، فلسفی اور شاعر ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری کو عالمی سطح پر ان کے 971 ویں یوم پیدائش پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کا باعث ان کی رباعیاں بنیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ عمر خیام کی ایک ہزار سال بعد بھی پزیرائی ہو رہی ہے۔ سنہ 1970 میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے جبکہ سنہ 1980 میں ایک سیارچے (3095) کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔عمر خیام کے اشعار پر انگریزی کے معروف شاعر یوجین او نیل، اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ وغیرہ نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیو منرو نے عمر خیام سے متاثر ہوکر اپنا قلمی نام ہی 'ساقی' رکھ لیا۔خیام کا انتقال 1123 عیسوی میں نیشاپور میں ہوا اور وہیں سپردخاک کئے گئے ۔نیشاپور میں خیام کی آخری آرامگاہ آج بھی سیاحوں اور علم دوست حلقوں کا مرکز  نگاہ مانی جاتی ہے

مضمون انٹر نیٹ سے حاصل کردہ معلومات نیز اپنی یاداشت میں محفوظ یادوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے-کیونکہ میری والدہ اور دادی محترمہ کا تعلق ایران سے تھا جس کے سبب ہمارے گھر میں اردو کے ساتھ فارسی ادب بھی موجود تھا

اتوار، 2 فروری، 2025

تمنائے علی ع ''غازی عباس علمدار"ولادت مبارک

 

حضرت عباس   علدار  کی ولادت باسعادت چار شعبان المعظم 26ھ کو ہوئی۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک  آپ  کے بھائی   حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت مودت محبت اور عقیدت تھی۔ علی بن ابی طالب نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب نے  غازی عباس کی تربیت و پرورش کے درمیان   فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف  پرخصوصی توجہ دی تھی   ۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدرؑ کہلانے لگے۔ عباس بن علی بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لیے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لیے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔


 لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے اور اسی لیے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے۔ آپ عرب اور بنو ہاشمؑ کے خوبصورت ترین ہستیوں میں سے تھے۔ اسی لیے آپ کو قمر بنی ہاشمؑ بھی کہا جاتا ہے۔آپ ایسے امام زادے ہیں جن کے لئے معصومین علیہم السلام کی جانب سے تقریبا 11 زیارتنامے وارد ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف وہ زیارت ہے جو فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی وارد ہوئی ہے۔ ’’السلام یا ایھا العبد الصالح المطیع للہ و لرسولہ‘‘امام جعفر صادق علیہ السلام آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں فرماتے ہیں: کانَ عَمُّنَا العَبّاسُ بنُ عَلِیٍّ نافِذَ البَصیرَةِ صُلبَ الإیمانِ جاهَدَ مَعَ أبی عَبدِاللّه ِ و أبلی بَلاءً حَسَنا و مَضی شَهیدَا؛ ہمارے چچا عباس بن علی اعلیٰ بصیرت اور پختہ ایمان کے حامل تھے، جنہوں نے ابو عبد اللہ (امام حسین) کی رکاب میں جہاد کیا اور امتحان میں سرخرو ہوئے اور پھر شہادت پائی۔ (عمدة الطّالب ، ص 356  آپ نے سنہ ۶۱ ہجری میں فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ میدان کربلا میں دس محرم کو شہادت پائی۔وقتِ شہادت آپ کی عمر چونتیس سال بتائی جاتی ہے۔


آپ کے القاب میں سقہ، علمدار ، قمر بنی ہاشم اور عبد صالح زیادہ معروف ہیں۔ جناب ابوالفضل العباس علیہ السلا م    کی ولادت با سعادت 4 شعبان المعظم سنہ 26 ہجری کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔سنہ 61 ہجری میں روز عاشور امام حسین علیہ السلام کے  ہمراہ شہادت پائی۔آپ کی کل عمر 32 یا 34 برس بتائی جاتی ہے۔آپکے پدر بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام   نے آپ  کا نام مبارک ’’عباس‘‘ خود پنے چچا عباس بن عبد المطلب کے نام پر رکھا۔آپ کے القاب میں قمر بنی ہاشم، باب الحوائج، سقا، علمدار کربلا اور عبد صابر زیادہ معروف ہیں۔امیرالمومنین علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: «اِنَّ وَلَدِی الْعَبّاس زَقَّ الْعِلْمَ زَقّاً» میرے فرزند عباس نے اس طریقے سے مجھ سے علم و دانش حاصل کیا جس طرح پرندے کا ایک بچہ اپنی ماں سے دانہ پانی حاصل کرتا ہے۔ (مقرّم، مقتل الحسین، بیروت، دارالکتاب، ص 169/ سیمای امام حسین ع، ص 182.)لقب ’’باب الحوائج‘‘ آپ کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اُس وقت ملا جب آپ کریم اہلبیت کے عطا کردہ تحائف، ہدایا اور اشیاء کو مستحق افراد کے درمیان تقسیم فرمایا کرتے تھے۔آپ کی ذات گرامی کی نمایاں ترین صفت اپنے امام کا مطیعِ محض ہونا ہے۔


 چاہے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی حیات طیبہ کا دور ہو یا اسکے بعد آپ کی شہادت کے موقع پر پیش آنے والے دردناک واقعات ہوں، سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ ہو یا پھر روز عاشور پیش آنے والے واقعات، آپ سراپا اطاعت تھے۔آپ کی ذات والا صفات امام حسین علیہ السلام کے لئے اُسی مقام کی حامل تھی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی ذات کے لئے امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت حامل تھی۔امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں آپ بڑی قدر و منزلت کے حامل تھے، اس طرح کہ آپ جناب عباس علیہ السلام سے فرمایا کرتے تھے: بنفسی انت؛ یعنی میری جان تم پر قربان۔ اور آپ کی شہادت کے بعد فرمایا کہ ’’ألآن إنکسر ظھری یا أخی‘‘؛یعنی اے میرے بھائی اب میری کمر ٹوٹ گئی۔آپ ایسے امام زادے ہیں جن کے لئے معصومین علیہم السلام کی جانب سے تقریبا 11 زیارتنامے وارد ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف وہ زیارت ہے جو فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی وارد ہوئی ہے۔


 ’’السلام یا ایھا العبد الصالح المطیع للہ و لرسولہ‘‘امام جعفر صادق علیہ السلام آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں فرماتے ہیں: کانَ عَمُّنَا العَبّاسُ بنُ عَلِیٍّ نافِذَ البَصیرَةِ صُلبَ الإیمانِ جاهَدَ مَعَ أبی عَبدِاللّه ِ و أبلی بَلاءً حَسَنا و مَضی شَهیدَا؛ ہمارے چچا عباس بن علی اعلیٰ بصیرت اور پختہ ایمان کے حامل تھے، جنہوں نے ابو عبد اللہ (امام حسین) کی رکاب میں جہاد کیا اور امتحان میں سرخرو ہوئے اور پھر شہادت پائی۔ (عمدة الطّالب ، ص 356 آپ نے سنہ ۶۱ ہجری میں فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ میدان کربلا میں دس محرم کو شہادت پائی۔وقتِ شہادت آپ کی عمر چونتیس سال بتائی جاتی ہے۔آپ کے القاب میں سقہ، علمدار ، قمر بنی ہاشم اور عبد صالح زیادہ معروف ہیں۔ابو الفرج اصفہانی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں تحریر کرتے ہیں: عباس بن علی ایک حسین و جمیل صورت کے مالک تھے اور جس وقت آپ گھوڑے پر سوار ہوتے تھے تو آپ کے قدمہائے مبارک زمین پر خط دیا کرتے تھے۔صاحب منتہی الارب کے مطابق  لفظ عباس در حقیقت صیغۂ مبالغہ ہے اور بے مثل و نظیر شجاعت و دلاوری کے باعث فرزند علی (ع) کو عباس کہا جاتا تھا جس کا مطلب ہوتا ہے کچھار میں بیٹھا ہوا شیر۔  واقعہ کربلا سے آشنا ہر شخص حضرت ابوالفضل العباس بن علی علیہما السلام کی ذات والا صفات کی بے نظیر قدر و منزلت، عظمت، شجاعت، جذبۂ اطاعت اور ایثار و فداکاری سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔فرزند رسول سید الشہدا امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جیسے اصحاب مجھے ملے ایسے نہ میرے نانا رسول خدا کو ملے نہ میرے بابا علی مرتضیٰ کو ملے۔شب عاشو راصحاب و انصار میں سب سے پہلے جس شخصیت نے اعلانِ وفاداری کیا وہ حضرت عباس علیہ السلام کی ذات والا صفات تھی۔

ہفتہ، 1 فروری، 2025

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -میرے بچپن کی روداد زندگانی

  


لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردِشِ ایّا م تو-
اپنی کتاب زندگی شروع کرتے ہوئے  اپنی معلوم یاداشت میں اپنے بچپن کا بس ایک ہلکا سا وہ خاکہ محفوظ ہے جب میرے  والد کی بیماری کے سبب  انکی  ائر فورس کی سروس ختم ہوئ  اور پھر ہماری ائرفورس چھاؤ نی کی رہائش  سےبھی   ماورائ طاقتوں نے ہمیں بے دخل کروا کر ہی چھوڑا کیونکہ میرے چھ برس کے  بھائ جان ان طاقتوں کے نشانے پر آ چکے تھےپھر ہم سب کو  میرے والد اپنے ایک دوست حفیظ اللہ   صاحب کے گھر لے آئے  اور یہاں سے  ہمارا اگلا آزمائشی زندگی کا سفر شروع ہوا - مجھے اچھی طرح یاد ہے  جب  میرے   والدین نے لالوکھیت ڈاکخانے سے''اب اس مکان میں جاوداں سیمنٹ  ڈپو ہے '' لالوکھیت چار نمبر نقل مکانی کی تھی اس دور میں کراچی میں سائیکل رکشا کا رواج تھا اور میں بھی اسی سائیکل رکشا میں    اپنے بھائ جان کے ساتھ اپنے  والدین کے محسن بابو بھا ئ کے ساتھ ہاتھ رکشہ میں  بیٹھی  تھی میرا خیال ہے کہ بابو بھائ کی عمر اس وقت تیرہ یا چودہ برس ہوگی وہ اپنی بڑی بہن اور بہنوئ کے ساتھ رہتے تھےسائیکل رکشہ میں کئ چھوٹے بڑے موجود تھے اور جب سائیکل رکشہ نےچلنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ہر گاڑی جیسے مجھے کچلنے کو بڑھی چلی آ رہی ہے میں رونے لگی تو بابو بھائ نے کہا تم اپنی آنکھین بند کر لواور پھر میں نے ڈر کے مارے تمام راستے اپنی آنکھین بند رکھّی تھیں -جب ہما را تنکوں سے بنا آشیانہ آ گیا تو بابو بھائ نےکہا سب بچّے اٹھ جائیں گھر آ گیا ہے


بابو بھائ نے ہمیں رکشہ سے اتارا اور رکشہ والے کو کرایہ دے کر ہم بچّو ں کو اندر لائے ، مجھے اپنے بچپن کے یہ دن بھلائے نہیں بھولے کیونکہ یہ دور بہت ہی نا آسودہ اور مشکل دور تھا اس دور کے خوف بھی عجیب تھے ،راتوں کوبھیڑیوں کے غول کے غول جھگیّوں کے آس پاس اپنی مکروہ آوازوں میں بولتے ہوئے اور غرّاتے ہوئے پھرتے تھے- اس پر گھر کے بڑوں نے یہ باور کروا دیا تھا کہ بھیڑئے بچّوں کو منہ میں دبا کر اٹھا لے جاتے ہیں ہمارے بڑوں نے ہمیں اس لئے ڈرایا تھا کہ ہم بچّے دن میں گھر سے باہر نہیں پھریں لیکن اس ڈرانے کا نتیجہ میرے اوپر یہ ہوا کہ میں راتوں کو ڈر کے مارے جاگنے لگی،مجھے  چھاؤنی  کی رہا ئش میں کبھی بھی ڈر یا خوف لاحق نہیں ہوا تھا لیکن لالوکھیت چار نمبر میں یہ خوف مستقل میرے زہن سے چپک گیا تھا کہ کسی رات کو بھیڑیا مجھے بھی سوتے میں اپنے منہ میں دبا کر چل دے گا اور یہ خوف مجھے ساری ساری رات جگائے رکھتا تھا ،لیکن زندگی کو بچّوں کی نفسیا ت کا یہ تجربہ بھی دے گیا کہ بچّے کی سوچوں کی دنیا صرف اپنی زات کے گرد ہی گھومتی ہے ،میں یہ کیوں نہیں سوچتی تھی کہ بھیڑیا میری چھوٹی بہن یا ننھے بھائ کو بھی تو لے جاسکتا ہے ڈر تھا تو بس اس بات کاکہ بھیڑیا مجھے لے جائے گااور پھر کھا جائے گا  -


بہر حال وہ کڑا وقت بھی آخر گزر ہی رہاتھا اور ابتدائ تعلیمی سفر بھی شروع ہو چکاتھا اس زمانے میں رواج تھا کہ بچّے کو پہلے گھر پر ہی تین یا چار جماعتیں پڑھائ جاتی تھیں پھر اسکول میں داخلہ ہوتا تھا ،یہ بچّے اور اس کے گھر والوں کے لئے ایک اعزاز کی بات تھی کہ وہ گھر سے اتنا سیکھ کر اسکول آیا ہے چنانچہ میری تعلیمی زندگی کی باگ ڈور حسب حال میری والدہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ،اب تختی کے ایک جانب وہ گہری کالی پنسل سےالف ب لکھتی تھی اور دوسری جانب ایک سے دس تک گنتی ہوتی تھی اور ان کے لکھے ہوئے پر برو کے قلم کو دوات میں ڈبو کر پھر اسے احتیاط سے نکال کر کہ سیاہی ادھر ادھر گرے نہیں-مجھے ان کی تحریر پر قلم سے لکھنا ہوتا تھا-میں اپنی پیاری ماں کے کہنے کے مطابق کام کر لیا کرتی تھی ،پھر تختی کی تحریر سوکھنے  کے لئے  کسی کھلی جگہ  رکھ  دینی ہوتی تھی جب میری امی جان گھر کے کام کاج سے فراغت پا لیتی تھیں تب ہم بہن بھائیوں کی  تختیاں چیک کرتی تھیں -اس چیکنگ کے بعد پھر ہم کو اپنی اپنی تختیوں کی دھلائ کر نی ہوتی تھی 'یعنی ملتانی مٹی کو ایک کاٹن کا  رومال لے کر  اپنی گیلی تختی پر آہستہ آ ہستہ رگڑ کر صاف کرکے دھونا اور  دوبارہ اس پر  ملتانی مٹی کا لیپ  کر کے  ا گلے وقت کے لئے تیار کرنا ہوتا تھا -


اس زمانے میں  بچوں کوپنسل   تیسری جماعت سے استعمال  کر نے کی  اجازت   ہوتی تھی  ،پڑھنے لکھنے کے علاوہ میرا اہم کام اپنے والدین کے گھر تین برس یا اس کچھ کم یا اس کچھ زیادہ کی مدّت پر آنے والے اپنے چھوٹے بھائیوں کی دیکھ بھال تھی اور اب میرے مشاغل میں ایک نئ مصروفیت یہ شامل ہوئ تھی کہ   جب  میرا لکھنے پڑھنے کا ٹائم پورا ہو تا تھا  تب میں اپنے گود کے بھائ کو اٹھا کر اپنے ان پڑوسیوں کے گھر چلی جاتی تھی جہاں جانے کی اجازت والدہ نے مجھے دی ہوئ تھی کیونکہ میں نے  اردو  بہت جلد پڑھنی سیکھ لی تھی اور وہ دو گھر ایسے تھے جہاں مجھے بچوں کی کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کو مل  جاتی تھی  ان دو گھروں میں ایک امینہ آپا کے چھوٹے بھائ حسن بھائ تھے جو مجھ سے سال بھر بڑ ے تھے اور دوسرا گھر  سلیم 'اسلم کا تھا اس گھر کے سربراہ جنگ اخبار کے کاتب تھے جو بہت باریک قلم سے خبریں لکھا کرتے تھے -  ابھی میرا اسکول میں داخلہ نہیں ہواتھا اور میں تیسری کلاس کا کورس گھر پر پڑھ رہی تھی- کہ میری ایک پڑوسن نے جب میں ان کے گھر پہنچی مجھ سے کہا جاؤ اور اپنی امّی سے راشن کارڈ لے کر آؤ ہم دودھ لینے جارہے ہیں میں الٹے پیروں گھر آئ اور امّی جان سے کہا ،خالہ راشن کارڈ منگا رہی ہیں آ پ بھیّا کو دیکھ لیجئے میں خالہ کے ساتھ دودھ لینے جا رہی ہوں ،خالہ نے راشن کارڈ اپنے کپڑے سے بنے ہو ئے تھیلے میں رکھا اور مجھے ساتھ لیا اور گھر سے نکل کرحب ندی  کی سمت سفر کرتے ہوئے ناظم آباد کے علاقے میں ایک بنگلے پر پہنچیں 


وہاں لاتعداد مہاجر آئے تھے عورتوں کی قطار الگ تھی مردوں کی قطار الگ تھی راشن کارڈ پر تصدیق کر نے والون کا ایک الگ کاؤنٹر تھا ہر گھر کا صرف ایک ہی فرد اپنے راشن کارڈ پر حکومت کے مقرّر کردہ کوٹے کے مطابق ہی دودھ لے سکتا تھا اس کے لئے سب سے پہلے گھر کے افراد کا ندراج رجسٹر پر ہو رہا تھا اور اسی حساب کے مطابق دودھ کی مقدار دی جارہی تھی-دودھ لانے کا سلسلہ تقریباً سوا سال سے  کچھ اوپر چلتا رہا پھر میرا اسکول میں داخلہ ہو گیا جس کے سبب دودھ لانے کا سلسلہ موقوف ہو گیا ٍ-لیکن  اس چھوٹے سے سفر میں جس کے درمیان حب ندی آتی تھی  میں دیکھتی تھی ندی کے اس پار لاکھوں جھگیاں اور ندی کے اس پار خوبصورت نئے نئے بنگلے 'دراصل ناظم آباد ان دنوں نیا نیا آبا د ہورہاتھی  بہر حال میرے دل میں ایک  خیال کا کوندا لپکتا کاش میں کسی بنگلے میں اندر جا کر  چھپ جاوں پھر باہر واپس نا آؤں لیکن میرے اس  مفسد خیال  کو میری  اس نگراں خالہ   نے عملی جامہ پہننے کا موقع نہیں دیا 









جمعہ، 31 جنوری، 2025

کہاں سے شروع کہاں پہ ختم -ایمیزون جنگلات

     شمالی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں کی طرف کا ایک غیرمعمولی بڑا جنگلاتی علاقہ ہے جو دریائے ایمیزون کو بھی عبور کرتا ہے اسی کو ایمیزون کا جنگل کہتے ہیں۔ ایمیزون  جنگل دنیا کے9 ممالک کی حدود میں واقع ہے۔ ان ممالک میں برازیل، فرانسیسی گیانا، ایکواڈور، گیانا، کولمبیا، ونزویلا، بولیویا، پیرو اور سرینام کے کچھ حصے شامل ہیں۔ ایمزون جنگل کا بہت بڑا حصہ برازیل میں واقع ہے جو پچاس فیصد سے زائد ہے۔ وسطیٰ ایمیزون میں درجہ حرارت 30ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جبکہ ایمیزون کے مغربی حصہ میں درجہ حرارت 25ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ایمیزون جنگل کا رقبہ2,510,000 مربع میل ہے جو کہ آسٹریلیا کے رقبہ کے تقریبا ًبرابر ہے۔ دنیا کی زندہ حیات کا نصف اسی جنگل میں پایا جاتا ہے ۔ ایمیزون جنگل کے بارے میں    انتہائی حیرت انگیز حقائق مختلف تحقیقی رپورٹوں کی روشنی میں سامنے آئے ہیں  ۔ ان کے مطابق ایمزون ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ’’لڑاکوجھگڑالو عورت‘‘ ہے۔ یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔ زمین کی20 فیصد آکسیجن اسی جنگل کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں۔ دنیا کے چالیس فیصد جانور، پرند، چرند، حشرات العرض ایمزون میں پائے جاتے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی25 لاکھ سے زائد اقسام، پرندوں کی1500 اور دریا، ندیوں میں مچھلیوں کی دو ہزار سے زائد اقسام یہاں پائی جاتی ہیں۔ ایسے زہریلے حشرات العرض یہاں پائے جاتے ہیں کہ کاٹ لینے کی صورت میں چند منٹوں میں انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایمیزون جنگل کی سب سے خوفناک بات وہاں کی جانورخور مکڑیاں ہیں جو اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں کو موقع ملتے ہی دبوچ کر ہلاک کردیتی ہیں۔ جانوروں کو سورج کی دھوپ لینے کے لئے اونچے اونچے درختوں پر چڑھنا پڑھتا ہے۔ بندر خاص طور پر ایسا کرتے ہیں۔ وہاں 9 میٹر سے زائد لمبے سانپ تو عام پائے جاتے ہیں جو اپنی ہیبت اور شکل سے ہی جان لیوا دکھائی دیتے ہیں۔ 1922ء میں وکٹر ہائنٹس نامی پادری جب دریا ایمیزون کی طرف گیا تو اس نے دریا میں تیرتے ایسے سانپ کو دیکھا جس کی آنکھیں اتنی بڑی تھیں کہ بوٹ کی روشینیوں کی مانند لگتی تھیں۔



 ایمزون کے جنگل کو اگر قدرتی عجوبہ قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا ۔ کیڑے مکوڑوں، پرندوں، چرندوں، جانوروں کی ایسی ہزاروں مخلوق موجود ہیں جن کو ابھی تک کوئی نام نہیں دیا جاسکا۔ ایمیزون کے جنگل میں آج بھی وحشی اور انسان خور قبائل موجود ہیں جو انسانوں کو کھاتے ہیں ۔ جنگل میں موجود ان قبائل کی تعداد400 بتائی جاتی ہے جن کی کل آبادی چالیس لاکھ سے زائد ہے۔ جب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہو تو تب بھی ایمیزون کے جنگل کا بڑا حصہ اس قدر تاریکی میں ڈوبا ہوتا ہے کہ ٹارچ کے ساتھ آپ کو زمین دیکھنی پڑتی ہے۔ جنگل کے کچھ حصے اس قدر گھنے ہوتے ہیں کہ اگر ایک انسان جنگل کے ایک حصہ میں کھڑا ہو اور بارش شروع ہوجائے تو اس تک بارش کے قطرے دس سے پندرہ منٹ تک پہنچیں گے، ایمیزون کے جنگل بارے بہت کچھ جاننے کی کوششیں جاری ہیں اور بہت کچھ جانا بھی جاچکا ہے لیکن کل جنگل کے دس فیصد حصہ تک ہی رسائی ممکن ہوسکی ہے۔ ایمیزون جنگل کے بارے میں سائنس اور دیگر ذرائع کی تحقیق کے بعد جو اعدادو شمار اور حقائق منظر عام پر آئے ہیں اس سے اس جنگل کے خوفناک ہونے پر کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ اس علاقے کو ایمزونیا بھی کہا جاتا ہے۔


ایمیزون کے جنگلات میں درجنوں مہم جو گئے لیکن واپس نہیں لوٹے اور آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ آیا وہ درندوں کے ہاتھ لگے یا انسان خور وحشی قبائلیوں کی خوراک بن گئے۔ 2009ء میں سی این این کی ایک خبر نے سنسنی پھیلا دی جس کے مطابق برازیل کے ایک قبیلہ ’’کولینا‘‘ نے ایک انیس سالہ نوجوان کو اغوا کیا اور اس کے ٹکڑے کرکے اس کا کھا لیاگیا۔ وہ قبیلہ پیرو کی سرحد کے قریب رہتاتھا ۔ مقامی پولیس لڑکے کے اہل خانہ کے ساتھ اندر ان تک پہنچی تو وہاں اس کی کھوپڑی کو لٹکا دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوگئے اور الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کو ایسے قبائل تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح برازیل کا قانون بھی پولیس کو ایسے قبائلیوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ پیرو ملک کے ایمیزون جنگل کے ایک علاقہ میں ایک دریا بہتا ہے جو اتنا گرم ہے کہ اندر گرنے والا منٹوں ہی میں پانی میں گھل جاتا ہے۔ ابلتے پانی کی بھاپ ہمیشہ دریا کے کناروں پر بہتی رہتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو روحانی پانی مانتے ہوئے اس کے ارد گرد مختلف عبادتیں کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایمیزون کے جنگل میں اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو جدید زندگی سے خود کو دور رکھتے ہیں 


یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کو ایسے قبائل تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح برازیل کا قانون بھی پولیس کو ایسے قبائلیوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ پیرو ملک کے ایمیزون جنگل کے ایک علاقہ میں ایک دریا بہتا ہے جو اتنا گرم ہے کہ اندر گرنے والا منٹوں ہی میں پانی میں گھل جاتا ہے۔ ابلتے پانی کی بھاپ ہمیشہ دریا کے کناروں پر بہتی رہتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو روحانی پانی مانتے ہوئے اس کے ارد گرد مختلف عبادتیں کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایمیزون کے جنگل میں اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو جدید زندگی سے خود کو دور رکھتے ہیں اور ماضی کی طرح اپنے آباؤ اجداد کی طرح رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ جنگل سے باہر کے لوگوں سے رابطہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ایسے قبائل کی بڑی تعداد ایمیزون جنگل کے وسط میں رہتی ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ایسے الگ تھلگ رہنے والے قبائل کی تعداد 50 ہے۔ ایمیزون جنگل میں 180 کے قریب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جون اور اگست کے مہینوں میں ایمیزون جنگل کے کچھ قبائل کوارپ نامی جشن مناتے ہیں۔ اس موقع پر ہر قبیلہ اپنے رواج کے مطابق رقص، کھانا اور رسومات پیش کرتا ہے۔ اجنبی صرف قبائل کے راہنماؤں کی اجازت سے ہی ان کو دیکھ سکتے ہیں ۔ ان قبائل کے آس پاس بڑی تعداد میں ایسے قبائل بھی آباد ہیں جن کا جدید دنیا سے رابطے ہیںایمیزون جنگل    پاکستان کے رقبے سے 16 گنا بڑا ہے۔ایمیزو


 یہاں 40,000 سے زیادہ پودوں کی اقسام، 1,300 پرندوں کی اقسام، 3,000 مچھلیوں کی اقسام، اور 430 سے زیادہ میملز کی اقسام موجود ہیں۔ ایمیزون میں دنیا کے سب سے خطرناک جانور بھی پائے جاتے ہیں جیسے ایناکونڈا، پائرانا مچھلی، اور جنگلی تیندوا۔ایمیزون جنگلات کو دنیا کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین کی کل آکسیجن کا تقریباً 20% پیدا کرتے ہیں۔ایمیزون جنگلات میں روزانہ تقریباً 200 سے 300 ملی میٹر بارش ہوتی ہے، جو ان جنگلات کو ہمیشہ سرسبز اور شاداب رکھتی ہے۔ ایمیزون جنگلات میں گولیتھ مینڈک  پائے جاتے ہے جو دنیا کی سب سے بڑی مینڈک ہے۔ اس کا وزن 3.3 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔ ایمیزون جنگلات میں دنیا کے سب سے بڑے ہوائی جاندار بھی پائے جاتے ہیں، جیسے ہارپی ایگل، جو اپنے بڑے پروں اور طاقتور پنجوں کے لئے مشہور ہے۔   ایمیزون جنگلات میں دنیا کا سب سے لمبا سانپ، گرین ایناکونڈا، پایا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی 30 فٹ تک ہوسکتی ہے۔  ایمیزون جنگلات میں پایا جانے والا کیپوکھ درخت بہت بلند ہوتا ہے اور اس کی اونچائی 200 فٹ تک ہوسکتی ہے۔ جنگلات میں تقریباً 2.5 ملین کیڑوں کی اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے بہت سی ابھی بھی نامعلوم ہی۔یہ  جنگل دنیا کے تقریباً 20% کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا ہے، جو زمین کے موسمیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

 

ولاد ت با سعادت بی بی زینب سلام اللہ علیہا

 

 ولاد ت با سعادت بی بی زینب سلام اللہ علیہا -سیّدلاصفیا ء خاتم الانبیاء تاجدار دوعالم حضرت رسول خدا محمّد مصطفٰے صلّی ا للہ علیہ واٰلہ وسلّم کی پیاری بیٹی جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آغوش مبارک میں گلستان نبوّت کی ایک تروتازہ کلی نے آنکھ کھولی تو آ پ سے دو برس بڑے بھائ اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین کی انگلی تھام کر اپنی مادر گرامی کے حجرے میں آئے ،اور ننھی بہن کے ننّھے ملکوتی چہرے کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اپنے پدر گرامی مولائے متّقیان کو دیکھ کر مسکرائے  اور سلطان اولیاء مولائے کائنات نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے چھپاتے ہوئے فرمایا کہ ,حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تشریف لے آئیں توبچّی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے جس طرح اپنے نواسوں کے نام حسن وحسین تجویز کئے تھےنبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بی بی زینب کی ولاد ت کے وقت شہر مدینہ سے باہر حالتِ سفر تھے۔چنانچہ جب ہادئ دو جہاں  حضرت محمّد   صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تین دن کے بعدسفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ کےسلام اللہ علیہا کے  حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی


آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں  لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ  وسلّم  کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھااور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم سب انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں


 تاجدار دوعالم  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ  رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا بارگاہ ربّ العالمین سے حضرت جبرئیلِ امیں بچّی  کا  نام ‘‘ زینب ‘‘  لے کر آئےہیں یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا ،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے  جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔



اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ  درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ، بیت الشّرف  کی پاکیزہ  فضاؤں  میں پروان چڑھنے لگی چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے


 ،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو  اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے تھے۔ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا  رکھ دیا۔

جمعرات، 30 جنوری، 2025

جامع مسجد گوہر شاد ,علمی،سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز مقدس

 

 

مسجد گوہرشاد حرم علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام کے جنوب میں واقع ہے جس کو شاہ رخ کی اہلیہ گوہرشاد بیگم کے حکم سے تعمیر کی گیا تھا۔ ٹائل کے کام کی خوبصورتی اور اس مسجد کے طرز تعمیر کی وجہ سے ، گوہر شاد مسجد تیموری دور میں ایرانی فن تعمیر کے شاہکاروں میں سے ایک ہے ۔ اور علی بن موسیٰ الرضا علیہ سلام کی قبر مطہر سے نزدیک ترین ہونے کی وجہ سے ، اسے ایران کی سب سے اہم اور معروف ترین مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اس لیے کچھ لوگ اسے ایران کی سب سے زیادہ سیاحتی مسجد سمجھتے ہیں۔مسجد گوہر شاد مرکزی معمار غالباً قوام الدین شیرازی تھے جو تیموری دور کے مشہور ترین معماروں میں سے ایک تھے ۔ اسے ایران کی سب سے اہم اور معروف ترین مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہےبنیاد اور مقام یہ مسجد، رضوی مقبرے کے جنوب میں واقع ہے اور دارالسیاد اور دارالحفاظ کے حال سے متصل ہے۔ اس کا ایک صحن جس کا رقبہ 2800 مربع میٹر ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ 9400 مربع میٹر ہے۔ مسجد کی عمارت میں 4 بڑے ایوان اور 7 شبستان شامل ہیں۔ ایوان مقصورہ کے پیچھے کا گنبد مسجد کے مختلف حصوں کو ایک منزلہ شبستان کے ذریعہ سے جوڑتا ہے۔ جنوبی ایوان کو ایوان مقصورہ کہا گیا ہے اور شمالی، دارالسیاد کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مشرقی ایوان کو اعتکاف اور مغربی کا نام شیخ بہاؤ الدین ہے۔ جنوبی ایوان کے رسم الخط متن کے مطابق یہ مسجد 821قمری/ 1418 عیسوی میں گوہر شاد بیگم کے حکم سے تعمیر کی گئی اور گذشتہ سالوں میں اس مسجد کو بہت سے نقصانات پہنچے ہیں ۔ گوہرشاد مسجد کی تعمیر  تقریباً 12 سال تک جاری رہی  گوہر شاد مسجد کا اندرونی حصہ ایرانی کاریگروں کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے-گوہر شاد مسجد ایران کے صوبہ خراسان کے شہر مشہد کی ایک معروف مسلم عبادت گاہ ہے۔ یہ مسجد تیموری سلطنت کے دوسرے فرمانروا شاہ رخ تیموری کی اہلیہ گوہر شاد کے حکم پر 1418ء میں تعمیر کی گئی اور اسے اس وقت کے معروف ماہر تعمیر غوام الدین شیرازی نے تعمیر کیا جو تیموری عہد کی کئی عظیم الشان تعمیرات کے معمار بھی ہیں۔ صفوی اور قاچار دور میں اس مسجد میں تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا۔ مسجد میں 4 ایوان اور 50 ضرب 55 میٹر کا ایک وسیع صحن اور متعدد شبستان بھی ہیں۔ یہ مسجد 15 ویں صدی کی ایرانی تعمیرات کا اولین اور اب تک محفوظ شاہکار ہے۔ اس کے داخلی راستے میں سمرقندی انداز کی محراب در محراب ہیں جبکہ بلند مینار بھی اس کی شان و شوکت کو مزید بڑھاتے ہیں۔ ٹائل کے کام کی خوبصورتی اور اس مسجد کے طرز تعمیر کی وجہ سے ، گوہر شاد مسجد تیموری دور میں ایرانی فن تعمیر کے شاہکاروں میں سے ایک ہے ۔ اور علی بن موسیٰ الرضا علیہ سلام کی قبر مطہر سے نزدیک ترین ہونے کی وجہ سے ،، اس لیے کچھ لوگ اسے ایران کی سب سے زیادہ سیاحتی مسجد سمجھتے ہیں۔مسجدگوہرشاد کا نیلا فیروزی گنبد علی بن موسیٰ الرضا کے مزار کے گنبد سے متصل ہے۔ 


مقصورہ ایوان کا گنبد 1339 میں تعمیر نو کا کام ایرانی معماروں کے ذریعہ سے ، انجینئر عباس آفرندہ کی سرپرستی میں  شروع کیا گیا اور یہ 1341 میں مکمل ہوا۔ اور اسی زمانے میں ایوان کے اندر موجود چبوترے کے پتھروں کو تبدیل کر دیا گیا اور ایوان کے فرش کو سنگ مرمر کے پتھروں سے ڈھانپ دیا گیا اور 1345 شمسی میں گنبد کے ارد گرد کے حصوں کو خوبصورت ٹائلوں سے مزین کیا گیا۔ گوہرشاد کا نام خوبصورت ٹائلوں سے دو جگہوں پر لکھا گیا ہے : ایک چاندی کے دروازے کے اوپر جو دارالسیاد کی طرف جاتا ہے اور دوسرا ایوان مقصورہ پر، جو شہزادہ بائیسنقر کی خوبصورت تحریر کے ذریعہ لکھا ہوا ہے ۔ درمیانی حصے میں محمد رضا امامی کے نام کے نوشتہ جات ہیں ۔ اس مسجد کی تعمیر کا طریقہ چھار ایوان کی طرز کا ہے اور گذشتہ سالوں میں گنبد کی چار مرتبہ مرمت کی گئی ہے۔ اس عمارت کا طرز تعمیر تیموری طرز کا ہے اور اس کے معمار پروفیسر قوام الدین شیرازی کا نام ذکر کیا گیا ہے۔خصوصیات اور سجاوٹ-گوہرشاد مسجد ایک کلاسک مسجد ہے جو چار ایوان والی مساجد کی طرز پر بنائی گئی ہے۔ مسجد کا صحن تقریباً مربع شکل کا ہے اور چار بڑے تاریخی ایوان سے گھرا ہوا ہے اور ایوان کے درمیان فاصلے پر سات بڑے شبستان اور چھ داخلی اور خارجی دروازے ہیں۔مسجد کے صحن کی لمبائی تقریباً 56.13 میٹر اور چوڑائی 51.18 میٹر ہے اور کل رقبہ تقریباً 2873 مربع میٹر ہے۔ مسجد کے اطراف میں عالیشان اور اونچے ایوان ایک دوسرے کے متوازی بنائے گئے ہیں۔حرم امام رضا علیہ السلام کی مسجد گوہرشاد کے دینی مدرسہ کے طلباء،اساتذہ اورسربراہان کی آیت اللہ احمد مروی سے مسجد جامع گوہر شاد میں ملاقات ہوئی ،اس دوران آیت اللہ احمد مروی نے خراسان کی پوری تاریخ میں حرم امام رضا(ع) کی مسجد گوہرشاد کو طلباء کے بحث و مباحثے اور تعلقات عامہ کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسجد گوہر شاد ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے ،یہ مسجد خراسان  کی پوری تاریخ میں بہت ساری علمی اور سماجی تبدیلیوں کا مرکز رہی ہے ، اپنے قیام  سے لے کر تا دم تحریر پوری تاریخ میں یہ مسجد علمائے کرام اور دانشوروں کے سماجی روابط کے لئے بھی ایک اہم مرکز تھی۔انہوں نے عصری سماجی اور سیاسی تبدیلیوں میں مسجد جامع گوہر شاد کے اہم کردارکو بیان کرتے ہوئے مسجد گوہر شاد کی علمی اور سماجی سرگرمیوں کے احیاء کے سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تاکیدات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی سے پہلے بہت سارے علمائے کرام دینی دروس کی کلاسز کا انعقاد مسجد گوہر شاد میں کرتے تھے اور حتی مشہد مقدس کی اہم تقریبات بھی اسی مسجد میں منعقد ہوتی تھیں،ماضی میں مسجد گوہر شاد علمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔


 حرم امام رضا علیہ السلام کی مسجد گوہرشاد کے دینی مدرسہ کے طلباء،اساتذہ اورسربراہان کی آیت اللہ احمد مروی سے مسجد جامع گوہر شاد میں ملاقات ہوئی ،اس دوران آیت اللہ احمد مروی نے خراسان کی پوری تاریخ میں حرم امام رضا(ع) کی مسجد گوہرشاد کو طلباء کے بحث و مباحثے اور تعلقات عامہ کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسجد گوہر شاد ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے ،یہ مسجد خراسان  کی پوری تاریخ میں بہت ساری علمی اور سماجی تبدیلیوں کا مرکز رہی ہے ، اپنے قیام  سے لے کر تا دم تحریر پوری تاریخ میں یہ مسجد علمائے کرام اور دانشوروں کے سماجی روابط کے لئے بھی ایک اہم مرکز تھی۔انہوں نے عصری سماجی اور سیاسی تبدیلیوں میں مسجد جامع گوہر شاد کے اہم کردارکو بیان کرتے ہوئے مسجد گوہر شاد کی علمی اور سماجی سرگرمیوں کے احیاء کے سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تاکیدات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی سے پہلے بہت سارے علمائے کرام دینی دروس کی کلاسز کا انعقاد مسجد گوہر شاد میں کرتے تھے اور حتی مشہد مقدس کی اہم تقریبات بھی اسی مسجد میں منعقد ہوتی تھیں،ماضی میں مسجد گوہر شاد علمائے کرام اور طلباء کے لئے عصری، سیاسی،مذہبی اور علمی مباحث کا مرکز تھی،اس مسجد میں علمی و مذہبی تقریبات و پروگراموں کے علاوہ کئی بار سیاسی و سماجی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا ان کا کہنا تھا کہ مسجد گوہر شاد کی ان سرگرمیوں کو دوبارہ احیاء کیا جائے ،مسجد گوہر شاد کو ایک علمی مدرسہ بنایا جائے اورلوگ اس مسجد میں طالب علموں کودیکھیں۔حوزہ علمیہ مشہد مقدس کی سپریم کونسل کے رکن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حجت خدا اور ولی خدا اور عالم آل محمد(ص) کے جوار میں علمی گفتگو اور بحث و مباحثہ ہونا چاہئے ،


حرم امام رضا علیہ السلام میں ایک دینی مدرسے کا وجود اور علمی بحث و مباحثہ کا ہونا ضروری ہے ہم اس موضوع پرتاکید کرتے ہیں تاکہ اس پر خصوصی توجہ دی جائےانہوں نے مسجد گوہر شاد کو مرقد مطہر امام رضا(ع) کے جوار میں ہونے کی وجہ سے منفرد خصوصیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ حرم امام رضا علیہ السلام ایک بابرکت جگہ ہے جہاں امام رضا(ع) کی روح حکم فرما ہے،جہاں انبیائے کرام،اولیاء اللہ اور صدیقین کی روحوں کی آمد و رفت رہتی ہے ،زائرین اس مقدس مقام پر حاضر ہو کر بہت ساری برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں اوراپنے ایمان اور بندگی کو مضبوط بناتے ہیں ، اس ملکوتی بارگاہ کی روحانی فضا کی قداست انسان کوبالاترین کمالات تک پہنچاتی ہے اس لئے طلباء اس مسجد میں علمی بحث و مباحثہ کے ذریعہ اس کی برکات سے مسفید ہو سکتے ہیں ،اس ملکوتی فضا کی نورانیت؛ مطالب کو بہتر سمجھنے میں بہت زیادہ مؤثر ہے ۔


آیت اللہ مروی نے حرم امام رضا علیہ السلام کی مقدس اور بابرکت فضا کو طلاب اور لوگوں کے لئے تحصیل علم کا مرکز قرار دینے پر تاکید کی اور دینی مدارس کا شہروں کے مرکز میں تعمیر کرنے کا فلسفہ اور تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پوری تاریخ میں دینی مدارس کوبازاروں،چوراہوں اور شہر کے مرکزی راستوں پر تعمیر کیا جاتا تھا اور اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ دینی طلباء اپنی تعلیم کے آغاز سے ہی مختلف طبقے کے افراد کے ساتھ رابطے میں رہتے اور ان سے مختلف مہارتیں سیکھتے،حرم امام رضا علیہ السلام بھی طلاب اورمختلف طبقے کے افراد کے ساتھ رابطہ کا بہترین ذریعہ ہے جہاں پر طلباء بہت ساری مہارتیں سیکھ سکتے ہیں۔آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ علمی نشستوں کا انعقاد اور شرعی سوالات کے جوابات ایسے بہترین مواقع ہیں جن میں طلباء کا عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ رہتا ہے طلباء لوگوں کے سوالات اور مشکلات سے آگاہ رہتے ہیں اور وہ اعتراضات کے جوابات بہترین انداز میں دے سکتے ہیں۔اس اجلاس کے آغاز میں گوہر شاد مدرسے کے متعدد اساتذہ اور طلباء نے مدرسہ کی علمی سطح کو مضبوط بنانے اور اس کی دیگر سرگرمیوں کے حوالے سےاپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور تجاویز پیش کیں۔،اس مسجد میں علمی و مذہبی تقریبات و پروگراموں کے علاوہ کئی بار سیاسی و سماجی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا ان کا کہنا تھا کہ مسجد گوہر شاد کی ان سرگرمیوں کو دوبارہ احیاء کیا جائے ،مسجد گوہر شاد کو ایک علمی مدرسہ بنایا جائے اورلوگ اس مسجد میں طالب علموں کودیکھیں۔حوزہ علمیہ مشہد مقدس کی سپریم کونسل کے رکن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حجت خدا اور ولی خدا اور عالم آل محمد(ص) کے جوار میں علمی گفتگو اور بحث و مباحثہ ہونا چاہئے


میں نے یہ مضمون دو ایرانی ویب سائٹس کی مدد سے تیا کیا ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کا تاریخی سیٹھی ہاؤس معماروں کے زوق تعمیر کا اظہار

   پشاور کا تاریخی محلہ سیٹھیاں اور سیٹھی ہاؤس جسے دیکھ کر اس کے معماروں کا زوق تعمیر عروج پر نظر آتا ہے - اس بے نظیر محلے کی آباد کاری  اس ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر