منگل، 16 جولائی، 2024

عباس علمدارپیکر وفا و شجاعت کی مثال

 

حضرت غازی عباس علمدار  -تعا رف وسیرت وکردار  -حضرت عباس علیہ السلام کو ان دو کنیتوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ابو الفضل آپ کی اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے ایک بیٹے کا نام ''فضل'' تھا کہ جس کی وجہ سے آپ کی کنیت ابوالفضل مشہور ہے اور یہ کنیت حقیقت میں آپ کی ذات کے عین مطابق ہے کیونکہ ابوالفضل کا معنی ''جود و سخاوت کے مرکز'' ہے"حضرت عباس علیہ السلام کے لئے فقط یہ فخر ہی کافی ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں کے بھائی ہیں سبحان اللہ.حضرت عباس علیہ السلام امام علی علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا جن کا تعلق عرب کے ایک بہادر اور شجاع  قبیلے سے تھا۔ حضرت عباس اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور  تھے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔

حضرت عباس علیہ السلام چار شعبان المعظم 26ھ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک  امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اہلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھاحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر تھے ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں  میرے بیٹے حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرے


 چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شہید ہوئے لیکن غازی عباس علیہ السلام ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کر کے پالا  تھا-  اور اسی  سبب ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فنو ن حربی ' سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی  عمر تک وہ ثانی حیدر کہلانے لگے۔ حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔


باطل کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور ہر خیر و بھلائی کا علمبردار ہو گا۔ پس تاریخ نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اہل بیت علیھم السلام کے دشمنوں کی طرف سے برپا ہونے والی جنگوں میں حضرت عباس علیہ السلام دشمنوں کے خلاف لڑنے والے ایسے مجاہد اسلام تھے کہ جن کا سامنا کوئی نہیں کر سکتا تھا'آپ کی وفا اور شجاعت بے مثال ھے-  مولائے کائنات  کے د ور خلافت میں  جو جنگیں  اسلام دشمنوں کی جانب سے مسلط کی گئیں  ان جنگوں میں  جناب عباس علیہ السلام نے دشمنوں کے بڑے غرور و تکبر سے بھرے ہوئے جرنیلوں کو فی النار کیا اور دشمن کی پوری فوج پر موت کی پرچھائیوں کو طاری کر دیا  جناب عباس علیہ السلام کی زندگی میں لاتعداد لوگ ان کی جودوسخا کی بارش سے سیراب ہوتے رہتے تھے اور آنے والا کوئی بھی سائل اور محتاج کبھی خالی نہیں گیا تھا-حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت و بہادری اور ان کے تمام فضائل وکمالات کی مثال ونظیر پوری تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی  -  

یزیدی لشکر کی جانب سے پانی بند ہونے پر جہاں بڑوں نے صبر کیا۔ وہیں بچے پیاس سے نڈھال تھے اپنی پیاری بھتیجی سکینہ کے پانی مانگنے پر عباس رہ نہ سکے، مشک و علم تھاما اور دریائے فرات کی جانب روانہ ہوگئے، فرات پر پہنچ کر انھوں نے جناب سکینہ کے مشکیزے میں پانی بھرا اور خیموں کی طرف روانہ ہوئے تو یزیدی لشکر نے پیٹھ پیچھے حملہ کردیا۔نیزوں اور تیروں کی بارش میں جناب عباس کے دونوں بازو زخمی ہوگئے۔ عباسِ باوفا شہادت کے وقت بھی امام حسین اور اہل بیت رسول سے وفا نبھاتے رہے۔ بازوؤں کے زخمی ہونے کے بعد مشک کو دانتوں میں لے لیا ، لیکن لشکرِیزید کی جانب سے برسنے والے تیروں نے مشک کو بھی نہ چھوڑا۔امام حسین جب حضرت عباس کے قریب پہنچے تو وہ زخموں سے چور تھے، حضرت عباس نے اپنے بھائی  امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں میں ہی شہادت پائی۔ انکی شہادت کے موقع پر امام حسین نے فرمایا کہ آج میری کمر ٹوٹ گئی


پیر، 15 جولائی، 2024

بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہا

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  

                                                                                                                                                                                             

بی بی  معصومہ  قم سلام اللہ علیہا کا اسم مبارک فاطمہ ہے اورآپ کا مشہور لقب معصومہ ہے۔آپ کے پدر بزرگوار شیعوں کے  ساتویں امام حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام ہیں ۔آپ کی ولادت با سعادت اول ذیقعدہ سال ۱۲۳ھجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بچپنے ہی میں آپ اپنے شفیق باپ کی شفقت سے محروم ہوگئیں ۔آپ کے والدگرامی امام موسیٰ علیہ السلام  کی شہادت، ہارون کے قید خانہٴ بغداد میں ہوئی ۔والد کی شہادت کے بعد آپ اپنے عزیز بھائی حضرت علی بن موسی الرضا  علیہ السلام  کی آغوش تربیت میں آگئیں ۔


لیکن سن 200  ہجری قمری میں مامون عباسی کے بے حداصرار اوردھمکیوں کی وجہ سے امام رضا  علیہ السلام سفر کرنے پر مجبور ہوئے امام علیہ السلام  علیہ السلام نے خراسان کے اس سفر میں اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہ لیا ۔امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہانے بھی وطن کو الوداع کہااور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی جانب روانہ ہوئیں آپ  کا ایران کی طرف ہجرت کرنا اور شہر مقدس قم میں تشریف آوری:سن 200 ہجری میں خلیفہ عباسی مامون نے امام علی بن موسی الرضا  علیہ کو مدینہ سے مرو (خراسان) اپنا ولیعہد بنانے کے لیے بلایا اور سن 201ہجری میں امام رضا  علیہ السلام کی بہن  بی بی معصومہ اپنے بھائی سے ملنے کے لیے مرو کی طرف روانہ ہوئیں


-نقل ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہ  سلام اللہ علیہانے امام رضا کے خط لکھنے اور ان کے بلانے پر یہ سفر شروع کیا تھا۔حضرت معصومہ سلام اللہ علیہااپنے رشتے داروں کے ساتھ ایک کاروان کی شکل میں ایران تشریف لائیں۔ اس طولانی سفر میں حضرت معصومہ، حضرت زینب کی طرح راستے میں مختلف مقامات پر لوگوں کو رسول خدا (ص) کے اہل بیت اور انکے علمی، دینی، معرفتی مقامات ، امامت و ولایت کے معنی و مفہوم کو، امام حق و امام باطل کے بارے میں اور روشن فکر والی باتیں بتاتی رہیں۔اسی روشن فکری کی وجہ سے جب یہ کاروان ساوہ کے مقام پر پہنچا تو اہل بیت کے دشمنوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں بی بی کے سارے بھائی اور بھائیوں کے بیٹے شہید ہو گئے۔ بی بی اپنے عزیزوں اور پیاروں کے جنازے خون میں غرق دیکھ کر بہت سخت بیمار ہو گئیں۔


امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے آپ سلام اللہ علیہانے بھی وطن کو الوداع کہااور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ جانب خراسان روانہ ہوئیں۔ ہر شہر اور ہرمحلے میں آپ کا والہانہ استقبال ہورہاتھا، یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینب  سلام اللہ علیہاکی سیرت پرعمل کر کے مظلومیت کے پیغام اور اپنے بھائی کی غربت مومنین اور مسلمانوں تک پہنچا رہی تھیں یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچا تو  مامون  کےمقرر کردہ  دشمنان اہلبیت   کے ایک گروہ نےحضرت معصومہ  سلام اللہ علیہاکے کاروان سے  جنگ شروع کر دی۔  اس اچانک حملے میں  کاروان کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ حضرت معصومہ  سلام اللہ علیہااس عظیم غم کے اثر  سے بیمار ہو گئیں 


اب  غم و ندوہ کے سبب خراسان کے سفر کو جاری و ساری رکھنا نا ممکن ہو گیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیا۔  موسی بن خزرج محب امام    نے  قم میں بی بی کی میزبانی کا شرف حاصل کیا ۔ اس نے راستے سے ہی  بی بی کے شتر کی لگام کو تھاما اور انکو اپنے گھر شہر قم میں لے آيا۔بزرگان قم جب اس پر مسرت خبر سے مطلع ہوئے تو سیدہ کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے، موسیٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام  اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے وارد قم ہوا   اور فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا  وارد  قم  ہوئں  یہاں جیسے  ہی اہل قم کو آپ کی آمد کی اطلاع ملی آپ کی زات مرجع خلائق بن گئ ۔اور اسی مکان میں   10 ربیع الثانی سن 201 ہجری میں سترہ      دن بعد آپ کی شہادت ہوئ


اتوار، 14 جولائی، 2024

کشمیر میں شیعت کا فروغ کیسے ہوا؟

   میرے لئے  یہ بات واقعئ باعث ِحیرت  تھی    جب میں نے پڑھا  کہ کشمیر میں شیعہ مسلک شروع سے ایک علیحدہ مسلک  نہیں سمجھا جاتا  تھا بلکہ اہلسنت اور شیعہ ملکر امام حسین کا غم مناتے تھے-لیکن  اس دور سے پہلے یہاں اسلام  کا وجود نہیں تھا اور پھر یوں ہوا کہ اس وادئ جنت نظیر میں صوفیائے کرام 'اولیا ءعظام  کا     ورود  شروع ہوا -جن اولیائے دین کے قدم یہاں جم گئے ان کے یہاں  اگلی پیڑھی پر  مزید اولیا ء نے  جنم  لیا  اور انہوں نے ہدایت اور رہنمائی کی خاطر عوام الناس کے لئے اپنی زندگیاں  وقف کر دیں ۔لیکن  جتنے بھی خدا دوست سالک، رشی وصوفی وارد کشمیر ہوئے ان میں سے کسی نے بھی لوگوں پر اتنااثر نہیں ڈالا جتنا حضرت شاہ ہمدانؒ کی شخصیت نے ڈالاہے۔حضرت امیر کبیرؒ، سید السادات، جامع الکمالات، ولایت پناہ، معمار تقدیر، علی ثانی، شاہ ہمدانؒ، خاندان نبوت کے علم وعرفان کے پیکر   ۱۲ رجب، ۷۱۴ ہجری کو ایران کے مشہور شہر ہمدان میں جلوہ افروز ہوئے۔ 


آپ بہ یک وقت ایک عالم، برجستہ مبلغ، پرہیز گار صوفی، متقی رہبر اور اعلیٰ پایہ کے ادیب تھے۔  آپ روحانی  پیشوا بھی تھے۔ آپ کے والد بزرگوار سید شہاب الدین   ہمدان کے حاکم اعلیٰ تھے اور محاصرین نے آپکے علم وفضل اور زہد و تقوایٰ کی بہت تعریف کی ہے۔ حضرت سید نے پوری زندگی اسلام کی بقا اور اسکی نشر واشاعت کے لئے وقف رکھی۔ ان کی مساعی جمیل اور فیوض کا نتیجہ ہے کہ کشمیر میں اسلام کا ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھنے کے بجائے جگمگاتے ہوئے سورج کی طرح منور اور روشن ہوا۔ شاہ ہمدانؒ کی کشمیر آنے سے پہلے ہی ترکستان کے سید زادے شیخ شہاب الدین سہروردی کے شاگر حضرت بلال ؒ المعروف بلبل شاہؒ کے ہاتھوں رینچن شاہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد کشمیر میں نہ صرف مسلم حکومت قائم ہوی بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور لسانی نظام میں بھی اسلامی عناصر کا غلبہ  بڑھتا  چلتا گیا۔ جب آپ کے مبارک قدم اس جنت نظیروادی پر پڑے اس کے ساتھ ہی امیروں، وزیروں اور دیگر اشخاص بھی  شیعہ اسلام کے دائرے میں آگئے۔  اور اس ساتھ  کشمیر میں فارسی نظم ونثر اور دیگر علوم وفنون کے ساتھ مساجد و خانقا ہیں بھی تعمیر ہوئی ان میں ایک خانقاہ سرینگر میں دریائے جہلم کے کنارے تعمیر ہوئی جو بلبل لنگر کے نام سے آج بھی موجود ہے۔ اس طرح کشمیر میں تبلیغ   ' اسلام کے   ابتدائ دور  میں  میر سید علی ہمدانیؒ کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔


 آپ نے کشمیر میں شیعیت اسلامی    تعلیمات کا دائرہ بڑھایا    جن سے متاثر ہو کر ہزاروں ہندوؤں نے اسلام قبول کیا اور سنی مسلمان بھی اس سلسلے کی طرف راغب ہوتے چلے گئے۔ کشمیر  کی شیعی فکر   پر   اثنا عشری مسلک کی تعلیمات کی گہری چھاپ ہے۔اس طرح   کشمیر میں شیعہ اسلام پھیلانے میں میر سید علی ہمدانیؒ کا   کردار رہا ہے،اور یہ تعلیمات تبت، لداخ اور بلتستان میں بھی پھیل گئیں-آج کے کشمیر میں  انہی کی  بدولت شیعہ  پھل پھول رہے ہیں -تفصیلات کے مطابق اہل تشیع  و اہل سنت ماہ محرم کے ابتدائی 10 دن کے دوران مختلف مقامات سے جلوس نکالتے ہیں جن کا آخری پڑاؤ سری نگر کے علاقے حسن آباد میں ہوتا ہے۔ لیکن ان علاقوں کے رہائشی افراد کا سڑکوں کے ذریعے رابطہ نہیں اس لئے  اہل تشیع حسن آباد پہنچنے کے لیے متبادل راستے یعنی کشتیوں کے ذریعے آبی راستے استعمال کرتے ہیں۔


یہ جلوس ڈل جھیل کے اندرونی علاقوں کے کنڈی محلہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر جیسے ہی جلوس ان علاقوں سے گزرتا ہے دوسرے ڈل علاقوں کے لوگ بھی ان میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جلوس ٹنڈ محلہ، کنڈ محلہ، صوفی محلہ، نالہ محلہ اور گچی محلہ جیسے کئی علاقوں سے گزرتا ہے۔ لوگ ان کشتیوں میں جمع ہوتے ہیں اور پھر حسن آباد کی طرف جاتے ہیں جہاں وہ 10 محرم کو ماتم کرتے ہیں۔ کشمیر  کے شیعہ محرم کی پہلی سے دسویں تاریخ تک ہر رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں اور لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ دس دنوں کے بعد ہر شب جمعہ کو عزاداری کی جاتی ہے شیعہ کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ تلاوت، مرثیہ، نوحہ، جلوس، تعزیہ داری، علم شریف، ذوالجناح کے جلوس نکالتے ہیں۔ زیارات و سلام پڑھی جاتی ہے۔ واقعہ کربلا کے حوالے سے تقاریر کیے جاتے ہیں۔ کشمیرکے قریہ قریہ، نگر نگر سے 07 محرم الحرام کے جلوس برآمد ہو تے ہیں سرینگر کے تاریخی کاٹھی دروازہ سے مرکزی جلوس عزاء برآمد ہوتا ہےجس میں  ہزاروں  شیعہ و سنی عزادارن مظلوم کربلا  کو  پرسہ دیتے ہوئے سینہ زنی کرتے ہیں - 


مقبوضہ کشمیر  سے  بھی  اسی طرح   وادی کے گوشہ  گوشہ سے محرم الحرام کے جلوس برآمد ہوتے ہیں اور عزاداری عام طور پر امام بارگاہوں یا ماتم سرائیوں میں کی جاتی ہے۔ بعض اوقات عزاداری کے جلوس سڑکوں اور گلی کوچوں کے علاوہ   لاتعدادکشتیوں   کے زریعہ  نکلتے ہیں  ان کشتیوں پر یا حسین اور لبیک یا حسین کے بڑے بڑے بینر لگے ہوتے ہیں   - اور سیاہ لباس میں ملبوس عزادار سیاہ پرچم کے علاوہ   دیگر علم مبارک اپنے ہاتھوں میں  بصد احترام  تھامے ہوئے   ہوتے ہیں اور کشتیوں پر ماتم اور نوحہ خوانی ہو رہی  ہو تی   ہے-کشمیر کے تمام  اضلاع جیسے اننت ناگ بارہ مولا  اور سرینگر  میں عزاداری کے بڑے بڑے جلوس  صبح 'صبح  برآمد ہو تے  ہیں سرینگر کے کوہ ماراں کے دامن میں واقع تاریخی کاٹھی دروازہ سے عزاداری کا مرکزی اور سب سے بڑا جلوس برآمد ہوتا  ہے جس میں  ہزار وں سوگوار  شرکت کرتے  ہیں جلوس حسن آباد کے   تاریخی امام باڑہ  پر اختتام پذیر ہوتا ہے حسن آباد تک  جانے کے لئے تمام کشتیوں کے عزادار جھیل ڈل کے کنارے اتر کر پیدل حسن آباد جاتے ہیں اور وہاں مجلس عزاء میں شامل ہوتے ہیں   1989 سے سرینگر کے ان دو بڑے مرکزی جلوسوں پر پابندی عائد تھی لیکن سرکاری پابندیوں کے باوجود عزادارن حسین پابندیوں کو خاطر میں نا لاتے ہوئے ان جلوسوں کو برآمد کرنے میں اپنے جان کی بازی لگا رہے تھے اور ہرسال بے شمار عزادار سرکاری فورسز کی بربریت سے زخمی ہوتے  رہے  اور سینکڑوں کی تعداد میں عزادارن کو گرفتار بھی کیا جاتا  رہا ہے

 

ہفتہ، 13 جولائی، 2024

دور مامون اورامام رضا علیہ السلام

    امین کے قتل  کئے جانے  کے بعد مامون نے حالات کے تقاضوں کے تحت   یہ فیصلہ کیا کہ امام رضا علیہ السلام   کو خلافت کی پیشکش کی جائے۔ یہ ایک سیاسی چال تھی، جو شخص جاہ و اقتدار کے لئے اپنے بھائی کو قتل کردے یکایک اتنا انصاف پسند کیسے ہو گیا کہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو خلافت کا حقدار سمجھنے لگا۔ سمجھدار لوگوں  نے مامون کے اس رویہ اور شیعیت کی طرف جھکاؤ کو ایک بناوٹی اور غیر فطری عمل قرار دیا ہے۔ اس فیصلہ میں مامون رشید کی نیت یہ تھی کہ امام علیہ السلام  کو اپنے رنگ میں رنگ لے اور دامن تقویٰ اور فضیلت کو داغدار کردے۔ اگر امام خلافت قبول کرلیں تو وہ اپنے لئے ولی عہد کی شرط پیش کرتا اور اس طرح اپنا استحقاق ثابت کرتا۔ امام رضا علیہ السلام   کو خلافت تفویض کرنے کے منصوبہ کو رو بہ عمل لانے کے لئے مامون چاہتا تھا کہ امام کو مرو بلایا جائے جو اس زمانہ میں خراسان کا مرکزی شہر تھا۔ شیخ مفید، شیخ صدوق، مسعودی اور کلینی جیسے مستند حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مامون نے امام رضا علیہ السلام  کے نام خط بھیجا اور مرو آنے کی دعوت دی۔ امام علیہ السلام   نے عذر ظاہر کیا لیکن مامون کے مسلسل خطوط کے نتیجہ میں امام  علیہ السلام  نے محسوس کیا کہ مامون اس امر سے دستبردار نہ ہوگا اور آپ نے مدینہ سے مرو سفر کا ارادہ کرلیا۔

امام رضا کی دار الحکومت میں آمد :-امام رضا علیہ السلام کا قافلہ دس شوال المکرم 201 ہجری کو ماموں کے دارالحکومت مرو میں پہنچا، مامون، اس کے وزیر فضل بن سهل اور بنی عباس کے امراء و بزرگوں نے آپ کا استقبال کیا اور عزت و احترام کے ساتھ شهر میں لے آئے، چند روز گزرنے کے بعد امام عالی مقام اور مامون کے درمیان گفتگو کا آغاز ہوا، ابو صلت ہروی کہتے ہیں کہ ماموں رشید نے امام رضا علیہ السلام سے کہا : اے فرزندِ رسول ! میں آپکے علم و فضل، زہد و تقوی اور آپ کی عبادت و بندگی کا معترف ہوگیا ہوں اور میری رائے میں آپ مجھ سے زیادہ اس خلافت کے حق دار ہیں، لہذا اس بار خلافت کو آپ اپنے ذمے لے لیں ۔حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : اگر یہ خلافت تمہارا حق ہے اور پھر خدا نے تمہیں دی ہے تو یہ جائز نہیں کہ جو خلعتِ خلافت خدا نے تمہیں پہنائی ہے تم اس کو اتار کر کسی دوسرے کو پہنا دو اور اگر یہ تمہارا حق نہیں ہے تو پھر تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ جو چیز تمہاری نہیں ہے تم وہ مجھے بخش دو، مامون نے کہا یا ابن رسول ! آپ کو یہ خلافت کسی بھی صورت قبول کرنی ہی پڑے گی، امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : زبردستی کی اور بات ہے ورنہ اپنی خوشی سے تو میں اسے کبھی بھی قبول نہ کرونگا۔

امام رضا  علیہ السلام  کی زندگی کے آخری ١٠ سال جو کہ عہد مامون کے ہم زمانہ تھے تاریخی لحاظ سے اہم ہیں۔  ۔کیونکہ  واقعہ کربلا کے بعد خاندان رسول اور عام مسلمانوں کے درمیان جو رابطہ منقطع ہو گیا تھا ائمہ صادقین علیہ السلام  نے اپنے دور مدینہ میں اسلامی درسگاہ قائم کر کے اس کو بحال کر دیا تھا  جس میں یہاں ایک وقت میں ہزاروں طالبِ علم جمع ہوتے تھے۔ لیکن بہت جلد حالات بدل گئے۔ دوسری صدی ہجری کے وسط تک ہارون رشید نے بنی عباس کی سلطنت کو عروج   کمال تک پہنچا یا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام   کی ایک طویل عرضہ کی قید تنہائی  کے سبب تشیع کی دنیا میں ایک خاموشی چھانے لگی اور ملوکیت نے واقعہ کربلا کو عوام کے ذہنوں سے مٹانے کی   اپنی  ممکنہ کوششوں کو تیز کردیا۔  صرف مدینہ اور حجاز کے کچھ حصوں میں فقہا اور دانشوروں کی حد تک اہلبیت کا ذکر محدود ہو گیا۔ان حالات میں ١٨٣ھ میں امام علیہ السلام   ہفتم کی شہادت کے بعد امام رضا  علیہ السلام  نے اپنی امامت کا اعلان کردیا تھا۔ امین کے قتل کے بعد امام رضا  علیہ السلام  کے حوالہ سے مامون رشید کے لئے تین راستے تھے۔ (١) اپنے آباء کی پیروی میں امام کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو امام کے والد کے ساتھ روا رکھا گیا یعنی قتل کردینا ، لیکن اس میں عوام کے غم وغصہ کا امکان تھا۔ ( ٢) امام علیہ السلام   کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا مگر اس میں وہ اپنی سلطنت کے لئے خطرہ سمجھتا تھا یا (٣) پھر امام کو اپنے سیاسی نظام کے استحکام کا ذریعہ بنالیتا، مورخین نے مامون رشید کو خلفائے عباسی میں بطور ایک طاقتور ترین، باہوش، دانشمند اور میانہ رو فرد کے طور پر پیش کیا ہے۔


شہید مرتضی مطہری نے اپنی کتاب سیرت ائمہ اطہار میں لکھا ہے کہ شیعہ سنی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے ولایت عہدی کو قبول کرنے  کے بعد مامون کے اجلاس میں مخصوص خطبہ دیا۔ مختصر خطبے میں آپ نے اپنی پوزیشن واضح کردی۔ اس خطبے میں نہ مامون کا نام لیا اور نہ اس کا شکریہ ادا کیا جبکہ رسم یہ تھا کہ اس کا نام لیا جاتا یا شکریہ ادا کیا جاتا۔ ابوالفرج کہتا ہے کہ امام رضا کی بیعت کے لئے ایک دن مقرر ہوا۔ لوگ جمع ہوگئے۔ مامون نے اپنے ساتھ امام رضاعلیہ السلام   کے لئے ایک نشست رکھی۔ سب سے پہلے اپنے بیٹے عباس بن مامون کو بیعت کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ایک علوی سید نے بیعت کی اسی ترتیب کے ساتھ علوی اور عباسی بیعت کرتے گئے۔ ہر بیعت کرنے والے کو مخصوص انعام بھی دیا گیا۔ اس کے بعد عوام کی بیعت کا موقع آیا تو مامون نے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ لوگ بیعت کریں۔ اما م علیہ السلام نے نبئ آخر زماں   صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلم کی  کی مانند لوگوں سے بیعت لی-


واضح رہے کہ دربار خلافت میں امام رضا علیہ السلام اور مختلف ادیان و مذاہب کے علماء کے درمیان ہونے والے ان مناظروں کے پیچھے مامون کے سیاسی مقاصد بھی تھے، علمی مباحث سے طبعا دلچسپی کے باوجود مامون یہ نہیں چاہتا تھا کہ ان مناظروں کے ذریعہ امام کی شخصیت لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے بلکہ وہ اس موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی وقت امام جواب دینے سے عاجز ہو جائیں اور اس کو لیکر امام عالی مقام کے فضائل و کمالات کو گھٹایا جا سکے جو ناممکن تھا بلکہ مامون کی خواہش کے برعکس یہ مناظرے امام عالی مقام کے علمی تفوق اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت اور برتری منوانے کا ذریعہ بن گئے، اس مختصر سے مقالے میں ان علمی مناظرون کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں اس لیے صرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا ہے المختصر ان مناظروں کے ذریعہ امام عالی مقام کو جید علما اور فقہا کی موجودگی میں اپنے علم و فضیلت کے اظہار کا موقع ملا جو آپ کی حکمت عملی سے ہی ممکن ہوا جس سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔

جمعہ، 12 جولائی، 2024

مٹھی سندھ کے" شیعہ "حسینی ہندو

 آئیے  محرم  میں سندھ کے حسینی ہندوؤں سے ملتے ہیں  اور دیکھتے ہیں کہ وہ نواسہ ء رسول کا غم کس طرح مناتے ہیں -یہ مکیش ماما ہیں جو اپنے صحن میں ذوالجناح کو سجانے میں مصروف ہیں۔ ذوالجناح اس گھوڑے کا نام ہے جس پر امام حسین نے کربلا کی جنگ میں سواری کی تھی۔ ہر سال شیعہ مسلمان محرم کے جلوسوں میں اس گھوڑے کی شبیہ بناتے ہیں لیکن مکیش شیعہ نہیں بلکہ خود کو حسینی ہندو بتاتے ہیں۔مکیش ماما پاکستان کی سندھ کے شہر مٹھی کے رہنے والے ہیں۔ مٹھی میں زیادہ آبادی ہندوؤں کی ہے مگر محرم کے مہینے میں یہ ہندو شہر کے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ عزاداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔’ہم غم میں ساتھ ہوتے ہیں۔ جلوسوں میں جاتے ہیں اور عزاداروں کے لیے سبیلیں لگاتے ہیں

 حسینی برہمن دس محرم تک کالا لباس پہنتے ہیں-مِٹھی میں ہندوؤں کی محرم کی رسموں میں حصہ لینے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ اور اس کی بنیاد سندھ کی صوفی ثقافت سے جڑی ہے اور یہ دوسرے علاقوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی نفرتوں اور دوریوں کے باوجود آج بھی زندہ ہے۔مکیش کے گھر سے کچھ دور امام بارگاہ ملوک شاہ کے وسیع آنگن میں تعزیہ رکھا ہے۔ صحن کے ایک دروازے سے درجنوں لوگ اندر داخل ہو رہے ہیں۔ کچھ تو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہے ہیں لیکن کچھ کے دونوں ہاتھ جڑے ہیں۔ یہ ہندو ہیں۔گہرے رنگوں کے گھاگرے پہنے بہت سی ہندو عورتیں پہلے صحن کے بیچ لگے بڑے سے سرخ رنگ کے علم کے سامنے چپوترے پر ماتھا ٹیکتی ہیں۔ اگربتی جلاتی ہیں اور پھر قریب ہی پڑے تعزیے پر کالے اور سرخ دھاگے باندھ کر اپنی مراد پوری ہونے کی دعائیں مانگتی ہیں، منتیں اٹھاتی ہیں اور دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتی ہیں

۔کچھ دیر بعد امام بارگاہ کے برآمدے سے مرثیوں کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ کالے لباس میں پانچ آدمیوں کی ایک ٹولی مرثیے پڑھنے میں مصروف ہے۔ ایشور لعل مرثیہ خوانی کرنے والوں کی قیادت کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھ میں امام بارگاہوں کے دروازے ہندوؤں کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔’کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ نہ ہندوؤں کو مسلمانوں پر نہ مسلمانوں کو ہندووں پر۔ ہم صبح و شام امام بارگاہوں میں حاضری دیتے رہیتے ہیں۔ دس محرم تک ہم کالا لباس پہنتے ہیں۔ ہمارا اپنا عقیدہ ہے۔‘ایشور لال کا کہنا تھا کہ ہندو عورتیں جلوس کا اتنظار کرتی ہیں تاکہ وہ منتیں اٹھا سکیں۔۔اسی لئے اہل بیت سے محبت کرنے اور ان کے ساتھ کربلا میں ہونے والے سانحہ کا ماتم کرنے کیلئے سندھ جیسی سرزمین بغیر کسی مذہب، عقیدے، نسل و رنگ کے صدیوں سے کرتی آئی ہے۔ سرزمین سندھ اصل میں کل تک بھی کسی بھی مذہبی تفرقے بازی اور انتہاپسندی کیلئے ناموزوں سرزمین رہی تھی۔اگرچہ مرزا دبیر نے لکھا تھا’’قیدخانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے کو میں ’’قید خانے میں تلاطم ہے کہ سندھ آتی ہے‘‘کہتا ہوں۔ سندھ میں تالپور حکمران اکثر راسخ العقیدہ تھے۔ یہ وہ اپنے سیر شکار میں ہوتے تھے یا پھر حب اہل بیت میں ماتم مناتے۔ لیکن ز یادہ تر سندھ کےحکمران شیعہ تھے کہ سنی وہ وسیع المشرب حکمران تھے۔ اہل بیت کی محبت سے لبریز۔

اسی لئے حیدرآباد سمیت سندھ کے کئی شہروں اور قصبوں میں نوے فی صد عزاداری کے منتظمین سنی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔تالپوروں کے شیعہ حکمران ہونے کی وجہ سے کئی عالم و ذاکر پنجاب اور  اودھ تک سے سندھ اورخاص طور خیرپور میرس آکر آباد ہوتے رہے اور تالپوروں نے ان کو زمینیں،خلعتیں اور جاگیریں عطا کیں۔ قزلباش خیرپور ریاست کے وزیراعظم تھے۔ پروفیسر کرار حسین جیسے جید    عالم بھی خیرپور میرس میں رہے۔ جبکہ علامہ رشید ترابی کی بیٹی کا عقد خیرپور میرس کے ہزہائینس سے ہوا۔والئ ء خیرپور عراق کربلا کی زیارت کو سندھ کے صناع و کاریگر و معمار لے کرگئے جنہوں نے کربلا و نجف کا ہوبہو نقشہ حاصل کیا اور آکر خیرپور میرس میں اسی طرح کربلا کے نقشے پر امام بارگاہ تعمیر کروائی جس میں ضریح امام حسن بھی کے ہوبہو بنا کررکھی گئی ہے۔کوٹ ڈیجی اور خیرپور میرس شہر سندھ کے لکھنو ہیں 

اسی طرح یسے ہی محرم کا چاند نظر آتا ہے، حیدرآباد میں جامشورو روڈ پہ آباد گاؤں کولہی گوٹھ میں آباد ہندو مرد، خواتین اور بچے خاص قسم کے کھلونے بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام تر تیاریاں چھ ماہ قبل شروع ہو جاتی ہیں مگر محرم کے دنوں میں اپنے عروج پہ ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کو یہ منفرد کھلونے محرم کی 8 تاریخ تک مارکیٹ میں پہنچانے ہوتےہیں۔ انہیں یہ اشیاء بیچنے کا خاصہ تجربہ ہو چکا ہے لہٰذا وہ انہیں ریڑھوں پہ لاد کر حیدرآباد شہر میں نکلتے ہیں۔کولہی گوٹھ کی زمین ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ان لوگوں کو دی گئی تھی، جسے بھٹو کالونی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کالونی سو گھروں پہ مشتمل ہےجہاں کولہی برادری کا ہندو قبیلہ آباد ہے۔ یہ ان کا مستقل کام نہیں ہے بلکہ موسمی کاروبار ہے۔ دراصل یہ لوگ مستقل طور سبزی فروش ہیں، جو منڈی سے سبزی خرید کر ریڑھوں پہ بیچتے ہیں۔ سبزی کے کاروبار سے جو آمدن ہوتی ہے اسی سے اپنے گھر وں کے معاملات چلاتے ہیں۔پینتیس سالہ لونگ کولہی تین بچوں کےباپ ہیں، جن کا کام    سبزی فروشی ہے مگر محرم کے مہینے میں وہ بھی لکڑیوں سے کھلونے بنانے کا کام شروع کردیتے ہیں ۔ یہ کچھ خاص کھلونے ہوتے ہیں، جو کہ میدان کربلا کی یاد دلاتے ہیں مثلاً ڈھول، تلوار، تعزیے، تیر کمان اور کلہاڑیاں وغیرہ۔ اس طرح ان کی کچھ اضافی آمدنی ہو جاتی ہے


 

جمعرات، 11 جولائی، 2024

’’عاشورہ‘‘ سپیشل فلائٹس



کراچی قومی ایئر لائن پی آئی اے نے پاکستان سےعراق جانے والے زائرین کیلئے عراق کے شہر نجف کیلئے خصوصی پروازوں کا فلائٹ آپریشن شروع کردیاپی آئی اے حکام کے مطابق عراق میں زیارتوں کیلئے جانے والوں کیلئے خصوصی فلائٹس کا 5 جولائی سے آغاز ہوگیا، نجف کیلئے دوسری خصوصی پرواز7 جولائی اور تیسری پرواز 11 جولائی کو روانہ ہوگی۔حکام پی آئی اے نے مزید بتایا کہ زائرین کی نجف سے واپسی کی خصوصی پروازیں 20 جولائی سے شروع ہوں گی، نجف سے پاکستان واپسی کی پروازیں 25 جولائی تک زائرین کے لئے چلیں گی، پی آئی اے نے عراق جإنے والی پروازوں کے لئے خصوصی انتظامات کئے ہیں۔پی آئی اے حکام کے مطابق عراق جانے والی پروازوں کو ’’عاشورہ‘‘ سپیشل فلائٹس کا نام دیا گیا ہےواضح رہے دس محرم الحرام کو امام علی مقام حضرت امام حسین ؑ کو پرسہ دینے کے لئے لاکھوں پاکستانی زائرین کربلا معلی آتے ہیںجبکہ اس سال پاکستان اور عراق میں چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے دونوں ممالک میں 17 جولائی کو ہی عاشوار انتہائی مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جائے گادوسری جانب حکومت پنجاب نے مذہبی انتہا پسندی سے بچنے کے لیے 6 سے 11 محرم تک صوبے میں سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز بند رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔


 اس کے علاوہ محکمہ داخلہ پنجاب نے فوج اور رینجرز کی خدمات بھی طلب کرلیں ہیں۔حکومت پنجاب نے محرم الحرام کے موقع پر غیر مناسب مواد اور مذہبی انتہا پسندی سے بچنے کے لیے 5 روز کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بند کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس حوالے سے محکمہ داخلہ پنجاب نے وفاقی وزارت دخلہ کو خط لکھ دیا۔محکمہ داخلہ کی جانب سے خط میں کہا گیا کہ پنجاب میں 6 سے 11 محرم تک سوشل میڈیا فورمز بند رکھے جائیں، فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ، یو ٹیوب، ایکس، ٹک ٹاک اور دیگر بند رکھے جائیں تاکہ مذہبی انتہا پسندی سے بچا جا سکے


شب اول محرم امام حسین ع اور حضرت عباس ع کے روضہ مبارک کے گنبدوں پر سیاہ علم نصب کر دئیے گئےہر سال اسلامی مہینہ محرم الحرام کے آغاز پر حرم امام حسین ع اور حرم حضرت عباس ع کے گنبدوں سے سرخ علم اتار کر سیاہ علم نصب کرنے کی عزائی تقریب منعقد کی جاتی ہے کہ جس میں لاکھوں عزادار اور زائرین شرکت کرتے ہیںحضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے روضہ مبارک کے گنبدوں پر سارا سال سرخ علم لہراتے ہیں اور یہ سرخ علم اس بات کی علامت ہیں کہ یہ وہ مقتول ہیں کہ جن کے خون کا انتقام لینا باقی ہے-خدا کا وعدہ ہے کہ امام زمانہ(عج) اپنے ظہور کے بعد امام حسین(ع) اور شہداء کربلا کے قاتلوں سے ان کے ہر ظلم و ستم کا بدلہ لیں گے تمام مومنین ہر وقت امام زمانہ کے ظہور کی دعا کرتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ مل کر امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے اور پوری دنیا کو انسانیت کے دشمنوں سے پاک کر دیا جائے تاکہ پوری انسانیت سکون اور سعادت کی زندگی گزار سکے۔حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے روضہ مبارک کے گنبدوں پر پورا سال لہرانے والے سرخ علموں کو ہر سال محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی اتار کر ان کی جگہ سیاہ علم نصب کر دئیے جاتے ہیں کہ جو حزن و ملال اور سوگ کی علامت ہیں۔ بروز اتوار30 ذی الحجہ 1445هـ) بمطابق7 جولائی 2024ء) کو پہلی محرم کی رات نماز مغربین کی ادائیگی کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے روضہ مبارک کے گنبدوں پر موجود علموں کے تبدیل کرنے کی تقریب منعقد ہوئی کہ جس میں گنبدوں پر نصب سرخ علموں کو اتار کر سیاہ علم نصب کیے گئے 

اس تقریب میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور بہت سے عراقی اور غیر ملکی ٹی وی چینلوں نے اس تقریب کو براہِ راست نشر کیا۔ سب سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں علم کے تبدیل کرنے کی تقریب منعقد ہوئی کہ جس کی ابتدا تلاوت قرآن مجید سے ہوئی۔ اس کے بعد روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی نے خطاب کیا اور شعا‏ر حسینی کی عظمت اور عزاداری کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کی۔ ان کے خطاب کے بعد ایک حزین دھن کے ساتھ لبیک یا حسین کی گونجتی ہوئی آوازوں میں روضہ مبارک کے گنبد پر لہراتا ہوا سرخ علم اتار کر سیاہ علم نصب کر دیا گيا اور اس کے ساتھ ہی مرحوم شيخ هادي كربلائي کا محرم کی ابتداء کے حوالے سے لکھا ہوا عربی نوحہ (يا شهر عاشور) مرحوم حمزة الزغير کی آواز میں پورے حرم میں گوجنے لگا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک پر علم کی تبدیلی کی تقریب کے ختم ہوتے ہی تمام حاضرین اورعزاداروں نے حضرت عباس علیہ السلام کے روضہ مبارک کا رخ کیا کہ جہاں امام حسین(ع) کے علمدار کے حرم کے گنبد سے علم کی تبدیلی کی تقریب منعقد ہوئ 

ا کیا

بدھ، 10 جولائی، 2024

حضرت شیخ شاہ رکن عالم رحمتہ اللہ علیہ

 ۔ بر صغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف روحانی پیشوا حضرت شاہ رکن عالم رحمتہ اللہ علیہ 9 رمضان المبارک649ھ بمطابق1251 ءجمعتہ المبارک کے دن پیدا ہوئے-حضرت شاہ رکن عالم رحمتہ اللہ علیہ عارف باللہ حضرت شیخ صدر الدین عارف کے وصال کے بعد قطب الاقطاب حضرت شیخ شاہ رکن عالم مسند نشین ہوئے اورحضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی کی عطا کردہ دستار مبارک سر پر رکھی، اور امیر المومنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا وہ خرقہ زیب تن کیا جوشیخ شہاب الدین سہروردی کے توسل سے ان کے آباﺅ اجداد اور پھر ان تک پہنچا تھا۔ 649ھ بمطابق1251 ءجمعتہ المبارک کے دن پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت کی خوشی میں آپ کے دادا شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رحمتہ علیہ نے ملتان کے غرباءاور مساکین کے دامن زر و جواہر سے بھر دیے، عقیقہ کے موقع پر آپ کے سر کے بال تراشے گئے جو آج تک تبرکات میں محفوظ ہیں۔ آپ رحمتہ علیہ کا اسم گرامی رکن الدین رکھا گیا، آپ کے ادب و آداب سے متاثر ہو کر حضرت خواجہ شمس الدین سبزواری رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو ”رکن الدین والعالم“ کا لقب دیا، بعد ازاں آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت شاہ رکن عالم کے نام سے مشہور ہوئے ۔ آپ حضرت شیخ صدرالدین عارف سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے فرزند، اور حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب صدر الدین عارف، بہاءالدین زکریا ملتانی، ابو الفتوح شہاب الدین سہروردی، ضیاءالدین سہروردی، شیخ ابو عبد اللہ، شیخ اسود احمد نیوری، شیخ ممتاز علی دنیوری، خواجہ جنید بغدادی، خواجہ سری سقطی، خواجہ معروف کرخی، خواجہ دا د طائی، خواجہ عجیب عجمی، خواجہ حسن بصری، حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔


آپ کی والدہ ماجدہ بی بی راستی جو کہ فرغانہ کے شاہ جمال الدین کی صاحبزادی اور فرغانہ کی شہزادی تھیں، زہد و تقویٰ کی وجہ سے رابعہ عصر کہلائیں۔ حافظ قرآن تھیں ، تلاوت قرآن مجید سے غیر معمولی شغف رکھتی تھیں روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتی تھیں۔ حضرت شاہ رکن عالم ابھی بطن مادر میں ہی تھے کہ حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی عید کا چاند دیکھ کر آپ کی والدہ کو سلام کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آپ کی والدہ نے جب اس پر تعجب کا اظہار کیا تو انہوںنے فرمایا”بیٹی! یہ تعظیم تیری نہیں بلکہ اس بچے کی ہے جو اس وقت تیرے بطن میں ہے اور جو جوان ہو کر میرے خاندان کا چراغ ہوگا“۔ حضرت بی بی راستی جب حضرت شاہ رکن عالم کو دُودھ پلانے لگتیں تو پہلے وضو کر لیتی تھیں، اور چونکہ حافظ قرآن تھیں دودھ پلانے کے دوران قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دیتیں۔ دوران تلاوت اگر اذان کی آواز سنائی دیتی تو حضرت شاہ رکن عالم دودھ پینا چھوڑ دیتے ۔ بی بی راستی نے گھر کی خادما وں کو حکم دے رکھا تھا کہ ننھے شاہ رکن الدین کو سوائے اسم باری تعالیٰ کے اور کسی لفظ کی تلقین نہ کی جائے ، اس احتیاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب آپ بولنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے جو لفظ زبان مبارک سے نکلا وہ اللہ عزوجل کا اسم گرامی تھا۔


حضرت شاہ رکن عالم نے علوم ظاہری کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی اور روحانی فیوض اپنے دادا حضور بہاءالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کئے ۔ یہ دونوں بزرگ آپ سے بے حد محبت رکھتے تھے اور شیخ شاہ رکن عالم بھی ان دونوں بزرگوں کا اس قدر ادب کرتے تھے کہ کبھی ان سے آنکھ اٹھا کر بات نہ کرتے اور نہ ان کے سامنے بلند آواز سے بولتے۔ حضرت شیخ شاہ رکن عالم کی عمر مبارک جب چار سال ہوئی تو شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی نے بسم اللہ شروع کی اور شیخ صدر الدین عارف نے قرآن مجید حفظ کروانا شروع کیا۔ حضرت شیخ شاہ رکن عالم کا معمول تھا کہ تین مرتبہ میںپاﺅ سپارہ پڑھتے تھے اور وہ حفظ ہو جاتا۔ قرآن مجید حفظ کر لیا تو مدرسہ میں نابغہ روز گار علماءو مشائخ سے کسب فیض حاصل کیا۔ جب حضرت شاہ رکن عالم کی عمر چار سال تھی شیخ الاسلام بہاءالدین زکریا چار پائی پر بیٹھے تھے اور دستار مبارک سر سے اتار کر چار پائی پر رکھ دی تھی۔ حضرت صدر الدین عارف پاس ہی مودب بیٹھے تھے کہ ننھے شاہ رکن الدین کھیلتے کھیلتے دستار مبارک کے قریب آئے اور اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔ والد ماجد نے ڈانٹا کہ یہ بے ادبی ہے مگر دادا حضور نے فرمایا کہ صدر الدین پگڑی پہننے سے اس کو نہ روکو وہ اس کا مستحق ہے اور یہ پگڑی میں اس کو عطا کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ دستار مبارک محفوظ کر دی گئی اور شاہ رکن الدین عالم اپنے والد بزرگوار کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو وہ دستار مبارک آپ کے سر پر رکھی گئی۔

 ایک روز آپ کے والد ماجد دریا کے کنارے تشریف لے گئے ، ان کے ساتھ حضرت شاہ رکن عالم بھی تھے، شیخ صدر الدین نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ اتنے میں ایک ہرن کا غول ادھر سے گزرا، اس میں ہرنی کا ایک بچہ بھی تھا۔ حضرت شاہ رکن عالم اس بچے کو پکڑنا چاہتے تھے لیکن وہ بچہ ہاتھ نہ آیا۔ نماز سے فارغ ہو کر شیخ عارف نے اپنے بیٹے کو قرآن پاک کا سبق دیا، ان کو دس مرتبہ پڑھنے پر بھی سبق یاد نہیں ہوا حالانکہ وہ تین مرتبہ پڑھ کے یاد کر لیتے تھے ۔ آپ نے وجہ معلوم کی، جب آپ کو ہرن کے غول اور بچے کا اس طرف آنا معلوم ہوا تو آپ نے پوچھا کہ وہ غول کس سمت گیا؟ بیٹے نے سمت بتائی، آپ نے اس طرف کچھ پڑھ کر پھونکا تو غول واپس آگیا۔ننے شاہ رکن عالم نے دوڑ کر اس بچے کو پکڑ لیا اور بہت خوش ہوئے اور اسی خوشی میں ایک سیپارہ حفظ کر لیا، اور ہرنی کو مع بچے کے خانقاہ لے آئے ۔ آپ سات سال کی عمر میں پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرنے لگے ۔حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی اس دوران آپ کو اپنے ساتھ رکھتے ۔ تہجد و اشراق، چاشت و اوابین اور دیگر نوافل آپ کو پڑھنے کی ترغیب دیتے ۔ حضرت شیخ غوث بہاءالدین زکریا ملتانی ، حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر، حضرت لعل شہباز قلندر اور حضرت جلال الدین سرخ بخاری نے کئی تبلیغی دورے اکٹھے کئے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کم سن شیخ شاہ رکن عالم بھی ان کے ہمراہ ہوتے ۔ 
 

 حضرت شیخ شاہ رکن عالم جب مسندنشین ہوئے تو اس وقت پاکپتن میں شیخ علاﺅ الدین چشتی نے پاکپتن کی سرزمین کو رشک فردوس بنا رکھا تھا اور دہلی میں محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمسند نشین تھے جو کہ روحانی طور پر دہلی کے تاجدار تھے ۔ بلاشبہ یہ ان تینوں حضرات کی محنتوں اور کاوشوں کا صلہ تھا جس کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند میں کفر کے اندھیرے ایمان کی روشنیوں میں تبدیل ہونا شروع ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو راہ راست پر لانے میں دل و جان سے خدمت کی۔ 36 سال کی عمر میں جب حضرت شاہ رکن عالم اپنے والد بزرگوار کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے تو ہر گوشہ سے لوگ خدمت میں حاضر ہو کر فیض یاب ہوئے ، جو بھی سائل آتا حاجت روائی ضرور فرماتے ۔ مجلس میں جس کے دل میں کوئی بات آتی تو آپ کو اس کا کشف حاصل ہو جاتا اور اس کی دلجوئی فرماتے ۔ شیخ شاہ رکن عالم کے عوام کے علاوہ بادشاہوں سے بھی اچھے تعلقات تھے اور امرا بھی آپ کے معتقد اور غلام تھے ۔ حضرت شیخ رکن عالم نے اسلاف کے طریقت کو کمال تک پہنچا یا، آپ صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے ، آپ کی بے شمار کرامات آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ شیخ الاسلام حضرت شیخ غوث بہاءالدین زکریا ملتانی کشف و کرامات کے سلسلے میں حد درجہ محتاط تھے اور فرمایا کرتے تھے انبیاءکرام کو معجزات کا اظہار واجب اور اولیاءکرام کا کرامات کو چھپانا واجب ہے ۔
حضرت شیخ شاہ رکن عالم کی غذا بہت ہی قلیل تھی، ایک پیالہ دودھ میں کچھ میوے ڈال کر اسی سے چند لقمے تناول فرماتے، گھر والوں نے ایک طبیب سے قلت غذا کی شکایت کی طبیب نے غذا مانگوا کر دیکھی اور اس میں سے چند لقمے خود کھائے ، کھانے کے بعد اس نے گرانی محسوس کی اور کہا اب سات دن کھانے کی حاجت نہ ہو گی کونکہ بزرگوں کے کھانے میں کمیت سے زیادہ کیفیت ہوتی ہے ۔ قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن عالم کا شمار بھی ان نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تمام زندگی دین اسلام کی نشر و اشاعت اور مخلوق خدا کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ برصغیر میں حضرت شاہ رکن عالم نے ایسے روحانی اور علمی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیںجو رہتی دنیا تک اسلام کی حقانیت کو عام کرتے رہیں گے۔ آپ فرماتے کہ جب تک کوئی شخص اوصاف ذھیمہ سے پاک نہیں ہوتا اس کا شمار جانوروں اور درندوں میں سے ہے ، اور جسم تو پانی سے پاک ہو جاتا ہے مگر دل کی آلودگی آنکھوں کے پانی سے دور ہوتی ہے ۔ حضرت شیخ شاہ رکن عالم 16 رجب المرجب بمطابق 735 ھ بروز جمعرات نمازمغرب سے فارغ ہونے کے بعد صلوٰة اوابین ادا فرما رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو سر سجدے میں رکھ دیا، اسی وقت محبوب کا بلاوا آیا اور روح پرواز کر گئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو آپ کے دادا حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں میں دفن کیا گیا۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اوورسیز میں پاکستانی گداگرایک صوبے میں منظم مافیا

      آج ہی یہ تحریر انٹرنیٹ سے ملی ہے غور سے پڑھئے سعودی عرب نے پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سخت اقدامات کیے ہیں، جن ک...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر