اتوار، 30 جون، 2024

بچے کے خواجہ سرا بننے کی طبی وجوہات

 بچے کے خواجہ سرا بننے کی طبی وجوہات-

ء 1942 میں  ایک امریکن ریسرچر  نے خواجہ سراء بچوں پر تحقیق کی اور  ریسرچ میں ایک بیماری Klinefelter Syndrome  دریافت کی جو کہ اسی کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ اس محقق کے مطابق ہیجڑا، یا خواجہ سراء انسانوں میں مرد یا عورت کی طرح سے کوئی تیسری صنف نہیں بلکہ ایک جسمانی بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مرد اور عورت کے روپ میں ہی پیدا فرمایا ہے لیکن جس طرح دیگر پیدائشی بیماریوں کی وجہ سے اکثر بچوں میں پیدائشی اندھا گونگا اور بہرا پن آجاتا ہے تو بالکل اسی طرح کروموسومز X اور Y کی تعداد کے عدم مطابقت کی وجہ سے بچہ کی جنس کا تعین نہیں ہو پاتا اور بچہ پیدائشی طور پر ابنارمل ہو جاتا ہےکروموسومز کو اردو زبان میں لون جسمیہ کہا جاتا ہے جو کہ دو الفاظ لون یعنی رنگ اور جسمیہ یعنی جسم کا مرکب ہے۔ انگریزی زبان میں بھی لگ بھگ اس کا مطلب یہی بنتا ہے۔ chromo یعنی رنگ اور somes یعنی اجسام۔ کروموسومز دراصل انسانی جسم کے خلیات کے مرکزوں میں پائے جانے والے Macromalecules کو کہا جاتا ہے جو کہ DNA اور لحمیات سے مل کر بنے ہوتے ہیں۔ ان کروموسومز کی تبدیلی کو طفرہ یعنی Mutation کہا جاتا ہے۔ نسل انسانی کی افزائش اور ارتقاء میں ان کروموسومز کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک نسلی اور انسانی خصوصیات کی منتقلی کا کام جینز کے ذریعے ہوتا ہے اور یہ جینز کروموسومز پر مشتمل ہوتے ہیں۔دھاگے نما ان کروموسومز پر مختلف پیغامات درج ہوتے ہیں جن کا تعلق انسان کے رنگ، نسل، زبان، ذہنی سوچ اور رہن سہن کے طور طریقوں سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین کے کروموسومز کا مجموعہ رکھنے کی وجہ سے بچہ اس رنگ، نسل، زبان اور ماحول کے لئے اجنبی نہیں ہوتا بلکہ اس میں والدین کے جینز میں موجود بہت ساری ظاہری خوبیاں جیسے آنکھوں کا رنگ، چہرے کی بناوٹ اور چال ڈھال وغیرہ اور اسی طرح بہت سی باطنی خوبیاں جیسے پسند ناپسند کا ملنا، بول چال کے طور طریقے اور ذہنی ہم آہنگی تک پائی جاتی ہے۔

    ہر انسان میں 23 کروموسومز کے جوڑے پائے جاتے ہیں اور ہر جوڑا دو کرومیٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر 46 کرومیٹین پائے جاتے ہیں۔ کرومیٹین کی شکل کو دیکھا جائے تو یہ انگریزی زبان کے حروف X اور Y سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اس لئے ان کو X اور Y کرومیٹین کہا جاتا ہے۔ عورت کے خلیے میں موجود ہر کروموسومز کے جوڑے میں دو کرومیٹین XX پائے جاتے ہیں جبکہ مرد میں کے ہر کروموسومز کے جوڑے میں ایک X اور Y کرومٹین پایا جاتا ہے۔ اس طرح مرد کے 23 کروموسومز کے جوڑوں میں 23 کرومیٹین X اور 23 کرومیٹینY پائے جاتے ہیں۔ انسان کے نئے پیدا ہونے والے بچے میں بھی کروموسومز کے 23 جوڑے بنتے ہیں جو کہ ماں باپ کے کرومیٹینز کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جن میں سے 22 جوڑے رنگ، نسل، زبان اور دیگر خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ 23 واں جوڑا پیدا ہونے والے بچے کی جنس کا تعین کرتا ہے۔ اگر 23 ویں جوڑے میں ماں کی طرف سے مہیاکیے گئے کرومو اگر اسی 23 ویں جوڑے میں ماں کے X کرومیٹین کے ساتھ باپ کا Y کرومیٹین جوڑا بنا لے تو بچہ کی جنس لڑکا ہوگی۔ اور اس طرح پیدا ہونے والے لڑکے میں بھی کروموسومز XY کے 23 جوڑے ہوں گے یا لڑکی کی صورت میں اس میں کروموسومز XX کے 23 جوڑے ہوں گے۔

    1942 میں Klinefelter نے ایسی ہی ایک بیماری کی طرف نشاندہی کی تھی کہ کروموسومز کی تبدیلی کے وقت مرد وں میں بعض اوقات ایک زائد کرومیٹین X پیدا ہو جاتا ہے اور اس طرح اس انسانی جسم میں 46 کی بجائے 47 کرومیٹین پائے جاتے ہیں اور نتیجتاً 23 واں بننے والا جوڑا XXY کی شکل میں سامنے آتا ہے جس سے ایک ابنارمیلٹی پیدا ہوتی ہے جس کو سائنسی زبان میں 47، XXY اور عام فہم زبان میں Klinefelter Syndromکہا جاتا ہے۔ غالباًاسی ایک زائد کروموسومز کی وجہ سے انگریزی میں اس صنف کو Transgender کہتے ہیں انگریزی کے لفظ Trans کے معنی زائد کے ہیں اور عربی میں ان کے لئے لفظ مخنث تجویز کیا گیا ہے جس کا مادہ لفظ خنث سے لیا گیا ہے جس کے معنی کسرکے ہیں۔    سائنسدانوں کے مطابق مرد میں XXY کروموسومز کی ابنارملٹی ایک عام عنصر ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر 500 افراد میں سے ایک فرد میں یہ ابنارملیٹی پائی جاتی ہے ویسے اس کی تو کوئی ظاہری علامت بھی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر بچہ کی پیدائش کے وقت یہی ابنارمل جوڑا باپ کی طرف سے XX یا XY کی شکل میں ماں کے کرومیٹین X سے جوڑا بنا لے تو بچہ پیدائشی طور پر اس دردناک بیماری 47، XXY یا 47، XXXکا شکار ہوکر ایک Mutational Disorder کی صورت میں جنم لے گا۔


    واضح رہے کہ ماں کی طرف سے ہر صورت ایک ہی کرومیٹین X آتا ہے جبکہ باپ کی طرف سے X، Y دونوں میں سے کسی ایک کرومیٹین کے آنے کے مساوی امکانات ہوتے ہیں یعنی بچہ کی جنس کا تعین مکمل طور پر باپ کے کرومیٹین پر منحصر ہوتا ہے اور بدقسمتی سے اگر باپ کی طرف سے ہونے والے بچہ کو دونوں کرومیٹینز XY کا تحفہ مل جائے تو ماں کے X کے ساتھ مل کر وہ بچہ دنیا میں آتے ہی اس اونچی ناک اور غیرت مند باپ کے لئے ایک گالی بن جاتا ہے۔ اور ماں اور بچہ کو اس ناکردہ گناہ کی سزا مرتے دم تک بھگتنا پڑتی ہے۔مندرجہ بالا معلومات اس بات کو دوبارہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دو ہی جنس میں انسان کو پیدا فرمایا ہے لیکن دیگر پیدائشی بیماریوں اندھا گونگا اور بہرا پن کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بیماری ہے جو کہ قابل علاج ہے نا کہ قابل نفرت۔ قرآن و حدیث میں کس طرح اس بیماری کا ذکر ہے اور کیا احکامات لاگو کیے گئے ہیں  ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے کہ جس طرح دیگر پیدائشی کمزوریوں کے شکار بچوں کو خصوصی بچے Special Child سمجھا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی خصوصی بچے ہوتے اور یکساں حقوق رکھتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنی بہت سی معاشرتی خامیوں کو مذہب کی آڑ دے کر اپنایا ہوا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس بیماری میں مبتلا افراد کو اچھوت سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کردیتا ہے اور عامل فاضل افراد کی ایک کثیر تعداد ہونے کے باوجود بہت ہی کم افراد ان کو تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ہی گھر سے بے دخل اور ہر معاشرتی حق سے محروم یہ افراد زندگی کی سانسوں کو پورا کرنے کی خاطر ہر جائز و نا جائز کام کرنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں اور ایک حقارت بھری چھاپ ان کی منتظر ہوتی ہے۔


    جاہل اور کم پڑھے لکھے افراد کے نزدیک ایسے افراد قابل تحقیر کیوں قرار پائے جاتے ہیں کوئی وجہ آج تک سمجھ نہیں لگی۔ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ خدا کی یہ بے بس اور بے گناہ مخلوق صرف اپنی ہی آزمائش نہیں جی رہی بلکہ من حیث القوم و ملت ہم بھی اس آزمائش میں برابرکے حصہ دار ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت جائیداد میں حصہ اور ایک پر سہل آسان زندگی مہیا کرنا ان کے بنیادی حقوق ہیں جو کہ میں نے یا آپ نے نہیں بلکہ ان کے خالق اللہ نے ان کو عطاکیے ہیں۔ ان کے ماں باپ سے ان کے ہر ہر اس فعل کا حساب لیاجائے گا جو ان ماں باپ سے دیگر بچوں کے بارے میں ہوگا۔ یاد رکھیں اللہ کے نزدیک یہ کوئی تیسری جنس نہیں بلکہ مرد اور عورت کی جنس میں سے ایک جنس ہے جس کے علاج اور دیگر بنیادی حقوق معاشرے اور حکومت پر اسی طرح عائد ہیں جس طرح اسلامی فلاحی مملکت پر باقی بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے مواقع میسر کرنا ہے۔کیا ہی اچھا اور احسن فعل ہو کہ ان کے حقوق کو سمجھا جائے اوراس بیماری میں مبتلا افراد کو آدم اور حوا کی اولاد تسلیم کرکے باعزت انداز میں لکھا اور پڑھا جانے کے لئے ان کے لئے ”حوادم ‘‘ کی اصطلاح متعارف کروائی جائے تاکہ سب سے پہلے تو حوا اور آدم کی اس اولاد کو اس کا باعزت اور قابل احترام تعارف دیا جا سکے۔ بعد ازاں ان کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی خصوصی تعلیم Special Education کے مراکز قائم کیے جائیں اور ملازمت میں ان کے لئے یکساں مواقع Special Persons Quota فراہم کیے جائیں۔ اور جن کا نفسیاتی یا طبعی علاج ممکن ہو ان کو علاج کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ نا صرف معاشرہ میں بہت سی اخلاقی برائیاں ختم کرنے میں مدد ملے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اللہ کے حضور ہمارا معاشرہ شرمندہ اور سزاوار نہ ہو  

ہفتہ، 29 جون، 2024

علامہ آئی آئی قاضی -سندھ دھرتی کا ہونہار سپوت

 


 سندھ کی پاکیزہ دھرتی پر جنم لینے والے علامہ آئی آئی قاضی بہت بڑے فلاسفر اور اسکالر  گزرے ہیں -   اس زمانے  کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم مکتب آخوند عبدالعزیز سے  حاصل کی  -اس  کے بعد علامہ آئی آئی قاضی نے عربی، اسلامی تعلیمات، فارسی زبان اور شاعری اور صوفی ازم کی تعلیم حاصل کی۔ ان میں خداداد صلاحیتیں تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں ہی بطور موذن اذان دینے لگےاس مرحلے کے بعد اسکول کی تعلیم حاصل کی- 1907ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے جہاں سے آپ نے اقتصادیات اور نفسیات کی تعلیم حاصل کی۔ 1910ء میں جرمنی گئے۔ علامہ 1951ء میں سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ آپ نے 1959ء میں استعفا دیا اور سندھی ادبی بورڈ کے لیے کتابیں لکھنے لگے۔وہ بین الاقوامی طور پر مانے ہوئے شخص تھے، ان سے متاثر ہونے والوں میں علامہ اقبال، ذاکر حسین (ہندوستان کے سابق صدر)، مولانا ابو الکلام آزاد اور جارج برنارڈ شا قابل ذکر ہیں آپ کا شمار سندھ یونیورسٹی جامشورو کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی اعلیٰ پائے کے ادیب و محقق اور دانش ور تھے۔ سندھی ادب کی ترقی کے حوالے سے ان کی تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ علامہ آئی آئی قاضی کے والد قاضی امام علی تاریخی گاؤں پاٹ دادو ڈسٹرکٹ میں رہائش پذیر تھے۔


 گاؤں پاٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر تقریباً پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے اور انھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث نام کمایا تھا۔ یہاں کے لوگ پڑھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ گاؤں 603 ہجری میں قائم ہوا تھا۔ 1870 عیسوی میں قاضی امام علی اور ان کے دو عزیز دوست قاضی عبدالرؤف اور قاضی ہدایت اللہ براہ راست محکمہ ریونیو میں مختیار کار بھرتی ہوگئے۔ اس زمانے میں برطانوی حکومت کی روزگار پالیسی اچھے خاندانی پس منظر پر مبنی تھی۔ فیملی بیک گراؤنڈ دیکھ کر قاضی امام علی کو نوکری دی گئی۔ امام علی انصاری کا خاندان دیانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھا۔ان کے آباواجداد کا تعلق انصاری خاندان سے تھا- ۔ 1902 میں 16 سال کی عمر میں ہم علامہ قاضی آئی آئی کو صوفیوں کی صحبت میں دیکھتے ہیں۔ 1902 میں علامہ آئی آئی قاضی صوفی فقیر احمد تھیبو کے حلقے میں شامل ہوئے۔ صوفی ازم کی تعلیمات کا اثر علامہ آئی آئی قاضی کی شخصیت پر بہت گہرا ہوا اور آپ اسلام کے مبلغ بن گئے۔18 سال کی عمر میں 1904 میں مقامی سندھی فائنل امتحان بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیا، فارسی لازمی مضمون میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 1905 میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1906


 میں 20 سال کی عمر میں کچھ عرصے کے لیے علی گڑھ کالج بھی گئے مگر ایک سال وہاں قیام کرنے کے بعد واپس آگئے۔ 1907 میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئے۔ لندن میں قاضی صاحب نے پہلے ایک سال پرائیویٹ اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ اگلے سال 1909 میں لندن اسکول آف اکنامکس میں داخل ہوگئے۔علامہ آئی آئی قاضی بہت بڑے فلاسفر اور اسکالر تھے۔ آپ کا شمار سندھ یونیورسٹی جامشورو کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی اعلیٰ پائے کے ادیب و محقق اور دانش ور تھے۔ سندھی ادب کی ترقی کے حوالے سے ان کی تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کے آباواجداد کا تعلق انصاری خاندان سے تھا، ان کے بڑے محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں آئے تھے اور یہاں سکونت اختیار کی تھی۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والوں میں قاضی عبداﷲ انصاری عرب سے ہجرت کرکے پاٹ ضلع دادو سندھ اور ان کے بھائی عبدالسمیع روہڑی میں قیام پذیر ہوئے۔علامہ آئی آئی قاضی کے والد قاضی امام علی تاریخی گاؤں پاٹ دادو ڈسٹرکٹ میں رہائش پذیر تھے۔ گاؤں پاٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر تقریباً پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے اور انھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث نام کمایا تھا۔ یہاں کے لوگ پڑھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ گاؤں 603 ہجری میں قائم ہوا تھا۔


 1870 عیسوی میں قاضی امام علی اور ان کے دو عزیز دوست قاضی عبدالرؤف اور قاضی ہدایت اللہ براہ راست محکمہ ریونیو میں مختیار کار بھرتی ہوگئے۔ اس زمانے میں برطانوی حکومت کی روزگار پالیسی اچھے خاندانی پس منظر پر مبنی تھی۔ فیملی بیک گراؤنڈ دیکھ کر قاضی امام علی کو نوکری دی گئی۔ امام علی انصاری کا خاندان دیانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھا۔قاضی صاحب اور ایلسا قاضی کی پہلی ملاقات سے متعلق ایک واقعہ بعض کتابوں میں‌ آیا ہے کہ ایک بار علامہ قاضی جب ریلوے اسٹیشن آئے تو وہاں پر ٹرین چلنے کے قریب تھی، ہڑبونگ میں وہ چلتی ہوئی ٹرین پر سوار ہوگئے مگر جب دیکھا تو وہاں سوائے ایک لڑکی کے اور کوئی نہ تھا۔ وہ لڑکی ایلسا قاضی تھی، علّامہ قاضی کو بے حد شرم محسوس ہوئی کہ ایک اکیلی لڑکی پورے ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔ وہ وہاں نشست پر بیٹھنے کے بجائے دروازے کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ایلسا قاضی کو حیرت ہوئی کہ یہ نوجوان بیٹھ نہیں رہا جب کہ وہ اسے بیٹھنے کو بھی کہہ چکی ہیں، اور یوں وہ ان کی شرافت سے متاثر ہوئیں اور بعد میں ان کی علمی قابلیت اور کام بھی ان کے سامنے آیا۔ یوں ان کے مابین الفت کا جو تعلق استوار ہوا اس میں علمی ذوق و شوق کی وجہ سے احترام اور قدر افزائی بھی شامل ہوگئحیدر آباد: سندھ کے لوگوں میں تعلیمی وسیاسی شعور بیدار کرنے میں سندھی ادیبوں کا اہم کردار ہے۔ ان شخصیات میں ایک ایسا نام بھی شامل ہے جو سندھی قوم کا محسن ہے، جس کی سندھ کے لیے تعلیمی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اس عظیم شخصیت کا نام علامہ امداد علی امام علی قاضی اور ان کا ادبی نام علامہ آئی آئی قاضی ہے


ایلسا قاضی سندھی زبان نہیں جانتی تھیں لیکن انھوں نے ایک معاون کے ذریعے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کو سمجھ  ترجمہ کیا۔ انھوں نے شاہ جو رسالو کو انگریزی زبان میں منتقل کیا۔ ایلسا، جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والدین لندن ہجرت کر گئے جہاں ایلسا نے اپنی تعلیم حاصل کی اور اسی زمانے میں ان کی ملاقات علّامہ قاضی سے ہوئی جو پاکستان کے ایک مشہور نامور ادیب، مفکر اور محقق تھے، آئی آئی قاضی نے ان سے جرمنی میں 1910 میں شادی کی۔ شادی کے بعد دونوں زیادہ عرصہ لندن میں رہے۔ اور 1951ء میں علامہ قاضی نے سندھ یونیورسٹی کی صدارت قبول کی تو ان کے ساتھ سندھ آگئیں۔ یہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مگن رہیں۔ 28 مئی 1967 کو ایلسا قاضی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

 

جمعہ، 28 جون، 2024

تھالی کا بینگن" افسانہ" افسانہ نگار کرشن چندر


تو جناب جب میرم پور میں میرا دھندہ کسی طور نہ چلا، فاقے پر فاقے ہونے لگے اور جیب میں آخری اٹھنی رہ گئی تو میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ گھر میں تھوڑا سا آٹا بھی نہیں ہے کیا؟ و ہ نیک بخت بولی:''چار چپاتی کا ہوگا۔ ''میں نے جیب میں سے آخری اٹھنی نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا:'' جا بازار سے بینگن لے آ، آج چپاتی کے ساتھ بینگن کی بھاجی کھا لیں گے۔ '' وہ نیک بخت بولی:''اس وقت تو کھا لیں گے، شام کے کھانے کا کیا ہوگا؟'' ''تو فکر نہ کر، وہ اوپر والا دے گا۔ '' میں نے کہا۔ پھر میری نظر شیشے کے اس بکس پر پڑی جس میں چھوٹا سا تاج محل رکھا ہوا تھا۔ یہ تاج محل میں نے نئی نئی شادی کے دنوں میں اپنی بیوی کے لیے آگرہ میں خریدا تھا اور تاج محل کو دیکھ کر ہی خریدا تھا۔ محبت بھی کیا چیز ہے، اس بیس روپے کے تحفے کو پا کر میری بیوی کا چاند سا مکھڑا گلابی ہوگیا تھا۔ اس وقت جب میں نے اس شیشے کے تاج محل کو دیکھ کر کہا:''کچھ نہ ہوا تو اس کھلونے کو بیچ دیں گے۔ ''تو جناب اس کا چہرہ ایسا پیلا پڑ گیا جیسے کسی نے یکایک اس کے چہرے کا سارا خون کھینچ لیا ہو، خوف، مجبوری اور نا امیدی کے ملے جلے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں بولی:''نہیں میں اِسے بیچنے نہ دوں گی، یہ تو... یہ تو میرے سہاگ کی نشانی ہے۔ ''میں نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرتے ہوئے بہت نرمی سے کہا:'' اچھا نہیں بیچیں گے اِسے، کچھ اور بیچ دیں گے۔ ہوسکتا ہے اوپر والا کوئی اور سبیل کر دے، تو اس وقت جا کر بینگن تو لے آ، بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔ ''وہ بازار سے بینگن لے آئی۔ رسوئی میں بیٹھ کر اس نے پہلا بینگن کاٹا ہی تھا کہ اسے اندر سے دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ ''ارے'' اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ''کیا ہے؟'' میں رسوئی کے اندر گیا اس نے مجھے کٹا ہوا بینگن دکھایا۔ ''دیکھو تو اس کے اندر کیا لکھا ہے؟''

میں نے غور سے بینگن دیکھا۔ بینگن کے اندر بیج کچھ اس طرح ا یک دوسرے سے جڑ گئے تھے کہ لفظ اللہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ''ہے بھگوان'' میں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:''یہ تو مسلمانوں کا اللہ ہے۔ ''محلہ پور بیاں جہاں میں رہتا تھا، ملا جلا محلہ ہے یعنی آدھی آبادی ہندوؤں کی اور آدھی مسلمانوں کی ہے۔ لوگ جوق در جوق اس بینگن کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ ہندوؤں اور مسیحیوں کو تو اس بینگن پر یقین نہ آیا لیکن حاجی میاں چھنن اس پر ایمان لے آئے اور پہلی نذر نیاز انہوں نے ہی دی۔ میں نے اس کٹے ہوئے بینگن کو اس شیشے کے بکس میں رکھ دیا جس میں تاج محل رکھا تھا۔ تھوڑی دیر میں ایک مسلمان نے اس کے نیچے ہرا کپڑا بچھا دیا۔ منن میاں تمباکو والے نے قرآن خوانی شروع کر دی۔ پھر کیا تھا شہر کے سارے مسلمانوں میں اس بینگن کا چرچا شروع ہوگیا۔ جناب! سمتی پورہ سے میمن پورہ تک اور ہجواڑے سے کمانی گڑھ تک اور ادھ ٹیلا میاں کے چوک سے لے کر محلہ کوٹھیاراں تک سے لوگ ہمارا بینگن دیکھنے کے لیے آنے لگے۔لوگ باگ بولے ایک کافر کے گھر میں ایمان نے اپنا جلوہ دکھایا ہے۔ نذر نیاز بڑھتی گئی۔ پہلے پندرہ دنوں میں سات ہزار سے اوپر وصول ہوگئے۔ جس میں سے تین سو روپے سائیں کرم شاہ کو دیے جو چرس کا دم لگا کر ہر وقت اس بینگن کی نگرانی کرتا تھا۔پندرہ بیس دن کے بعد جب لوگوں کا جوش ایمان ٹھنڈا پڑتا دکھائی دیا تو ایک رات جب سائیں چرس کا دم لگا کر بے سدھ پڑا تھا میں نے آہستہ سے اپنی بیوی کو جگایا اور کٹے ہوئے بینگن کے اوپر سے شیشے کا بکس ہٹا کر کہا:'' دیکھو کیا دِکھائی دیتا ہے۔ '' وہ بولی:''اللہ۔ '' میں نے کٹے ہوئے بینگن کا رخ ذرا سا سرکایا اور پوچھا:''اب کیا دکھائی دیتا ہے؟'' ''اوم ، ارے یہ تو اوم ہے۔ '' میری بیوی نے انگلی ٹھوڑی پر رکھ لی۔ اس کے چہرے پر استعجاب تھا۔

راتوں رات میں نے پنڈت رام دیال کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے بلا کر کٹے ہوئے بینگن کا بدلا ہوا رخ دکھایا۔ پنڈت رام دیال نے چیخ کر کہا:''ارے یہ تو اوم ہے اوم۔ اتنے دنوں تک مسلمانوں کو دھوکا دیتے رہے۔ '' اس کی چیخ سن کر سائیں کرم شاہ جاگ گیا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا یہ کیا ہورہا ہے۔ وہ پھٹی پھٹی سرخ آنکھوں سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ پنڈت رام دیال نے اسے لات مار کر کہا:'' نکل بے، ہمارا دھرم بھرشٹ کرتا ہے، اوم کو اللہ بتاتا ہے۔ ''بس پھر کیا تھا سارے شہر میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ کٹے ہوئے بینگن کے اندر دراصل ''اوم'' کا نام کھدا ہوا ہے۔ اب پنڈت رام دیال نے اس پر قبضہ جما لیا۔ رات دن آرتی ہونے لگی۔ بھجن گائے جانے لگے، چڑھاوا چڑھنے لگا۔ میں نے رام دیال کا حصہ بھی رکھ دیا تھا کہ جو محنت کرے اسے بھی پھل ملنا چاہیے، لیکن بینگن پر ملکیت میری ہی رہی۔ اب شہر کے بڑے بڑے سنت جوگی اور شدھ مہاتما اور سوامی اس بینگن کو دیکھنے کے لیے آنے لگے جہاں اللہ نے اوم بن کر اس کٹے ہوئے بینگن میں گویا مسلمانوں کو شکست دی تھی اور پانی پت کی تینوں لڑائیوں کا بدلا چکا دیا تھا۔ شہر میں جابجا لیکچر ہورہے تھے۔ ہندو دھرم کی فضیلت پر دھواں دار بھاشن دیے جا رہے تھے۔ شہر میں تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ ہندو کہتے تھے یہ اوم ہے، مسلمان کہتے تھے یہ اللہ ہے۔ اللہ اکبر۔ ہری اوم ست۔ اگلے پچیس دنوں میں کوئی پندرہ بیس ہزار کا چڑھاوا چڑھا اور سونے کی انگوٹھیاں اور سونے کا ایک کنگن بھی ہاتھ آیا لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کا خمار پھر ڈھلنے لگا۔ تو جناب! میں نے سوچا اب کوئی اور ترکیب لڑانی چاہیے۔ سوچ سوچ کر جب ایک رات پنڈت رام دیال بھنگ کے نشے میں دھت فرش پر لیٹے ہوئے تھے، تو میں نے اپنی بیوی کو جگا کر کہا:'' نیک بخت دیکھو اس شیشے کے بکس کے اندر کٹے ہوئے بینگن کے اندر تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟''''اوم ہے صاف اوم ہے۔ '' میں نے اوم کا زاویہ ذرا سا اور سرکا دیا! اور پوچھا''اب بتا کیا دکھائی دیتا ہے؟'' وہ دیکھ کر گھبرا گئی۔ منہ میں انگلی ڈال کر بولی:''ہے رام یہ تو عیسائیوں کی صلیب ہے۔ ''

''شش۔ '' میں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا:''بس کسی سے کچھ نہ کہنا۔ صبح تک چپ رہنا ہوگا۔ کل اتوار ہے۔ کل 'صبح میں پادری ڈیورنڈ سے ملوں گا۔'کٹے ہوئے بینگن میں مسیحی صلیب کو دیکھنے کے لیے پادری ڈیورنڈ اپنے ساتھ گیارہ عیسائیوں کو لے آئے اور بینگن کی صلیب دیکھ کر اپنے سینے پر بھی صلیب بنانے لگے۔ اور عیسائیوں کے بھجن گانے لگے اور سر پرجالی دار رومال اوڑھے خوب صورت فراک پہنے سڈول پنڈلیوں والی عورتیں اس معجزے کو دیکھ کر نہال ہوتی گئیں۔ شہر میں تناؤ اور بھی بڑھ گیا۔ ہندو کہتے تھے اس بینگن میں اوم ہے، مسلمان کہتے تھے اللہ ہے، عیسائی کہتے تھے صلیب ہے۔ بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے جانے لگے۔ اکا دکا چھرے بازی کی وارداتیں ہونے لگیں۔ سمتی پورہ میں دو ہندو مار ڈالے گئے اور مستری محلے میں تین مسلمان۔ ایک عیسائی شہر کے بڑے چوک میں ہلاک کر دیا گیا۔ شہر میں دفعہ ۱۴۴نافذ کر دی گئی۔جس دن میری گرفتاری عمل میں آنے والی تھی اس سے پہلے دن کی رات میں نے بینگن کو موری میں پھینک دیا۔ گھر کا ساراسامان باندھ لیا اور بیوی سے کہا:'' کسی دوسرے شہر چل کر دوسرا دھندا کریں گے۔ '''' تو جناب! تب سے میں بمبئی میں ہوں۔ میرم پور کے ان دو مہینوں میں جو رقم میں نے کمائی تھی اس سے ایک ٹیکسی خرید لی ہے۔ اب چار سال سے ٹیکسی چلاتا ہوں اور ایمانداری کی روزی کھاتا ہوں۔ '' اتنا کہہ کر میں نے میز سے اپنا گلاس اٹھایا اور آخری گھونٹ لے کر اسے خالی کر دیا۔ یکایک میری نگاہ میز کی اس سطح پر گئی جہاں میرے گلاس کے شیشے کے پیندے نے ایک گیلا نشاں بنا دیا تھا میں نے اپنے دوسرے ساتھی ٹیکسی ڈرائیور محمد بھائی سے کہا:'' محمد بھائی دیکھو تو اس گلاس کے پیندے کے نیچے جو نشان بن گیا ہے یہ اوم ہے کہ اللہ؟''محمد بھائی نے غور سے نشان کو دیکھا، مجھے دیکھا پھر میری پیٹھ پر زور سے ہاتھ مار کر کہا: ''ابے سالے! یہ بمبئی ہے یہاں اوم ہے نہ اللہ نہ صلیب۔ جو کچھ ہے روپیہ ہے بس روپیہ۔ '' اتنا کہہ کر محمد بھائی نے میز پر ہاتھ پھیر کر پانی کے نشان کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔


جمعرات، 27 جون، 2024

مزدلفہ سے واپسی 'سات کلومیٹر طویل راستے پر پانی تھا نہ کوئی سایہ‘

 حضرت علی  علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اتنے توشہ اور سواری کا مالک ہو جائے، جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے ، تو اس کے لیے کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ، اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو، اس کی طرف راہ چلنے کی۔(جامع ترمذی)نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کے راستے کا مجاہد اورحج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اللہ نے انہیں بلایا، لہٰذا انہوں نے اس پر لبیک کہا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے، تو اللہ نے ان کو نوازا ہے۔ (ابن ماجہ، :۲۸۹۳)


فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محمد اعلیٰ ایک پرائیوٹ گروپ کے حج آرگنائزر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے تجربے میں سعودی کنٹرولر ہیں، سہولت کار نہیں۔ ’وہ کنٹرول کرتے ہیں مگر سہولت نہیں دیتے۔‘محمد اعلیٰ کے مطابق اس سال حج کے دوران شدید گرمی میں ایک عام حاجی کو طوافِ زیارت کے علاوہ روزانہ کم از کم 15 کلومیٹرچلنا پڑ سکتا تھا جس میں گرمی اور تھکن کے ساتھ اسے ہیٹ سٹروک کا سامنا بھی ہو سکتا تھا اور جگہ جگہ پانی بھی میسر نہیں ہوتا -وہ بتاتے ہیں کہ وہ 18 مرتبہ حج کا قافلہ لا چکے ہیں اور ماضی میں مکاتب تک جانے کے جو یوٹرن تھے وہ کھلے تھے مگر اب وہ سارے راستے اور یوٹرن بند کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام حاجی کو بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے حتیٰ کہ اگر اس کا خیمہ زون ون میں اے کیٹگری میں ہے تب بھی اسے اپنے خیمے تک جانے کے لیے گرمی میں کم از کم ڈھائی کلومیٹر پیدل چلنا ہو گا۔محمد اعلیٰ کہتے ہیں کہ اگر اس راستے پر کسی کے ساتھ ایمرجنسی ہو جائے تو 30 منٹ تک کوئی آپ کے پاس نہیں آئے گا اور کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ زندگی بچائی جا سکے اور نہ ہی ایسے راستوں پر جگہ جگہ پانی کے پوائنٹس ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ زبان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تاہم اس کے حل کے لیے پاکستانی کیمپوں میں حکومت کے سکاؤٹس موجود ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی حاجی غلط راستے پر چلا جائے تو اس میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایسی ویڈیوز دیکھی میں جن میں کئی مصری شہریوں کی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں اور بظاہریہ وہی افراد ہیں جو عمرے کے طویل دورانیے کے ویزوں پر آئے اورانھوں نے رک کر غیر قانونی حج ادا کیا۔محمد اعلیٰ کا کہنا ہے ’چونکہ ان مصری شہریوں نے غیر قانونی طریقے سے حج ادا کیا تو ان کے پاس خیموں وغیرہ جیسی کوئی سہولت نہیں تھی، لہذا انھیں گرمی میں کھلے آسمان تلے رہنا  تھا 

حج کے سلسلے میں سعودی عرب میں موجود پاکستانی خاتون حنا (فرضی نام  سات کلومیٹر طویل راستے پر پانی تھا نہ کوئی سایہ‘) بھی ایسے ہی مسائل کی نشاندہی کرتی دکھائی دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہمیں منی سے عرفات کے میدان میں لے جایا گیا، اس روز ہمیں حاجیوں کی اموات کی خبریں ملنا شروع ہوئیں کہ گرمی سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ وہاں بنے کیمپوں میں بیٹھنے کی جگہ بہت محدود تھی۔ شدید گرمی میں لوگوں کو باہر بیٹھنا پڑا یا اندر جگہ لینے کے لیے لڑائی جھگڑا کرنا پڑا‘۔حنا نے بتایا کہ ’کیمپوں میں لوگوں کو ایسے ہی رکھا گیا تھا جیسے کسی فارم میں مرغیوں یا جانورو  ں کو ساتھ ساتھ رکھا جاتا ہے، بستروں کے درمیان گزرنے کی جگہ تک نہیں تھی اور سینکڑوں افراد کے لیے گنتی کے چند واش روم تھے‘۔خیموں کی صورتحال کے متعلق  لوگوں    نے بتایا کہ خیموں میں اے سی تو تھے لیکن خواتین کی زیادہ تعداد کی وجہ سے گھٹن تھی جس پر وہاں لڑائی دن بھر دیکھنے کو ملتی تھی۔


ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں مدد کرنے والا تو دور کوئی شکایت سننے والا بھی نہیں تھا۔ ’نہ آپ کسی کو شکایت کر سکتے ہیں نہ ہی مدد لے سکتے ہیں ہر کوئی ذمہ داری دوسرے پر ڈالنے کا عادی ہے‘۔وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاونین یہاں بے بس دکھائی دیے اور کہتے رہے کہ ’مکتب تو سعودیہ کے کنٹرول میں ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ ان سے خود بات کر لیں‘۔ اور سعودی کیمپ منیجرز کہتے تھے کہ ’بس یہی ہے۔ جس کے اندر گزارہ کریں ہمارے پاس یہی سہولیات ہیں‘۔حنا کا کہنا تھا کہ مزدلفہ میں رات گزار کر اگلی صبح انھیں ٹرین کے ذریعے جمرات کی جانب لے جایا گیا لیکن وہاں سے واپسی کا سفر شدید تکلیف دہ بن گیا۔ ’ہمیں سات کلومیٹر طویل راستے پر بھیجا گیا جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی سایہ اور بہت سے حاجیوں کی طبیعت اس مقام پر خراب ہوئی‘حنا بتاتی ہیں کہ وہاں سعودی حکومت کی گاڑیاں موجود تو تھیں لیکن بیمار اور گرمی سے بے ہوش ہونے والے عازمین کی مدد کے لیے استعمال میں نہیں لائی جا رہی تھیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ حاجیوں کے منیٰ سے جمرات کے مختصر فاصلے کو طے کرنے کے لیے جو راستے بنائے گئے تھے وہ اس طرح سے ڈیزائن کیے گئے تھے کہ حجاج کو کئی میل اضافی سفر کرنا پڑا۔شدید گرمی میں جب لو چل رہی تھی تو عازمین کو کئی گھنٹوں پیدل چلایا گیا‘۔ حنا نے دعویٰ کیا منیٰ سے رمی کےلیے جمرات تک جانے اور آنے میں انھیں 26 کلومیٹر چلنا پڑا جبکہ وہ راستہ جس کی طوالت صرف پندرہ منٹ کی تھی وہ پولیس نے بند کیا ہوا  


’رضاکار یہی کہتے رہے کہ سب سعودی حکام کے ذمہ ہے‘آمنہ بتاتی ہیں کہ جو لوگ منیٰ سے واپس آئے انھیں واپسی میں کئی گھنٹے لگے ہیں اور ان تھکے ہارے حاجیوں کو رہائش سے قریبی مقام تک نہیں پہنچایا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایک کلومیٹر کے لیے ٹیکسیوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں اور ’منیٰ سے مکہ تک ٹیکسی والے 2000 ریال مانگ رہے تھے‘۔آمنہ کا دعویٰ ہے کہ حجاج کے لیے ابتدائی طبی امداد کی سہولیات بظاہر تو موجود تھیں لیکن مدد کرنے والا عملہ تربیت یافتہ نہیں تھا۔’گاڑیاں تو وہ لے لے کر گھومتے ہیں لیکن انھیں ڈرپ تک نہیں لگانا آتی۔‘آمنہ بتاتی ہیں کہ ان کے گروپ میں ایک شخص کلیسٹروفوبیا کا شکار (رش والی جگہوں پر گھبراہٹ کا شکار ہونے والے افراد) تھا جس کی طبیعت خراب ہونے پر جب طبی امداد کی ضرورت پڑی تو دی جانے والی مدد ناکافی تھی۔جمرات میں رش دیکھ کر ان کی سانس اکھڑنے لگی اور انھیں آکسیجن کی ضرورت تھی۔ جمرات میں تو ایمرجنسی سہولت میسر تھی مگر واپسی پر ان کی حالت پھر خراب ہوئی تو مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔’ہم سٹرک کنارے بیٹھے سعودیوں سے ایمبولینس مانگ رہے تھے مگر وہ بس یہی کہتے رہے، بلاتے ہیں بلاتے ہیں۔ بالاخر ایک ایمبولینس آئی اور ڈاکٹر نے دو سیکنڈ بھی نہیں دیکھا اور بولا انھیں کچھ نہیں ہوا اور چلا گیا۔‘حجاجِ جن تین ستونوں کو باری باری کنکر مارتے ہیں ان کو جمرات کہا جاتاہے۔آمنہ کہتی ہیں کہ 25 منٹ سے زیادہ وقت گزر گیا تو ’ہم نے انھیں دھمکایا کہ ہم ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا  پر بتائیں گےتب جا کر جمرات کی اجازت ملی

منگل، 25 جون، 2024

پھر ایک جھولا بڑے حادثے کا باعث بن گیا

 


 وطن عزیز  عوام کے جان  و مال سے کھیلنے والے چہروں کو غور سے پڑھئے-اس وقت  ملک کے تمام موقر روزناموں نے  ہائلاٹ  کیا ہے کہ سوات کے علاقے خوشاب  میں کشتی جھولا گرنے سے متعدد بچے شدید زخمی  ہوئے ہیں ، 3 بچوں کی ٹانگیں اور بازو ٹوٹ گئے  جبکہ 26 بچے شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق ماڈل بازار جوہرآباد میں کشتی جھولے کو حادثہ پیش آیا ہے،حادثے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں،حادثے میں تقریباً 24 بچیاں، بچے اور جواں زخمی ہو گئے،جن کو طبی امداد کیلئے ڈی ایچ کیو ہسپتال جوہر آبادمنتقل کردیا گیا،ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ متعدد بچوں کے بازو اور ٹانگیں ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی کمشنر ذیشان شبیر رانا کا کہنا ہے کہ حادثے میں 3 بچوں کی ٹانگیں اور بازو ٹوٹ گئے  ہیں ، جھولا اوور لوڈنگ کی وجہ سے گرا،ڈپٹی کمشنر ذیشان شبیر رانا  اور ایم پی اے ملک محمد آصف بھائ ہسپتال پہنچ گئے ، حادثے کا شکار بچوں کی عیادت کی،  ایم ایس کو زخمیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی ہدایات کیں،ماڈل بازار منیجر کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے ،ماڈل بازار کو ہر قسم کی ایکٹیویٹی کے لیے سیل کر دیا گیا ہے


ایکسپریس نیوز کے مطابق ساہیوال کے کنان پارک میں کشتی جھولا ٹوٹنے سے خواتین اور بچوں سمیت 50 سے زائد افراد زخم ہوگئے جنہیں ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے جب کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق کشتی جھولا خراب اور خستہ حال ہونے کی وجہ سے ٹوٹا جب کہ جھولا چلانے کی اجازت ڈی سی او کی جانب سے دی گئی تھی تاہم اس حوالے سے انتظامیہ مزید تحقیقات کررہی ہے۔ساہیوال:  کنان پارک میں کشتی جھولا ٹوٹنے سے خواتین اور بچوں سمیت 50 افراد زخمی ہوگئے-کشتی جھولا  خراب اور خستہ حال ہونے کی وجہ سے ٹوٹا۔ فوٹو : فائلکشتی جھولا خراب اور خستہ حال ہونے کی وجہ سے ٹوٹا۔ فوٹو : فائلوزیراعلیٰ پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ اسکرین گریب/ ایکسپریس نیوزملتان: جناح پارک میں جھولا ٹوٹنے سے ایک شخص جاں بحق اور 12 افراد زخمی ہوگئے جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لے لیا۔

ایکسپریس نیوزکےمطابق ملتان کے جناح پارک میں ڈریگن جھولا ٹوٹنے سے 12 افراد زخمی ہوگئے جنہیں فوری طبی امداد کے لیے ریسکیو 1122 کے ذریعے قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا تاہم 4 افراد کو شدید زخمی ہونے کے باعث نشتر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ایک شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ نمائندہ کے مطابق ڈریگن جھولے پر پابندی کے باجود اسے کھولا گیا، جھولے پر20 افراد سوارتھے اوراس کا درواز کھلنے کے باعث 12 افراد نیچے آگرے۔نمائندہ نے بتایا کہ پچھلی عیدالاضحیٰ پربھی جناح پارک میں اسی جھولے کے ٹوٹنے کے سبب کئی افراد زخمی ہوئے اور اس بار ڈی سی او نے جھولے کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے جب کہ واقعہ پر ٹھیکیدار اور اس کے اسسٹنٹ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ساہیوال:  کنان پارک میں کشتی جھولا ٹوٹنے سے خواتین اور بچوں سمیت 50 افراد زخمی ہوگئے جنہیں ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ایکسپریس نیوز کے مطابق ساہیوال کے کنان پارک میں کشتی جھولا ٹوٹنے سے خواتین اور بچوں سمیت 50 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جنہیں ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے جب کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق کشتی جھولا خراب اور خستہ حال ہونے کی وجہ سے ٹوٹا جب کہ جھولا چلانے کی اجازت ڈی سی او کی جانب سے دی گئی تھی تاہم اس حوالے سے انتظامیہ مزید تحقیقات کررہی

’عسکری پارک میں گرنے والا جھولا غیر معیاری اور استعمال شدہ تھا‘

کراچی: ماہرین اور تفتیشی حکام نے عسکری امیوزمینٹ پارک میں جھولا گرنے کے واقعے پر مرتب کی گئی رپورٹ میں پارک میں نصب دیگر جھولوں کی دیکھ بھال اور انہیں چلانے کے عمل میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کردی۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کراچی کے علاقے پرانی سبزی منڈی میں قائم عسکری امیوزمینٹ پارک میں نصب جھولا گرنے سے ایک نو عمر لڑکی جاں بحق جبکہ 15 افراد زخمی ہوگئے تھے، اس جھولے کا افتتاح عید الفطر پر ہی ہوا تھا، جس کے بعد چیف سیکریٹری سندھ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔یہ بھی پڑھیں:ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ جھولا بولٹ ٹوٹنے اور گراریاں سلپ ہونے کے سبب گرا۔ کراچی کے ایک تفریحی پارک میں اتوار کی شام جھولا گرنے سے اس میں سوار ایک نوعمر لڑکی کشف ہلاک جبکہ 15 افراد زخمی ہو گئے۔بتدائی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ جھولا بولٹ ٹوٹنے اور گراریاں سلپ ہونے کے سبب گرا۔حادثہ گلشن اقبال ٹاؤن میں مین یونیورسٹی روڈ پرپرانی سبزی منڈی کی جگہ ایک ماہ قبل قائم ہونے والے عسکری پارک میں پیش آیا۔چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے پارک میں لوگوں کا رش تھا۔ حادثے کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔ جھولے کی اونچائی 20 سے 30 فٹ تھی۔جھولا بولٹ ٹوٹنے اور گراریاں سلپ ہونے کے سبب اچانک گر گیا۔عسکری امیوزمنٹ پارک کے ایک شیئرہولڈر زبیر طفیل کے مطابق جھولے کے تمام بولٹ ٹوٹ گئے تھے اور گراریاں سلپ ہو گئی تھیں۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام بولٹ کا ایک ساتھ ٹوٹنا خارج ازامکان ہے۔ زیبر نے بتایا کہ انہوں نے چینی کمپنی کے انجینئرز کو بھی طلب کر لیا ہے-پارک کا افتتاح ایک ماہ پہلے رمضان میں ہوا تھا اور مقامی میڈیا کو بھی افتتاحی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ تقریب عید سے ایک یا دو روز قبل منعقد ہوئی تھی جبکہ پبلک کے لئے یہ پارک 16جون کوعیدالفطر کے دن کھولا گیا تھا۔ جبکہ گرنے والا جھولا ایک ہفتے قبل ہی کھولا گیا تھا۔ مقامی انجینئرز نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ20 بولٹ بیک وقت اور اچانک کس طرح ٹوٹ گئے۔ 

شہری حکومت کے اداروں نے پارک کی ملکیت سے انکارکر دیا ہے۔ ڈسٹرکٹ میونسپل کمشنرضلع شرقی اختر شیخ کا کہنا ہے عسکری پارک ضلع شرقی کی ملکیت نہیں۔سن 2004 تک یہاں شہر کی سب سے بڑی سبزی منڈی ہوا کرتی تھی جو سپرہائی پر منتقل کر دی گئی جس کے بعد اس زمین کو اس وقت کے سٹی ناظم نے پارک تعمیر کرنے کی غرض سے عسکری ادارے کی نگرانی میں دے دیا۔ پہلے اس پر ایک ریسٹورنٹ پھر شادی ہالز اور دو ماہ قبل جھولے لگادیئے گئے۔عمومی طور پر حادثے کا ذمے دار پارک انتظامیہ کی لاپرواہی کو ٹھہرایا جارہا ہے کیوں کہ ایک اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حادثے کا شکار ہونے والا جھولا ٹرائل پر تھا اور اس کی حتمی جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی -ذکورہ تحقیقاتی ٹیم نے این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ میکانیات سے تعلق رکھنے والے افراد کی مہارت سے بھی استفادہ حاصل کیا۔لاہور: رائے ونڈ کے مقامی پارک میں جھولا ٹوٹنے سے 3 بچے زخمی ہوگئے جبکہ پولیس نے پارک کے 2 ملازموں کو گرفتار کر لیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بچے وسٹا پارک میں لگے کشتی جھولے میں سوار تھے کہ اس کا لاک کھل گیا اور جھولا ٹوٹنے سے بچے کئی فٹ ہوا میں اچھلنے کے بعد دور جا گرے۔پارک میں موجود لوگوں نے بچوں کو فوری طور پر مقامی اسپتال میں منتقل کیا جہاں انہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا۔

جھولا ٹوٹنے پر پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے اور پارک کے مالک کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ 

پیر، 24 جون، 2024

ڈے کئر کی بیٹی افسانہ پارٹ-2

 


 اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری امّاں میرا جینا حرام کرتیں اور نا ہم اپنا وطن چھوڑ کر باہر نکلتے ،میری امّاں تو کہتی تھیں آج کل کی لڑکیوںکو بس ایک دھن ہے کہ ان کے شوہر ان کو لے کر باہر اڑن چھو ہو جائیں تاکہ سسرال کی جنجھٹ پالنا ہی نا پڑے ،وہ یہ نہیں جانتی ہیں پردیس کی پوری سےاپنے دیس کی آدھی ہی بھلی ہوتی ہئے ،ایک تمھاری امّاں کی خاطر میرے سارے اپنے چھوٹ گئے اور پھر بات کرتے ہوئے  فائزہ کا لہجہ آزردہ ہوگیا اور اسی وقت نصیر شاہ  ایک دم ہی آرام کرسی چھوڑکر صوفے پر آ بیٹھےاور کہنے لگے ہماری امّاں تو بس اپنی جگہ ایک مثال تھیں لیکن بیٹوں کی شادی کر کے وہ بھی روائتی امّاں ہی بن گئیں یہ بتاؤان کی کس بہو سے بنی نصیر شاہ کے جواب میں فائزہ کہنے لگی اور اس بگاڑ کا نتیجہ کیا نکلاکہ کئ بیٹے ہوتے ہوئے بھی ان کو موت آئ تو بیٹی کے گھر آئ پھر فائزہ کچھ الجھے ہوئے لہجے میں شوہر سے مخاطب ہوئیں بس اب ما ضی کی  بھولی بسری باتیں چھوڑئے اور یہ دیکھئے کہ آج ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہے-فائزہ نے نصیر شاہ کو ٹوکا تو نصیر شاہ بھی سنبھل گئے اور پھر کہنے لگےہاں ! ایک چھوٹے سے کاروبار سے شروع ہونے والی بزنس نے ہم کو ان گنت سٹورزکی چین کا مالک بنا دیا ہے ، اب تو میں اکثر بھول جاتا ہوں کہ بنک میں کتنا سرمائہ پڑا ہئے ،اور آج اس سنہرے مستقبل کو پانے کی جدوجہد میں تم نے قدم قدم میرا ساتھ دیا ہے مجھے تمھاری خدمات کا پورا پورا احساس ہے جب تم سوہا کو ڈے کئرمیں چھوڑ کر تمام تمام دن سٹور پر کھڑے ہو کر میرا ہاتھ بٹاتی تھیں اورتمھارے پیر اکثر سوج جایا کرتے تھےہاں نصیر تم ٹھیک کہ رہئے ہو لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ میری وہ محنت رائگاں نہیں گئ ہئے مجھے  اسی مستقبل کو پانے کی آرزو تھی جو آج تم نے مجھے دیا ہےیا ہم دونو ں کی محنت نے ہمیں دیا ہئے 


چائے کی پیالی میں کینڈرل کی گولی ڈال کر چمچ چلاتے ہوئے فائزہ نے کہا اور پھر چائے کی پیالی شوہر کے سامنے رکھ دی پھرچائے پیتے ہوئے نصیر شاہ نے اپنے موبائل میں وقت دیکھ کر فائزہ سے کہا کیابات   ہے سوہا اب تک گھر نہیں آئ ہے فائزہ نے اپنی چائے کی خالی پیالی ٹرے میں رکھتے ہوئے ایک تجاہل عارفانہ سے نصیر شاہ سے کہا ،ارے جائے گی کہاں گھر ہی تو آنا ہئےاس کو' فائزہ کبھی کبھی کچھ باتیں ہمارے اندازوں سے ہٹ کر بھی وقوع پذیر ہوجایا کرتی ہیں ،،نصیر شاہ نے فائزہ سے کہا تو فائزہ نے زرا حیرت کا اظہارکرتے ہوئے نصیر شاہ کی جانب دیکھ کر ان سے سوال کیا مطلب کیا ہئے تمھارا ،،سیدھا سادا مطلب ہئے زرا سا غور کرو گی تو سمجھ میں آجائے گاکہ بس اب سوہا کو اپنے گھر بار کا ہو جانا چاہئے  فائزہ کا لہجہ پھر حیرت سے چھلکنے لگا اور  نصیرشاہ کو دیکھ کر  بولیں واقعی مجھے یقین نہیں آ رہا ہئے کہ ،کیا واقعی ہم اتنا وقت پیچھے چھوڑ آئے ہیں کہ ہماری بیٹی بھی شادی کے قابل ہو گئ ہےتم کو شائد توجّہ دینے کی فرصت نہیں ملی وہ اکثر اپنی باتوں میں جیمز کی مہربانیوں کا تذکرہ کرتی ہےاور اس سے پہلے کہ فائزہ شوہر سے کچھ کہتیں نصیر شاہ کے مو بائل پر سوہا کا فون آ چکاتھا فون ریسیو کرنے سے پہلے ہی نصیر شاہ نے فائزہ سے کہا سوہا کا فون ہئے اور پھر فون کا سپیکر اون کر دیا تاکہ فائزہ بھی اس سے بات کر لیں 

 

کہاں ہو سوہا جان آپ کے ڈیڈ آپ کے لئے پر یشان ہو رہئے ہیں ،فائزہ نے سوہا سے کہا تو وہ بولی ممّا بس ہم آپ کے پاس پہنچنے والے ہیں با ،بائے ،اور سوہا نے فون بند کردیا یہ سوہا نے ہم کا لفظ کیوں کہا ہئے نصیر شاہ نے کہا تو فائزہ لاپروائ سے گویا ہوئیں ہو گی کو ئ دوست ،،لیکن نصیرشاہ کے چہرہ کچھ فکر مند سا ہوگیا اور اس کے ساتھ سوہا کی گاڑی گیراج کا آٹومیٹک دروازہ کھول کر اندر آگئ تھی اور پھرفائزہ اور ان کے شوہر نصیر شاہ کے لئے یہ منظر ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا جس میں  سوہا اور ایک  انگریزلڑکا ایک دوسرے کا بازو تھامے ہوئے اندر آتے دکھائ دئے اور سوہا بے حجابانہ و بے باکانہ انداز میں فائزہ سے مخاطب ہوئ ممّا   ڈئر ،ان سے ملئے یہ میرے بوا ئے فرینڈ ہیں جیمز آئیوان  ،ہم دونوں نے آج ہی مارننگ میں کورٹ میرج کر لی ہےیہ تم کیا کر بیٹھیں سوہا ،فائزہ کے منہ سے سلام کا جواب دینے کے بجائے نڈھال لہجے میں الفاظ ٹوٹ کر نکلے اور  وہ  بے اختیار سوفے پر گر گئیں  اور  سوہا نے آ گے بڑھ کر ان ے زانوو ں پر سر رکھ  دیا اور رونے لگی -پھر فائزہ کہنے لگیں لیکن سوہا ابھی تمھاری عمر اتنی تو نہیں ہوئ تھی کہ تم اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ وہ بھی اس طرح ہمارے بغیر کر لتیں- اپنی ممّا کی بات کے جواب میں سوہا نے ان کو بر جستہ جوابدیا اوہو ممّا زرا اپنے بوتیک کی اور ڈالر دنیا کے حساب و کتاب سے بھی باہر آکر دیکھ لیجئے زمانے کی رفتار کیاہئے ،آپ کو اچھّی طرح معلوم ہئے ممّا کہ اس معاشرے میں ایک قانونی طور پر سمجھدار لڑکے اور لڑکی کو اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنے کی اجازت ہئے سو میں نے اپنی زندگی آپ سے جدا ہو کر گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہئے آپ کو اپنی دنیا مبارک ہو ،،وہ دنیا جس میں آ پ کو ہر چند روز کے بعد بیوٹی پا رلر جانا بخوبی یاد رہتا ہئے ،لیکن یہ یاد نہیں رہتا ہئے کہ اس وقت آپ کی بھوکی بیٹی یونیورسٹی سے گھر آتی ہئے اور فرج سے ٹھنڈے پزا کے پیس نکال کر اوون میں گرم کر تنہا بیٹھ کر کھا تی  ہئے


ممّادولت کی محبّت نے  نجانے کیوں آپ کے سینے میں دل کی جگہ ڈالر کے کھنک  ڈال دی ،میں مانتی ہوں کہ پیسہ زندگی  کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے,,, ،پیسے کے بغیر زندگی بےوقعت اور ویران ہوتی ہئے لیکن دیکھئے ممّا ایک بار نہیں بار بار سوچئے گا کہ آپ نے اس پیسے کو حاصل نہیں کرنا چاہا بلکہ اس دولت کی ہوس کی ہئے جو آپ کے چاروں طرف موجود رہئے اور ،آپ نے مجھ کو اپنی اکلوتی اولاد رکھ کر میرے اندر ایک پیاس کو جگایا ہئے میری تمنّا تھی کہ میرا اپنا کوئ بھائ ہوتا یا بہن ہوتی میں جس کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنا بچپن بتاتی ،پھر سوہا زارو قطار روتے ہوئے کہنے لگی ممّا میرا معصوم بچپن ڈے کئر کی نینیز کے ہاتھوں میں گزرا آپ کو کیا معلوم ،میرے اندر آپ کے ساتھ وقت گزارنے کی،آپ کے قریب رہنے کی، آپ کے ہاتھ سے کھانا کھانے کی کیسی تمنّائیں مچل مچل کر فریاد کرتی تھیں میں اندر سے بہت اکیلی پلتی رہی اور میرے اندر ساتھ ساتھ میری تنہائ پلتی رہی ،کاش ممّا ،کاش آ پ نے مجھے اپنی اولاد سمجھا ہوتا اپنی زندگی کا ایک فالتو پرزہ سمجھ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر نا ڈالا ہوتا  سوہا کے رونے سے جیمز بے چین ہو گیا اور اس نے سوہا  کو فائزہ  کے زانوو ں سے اٹھا کر اس کا سر اپنے شانے سے لگا کر اس کا گال بھی تھپتھپایا لیکن سوہا رو رو کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتی ہی رہی 

  ،کبھی آپ نے سوچا جب ڈیڈ کے پاس سرمایہ ہو گیاتھا تب آپنے مجھ پر توجّہ دینے کے بجائے اپنا زاتی بوتیک کھول لیا ،آ پ کے بوتیک نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ تنہا کر چھوڑا کاش ممّا ،کاش آپ میرے دل کی تنہائ کو جان سکتیں سمجھ سکتیں لیکن آپ کے لئے، ڈالر کی محبّت میری ممتا سے سواتھی،،اور پھر میری دگی میں جیمز جیسا مہربا ن شخص آ گیا اب جیمز میری دنیا ہئے اور میں اپ دونو ں کی اس دنیا کو الوداع کہ رہی ہوں آپکی دولت اور یہ دولت کدہ آپ کو مبارک ہو  تم کچھ بھی کہو لیکن میں یہ کہوں گی کہ جو قدم تم نےاٹھا یامجھے اپنی بیٹی سے یہ امّید نہیں تھی فائزہ نے اپنے آنسو ٹشو پیپر میں جذب کرتے ہوئے کہا تو سوہا نے بھی جواب دینے میں دیر نہیں کی اور تلخ لہجے میں کہنے لگی ممّا آپ بھول رہی ہیں کہ میں تو ڈے کئر کی بیٹی ہوں ,, ڈے کئر کے بہت اچھّے لیکن ممتاسے محروم ماحول میں بڑے ہوتے ہو ئےمیرا بھی دل آپ کی محبّت سے خالی ہو چکا ہے  ، آو جیمز چلیں ،کہ کر سوہا جیمز کے بازو میں اپنا بازو حمائل کئے ہوئے ان کی زندگی کے دولت مند ویرانے کو مذ ید ویران کر کےچلی گئ ،فائزہ سسکیاں لینے لگیں اور نصیرشاہ اپنی جگہ سے اٹھ کرخاموشی کے ساتھ اپنے دل کی نوحہ گری سنتے ہوئے شفّاف شیشے کی کھڑکی میں آ کھڑے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ اچانک  بیک یارڈ کی سر سبز بہار میں زندگی کی خزاں نے بسیرا کر لیا تھا 


ڈے کئر کی بیٹی پارٹ -1

 شہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے گزر گئے تھےلیکن ایک بڑی بزنس کی مصروفیات کے سبب ان کو اتنی بھی مہلت نہیں ملی تھی کہ وہ جی بھر کر اپنے نئے نویلے اس گھر کا گوشہ گوشہ بھی  دیکھ لیتے جو انہون نے بیس برس کے عرصے میں پہلی بار بغیر کسی مارگیج کے بنوایا  تھا ،اسلئے آج  سارے معاملات پس پشت رکھ کرانہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ گھر پر ہی رہیں گے   اور اسی مقصد سے انہوں نے آج اپنے دل پر جبر کر کے چھٹّی بھی کی تھی  صبح سے دوپہر تک کاوقت انہوں نے سو کر گزارا پھر بیسمنٹ میں جا کر کچھ کاروباری کام کیا اور پھر لاؤنج میں آگئے 

سوہا صبح صبح یونیورسٹی جا چکی تھی اگلی شام کو ان کی مسز فائزہ کی جانب سےان  کےاپنے بوتیک کےتیّار کردہ ڈریسز کا مقامی ہو ہل میں ڈریس ڈیزائننگ ڈسپلے ہونا تھا وہ اپنے کاموں میں مصروف تھین اس لئے وہ اکیلے ہی لا ؤنج میں آکرشفّاف شیشے کی دبیز وسیع عریض  بیک یارڈ فیسنگ ونڈو کے ساتھ کھڑے ہو گئے اوران کی نظریں محو نظّار ہ ہوئیں مہینہ تو جون کا شروع ہو چکا تھا لیکن محسوس یہ ہو رہا تھا کہ جیسے موسم بہار اپنی جوبن پر ہو لق و دق بیک یارڈ میں حسین پھولوں سے لدے ہوئے باغ و بہار پودے نرم اور خنک ہواؤں میں جھوم رہے تھے -جون کے مہینے میں موسم بہارکی خنک پُروائ باد صبا کی مانند چل رہی تھی لان میں لگی ہوئ گھاس نے پوری طرح سبزرنگ کی چادراوڑھ لی تھی اور یہ تازہ بہ تازہ  ہریالی  آنکھوں میں تراوٹ کا باعث بن رہی تھی بیک یارڈ کے اسی حسین  مرغزار کے بیچوں بیچ زردپتھّروں سے بنائ گئ پہاڑی اورپہاڑی کے دامن میں جھرنے کی مدھر آواز کے ساتھ گرتا ہوا خوبصو رت آبشار  کانیلگوں پانی کا تالاب اور اس تالاب کے درمیان چہار جانب نرم اور ٹھنڈی پھوار برساتے فاصلے پرفوّا رہ  اس تمام   منظر میں مذید دلکشی کا باعث تھا اور کچھ فاصلے پر  بھاری زنجیرون سے بندھا جھولا جس کی چھت گیری  ہوا میں پھڑپھڑا تے ہوئے اس منظر میں اور بھی دلکشی پیدا کر رہی تھی  


 ,,اپنے پرشکوہ محل نما گھر میں شفّاف اور دبیز شیشے کی دیوار کے پیچھے سے ان کو یہ منظر بے حد رومانوی سا محسوس ہوا کافی دیر تک بہت انہماک سے یہ منظردیکھ کر سوچتے رہےکینیڈا ،دنیا کا آخری سرا جس کا نام کچھ بھی کہا جائے لیکن اس کا اصل نام برف زار ہی ہونا چاہئے تھاگھر سے باہر کا یہ دلکش اور حسین منظر دیکھ کرپھراچانک ہی نصیر شاہ کا زہن یہاں ہونے والی برف باری کی جانب چلا گیا جو نومبر تونومبر اکثر اکتوبر سے شروع ہو کر اپریل اور مئ تک چلتی رہتی ہئے اور سردی کا تو کیاکہنا کہ مئ اور جون کے مہینوں میں بھی ہلکی جیکٹیں پہننی پڑجاتی ہیںباہر کا دیدہ زیب نظارہ دیکھتے ہوئے وہ مسکراتے رہے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے ہٹ کر صوفوں کی جانب آکر انہوں نے سینٹر ٹیبل پر رکھا ہواریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لے کردیو  قامت اسکرین والا ٹی وی  آن کیا اورریموٹ ہاتھ میں لئے ہوئے آرام کرسی پر نیم دراز ہو گئے کئ چینلز بدل  کر دیکھے لیکن پھر اس سے بھی جی اچاٹ سا ہو گیا  اور پھر ریموٹ آگے بڑھا کر ٹی وی بند کردیا اور پھرآرام کرسی  پر پر درازہو کر پرسکون انداز میں اپنی آنکھیں موند لیں ،آنکھیں بند کرنے کی دیر تھی کہ ان کے زہن کے پردے پر اپنے ماضی کا ایک ایک منظر ڈوب ڈوب کر ابھرنے لگا ،وہ اس دیار غیر میں آ کرکیا سے کیا ہو چکے تھے

 

 شادی کے بعد بیس برس کا وقت گزر جانے کا مطلب ہئے کہ شادی شدہ زندگی پر بڑھاپا آگیا ہو ،اور واقعی ہوابھی یہی تھا نصیر شاہ کو خیال آیا کہ آج ہی تو انہوں نے آئنے میں آج زرا غور سے اپنا چہرہ دیکھا تھا تو کنپٹیوں کے بالوں میں سفیدی آتر آئ تھی ،اور فائزہ تو بڑی پابندی سے یا تو بیوٹی پارلر جا کر بال رنگوا کر آنے لگی تھیں یاکبھی کبھی گھر پر ہی ہئر ڈائ لگانے لگی تھیں  ،پھر ان کا زہن اس دور میں جا پہنچا جب ان کی اکلوتی بیٹی سوہاکی پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد انکے دل  کی تمنّا پکار پکار کر ایک بیٹے کی آرزو کرتی تھی لیکن ان کی خواہش کو عملی روپ دینے کا اختیار  فائزہ کے پاس تھا اورفائزہ نے سختی سے کہ دیا تھا کہ اب وہ مذید فیمیلی کی خواہشمند نہیں ہیں ورنہ گھرکی ترقّی کا پہیہ رک جائے گا آرام کرسی پر موجود سر کے پیچھے دونوں ہاتھ باندھے نیم درازاپنے اطراف وجوانب سے بے نیازبظاہر تو وہ لاؤنج کی منقّش چھت کے نقش و  نگار میں  یک ٹک کھوئے ہوئے تھےلیکن دل کے اندر نا تھمنے والی یادوں کی بارات ا س طرح اتر رہی تھی کہ ان کوچائے کی ٹرے لے کرآ نے والی اپنی مسز, فائزہ کے آنے کی بھی آہٹ نہیں ہوئ


  فائزہ چائے کی ٹرے صوفوں کے آگے رکھّی ہوئ سینٹرٹیبل پر رکھ کر اپنے شوہر سے مخاطب ہوئیں کیا بات ہے کہاں کھو گئے ہیں فائزہ کے جواب میں وہ اس کی جانب دیکھے بغیر آرام کرسی کو ہلکے ہلکے ہلکورے دیتے ہوئے کہنے لگے آج زرا زہن ماضی کی یادو ں میں کھو گیا تھامجھے نہیں معلوم کہ تمھیں یاد ہو کہ نہیں لیکن  مجھے اچھّی طرح یاد ہے ،بلکہ میرے دل کے اوپر تو وہ یادگار گھڑیاں کندہ ہو گئیں ہیں جب ہمنے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس دیار غیر میں پہلی بارقدم رکھّا تھامیری زندگی کی ان یادگار گھڑیوں کو گزرے پورےپورے بیس برس سات مہینےاور تین دن گزر گئےاس اجنبی زمین پر اس وقت ہم کتنے تہی دامن تھے  پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ایک خواب سا لگتا ہے ،اس وقت ہماری کائنات کیا تھی  ?ایک دوست کا دیا ہوا ایک نا کافی پرانا بچھونا جس کو ہم نے  اپنے  سٹو ڈیو ٹائپ   اپارٹمنٹ کے مختصر سے بیڈ روم  میں بچھا  لیا تھا ،اور ایک پراناکمبل جس کو اگر تم پورا اوڑھ لیتی تھیں تو میں سردی کھاتا تھا اور اگر میں نیند کی بے دھیانی میں پورا اوڑھ لیتا تھا تو تم صبح سردی کھانے کی شکائت کرتی تھیں  -اور چند برتن جو دوسرے دوست نے اپنی کنجوس بیوی کی آنکھ بچا کر دے دئیے تھے ،اور انہی مفلسی کے دنوں کی یادگار ہماری اکلوتی بیٹی سوہا بھی ہماری غربت کی شریک ہو نے آ گئ تھی

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اوورسیز میں پاکستانی گداگرایک صوبے میں منظم مافیا

      آج ہی یہ تحریر انٹرنیٹ سے ملی ہے غور سے پڑھئے سعودی عرب نے پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سخت اقدامات کیے ہیں، جن ک...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر