منگل، 26 مارچ، 2024

فرزند نبی 'امام دوئم -حضرت امام حسن (ع)

 امام حسن علیہ السّلام-حسن بن علی بن ابی‌ طالب امام علیؑ و حضرت فاطمہؑ کے بڑے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں اور آپ کی کنیت میں چند مشہور القاب ابو محمد ، جبکہ چند مشہور القاب میں سے "تقی" ہے جبکہ دیگر القاب میں الطیب، الزکی، السید، المجتبی۔ السبط اور کریم اہل بیت علیہم السلام ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی جانب سے حضرت امام حسین علیہ السلام کو دیا گیا لقب السید تھا۔حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبیؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریبا 7 مہینے تک منصب خلافت پر فائز رہے۔ آپ حضرت علیؑ و حضرت زہراؑ کے پہلے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔ تاریخی شواہد کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے آپ کا اسم گرامی حسن رکھا اور حضورؐ آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی عمر کے 7 سال اپنے نانا رسول خداؐ کے ساتھ گزارے، بیعت رضوان اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں اپنے نانا کے ساتھ شریک ہوئے۔اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔شیعہ اور اہل سنت منابع میں امام حسنؑ کے فضائل و مناقب کے سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔

 آپؑ اصحاب کسا میں سے تھے جن کے متعلق آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے جس کی بنا پر شیعہ ان ہستیوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ آیہ اطعام، آیہ مودت اور آیہ مباہلہ بھی انہی ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ نے دو دفعہ اپنی ساری دولت اور تین دقعہ اپنی دولت کا نصف حصہ خدا کی راہ میں عطا کیا۔ اسی بخشش و سخاوت کی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیت" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے 20 یا 25 بار پیدل حج کیا۔خلیفہ اول اور دوم کے زمانے میں آپ کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص بات تاریخ میں ثبت نہیں ہوئی ہے۔ خلیفہ دوم کی طرف سے خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں آپ بطور گواہ حاضر تھے۔ خلیفہ سوم کے دور میں ہونے والی بعض جنگوں میں آپ کی شرکت کے حوالے سے تاریخ میں بعض شواہد ملتے ہیں۔ حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت کے دوران امام علیؑ کے حکم سے آپ ان کے گھر کی حفاظت پر مأمور ہوئے۔ امام علیؑ کی خلافت کے دروان آپ اپنے والد کے ساتھ کوفہ تشریف لائے اور جنگ جمل و جنگ صفین میں اسلامی فوج کے سپہ 

امام حسن علیہ السلام کی سخاوت -امام حسن علیہ السلام کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔امام حسن علیہ السلام کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دیدے_ امام _اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو آپ(ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کردیا_ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر اس کے بعد آپ(ع) نے آیت پڑھی: "و اذاحُيّیتم بتحيّة فحَيّوا باحسن منہا"  سالاروں میں سے تھے۔اکیس رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔

امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف افواہیں پھیلا کر صلح کیلئے میدان ہموار کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ ایک خارجی کے حملہ کے نتیجے میں آپؑ زخمی ہوئے اور علاج کیلئے آپ کو مدائن لے جایا گیا۔ اسی دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے معاویہ کو خط لکھا جس میں امامؑ کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کرنے یا آپ کو شہید کرنے کا وعدہ دیا گیا تھا۔ معاویہ نے کوفہ والوں کے خطوط امامؑ کو بھیج دیئے اور آپ سے صلح کرنے کی پیشکش کی۔ امام حسنؑ نے وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت کو معاویہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ معاویہ کے ساتھ ہونے والی صلح کی وجہ سے بعض شیعہ آپ سے ناراض ہوگئے ۔صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ میں مدینہ واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہاں مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی و اجتماعی طور پر بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔

۔آپؑ کی احادیث اور مکتوبات کا مجموعہ نیز آپ کے 138 راویوں کے اسماء مسند الامام المجتبیؑ نامی کتاب میں جمع کئے گئے ہیں۔"حَسَن" عربی زبان میں نیک اور اچھائی کے معنی میں ہے اور یہ نام پیغمبر اکرمؐ نے آپ کیلئے انتخاب کیا تھا  بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے یہ نام خدا کے حکم سے رکھا تھا۔ حسن اور حسین عبرانی زبان کے لفظ "شَبَّر" اور "شَبیر"(یا شَبّیر)،  کے ہم معنی ہیں جو حضرت ہارون کے بیٹوں کے نام ہیں۔  اسلام حتی عربی میں اس سے پہلے ان الفاظ کے ذریعے کسی کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ کا یہ اسم مبارک اللہ تعالیؑ کے پاس لوح محفوظ میں روز ازل سے موجودتھا-معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولی عہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجے تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کرے۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔ ایک قول کی بنا پر آپؑ نے اپنے نانا رسول خداؑ کے جوار میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی لیکن مروان بن حکم اور بنی امیہ کے بعض دوسرے لوگوں نے  روضہء رسول پر آپ کی تدفین نہیں ہونے دی اور جنازے پر تیروں کی بارش کی، یوں آپ کو بقیع میں سپرد خاک کیا گیا  


پیر، 25 مارچ، 2024

چلو بھاگ چلتے ہیں

 

بڑی مشہور مثل ہے عشق نا پوچھے زات-لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک عورت جب ماں بن جاتی ہے تب اس کے لئے دنیا کے رشتہ پر اس کی اولاد کارشتہ حا وی آجاتا ہے -تو پھر یہ کون سی مائیں ہوتی ہیں جو اپنی آغوش میں کھلے ہوئے ننھے پھولوں کو نوچ کرزمانے کی دھوپ کے حوالے کر کے کسی کی محبت  میں  دور   دیس سدھار  جاتی ہیں -اور وہ مرد کتنے بد بخت ہوتے ہیں جو دوسروں کے آنگن اجاڑ کر اپنے آنگن بساتے ہیں -تریپورہ کا ایک شخص اور بنگلہ دیش کی ایک خاتون چہارشنبہ کی رات بنگلہ دیش کے ضلع مولوی-اگرتلہ: تریپورہ کے ایک شخص کے ساتھ بنگلہ دیشی گرل فرینڈ کے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے پر اسے گرفتار کرکے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ بازار سے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کی کڑی نگرانی سے بچ کر اور خاردار تاروں کی باڑھ کو عبور کرکے ہندوستانی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی دو بچوں کی ماں 24 سالہ فاطمہ نصرت کو دو ماہ قبل بنگلہ دیش میں قیام کے دوران آسام تری پورہ سرحد پر واقع گاؤں پھولباری کے روایتی رہائشی 34 سالہ نور جلال سے محبت ہوگئی۔ جلال اکثر اپنے پیشے کو آگے بڑھانے کے لئے جڑی بوٹیاں اور پودے خریدنے بنگلہ دیش جاتا تھا۔نصرت نے پولیس کو بتایا کہ جلال نے فاطمہ نصرت سے مولوی بازار میں اس کے سسرال کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور وہ باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے

جوں جوں ان کا رشتہ پرانا ہوتا گیا، انہوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن وہ پہلے سے شادی شدہ  اور دو کم عمر بچوں کی  ماں بحی تھی، اس لئے اگر ان کا رشتہ عام ہو جاتا تو جلال کے لئے پیچیدگیاں پیدا ہو جاتیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک ہفتہ قبل بھاگ کر ہندوستان میں داخل ہوگئے۔ایک خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے جمعرات کو شمالی تریپورہ کے پھولباری میں جلال کے گھر پر چھاپہ مارا اور نصرت کو حراست میں لے لیا لیکن پولیس کی موجودگی کو دیکھ کر جلال فرار ہو گیا۔بعد ازاں نصرت کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ شمالی تریپورہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے کے الزام میں 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا اور پولیس کو جلال کو گرفتار کرنے کی ہدایت دی۔او سی چورائے باڑی سمریش داس نے کہا کہ کہ ہم  نے نور جلال کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور تلاش شروع کر دی ہے--ایک اور داستان محبت-

چار بچّوں کی ماں پاکستانی عورت انڈین لڑکے سے پب جی کھیلتے ہوئےاس کی محبت میں  گرفتار ہوئیں اور کئ ملکوں سے ہوتے ہوئے انڈیا  پہنچی-انڈین پولیس کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ خاتون مئی 2023 سے دلی کے نواحی علاقے میں غیرقانونی طور پر سچن نامی انڈین شہری کے ساتھ مقیم تھی۔ انڈین پولیس نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ پاکستانی خاتون سچن سے محبت کرتی ہیں اور یہ محبت ہی انھیں سرحد پار سے انڈیا کھینچ لائی۔پولیس کے مطابق پاکستانی خاتون کی ملاقات سچن سے پب جی گیم پر ہوئی تھی، دونوں میں تعلقات بڑھے اور پھر وہ ایک دوسرے سے واٹس ایپ کے ذریعے باتیں کرنے لگے اور دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی، جس کے بعد سیما نے انڈیا آنے کا فیصلہ کیا۔گریٹر نوئیڈا کے پولیس افسر اشوک کمار کا کہنا ہے کہ چند روز قبل پولیس کو ایک مخبر کے ذریعے اطلاع ملی کہ ایک پاکستان خاتون دلی کے نواحی علاقے ربو پورہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں، جس پر پولیس نے مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد انھیں حراست میں لے لیا ہے۔عدالت میں پیشی کے موقع پر خاتون نے میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں بتایا کہ وہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پب جی کھیلا کرتی تھیں جہاں پر اُن کی ملاقات انڈین شہری سچن سے ہوئی، دونوں میں تعلق بڑھا اور محبت ہو گئی، جس کے بعد دونوں نے  شادی کا فیصلہ کیا۔گریٹر نوئیڈا کے ڈپٹی پولیس کمشنر سعد میاں خان نے بتایا کہ خاتون کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہے

عورت جس کا نام سیما ہے اس کے خاوند کا کہنا ہے  اہلیہ سے رابطہ نہ ہونے پر انھوں نے اُس کے بھائی کو فون کیا جس نے پتہ کر کے بتایا کہ اُن کی بیوی نے مکان فروخت کر دیا ہے اور وہ بچوں کے ساتھ کہیں چلی گئی ہیں۔شوہر کے مطابق چونکہ وہ سعودی عرب میں مقیم تھے اس لیے انھوں نے اپنے والد کے ذریعے اپنی اہلیہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔انھوں نے بتایا کہ ’جاننے والوں کی مدد سے معلوم کیا تو ابتدا میں پتا چلا کہ وہ دبئی گئی ہے۔ بعد میں نیپال جانے کا پتہ چلا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ انڈیا کی جیل میں ہے۔‘پاکستانی شوہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کو طلاق نہیں دی اور وہ اب بھی ان کے نکاح میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کو میڈیا کے ذریعے پتا چلا ہے کہ ان کی بیوی واپس پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔اور اب وہ اپنے ہندو دوست کا مذ ہب اختیار کر چکی ہے -یاد رہے کہ گھر کے مالی حالات کی بہتری کے لئے سیما کا شوہر باہر مقیم تھا-

انٹر نیٹ پر لوڈو کھیلتے ہو ئے محبت ہو گئ اور پھر لڑکی اپنے دو کم سن بچّے چھوڑ کرپاکستان کے علاقے بالا کوٹ آ گئ جہاں نصر اللہ نامی لڑکے سے اس کا نکاح ہوا اور لڑکی کرسچئین سے مسلمان ہوئ -اس لڑکی کے بھی دو نوں بچّے ہندوستان میں ہیں -واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے حکام نے تصدیق کی ہے انڈیا سے پاکستان آنے والی خاتون انجو نے پاکستانی نوجوان نصراللہ کے ساتھ نکاح کر لیا ہے تاہم سرکاری حکام، نکاح خواں اور دیگر ذرائع کی جانب سے تصدیق کے باوجود انجو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شادی کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔‘بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مالاکنڈ کے ریجینل پولیس آفیسر (آر پی او) ناصر محمود ستی نے انڈین خاتون انجو اور نصراللہ کے نکاح کی تصدیق کی جبکہ نکاح خواں قاری شمروز خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاطمہ (انجو) کا نصراللہ کے ساتھ نکاح دس ہزار روپے اور دس تولے سونا حق مہر کے عوض پڑھایا۔قاری شمروز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے نکاح پڑھانے کے لیے نصر اللہ نے بلایا تھا جو میرے جاننے والے ہیں۔ ہم ایک --ہی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ وہ دونوں اب قانونی طور پر میاں بیوی ہیں--

ایک انڈین خاتون کی موجودگی سے اہل علاقہ بھی خوش ہیں۔نصر اللہ کے مقامی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت فرید اللہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’انجو جمعہ کے روز صبح کے وقت دیر بالا پہنچیں جب شدید بارش ہو رہی تھی۔‘فرید اللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ وہ جب تک رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔ اس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں  -نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا، مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے۔‘ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں جبکہ نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہیں اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزہ انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے۔‘ان کے مطابق اس پورے عمل میں دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزہ بھی مل گیا اور ان کو دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی




میری دھرتی ماں کے ڈاکو بیٹے


 

ایک خبر ہے کہ کچے میں آپریشن کے لئے دو ارب سے زائد کے فنڈ مختص کئے گئے ہیں -میں سوچتی ہوں یہ ڈاکو بھی تو کسی ماںکے بیٹے ہیں کسی بہن کے بھائ ہیں تو ان کو سندھ کے با اثر لوگوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کرائے پر ہائر کیا ہوا ہے - یہ فند ان کی فلاح اور بہبود پر خرچ کی جائے اور ان کو عام معافی دے کر قومی دھارے میں شامل کیا جائے توکتنا اچھا ہو - رحیم یار خان ، صادق آباد اور راجن پور سے ملحقہ کچے کے علاقے میں، نیشنل سکیورٹی کونسل کے حکم پر  گرینڈ آپریشن کیا گیا ، جس میں پنجاب پولیس کی 11 ہزار سے زائد نفری اور افسران نے حصہ لیا۔ سب میں بڑی بات اس میگا آپریشن کو خود آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے بطور فرنٹ مین کمانڈ کیا، اس موقع پر انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’ تمام منظم گینگز اور ان کے سہولت کاروں کو جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے گا، اورکریمینلز اور ملک دشمن عناصر کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے لیے تمام سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں، جلد ہی سندھ پولیس بھی اپنے علاقوں میں میگا آپریشن کا آغاز کر رہی ہے‘‘ ۔ پاکستان کے اہم ترین دریا دریائے سندھ کے دونوں اطراف مٹی کی موٹی دیواریں ہیں جوکہ دریا کا پانی باہر نکلنے سے روکتی ہیں، دریا کے دونوں اطراف کی دیواروں کے درمیان والے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے ۔ ان دیواروں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں دس کلومیٹر ہے تو کہیں دو کلومیٹر۔

دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔جون اور جولائی کے بعد جب مون سون بارشیں ہوتی ہیں تو دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھری ہوتی ہے مگر سردیوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کی طرح بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے ۔ شمالی سندھ کے قریب کچے کا علاقہ عرصہ دراز سے ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے ، جوکہ یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں-ڈکیتی ، اغواء برائے تاوان اور ملکی سلامتی کونقصان پہنچانے جیسے سنگین جرائم میں ملوث ان جرائم پیشہ عناصر نے نہ صرف صادق آباد، رحیم یار خان، راجن پور، تونسہ، ڈیرہ غازیخان، مظفر گڑھ ، ملتان بلکہ پاکستان بھر کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ کچے کے علاقے میں عرصہ دراز سے سنگین جرائم میں ملوث ڈاکوؤں کے پاس نہ صرف جدید اسلحہ، بلٹ پروف جیکٹس موجود تھیں، بلکہ سرویلنس اور پولیس کی پوزیشن معلوم کرنے کے لیے ڈرون کا بھی استعمال کرتے تھے۔ماضی میں متعدد بار یہاں آپریشن کئے گئے، پولیس کی بکتربند گاڑیوں میں جانے والے پولیس افسران بھی بچ نہ سکے اور ڈاکوؤں سے مقابلہ کرتے ہوئے کئی پولیس افسران شہید ہوگئے ۔ ان ڈاکوؤں کے پاس ایسے جدید ہتھیار تھے جن کے سامنے بلٹ پروف گاڑیاں بھی بے کار ہوجاتیں۔ ماضی میں پولیس نے آپریشن کے بعد ان ڈاکوؤں کے قبضے سے اینٹی ایئر کرافٹ گن بھی برآمد کی تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنا کس قدر مشکل تھا ۔ شمالی سندھ کے ڈاکو نیشنل ہائی وی پر ناکہ لگا کر ایک ہی رات میں سینکڑوں مسافر بسوں کو لوٹ لیتے تھے۔

جس کے بعد اس علاقے میں رات میں سفر کرنا مشکل ہوتا تھا اور بعد میں پولیس موبائلوں کے سا تھ قافلہ بنا کر مساف بسوں کو یہاں سے گزارا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکو بیوپاریوں اور کاروباری لوگوں کو بھتے کی پرچی بھیجتے اور بھتہ نہ دینے پر ان کو قتل کردیا جاتا۔ ماضی میں شمالی سندھ کے امیر ترین سمجھے جانے والے ہندو ان ڈاکوؤں کے پسندیدہ شکار تھے جس کے باعث گذشتہ کچھ سالوں میں شمالی سندھ سے ہندوؤں کے بڑی تعداد کراچی منتقل ہوگئی ۔اسی طرح جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور اضلاع میں دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ جو صوبہ سندھ تک تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر تک پھیلا ہے ، جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے تک ’’چھوٹو گینگ ‘‘کا راج تھا۔ اس گروہ کا سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو تھا، جس نے جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ تک اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یہ گینگ کچا جمال اور کچا مورو کے نزدیک 2010 ء کے سیلاب کے بعد ظاہر ہونے والے دس کلومیٹر لمبے اور تین کلومیٹر چوڑے ’’ چھوٹو جزیرے ‘‘ پر منتقل ہو گیا تھا اور یہ جزیرہ تمام فورسز کے لیے کئی سالوں تک نوگو ایریا بنا ئے رکھا۔ اپریل 2016 ء میں راجن پور سے متصل کچے میں پاک فوج کی جانب سے جدید ہتھیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ 23 روز تک کئے جانے والے آپریشن ’’ضرب آہن ‘‘ میں چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنے 13 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے تھے۔

اس آپریشن کے بعد پاکستانی فوج نے ملزمان کے پاس موجود24 مغوی پولیس اہلکاروں کو بھی باحفاظت بازیاب کروا لیا تھا۔ گزشتہ دنوں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے دوران آئی جی پنجاب کے قافلے پر حملہ اور پولیس ٹیم پر فائرنگ کی گئی ، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں آر پی او بہاولپور کا گن مین زخمی ہوا جسے ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد مزید بہتر نگہداشت کیلئے لاہور منتقل کردیا گیا جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو ہلاک، 6 ڈاکو گرفتار کرلئے گئے۔سندھ اور پنجاب کی سرحد پر شہریوں اور انتظامیہ کے لئے درد سر بنے ڈاکو آپریشن کے دوران ڈاکو اپنی کمین گاہیں چھوڑ کر فرار ہوگئے ، اور کچے کے علاقے میں کریمنل گینگز کا مکمل صفایا کرکے قانون کی رٹ قائم کردی گئی ہے۔ علاقے میں پولیس چوکیاں مکمل بحال کردی گئی ہیں جبکہ اندرونی علاقوں کو کلیئر کرانے کیلئے پیش قدمی جاری ہے۔ اس گرینڈ آپریشن پر جنوبی پنجاب کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور قوی امید کی جارہی ہے کہ برس ہا برس سے دہشت گردوں کے زیر تسلط یہ علاقہ بہت جلد امن کا گہوارہ بنے گا  

اتوار، 24 مارچ، 2024

جیسے ہی ماچس کی تیلی جلائی

  بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ رمضان کے مقدس مہینہ  کے آغاز میں ہی کئ  افراد  جا ن کی بازی ہار  گئے-لوگ ان واقعات کا   الزام گیس کمپنی پر عائد کرتے ہیں  جبکہ  اگر  حقیقت کی  نظر سے دیکھا جائے تو  گیس  صارفین کی غفلت  کو بھی بری الزمہ نہیں  کیا جا سکتا ہے-اس سال رمضان کے پہلے دو دنوں میں کوئٹہ میں گیس لیک کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوچکے ہیں -بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالہادی اور ان کے بچے گھر میں گیس لیک سے ہونے والے دھماکے میں زندہ بچ گئے مگر جھلس جانے کے باعث وہ ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔اس دھماکے میں عبدالہادی، ان کی بیوی اور چھ بچے زخمی ہوگئے تھے جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ میں ایک کمرے میں اپنے ساتھ زیر علاج اپنے بچوں کی جانب اشارہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عبدالہادی نے کہا کہ ’وہ لمحہ میرے خاندان کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا کیونکہ اس نے ہمیں برباد کردیا۔‘اس سال رمضان کے پہلے دو دنوں میں کوئٹہ کے چارمختلف علاقوں میں سحری کے اوقات میں گھروں میں گیس لیکیج کے واقعات کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 15 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔لوگ ان واقعات کا الزام گیس کمپنی پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ واقعات گیس کی ناہموار سپلائی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔تاہم، گیس کمپنی کے حکام اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق لوگوں کی بے احتیاطی ایسے واقعات کا سبب بنتی ہے۔

معلوم نہیں یہ معصوم بچے زخموں کی تکلیف کس طرح سہہ رہے ہیں‘عبدالہادی اور ان کے دو بچے ایک ہی کمرے میں زیر علاج ہیں جبکہ ان کی اہلیہ اور چار دیگر بچوں کو زخموں کی شدت کے باعث برن وارڈ کے آئی سی یو میں رکھا گیا ہےعبدالہادی نے بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ سحری کی تیاری کے لیے رات کو ڈھائی تین بجے کے قریب اٹھے تھے۔ ’جیسے ہی چولہہ جلانے کے لیے ماچس کی تیلی جلائی تو ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں گھر کے تمام افراد شدید زخمی ہوگئے جبکہ گھر کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔‘عبدالہادی اپنے بچوں کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ موجود ان کا چھوٹا بچہ زخموں کی تکلیف کی وجہ سے لیٹ بھی نہیں پا رہا تھا۔میں جس اذیت سے گزر رہا ہوں وہ مجھے پتہ ہے۔ معلوم نہیں یہ معصوم بچے زخموں کی تکلیف اور درد کو کس طرح سہہ رہے ہیں۔‘عبدالہادی اپنے گھر کے واحد کفیل ہیں اور اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے رکشہ چلاتے ہیں۔وہ اپنے کرائے کے گھر کی مرمت کو لے کر بھی پریشان ہیں۔گیس دھماکے نے میرے چچا زاد بھائی کا گھر ہی اجاڑ دیا'بدھ کو کوئٹہ میں شیخ ماندہ کے علاقے میں گیس لیکیج کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے تین افراد ہلاک اور دو شدید زخمی ہوگئے تھے۔

اس سال، رمضان کی پہلی سحری کے موقع پر گھروں میں گیس لیکیج کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں تین خاندان کے 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ دوسرے روز سحری کے دوران واقعات میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ہلاک ہونے والوں میں 32 سالہ شفیع اللہ اور ان کے دو بچے شامل ہیں جبکہ ان کی بیوی اور ایک بچہ شدید زخمی ہیں جو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ کے آئی سی یو میں زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔زخمیوں کی تیمارداری کے لیے شفیع اللہ کے چچازاد بھائی فیض اللہ وہاں موجود تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے چچا زاد بھائی کے گھر والے سحری کی تیاری کے لیے اٹھے تھے کہ ان کے کمرے میں گیس بھرنے کی وجہ سے دھماکہ ہوا۔انھوں نے بتایا کہ گیس لیکیج نے تو ان کے چچازاد بھائی کے پورے گھر کواجاڑ کررکھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر کے تین افراد اس واقعے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ بچ جانے والوں کے متعلق یہ نہیں معلوم کہ وہ کس حالت میں زندہ رہیں گے۔عبدالہادی کی اہلیہ اور پانچ بچوں کو زخموں کی شدت کے باعث برن وارڈ کے آئی سی یو میں رکھا گیا ہے-کوئٹہ کے دو سرکاری ہسپتالوں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور سنڈیمن پرووینشل ہسپتال میں برن وارڈز قائم ہیں۔   فیض اللہ کا کہنا کہ وہ یہ تو نہیں جانتے کہ کمرے میں گیس کس طرح بھر گئی تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ گیس کے پریشرمیں کمی کے باعث کبھی کبھی جلتے ہوئے ہیٹر اور چولہے بند ہوجاتے ہیں۔

اس سال، رمضان کی پہلی سحری کے موقع پر گھروں میں گیس لیکیج کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں تین خاندان کے 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ دوسرے روز سحری کے دوران واقعات میں تین افراد ہلاک ہوئے۔سنڈیمن ہسپتال میں 20 بستروں پر مشتمل برن وارڈ نے گذشتہ سال کام شروع کیا ہے جس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے 14 مارچ کے درمیان گیس لیکیج کے باعث آگ سے جھلسنے سے مجموعی طور پر 43 افراد زخمی حالت لائے گئے تھے جن میں سے سات ہلاک ہوگئے۔ولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ میں گیس لیکیج سے ہونے والی ہلاکتوں کے واقعات کا الگ سے ریکارڈ دستیاب نہیں۔تاہم گذشتہ سال کوئٹہ میں گیس لیکیج کے واقعات میں ایک درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔گیس لیک کے حادثات سے کیسے بچا جائے؟انور بلوچ نے بتایا کہ اس بات کو لازمی بنایا جائے کہ ہر ہیٹر اور چولہے کے ساتھ منسلک ربڑ کے پائپ کو کلپ لگا کر محفوظ کی جائے۔کلپ کو اچھی طرح ٹائٹ کرنا چاہیے تاکہ کسی طرح کی کی لیکیج کا اندیشہ نہ ہو۔ان کا مشورہ ہے کہ سونے سے پہلے گھروں میں یا دفاتر میں کام ختم کرنے کے بعد تمام ہیٹرز اور چولہوں کو بند کردیں۔وہ کہتے ہیں کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد یا بند گھر میں داخل ہونے کے بعد اگر گیس کی بو محسوس ہو تو قطعاً ماچس کی تیلی یا بجلی جلانے سے گریز کریں اور فوری طور پر گیس کے اخراج کو یقینی بنائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر جلتا ہوا ہیٹر یا چولہہ بند ہوجائے تو ان کو کھلا نہ چھوڑیں۔ گیس کی بحالی کی صورت میں ہی ان کو آن کرنا چاہ۔اس کے علاوہ، گھروں میں لگے گیس کے لوہے یا ربڑ کے پائپوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں اور ان کی مرمت میں کبھی تاخیر سے کام نہ لیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ معیاری ہیٹروں اور چولہوں کے استعمال کو یقینی بنائیں۔دھماکے سے جھلسنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے ڈاکٹر محمد بلال نے بتایا کہ گیس یا کسی اور آگ کی وجہ سے جھلس کر زخمی ہونے کی صورت میں پندرہ سے بیس منٹ تک زخم پر ٹھنڈا پانی ڈالتے رہنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ درد کو کم کرنے کے لیے اس پر ٹوتھ پیسٹ، مہندی یا کوئی اور مواد نہیں لگانا چاہیے۔ڈاکٹر بلال کا کہنا ہے کہ ٹوتھ پیسٹ یا اس طرح کے دیگر مواد نہ صرف زخم کو گہرا کرتے ہیں بلکہ ان کو صاف کرنا بھی طبی عملے کے لیے ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زخمی شخص کو فوری طور برن وارڈ یا قریبی طبی مرکز پہنچانا چاہیے کیونکہ جلنے کی صورت میں انسان کے جسم کے متاثرہ حصے سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ جسم میں پانی کی کمی کے باعث متاثرہ شخص شاک میں جاسکتا ہے۔برن وارڈ کے ڈاکٹر مبارک کہتے ہیں کہ آگ لگنے کی صورت میں سب سے پہلے اس کے سورس کو بند کرنا چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں خود ریسکیو کرنے والوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اگر کسی شخص کے جسم بڑا حصہ متاثر ہو تو یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے، اس لیے ایسے مریض کو طبی مرکز پہنچانے میں بالکل تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

جمعہ، 22 مارچ، 2024

ڈھائ گھڑی کا ہیضہ

 

پانی جیسے اسہال اور پانی کی ہی الٹیا ں خدانخواستہ کسی بچّے کو یا بڑے کو شروع ہو جائیں تو اس کا علاج ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے'ورنہ تو سمجھ لجئے کہ بڑا نقصان ہو سکتا ہے -یعنی مریض کی جان بھی جا سکتی ہے -میں اپنے بچپن میں اس مرض کے لئے سنا تھا کہ اس مرض کو ڈھائ گھڑی کا ہیضہ کہتے تھے-جب سمجھ آئ تب معلوم ہو اکہ اس مرض میں اس قدر تیزی سے جسم سے پانی کا اخراج ہوتا ہے کہ اگر ہنگامی بنیادوں پر اس کا تدارک نا کیا جائے تو فوری موت واقع ہو سکتی ہے اللہ نا کرے-بچپن میں اس مرض کے لئے سنا تھا کہ اس مرض کو ڈھائ گھڑی کا ہیضہ کہتے تھے-جب سمجھ آئ تب معلوم ہو اکہ اس مرض میں اس قدر تیزی سے جسم سے پانی کا اخراج ہوتا ہے کہ اگر ہنگامی بنیادوں پر اس کا تدارک نا کیا جائے تو فوری موت واقع ہو سکتی ہے اللہ نا کرے-ہیضہمتعدی بیماری ہے  ۔ ہیضہ کا جراثیم اکثر پانی یا کھانے کی اشیاء میں پایا جاتا ہے جو ہیضے کے جراثیم سے آلودہ ہوتا ہے۔ ہیضہ ان علاقوں میں پھیلنے اور پھیلنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے جہاں پانی کی صفائی، صفائی ستھرائی اور صفائی کا انتظام نہ ہو۔ ہیضے کے بیکٹیریا نمکین ندیوں اور ساحلی آبی گزرگاہوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کچی شیلفش انفیکشن کے ذریعہ پائی گئی ہے۔ہیضہ               ’ویبریو کلورے‘ نامی بیکٹیریا سے آلودہ کھانا کھانے یا پانی پینے سے ہوتی ہے ۔


 یہی بیکٹریا ہیضہ پھیلاتا ہے جس میں مریض کو شدید دست آتے ہیں اور جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو وہ گھنٹوں کے اندر ہلاک ہوسکتا ہے۔ آبادی کے سب سے پسماندہ حصوں کو ہیضے کے شدید ترین خطرات کا سامنا رہتا ہے، جہاں صاف پانی ، صفائی ستھرائی اور صحت کی سہولیات تک رسائی سب سے کم ہوتی ہے-ہیضے کی علامات کیا ہیں؟ہیضے کا شکار ہونے والے افراد کی اکثریت میں معمولی علامات ہوں گی یا بالکل نہیں ہوں گی۔ تاہم ، ہیضے کے دس میں سے ایک مریض کو شدید علامات کا سامنا ہوگا ۔ آلودہ کھانا کھانے یا پانی پینے کے بعد ہیضے کی علامات ظاہر ہونے میں 12 گھنٹے سے 5 دن لگ سکتے ہیں۔ ہیضہ بچوں اور بڑوں دونوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ ہیضے کی عام علامات یہ ہیں:ہیضہ کیسے پھیلتا ہے؟آلودہ غذا اور پانی کا استعمال:ہیضہ اس وقت ہوتا ہے جب لوگ ہیضے کے بیکٹیریا سے آلودہ کھانا یا پانی استعمال کرتے ہیں۔ بیکٹیریا ناقص صفائی ستھرائی اور حفظان صحت والے علاقوں میں پایا جا سکتا ہے، جہاں انسانی فضلے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا ہے اور وہ پانی کے ذرائع کو آلودہ کرتا ہے۔ناقص حفظان صحت: ہیضے کے بیکٹیریا گندے ہاتھوں ، غیر صاف شدہ پانی ، کچے اور بچ جانے والے کھانوں اور مکھیوں کے ذریعے منتقل ہوسکتے ہیں۔کیا دودھ پلانے والی ماں ہیضے کی علامات اپنے بچے میں منتقل کر سکتی ہے؟


ہیضے کا سبب بننے والے بیکٹیریا ماں کے دودھ کے ذریعے منتقل نہیں ہوتے ۔ اگر ماں میں ہیضے کی علامات ظاہر ہوجائیں تب بھی اسے اپنے بچے کو دودھ پلانے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ پیدائش سے لے کر 6 ماہ کی عمر تک کے بچے جنہیں اسہال یا ہیضہ ہو، انہیں خاص طور پر ماں کا دودھ پلایا جانا چاہیے۔کیا دوسرے لوگوں سے ہیضہ لگ جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے؟ہیضہ عمومی رابطے کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے میں براہ راست نہیں پھیلتا ، لہذا متاثرہ شخص کے آس پاس رہنے سے بیمار ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔اگر لوگوں کے پاس صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی سہولیات تک رسائی نہ ہو تو ہیضے سے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ وبا کے دوران عام طور پر متاثرہ فرد کا فضلہ آلودگی کا بنیادی ذریعہ ہوتا ہے، جو کھانے اور پانی کے ذرائع کو آلودہ کرسکتا ہے۔اورل ری ہائیڈریشن سلوشن (او آر ایس) دیں : ہیضہ کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد کا جلد از جلد اورل ری ہائیڈریشن سلوشن (او آر ایس) کے ذریعے کامیابی سے علاج کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ڈبلیو ایچ او / یونیسف او آر ایس اسٹینڈرڈ ساشے استعمال کرتے ہیں تو ، اسے ایک لیٹر پینے کے صاف پانی میں حل کریں ، اگر آپ دوسرا برانڈ استعمال کررہے ہیں تو ، براہ کرم اس پر درج ہدایات پر عمل کریں۔ 

 کچے پھل اور سبزیاں: کچے پھل اور سبزیاں کھاد کے استعمال یا آبپاشی کے آلودہ پانی کی وجہ سے بیکٹیریا سے آلودہ ہو سکتی ہیں۔سمندری غذا: کچا یا کم پکا ہوا سمندری غذا، خاص طور پر کیکڑے اور سیپ کے استعمال سے ہیضے کے انفیکشن ہو سکتے ہیں۔خطرہ عواملہیضہ کسی کو بھی متاثر کر سکتا ہے، لیکن بعض عوامل اس کا امکان زیادہ کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ عوامل سنگین کیس کی ترقی کے خطرے کو بھی بڑھا سکتے ہیں:غیر صحت مند ماحول: ناقص صفائی اور زہریلے پانی والی جگہیں ہیضے سے متاثر ہوتیں۔خاندان کے افراد جو بیمار ہیں: ہیضے کے مریضوں کے ساتھ قریبی رابطہ آپ کے انفیکشن کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔پیٹ میں تیزاب کی کم سطح: ہیضے کے بیکٹیریا انتہائی تیزابیت والے ماحول میں نہیں رہ سکتے۔ اس طرح، پیٹ میں تیزاب کی کم سطح آپ کو اس بیماری کا شکار بنا سکتی ہے۔کچا یا کم پکا ہوا سمندری غذا: اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں ہیضے کی بڑی وباء اب عام نہیں رہی، لیکن بیکٹیریا پر مشتمل شیل فش کھانے سے آپ کے انفیکشن کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔پیچیدگیاں -ہیضہ کے نتیجے میں ہونے والی کچھ پیچیدگیاں درج ذیل ہیں:گردے خراب:جب گردے اپنی فلٹرنگ کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں تو جسم میں الیکٹرولائٹس، اضافی سیال اور فضلہ جیسے مادے جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ مہلک بن سکتا ہے۔ ۔ اس کے علاوہ، ٹوٹی ہوئی مہر والی بوتل سے کبھی نہ پییں۔پانی کی جراثیم کشی پر غور کریں اور اسے کم از کم ایک منٹ کے لیے ابالیں۔ ہر لیٹر پانی میں، آئوڈین کی آدھی گولی یا گھریلو بلیچ کے دو قطرے پھلوں اور سبزیوں کو صاف کرنے کے لیے ڈالیں۔ متبادل طور پر، آپ دھونے کے لیے کلورین کی گولیاں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔کھانا  کھانے سے پہلے اور بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد ہاتھوں کو صابن اور صاف پانی سے دھونا چاہیے۔ 

پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لیے تنگ گردن والے ڈھکے ہوئے برتنوں کا استعمال کریں جس میں نل لگا ہو یا پانی نکالنے کے لیے کوئی اور اوزار استعمال کریں تاکہ ہاتھ یا دیگر چیزیں اسے آلودہ نہ کریں۔اہم مواقع پر ہاتھ دھونا: کھانا تیار کرنے سے پہلے، بچے کو کھانا کھلانے سے پہلے، بیت الخلا جانے، پاخانے کے بعد بچے کو دھلوانے کے بعد یا اسہال کے مریض ہیضے کے زیادہ تر مریضوں میں اعتدال سے شدید علامات ہوتی ہیں۔ تاہم، صرف 10 فیصد متاثرہ افراد میں بیکٹیریا کھانے کے 12 گھنٹے سے پانچ دن کے اندر شدید علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ان علامات اور علامات میں شامل ہیں۔متلی اچانک اسہالہلکی سے شدید پانی کی کمی، اوقےہیضے کی وجہ سے پانی کی کمی اکثر شدید ہوتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں ہیضے کا خطرہ کم ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ موجود ہے، لوگوں کے بیمار ہونے کا امکان نہیں ہے اگر وہ فوڈ سیفٹی کے رہنما خطوط پر عمل کریں۔ دنیا بھر میں ہیضے کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر آپ کو ہیضے سے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کے بعد شدید اسہال ہو تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔اگر آپ کو شدید اسہال کا سامنا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو ہیضے کا سامنا ہے تو طبی امداد حاصل کریں۔ شدید پانی کی کمی ایک طبی ایمرجنسی ہے جس کا فوراً علاج کیا جانا چاہیےہیضے کی سب سے بڑی وجہ وبریو ہیضہ بیکٹیریا ہے۔ یہ زیادہ تر آلودہ خوراک اور پانی سے پھیلتا ہے۔ جب یہ بیکٹیریا انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ چھوٹی آنت میں مہلک ٹاکسن پیدا کرتا ہے۔ زہر بعد میں زیادہ سیال کے نقصان کا سبب بنتا ہے۔

جمعرات، 21 مارچ، 2024

مایہ ء ناز زرعی یونیورسٹی فیصل آباد


 فیصل آباد شہر کو پاکستان بھر میں نمایاں اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ اس خوبصورت شہر میں پاکستان کی سب سے قدیم اور ایشیا کی سب سے بڑی اور اکلوتی اور بہت زی وقار زرعی جامعہ ہے،جو اس شہر کے حسن کو مذید چار چاند لگا رہی ہے-حقیقت یہ ہے کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پاک و ہند میں زرعی علوم کا سب سے موقر اور پرانا ادارہ ہے۔ برصغیر کی زرعی تاریخ اس ادارے نے رقم کی ہے۔ دُنیا کے عظیم زرعی سائنس دان، استاد، محقق اور ماہر اس جامعہ نے پیدا کئے۔ زراعت کے میدان میں پورے جنوب مشرقی ایشیا میں جامعہ زراعت اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کو بجا طور پر زرعی علوم میں ماں کا درجہ حاصل ہے۔زرعی یونیورسٹی کا اپنا ایک الگ تابناک تشخص ہے۔  ملک میں اس یونیورسٹی کا وجود زراعت کا مضبوط ستون اور معیشت کا سہارا ہے۔ اس عظیم جامعہ کی کامیابیوں کی داستان لکھنے کے لئے کالم یا مضمون نہیں پوری کتاب درکار ہے۔کیونکہ کسی بھی ملک میں تعلیم ادارے قوموں کی ترقی اور خوشحالی کی منزل متعین کرتے ہیں، زرعی یونیورسٹی  معرض وجود میں آنے کے بعد اس زرعی یونیورسٹی  کے فارغ التحصیل طلبہ نے  زراعت کے میدان میں کماحقّہ نام کمایا ۔ ملک ِ عزیز میں موجود زرعی علوم کی تدریس کا فریضہ سرانجام دینے والے سبھی ادارے اس یونیورسٹی کو ماں کا درجہ دیتے ہیں اور دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس کے فرزند برملا کہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی نے ہمیں علم دیا، عزت دی، پہچان دی اور باوقار معاش کا ذریعہ دیا۔  

زرعی یونیورسٹی کا اپنا ایک الگ تابناک تشخص ہے۔ فیصل آباد شہر کے وسط میں وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی یہ یونیورسٹی دُنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں چھ فیکلٹیاں ہیں، جن میں ایگریکلچرل، سوشل سائنسز، بنیادی سائنسز، زرعی انجینئرنگ، ویٹرنری اور اینمل ہسبنڈری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سوائل سائنس، ہارٹی کلچر، مائیکرو بیالوجی، سنٹر فار ایگریکلچرل اینڈ جنیٹک انجینئرنگ کے انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس، کمیونٹی کالج پارس، زرعی کالج ڈیرہ غازی خان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، بورے والہ، دیپالپور اور لیہ اِسی شجر کے برگ و بار اور شاخیں ہیں۔ زراعت کی جامعیت میں فصلیں، باغات، جنگلات، حیوانات (اُن کا علاج اور بڑھوتری) ایک جیسی اہمیت کی حامل ہیں۔ زراعت اکیلی فصلوں کی کاشت اور برداشت کا نام نہیں، بلکہ جانوروں کا علاج اور افزائش بھی اس کا جزو لاینفک ہیں۔ یہ سبھی ایک تسبیح کے دانے ہیں۔ ایک دانہ بھی مالا میں سے گر جائے تو مالا نامکمل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح یہ زرعی علوم کا گلدستہ ان تمام مذکورہ بالا شعبہ جات کے حسین امتزاج سے ہی خوشنما اور دیدہ زیب لگے۔ حالیہ دِنوں میں یونیورسٹی کی ایگری کلچر اور لائیو سٹاک کی دو الگ حصوں میں تقسیم کی بنا پر الگ الگ یونیورسٹیوں کے قیام کی باتیں کی جا رہی ہیں۔زرعی یونیورسٹی کا تخصص یہی ہے کہ ایک پرچم تلے فصلات، حیوانات، ماہی پروری، مرغ بانی، باغات، جنگلات مل کر کام کریں، جس طرح سے قیام پاکستان سے لے کرآج تک کر رہے ہیں۔

موجودہ دور کی انفرمیشن ٹیکنالوجی سے روشناس کرکے مہارت کے اعلیٰ مقام پر متمکن ہونے میں ممدو معاون ہونا ،یونیورسٹی اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ افراد کو ملکی ضروریات کے مطابق ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے تیار کرنا اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا فریضہ اور نصب العین ہوتا ہے۔یونیورسٹی اپنے ماٹو ”رِزقاً حسناً“ میں اپنی کومٹمنٹ یعنی حاصل سعی کا اظہار کرتی ہے۔اچھا پاک اور فراواں رزق اللہ کی زمین سے حاصل کرکے مخلوق خدا کے لئے فراہم کرنا اور اس فراہمی کو بلا تعطل یقینی بنانا اپنا مقصد گردانتی ہے اور خوشحالی کی اس منزل کے حصول کے لئے پورے عزم، حوصلے، عقل و شعور، مادی و غیر مادی صلاحیتوں، آلات صنعت و حرفت (ٹیکنالوجی) کو استعمال میں لا کر میدان عمل میں موجود ہے۔پاکستان کی اس منزل کا  خواب بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ نے دیکھا کہ تعلیم سب کے لئے، ہنر سب کی پہنچ میں، خوشحالی ہر کسی کا مقدر، شخصی وقار اور عزت نفس کے ساتھ زندگی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے یکساں مواقع اور دیانت دار قیادت و سیادت۔ یہ ہے وہ مشن جس کے لئے زرعی یونیورسٹی کے جناب وائس چانسلر کی قیادت میں دن رات کوشاں ہیں۔پچھلے چھ برس سے اس سلسلہ میں بہت سے سنگ میل عبور کرنے کا سہرا بھی موجودہ قیادت کے سر جاتا ہے۔

زرعی یونیورسٹی دنیا کی بہترین جامعات میں سے  ہے اور یہ اعزاز پاکستان میں صرف اس جامعہ کو حاصل ہے - اسلامک ڈویلپمنٹ بنک نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تمغہ اور کیش پرائز دیا۔یونیورسٹی کو اس کے سرسبز کیمپس کی وجہ سے یو آئی گرین میٹرک ورلڈ کی طرف سے 35ویں نمبر پر رکھا گیا۔2013-14ءمیں پاکستان کونسل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے زرعی یونیورسٹی کو پہلے نمبر پر قرار دیا۔جامعہ کے ویژن 2030ءکے سلسلہ میں جناب چانسلر/ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف نے اپنے گراں قدر تعریفی خیالات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے یونیورسٹی کے مشن کو سراہا ہے اور اپنی ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے الگ الگ تحریری پیغامات میں کیا ہے جو ویژن 2030ءدستاویز میں شائع کیا گیا۔بلاشبہ یہ دستاویز جس عرق ریزی ،محنت اور بالغ نظری سے ترتیب دی گئی ہے۔راقم پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان (ستارئہ امتیاز) ان کی جملہ ٹیم اور خاص طور پر ڈاکٹر سلطان حبیب اللہ خان مبارکباد  کے مستحق ہیں ۰

     ویژن 2030ءکا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔ملک کو خوراک میں خود کفیل، خوشحال اور خود دار قوم بنانے کے لئے زرعی یونیورسٹی۔ بنیادی اور عملی علم اور تحقیق کی وسیع پیمانے پر ترویج۔علم و کمال سے متصف افراد کو میدان عمل میں اتارنا اور ملکی ترقی کا حصہ بنانا۔دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ زرعی علوم و فنون کو رائج کرنازرعی اصلاحات کو ترتیب دینا اور ان کے عملی ابھی تو بہت کچھ لکھنا باقی ہے لیکن اب جگہ کا دامن تنگ ہے اس لئے زندگی بخیر اگلی بار حاضر ہوتی ہوں ۔   

بدھ، 20 مارچ، 2024

لیو ان ریلیشن شپ

  


 آ ج کے آج کے جدید اور روشن زمانے تعلیم یافتہ  نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ایک نیا ٹرینڈ سامنے آیا ہے کہ وہ میں حرام رشتے کوخوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر اسے حلال کرنے کی کوشش کرتے ہی اور اس رشتے کا نام ہے "لیو ان ریلیشن شپ' -لیکن اس صورتحا ل کاپیدا ہونے والے بچے کو جس طرح ایک ماں کی گود اور اس کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بلوغت کے بعد اس کو ایک پیار کرنے والے جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سکھ دکھ بانٹ سکے اور ایک مضبوط تعلق بنا سکےمگر کچھ معاشرتی وجوہات کے مطابق اگر ایک صحت مند انسان کی شادی بلوغت کے بعد نہ ہو سکے تو اس کے اثرات انسانی صحت پر بھی ہو سکتے ہیں جو کہ کچھ اس طرح سے ہو سکتے ہیںپریشانی اور ذہنی دباؤاگر کسی انسان کی شادی میں تاخیر ہوجاۓ تو وہ تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ تنہائی کے سبب ان کی نفسیاتی کیفیت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔ زمّہ دار آخر کون ہے کیا لڑکا اور لڑکی یو والدین یا حالات جو شادی کی عمر ہونے کے باوجود مالی استحکام کا ناہونا -شادی کا مطلب روحانی خوشی  مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے نے مختلف اثرات کے سبب شادی کے اتنا دشوار بنا دیا ہے کہ جہیز اور بری کی تیاری میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کی اصل عمر گزر جاتی ہے ۔

اس میں کوئ شک نہیں کہ دنیا میں پیدا ہونے والے بچے کو جس طرح ایک ماں کی گود اور اس کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بلوغت کے بعد اس کو ایک پیار کرنے والے جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سکھ دکھ بانٹ سکے اور ایک مضبوط تعلق بنا سکےمگر کچھ معاشرتی وجوہات کے مطابق اگر ایک صحت مند انسان کی شادی بلوغت کے بعد نہ ہو سکے تو اس کے اثرات انسانی صحت پر بھی ہو سکتے ہیں جو کہ کچھ اس طرح سے ہو سکتے ہیں پریشانی اور ذہنی دباؤاگر کسی انسان کی شادی میں تاخیر ہوجاۓ تو وہ تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ تنہائی کے سبب ان کی نفسیاتی کیفیت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں بے شمار سینکڑوں نہیں ہزاروں لڑکے ایسے موجود ہیں جو نہ صرف تعلیمی زیور سے آراستہ برسر روزگار‘ معقول آمدنی کے حامل اور ساتھ ہی شادی کرنے کے نہ صرف خواہشمند بلکہ شادی کر بھی سکتے ہیں -شادی کا عمل پوری دنیا میں ایک نیک اور مقدس عمل کے طور پر کیا اور جانا پہچانا جاتا ہے جن ممالک میں اس عمل کو قانون سے آزاد ہوکر کیا جاتا ہے وہاں آج بے شمار اخلاقی‘ سماجی اور جنسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جیسا کہ آزاد خیال ترقی یافتہ ممالک میں یہ امر بالکل نہ صرف عام ہے بلکہ اس جنسی فعل کو معیوب بھی نہیں جانا جاتا ہے۔

اگر ہم عقل وشعور کی کسوٹی پر جنس کے حوالے سے غور کریں تو ہمیں یہ جاننے میں ذرا دیر نہیں لگے گی کہ جس طرح ہمیں پیاس لگتی ہے ہم پانی پیتے ہیں‘ بھوک لگتی ہے تو کھانا کھالیتے ہیں اور جب لڑکا لڑکی بلوغت کی منزل پرآتے ہیں تو خود بخود جنس مخالف کی جانب مائل ہوتے ہیں اور یہیں سے ان کی زندگی کی اگلی منزل کی راہوں کا تعین ہوتا ہے -ایک پاکیزہ خاندانی اکائ وجود میں آ تی اور لڑکا لڑکی دونوں پاک دامن کے رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں - شادی ایک نئی زندگی کی ابتدا کا نام ہے اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ انسان شادی سے جڑی ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں نبھانے کے قابل ہو سکے اللہ پاک نے پہلے پہل  روئے زمین پر اسی مقدّس اور پاکیزہ رشتے کو نازل کیا -کہیں پروردگار عالم ارشاد فرما رہا ہے کہ تم ایک دوسرے کا لباس ہو کہیں فرما رہو کہ تم ایک دوسرے سے تسکین حاصل کرو تو کہیں فرما رہا ہے کہ میں نے تم کو جوڑ ے جوڑے کی صورت اتارا ہے-لیکن عصر حاضر نے انسان کو بہت کچھ دے دیا ہے تو اس کی زندگی سے سچّی مہرو محبت کے جذبا ت بھی چھین لئے ہیں -لیو ان ریلیشن شپ -یعنی جب تک دل چاہے اس حرام رشتے میں ساتھ رہو دل بھر جائے تو اپنی راہ لو  

اس حوالے سے ماہرین نے ایک طویل ریسرچ کے بعد لڑکیوں کے لیۓ شادی کی بہترین عمر 20 سال سے لے کر 25 سال تک قرار دی ہے جب کہ مرد حضرات کے لیۓ یہ عمر 22 سال سے 27 سال تک قرار دی ہے اس سے زیادہ دیر تک شادی نہ کرنے والے افراد کی شادی کو دیر سے شادی قرار دیا گیا ہےدیر سے شادی کرنے کے صحت پر اثرات انسان کو اللہ تعالی نے اس فطرت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا ہے ۔ عام طور پر ایسے افراد کی قوت فیصلہ کمزور ہو جاتی ہے اور وہ جلد غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیںآج ہمارے معاشرے میں بے شمار سینکڑوں نہیں ہزاروں لڑکے ایسے موجود ہیں جو نہ صرف تعلیمی زیور سے آراستہ برسر روزگار‘ معقول آمدنی کے حامل اور ساتھ ہی شادی کرنے کے نہ صرف خواہشمند بلکہ شادی کر بھی سکتے ہیںشادی کا عمل پوری دنیا میں ایک نیک اور مقدس عمل کے طور پر کیا اور جانا پہچانا جاتا ہے جن ممالک میں اس عمل کو قانون سے آزاد ہوکر کیا جاتا ہے وہاں آج بے شمار اخلاقی‘ سماجی اور جنسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جیسا کہ آزاد خیال ترقی یافتہ ممالک میں یہ امر بالکل نہ صرف عام ہے بلکہ جنسی فعل کو معیوب بھی نہیں جانا جاتا ہے۔


جب کہ شادی شدہ انسان جب اپنے جیون ساتھی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں آکسی ٹاکسن اور اینڈورفن نامی ہارمون خارج ہوتا ہے جس سے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے اور انسان پرسکون نیند سو سکتا ہے ۔جن افراد کی شادی دیر سے ہوتی ہے ایسے افراد کے جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی طاقت میں کمی واقع ہوتی ہے ایسے افراد ہر تھوڑے دن بعد کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگرچہ اس کے دیگر کئی عوامل بھی ہو سکتے ہیں مگر ماہرین نفسیات کا یہ ماننا ہے کہ جن افراد کی بڑی عمر تک شادی نہیں ہوتی وہ اپنی ذات کے حوالے سے کافی حد تک لاپرواہ ہو جاتے ہیں جس سے ان کی یاداشت بھی کمزور ہو سکتی ہےدل کے دورے کے خطرے میں اضافہ  -ایک تحقیق کے مطابق جو مرد حضرات بلوغت کے بعد دیر تک میرج  نہ ہونے کے سبب قربت کے لمحات نہیں پا سکتے ایسے افراد کے اندردل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ایسے افراد کے اندر دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ان کی شریانوں میں خون کے جمنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو دل کا دورہ بھی پڑسکتا ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر