اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’اے ابراہیم! کیا
تم اس مسئلے پر یقین نہیں رکھتے؟‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً عرض کیا:’’میں
بلا توقف اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ قادر مطلق ہیں، آپ سب کچھ
کر سکتے ہیں، میرا سوال اس لئے ہے کہ میں علم الیقین کے ساتھ عین الیقین اور حق الیقین
کا خواستگار ہوں۔ میری تمنا ہے کہ ’’اے میرے رب! تو مجھے آنکھوں سے مشاہدہ کرا
دے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’چند پرندے لے لو اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سامنے
والے پہاڑ پر ڈال دو اور پھر فاصلے پر کھڑے ہو کر انہیں پکارو۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو آواز دی تو ان سب کے
اجزاء علیحدہ علیحدہ ہو کر اپنی اپنی شکل میں آ گئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
کہا:’’اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا؟‘‘کہا: ’’کیا
تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘۔ کہا:’’کیوں نہیں لیکن دلی اطمینان چاہتا ہوں۔‘‘کہا: ’’پس
چار پرندے لے پھر ان کو اپنے ساتھ مانوس کر پھر رکھ دے ہر ہر پہاڑوں پر ان کے جز
ڈال کر۔ پھر ان کو بلا، وہ آئیں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور تو یہ جان لے۔ بے شک
اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔ ۲۶۰)اللہ تعالیٰ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عرض کرنا کہ ایمان تو ہے لیکن دلی اطمینان کے لئے یہ سوال کرتا ہوں، کا مفہوم یہ ہے کہ دل کے اطمینان کیلئے یقین(مشاہدہ) ضروری ہے۔اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے، کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا-جب ایمان دل میں داخل ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے-
اسلام جسموں پر آتا ہے جبکہ ایمان دلوں میں داخل ہوتا ہے۔ جسم جب اطاعت گزار ہوجائیں، سر جب اللہ کے حضور جھک جائے، بندہ اللہ کے دروازے پر جب ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے، ماہ رمضان میں اللہ کے لئے روزہ داربن جائے، حج کے مہینے میں اللہ کے گھر میں لبیک اللھم لبیک کی آوازیں بلند کرتا ہوا چلا جائے، زکوۃ و صدقات دینا شروع ہوجائے۔ نیز احکامات دین پر عمل پیرا ہونا شروع ہوجائے تو یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین اس کے جسم سے ظاہر ہورہا ہے۔ پس جب ظاہر اللہ کے حضور جھک گیا تو مسلم ہوگیا اور جب قلب و باطن اللہ کے حضور جھک گئے تو مومن ہوگیا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سر تو اللہ کی بارگاہ میں جھکا رہتا ہے مگر دل نہیں جھکتا۔ ۔ ۔ اگر دل جھک جائے تو ساری کایا ہی پلٹ جائے۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو ساری زندگی کے طور طریقے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو سوچ کے انداز بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو انسانی زندگی کے تمام اعمال اور رویے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو اخلاق بدل جائے۔ ۔ ۔ وہ انسان ایک نیا انسان بن جائے گا۔ لیکن جب صرف ظاہر جھکتا ہے اور دل نہیں جھکتا تو پھر مومن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے ارشاد فرمایا کہ مومن ہونے کا دعویٰ اس وقت کرنا جب ایمان داخلِ قلب ہوجائے، جب ایمان تمہارے دل کی حالت بن جائے تب مومن ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دل کی تصدیق کرنا بھی کہتے ہیں-۔‘‘
(سورۃ الحجرات۔ اعلیٰ اور اسفل حواس یعنی زندگی کے تمام اعمال کا ریکارڈ ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ازل تا ابد پورا کائناتی نظام اللہ بنائی ہوئی فلم ہے، ازل میں موجود یہ ریکارڈ(Film) ہے جو عالم ارواح، عالم برزخ اور عالم ناسوت میں مظاہر بن رہا ہے، ہر عالم ایک اسکرین کی طرح ہے۔ اسکرین پر فلم کا مظاہرہ ہوتا ہے تو دنیا کی ہما ہمی اور گہما گہمی ہمیں نظر آتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پرندوں کے ساتھ شکست و ریخت کا جو عمل کیا اس سے پرندوں کا جسمانی نظام بکھر گیا لیکن پرندوں کی زندگی کا اول و آخر ریکارڈ موجود رہا، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پرندوں کے الگ الگ اعضاء کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ریکارڈ شدہ نظام بحال ہو گیا اور پرندے زندہ ہو گئے۔ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا تکوینی قانون بھی یہی ہے کہ اللہ کے حکم سے درہم برہم سسٹم ’’ریکارڈ‘‘ کے مطابق بحال ہو جائے گا۔ یہ جو کچھ ہم نے عالم ناسوت میں کیا ہے وہ سب ریکارڈ ہے جب اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ ریکارڈ (فلم) دوبارہ ڈسپلے ہو جائے گا تو ہاتھ ، پیر، آنکھ خود گواہی دیں گے کہ ہم نے اچھے یا برے اعمال کئے ہیں۔اور انکسار کی