جمعرات، 22 ستمبر، 2022

مسلم دنیا کا ایک عظیم مسیحا ''ابن سینا ''

 '

مسلم دنیا کا ایک عظیم مسیحا ''ابن سینا ''

علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا المعروف ابن سینا 

جن کی تصانیف یورپ کی یونیورسٹیز میں ساڑھے سات سو سال تک پڑھائ جاتی رہیں  (980ء تا 1037ء) ہے، جو دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں۔ ابن سینا  فارس کے رہنے والے ایک جامع العلوم شخص  تھے جنھیں ہارون الرشید کے دور میں اسلام کے  سنہری دور کے سب سے اہم مفکرین اور ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ابن سینا کے نام پر ہی آج ادویات کو میڈیسن کہا جا تا ہے-12ویں صدی کے دوران مغربی یورپ نے قدیم یونانی فلسفے کا ازسرِ نو مطالعہ کیا۔۔ اس عمل میں مغربی محققین ترجمہ کرنے کی اس تحریک سے مستفید ہوئے جس میں عربی میں لکھی گئی تحاریر کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ 

ابوعلی سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا لقب ’’الشیخ الرئیس‘‘ ہے۔ اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلسفیوں اور اطباء میں سے تھے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے 450  کتابیں  لکھیں ، ان میں سے فلسفہ پر 150 اور ادویات پر 40 تصنیفات تھیں۔ ان کی سب سے مشہور کتابوں میں "کتاب شفایابی، جو  ایک فلسفیانہ اور سائنسی انسائیکلوپیڈیا اور ’طبی قوانین جو ایک طبی انسائیکلوپیڈیا تھا، شامل تھے۔  1973 میں، ابن سینا کی کتاب ’’طبی قوانین نیویارک میں دوبارہ شائع کی گئی۔ فلسفہ اور طب کے علاوہ، ابن سینا  نے فلکیات، کیمیا، جغرافیہ اور ارضیات، نفسیات، اسلامی الہیات، منطق، ریاضی، طبیعیات اور شاعری پر بھی لکھا ہے۔ ابن سینا کو طبی دنیا کا روشن چراغ  بھی کہا جاتا ہے۔

 ابن سینا یا ابو علی سینا،وہ آج کے ازبکستان کے شہر بخارا میں سال 980 میں پیدا ہوئے تھے۔ ابن سینا فارس کے شہری تھے -’اسلام کے سنہرے دور‘ میں لگ بھگ 500 برس کا عرصہ مشرق وسطیٰ میں اہم سیاسی اور ثقافتی تبدیلیوں کا باعث بنا۔12ویں صدی کے وسط سے ابن سینا کی میٹا فزکس یورپ میں واحد میٹا فزکس تھی۔ 12ویں صدی میں ہمیشہ ابن سینا کی فزکس کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔   ۔ابن سینا کی ایک تحریر میں خدا اور اس کے بندے کے بیچ فاصلے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پھر یہی تحقیق اطالوی فلسفی سینٹ تھومس اکوائنس کے مذہبی فلسفے کا حصہ بنی۔ یہ فلسفہ قدیم مسیحی مذہب کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک تھا۔

۔ وہ عظیم فلسفی اور معروف معالج تھے جو اپنے وقت میں عربی میں کتابیں لکھتے تھے۔ وہ آج کے سینٹرل ایشیا میں 980 عیسویں میں بخارا شہر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سینٹرل ایشیا اور سلطنتِ فارس میں کافی سفر کیا۔ وہ بالآخر آج کے ایران کے شہر اصفہان میں مقیم ہو گئے۔ 10ویں صدی کے دوران سینٹرل ایشیا میں فارس کا شہری، جو عربی بولنا جانتا تھا، یونانی فلسفے تک کیسے پہنچا؟

اس کا جواب بھی ترجمہ کر کے علم حاصل کرنے کی ایک تحریک میں چھپا ہے جس کی ابتدا آٹھویں صدی میں ہوئی تھی۔ اس تحریک کا مقصد کتابوں کا یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ کرنا تھا۔ یہ 12ویں صدی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کرنے کی تحریک سے بھی بڑی لہر تھی۔عباسی سلطنت کی اس تحریک کی بنیاد دارالحکومت بغداد تھا جو اسی دوران نیا تعمیر ہوا تھا۔ یہاں قدیم یونانی تہذیب کی سائنس اور فلسفے کی تحقیق کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ اس تحریک کی آمد اور ابن سینا کے عظیم فلسفی بننے میں کوئی دو صدیوں کا فاصلہ ہے۔ 

   مغربی یورپ نے قدیم یونانی فلسفے کا ازسرِ نو مطالعہ کیا۔ محققین نے بو علی سینا کو  ایک قابل احترام فلسفی تسلیم کیا۔ اس عمل میں مغربی محققین ترجمہ کرنے کی اس تحریک سے مستفید ہوئے جس میں عربی میں لکھی گئی تحاریر کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ عمل 11ویں صدی کے آواخر میں شروع ہوا تھا۔ابن سینا نے اپنے سے پہلے آنے و لے فلاسفہ کے نظریا ت کو ماننے کے بجائے  سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ یہ بات کم از کم مسلمان فلسفیوں کی حد تک درست ثابت ہوئی۔ابن سینا کی زندگی کے 57 برس اس اسلامی دور کا حصہ ہیں جو ان صدیوں کے بعد شروع ہوئے کہ جب عرب فوجیں فا کے علاقوں کو فتح کر چکی تھیں اور اس کے بعد فارس کے شہریوں نے اسلامی تہذیب میں بڑی ثقافتی پیشرفت کی تھی۔

سنہ 1037ء میں ان کا انتقال ہوا۔اور علم کا یہ عظیم خدمت گار اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا

امسال بھی دو کروڑ سے اوپر عزادارو ں کی میزبانی کا شرف سرزمین کربلا نے پایا ہے

   پاکستان سمیت دنیا بھرسے زائرین کی اربعین پر کربلا میں ریکارڈ حاضری۔ہے اربعین کے مقاصد کیا ہیں-ظلم، استبدادی نظام حکومت کے خلاف سیسہ پلائ دیوار بن جانے کا نام اربعین ہے

حضرت امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے 2 کروڑ 11 لاکھ سے زائد زائرین کربلا پہنچے۔غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق عراق اور ایران کی بارڈر کراسنگ آرگنائزیشن کے ترجمان علاء الدین القیسی کا کہنا ہے اربعین کے اجتماع میں شرکت کے لیے 2 کروڑ11 لاکھ زائرین پہنچے ہیں۔اربعین میں زائرین کی تعداد 1438ہجری میں ایک کروڑ12لاکھ ، 1439ہجری میں ایک کروڑ 48لاکھ ، 1440ہجری میں ایک کروڑ 53لاکھ، 1441ہجری میں ایک کروڑ 52لاکھ، 1442ہجری میں ایک کروڑ 45لاکھ، 1443ہجری میںایک کروڑ 63لاکھ ،امسال یعنی1444ہجری میں2 کروڑ 11لاکھ98ہزار640رہی۔

گورنر کربلائے معلیٰ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ الحمد اللہ اس سال ہم نے 2 کروڑ سے زائد زائرین ابا عبداللہ الحسینؑ کی میزبانی کا شرف حاصل کیا ہے اور یہ شرکت اب تک کی ریکارڈ شرکت ہے ۔ امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ محسن انسانیت نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسینؑ کی ذات اور آپ کے اہداف آفاقی ہیں، دین اسلام کی سربلندی، انسانی عزت و شرف اور حقوق انسانی کی فراہمی و بحالی کی لہو رنگ جدوجہد امام عالی مقامؑ کی عظیم قربانی کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں مختلف مکاتب فکر کے نہ صرف کروڑوں مسلمان بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی انتہائی عقیدت و احترام سے امام عالی مقامؑ اور ان کے باوفا اور جانثار ساتھیوں کی عظیم قربانی کی یاد مناتے ہیں۔

شیعہ علما کا کہنا ہے کہ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی دنیا بھر سے بلاتفریق مذہب و مسلک کروڑوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کا سرزمین کربلا پر جمع ہوکر فرزند رسولؑ اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اگرچہ اس وقت انسانیت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے لیکن فرزند رسول سید الشہداءؑ کی ذات ان تمام اختلافات اور طبقات کی تقسیم سے بالاتر تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہے، اس لئے گذشتہ چودہ صدیوں سے انسانیت آپ کی ذات سے وابستہ رہنے کو اپنے لئے شرف اور رہنمائی کا باعث قرار دے رہی ہے اور بلا تفریق مذہب و مسلک اور خطہ و ملک آپ کے کردار سے استفادہ کررہی ہے۔

علما کے مطابق عزاداری کے پروگرام اور تقاریب فکر حسینی کی ترویج کا ذریعہ ہیں اور کسی مسلک و مکتب کیخلاف نہیں، پاکستان کے شہریوں کے آئینی و قانونی حقوق اور شہری  آزایوں کا حصہ ہیں لہذا ان کو روکنا یا ان میں رکاوٹیں ڈآلنا کسی طور پر موزوں نہیں ہےۂۓرکہےحکومتوں کا فرض ہے کہ  اور ان کی آزادیوں کی حفاظت کریں۔ انہوں نے یہ بات زو ر دے کر سکہی کہ وحی الہی کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور یہ امت ایک امت ہے لہذا تمام مسالک کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اخوت، بھائی چارے، باہمی احترام، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ فرزند رسول سید الشہداءؑ کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشناہی حاصل کرکے اتحاد و وحدت، مظلومین کی حمایت، یزیدی قوتوں سے نفرت کی ارتقائی منازل طے کی جائیں، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے کربلا جیسے معرکہ حق و باطل میں سرفراز و سربلند فرزند رسول سید الشہداءؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اتحاد و وحدت کے ذریعہ دشمنان اسلام و پاکستان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر اپنے زندہ و بیدار ہونے کا ثبوت دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرزند رسول سید الشہداءؑ کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشناہی حاصل کرکے اتحاد و وحدت، مظلومین کی حمایت، یزیدی قوتوں سے نفرت کی ارتقائی منازل طے کی جائیں، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے کربلا جیسے معرکہ حق و باطل میں سرفراز و سربلند فرزند رسول سید الشہداءؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اتحاد و وحدت کے ذریعہ دشمنان اسلام و پاکستان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر اپنے زندہ و بیدار ہونے کا ثبوت دیں۔حضرت زینب س اور حضرت امام سجاد ع نے اپنے خطبات اور حقائق کو بیان اور واضح کرنے کے ذریعے در اصل ایک مضبوط و مستحکم میڈیا کی مانند واقعہ کربلا کے مقاصد، اہداف، اُس کے مختلف پہلووں اور ایک انقلابی اور زندہ سوچ کو جہاں جہاں بھی انہیں موقع ملا پھیلا دیا 

ایک گھٹے ہوئے سیاسی ماحول کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُس تنگ و تاریک دور میں لوگوں میں اِس بات کی فرصت و جرأت نہیں ہوتی کہ اُنہوں نے جن حقائق کو سمجھا ہے اُسکے مطابق عمل کر سکیں ۔ اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اولاً ظلم و استبداد کی بنیادوں پر قائم حکومتی نظام اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ حقائق کو سمجھیں اور اگر لوگ اُس کی مرضی اور خواہش کے بر خلاف سمجھ بھی جائیں تو ظالم و مستبدانہ نظام حکومت اُنہیں اِس بات کی قطعی اجازت نہیں دے گا کہ جو کچھ اُنہوں نے سوچا اور سمجھا ہے اُسے عملی جامہ پہنا سکیں ۔

کوفہ اور شام جیسے شہروں میں جہاں سیاسی اصطلاح کے مطابق دباؤ اور گھٹن کا ماحول تھا اور کربلا سے اِن شہروں کے درمیانی راستے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضرت زینب س یا امام سجاد ع کی زبانی یا ان اسیروں کی حالت زار دیکھ کر بہت کچھ سمجھ گئے تھے لیکن کسی میں یہ طاقت و جرأت نہیں تھی کہ وہ ظلم و ستم کے اُس حکومتی نظام کے خلاف اور اُس سیاسی دباؤ کے دور میں جو کچھ اُس نے سنا اورسمجھا ہے اُسے اپنی زبان پر لائے! یہ واقعہ اور یہ تمام حقائق ایک پھندے کی صورت میں مومنین کے حلق میں پھنسے ہوئے تھے ۔ لیکن اِس احساس اور پھندے نے چہلم کے دن اپنا حصار توڑ دیا اور چشمہ بن کر کربلا میں پھوٹا ۔


زینب زوی الکرام ولادت با سعادت



روائت ہے کہ جس وقت نور عین فاطمہ و علی علیہ السّلام کے پُر نورآنگن میں بی بی زینب کی ولادت ہوئ اس وقت نبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔چنانچہ تین دن کے بعد آپ  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کے حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں  لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی 


ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھااور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،


اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ  رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘  لے کر آئےہیں یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا ،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے  جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔


اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ  درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے


ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا  رکھ دیا۔

 ،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو  اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے 

بدھ، 21 ستمبر، 2022

کینیڈا میں موسم کے رنگ

اللہ پاک
کریم و کارساز نے ہم انسانوں کی بہتری کے لئے سال کے چار موسم بنائے ہر موسم کے اپنے پھل رکھے سبزیا ں رکھیں یعنی بنی نوع انسانی کی بھلائ ہی بھلائ کے منصوبے دئے -لیکن کینیڈا جیسے سرد ملک میں سردیاں بہت مشکل سے گزرتی ہ
۔ ستمبر  کا مہینہ کینیڈا میں موسم خزاں کے آغاز کو مہینہ ہے، موسم گرما کی گرمی سے راحت مل جاتی ہے کیونکہ بار بار ہلکی بارش کے ساتھ آب و ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ کینیڈا کے وسیع جنگلات میں موسم خزاں کا بہترین وقت ہے ، ملک میں دنیا کے کچھ بہترین مناظر ہیں اور اس میں فطرت کے اس پہلو کو دیکھنے کے ایک نہیں بلکہ کئی طریقے ہیں خوشی کا موسم!

ای ٹی اے کینیڈا ویزا ایک الیکٹرانک ٹریول اتھارٹی یا ٹریول پرمٹ ہے جو 6 ماہ سے بھی کم عرصے کے لیے کینیڈا جانے اور کینیڈا میں موسم خزاں کے ان مہاکاوی تجربات کو دیکھنے کے لیے ہے۔ بین الاقوامی زائرین کے پاس کینیڈا کا دورہ کرنے کے قابل ہونے کے لیے کینیڈین ای ٹی اے ہونا ضروری ہے۔ غیر ملکی شہری درخواست دے سکتے ہیں۔ ای ٹی اے کینیڈا ویزا آن لائن منٹ کے معاملے میں. ای ٹی اے کینیڈا ویزا عمل خودکار ، آسان اور مکمل طور پر آن لائن ہے
موسم خزاں میں کینیڈا 
الگنون صوبائی پارک Algonquin صوبائی پارک خزاں کے رنگوں میں ملبوس۔
ایک ایسا ملک جس میں متعدد قومی پارکس ہیں جو ہزاروں جھیلوں کے گرد گھنے جنگلات سے گھرا ہوا ہے ، کینیڈا وہ ملک ہے جو اپنے شہروں سے آگے دیکھنے کے لیے زیادہ نظارے رکھتا ہے۔ ۔ ملک کا مشرقی حصہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ موسم خزاں کے رنگوں کا مشاہدہ کرنے کا بہترین پطریقہ اس کی تمام شدت کے ساتھ پتے سرخ سے نارنجی جا رہے ہیں اور آخر میں سردیوں کی ہوا میں پیلے رنگ کی ساخت کے ساتھ غائب ہو رہے ہیں۔ئ
کینیڈا جیسے بڑے ملک میں موسم خزاں کے پودوں کے وقت کی پیش گوئی کرنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن زیادہ تر ستمبر کے مہینوں میں اکثر صوبوں میں موسم خزاں کا آغاز ہوتا ہے اونٹاریو, کیوبک اور سمندری صوبے ملک بھر میں روشن موسم خزاں کے رنگ دیکھنے کے لیے بہترین جگہ ہیں۔
ملک کی بیشتر جھیلوں کو قومی پارکوں سے گھیرے جانے کی وجہ سے ، سرخ اور پیلے رنگ کے میپل کے درختوں کے درمیان واقع پرامن جھیلوں کو دیکھنا زندگی بھر کی تصویر بن جاتا ہے ، جو سرخ جنگلات کو اپنے پرسکون پانیوں میں جھلکتے ہیں۔

کینیڈا کے سب سے قدیم صوبائی پارکوں میں سے ایک ، الگنکوئن نیشنل پارک جنوب مشرقی اونٹاریو میں واقع ہے اس کی حدود میں چھپی ہوئی ہزاروں جھیلیں ہیں ، جنگل کی چھپی ہوئی پگڈنڈیاں جو خزاں کے موسم میں شاندار نظارے پیش کرتی ہیں۔ پارکوں کی شہر سے قربت کی وجہ سے۔ ٹورنٹو، الگونکوئن ملک کے سب سے مشہور پارکوں میں سے ایک ہے جو مختلف قسم کے جنگلی حیات اور کیمپ سائٹس کا گھر ہے۔
کینیڈا کے مختلف شہروں اور خطوں کے موسم کا انحصار اس موسمی حالات اور درجہ حرارت پر ہے جس پر وہ مقامات سال بھر تجربہ کرتے ہیں۔ ہر جگہ سردی اور برفباری سے دور ، کینیڈا کی آب و ہوا کا انحصار ملک میں پائے جانے والے مختلف متنوع مناظر پر ہے۔

وینکوور اور وکٹوریہ کا تجربہ جیسے شہر سمندری آب و ہوا جیسا کہ وہ بحیرہ روم کی سرحد سے ملتے ہیں اور اس طرح ملتے ہیں خشک گرمیاں. اوٹاوا ، مونٹریال اور ٹورنٹو کے پاس بھی ہے گرم گرمیاں اور وینکوور کی سردیوں کینیڈا کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلہ میں کافی ہلکی ہے۔
پہاڑی علاقوں جیسے برٹش کولمبیا مختلف پہاڑی شہروں میں درجہ حرارت اور آب و ہوا کے حالات مختلف ہوسکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مختلف اور مختلف بلندی والے علاقوں پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر ، وینکوور اور کملوپس کے گرم علاقوں کے ٹھیک آنے کے بعد ، جنوبی برٹش کولمبیا کے پہاڑی گزرگاہوں نے لوگوں کو حیرت سے حیرت میں ڈال دیا سبارکٹک یا سبپلائن آب و ہوا. تاہم، ساحلی برٹش کولمبیا موسلا دھار بارش لیکن درمیانی گرمیاں اور سردیوں کا موسم ہوتا ہے۔
اندرون علاقوں جیسے جنوبی اونٹاریو اور کیوبیک براعظم آب و ہوا کا تجربہ کرتے ہیں۔ گرمیاں گرم اور مرطوب ہیں اور سردی اور برف باری ہوتی ہے۔
وسطی کینیڈا اور شمالی کینیڈا، یقینا ، تجربہ اس میں ارکٹک اور سبارکٹک آب و ہوا ٹنڈرا خطوں کی طرح یہاں موسم کی صورتحال اکثر سخت رہتی ہے ، صرف ایک چھوٹا سا موسم گرما ، اسی وجہ سے یہ کینیڈا کے سب سے زیادہ گنجان آباد خطے نہیں ہیں۔
مختلف موسموں میں کینیڈا کا موسم
کینیڈا کے مختلف علاقوں میں کس طرح کے موسم کا سامنا ہے اس کا انحصار اس موسم پر بھی ہوتا ہے جو اس وقت ملک میں چل رہا ہے۔ کینیڈا میں موسم بہار ، موسم گرما ، خزاں اور موسم سرما کے چار بہتر تعی wellن مند موسم ہیں۔

کینیڈا میں موسم سرما
کینیڈا میں سردیاں ملک بھر میں سرد ہیں اگرچہ عرض البلد اور خطوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ وینکوور جیسے ساحلی شہروں میں ہلکی سردی ہے جبکہ درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک کہیں بھی حرارت صفر سے نیچے گرتا ہے. مونٹریال ، ٹورنٹو ، اور اوٹاوا جیسے فلیٹ لینڈز میں درجہ حرارت -20 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ گر جاتا ہے۔ یہ ہے تاہم ، کینیڈا کے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ چھلکنے والا اور سخت سردی ہے. کینیڈا میں سردیوں کا موسم دسمبر کے مہینوں سے لے کر فروری کے مہینے تک ہوتا ہے ، کبھی کبھی مارچ تک۔ اگر آپ کو سردی کے موسم پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور آپ سردیوں کے کھیلوں اور کینیڈا کے کئی موسم سرما کے تہواروں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو ، آپ نومبر کے آخر یا دسمبر کے آخر میں اس ملک کا دورہ کریں۔
کینیڈا میں بہار
کینیڈا میں موسم بہار مارچ سے مئی تک جاری رہتی ہے ، حالانکہ یہ فروری کے مہینے میں مغربی ساحلی علاقوں میں آتی ہے اور بہت سے دوسرے خطوں میں صرف اپریل کے بعد ہی یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آخر کار ان مہینوں میں درجہ حرارت صفر سے بڑھ جانا شروع ہوتا ہے، جہاں تک  ۳۵ڈگری سینٹی گریڈ تک جا تا ہے۔ 
 - جو سیاح گرم موسم کے حامل علاقوں سے 
  آتے ہیں وہی لوگ خاص طور پر اسے محسوسا۔اللہ پاک و کریم نے

پیر، 19 ستمبر، 2022

مکھانے قدرت کا انمول تحفہ


/script>

 

 

قدرت نے انسان کے فائدے کے لئے ایسی ایسی چیزیں پیدا کی ہیں کہ انسان ان کے فوائد کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا لیکن افسوس کہ انسان ان چیزوں کے فوائد سے ناواقف ہے۔ان میں سے ایک مکھانے بھی ہیں جنہیں پھول مکھانے بھی کہا جاتا ہے۔اسے انگریزی میں فوکس نٹ کہتے ہیں۔

مکھانے ایک پودے کے بیج ہیں۔اس کاپودا تالابوں میں پیداہوتاہے۔اس کے پھول اور پتے نیلوفر کے پھول اور پتوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔اس کی جڑ چھوٹے چقندر کے برابر ہوتی ہے۔اس کا بیرونی چھال سیاہ اور کھردری ہوتی ہے۔اس کے جوف میں خانے ہوتے ہیں اور ہرایک خانے کے اندر سے سیاہ رنگ کے گول بیج نکلتے ہیں جن کا مغز سفید اور قدرے شیریں لیس دارہوتاہے۔خام ہونے کی حالت میں ان کا مغز نکال کر کھاتے ہیں اور خشک شدہ کو مرکبات میں شامل کرتے ہیں۔

مزاج سردتر ہے تازہ مکھانا مقوی بدن،مقوی باہ اورمولدمنی خیال کیاجاتاہے۔جبکہ خشک بھونے ہوئے مکھانے قابض اورغذائیت سے بھرپو رہوتے ہیں۔ مکھانے زیادہ تر مستورات کو بچے کی پیدائش کے بعدکمزوری کو دور کرنے کے لئے حلووں یا سفوف میں شامل کرکے کھلاتے ہیں۔

 مکھانے میں شامل کیمیائی اجزا:

پھول مکھانے میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس کی وافر مقدارپائی جاتی ہے۔ان کے علاوہ اس میں دیگر فائدہ مند مرکبات ہوتے ہیں


ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ

جن لوگوں کو ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ ہے انہیں مکھانہ کا استعمال باقاعدگی سے کرنا چاہیئے۔ یہ نہ صرف انکے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

ہڈیوں کو مضبوط بنائے

بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ اس میں کیلشیم کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔

جسمانی طاقت بحال کرے

مکھانا ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ کسی بھی وقت کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے ہم کو بہت سارے فوائد ملتے ہیں۔ اگر آپ روزانہ مکھانا کھائیں گے تو یہ بہت فائد ہ مند ہے۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔

جریان، ضعف باہ کا علاج

مکھانوں جریان،ضعف باہ اور رقت منی کے لئے سفوفات میں شامل کرتے ہیں۔ان کو کھانے کیلئے فرائینگ پین ہلکی آنچ پر رکھ کر چھوڑ دیجئے اور جب پین گرم ہوجائے تو پھول مکھانے اس پر ڈال کر ان کو پانچ منٹ تک پکاتے رہیں۔تیل وغیرہ کچھ بھی نہیں ڈالنا۔صرف پھول مکھانے کو روسٹ کرنا ہے اس دورا ن آپ نے چمچ کے ساتھ ان کو ہلاتے رہنا ہے تا کہ یہ ہر طرف سے پک جائیں۔ان کو روسٹ کرنے کے بعد آپ نے انہیں اتار لینا ہے۔ ایک برتن میں آپ نے ایک گلاس گرم دودھ لینا ہے اور اس میں پھول مکھانے شامل کر لینے ہیں۔ اور ان کو تقریبا دس منٹ تک رکھ کے چھوڑ دینا ہے تا کہ مکھانوں میں دودھ اچھی طرح سے جذب ہوجائے۔یہ لیجئے آپ کا یہ نسخہ تیارہوگیا۔اس کو آپ کھا لیں اور اگر ذائقے کے لئے آپ نے شہد شامل کرنا ہے تو آپ حسب ذائقہ شامل کرسکتے ہیں۔

یہ نسخہ ایسا قیمتی ہے کہ اس سے آپ کی ہر طرح کی کمزوری دورہوجائے گی۔آپ اپنے آپ کو تندرست اور توانا محسوس کریں گے۔ بدن میں موجود ہر طرح کے دردوغیرہ دور ہوجائییں گے۔ نہ آپ کبھی تھکاوٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی سستی۔

خواتین کیلئے تحفہ:

پھول مکھانے خواتین کے بعض دوسرے مسائل کا حل بھی ہے۔اس نسخے کو تیار کرنے کے لئے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے گا۔ لیکن آپ کے بہت سے مسائل اس سے حل ہوجائیں گے۔جن خواتین کو پرانی لیکوریا ہو کمر ٹانگوں اور پنڈلیوں میں ایسا درد ہو کہ درد کی گولیاں کھا کر عاجز آگئی ہوں۔ دوسری طرف بلڈ پریشر ہو۔گرم چیزیں نہ کھاسکتی ہوں اور تیسری طرف موٹاپا بہت زیادہ ہو۔ ایسی خواتین اس نسخے کا استعمال کریں۔حیران کن فائدہ ہوگا۔

اسی طرح وہ خواتین جو کمزور ہیں۔ جن میں خون کی کمی ہے۔ پٹھے اعصاب اور جسم دکھتا ہے۔ ہر وقت سانس پھولتا ہے۔طبیعت اکتاہٹ اور بیچینی کا شکار رہتی ہے۔ وہ بھی یہ نسخہ استعمال کرسکتی ہیں۔ اسی طرح مہوروں کا مسئلہ،ڈسک پرابلم،اعصابی کھنچاؤ،اس نسخے کے سامنے ایسے ہیں جیسے آٹے میں سے بال نکل جائے۔

اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی کے لئے مختلف ادویات استعمال کر چکی ہوں۔

ان کو فائدہ نہ ہوتا ہو تو انہیں یہ نسخہ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ مرد جن کا مادہ تولید اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں اور ہر ٹیسٹ ان کا ناکام ہوتا ہے اور وہ مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی یہی مرکب دودھ کے ساتھ ضرور استعمال کریں۔ چند دن چند ہفتے اور چند مہینے کا استعمال انہیں بے اولادی کے روگ سے نکال کر اولاد کی خوشیاں دے گا۔

نسخہ تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے: پہلے اجزاء نوٹ فرمائیے،ثابت مونگ ایک کلو۔بادام گری ایک پاؤ۔،پسی ہوئی چینی یا دیسی شکر ایک کلو۔پستہ ایک چھٹانک۔سونف آدھا پاؤ۔ناریل ایک پاؤ۔پھول مکھانے آدھا پاؤ۔چھوٹی الائچی۔ایک تولا۔چاروں گوندیں ایک پاؤ۔ نشاستہ ایک پاؤ۔اسپغول کا چھلکا آدھا پاؤ۔دیسی گھی ڈیڑھ کلو۔ ثابت مونگ کو بھون لیں۔ بعد میں اس کا آٹا بنا لیں۔ دیسی گھی میں چاروں گوندیں براؤن کریں اور کوٹیں۔ پھر پھول مکھانے بھی دیسی گھی میں براؤن کریں اور کوٹیں۔ بادام گھی میں براؤن کر کے کوٹ لیں۔ سونف کو بھی براؤن کر کے اس کا آٹا بنا لیں۔ یعنی سب دیسی گھی میں نشاستے کو بھی گھی میں براؤن کریں۔

باقی پستہ اور چھوٹی الائچی کو براؤن کئے بغیر ہلکا کوٹ لیں۔آخر میں تمام اجزاء کو ملا کر گھی میں بھون لیں اور پسی ہوئی چینی شامل کردیں۔خوب مکس کریں۔ اس کے بعد ناریل کھوپرا اور اسپغول کا چھلکا ملالیں۔تمام اشیاء ملانے کے بعد ایک کھلے برتن میں ٹھنڈا کریں اور ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔

واضح رہے کہ آخر میں تمام اجزاء کو جب بھونیں تو بالکل ہلکی آنچ ہو۔اور زیادہ دیر تک اس کو بھونیں جلے بھی ناں۔ اور اجزاء بھی خوب محفوظ رہیں۔یہ آپ کا نسخہ تیار ہے۔ اس کو صبح دوپہر شام یا پھر صبح شام دو دو چمچ استعمال کریں اور فوائد حاصل ہوگا


طب صادق- از حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام

head>


چھٹے امام  جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ انسان کی روح انسان  کے ظاہری حواس خمسہ کے طابع ہوتی ہے اور جب

 ہمارا جسم کسی بھی سبب سے بیمار ہوتا ہے تب انسان کو روحانی بیماریاں بھی لاحق ہو تی ہیں

اِس لئے کہ آدمی دو چیزوں ’روح اور جسم‘ سے مرکب ہے اور ہر ایک کی سلامتی اور بیماری ایک دوسرے پر اثر انداز

 ہوتی ہے لہذا اِنسان صحیح و سالم وہ ہے جو دونوں حیثیت سے سلامت ہو - مولا علیہ السّلام  فرماتے ہیں

 ا گر کوئی حقیقی معنوں میں طبیب حازق بننا چاہتا ہے تواُس کو جسم وروح دونوں کا طبیب ہونا چاہئے۔ یعنی رنج و غَم و اَندوہ

 روحانی کا بھی معالج ہو جس طرح عوارضات جسمانی کا جو طبیب روحانی علاج سے ناواقف ہے اگر وہ روحانی امراض ک

ا مُسہل سے علاج کرے گا تو ظاہر ہے کہ مریض کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یا مثلًا فِکر و خیال وناراحتی روح کی وجہ سے اگر کسی کو

 نیند نہیں آتی اور پریشان ہے تو اس کو خواب آور گولیاں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتیں بجز قدرے سُلا دینے کے۔اِسی

 طرح اگر بیخوابی اَمراض جسمانی کی وجہ سے ہے۔ تو روحانی علاج اور پند و نصائح مفید، اسکو کچھ بھی فائدہ نہ دیں گے۔

لہٰذا طبیب کامل اور حاذِق وہی ہو سکتا ہے۔ جو جسمانی اور روحانی تمام امراض اور انکے علاج سے واقف ہو اور ایسا طبیب

 سوائے برگزیدگانِ خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اِسلام میں روح وبدن اگرچہ دوجداگانہ چیزیں ہیں لیکن ایسے لازم و

 ملزوم ہیں کہ ایک کی سلامتی دوسرے کی سلامتی پر موقوف ہے۔ اسلام کے رہبروپیشواوٴں نے آپ کو طبیبِ روحانی کی

 صورت میں اگرچہ پیش کیا مگر وہ طبیبِ جسمانی بھی تھے۔ ان کے طبیبِ جسمانی ہونے کا ایک یہ نمونہ ہی ثبوت کے لئے

 کافی ہے کہ انھوں نے پاکیزگی و طہارتِ بدن کے لئے وضو۔غسل اور تیمّم مختلف نجاستوں س پاک ہونے کو لازمی قرار

 دیا۔ تاکہ اَعضاءِ ظاہری گرد و غبار سے آلودہ ہو کر مُضر صحت نہ بنیں۔

انبیاء جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے رہبر بن کر آئے۔ اُنکا اصلی مقصد صرف یہ تھا کہ انسان کو آموزگار اَخلاق و دِین بَن کر

 روحانیت کی اِرتقائی منازل طے کرائیں۔ کیونکہ انسان اگرچہ جسم و روح کا مرکب ہے لیکن درحقیقت اِنسانیت روح کا

 نام ہے اور جسم ایک آلہ رُوح ہے۔ انبیاء نے سلامتیِ بدن کی طرف توجہ صرف اس حد تک دی ہے کہ صحتِ جسم، صحتِ

 روح کا باعث بن کر روحانی منازل طے کر سکے۔ درحقیقت اَنبیاء اَطباء اَرواح و عقول ہیں کیونکہ عقل و دِل بھی جسم کی

 طرح ہوتے ہیں۔

پیغمبرِ اِسلام کا ارشادہے ۔ انّ ھٰذا القلوب تمل کم تمل الا بدان۔ یعنی یہ دِل بھی بدن کی طرح بیمار ہوتے ہیں۔علی ابن ابی

 طالب علیہ اسلام کا اِرشاد ہے۔ لہذا جس قدر جسم صحیح اور سالم تر ہو گا ’حواس خمسہ‘ بھی کامل تر ہوں گے اور اُن کے معلومات بھی زیادہ ہوں گے۔ ٍ جو پیغمبر علمِ طِب سے ناواقف ہے وہ تربیتِ روح کے فرائض بھی انجام نہیں دے سکتا اور جو کتاب صحتِ جسمانی کی ضامن نہیں وہ روح کی تربیت میں بھی قاصر رہے گی۔ خدا نے ہرگز ایسا پیغمبر اور ایسی کتاب

 نازل نہیں فرمائی ہے۔اِرشاد حضرت امام رضا علیہ السلام ہر درد کی شفا قرآن میں ہے ۔ قرآن سے شفا چاہو۔ جسکو قرآن

 سے شفا حاصل نہ ہو اُس کو کوئی چیز شفا نہیں دے سکتی۔ یہ بے شک خدا کی کتاب ’ہُدیٰ‘ ہے۔ یہ نسخہ نیا ہر مرض کی دوا

 ہے اِنسان اگر سوچے اور غور کرے تو اس میں روحانی نسخوں کے ساتھ ساتھ صحتِ جسمانی کی ضروریات وابسطہ نظر آتی

 ہیں جہاں نماز پڑھو، زکوة ادا کرو، کے شربتِ رُوحِ افراز کا ذِکر ہے وہاں نماز کی فضیلت میں یہ بھی حکم ہے کہ مساجد میں

 ادا کرو تاکہ ہر قدم پر روحانی اِرتقاء کے ساتھ جسمانی چہل قدمی بھی ہو کر معاون صحتِ جسمانی ہوتی رہے۔ مسجد میں

 حضورِ معبود نماز کی ادائیگی کے ساتھ جہاں روحانی قُربت حاصل ہو، وہاں قیام و رُکوع و سجود کے حکم سے ورزشِ جسمانی کی

 رعایت بھی نسخہ میں رکھ دی گئی۔

قرآن جہاں نیک اعمال اور مفید اَشیاء کا حکم دیتا ہے وہاں مضر افعال اور مضر اشیاء کو ممنوع قرار دے کر روح اور جسم دونوں کی

 صحت کا خیال رکھتا ہے۔ اگر صحت روح کے لئے نماز کا حکم دیا گیا ہے تو مضرِ صحت شراب سے بار بار منع فرمایا ہے۔ چناچہ سورہ

 مائدہ آیت نمبر۹۰،۹۱،اور سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۱۹، میں ارشاد ہوتا ہے’اے ایمان والوشراب، قمار اور مجسمہ وغیرہ شیطانی کاموں

 میں سے ہیں۔پس ان سے دور رہو۔ شاید نجات پالو۔ بیشک شیطان چاہتا ہے کہ شراب و قمار کے ذریعہ تم میں باہمی دشمنی

 کردے اور تم کو یادِ خدا اور نماز سے باز رکھے۔ کیا تم ایسے مرد ہو کہ ہَواوہَوس سے منہ موڑ کر پرہیز گار بن جاوٴ‘ سورہ بقر، آیت

 نمبر۲۱۶ میں ارشاد ہوتا ہے ٍ’یہ لوگ ’شراب و قمار ‘ کے بارے سوال کرتے ہیں تو کہ دو کہ دونوں میں بڑا نقصان اور فائدہ ہے مگر

 فائدہ سے کہیں زیادہ نقصان ہی‘ اَقِییْمُواالصَّلوٰةَ کے ساتھ لَا تَقْرَبُو االصَّلوٰةَ وَاَنْتُم سُکاَرَا۔

 بھی ہے.آج مدہوشان و مئے نوشانِ مغرب بھی چلا رہے ہیں کہ شراب کے وقتی اور تھوڑے سے فائدہ میں سینکڑوں رُوحانی اور

 جسمانی قابلِ نفرت مُہلک اَمراض پوشیدہ ہیں۔ یہ جہاں تھوڑی دیر کو خواب آور گولی کی طرح یاعمل جراحی میں جسم کو بے حِ

س کرکے سکون بخش نظر آتی ہے اور عقل و خِرد ، ہوش و حَواس کو زائل کر کے اِنسان کو حیوان بنا دیتی ہے، وہاں بے شمار اَمراض

 کا غمناک پیغام مَیخور کیواسطے اپنے ساتھ لاتی ہے۔ ضُعفِ باہ، ضُعفِ اعضاء، سِل، اَمراضِ سوداوی اور دِق وغیرہ کاواحد سبب یہی

 بادہء بدبخت ہے۔ یہی عقل وخِرد پر پردہ ڈالکر بیگانوں کو یگانہ اور اپنا ہمراز دِکھلا کر راز سر بستہ کو ظاہر کر دیتی ہے اور یگانوں کو بیگانہ

 دِکھلا کر باپ سے بیٹے کو کبھی قتل کرا دیتی ہے۔ بلکہ شرابی کے مضر اثرات نسلاً بعد نسلً اولاد کو وارثتاً پہونچتے ہیں۔ وسائل الشیع

 (جلد دوم) میں صادق اٰلِ محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی لڑکی شراب خور کو دی اُسنے قطعِ رحم

 کیا‘۔۔۔شاید مراد یہ ہے کہ اُس نے دُختر کی نسل ہی کو منقطع کر دیا۔ حلیةُ المتقین میں ہے کہ اپنی اولاد کے لئے شراب پینے والی

 اور سور کا گوشت کھانے والی دایہ مت مقرر کرو کہ اُسکا دودھ اُس بچہ میں یہی اَثر انداز ہو گا۔

 

اتوار، 18 ستمبر، 2022

آ سما ن علم کا در خشا ں ستا ر ہ “ابو علی الحسن بن الہیثم”

 

دنیا ۓ اسلا م  نے ا پنے دو ر عرو ج میں علم و حکمت  اورسائنس کے بڑے بڑے نا مو رستا رے پیدا کئے۔ ان  میں جابر بن

 حیان، کیمیا کا موجد ابن الہیشم، طبیعات کا موجد ابوتا ر الفیض، بصریات کا موجد عمر الخیام، الجبرا کا موجد اور دیگر بے شمار

 سائنسدان  ہیں

ان کا نام “ابو علی الحسن بن الہیثم” ہے، ابن الہیثم کے نام سے مشہور ہیں۔ ابن الہیشم (پیدائش: 965ء، وفات:

 1039ء) عراق کے تاریخی شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ وہ طبعیات، ریاضی، ہندسیات (انجنئرنگ) ،فلکیات اور علم

 الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔ ان کی وجہ شہرت آنکھوں اور روشنی کے متعلق تحقیقات ہيں۔میڈرڈ یونیورسٹی میں

 ریاضی کے پروفیسر ریکارڈو مورینو بتاتے ہیں کہ وہ ایک عظیم ریاضی دان تھے۔ ’وہ ان پہلے عربی ریاضی دانوں میں سے

 تھے جنھوں نے بڑے سوالوں کو حل کرنا سکھایا۔ انھوں نے ہندسوں کی مدد سے ایک تہائی سوالوں کے جواب دیے۔ یہ

 وہ سوال تھے جو ارشمیدس نے 1200 سے زیادہ سال قبل پوچھے تھے۔

الہیثم نے نمبر تھیوری کے شعبے میں کامل عدد جبکہ ہندسوں پر کافی اہم کام کیا۔ اور انھوں نے اقلیدس کے تھیورم کے

 مخصوص سوالوں پر تحقیق کی۔

ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں غالباً 354 ہجری اور وفات 430 ہجری کو ہوئی، وہ مصر چلے گئے تھے اور اپنی

 وفات تک وہیں رہے، بچپن ہی سے وہ غور و فکر کے عادی تھے۔ پڑھائی لکھائی میں خوب دلچسپی لیتے تھے۔ ریاضی

، طبیعیات، طب، اِلٰہیّات، منطق، شاعری، موسیقی اور علم الکلام اُن کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ ابن الہیثم نے ان

 مضامین میں محنت کر کے مہارت حاصل کی۔

996ء میں وہ فاطمی خلافت مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف

 بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی قفطی کی “اخبار الحکماء” میں ابن الہیثم کی زبانی یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں

 :اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور کم ہونے کی تمام صورتوں میں فائدہ ہی ہوتا”

ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے سال کے بارہ مہینے دستیاب کر سکتے تھے، ان کا یہ قول مصر

 کے حاکم الحاکم بامر اللہ الفاطمی کو پہنچا تو انہوں خفیہ طور پر کچھ مال بھیج کر انہیں مصر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول 

کرلی اور مصر کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں الحاکم بامر اللہ نے انہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا، ابن

الہیثم نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے جہاں اس وقت “السد العالی” (السد العالی

 ڈیم) قائم ہے اور اس کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے زمانے کے امکانات کے حساب سے یہ کام نا

 ممکن ہے اور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کر دیا جسے وہ پورا نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ الحاکم بامر اللہ کے پاس

 جاکر معذرت کر لی اور اپنے گھر سے نکل کر جامعہ ازہر کے پاس ایک کمرے میں رہائش اختیار کر لی اور اپنی باقی زندگی کو

 تحقیق وتصنیف کے لیے وقف کر دیا۔ ناکافی وسائل کی وجہ سے جس منصوبے کو اسے ترک کرنا پڑا۔ اب اسی جگہ مصر کا

 سب سے بڑا ڈیم یعنی اسوان ڈیم قائم ہے۔

کارہائے نمایاں

ابن ابی اصیبعہ “عیون الانباء في طبقات الاطباء” میں کہتے ہیں : “ابن الہیثم فاضل النفس، عاقِل اور علوم کے فن کار

 تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنس دان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا، وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے

 تھے، وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے ”۔

نظریات

ابن الہیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ انھوں نے افلاطون اور کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی نکل کر اشیا پر پڑتی ہے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ریاضی کا سہارا لیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔

مسلمانوں نے علم کی ہر شاخ اور ہر فن میں نئی تحقیقات کا آغاز کیا ان کے کارنامے رہتی دنیا تک قائم رہیں گے اور ان کے مقابلے میں مغرب کے معاصر سائنسدان کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جدید سائنس کی بنیاد ہی مسلمان سائنس دانوں نے رکھی آج پھر سے ہمیں اسی دور کی طرح تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہے تاکہ علم اور سائنس کے میدان میں ہم اپنا کھویا ہوا مقام پھر حاصل کر سکیں۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر