انہوں نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈسٹری چل رہی لیکن ہمارے مسائل بڑھ رہے اور اس کی بنیادی وجہ پیداواری لاگت میں اضافہ ہے۔ ہمیں بجلی کا یونٹ 42 روپے کا مل رہا ہے جبکہ ہم آریل این جی استعمال کررہے جس کے نرخ ساڑھے 7 ڈالر سے 14 ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ دوسری طرف بجلی اور گیس کے نرخ 30 سے 40 فیصد تک بڑھنے سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی کے مطابق شرحِ سود ساڑھے 19 فیصد ہے لیکن اسے سنگل ڈیجٹ میں ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ایف بی آر کے ساتھ ہمارے ریفنڈ کے مسائل بھی موجود ہیں۔طارق طیب کہتے ہیں کہ اس سے یقینی طور پرجہاں پاکستان کی برآمدات متاثر ہورہی ہیں وہی پر ڈیڑھ سے 2 لاکھ کے قریب مزدور طبقہ بھی بیروزگار ہوا ہے اور حکومت کو اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین رضوان اشرف کہتے ہیں کہ انرجی اور خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے کو مسائل کا سامنا ہے اور گزشتہ سال جب درآمدت پر بڑے پیمانے پر پابندی لگائی گئی تو اس سے زرِمبادلہ میں کمی آئی جس کے باعث بینکوں کی جانب سے ایل سی نہیں کھولی جارہی تھیں جس کے سبب ہمیں باہر سے خام مال منگوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں استعمال ہونے والے بہت سے کیمیکل باہر سے منگوانے پڑتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ کپاس کی پیدوار میں بھی کچھ کمی واقع ہوئی۔ اس سیکٹر کو بہتر کیا جاسکتا ہے
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سیکٹر کو 9 سینٹ کا ٹیرف بحال کیا جائے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے ٹیکسز بھی لگائے ہیں جن کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں اس سیکٹر کو بہت قریب سے دیکھنا ہوگا کیونکہ اس سیکٹر کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جو اب ختم ہوتا جارہا ہے۔پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے میں بحران کی وجوہات2006 کے بعد جب پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو بین الاقوامی برانڈز اور ان کے نمائندوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستان کے دورے ملتوی کرنا شروع کردیے۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف شہریوں کے محفوظ کام کی جگہوں تک رسائی کو متاثر کیا بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوئے۔
گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلابوں نے پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں کپاس کے کھیتوں کو تباہ کردیا ہے، جس کے نتیجے میں خام مال کی قلت پیدا ہوئی۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی ملبوسات اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں سپلائی چین میں خلل پیدا ہوا اور کپاس کی کمی کو مناسب طریقے سے پورا نہ کیا جاسکا اور اب ٹیکسٹائل کے لیے بیرون ملک سے کپاس درآمد کی جاتی ہے۔اسی طرح آئے روز کے سیاسی عدم استحکام اور اس سے افراط زر میں ہونے والے اضافے کے سبب پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے اس صنعت کا منافع کم ہوجاتا ہے اور ٹیکسٹائل ملوں کو بند کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں ایک مستحکم حکومت کا قیام اور پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کا یہ اہم شعبہ تنزلی کی بجائے ترقی کرتارہے
پاکستان جلد ہی نہ صرف کپاس بلکہ خوردنی تیل بھی درآمد کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے، جس سے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ MNFSR کی سفارشات میں فوری طور پر زور دیا گیا ہے، گھریلو پروڈیوسرز کے لیے فوری طور پر ٹیکس ریلیف یا درآمدات پر ایک ہی ٹیکس کے نفاذ کی سفارش کی گئی ہے تاکہ ایک برابری کی سطح کو بحال کیا جا سکے۔ اب تمام نظریں وفاقی حکومت پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ پاکستان کی کاٹن اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا
جواب دیںحذف کریں