شادی کے بعد ہم نے چالیس روپئے ماہانہ کرائے پر اپنی ضروریات کے مطابق لالو کھیت چار نمبر بس اسٹاپ کے نزدیک ایک مکان لے کر زندگی کی ابتداء کی ,مکان کی مکانیت یہ تھی ایک بیڈ روم ایک بیڈروم کے ہی اتنا برامدہ اور اتنا ہی بڑا آنگن ایک چھوٹا سا کچن غسل خانہ اورعلیٰحدہ سے ٹوائلٹ -یہی اس زمانے کا رواج تھا اس مکان کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ ہماری مالک مکان ہمارے ہی ساتھ والے گھر میں رہتی تھی جو بہت با اخلاق خاتون تھیں اور میرا بہت خیال رکھتی تھیں ان دنوں میرا اسکول چل رہا تھا اس لئے میں اکثر چھٹی کے بعد اپنے میکے چلی جایا کرتی کبھی اپنے ہی گھر آجاتی تھی ,,اس وقت اپنی شادی شدہ زندگی کی زمّہ داریوں کو نباہنے کے ساتھ ساتھ میری توجّہ کا مرکز میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائ ہو ا کرتے تھے اور میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میں کسی بھی صورت وقت نکال کر اپنی پیاری ماں کی کوئ تو خدمت کر کے گھر واپس آجاؤن ،
میں نے دیکھا کہ اللہ پاک شکر خورے کو شکر ضرور دیتا ہئے چنانچہ اس مالک کے کرم سےمیری شادی کے بعد ہی انیّس سو پینسٹھ میں ہی والد صاحب نے بینکنگ کا ایک امتحان پاس کیا اور ابا جان کی ترقی ہوئ اس ترقی سے ابا جان کو بنک کی جانب سے بنگلے کی رہائش کی آ فر ہوئ اور میرے والدین لالوکھیت کے مکان سے اٹھ کرفیڈرل بی ایریا کے علاقے میں دو سو چالیس گز کے بنگلے میں دستگیر نمبر نو میں آگئے،والدہ جیسے ہی فیڈرل بی ایریا شفٹ ہوئیں انہوں نے مجھے بھی اپنے برابر کے مکان بلاکر رکھ لیا فیڈرل بی ایریا ان دنوں نیا نیا آباد ہونا شروع ہواتھاہمارے گھر سے بلکل قریب اونچے اونچے درختوں کی باڑھ تھی اور اس باڑھ کے اندر تازہ سبزیوں کے کھیت ہوا کرتے تھے -ان کھیتوں کی آبیاری کے لئے صبح منہ اندھیرے رہٹ چلا کرتی تھی -وہ سبزیاں سبزی والے کھیتوں سے لے کر اپنے اپنے ٹھیلوں پر لے کر گلی کوچوں میں بیچا کرتے تھے آ م کا موسم قریب آنے پر کوئل کی کوک وہ بھی صبح صادق میں بہت ہی پیاری سنائ دیتی تھی
اور یہاں کے مکانات بھی ہرے بھرے درختوں کے درمیان اور لہلہاتے کھیتوں کے قریب ترتیب میں بھی اچھّے لگتے تھے اور رہائش کے لئے بھی کشادہ تھے یہ نئ بستی لالوکھیت کے مقابلے میں اسوقت کی ڈیفنس سوسائٹی دکھائ دیتی تھی چنانچہ والد صاحب جو جہد مسلسل سے وابستہ رہتے ہوئے ترقّی کی جانب گامزن تھے ہما را یہ گھر کرائے کا تھا لیکن والد صاحب نے جلد ہی پھر بنکینگ کا امتحان پاس کیا اس کامیابی نے محض پانچ برس کی قلیل مدت میں ان کو دوسو چالیس گز کے بنگلے سے اٹھا کر نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی بابلعلم کی بیک پر پانچ سو گز کے اپنے زاتی بنگلے میں بٹھا دیا میری والدہ ایف بی ایریا میں پانچ سال رہیں اور میں انکے ہمراہ دوسرے گھر مین رہتی رہی اس طر ح پورے پانچ سال گزر گئے ،لیکن پانچ سالوں بعدجب مجھے محسوس ہوا کہ اب میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں تب میں نے قلم کا سفر شروع کیا میرے قلمی سفر کی ابتداء جنگ اخبار میں معاشرتی موضوعات سےہو ئ لیکن جلد ہی افسانہ نگاری شر وع کی
افسانہ نگاری کا سفر طویل رہا ،پاکیزہ ،دوشیزہ جنگ ڈائجسٹ ،حنا ،آنچل اخبار جہاں سچّی کہانیا ں آئیڈئیل اور بھئ کئ جن کے نام بھی زہن میں نہیں ہیں ان میں لکھتی رہی ،میرا خیال ہئے کہ آج کے دور میں ناول کے مقابلے میں افسانہ زیادہ پڑھا جانے والا ادب ہئے لیکن ناول پڑھنے والے بھی کم نہیں ہیں ،شائد افسانہ نگاری کی جانب میری زیادہ توجّہ کا سبب بھی یہی ہو کہ افسانہ لکھنا مجھے ناول کی نسبت ہمیشہ آسان لگا در اصل میرے خیال میں ناول ایک بڑی اور کشادہ زہنی کی تخلیق ہوتا ہے ،اور میں اپنی گونا گوں زمّے داریوں کے سبب بڑی سوچ پر آنا نہیں چاہتی ہوں یہاں کینیڈا میں میری اون لائن ناول میں سہاگن بنی !مگر، عالمی اخبار کی زینت بنی ، یہ ناول در حقیقت میں نے پاکستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئ شرح'' طلاق''' جیسے ناروا و ناپسندیدہ امر پر لکھی اس کے لکھنے کا مقصد نوجوان نسل کو پیغام دینا تھا کہ شادی ہوجانے کے بعد ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور کمزوریو ں کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر کی بنیاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں
،اسی طرح میری کوشش یہی ہوتی ہئے کہ میں اپنی افسانوی تحریروں کے زریعے اپنے سماج کو کوئ ایسا مثبت پیغام دے سکوں جو پڑھنے والے کی رہ نمائ کا باعث ہو افسانہ نگاری کا لم نویسی آج بھی جاری ہئے افسانہ نگاری نا ول نویسی معاشرتی مضامین کچھ روحانیت کے کام پر بھی توجّہ ہئےاس کے علاوہ ایک دستر خوان بھی شمع کا دستر خوان کے نام سے بازار میں آیا ،میرے ایک افسانو ی مجموعے رنگ شفق کی یہاں کینیڈاایڈمنٹن میں ہی ملٹی کلچرل کونسل کی روح رواں محترمہ صوفیہ یعقو ب صاحبہ نے رونمائ کروائ اور ٹورانٹو سے کہنہ مشق ادیب و شاعرجناب تسلیم الٰہی زلفی نے میرے اس مجموعے پر تبصرہ لکھا یہ مجھ جیسی کم علم رکھنے والی طالبہ کے لئے ایک یقینی اعزاز کی بات ہے بات یہ ہئے کہ انسان سماج میں رہتے ہوئے کبھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ہئے اس کو ہر حال میں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہئے رہبری بھی چاہئے ہوتی ہئے ،یہ میری خوش قسمتی ہئے کہ مجھے تمام عمر ،اچھّے راہبر ،اور اچھّے استاد میسّر آئے جنہوں نے فراخ دلی سےمیری بھرپور رہ نمائ کی اور ادب کی دنیا میں مجھے قدم جمانے کے موقع فراہم کئے