ویسے تو قیام پاکستان سے قبل ہی اردو زبان و ادب کا پودا گلگت بلتستان میں نمو پا چکا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد بلتی شعراء کرام کی ادب پروری ہوتے'ہوتے پہلی بار موضع سکردو میں پہلی ادبی انجمن "شائقین ادب” کے نام سے ایک تناور درخت کی شاخت سے وجود میں آگیا۔۱۹۸۰ء کے دہائی تک آتےآتے شاعروں کی ایک بڑی کھیپ ایسی تیارہوگئی جن کے ہاں اردومقامی زبان کی نسبت زیادہ استعداد کے ساتھ ذریعہ اظہارقرارپائی۔ اس دورمیں جن شاعروں کو مقامی سطح پرشہرت حاصل ہوئی یاجن کا کلام ادبی رسائل وجرائد کے توسط سے پڑھااور سراہاگیاان کی فہرست طویل ہے حفظ مراتب اور شاعری کے زمانہ آغازسےقطع نظردرجہ ذیل شعراء کے نام اس دور کی اردو شاعری کے حوالے سےقابل ذکرہیں۔ ، بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سےملیے بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سےبلتستان کے سینیئر شاعر علی احمد قمر، جو چار زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور حکومتِ پاکستان سے ایوارڈ بھی وصول کیےعلی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے
لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے کہرا جسم مگر کسی حد تک خمیدہ، سر پر بالوں کی سفیدی زیادہ نمایاں اور چہرے پر داڑھی۔ علی احمد قمر سے مل کر نہیں لگا کہ وہ ادھیڑ عمری سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔گفتگو کی تو کھلا کہ آواز میں بڑا طنطنہ اور جوش ہے حالانکہ اکثر لوگ اس عمر میں کھردری آواز کے مالک بن جاتے ہیں مگر علی احمد قمر کی آواز صاف اور اس میں کسی نوجوان کی سی تازگی اور فرحت موجود تھی۔خنک دار آواز میں انہوں نے جب اشعار سنائے تو یوں لگا کہ جیسے کوئی نوجوان شاعر بڑے چاؤ سے اپنی قلبی واردات کو الفاظ کے مخملی لباس میں ملفوف پیش کر رہا ہے۔علی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے۔ کہاں پاکستان کا آخری کونا سلترو گوما اور کہاں مسوری انڈیا لیکن اس تعلق کا پس منظر بھی بڑا دلچسپ ہے۔انڈیا پاکستان کے بٹوارہ سے پہلے بلتستان کے لوگ اپنا رزق کمانے کے لیے، شملہ، نینی تال، میسوری، ڈلہوزی، کلو اور کرگل لداخ کا رخ کرتے تھے۔
کیونکہ وہاں کا موسم معتدل تھا لہٰذا میدانی علاقوں کی نسبت ان جگہوں پر رہنا قابل برداشت تھا۔ ان متذکرہ جگہوں تک جانے کے لیے بڑا طویل پیدل راستہ اختیار کیا جاتا تھا۔ سکردو یا خپلو سے کرگل پھر لداخ وہاں سے پھر آگے ان جگہوں کی طرف جانا پڑتا تھا۔علی احمد قمر کے والد بھی 1947 سے کافی پہلے میسوری گئے اور وہیں پر اپنے قدم جما کر زندگی کے شب و روز گزارنے لگے۔ ان کے کئی اور رشتہ دار اور علاقے کے لوگ بھی وہاں اپنے قدم جمائے ہوئے تھے ۔ وہیں پر علی احمد قمر کی ولادت ہوئ ۔علی احمد قمر کا گھرانہ بھی ہجرت کر کے پہلے پہل لاہور پہنچا اور پھر وہاں سے مری جا کر بس گیا جہاں ان کی تعلیم و تربیت مکمل ہوئی۔ہم نے جب ان سے اُردو شاعری کی طرف راغب ہونے اور شعر کہنے کے شوق کا پوچھا تو ان کہنا تھا کہ بطور علی احمد قمر ان کا نام آٹھویں جماعت میں درج ہوا اور اس نام کے پیچھے بھی ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے۔انہوں نے بتایا کہ والد نے ان کا نام علی محاما رکھا تھا اور یہ بلتستان میں عام مروج نام تھا جو یقیناً علی محمد کا مقامی بگڑا تلفظ ہے۔
سکول میں اسے کچھ اور بگاڑ کر علی ماما لکھا گیا تھا جو آٹھویں جماعت تک جوں کا توں رہا۔تاہم ہیڈ ماسٹر نے آٹھویں کلاس میں نام کی تبدیلی کے لیے خود ان سے دریافت کیا کہ کیا لکھا جائے یوں انہوں نے خود کو علی احمد قمر لکھوایا۔انہوں نے بتایا کہ انہیں شعرو سخن سے دلچسپی سکول دور سے شروع ہوئی تھی۔ علی احمد قمر کی شعری تخلیقات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذہنی میلان غزل کی طرف زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ تر شعری مجموعے جو شائع ہو چکے ہیں وہ غزلوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں پہلا مجموعہ ’زخم گل‘ 1976 میں شائع ہوا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ غالباً بلتستان کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں جن کا اردو میں پہلے پہل کلام منظر عام پر آیا۔