جمعرات، 16 اکتوبر، 2025

بلتی شاعر علی احمد قمر، جو چار زبانوں میں شاعری کرتے ہیں

   ویسے تو  قیام پاکستان سے قبل ہی اردو زبان و ادب کا  پودا  گلگت بلتستان میں  نمو پا چکا تھا لیکن  قیام پاکستان کے بعد بلتی    شعراء کرام  کی  ادب پروری ہوتے'ہوتے  پہلی بار موضع سکردو میں پہلی ادبی انجمن "شائقین ادب” کے نام سے ایک تناور درخت کی شاخت سے  وجود میں آگیا۔۱۹۸۰ء     کے دہائی تک آتےآتے شاعروں کی ایک بڑی کھیپ ایسی تیارہوگئی جن کے ہاں اردومقامی زبان کی نسبت زیادہ استعداد کے ساتھ ذریعہ اظہارقرارپائی۔ اس دورمیں جن شاعروں کو مقامی سطح پرشہرت حاصل ہوئی یاجن کا کلام ادبی رسائل وجرائد کے توسط سے پڑھااور سراہاگیاان کی فہرست طویل ہے حفظ مراتب اور شاعری کے زمانہ آغازسےقطع نظردرجہ ذیل شعراء کے نام اس دور کی اردو شاعری کے حوالے سےقابل ذکرہیں۔   ،  بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سےملیے بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سےبلتستان کے سینیئر شاعر علی احمد قمر، جو چار زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور حکومتِ پاکستان سے ایوارڈ بھی وصول کیےعلی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے



 لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے کہرا جسم مگر کسی حد تک خمیدہ، سر پر بالوں کی سفیدی زیادہ نمایاں اور چہرے پر داڑھی۔ علی احمد قمر سے مل کر نہیں لگا کہ وہ ادھیڑ عمری سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔گفتگو کی تو کھلا کہ آواز میں بڑا طنطنہ اور جوش ہے حالانکہ اکثر لوگ اس عمر میں کھردری آواز کے مالک بن جاتے ہیں مگر علی احمد قمر کی آواز صاف اور اس میں کسی نوجوان کی سی تازگی اور فرحت موجود تھی۔خنک دار آواز میں انہوں نے جب اشعار سنائے تو یوں لگا کہ جیسے کوئی نوجوان شاعر بڑے چاؤ سے اپنی قلبی واردات کو الفاظ کے مخملی لباس میں ملفوف پیش کر رہا ہے۔علی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے۔ کہاں پاکستان کا آخری کونا سلترو گوما اور کہاں مسوری انڈیا لیکن اس تعلق کا پس منظر بھی بڑا دلچسپ ہے۔انڈیا پاکستان کے بٹوارہ سے پہلے بلتستان کے لوگ  اپنا رزق  کمانے کے لیے، شملہ، نینی تال، میسوری، ڈلہوزی، کلو اور کرگل لداخ کا رخ کرتے تھے۔


کیونکہ وہاں کا موسم معتدل تھا لہٰذا میدانی علاقوں کی نسبت ان جگہوں پر رہنا قابل برداشت تھا۔ ان متذکرہ جگہوں تک جانے کے لیے بڑا طویل پیدل راستہ اختیار کیا جاتا تھا۔ سکردو یا خپلو سے کرگل پھر لداخ وہاں سے پھر آگے ان جگہوں کی طرف جانا پڑتا تھا۔علی احمد قمر کے والد بھی 1947 سے کافی پہلے میسوری گئے اور وہیں  پر اپنے قدم جما  کر زندگی کے  شب و روز گزارنے لگے۔ ان کے کئی اور رشتہ دار اور علاقے کے لوگ بھی وہاں  اپنے قدم جمائے ہوئے تھے ۔ وہیں پر علی احمد قمر کی ولادت ہوئ ۔علی احمد قمر کا گھرانہ بھی ہجرت کر کے پہلے پہل لاہور پہنچا اور پھر وہاں سے مری جا کر بس گیا جہاں ان کی تعلیم و تربیت مکمل ہوئی۔ہم نے جب ان سے اُردو شاعری کی طرف راغب ہونے اور شعر کہنے کے شوق کا پوچھا تو ان کہنا تھا کہ بطور علی احمد قمر ان کا نام آٹھویں جماعت میں درج ہوا اور اس نام کے پیچھے بھی ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے۔انہوں نے بتایا کہ والد نے ان کا نام علی محاما رکھا تھا اور یہ بلتستان میں عام مروج نام تھا جو یقیناً علی محمد کا مقامی بگڑا تلفظ ہے۔


سکول میں اسے کچھ اور بگاڑ کر علی ماما لکھا گیا تھا جو آٹھویں جماعت تک جوں کا توں رہا۔تاہم ہیڈ ماسٹر نے آٹھویں کلاس میں نام کی تبدیلی کے لیے خود ان سے دریافت کیا کہ کیا لکھا جائے یوں انہوں نے خود کو علی احمد قمر لکھوایا۔انہوں نے بتایا کہ انہیں شعرو سخن سے دلچسپی سکول دور سے شروع ہوئی تھی۔ علی احمد قمر کی شعری تخلیقات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذہنی میلان غزل کی طرف زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ تر شعری مجموعے جو شائع ہو چکے ہیں وہ غزلوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں پہلا مجموعہ ’زخم گل‘ 1976 میں شائع ہوا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ غالباً بلتستان کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں جن کا اردو میں پہلے پہل کلام منظر عام پر آیا۔

بدھ، 15 اکتوبر، 2025

کراچی کے جزائر'ماہی گیروں کی جنت ہیں پارٹ2

 

علی حسن کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے یہ آرڈیننس جاری کر کے ان جزیروں پر ماہی گیروں کے حقِ ملکیت کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ جزیرے اور ان سے ملحقہ تمر (mangrove) کے جنگلات قانونی طور پر ہماری ملکیت ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کے کاغذات ہمارے پاس موجود ہیں'۔خطرات اور خدشات-محمد علی شاہ پچھلی کئی سالوں سے ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، کراچی کے جنوب مغرب میں واقع جزائر، جن میں بھنڈار اور ڈنگی بھی شامل ہیں، آٹھ لاکھ کے قریب ماہی گیروں کے لیے روزگار اور رہائش کا ذریعہ ہیں۔ 'اگر یہاں شہر تعمیر کر دیے جاتے ہیں تو بہت بڑی تعداد میں ماہی گیروں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے'۔محمد علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار ہزار کے قریب مزید ماہی گیر جو کراچی اور ٹھٹھہ سے منسلک ساحل پر رہتے ہیں مختلف ندیوں کے ذریعے کھلے پانیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو انہی جزیروں کے پاس سے گذرتی ہیں اور جن میں سب سے بڑی ملیر ندی ہے۔ 'لیکن صدارتی آرڈیننس کے تحت جب بھنڈار اور ڈنگی کو شہر کے باقی حصوں سے ملا دیا جائے گا تو ماہی گیروں کی یہ رسائی ختم ہو جائے گی جس کے باعث ان کا روزگار شدید طور پر متاثر ہو گا'۔

 

ماہرہ عمر کو ماہی گیروں کے معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ آبی اور جنگلی حیات کو لاحق ہونے والے سنگین خطرات کی بھی فکر ہے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر دستاویزی فلمیں بناتی ہیں اور انہوں نے کراچی اور اس کے ارد گرد موجود تمر کے جنگلات پر کئی سال تحقیق بھی کی ہے- ان کا کہنا ہے کہ بھنڈار، ڈنگی اور اس طرح کے دوسرے جزائر 'کے ایک ایک انچ پر قسم قسم کی سمندری مخلوق پائی جاتی ہے جو یہاں موجود قدرتی ماحول میں افزائش پاتی ہے'۔ اس لئے وہ سمجھتی ہیں کہ 'ان جزائر پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز یہاں موجود آبی اور قدرتی حیات کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو گا'۔بھنڈار اور ڈنگی کے بارے میں ماہرہ عمر کا خاص طور پر کہنا ہے کہ ان جزائر پر پختہ زمین نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کا بیشتر حصہ کیچڑ اور گیلی مٹی پر مشتمل ہے کیونکہ یہ دریاؤں کی لائی ہوئی سِلٹ کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ 'یہ کیچڑ اور دلدلی زمین گھونگوں اور کیچڑ میں پیدا ہونے والی مچھلیوں کی قدرتی نشوونما کے لیے لازم ہیں۔ شہری بستیوں کی تعمیر سے اس تمام آبی حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا'۔

 


ماحولیاتی امور کے ایک اور ماہر نصیر میمن کا خیال ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی پر رہائشی اور تجارتی عمارات کی تعمیر پورے کراچی کے لئے ایک ماحولیاتی خطرہ بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی ان جزائر پر لاکھوں ایکڑ پر تمر کے جنگلات پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کا رقبہ سکڑ کر ستر ہزار ایکڑ تک رہ گیا ہے۔ 'اگر یہاں سے مزید جنگلات ختم کیے گئے تو مستقبل میں کراچی کو خطرناک سونامیوں کا سامنا ہو سکتا ہے'۔کراچی کے مشہور سماجی محقق اور ماہرِ تعمیرات عارف حسن بھی معاشی اور ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر اِن جزیروں پر شہری آبادیاں بسانے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے تحت یہاں تعمیرات کی اجازت دینا دراصل رامسار کنوینشن (Ramsar Convention) کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں۔یہ بین الاقوامی کنوینشن 1971 میں ایران کے شہر رامسار میں منظور کیا گیا اس کا مقصد دنیا کے مختلف حصوں میں موجود نم زمینوں (wetlands) کو جنگلی اور آبی حیات کی پناہ گاہوں کے طور محفوظ کرنا ہے۔ جب پاکستان نے 23 نومبر 1976 کو اس کنوینشن کی توثیق کی تو 19 مقامی جگہوں کو اس کے تحت تحفظ مل گیا۔

 

 ان جگہوں میں وہ تمام جزائر، ساحلی علاقے اور جھیلیں شامل ہیں جو دریائے سندھ اور دوسری ندیوں کے سمندر میں گرنے کی وجہ سے قدرتی طور پر وجود میں آئی ہیں۔ ان wetlands کا کل رقبہ 1،343،807 ہیکٹر ہے۔/عارف حسن کے مطابق ان جزائر پر شہری آبادی بنانا ایک طرف تو کراچی کے ماحولیاتی بگاڑ کو اور شدید کردے گا اور دوسری طرف یہ اقدام یہاں موجود پرندوں، کیکڑوں اور نایاب ہرے کھچووں کی قدرتی افزائش کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ وہ کہتے ہیں: 'بھنڈار اور ڈنگی کے سبز جزائر کراچی کے گرد و نواح میں بچ جانے والے وہ واحد علاقے ہیں جہاں ابھی تک کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے شہر میں ماحولیاتی استحکام قائم رکھنے میں ان جزائر کا ایک اہم کردار ہے۔ ان پر پختہ تعمیرات کرنا کراچی کو مستقبل میں سنگین قدرتی آفات کے منہ میں دھکیل دے گا'۔ ۔محمد علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی کے جزائر پر صدارتی آرڈیننس کے تحت شہر بنانے کی اجازت دینا آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کی ضمانت کی خلاف ورزی ہے اور مضبوط مرکزی حکومت کی حامی قوتوں کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاقی کنٹرول کے تحت لانے کے وسیع عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔ان کے بقول اس طرح کی کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔

 

کراچی کے جزائر' ماہی گیروں کی جنت ہیں

 

کراچی کی سمندری حدود میں صرف نو ایسے جزائر ہیں جو آباد ہیں، ان میں شمس پیر، بابا، بھٹ چاگلو، قلعو، کنیری، واگورو اور بھنڈار شامل ہیں۔ شمس پیر جزیرے کی جیٹی کے قریب نیوی نے مینگرووز کاٹ کر نیول پوسٹ بنا لی ہے۔سندھی میں تحریر کی گئی کتاب کے مصنف کے مطابق صالح آباد جزیرہ تھا لیکن منوڑہ کو بذریعہ سڑک ملانے کے بعد یہ آبادی بن چکی ہے اس طرح منوڑہ بھی جزیرہ نہیں رہا یہ کنٹمونمنٹ ایریا ہے۔ یہاں دو قلعوں کے آثار موجود ہیں جو کراچی شہر اور بندرگاہ کی حفاظت کے لیے بنائے گئے تھے۔باتھ آئی لینڈ کو مصنف کے مطابق مقامی طور پر ’خرکھاری‘ کہا جاتا تھا۔ انگریز دور میں اس کی جزیرے والی حیثیت ختم کردی گئی تھی اور اسی طرح کلفٹن جسے ’ہوا بندر‘ کہا جاتا تھا وہاں بھی جزیرہ نہیں رہا۔کلفٹن کے بارے میں مصنف نے مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ سندھ کے فاتح چارلز نپیئر برطانیہ میں جہاں پیدا ہوئے اس علاقے کا نام کلفٹن تھا۔ اس وجہ سے ہوا بندر کا نام کلفٹن سے منسوب کیا گیا۔


 

   مشہور محقق گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ اس کے دوسری جلد میں وہ ٹھٹہ اور بدین کے جزائر کی تفصیلات بیان کریں گے۔گل حسن کلمتی ڈیفنس کے قریب گذری کے علاقے کو ’گسری بندر‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں کے پہاڑوں کا پتھر کراچی کی قدیم عمارتوں میں استعمال کیا گیا۔ بعد میں یہ علاقہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں آگیا اور میرین ڈرائیو کی وجہ سے ماہی گیروں پر مچھلی کا شکار کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔گل حسن کلمتی نے کراچی کے چھوٹے بڑے تمام ہی جزائر کا خود دورہ کیا ہے اور یہ کتاب تحریر کی ہے۔ تحقیق میں برطانوی دورِ حکومت کے افسران کی ڈائریوں اور سرکاری ریکارڈ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔مصنف کے مطابق جزائر پر پینے کے پانی، صحت اور صفائی، کھیل کے میدانوں کا فقدان دیکھا گیا۔ بابا اور بھٹ جزائر میں قبرستان نہیں ہیں اور وہاں کے لوگ تدفین کے لیے میتیں موروڑو قبرستان، شیر شاہ اور میوہ شاہ قبرستان لیاری لے کر جاتے ہیں۔کراچی میں ان دنوں چرنا جزیرہ سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ کی وجہ سے مقبول ہے۔ گل حسن کے مطابق یہ جزیرہ سندھ اور بلوچستان کی سمندری سرحد ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک پہاڑ ہے جس پر انسانی آبادی نہیں ہے۔

 

 حب ندی سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ جزیرہ 1.2 کلومیٹر لمبا اور نصف کلومیٹر چوڑا ہے۔ یہاں مچھلیوں کی مختلف اقسام سمیت سبز کچھوے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس جزیرے کو پاکستان نیوی فائرنگ رینج کے طور پر استعمال کرتی ہے۔مصنف کے مطابق چرنا کے قریب ماہی گیروں کے تین گاؤں موجود ہیں۔ نیوی نے انھیں وہاں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کے ان کے پاس برطانوی دور کے کاغذات موجود تھے۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن اب ان علاقوں میں کسی عام شخص کو جانے کی اجازت نہیں جب تک کوئی مقامی شخص ساتھ نہ ہو۔سینڈز پٹ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ مقامی لوگ اسے ’دوہو‘ کہتے تھے اب اس سے ملحقہ علاقے کو ہاکس بے کہا جاتا ہے۔ انگریز دور میں مسٹر ہاکس کی بیوی بیمار ہوگئیں اور موسم کی تبدیلی کے لیے وہ انھیں یہاں لے کر آئے جس کے بعد سے اس کا نام ہاکس بے پڑ گیا۔کراچی کے ساحلی جزیروں پر تعمیرات کا منصوبہ: ماہی گیروں اور قدرتی ماحول کے لیے سنگین خطرہ۔


 

دابلو قبیلے کے ماہی گیر سندھ کے زیریں ضلع ٹھٹھہ کے علاقے کیٹی بندر میں رہتے تھے لیکن کچھ دہائیاں پہلے سمندر کا کھارا پانی ان کی زمینوں اور بستیوں میں گھس کر انہیں نا قابلِ رہائش بنانے لگا تو انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کے بارے میں سوچنا پڑا۔ان میں سے ایک ماہی گیر علی حسن کے بقول نئی جگہ کے انتخاب کے دوران ان کے پیشِ نظر دو ہی باتیں تھیں، ایک یہ کہ وہ وہاں آسانی سے مچھلیاں پکڑ سکیں اور دوسری یہ کہ انہیں اپنا نیا گھر جلدی نہ چھوڑنا پڑے۔ اس لئے انہوں نے کراچی کے ساحل کے ساتھ واقع دو سمندری جزیروں – بھنڈار اور ڈنگی -- کا انتخاب کیا جو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے انتہائی مغربی حصے – فیز آٹھ – سے لگ بھگ ڈھائی کلومیٹر مغرب میں سمندر کے اندر واقع ہیں اور باقی شہر سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔علی حسن اور ان کا قبیلہ یہاں کئی برسوں سے رہ رہا ہے۔لیکن اب انہیں ایک بار پھر نقل مکانی کا سامنا ہے کیونکہ صدرِ پاکستان عارف علوی کی طرف سے یکم ستمبر 2020 کو ایک آرڈیننس نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کی سرحدوں کے اندر واقع تمام سمندری جزیروں پر رہائشی، تجارتی اور صنعتی منصوبوں کو فروغ دینے کے لئے پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک نیا وفاقی ادارہ بنایا جائے گا جس کے اولین منصوبوں میں بھنڈار اور ڈنگی – جنہیں سرکاری کاغذات میں بُنڈل اور بُڈو کہتے ہیں -- میں پرُ آسائش رہائشی سکیموں اور اونچی اونچی تجارتی عمارات کی تعمیر شامل ہے۔

 تحریر انٹرنیٹ سے لی گئ ہے

منگل، 14 اکتوبر، 2025

"وردزیا غار کمپلیکس" ایک جنگجو ملکہ کی عظیم الشان تعمیرpart '2

 

 اس کے باوجود، وردزیا کو قدرتی زوال اور انسانی اثرات کی وجہ سے تحفظ کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ تحفظ کی کوششیں ایک مشترکہ ترجیح بن گئی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آنے والی نسلیں اس جگہ کے   اس دور  کا تجربہ کر سکیں۔ زیارت اور تعلیم کی جگہ کے طور پر  وردزیا جارجیا کی پیچیدہ تاریخ اور ثقافتی شناخت کو سمجھنے میں ایک لازمی کردار ادا کرتا ہے۔ملکہ تمر کے تحت تعمیراتی آغاز، شاندار غار کمپلیکس، 12 ویں صدی میں ملکہ تمر کے دور میں جارجیا کے قلب سے نکلا تھا۔ اس کا آغاز حملہ آوروں کے خلاف ایک تزویراتی دفاع کے طور پر ہوا، جلد ہی ایک پھلتے پھولتے خانقاہی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ یہ شہر ملکہ تمر کے طاقت اور تقویٰ کے وژن کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ہزاروں راہب اور ان کے مقدس فن پارے موجود ہیں۔ وردزیا کے چٹان سے بنے فن تعمیر نے وقت اور فطرت کا مقابلہ کیا، جارجیائی تاریخ کو اپنی دیواروں میں محفوظ رکھا۔-خانقاہی زندگی اور فنی اظہاروردزیا میں زندگی عقیدت اور فنکاری کا امتزاج تھی، جو اس کے چرچ کی دیواروں کو سجانے والے فریسکوز میں گونجتی تھی۔


یہاں کے راہبوں نے عقیدے کے لیے سرشار زندگی بسر کی، جو ان کے پیچھے چھوڑے گئے مذہبی متون اور نقش نگاری میں واضح ہے۔ وردزیا کے فن پارے صرف مذہبی علامتیں نہیں ہیں۔ وہ کہانیاں بیان کرتے ہیں، خانقاہی برادری کے روحانی جوہر اور جارجیا کے کلیسیائی اور ثقافتی مناظر پر ملکہ تمر کے انمٹ اثر کو امر کرتے ہیں۔غار شہر ایک ذہین ترتیب پر فخر کرتا ہے، چیپلوں، لائبریریوں اور رہائشی کوارٹرز سے بھرا ہوا ہے، یہ سب قدرتی خطوں میں ذہانت سے مربوط ہیں۔ شہر کے پیچیدہ آبپاشی کے نظام نے اس کے باشندوں کو پانی فراہم کیا، جس میں انجینئرنگ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا۔ وردزیا کے ایک زمانے میں ہلچل مچانے والی راہداریوں کی باقیات اب بھی اس کے معماروں کی تخلیقی صلاحیتوں اور ذہانت سے گونجتی ہیں، جنہوں نے پتھریلی زمین کی تزئین کو ایک خود مختار دنیا میں تبدیل کر دیا۔فوجی اہمیت اور منگول خطرہ وردزیا کی عسکری تاریخ اس کے ثقافتی بیانیے کے ساتھ گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔ خانقاہ کے احاطے نے جارجیا کی سرحد کو منگول خطرے سے بچانے کے لیے ایک پوشیدہ قلعے کے طور پر کام کیا۔ 



اس کی سرنگوں اور تزویراتی محل وقوع نے ایک مضبوط دفاع کی سہولت فراہم کی، جو جارجیائی جنگی حکمت عملیوں کی آسانی میں معاون ہے۔ ایک وقت کے لیے، وردزیا ناقابل تسخیر دکھائی دے رہا تھا، اس کے وسیع دفاعی طریقہ کار نے ملک کے قلب میں گھسنے کی کوشش کرنے والے مختلف دشمنوں کو پسپا کر دیا۔صدیوں کے دوران، وردزیا نے متعدد خطرات کا سامنا کیا ہے، جن میں زلزلے اور حملے شامل ہیں جن کی وجہ سے جزوی تباہی ہوئی ہے۔ بہر حال، یہ سائٹ جارجیائی لچک کے نشان کے طور پر فخر کے ساتھ کھڑی ہے۔ آج کل، وردزیا ملک کی بھرپور تاریخ کا ایک ثبوت ہے، جو اسکالرز اور زائرین کو اس کی گہرائیوں کو تلاش کرنے اور اس کے غار کے تہوں میں چھپی داستانوں کی تہوں کو کھولنے کی دعوت دیتا ہے۔ایک پوشیدہ عجوبہ کا انکشافوردزیا کا جدید دنیا پر انکشاف کوئی واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک بتدریج دوبارہ تعارف تھا۔ صدیوں سے مقامی چرواہوں کو غار کے شہر کے بارے میں معلوم تھا جو ایروشیٹی پہاڑ میں کھدی ہوئی تھی۔

  ایک حیرت انگیز اور منفرد شہر   جس نے تاریخ، مذہب، ثقافت اور انجینئرنگ کو ایک منفرد اور شاندار شکل میں اکٹھا کیا ہے۔  جارجیا کے سنہرے دور کا ایک لازوال شاہکار، جو صدیوں بعد بھی کوہ اروشتی کی چٹانوں پر قابل ستائش طور پر کھڑا ہے۔واردزیا نے  تب عروج حاصل کیا  جب  جارجین معاشرہ  اپنی سیاسی، اقتصادی اور روحانی خوشحالی کے عروج پر تھا۔ اس کمپلیکس کی ابتدائی تعمیر بارہویں صدی کے دور حکومت میں شروع ہوئی اور یہ ان کی بیٹی ملکہ تمر کے دور میں ترقی اور عظمت کے عروج پر پہنچا۔   اور یہ جارجیا کی تاریخ میں دو بااثر شخصیات کے ناموں سے منسلک ہے، یعنی شاہ جیورگی سوم اور ان کی بیٹی ملکہ تمر۔اس کے بنانے کا مقصد پہاڑوں کے قلب میں ایک مستحکم اور اسٹریٹجک پناہ گاہ بنانا تھا۔بادشاہ کی موت کے ساتھ ہی اس منصوبے کا تسلسل ملکہ تمر کے سپرد کر دیا گیا۔ ایک عقلمند خاتون، سیاست دان اور مذہبی، جنہیں جارجیا کی تاریخ میں تاج پوش پہلی خاتون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کمپلیکس کا سب سے اہم حصہ چرچ آف دی اسمپشن آف میری ہے جو شہر کے وسط میں واقع ہے اور اسے شاندار دیواری پینٹنگز سے مزین کیا گیا ہے-  اس کمپلیکس کی سب سے اہم عمارتوں میں سے ایک چرچ آف سینٹ میری ہے۔ اس چرچ کی دیواروں پر مذہبی موضوعات کے ساتھ دیواریں، سنتوں کے چہرے، اور ملکہ تمر اور اس کے والد کنگ جارج III کے معروف پورٹریٹ کندہ ہیں۔اب یہ خوبصورت پہاڑی مناظر، صاف ہوا اور قدیم فطرت کا حامل یہ خطہ ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی میزبانی کرتا ہے۔
 

وردزیا غار کمپلیکس ایک جنگجو ملکہ کی عظیم الشان تعمیر

  و ردزیا  ایک جنگجو ملکہ کی کھوہ ہے'حقیقت میں  یہ ایک وسیع و عریض  سطحی کمپلیکس ہے  جوپہاڑ میں تراشی گئی ہے۔ 12ویں صدی میں تعمیر کیا گیا انجینئرنگ کے اس شاندار کارنامے کا مقصد منگول فوج کے خلاف ایک قلعہ بنانا تھا جو دندناتے ہوئے دنیا کو تاراج کر رہے تھے ۔ اس عظیم  پروجیکٹ  کی ملکہ تمر نے منظوری دی تھی، اس کا مقصد ہنگامی  ضرورت  کے وقت   شہر کے مقدس راہبوں کو ایک مستحکم پناہ گاہ فراہم کرنا تھا۔ یہاں کئی ہزار راہب رہ سکتے ہیں، ۔یہ جارجیا کی جنگجو ملکہ تھی جس نے 1100 کی دہائی کے اواخر میں قفقاز میں پھیلنے والی منگول فوجوں کے خلاف مزاحمت کے لیے یہ پناہ گاہ قائم کی تھی۔ملکہ تمر جارجیا کی پہلی خاتون بادشاہ تھیں، جنہوں نے 1184 سے 1213 تک حکمرانی کی۔ 1178 میں اپنے والد کنگ جارج دوم کے ذریعہ 'شریک بادشاہ' کا تاج پہنایا گیا، وہ 25 سال کی عمر میں خود تخت پر بیٹھی تھیں۔ شاید اس کی جنس اور کم عمری کی وجہ سے، اس کے دور حکومت میں ہم نے مردوں کی کوششوں کو دیکھا کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا اور وہ آج بھی اپنی طاقت اور ہمت کی وجہ سے قابل احترام ہیں۔ 



     دنیا  میں منگولوں کی آندھی آ چکی تھی  1185ءمیں  ملکہ تمر نے ایک قلعہ کی تعمیر کا حکم دیا جو ایک بار مکمل ہونے کے بعد زیر زمین 13 سطح تک بڑھا اور اس میں 6000 اپارٹمنٹس، ایک تخت کا کمرہ، ایک بڑا چرچ اور 25 شراب خانے شامل تھے۔ یہ پناہ گاہ منگولوں کو دور رکھنے میں کامیاب رہی لیکن  ملکہ  فطرت کی تباہ کاریوں کو برداشت کرنے میں ناکام رہی۔ صرف ایک سو سال بعد ایک تباہ کن زلزلے نے زیادہ تر کمپلیکس کو تباہ کر دیا، جس سے پہاڑی کے کنارے چھپی ہوئی تعمیر کا انکشاف ہوا (اور اس طرح اس کے پوشیدہ مقام کی وجہ سے حیرت کے عنصر کو ختم کر دیا گیا)۔ یہ ایک خانقاہ کے طور پر قائم رہا، فارسیوں اور ترکوں کے حملوں سے اپنا دفاع کرتا رہا یہاں تک کہ اسے 16 ویں صدی میں مکمل طور پر ترک کر دیا گیا۔ سوویت دور کی کھدائیوں نے اس جگہ کا کچھ حصہ بحال کیا اور 1988 میں راہبوں کا ایک چھوٹا گروپ واپس چلا گیا۔کمپلیکس کا ایک اہم روحانی پہلو بھی ہے۔ چرچ آف دی ڈورمیشن وردزیا کا مقدس مرکز ہے۔ چٹان میں تراشے ہوئے، کشادہ کمرے کی پیمائش 8.2 میٹر (27 فٹ) بائی 14.5 میٹر (48 فٹ) ہے جس کی 9.2 میٹر (30 فٹ) 30 اونچی چھت ہے۔


 دیوار اور چھت کے ہر انچ کو رنگین قرون وسطی کے فریسکوز سے پلستر کیا گیا ہے۔ اوپری دیواریں مسیح کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ دیگر تصاویر میں جنگجو ملکہ تمر کی تصاویر شامل ہیں۔ فریسکوز ملک میں جارجیائی قرون وسطی کے فن کی بہترین مثالوں میں سے ہیں اور روشن رنگ اپنا اثر برقرار رکھتے ہیں۔کمپلیکس کے دیگر علاقوں کو بھی اچھی طرح سے محفوظ کیا گیا ہے۔ ریفیکٹری میں ہم اب بھی پتھر سے بنے ہوئے بینچ اور روٹی کے تندوروں کی باقیات دیکھ سکتے Vardzia  یہ ایک وسیع و عریض کثیر سطحی کمپلیکس ہے جسے Erusheti پہاڑ میں تراشی گئی ہے۔ 12ویں صدی میں تعمیر کیا گیا، انجینئرنگ کے اس شاندار کارنامے کا مقصد منگول فوج کے خلاف ایک قلعہ بنانا تھا۔ مہتواکانکشی پروجیکٹ، جس کی ملکہ تمر نے منظوری دی تھی، اس کا مقصد ہنگامہ خیز اوقات میں ایک مستحکم پناہ گاہ فراہم کرنا تھا۔ یہاں کئی ہزار راہب رہ سکتے ہیں، ان کی تعداد شہر کے وسیع پیمانے کی عکاسی کرتی ہے۔ Vardzia تاریخ کے شائقین اور متجسس مسافروں کو یکساں اشارہ کرتا ہے، جو جارجیا کے قابل فخر قرون وسطی کے ماضی کی ایک نادر جھلک پیش کرتا ہے۔


وردزیا کے آرکیٹیکچرل عجائبات کی تلاش -حصّوں، ہالز اور 600 ایک دوسرے سے جڑے ہوئے کمروں کی بھول بھلییاں  کا تصور کریں، یہ سب ٹھوس چٹان سے ہاتھ سے تراشے گئے ہیں۔ وردزیا کی تعمیراتی صلاحیت کا ثبوت اس کے پائیدار ڈھانچے سے ملتا ہے۔ اپنے شاندار فریسکوز کے ساتھ چرچ سے لے کر پیچیدہ آبپاشی کے نظام تک، ہر تفصیل وسائل سے بھرپور ڈیزائن اور اجتماعی زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ زائرین قدیم راہبوں کی طرح قدموں پر چل سکتے ہیں، شراب خانوں، دواخانوں اور اسٹور رومز میں حیران ہوتے ہیں جو خود کفیل طرز زندگی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ سائٹ انسانی کوششوں اور سخت جارجیائی خطوں کے درمیان ہم آہنگی کو ظاہر کرتی ہے۔وردزیا کی جدید اہمیت اور تحفظ کی کوششیں۔آج، Vardzia جارجیا کی لچک کی علامت اور اس کے ورثے کا ثبوت بننے کے لیے اپنی قرون وسطی کی ابتدا سے آگے نکل گیا ہے۔ یہ ایک قیمتی تاریخی یادگار ہے، جو ماضی کے ساتھ جڑنے کی کوشش کرنے والوں کو کھینچتی ہے۔



امن کا نوبل انعام 'تاج کس کے سر پر سجا

 

  

   اوسلو: وینزویلا کی حزب اختلاف کی ممتاز رہنما ماریہ کورینا ماچاڈو کو اس سال امن کے نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ نوبیل کمیٹی نے جمعہ 10 اکتوبر کو اعلان کیا کہ 58 سالہ ماریہ کورینا ماچاڈو کو جمہوریت کے لیے ان کی غیر معمولی کوششوں اور آمریت سے پرامن جمہوری منتقلی کے فروغ پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ وہ ملک میں صدر نکولس مادورو کے متنازعہ دوبارہ انتخاب کے بعد سے روپوشی کی زندگی گزار رہی ہیں اور انہیں ‘آزادی دلانے والی’ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ناروے کی نوبیل کمیٹی کے صدر جورگن واٹن فرائیڈنس نے اوسلو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ماریہ کورینا ماچاڈو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ حالیہ لاطینی امریکہ میں شہری جرات کی سب سے غیر معمولی مثالوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ماچاڈو نے ایک وقت میں گہری تقسیم کا شکار رہنے والی اپوزیشن میں اتحاد پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جس نے آزادانہ انتخابات اور نمائندہ حکومت کے مطالبے پر ایک مشترکہ موقف اختیار کیا۔


” انعام کے اعلان پر ماریہ کورینا ماچاڈو نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “میں صدمے میں ہوں!”ماریہ کورینا نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں سیاست میں قدم رکھا تھا، جہاں انہوں نے ہیوگو شاویز کے خلاف ریفرنڈم کے لیے مہم چلائی۔ انہوں نے شاویز کے بعد آنے والے ‘چاویستا’ نظام کا خاتمہ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر اور تین بچوں کی ماں، ماریہ کورینا کو 2024 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، حالانکہ عوامی سطح پر وہ بہت مقبول تھیں۔ سروے میں پسندیدہ امیدوار ہونے کے باوجود، وہ آج بھی وینزویلا میں روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اور انہوں نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ ناروے کی نوبیل کمیٹی کے صدر نے وینزویلا کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہیوگو شاویز کے سیاسی وارث نکولس مادورو کے 2013 سے اقتدار میں آنے کے بعد، “وینزویلا ایک نسبتاً جمہوری اور خوشحال ملک سے ایک ظالم اور آمرانہ ریاست میں تبدیل ہو گیا ہے جو انسانی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے۔”


 انہوں نے بتایا کہ تقریباً 80 لاکھ افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔اس سے قبل 30 ستمبر 2024 کو ماریہ کورینا ماچاڈو کو یورپی کونسل کا ویٹسیلاو ہاول انعام بھی دیا گیا تھا، جو انسانی حقوق کے محافظوں کو دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال یہ نوبیل انعام جاپانی تنظیم نیہون ہیدانکیو کو دیا گیا تھا، جو ایٹمی بموں کے متاثرین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ 2023 میں ایرانی انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی کو اس اعزاز سے نوازا گیا تھا۔نوبیل کمیٹی، جس میں پانچ ارکان شامل ہوتے ہیں، عام طور پر باضابطہ اعلان سے کئی دن یا ہفتے قبل اپنا فیصلہ کر لیتی ہے اور آخری میٹنگ اعلان سے قبل اپنے فیصلوں کو حتمی شکل دینے کے لیے منعقد ہوتی ہے۔ کمیٹی کی آخری میٹنگ پیر 6 اکتوبر کو ہوئی تھی۔ اس لیے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ جنگ بندی کا معاہدہ 2025 کے فاتح کے انتخاب پر “بالکل بے اثر” رہا کیونکہ نوبیل کمیٹی اپنا فیصلہ پہلے ہی کر چکی تھی۔



 واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس انعام پر نظر رکھے ہوئے تھے اور دنیا کے کئی تنازعات کو حل کرنے میں اپنے کردار کا دعویٰ کر رہے تھے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر انہیں یہ اعزاز نہ ملا تو وہ اسے “توہین” سمجھیں گے۔ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد، وائٹ ہاؤس کے کمیونیکیشن سروس نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ‘امن کا صدر’ کہا گیا تھا۔ تاہم، نوبیل کمیٹی کے ترجمان کرسٹیان برگ ہرویکن نے واضح کیا تھا کہ کمیٹی ہر امیدوار کی درخواست کا اس کی اپنی خوبیوں کی بنیاد پر جائزہ لیتی ہے اور کسی بھی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتی۔ماریہ کورینا ماچاڈو کو اس باوقار انعام کے ساتھ 11 ملین سویڈش کرونر، جو تقریباً 950,000 یورو کے برابر ہیں، کے ساتھ ساتھ 18 قیراط کا سونے کا تمغہ بھی دیا جائے گا۔ 

وینزویلا تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔

 

  اللہ پاک کی یہ دنیا نا جانے کب سے قائم اور دائم ہے 'نا جانے کتنی تہزیبیں آتی ہیں پھلتی پھولتی ہیں اور پھر صفحہ  ہستی سے مٹ جاتی ہیں لیکن    وینزویلا کے نام سے جانے والے  اس  خطہ ء زمین پر 15000 سال قدیم    انسانی رہائش کے شواہد موجود ہیں۔ اس دور میں مستعمل  اوزار مغربی وینزویلا میں ریوپیڈریگال دریا کے بلند کناروں پر پائے گئے ہیں۔ دیر سے پلائسٹوسین شکار کے نمونے، بشمول نیز وں   کا استعمال  -ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے مطابق، یہ تاریخیں 13,000 سے 7,000 قبل مسیح تک ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ ہسپانوی فتح سے پہلے وینزویلا میں کتنے لوگ رہتے تھے۔ اس کا تخمینہ دس لاکھ تک لگایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے علاوہ جن کو آج جانا جاتا ہے، اس آبادی میں تاریخی گروپس جیسے کالینا (کیریبس)، آوکی، کاکیٹیو، ماریچے اور ٹموٹو-کیوکا شامل تھے۔  ٹموٹو-کیوکا Timoto-Cuica ثقافت پری کولمبیائی وینزویلا کا سب سے پیچیدہ معاشرہ تھا، جس میں پہلے سے منصوبہ بند مستقل گاؤں تھے، جن کے چاروں  اطراف   کھیت تھے۔ ان کے گھر بنیادی طور پر پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے تھے جن کی چھتیں بھوسے کی تھیں لیکن  مظبوط تھیں ۔



وہ  ایک پرامن  معاشرے کے امین تھے اور ان کا گزر بسر موسم کی  فصلوں کو اگانے پر  ہوا  کرتا تھا  ۔  ان کی  علا قائی فصلوں میں آلو اور آلوکو (ایک مقامی سبزی) شامل تھے۔ انھوں نے آرٹ کے بہت سے نمونے چھوڑے، خاص طور پر چینی کے برتن، لیکن کوئی بڑی یادگار عمارت  نہیں بنائی۔ وہ ٹیکسٹائل اور رہائش کے لیے چٹائیوں میں بُننے کے لیے سبزیوں کے ریشے کاتتے تھے۔ انھیں اریپا ایجاد کرنے کا سہرا جاتا ہے، جو وینزویلا کے کھانوں کا ایک اہم حصہ ہے۔فتح کے بعد، آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی، خاص طور پر یورپ سے نئی متعدی بیماریوں  نے ان کے معاشرے  کی آبادی کو کم کیا  ۔ کولمبیا سے پہلے کی آبادی کے دو اہم شمال-جنوبی محور موجود تھے، جنھوں نے مغرب میں مکئی اور مشرق میں مین یوک کی کاشت کی۔ وینزویلا کا بیشتر رقبہ جنگل، چراہ گاہ، گھاس میدان اور پہاڑ پر مبنی ہے۔ وینزویلا اقوام متحدہ (UN)، آرگنائزیشن آف امریکن سٹیٹس (OAS)،  جنوبی امریکا کی قوموں کی یونین (UNASUR)، مرکوسول Mercosur،  بولیویرین اتحاد (ALBA)، لاطینی امریکی ایسوسی ایشن (LAIA) اور آئیبیرو امریکی ریاستوں کی تنظیم (OEI)  کا چارٹر ممبر ہے۔



براعظمی خطہ شمال میں بحیرہ کیریبین اور بحر اوقیانوس، مغرب میں کولمبیا، جنوب میں برازیل، شمال مشرق میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو اور مشرق میں گیانا سے متصل ہے۔ وینزویلا ایک صدارتی جمہوریہ ہے جو 23 ریاستوں، کیپٹل ڈسٹرکٹ اور وفاقی علاقے پر مشتمل ہے جس میں وینزویلا کے سمندری جزائر بھی شامل ہیں۔ وینزویلا لاطینی امریکا کے سب سے زیادہ شہری آبادی والے ممالک میں شامل ہے۔ اس کے دار الحکومت کا نام کاراکاس ہے۔ وینزویلا کی کرنسی کا نام بولیوار ہے۔ وینزویلا کی اکثریت شمال کے شہروں اور دار الحکومت میں رہتی ہے۔اقوام متحدہ کے شعبہ شماریات کے مطابق 2012 میں وینزویلا کی آبادی 29,954,782 تھی۔ وینزویلا کا رقبہ 916,445 مربع کلومیٹر (353,841 مربع میل) ہے۔ وینزویلا ایک مرکزی آمرانہ ریاستی حکمرانی کے تحت ایک وفاقی صدارتی جمہوریہ ہے۔ اس کے موجودہ صدر نکولس مدورو ہیں اور نائب صدر ڈیلسی روڈریگیز ہیں۔


 ·


    وینزویلا تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ ملکی کنوؤں میں 300,878 ملین بیرل تیل محفوظ ہے۔ وینزویلا کے بعدسعودی عرب (266455) کا نمبر آتا ہے-کینیڈا (169709)وینزویلا ایک ترقی پزیر ملک ہے جس کے پاس دنیا کے سب سے بڑے معلوم تیل کے ذخائر ہیں اور یہ دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندگان میں سے ایک رہا ہے۔ پہلے، ملک کافی اور کوکو جیسی زرعی اجناس کا ایک چھوٹا برآمد کنندہ تھا، لیکن تیل تیزی سے برآمدات اور حکومتی محصولات پر حاوی ہو گیا۔ ملک ریکارڈ افراط زر، بنیادی اشیا کی قلت، بے روزگاری، غربت، بیماری، بچوں کی شرح اموات، غذائی قلت، سنگین جرائم اور بدعنوانی کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔ ان عوامل نے وینزویلا کے پناہ گزینوں کے بحران کو جنم دیا ہےجہاں ستر لاکھ سے زیادہ لوگ ملک چھوڑ کر چلےگئے ہیں۔ سنہ 2017ء تک، وینزویلا کو کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کے ذریعے قرض کی ادائیگیوں کے سلسلے میں ڈیفالٹ قرار دیا گیا تھا۔ وینزویلا کے بحران نے انسانی حقوق کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کو بڑھاوا دیا ہے۔اور لوگ نقل مکانی  کو یا بیرون ملک چلے جانے کو بہتر سمجھنے لگے ہیں 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اوورسیز میں پاکستانی گداگرایک صوبے میں منظم مافیا

      آج ہی یہ تحریر انٹرنیٹ سے ملی ہے غور سے پڑھئے سعودی عرب نے پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سخت اقدامات کیے ہیں، جن ک...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر