پیر، 6 اکتوبر، 2025

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا ۔بچپن کے دن جو بھلائے نا گئے

  بلا شبہ  ہجرت کے مصائب بچوں  کو وقت سے بہت پہلے   ہی شعور کی منزل پر لا کر کھڑا کر دیتے ہیں  اسی لئے میرا   بچپن  بھی  عام بچّوں کے بچپن جیسا  نہیں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کے گھروں میں پانی کے لئے علاقے میں پانی کے ٹینکر آیا کرتے تھے اور میں بہت چھوٹی سی عمر میں ٹینکرکی  آواز محلّے میں آتے ہی اپنا کنستر لےکر پانی لینے والوں کی لائن میں کھڑی ہو جاتی تھی ،اور ہمارے محلّے کا کوئ خداترس انسان میرا کنستر بھر کر ہمارے دروازے تک یا گھر کے اندر تک رکھ جایا کرتا تھا اس کے علاوہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ماشکی بھی صبح شام ایک ایک مشک پانی  معمو لی قیمت پر ڈال جاتا تھا پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد پانی کے ٹینکر کا آنا موقو ف ہو گیا اورہماری گلی کے ختم پر  ایک عدد حوضی بنا کر اس میں سرکاری نل سے پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا،میرے والد صاحب ،،اپنے والد صاحبکے تذکرے کے تصّور سے ہی   بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہین کیونکہ مجھے اپنے والدکا بنک جانے سے پہلے نمازر کے وقت حوضی سے پانی بھرنا یاد آرہا ہے



 میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کاموں میں والد کا ہاتھ بٹا سکتی لیکن زرا سا وقت گزرنے پر  گھر میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے میں نے یہ ڈیوٹی اپنے زمّے لے لی تھی ،اسوقت ایک خدا ترس انسان نے اپنے گھر کے سامنے ایک کنواں بنوا کر وقف عام کر دیا تھا چنانچہ میں نے زرا سا ہوش سنبھانے پر یہ اہم ڈیوٹی اپنے زمّہ لے لی تھی کہ والد صاحب کے لائے ہوئے پانی کے علاوہ جو بھی کمی ہوتی اسے خود سے چھوٹے چھوٹے ڈول لے جا کر پانی بھر کر لے آیا کرتی تھی اور گھر میں پانی کی کمی   پوریکر دیا کرتی تھی اس وقت ہمارے محلّے میں کوئ حوضی نہیں بنی تھی لیکن اپنے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے سے  کنوئین سے پانی بھر کر لانے لگی اس کنوئیں میں چمڑے کی بالٹی ایک مو ٹے رسّے کے زریعے کنوئیں کی تہ تک اتار کر بھر لی جاتی اور پھر الٹی چرخی چلا کر پانی کھینچ لیا جاتا تھا ،یہ ایک بہت محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن میں اس کام کو بھی سر انجام دے لیا کرتی تھی  


اس کے علاوہ جھٹ پٹا ہوتے ہی گھر کی لالٹینیں اور لیمپ روشن کرنا بھی میرے زمّے تھا میں سب لالٹینوں کی چمنیاں نکال کر ان کو چولھے کی باریک سفید ریت سے   صاف کرتی پھر صابن سے دھو کر خشک کرتی تھی تو لالٹین کی روشنی بہت روشن محسوس ہوتی تھی،کوئلو ں کی سفید راکھ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کو یونہی چھوڑ دیا جاءے تووہ خود بخود بجھتے جاتے ہیں اور ان کے اوپر سفید راکھ کی موٹی تہ جمتی جاتی ہے یہ راکھ دیگچیوں کے پیندوں کو اجلا کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی میں اس راکھ کو ایک ڈبّے میں محفوظ کر لیتی تھی اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اہم ڈیوٹی گھر میں جلانے کے لئے ٹال سے لکڑیاں لانے کی بھی تھی ،اور یہ کام کوئ مجھ سے جبریہ نہیں کرواتا تھا بلکہ میں اپنی والدہ کے لئے کام کی سہولت چاہتی تھی 


میرے بچپن  کے اس دور میں ہمارے گھر میں کھانا پکانے کے لئے لکڑی استعمال ہوتی   تھی۔ جب تک کہ  ہمار ے  علاقے میں  لکڑی کی ٹال نہیں کھلی تھی میں تب تک  میں خود اپنے بازوؤں پر لکڑیاں  ا ٹھا کر لاتی رہی پھر ہماری  گلی کی  کونے  پر ایک ٹال  کھل گئ تھی  جسے ابا جان  ہر مہینے  پابندی سے  پیسے دے آتے تھے اورٹال والا ہمارے صحن کے ایک کونے میں  دو من لکڑی ڈال جاتاتھا۔ لکڑی  کا بہت  خیال رکھاجاتا تھا کہ کہیں وہ بارش میں  بھیگ نا جائے -آسمان پر بادل دیکھتے ہی اس پر ترپال ڈال دی جاتی تھی۔ گیلی لکڑی کی سزا پورے گھرکوبھگتنی پڑتی تھی۔ دھواں باورچی خانے سے نکل کر برآمدے سے ہوتا ہوا سارے کمروں میں پھیل جاتا تھا اور اس کی جلن اور چبھن سے آنکھوں سے پانی بہنے لگتا تھا۔-لکڑی پر کھانا پکانے سے ہانڈیوں کے اوپر سیاہ دھوئیں کی کافی ناگوار سیاہی جم جاتی ہے لیکن اگر ملتانی مٹی کا لیپ کر دیا جائے تو ہانڈیاں بری نہیں لگتی ہیں -میں نے ملتانی مٹی  کو کٹورے میں  بھگو کر رکھنا شروع کیا اور ہانڈیوں کے پیندے صاف دکھائ دینے لگے 


اتوار، 5 اکتوبر، 2025

'کینیڈا میں سونے چاندی ہیروں کا شہر'یلو نائف

 پیج سٹی آرکٹک سرکل سے 400 کلومیٹر دور عظیم جھیل کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ اس کے مغرب میں ییلو نائف بے اور ییلو نائف دریا واقع ہے۔ 920 کی دہائی کے آخر میں کینیڈا کے آرکٹک علاقے کی چھان بین ہوائی جہاز کی مدد سے شروع ہوئی۔ 1930 کی دہائی میں گریٹ بیئر جھیل کے آس پاس یورینیم اور چاندی کے ذخائر دریافت ہوئے اور لوگ ادھر ادھر پھیل کر مزید دھاتوں کی تلاش کرنے لگ گئے۔ 1933 میں دو مہم جو ییلو نائف دریا کے بہاؤ کے ساتھ کشتی پر گئے اور انھوں نے کوئٹہ جھیل سے سونے کے ذرات تلاش کر لیے۔ یہ جھیل ییلو نائف دریا سے تیس کلومیٹر دور ہے۔ ہومر جھیل سے بھی چند مزید ذخائر ملے۔اگلے سال جونی بیکر مزید ماہرین کے ہمراہ دوبارہ سونے کے مزید ذخائر کی تلاش اور ان کو نکالنے کے لیے آیا۔ ییلو نائف کی مشرقی طرف سونا دریافت ہوا اور مختصر وقت کے لیے برواش کی کان بھی چلائی گئی۔ ییلو نائف کی خلیج کے مغرب میں جب حکومت کے ماہرین ارضیات نے نسبتاً آسان جگہ پر مزید سونا دریافت کیا تو کچھ وقت کے لیے پھر سے سونے کی دوڑ شروع ہو گئی۔



 کون کی کان یہاں پہلی باقاعدہ کان تھی اور اس کی وجہ سے 1936 اور 1937 کے درمیان ییلو نائف کا شہر بسایا گیا۔ 5 ستمبر 1938 میں کان سے پیداوار شروع ہوئی۔1940 میں ییلو نائف کی آبادی تیزی سے بڑھی اور 1000 کی تعدادعبور کر گئی۔ 1942 میں یہاں سونے کی پانچ کانیں کام کر رہی تھیں۔ جنگ کے لیے افرادی قوت کی ضرورت پڑی تو سونے کی پیداوار رک گئی۔ 1944 میں شہر کے شمالی سرے پر جائنٹ مائن سے بھی سونے کے ذخائر ملے۔ اس وجہ سے یہاں جنگ کے بعد پھر لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ اس کے علاوہ کون کی کان سے بھی مزید دریافتیں ہوئیں اور کان کی عمر بڑھا دی گئی۔  کینیڈا کی نارتھ ویسٹ  ۔ اس کی کل آبادی 2006 میں 18700 تھی۔ یہ شہر گریٹ سلیو لیک کے شمالی کنارے پر آرکٹک سرکل سے 400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے مغرب میں ییلو نائف کی خلیج اور ییلو نائف دریا کے دہانے کے پاس موجود ہے۔ ہاں کی گیارہ سرکاری زبانوں میں سے پانچ زبانیں بڑی تعداد میں لوگ بولتے ہیں۔یلونائف کو پہلی بار 1935 میں آباد کیا گیا تھا۔ جلد ہی یہ شہر نارتھ ویسٹ ریاست کی آبادی کا مرکز بن گیا۔


اسے 1967 میں ریاست کا صدر مقام بنایا گیا۔ ، شہر کو کان کنی کے شہر سے بدل کر حکومتی اداروں کا مرکز 1980 کی دہائی میں بنا دیا گیا۔ تاہم حال ہی میں شہر کے شمال میں ہیروں کی دریافت سے دوبارہ یہاں کان کنی کی صنعت زور پکڑنے لگی ہے۔شہر میں دریافت ہونے والے سونے کی وجہ سے  شہر  کی آبادی کو اس جگہ سے کچھ دور ہٹا دیا گیا۔ ڈسکوری مائن کے لیے اس کے ساتھ ہی ایک الگ شہر بسایا گیا جو ییلو نائف سے 81 کلومیٹر دور شمال مشرق میں تھا۔ یہ کان 1950 سے 1969 تک چالو رہی۔  یہاں سے 400 کلومیٹر دور 1991 میں ہیروں کی دریافت سے شہر کو ایک بار پھر چوتھی بار عروج ملا۔ ۔ آج یہ شہر ایک حکومتی شہر اور ہیرے کی کانوں کا سروس سینٹر ہے۔  یہ کان کنی، صنعتوں، نقل و حمل، مواصلات، تعلیم، صحت، سیاحت، تجارت اور حکومتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔  ۔1990 کی دہائی میں سونے کی کانوں کی بندش اور 1999 میں حکومتی ملازمین کی چھانٹی کے بعد ہیروں کی دریافت کی وجہ سے یہاں کی معیشت دوبارہ پروان چڑھ رہی ہے۔ 


یہ ہیرے ایکاٹی ڈائمنڈ مائن سے نکلتے ہیں اور بی ایچ پی بلیٹن کی ملکیت ہے۔ اسے 1998 میں کھولا گیا۔ دوسری کان ڈیاوک ڈائمنڈ مائن ہے جو 2003 میں پیداور دینے لگی ہے۔ 2004 میں ان دونوں کانوں کی پیداوار 12618000 قیراط یعنی 2524 کلو تھی۔ اس کی کل قیمت 2.1 ارب کینیڈین ڈالر ہے۔   تیسری کان ڈی بیئرز سنیپ لیک ڈائمنڈ مائن کو 2005 میں منظوری اور امداد ملی جس کے بعد 2007 میں اس نے کام شروع کر دیا۔ ایک اور کان کی منظوری کی درخواست بھی ڈی بیئرز نے دی ہوئی ہے۔یئیلونائف کے بڑے آجروں میں سے ریاستی حکومت، وفاقی حکومت، ڈیاوک ڈائمنڈ مائن انکارپوریٹڈ/ہیری ونسٹسن ڈائمنڈ کارپوریشن، بی ایچ پی بلیٹن، فرسٹ ائیر، نارتھ ویسٹل، آر ٹی ایل روبنسن ٹرکنگ اور ییلو نائف کا شہر اہم ہیں۔ حکومتی ملازمین 7644 ہیں جن کی اکثریت یلو نائف سے ہے۔ سیاحوں کی اکثریت جاپانیوں کی ہوتی ہے - شمالی موسم اور یہاں کے روایتی طرز زندگی اور شمالی روشنیوں کا بھی مطالعہ کرنے آتے ہیں۔ 

ہجرت کے ابتدائ دور میں کراچی کے سینما ہاؤسز

 



 اگست 1947ء کو پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ستمبر کے مہینے میں جمیلہ اسٹریٹ پر جوبلی سینما  کا افتتاح اداکارہ سورن لتا اور اداکار نذیر کی کاسٹیوم فلم وامق عذرا سے ہوا، اس سینما کو پاکستان کے اولین سینما کا اعزاز حاصل ہوا، بھارتی اور پاکستانی فلموں کا یہ اپنے وقت کا کامیاب سینما تھارومن طرزِ تعمیر کا یہ حسین شاہکار سینما 1997ء میں مسمار کر دیا گیا، یہاں پیش کی جانے والی آخری فلم کھلونا تھی جس کی ہدایتکارہ سنگیتا بیگم ہیں۔جوبلی کے سامنے والی سڑک مارشل اسٹریٹ پر ایک خوبصورت سینما گھر کا افتتاح 23 مارچ 1966ء کو ہوا، اس کا موتیوں کی لڑیوں سے آراستہ پردہ آج بھی اپنی یاد دلاتا ہےاس کا شو روم اور لابی اپنی خوب صورتی میں کسی 5 ستارہ ہوٹل سے کم نہ تھی، خاص طور پر گول زینہ اور اس کے ساتھ فوارہ اور زینے پر ایسے آئینے تراشے گئے تھے، جس میں بیک وقت ایک ساتھ کئی عکس دیکھے جا سکتے تھے۔اس سینما میں کئی دفاتر بھی قائم تھے ،ایک فلمی مشہور فلمی اخبار کا دفتر بھی یہیں تھا



  1960ء میں ریوالی سینما کا افتتاح انگریزی فلم ’نور دی مون بائی نائٹ‘ سے ہوا، یہ کسی زمانے میں ایلائٹ تھیٹر کے نام سے موجود تھا، جہاں صرف اسٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔1991ء میں یہاں ریلیز ہونے والی آخری فلم ’کھڑاک‘ (پنجابی) تھی، اس سینما کی جگہ رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کر دیے گئے ہیں۔ریوالی کے برابر میں ایک وسیع رقبے پر واقع ایروز سینما ہوا کرتا تھا، جو اب ایروز کمپلیکس میں تبدیل ہو چکا ہے، اس سینما کی تعمیر کا آغاز پاکستان بننے کے بعد ہوا جبکہ پاکستان کے پہلے نئے سینما حویلی کی تعمیر کا آغاز 14 اگست 1947ء سے پہلے ہو چکا تھا ایروز سینما کو یہ اولیت حاصل ہے کہ یہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد تعمیر ہونے والا پہلا سینما ہائوس تھا، اس تاریخی یادگار سینما کا افتتاح 21ستمبر 1950ء کو ہوا تھا، دلیپ کمار اور نرگس کی بھارتی فلم ’بابل‘ اس سینما کی پہلی فلم تھی۔کراچی میں تعمیر کے شعبے میں مہارت رکھنے والی قدیم برادری سلائوٹ جماعت کے انجینئر حاجی ادریس گذدر عرف بابو نے اس سینما کو تعمیر کیا تھا۔


یہ پہلا سینما تھا جس کے اسکرین کے اوپر قائد اعظم کی تصویر آویزاں تھی، شو روم اور ہال میں گائوں کے پنگھٹ پر پانی بھرنے والی دیہاتی عورتوں کی خوب صورت پینٹنگ بھی خوب تھی۔اس سینما پر پہلی پاکستانی فلم ’دوپٹہ‘ 11جولائی 1952ء کو ریلیز ہوئی تھی، یہ وہ سینما تھا، جہاں 50ء کی دہائی میں بننے والی کئی پاکستانی فلموں کا بزنس غیر معمولی رہا، ایوریڈی کے توسط سے ریلیز ہونے والی فلم ’سسی‘ نے اس سینما پر 34 ہفتوں کا بزنس کر کے پہلی سلور جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔1994ء میں یہ سینما بند ہو گیا، اس وقت یہاں پنجابی فلم ’موسیٰ خان‘ چل رہی تھی، یہ سینما اب ماضی کی ایک داستان بن چکا ہے۔ایروز کے بالکل عین سامنے قیصر کے نام سے ایک سینما ہوا کرتا تھا جس کا افتتاح بروز اتوار 31جولائی 1955ء کو اردو فلم ’داتا‘ سے ہوا تھا، صبیحہ اور سدھیر نے اس فلم میں مرکزی کردار کیے تھے۔اس کا شو روم اوپر کی منزل پر واقع تھا، یہ ایک بلڈنگ نما سینما تھا، 1965ء میں اس سینما کو ایئرکنڈیشنز کا درجہ حاصل ہوا۔



دسمبر 1987ء میں ریلیز ہونے والی اداکارہ انجمن کی پنجابی فلم ’قیمت‘ اس سینما کی آخری فلم ثابت ہوئی، یہ سینما توڑ کر نعمان سینٹر کی عمارت میں تبدیل ہو گیا۔جہاں آج کل غازیانی شاپنگ سینٹر ہے، یہاں ماضی میں گوڈین کے نام سے ایک سینما تھا، 1957ء میں بیگم ناہید اسکندر مرزا نے اس سینما کا افتتاح کیا تھا، یہ اپنے وقت کا انگریزی فلموں کا اہم سینما تھا۔انکل سریا اسپتال گارڈن روڈ پر واقع اس سینما کا افتتاح 1963ء میں بھارتی فلم ’داغ‘ سے ہوا تھالیرک کے سلاتھ بمبینو کے نام سے ایک سینما 1963ء میں قائم ہوا، یہاں پر پیش کی جانے والی پہلی فلم ’سائوتھ پیسیفیک‘ تھی۔اس سینما کا افتتاح پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا، جو اس وقت کے وزیر خارجہ تھے -یہ  معیاری، خو ب صورت، کام یاب سینما کیپری آج بھی اپنی تمام رعنائیوں اور دل کشی کے ساتھ فلم بینوں کے لیے اپنی کشش برقرار رکھے ہوئے ہے۔

میں سہاگن بنی !مگر ' سوکھے دھانوں پانی جو پڑا

 

 آج  اپنی  داستان حیات شروع کرتے ہوئے میں سوچ رہی       ہوں کہ ہر انسان اپنی زندگی مختلف ادوار میں بسر کرتا ہے بچپن جوانی بڑھاپا'میں نےجب ا پنے بچپن کا دور گزار کر دوسرے دور میں جینے کے لئے قدم رکھّا تب مجھے احساس ہوا کہ جیسے میں بچپن کے بعد اپنے دوسرے دور کےبجائے اچانک ہی تیسرے دور میں داخل ہو گئ تھی بلکل اس بچّے کی طرح جوسیڑھیاں پھلانگتے ہوئے خود بہ خود بیچ کی دوسری سیڑھی چھوڑ کر دوسری کےبجائے تیسری سیڑھی پر آ جائےاور میری اس داستان حیات کا محور میری یہی زندگی ہے جس میں ،میرے شعور نےآنکھ کھولی اور مجھے زندگی کے بہت سے ایسے فلسفوں سے آشنا کیا جن سے شائدمیری عمر کی اور لڑکیاں واقف نہیں ہوتی ہوںاللہ میاں کے دستوربھی کتنے نرالے ہیں 'ہمارےگھر میں صرف پہلوٹھی کے بھیّا کو دینے کے بعد ہم چار بہنوں  فرحین آپی جن کو میں اور ہم سب بہنیں بڑی آپا کہتے ہیں،پھر منجھلی آپا ندرت  ،ان کے بعد فریال  جو ہمارے لئے فریال بجّو ہیں اور ان کے بعد نرگس   آپی ہیں ،ان چاروں کو او پر تلےامّاں کے آنگن میں بھیج دیا ،پھر چار برس تک ان کے آنگن سوکھے دھانوں کوئ پانی ناپڑا تھا کہ میں  ان کے آنگن میں اتر آئ


،مجھے نہیں معلوم کہ امّاں لڑ کیوں سے بیزاری کے سبب اتنی تلخ زبان رکھتی تھیں یا ان کا مزاج ہی ایسا تھا ،لیکن ابّا ہم بیٹیوں کے لئے بہت مشفق و مہربان تھے ،امّاں عام بات بھی کرتی تھیں تو ہم بہنوں کو ان کا حکم ہی لگتا تھا،ابّا کبھی کبھی کہتے ارے نیک بخت ان کے ساتھ اتنی سختی نا برتو ,,یہ توہما رے آنگن کی چڑیاں ہیں ،دیکھ لیناایک دن ہو گا کہ اپنے اپنے آشیانےبنانے اڑ جائیں گی اور ہمارا یہی آنگن ان کے بنا سائیں سائیں کرتا ہو گا'اور امّاں ابّا سے کہتی تھیں تم بلاوجہ ان کے دماغ مت خراب کیا کرو ،آخران کو دوسرا گھر اپنا پتّہ مار کر سنبھانا ہے ابھی سے عادت نہیں ڈالی     جائے تو لڑکی نخرے دار اٹھتی ہےمیری سمجھ میں امّاں کی باتیں ہرگز نہیں آتی تھیں ناجانے ابّا سمجھتےتھے کہ نہیں پھر وہ امّاں سے کچھ بولتے نہیں تھے اور امّا ں کے دل شکن  نعروں کی گونج میں جب میں  با شعور ہوئ تو گھر سے بڑی آپا کی رخصت کی گھڑی آ گئ تھی    بڑی آپا ہما رے  منجھلے تایا ابّا کے گھر بچپن کی مانگ تھیں مجھے یاد ہے  وداعی  و الے دن بڑی آپا جب بیوٹی پالر جانے کے لئے گھر سے نکلنے لگیں تو اچانک ہی گھر کے دروازے سے لپٹ کر دھا ڑیں مار کر رونے لگیں ،


ایسے میں امّا ں  گھر کے کسی کونے سے برآمد ہو ئیں   اور اپنے مخصوص تھانیدار لہجے میں بڑی آپا سےکہنے لگیں بند کرو یہ بین     ا اور جاکر گاڑی میں بیٹھو اور ہم بہنیں حیران ہو کر امّاں کو دیکھنے لگے-میں نے سو چا کم از کم آ ج کے دن تو امّاں کو بڑی آپا کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہئے ،،مگر امّا ں تو امّاں تھین جو اپنے ماں ہونے کےفلسفے کےبنیادی اصول اچھّی طرح جانتی تھیں اور بھیّا جو بڑی آپاکے گھر سے نکلنے کے انتظار میں دروازے پر ہی موجودتھے ایک دم جھپاک سے خود ہی گھر سے باہر چلے گئے,,مجھے لگا جیسے بڑی آپا کے ساتھ بھیّا کا دل بھی بھر آیا تھا اورمنجھلی آپا جو خود بھی رو رہی تھیں انہو ں نے بڑی آہا کو دروازے سے الگ  کرنا چاہا تو بڑی آپا منجھلی آپا کے گلے لگ کراور زیادہ چیخ چیخ کر رونےلگیں اور امّاں پھر وہاں رکیں نہیں خود بھی وہاں سے ہٹ گئیں -منجھلی آپا نے نرگس آ پی سے کہا پانی لے آؤ تو نرگس آپی کے بجائے میں بھاگ کر پانی لے آئ مجھلی آپا نے بڑی آپا کو پیار کے ساتھ سمجھاتے ہوئےان کو پانی پلایا اور پھر انکو خود اپنے سہارے سے لے جا کر بھیّا کی گاڑی  میں بٹھا کر خود بھی بڑی آپا کے ساتھ بیوٹی پارلر چلی گئیں     بڑی آپا گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے نا طے بہت زمّہ دار تھیں لیکن مزاج کی بے حد شرمیلی اور کم گو بھی تھیں وداعی والے دن دلہن بننے کے بعد وہ میک اپ کے خراب ہونے کی پرواہ کئے بغیر چپکے چپکے گھونگھٹ کی اوٹ میں  روئے جا رہی تھیں اور رخصتی کے وقت ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور د ھاڑیں مار کر روئیں تو ہم سب بہنیں بھی بے حد رو ئے تھے ،


لیکن حیرت کی بات تھی کہ جب آ پا اگلے دن اپنی سسرال سے ہمارے گھر طلال بھائ کے ساتھ آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں میں بڑی آپا کو حیران ہو کردیکھ رہی تھی اور پوچھنا بھی چاہ رہی تھی کہ اب وہ رو کیوں نہیں رہی ہیں  کہ اچانک میری نظر ا نکی مہندی لگے ہاتھوں کی کلایوّں پر گئ جہاں امّاں کی پہنائ ہوئ سہاگ کی ہری اور لال کانچ کی کھنکتی ہوئ چوڑیوں کے ہمراہ سو نے کےخوبصورت جڑاؤ کنگن نظر آرہے تھے میں بڑی آپا سےاو ر سب پوچھنا بھول گئ،میں نے ان کے مہندی رچے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا ،بڑی آپا یہ سونے کے کنگن کل تو آپ کے ہاتھ میں نہیں تھے میری بات پر بڑی آپا کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا اور انہوں نے حیا بار نظریں جھکا لیں اور میری بات کا جواب نہیں -مجھے بعد میں فریال بجو نے چپکے سے بتایا تھا کنگن  طلال بھائ نے منہ دکھائ میں پہنائے ہیں اور میں ہونقوں کی طرح سوچ رہی تھی منہ دکھائ کیا ہوتی ہے فریال بجو اپنی بات کہ کر جا چکی تھیں مجھےیاد ہے کہ ہماری تائ امّی کی پوری فیمیلی بہت نیک تھی 


(میری مطبوعہ ناول میں سہاگن بنی !مگر 'سے اقتباس) 

تھر پار کر میں علم کی شمع روشن کرنے والی انیلا علی

 

   کوئی راز کی بات نہیں کہ ہندوستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا، پاکستان سے تعلیمی سرگرمیوں میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے حصول میں کرپشن، مہنگائی اور والدین کی اجازت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے-لیکن یہ سبھی مسائل بڑے شہروں میں ہیں۔ چھوٹے شہر اور قصبوں میں سرے سے تعلیمی ادارے ہی موجود نہیں۔ جہاں تعلیمی ادارے ہیں وہاں اساتذہ نہیں، عمارتیں نہیں، عمارتیں ہیں، تو فرنیچر نہیں۔ انیلا علی پاکستانی نژاد امریکی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں تعلیمی میدان میں بہتری لانے کا عزم کیا، اور اس مقصد کی خاطر CalPak Education Services کا آغاز کیا۔ یہ ادارہ کیلیفورنیا سدرن یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں، چھوٹے شہروں اور قصبوں میں تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ سندھ کے 12 ہزار سے زائد سکولوں میں اساتذہ ہی نہیں انیلا اور ان کی ٹیم تعلیمی اداروں میں موجود مسائل کی نشان دہی کرتی ہے


کیلیفورنیا سدرن یونیورسٹی کی ڈاکٹر گیوین فائن سٹون اس مسائل کے حل کے لیے جتنی رقم درکار ہو فراہم کرتی ہیں۔انیلا نے تھر پارکر کا رخ کیا اور وہاں تعلیمی اداروں، اسکولوں کی قلت کو شدت سے محسوس کیا۔ ڈاکٹر گیوین فائن سٹون کو ان حالات سے آگاہ کیا اور تھرپارکر میں اسکول کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر گیوین نے خیر مقدم کیا۔اس طرح اس کام کا آغاز ہوا۔ حال ہی میں     نے تیسرے سکول کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ ڈاکٹر گیوین اس موقعے پر پاکستان میں موجود تھیں۔ وہ پاکستان میں تعلیم کی کمی پر افسردہ ہیں اور تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم بھی۔ ڈاکٹر گیوین نہ صرف سکول بنانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کیلیفورنیا یونیورسٹی کے اساتذہ کی مدد سے پاکستان کے اساتذہ کو کچھ خاص کورس کروانے کا ارارے بھی رکھتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میں پاکستان کے تعلیمی معیار یر یہاں کے اساتذہ کے پڑھانے کے طریقے کو بہتر کرنا چاہتی ہوں۔ ’


ہم نے اساتذہ کی باقاعدہ تربیت کا ارادہ کیا ہے۔ پہلے ہم صرف ان اسکولوں کے اساتذہ کی تربیت کریں گے، جو Calpak  نے بنائی ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی اور تعلیمی ادارہ ہم سے اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے رابطے کرے گا تو ہم یقیناً مدد کریں گے۔‘ڈاکٹر گیوین کا کہنا تھا کہ جب وہ تھرپارکر گئیں تو انہیں ایک حیرت انگیز مسرت نے گھیر لیا۔ وہاں لوگ بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، لیکن والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتے ہیں۔ بچے علم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہنر سیکھنا چاہتے ہیں۔ زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین اور دیگر گھر والوں نے دعائیں دیں۔ تحفے تحائف دیے۔ مجھ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔‘ڈاکٹر گیوین کا کہنا ہے کہ ’جب تھرپارکر میں سکول قائم ہوا تو انیلا نے مجھے بتایا کہ ہم نے لڑکیوں کے لیے سکول قائم کیا ہے،


لیکن اب والدین کہتے ہیں کہ لڑکوں کے لیے بھی سکول قائم کیا جائے۔ یہ بات میرے لیے حیران کن تھی۔ میں سوچ سکتی ہوں کہ لڑکے، لڑکیوں کو دو الگ کمروں میں بیٹھا کر تعلیم دی جائے، لیکن ایک مکمل الگ سکول کا قیام، یہ بات بہت حیران کن اور عجیب لگی، لیکن میں ان بچوں کو تعلیم دلانے کے حق میں ہوں تو میں نے انیلا علی کی بات مان لی۔‘اچھی بات یہ ہے کہ Cal Pak کا کوئی مخصوص مشن نہیں، کوئی خاص ہدف نہیں۔ ڈاکٹر گیوین فائن سٹون بتاتی ہیں کہ ہم نے یہ نہیں سوچ رکھا کہ ایک ہی علاقے میں سو سکول قائم کر دیں اور سب کو بتاتے پھریں، بلکہ ہم ضرورت کے مطابق کام کریں گے۔ جہاں جتنی ضرورت ہو گی اتنے سکول قائم کریں گے اور وہاں اساتذہ کی تربیت کریں گے۔ڈاکٹر گیوین فائن سٹون، انیلا علی اور ان کی ٹیم ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے پاکستان کے ایک پس ماندہ علاقے میں تعلیم کا ایک چھوٹا سا دیا روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔تھرپارکر میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد تشویشناک ہے.تھرسندھ 2021 کے سروے کے مطابق، 5 سے 16 سال کی عمر کے 2,13,613 بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہ صورتحال بچوں کے مستقبل اور تعلیم کے حق کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔تعلیمی اصلاحات اور بچوں کو اسکول میں واپس لانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے ایک روشن مستقبل کے طرف قدم بڑھا سکیں۔

 

 

معصوم چہرے اور سادہ دل والے محمد شیرازسے ملئے

 


 یوٹیوب پر روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کر کے شہرت حاصل کرنے والے اس ننھے ستارے نے اپنی آمدنی کو وہ رخ دیا جس نے پورے گاؤں کی تقدیر بدل دی۔یہ شائد پچھلے برس کی بات ہے میں معمول کے مطابق کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی  کہ اچانک  یوٹیوب اوپن کیا تو ایک چھوٹا خوبصورت بچہ ماشااللہ  اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ کھڑا تھا    اس  نٹ کھٹ بچے نے اپنی بہن سے پوچھا 'تمھاری  عمر کیا ہے بہن نے جواب دیا دوسو پچاس 'اور بہن کے جواب میں بچہ کی کھلکھلاتی ہوئ ہنسی کے ساتھ کچھ دیر بہن کے جواب میں ہنستا  چلا گیا اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ اس بچے کا نام محمد شیراز ہے ااور اس کی چھوی بہن کا نام  مسکان ہے گلگت  بلتستان کے ضلع اسکردو کے خوبصورت علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد شیراز نے یوٹیوب پر اپنی روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت دنیا کے سامنے پیش کر کے بہت کم عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی گلگت بلتستان کے حسین وادی اسکردو سے تعلق رکھنے والے معصوم چہرے اور سادہ دل والے محمد شیراز نے یہ ثابت کر دیا کہ کامیابی صرف اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے بھی ہونی چاہیے۔


 یوٹیوب پر روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کر کے شہرت حاصل کرنے والے اس ننھے ستارے نے اپنی آمدنی کو وہ رخ دیا جس نے پورے گاؤں کی تقدیر بدل دی۔محمد شیراز کے ولاگز ہر عمر کے ناظرین کو مسحور کر دیتے ہیں۔ ان کی معصومانہ باتیں اور قدرتی انداز دیکھنے والوں کے دلوں کو چھو لیتے ہیں۔مگر حال ہی میں شیراز نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس نے سب کو حیران بھی کیا اور متاثر بھی۔انسٹاگرام پر شیراز نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں سب سے پہلے انہوں نے گاؤں کے ایک پرانے اسکول کی افسوسناک حالت دکھائی۔ بچے زمین پر بیٹھنے پر مجبور تھے، کلاس رومز ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اور سہولیات کا شدید فقدان تھا۔ پھر ویڈیو کا منظر بدلتا ہے اور وہی اسکول ایک شاندار عمارت میں تبدیل دکھائی دیتا ہے۔ جدید کلاس رومز، کھیل کے میدان اور جھولے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ خواب اگر نیک نیت سے دیکھے جائیں تو حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔   شیراز نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا:"لوگ پوچھتے ہیں کہ سوشل میڈیا سے مجھے کیا ملا؟ تو میرا جواب ہے: ہم نے اپنے گاؤں کا خستہ حال اسکول ایک جدید تعلیمی ادارے میں بدل دیا۔”


شیراز نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں میڈیا پر کام کرنے والا ہر شخص یہ سوچ لے کہ اگر سچے دل سے محنت کی جائے تو کسی ایک گاؤں یا شہر کی تقدیر بدل سکتی ہے، اور کامیابی کا اصل لطف تب ہے جب وہ دوسروں کے کام آئے۔گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو کے خوبصورت علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد شیراز نے یوٹیوب پر اپنی روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت دنیا کے سامنے پیش کر کے بہت کم عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔شیراز کے ولاگز ہر عمر کے افراد شوق سے دیکھتے ہیں اور ان کی معصومانہ گفتگو سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اب ننھے ولاگر نے ایک اور ویڈیو شیئر کی ہے جس میں شیراز نے بتایا کہ انہوں نے گاؤں کے لوگوں کے لیے مفت ایمبولنس سروس کا آغاز کیا ہے تاکہ مجبور اور مستحق افراد کی بروقت مدد کی جاسکے، کیونکہ ان کے مطابق ہر انسانی جان بہت قیمتی ہے۔ویڈیو میں شیراز نے کہا کہ گاؤں میں علاج و معالجے کے لیے کوئی اچھا ہسپتال موجود نہیں، اسی لیے لوگوں کو علاج کے لیے ایک سے دو گھنٹے کا سفر کرکے شہر جانا پڑتا ہے، جو نہ صرف مشکل ہے بلکہ اخراجات کے باعث اکثر لوگوں کی پہنچ سے بھی باہر ہوتا ہے۔


انہوں نے بتایا کہ گاؤں کی خواتین کو  بیماری  کے دوران شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے، جب کہ برف باری اور سخت سردی کی وجہ سے یہاں بزرگ، خواتین اور بچے سب بہت کٹھن زندگی گزارتے ہیں، ایسے حالات میں اگر کوئی بیمار ہوجائے تو ایمرجنسی میں شہر لے جانے کے لیے گاڑی بھی میسر نہیں آتی۔شیراز نے کہا کہ انہی مشکلات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک ایمبولنس خریدی ہے تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں بزرگوں، خواتین اور بچوں سمیت سب کو بروقت علاج کے لیے ہسپتال پہنچایا جاسکے۔گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو کے خوبصورت علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد شیراز نے یوٹیوب پر اپنی روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت دنیا کے سامنے پیش کر کے بہت کم عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی لگت بلتستان کے حسین وادی اسکردو سے لےتعلق رکھنے والےمعصوم چہرے اور سادہ دل والے محمد شیراز نے یہ ثابت کر دیا کہ کامیابی صرف اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے بھی ہونی چاہیے۔

 

اسکولز وکالجز آؤٹ سورس کرنے کی منظوری

  وزیر اعظم  شہباز شریف   کی حکومت کے حالیہ  فیصلے ' آؤٹ آف سورس کے عمل سے طلبہ اور اساتذہ  کیوں بے چین ہیں -اسکولز وکالجز آؤٹ سورس کرنے کی منظوری، خیبر پختونخوا میں طلبہ کا احتجاج -خیبر  پختونخوا کابینہ کا اسکول اور کالجز کو آؤٹ سورس کرنے کے خلاف طلباء اور اساتذہ سراپا احتجاج، حکومتی فیصلے کے خلاف صوبہ بھر میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے جبکہ ان کے ہمراہ اساتذہ اور خواتین لیکچررز بھی تھیں۔ جنہوں نے حکومتی فیصلہ مسترد کردیا۔وزیرِ اعلیٰ کے مشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے بتایا کہ کابینہ نے سرکاری کالجز میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کیلیے عارضی بنیادوں پر بھرتی کی منظوری دی ہے، اس فیصلے کی روشنی میں تین ہزار سے زائد اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے، ان عارضی اساتذہ کی بھرتی پر سالانہ تین ارب روپے لاگت آئے گی


 اسکول وکالج آؤٹ سورس کرنے کی منظوری دینے کے ساتھ صوبائی کابینہ نے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کو بی اے کی ڈگری کے مساوی ملازمت کیلیے موزوں قرار دینے کی منظوری دی، صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری تعلیمی اداروں کو آؤٹ سورس کرنے کے مجوزہ فیصلے کیخلاف صوبہ کے مختلف اضلاع میں کالجز کے طلبہ اور اساتذہ سراپا احتجاج بن گئے۔ضلع مردان میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے طلبا نے مین کالج چوک کو ہر قسم کی ٹریفک کیلیے بند کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی، اسی طرح مردان میں بھی کپلا کی کال پر حکومت کی طرف سے سرکاری کالجز کی آؤٹ سورسنگ اور سروس رولز میں مجوزہ تبدیلیوں کے خلاف احتجاج اور کلاسز کا بائیکاٹ کیا گیا۔


سوات کے علاقہ مٹہ میں مختلف سرکاری کالجز کے طلبہ نے کالجوں کی نجکاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے مٹہ چوک میں جمع ہو کر سڑک کو ٹریفک کے لیے بند رکھا اور صوبائی حکومت کے خلاف نعرے لگائے، اسی طرح تیمرگرہ میں آؤٹ سورسنگ پالیسی کے خلاف گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج تیمرگرہ کے ٹیچنگ اسٹاف نے کلاسز سے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا، کپلا لوکل یونٹ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میں آج سے کلاسز کا مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا۔اس طرح ہری پور میں تعلیمی اداروں کو آؤٹ آف سورس کرنے کے خلاف گورنمنٹ گرلز پوسٹ گریجویٹ کالج میں اساتذہ اور طالبات نے احتجاج کیا،



تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف جمعرات کو گورنمنٹ کالج کوٹھا اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا نے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا، مظاہرین نے اس دوران روڈ کو بطور احتجاج بند رکھا اور سرکاری تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیاضلع مردان میں بھی سرکاری کالجز کو آؤٹ سورس کرنے کے خلاف احتجاج دوسرے روز بھی جاری رہا، پروفیسرز، لیکچررز اور لائبریرینز نے کلاسز سے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا، اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکومت فیصلہ واپس لے ورنہ احتجاج جاری رہے گا، کالج میں مظاہرین کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر