بلا شبہ ہجرت کے مصائب بچوں کو وقت سے بہت پہلے ہی شعور کی منزل پر لا کر کھڑا کر دیتے ہیں اسی لئے میرا بچپن بھی عام بچّوں کے بچپن جیسا نہیں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کے گھروں میں پانی کے لئے علاقے میں پانی کے ٹینکر آیا کرتے تھے اور میں بہت چھوٹی سی عمر میں ٹینکرکی آواز محلّے میں آتے ہی اپنا کنستر لےکر پانی لینے والوں کی لائن میں کھڑی ہو جاتی تھی ،اور ہمارے محلّے کا کوئ خداترس انسان میرا کنستر بھر کر ہمارے دروازے تک یا گھر کے اندر تک رکھ جایا کرتا تھا اس کے علاوہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ماشکی بھی صبح شام ایک ایک مشک پانی معمو لی قیمت پر ڈال جاتا تھا پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد پانی کے ٹینکر کا آنا موقو ف ہو گیا اورہماری گلی کے ختم پر ایک عدد حوضی بنا کر اس میں سرکاری نل سے پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا،میرے والد صاحب ،،اپنے والد صاحبکے تذکرے کے تصّور سے ہی بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہین کیونکہ مجھے اپنے والدکا بنک جانے سے پہلے نمازر کے وقت حوضی سے پانی بھرنا یاد آرہا ہے
میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کاموں میں والد کا ہاتھ بٹا سکتی لیکن زرا سا وقت گزرنے پر گھر میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے میں نے یہ ڈیوٹی اپنے زمّے لے لی تھی ،اسوقت ایک خدا ترس انسان نے اپنے گھر کے سامنے ایک کنواں بنوا کر وقف عام کر دیا تھا چنانچہ میں نے زرا سا ہوش سنبھانے پر یہ اہم ڈیوٹی اپنے زمّہ لے لی تھی کہ والد صاحب کے لائے ہوئے پانی کے علاوہ جو بھی کمی ہوتی اسے خود سے چھوٹے چھوٹے ڈول لے جا کر پانی بھر کر لے آیا کرتی تھی اور گھر میں پانی کی کمی پوریکر دیا کرتی تھی اس وقت ہمارے محلّے میں کوئ حوضی نہیں بنی تھی لیکن اپنے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے سے کنوئین سے پانی بھر کر لانے لگی اس کنوئیں میں چمڑے کی بالٹی ایک مو ٹے رسّے کے زریعے کنوئیں کی تہ تک اتار کر بھر لی جاتی اور پھر الٹی چرخی چلا کر پانی کھینچ لیا جاتا تھا ،یہ ایک بہت محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن میں اس کام کو بھی سر انجام دے لیا کرتی تھی
اس کے علاوہ جھٹ پٹا ہوتے ہی گھر کی لالٹینیں اور لیمپ روشن کرنا بھی میرے زمّے تھا میں سب لالٹینوں کی چمنیاں نکال کر ان کو چولھے کی باریک سفید ریت سے صاف کرتی پھر صابن سے دھو کر خشک کرتی تھی تو لالٹین کی روشنی بہت روشن محسوس ہوتی تھی،کوئلو ں کی سفید راکھ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کو یونہی چھوڑ دیا جاءے تووہ خود بخود بجھتے جاتے ہیں اور ان کے اوپر سفید راکھ کی موٹی تہ جمتی جاتی ہے یہ راکھ دیگچیوں کے پیندوں کو اجلا کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی میں اس راکھ کو ایک ڈبّے میں محفوظ کر لیتی تھی اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اہم ڈیوٹی گھر میں جلانے کے لئے ٹال سے لکڑیاں لانے کی بھی تھی ،اور یہ کام کوئ مجھ سے جبریہ نہیں کرواتا تھا بلکہ میں اپنی والدہ کے لئے کام کی سہولت چاہتی تھی
میرے بچپن کے اس دور میں ہمارے گھر میں کھانا پکانے کے لئے لکڑی استعمال ہوتی تھی۔ جب تک کہ ہمار ے علاقے میں لکڑی کی ٹال نہیں کھلی تھی میں تب تک میں خود اپنے بازوؤں پر لکڑیاں ا ٹھا کر لاتی رہی پھر ہماری گلی کی کونے پر ایک ٹال کھل گئ تھی جسے ابا جان ہر مہینے پابندی سے پیسے دے آتے تھے اورٹال والا ہمارے صحن کے ایک کونے میں دو من لکڑی ڈال جاتاتھا۔ لکڑی کا بہت خیال رکھاجاتا تھا کہ کہیں وہ بارش میں بھیگ نا جائے -آسمان پر بادل دیکھتے ہی اس پر ترپال ڈال دی جاتی تھی۔ گیلی لکڑی کی سزا پورے گھرکوبھگتنی پڑتی تھی۔ دھواں باورچی خانے سے نکل کر برآمدے سے ہوتا ہوا سارے کمروں میں پھیل جاتا تھا اور اس کی جلن اور چبھن سے آنکھوں سے پانی بہنے لگتا تھا۔-لکڑی پر کھانا پکانے سے ہانڈیوں کے اوپر سیاہ دھوئیں کی کافی ناگوار سیاہی جم جاتی ہے لیکن اگر ملتانی مٹی کا لیپ کر دیا جائے تو ہانڈیاں بری نہیں لگتی ہیں -میں نے ملتانی مٹی کو کٹورے میں بھگو کر رکھنا شروع کیا اور ہانڈیوں کے پیندے صاف دکھائ دینے لگے