ائیر مارشل نور خان سے پہلے ائیرمارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے سربراہ تھے۔ انھوں نے پاک فوج کے طیارے اور سازوسامان حاصل کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔ انھوں نے پائلٹوں کی تربیت کے لیے بھی بہت محنت کی لیکن اپریل، مئی 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میں رن آف کچھ کے تنازعے پر انھوں نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو فون کر کے دونوں ممالک کی ائر فورسز کو اس تنازعے سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ بادی النظر میں یہ اقدام معمولی نظر آتا ہے لیکن اس سے فضائیہ کے مورال پر بہر طور منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اصغر خان کے اس طرز عمل پر 23 جولائی 1965 کو آنے والے ائر چیف نور خان نے شدید تنقید کی تھی اور فوری طور فضائیہ کو الرٹ پر ڈال کر کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں پروازیں شروع کرادی تھیں۔ جس سے پاک فضایہ جنگ کے لیے تیار ہو گئی اور اس نے جنگ میں بہترین مہارت کا ثبوت دیا۔
ائرہیڈ کوارٹر ماری پور (کراچی) میں تھا اور بعد کو پشاور منتقل ہوا۔ اس منتقلی سے پہلے وہاں پر فلائنگ بیس کے علاوہ بہت سے دفاتر بھی تھے جو ملک کے شمالی حصے کی فضائی نگرانی کرتے تھے۔ ان کے سربراہ ائر وائس مارشل نورخان تھے جو ائر آفیسر کمانڈنگ (AOC) کہلاتے تھے۔ اب نور خان صاحب میں ایک خاص صلاحیت تھی وہ ایک اچھے کھلاڑی کو فوراً بھانپ لیتے تھے۔ کھلاڑی کسی کھیل کا ہو، اس سے بحث نہیں، مگر اس میں آگے بڑھنے کی رمق ہوتی تو وہ نور خان صاحب کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتی تھی۔ پشاور کے قریب ایک چھوٹا سا گائوں تھا، بلکہ اب بھی ہے، جسے غالباً نواں کلی کہتے ہیں۔ وہاں کے بیشتر رہنے والے پشاور ائر فورس بیس پر ملازم تھے۔ آفیسر میس کے تمام بیرے تو تقریباً اسی گائوں سے تھے، ان کے علاوہ جو ٹینس اور سکوائش کھلانے پر معمور تھے، یعنی ان دو کھیلوں کے مارکر، وہ بھی اسی گائوں سے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام تھا ہاشم، جو سکوائش کھلایا کرتا تھا۔
اب نور خان صاحب نے کہیں اسے کھیلتے دیکھ لیا اور انہیں اس میں کچھ ایسی صلاحیت نظر آئی کہ وہ اسے انگلستان بھیجنے پر تُل گئے تاکہ وہ عالمی مقابلہ جیت سکے۔ یہ غالباً 1959ء کا واقعہ ہے۔ اسے بھیجنے کا خرچ پورا کرنے کے لیے انہوں نے افسروں سے چندے کی اپیل کی۔ مجھے یاد ہے میں نے بھی اس کارخیر کے لیے دس بیس روپے دیے تھے۔ بہرحال نورخان صاحب نے کسی نہ کسی طرح اپنے پشاور آفیسر میس کے سکوائش مارکر کو لندن بھجوا دیا اور سکوائش کی دنیا میں ایک نیا نام ابھرا… ہاشم خان۔ اس کے بعد تو اس کے عزیز و اقارب سکوائش کی دنیا پر چھا گئے۔ ہاشم خان نے جو کمال کر دکھایا وہ تو اپنی جگہ مگر نورخان صاحب کی نظر کا کمال بھی بھلایا نہیں جا سکتاہے اگر غازی ایم ایم عالم کا ذکر کریں تو وہ 1965ء میں انہوں نے وہ عالمی فضائی ریکارڈ قائم کیا جس کو آج تک کوئی توڑ نہیں پایا۔انہوں نے بھارت کے کل 9طیاروں کو مارگرایا جبکہ ایک منٹ میں 5 طیارے مار گرانے کا ریکارڈ الگ ہے۔
ایم ایم عالم نے پوری فارمیشن کوٹارگٹ کیا۔ 6 ستمبر کو پاک فضائیہ نے پٹھانکوٹ، جام نگر، آدم پور، ہلواڑہ، کلائی کنڈا اور باغ دوگرا پر کامیاب حملے کرکے اہدا ف حاصل کیے۔7 ستمبر کو بھارتی ایئر فورس نے 33 حملے کیے لیکن وہ شاہینوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔1965ء کی جنگ میں ایئر چیف، پائلٹس انجینئرز اور دیگر زمینی عملے نے مل کر شب و روز کام کیا اورملک کا نہ صرف کامیاب دفاع کیا بلکہ دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ تقسیم کے وقت یہ بے ایمانی کی گئی تھی کہ فوج اور ایئر فورس کو اس کا پورا سامان نہیں دیا گیا تھا لیکن کم وسائل کے باوجود بھارت کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا گیا۔
اس جنگ کے پہلے دو دنوں میں ہی بھارت کے 35 جہاز تباہ ہوگئے تھے۔پاک فضائیہ نے بھارت کے کل 110 طیارے مارگرائے۔ ہر سال 7 ستمبر کو یوم فضائیہ ان شہدا اور غازیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر ملک وقوم کا دفاع کیا اور بھارت کے لاہور اور سیالکوٹ پر قبضے کے خواب کو خاک میں ملا دیا۔شہیدسرفراز احمد رفیقی اور یونس حسین شہید جیسے جانباز پائلٹس کے جسدِ خاکی بھی بھارت نے واپس نہیں کیے اور وہ بھارت میں ہی مدفون ہیں۔شاہینوں کا جذبہ اب بھی تازہ دم ہے