ہفتہ، 16 اگست، 2025

ہمارے وطن کی فضایہ کے قابل فخر شاہین

 



 ائیر مارشل نور خان سے پہلے ائیرمارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے سربراہ تھے۔ انھوں نے پاک فوج کے طیارے اور سازوسامان حاصل کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔ انھوں نے پائلٹوں کی تربیت کے لیے بھی بہت محنت کی لیکن اپریل، مئی 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میں رن آف کچھ کے تنازعے پر انھوں نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو فون کر کے دونوں ممالک کی ائر فورسز کو اس تنازعے سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ بادی النظر میں یہ اقدام معمولی نظر آتا ہے لیکن اس سے فضائیہ کے مورال پر بہر طور منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اصغر خان کے اس طرز عمل پر 23 جولائی 1965 کو آنے والے ائر چیف نور خان نے شدید تنقید کی تھی اور فوری طور فضائیہ کو الرٹ پر ڈال کر کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں پروازیں شروع کرادی تھیں۔ جس سے پاک فضایہ جنگ کے لیے تیار ہو گئی اور اس نے جنگ میں بہترین مہارت کا ثبوت دیا۔



ائرہیڈ کوارٹر ماری پور (کراچی) میں تھا اور بعد کو پشاور منتقل ہوا۔ اس منتقلی سے پہلے وہاں پر فلائنگ بیس کے علاوہ بہت سے دفاتر بھی تھے جو ملک کے شمالی حصے کی فضائی نگرانی کرتے تھے۔ ان کے سربراہ ائر وائس مارشل نورخان تھے جو ائر آفیسر کمانڈنگ (AOC) کہلاتے تھے۔ اب نور خان صاحب میں ایک خاص صلاحیت تھی وہ ایک اچھے کھلاڑی کو فوراً بھانپ لیتے تھے۔ کھلاڑی کسی کھیل کا ہو، اس سے بحث نہیں، مگر اس میں آگے بڑھنے کی رمق ہوتی تو وہ نور خان صاحب کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتی تھی۔ پشاور کے قریب ایک چھوٹا سا گائوں تھا، بلکہ اب بھی ہے، جسے غالباً نواں کلی کہتے ہیں۔ وہاں کے بیشتر رہنے والے پشاور ائر فورس بیس پر ملازم تھے۔ آفیسر میس کے تمام بیرے تو تقریباً اسی گائوں سے تھے، ان کے علاوہ جو ٹینس اور سکوائش کھلانے پر معمور تھے، یعنی ان دو کھیلوں کے مارکر، وہ بھی اسی گائوں سے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام تھا ہاشم، جو سکوائش کھلایا کرتا تھا۔



اب نور خان صاحب نے کہیں اسے کھیلتے دیکھ لیا اور انہیں اس میں کچھ ایسی صلاحیت نظر آئی کہ وہ اسے انگلستان بھیجنے پر تُل گئے تاکہ وہ عالمی مقابلہ جیت سکے۔ یہ غالباً 1959ء کا واقعہ ہے۔ اسے بھیجنے کا خرچ پورا کرنے کے لیے انہوں نے افسروں سے چندے کی اپیل کی۔ مجھے یاد ہے میں نے بھی اس کارخیر کے لیے دس بیس روپے دیے تھے۔ بہرحال نورخان صاحب نے کسی نہ کسی طرح اپنے پشاور آفیسر میس کے سکوائش مارکر کو لندن بھجوا دیا اور سکوائش کی دنیا میں ایک نیا نام ابھرا… ہاشم خان۔ اس کے بعد تو اس کے عزیز و اقارب سکوائش کی دنیا پر چھا گئے۔ ہاشم خان نے جو کمال کر دکھایا وہ تو اپنی جگہ مگر نورخان صاحب کی نظر کا کمال بھی بھلایا نہیں جا سکتاہے اگر غازی ایم ایم عالم کا ذکر کریں تو وہ 1965ء میں انہوں نے وہ عالمی فضائی ریکارڈ قائم کیا جس کو آج تک کوئی توڑ نہیں پایا۔انہوں نے بھارت کے کل 9طیاروں کو مارگرایا جبکہ ایک منٹ میں 5 طیارے مار گرانے کا ریکارڈ الگ ہے۔


ایم ایم عالم نے پوری فارمیشن کوٹارگٹ کیا۔ 6 ستمبر کو پاک فضائیہ نے پٹھانکوٹ، جام نگر، آدم پور، ہلواڑہ، کلائی کنڈا اور باغ دوگرا پر کامیاب حملے کرکے اہدا ف حاصل کیے۔7 ستمبر کو بھارتی ایئر فورس نے 33 حملے کیے لیکن وہ شاہینوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔1965ء کی جنگ میں ایئر چیف، پائلٹس انجینئرز اور دیگر زمینی عملے نے مل کر شب و روز کام کیا اورملک کا نہ صرف کامیاب دفاع کیا بلکہ دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ تقسیم کے وقت یہ بے ایمانی کی گئی تھی کہ فوج اور ایئر فورس کو اس کا پورا سامان نہیں دیا گیا تھا لیکن کم وسائل کے باوجود بھارت کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا گیا۔


 اس جنگ کے پہلے دو دنوں میں ہی بھارت کے 35 جہاز تباہ ہوگئے تھے۔پاک فضائیہ نے بھارت کے کل 110 طیارے مارگرائے۔ ہر سال 7 ستمبر کو یوم فضائیہ ان شہدا اور غازیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر ملک وقوم کا دفاع کیا اور بھارت کے لاہور اور سیالکوٹ پر قبضے کے خواب کو خاک میں ملا دیا۔شہیدسرفراز احمد رفیقی اور یونس حسین شہید جیسے جانباز پائلٹس کے جسدِ خاکی بھی بھارت نے واپس نہیں کیے اور وہ بھارت میں ہی مدفون ہیں۔شاہینوں کا جذبہ اب بھی تازہ دم ہے

زہانت کا پیکر افتخار عارف

  

  ایک ادیب ہو یا  شاعر ہو اس کے فن  میں  پختگی  اس وقت آتی ہے جب فنکار حالات و واقعات  پر مظبوط گرفت رکھتا ہو -اسی گرفت کی خوبی کے سبب  فنکار کا رشتہ اپنے قاری سے قریب تر ہوتا جاتا ہے ۔ اور افتخار عارف  کا کلام جدید اردو شاعری میں ایک منفرد آواز کے ساتھ قاری کے دل و دماغ پر دیر تک چھایا رہتا ہے۔اور ابلاغی تاثیر خود بخود قاری کو  اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔افتخار عارف کا کلام ایک ایسا جدید گلدستہ ہے جو کلاسیکی گلزار سخن کے رنگ و خوشبو سے ہم آمیز ہے۔کلاسیکی لفظیات کو نئے مفاہیم کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔لفظ کے مزاج سے واقفیت رکھتے ہیں اس لیے بیشتر اشعار میں زبان کا خلاقانہ اظہار ہوا ہے۔انھوں نے پرانی غزل کے احساس کے ساتھ ساتھ نئی غزل کے تقاضوں کو بھی پورا کیا ہے۔-افتخار عارف نے جس طرح ایک عام موضوع پر قلم اٹھایا اور اسے ایک خاص شعری ہیئت میں ڈھال کر ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کر کے جو حسن بخشا وہ واقعی امتیازی وصف کے لائق ہے۔


 افتخار عارف 21مارچ 1944کو لکھنو ٔ میں پیدا ہوئے ان کا خاندان تعلیم یافتہ تھا خود انھوں نے لکھنؤیونی ورسٹی سے ایم اے کیا اور عملی زندگی میں اتر آئے ۔ریڈیو پاکستان میں نیوز کاسٹر کی حیثیت سے منسلک ہوئے اور دس روپئے فی بلیٹن کے حساب سے خبریں پڑھنے لگے۔کچھ دنوں کے بعد پی ٹی وی سے جڑ گئے اور خوب محنت سے کام کیا ۔ان کا پروگرام ’’کسوٹی ‘‘ بہت زیادہ پسند کیا گیا ۔تمام لوگوں نے اس پروگرام کو کافی سراہا ۔افتخار عارف علمی و ادبی حوالے سے کہیں آگے نکل جانے کے بائوجود آج بھی ’’کسوٹی ‘‘سے پہچانے جاتے ہیں ۔کسوٹی نے گھر گھر ان کی ذہانت کا چرچا کیا۔اس عہد نے افتخار عارف کو منفردشناخت بخشی انہوں نے  ان عہدوں پر بہترین کا م کیا ۔1977  سے  1980تعلقات عامہ بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس لندن۔پھر1981تا1990ایگزیکٹو انچارج، اردو مرکز لندن افتخار عارف نے اپنی بہترین انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر اردو مرکز لندن کو پوری دنیا میں متعارف کرایا۔ 


1990میں مرکز بند ہوگیا افتخار عارف پاکستان واپس آگئے یہاں ایک بار پھر انھیں محبت و عزت سے نوازاگیا ۔حکومت پاکستان نے 19مئی 1991کو انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائرکٹر جنرل بنایا اس عہدے پر وہ 1995تک رہے ۔پھر آگے چل کر انھیں مقتدرہ قومی زبان کا صدر بنایا گیا۔یہاں بھی وہ اپنے منصب کے تقاضے بحسن خوبی نبھاتے رہے۔انھوں نے لا تعداد کتابوں کے فلیپ اور مقتدرہ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے منصوبوں کے ابتدائیے لکھے۔افتخار عارف کی ادبی ارتقا کی اولین شناخت ان کی شاعری ہےجدیداردو شاعری میں ایک اہم نام افتخار عارف کا ہے ۔وہ حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں ،افتخار عاف کے یہاں کلاسیکی شاعری کا مطالعہ بہت عمیق ہے۔مروجہ اوزان اور بحروں کو بھی نئے تجربے کے ساتھ خوب استعمال کیے ہیں ۔افتخار عارف نے پرانی اور مذہبی تلمیحات کو اپنی شاعری میں استعمال کرکے تنوع پیدا کیا ہے اور دور حاضر کے مسائل سے ہم آہنگ کرکے اردو ادب کے دامن کو خوب وسعت بخشی ہے۔افتخار عارف اپنی شاعری میں ایسی تاثیر عطا کرتے ہیں جو پڑھنے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے ،اور شعری لوازمات کا بھر پور استعمال کی وجہ سے ان کی شاعری میں چار چاند لگ جاتا ہے۔انھوں نے نہ صرف علامتوں،مبالغوں،استعاروں اور تلمیحوں کو وسعت دی ہیں بلکہ ہم عصر مسائل کو بھی اپنی شاعری میں بحسن خوبی پیش کیا ہے۔


جب افتخار عارف  نے بھی وطن سے دوری  کےعذاب جھیلے اور  یہ دکھ ان کی شاعری میں سمٹ   آئے     تو انھیں دنیا کے  ہر منظر کی کشش سے زیادہ وطن عزیز کی کشش  نظر آتی ہے۔وطن سے لگا ؤ گھر کی بے گھری گھر کے احوال کی نشان دہی اور گھر کے منظر سے اسودگی افتخار عارف کو جدید شاعروں میں سب سے الگ اور نمایاں کرتی ہیں۔ان کا ذخیرہ الفاظ اس قدر صاحب ثروت ہے کہ وہ جیسے چاہتے ہیں انھیں صفحہ قرطاس پر موتیوں کی طرح بکھیرتے چلے جاتے ہیں ۔انھیں کبھی الفاظ کی کمی نہیں پڑتی اور اپنے احساس افکار اور گفتار کو پیراہن و پیکر عطا کرنے کی دولت سے مالا مال ہیں ۔حسی تجربہ شاعر کے لاشعور میں پوری طرح جڑیں پکڑ لیتا ہے تو کسی آمد کے لمحے میں ذہن کے روشن حصے کی طرف آجاتا ہے۔اب شاعر اسے پوری ذہنی بیداری کے ساتھ دیکھتا ہے،اور جو کچھ دیکھتا ہے ایک فطری سحر کاری کے ساتھ الفاظ میں بیان کردیتا ہے۔


افتخار عارف کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں حسی تجربے کے ساتھ ذہنی عمل کی مناسب کار فرمائی موجود ہے سچے اور اچھے فنکار کی پہچان یہ ہے کہ وہ عام زمان و مکان سے الگ دوسرا زمان و مکان اپنے اندر رکھتا ہو۔اور بالکل اسی طرح انسان کو ایک کھلاڑی سے تعبیر کرکے اس کو اپنی باری کا منتظر دکھایا ہے۔جو اپنا کردار ادا کرنے کا منتظر ہے۔یعنی ہم زندگی کے کھیل میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔آخیر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ افتخار عارف کی شاعری زندگی کی بولتی قدروں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہوئے اپنے لہجہ کی الگ پہچان بنائی ہے۔ افتخار عارف کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچی ہو ں کہ علامہ اقبال نے بلکل صحیح کہا تھا 
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جمعہ، 15 اگست، 2025

کالج آف نرسنگ شیخ زید میڈیکل کالج رحیم یار خان

 




  شیخ زیدسلطا ن النہیان نے بنفس نفیس  رحیم یار خان میں جن فلاحی کاموں کا بیڑہ اٹھا یا ان میں  میڈیکل کالج رحیم یار خان اس لئے سر فہرست مانا جائے گا کہ اس کا تعلق  صحت کے شعبے سے ہے ،PHA  -انڈرگریجویٹ پروگرام-کالج پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، پاکستان نرسنگ کونسل اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ذریعے تسلیم شدہ انڈر گریجویٹ پروگرام پیش کر رہا ہے۔ ، یہ ایک پبلک میڈیکل کالج ہے جو رحیم یار خان، پنجاب، پاکستان میں واقع ہے۔ اس کا نام شیخ زید بن سلطان النہیان کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔ میڈیکل کالج کا الحاق شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان سے ہے جس میں 900 بستر ہیں اور یہ ضلع رحیم یار خان کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔ شیخ زید میڈیکل کالج مارچ 2003 میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، رحیم یار خان میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ رحیم یار خان میں جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال ہے۔



 شیخ زید میڈیکل کالج (جے ایس زیڈ ایم سی) کا جریدہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سپورٹ یونٹ، شیخ زید میڈیکل کالج/ہسپتال، رحیم یار خان کے تحت انسٹی ٹیوٹ اور ریجن میں ہیلتھ ریسرچ پبلیکیشن کے مرکز کے طور پر کام کر رہا ہے۔شیخ زید میڈیکل کالج رحیم یار خان انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ایجوکیشن کے لیے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ذریعے تسلیم شدہ۔ہر سال، کالج یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، لاہور کے زیر اہتمام داخلہ امتحان کے ذریعے اوپن میرٹ پر 150 طلبہ کو داخلہ دیتا ہے۔ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان کے ذریعے تسلیم شدہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور سے الحاق شدہ۔ الحاق شدہ ادارے-شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان ( پہلے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے نام سے جانا جاتا تھا ) ایم بی بی ایس-ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی-بی ایس سی (آپریشن تھیٹر ٹیکنالوجی -بی ایس سی (میڈیکل لیبارٹری ٹیکنالوجی)بی ایس سی آنرز۔ (میڈیکل امیجنگ ٹیکنالوجی) نر  سنگ ڈپلوماپوسٹ گریجویٹ پروگرام


-شیخ زاید میڈیکل کالج اور اس سے منسلک ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ذریعے تسلیم شدہ ہیں اور درج ذیل میں تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ان پروگراموں میں داخلہ پنجاب ریذیڈنسی پروگرام کے تحت سنٹرل انڈکشن پالیسی کے ذریعے ہے۔ شعبه جات-اناٹومی-بائیو کیمسٹری-کمیونٹی میڈیسن- فرانزک دوا-پیتھالوجی-فارماکولوجی-فزیالوجی-طب اور اس سے متعلقہ محکمے۔کارڈیالوجی-ڈرمیٹولوجی-عام دوا-نیورولوجی-اطفال-بنیادی سائنس کے شعبے  - روک تھام کی دوانفسیات-پلمونولوجی ( سینے کی دوا )-ریڈیو تھراپی-یورولوجیسرجری اور متعلقہ شعبہ جات-اینستھیزیالوجی-کارڈیک سرجری--کاسمیٹک سرجری-جنرل سرجری-نیورو سرجریپرسوتی اور امراض نسواں-امراض چشم-زبانی اور میکسیلو فیشل سرجری-آرتھوپیڈکس-


Otorhinolaryngologyپیڈیاٹرک سرجری-ریڈیولوجی-سٹوڈنٹ سوسائٹیزشیخ زید میڈیکل کالج میں درج ذیل سوسائٹیز طلبہ کے لیے کام کر رہی ہیں:زیدیان آگاہی اور ادبی سوسائٹی (ZALS)زیدیان میڈیا آرٹس اینڈڈرامیٹکس(ZMAD)زیدیان ایتھلیٹک اینڈ اسپورٹس کلب (ZASC)زیدیان بلڈ ڈونر سوسائٹی (ZBDS)پسماندہ طبی امداد کے نیٹ ورک کی مدد کرنا (HUMANe)پیشنٹ کیئر سوسائٹی (PCS)SZMC کے طالب علم نے مصر میں اپنے الما میٹر کی نمائندگی کی۔انڈرگریجویٹ ریسرچرز


-شیخ زید میڈیکل کالج کے طلبہ کو ہمیشہ اصل تحقیق کرنے، دنیا بھر میں قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں مقالے پیش کرنے اور ہم مرتبہ نظرثانی شدہ جرائد میں شائع ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ایس زیڈ ایم سی کے ایک طالب علم نے اپریل 2006 میں لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز حیدرآباد میں منعقدہ پاکستان فزیالوجیکل سوسائٹی کی 10ویں دو سالہ بین الاقوامی فزیالوجی کانفرنس میں بہترین پیپر پریزنٹیشن کا ایوارڈ جیتا تھا] SZMC کے طلبہ نے پہلی سارک، شفا کالج آف میڈیسن، اسلام آباد میں نومبر 2008 میں منعقدہ 11ویں دو سالہ بین الاقوامی فزیالوجی کانفرنس میں 5 اصل تحقیقی مقالے پیش کیے تھےSZMC کے ایک طالب علم نے فروری 2009 میں قاہرہ میں 17ویں بین الاقوامی عین شمس میڈیکل اسٹوڈنٹس کانگریس میں اپنا مقالہ پیش کیا  ایس زیڈ ایم سی کے طلبہ نے ایم بی بی ایس کے دوران اپنے اصلی تحقیقی مقالے معروف قومی جرائد میں شائع کیے ہیں۔


بدھ، 13 اگست، 2025

شیخ زید النہیان جن کا دوسرا گھر رحیم یار خان

      شیخ  زید  النہیان  کا جب  پاکستان سے دوستانہ  استوار ہو  تب انہوں نے اپنے لئے   چولستان کے علاقے میں ایک  تعمیر کرنے کا ارادہ بنایا ایک محل اور اس کے لئے  رحیم یار خان شہر سے چند کلومیٹر کی دوری پر  ایک قطعہ زمین کا انتخاب کیا گیا   پھر محل اور شہر سے آمدو رفت کے لیے ایئرپورٹ سے محل تک  خصوصی شاہراہ تعمیر ہوئی۔ اور پھر یہ محل اور یہ شاہراہ  پنجاب کے لوگوں کے لئے  بہت کشادگی کا باعث بن گئ  رفتہ رفتہ شہر کا پھیلاؤ بھی اسی جانب ہوتا چلا گیا اور اب محل سے صرف کچھ ہی فاصلے پرحکمران نہیں، پوری حکومت آتی تھی رئیس عباس زیدی کے مطابق ستر کی دہائی میں پہلی بار شیخ زید نے رحیم یار خان ضلع میں سرکاری زمین لیز پر حاصل کی جو ریگستان میں واقع تھی۔ان کے مطابق اس کے بعد ان کے دور میں چار ہزار ایکڑ مزید زمین لیز پر لی گئی جو بنجر اور بے آباد تھی۔ ’وہاں پانی نہیں تھا لیکن اس زمین کو آباد کیا گیا، سڑکیں بنائی گئیں، اور صحرا کے خانہ بدوشوں کی زندگی بدل گئی۔‘تاہم رئیس عباس زیدی کے مطابق بطور ڈپٹی کمشنر متحدہ عرب امارات کے حکمران کی رحیم یار خان آمد کے بعد ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری بڑھ جایا کرتی تھی۔


جب شیخ زید زیادہ عرصے کے لیے آتے تھے تو ان کی مجلس یعنی کابینہ کا اجلاس بھی ادھر ہی ہوا کرتا تھا اور اکثر دوسرے ممالک کے عہدیداران ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس دوران بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں جو خود شیخ زید سے ملنے آیا کرتی تھیں جبکہ نواز شریف اپوزیشن لیڈر تھے، وہ بھی آتے تھے۔‘رئیس عباس زیدی کہتے ہیں کہ ’محل میں شیخ زید کے کمرے کے باہر چیتے کی کھال لگی تھی جو ذوالفقار علی بھٹو نے تحفہ کے طور پر دی تھی اور ان کی ہدایت تھی کہ اس کھال کو ہٹایا نہ جائے۔‘عرب حکمرانوں کا شکار کے لیے پاکستان آنے کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ ایک خیال یہ ہے کہ پاکستان میں خلیجی ممالک کے سربراہان کی شکار کے لیے آمد کا باقاعدہ سلسلہ جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت سے شروع ہوا تھا۔جبکہ ایک اور عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں عرب حکمرانوں کی شکار کے ارادے سے آمد کا سلسلہ 1970 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تیل کی دولت سے مالامال مشرق وسطی کی ریاستوں سے بہتر تعلقات استوار کیے۔


مصنف ندیم فاروق پراچہ کی ایک تحریر میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1970 کی دہائی کے وسط میں رحیم یار خان شکار کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کا پسندیدہ علاقہ بن گیا کیونکہ ان کے اپنے صحراؤں میں تلور معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ یہ شیوخ دسمبر سے فروری کے مہینوں میں آتے کیونکہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں نایاب سمجھا جانے والا پرندہ تلور موسمِ سرما گزارتا ہے۔رفتہ رفتہ یہ حکومت اور مقامی لوگوں کے لیے منافع بخش کام بھی بن گیا۔ 2019 میں معاشی امور پر رپورٹ کرنے والے جریدے ’دی اکانمسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ ڈالر کے عوض شکار گاہ، ایک لاکھ ڈالر کے عوض دس دن کا اجازت نامہ دیا جانے لگا جس کے تحت صرف سو تلور کے شکار کی اجازت دی جاتی اور ہر تلور کے عوض ایک ہزار ڈالر اضافی دینا ہوتے۔



تاہم اس سے قبل یہ معاملہ اس وقت متنازع ہو گیا تھا جب بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014 میں اپنے ایک فیصلے میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد اگست 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کرنے کے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔تاہم پھر جنوری 2016 میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔اس وقت جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلے میں لکھا تھا کہ عالمی ادارہ برائ ے جنگلی حیات نے تلور کو اُن پرندوں میں شامل نہیں کیا جن کی نسل معدوم ہو رہی ہے اور اقوامِ متحدہ کا کنونشن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان نسلوں کی افزائش کر کے شکار کیا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ قانون کا جائزہ لے کر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تلور کے شکار پر مستقل پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔


شیخ زید النہیان کا ’دوسرا گھر‘تحقیق سے علم ہوتا ہے کہ ستر کی دہائی میں شیخ زید نے رحیم یار خان میں فلاحی منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ڈان اخبار کی 24 جنوری 1974 کی خبر کے مطابق اس دن شیخ زید نے رحیم یار خان کے محل میں ایک پریس کانفرنس کی اور اعلان کیا کہ شہر سے صحرا تک 19 میل طویل سڑک تعمیر کروائی جائے گی جبکہ ہسپتال اور مسجد کی تعمیر کا اعلان بھی کیا گیا۔ شہر کے ڈپٹی کمشنر نے اس سڑک کا نام شیخ زید روڈ رکھنے کا اعلان کیا۔رئیس عباس زیدی، جو اس وقت پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں، 1993 سے 1996 تک رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ان کا دعویٰ ہے کہ ’متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ زید اس وقت بھی رحیم یار خان آیا کرتے تھے جب ان کا ملک تیل کی وجہ سے امیر نہیں ہوا تھا۔‘شیخ زید کے رحیم یار خان سے تعلق کے بارے میں بتاتے ہوئے اہم سفارتی ذرائع نے بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی کہ متحدہ عرب امارات کے قیام سے قبل ہی شیخ زید النہیان رحیم یار خان کے دوروں پر آیا کرتے تھے۔

اربعین حسینی -فکر حسینی کا ارتقاء

 

 
  آج بھی کربلا سے شام تک قدم قدم پہ حسینی کارواں سے بچھڑے ہوئے بچوں اور بچیوں کے مزار موجود ہیں جو زائرین کو سرائے کربلا کی ان یادگاروں کی یاد دلاتے ہیں‌۔ مظلوموں کا  یہ قافلہ کوفہ میں‌وارد ہوا تو انہیں ابن زیاد کے دربار میں‌لا یاگیا۔ ابن زیاد  ملعون کو بھرے دربار میں ذلیل و رسوا کرنے کے بعد اسیروں کا  یہ قافلہ  دمشق کی  جانب  روانہ  کیا گیا  تا کہ دربار یزید میں بھی حاضر کر کے انعام و اکرام جلد سے جلد وصول کیا جا سکے۔نوک نیزہ پر امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک نے سورہء کہف کی تلاوت کرنا شروع کر دی۔شام کے بازاروں اور درباروں میں‌جگہ جگہ جناب زینب سلام اللہ علیہا،، جناب ام کلثوم، جناب فاطمہ کبریٰ اور امام وقت سید سجاد علیہ السلام کے حق آفریں خطبوں اور تقریروں نے ، یزیدی کبر و نخوت میں چور مسرتوں کے شادیانوں کو، ذلت و رسوائی کی بانسریوں میں‌تبدیل کر دیا تھا۔


اور پھر شام کے خرابے میں حسین علیہ السلام کی چار سالہ بچی کی شہادت نے شام کی پوری فضا کو سوگوار بنا دیا۔۔اور یزید نے اپنے ظلم و ستم پر پردہ ڈالنے کے لئے اہل حرم کی رہائی کے حکم کے ساتھ ہی جناب زینب سلام اللہ علیہا کے کہنے  پر شام میں نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے مقدس خانوادے کی   شہادت  کی مجلس برپا کرنے کی اجازت دے دی۔اور پھرتین دنوں تک دمشق میں نوحہ و ماتم کے بعد اہل حرم شام سے کربلا کی طرف واپس ہوئے۔کربلا کے دشت نے جو روز اول سے ہی حسین علیہ السلام اور ان کے جاں نثاروں کے خون کا امین تھا زینب سلام اللہ علیہا اور سید سجاد علیہ السلام کے استقبال کے لیئے اپنی آغوش وا کر دی وہ حسین علیہ السلام کا چہلم کا دن تھا۔روایت کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محترم صحابی رضی اللہ عنہ جناب جابر ابن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ اپنے ایک رفیق عطیہ عوفی کے ساتھ نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیئے وہاں پہلے سے موجود تھے۔

عطیہ عوفی کا بیان ہے کہ قبر حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیئے جب ہم کربلا پہنچے تو قریب سے ہی بہنے والی فرات کے تیز و تند دھاروں کی آواز نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اب نابینا ہو چکے تھے غم و اندوہ سے تڑپا دیا اور وہ اس خیال سے آنسو بہانے لگے کہ آہ اسی دریائے فرات کے کنارے خاندان رسول کو تشنہ لب شہید کر دیا گیا۔جابر فرات کے کنارے بیٹھے دیر تک آنسو بہاتے رہے پھر اٹھے اور غسل کیا اور کسی محرم کی مانند قبر حسین علیہ السلام کی طرف قدم بڑھائے اور تسبیح و تہلیل کے ساتھ آگے بڑھتے رہے میں ان کی انگلی پکڑے ہوئے تھا جیسے ہی قبر امام علیہ السلام پر پہنچے خود کو قبر پر گرا دیا اور روتے روتے بیہوش ہو گئے میں‌نے پانی کا چھینٹا دیا تو آنکھ کھولی اور فرمایا حسین علیہ السلام یاحسین علیہ السلام یاحسین علیہ السلام اور جب کوئی جواب نہ ملا تو کہا: کیا دوست اپنے دوست کا  جواب نہیں‌دے گا اور پھر خود ہی کہا: ہاں آپ کیسے جواب دیں‌گے آپ کی گردن آپ کے  خون  سے رنگین ہے اور سر تن  سے جدا ہے۔

میں‌گواہی دیتا ہوں آپ فخر انبیاء علیہ السلام کے فرزند امام المتقین علیہ السلام کے دلبند اور سید النسا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پارہء دل ہیں آپ نے پاکیزہ زندگی گزاری اور خدا کی پسندیدہ موت قبول کی۔اس میں‌کوئی شک نہیں‌کہ آپ زندہ ہیں آپ زندہ ہیں۔آپ پر خدا کا درودوسلام ہو۔میں‌گواہی دیتا ہوں کہ آپ کی شہادت کی داستان بھی حضرت یحییٰ علیہ السلام ابن زکریا علیہ السلام کی شہادت کی مانند ہے۔اس کے بعد جناب جابر ابن عبداللہ انصاری نے قبر امام علیہ السلام کے گرد و نواح کا رخ کیا اور فرمایا: درودوسلام ہو تم پر اے پاک و پاکیزہ روحو! کہ تم نے امام حسین علیہ السلام کے گرد جگہ پائی  -آج اربعين حسيني کي مناسبت سے تمام انسانيت کو اور خاندان عصمت و طہارت کے محبين کي خدمت ميں تعزيت پيش کرتے ہيں،اور بی بی زینب  سلام اللہ علیہا کو ان کے بھائی کا بھرے گھر کا پرسہ دیتے ہیں.

 ہر سال امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں شرکت کے لئے، شام اور کربلائے معلی جانے والے زائرین بیشمار ھوتےہیں. اگر ہم لوگ اربعین  کے دن حضرت امام حسین  علیہ السلام کے حرم کي زيارت نہيں کر سکتے تو آپ کی زيارت پڑھ کر، آپ کي زيارت کر سکتے ہيں. امام کے ایک صحابی جابر بن وبد اللہ انصاری کہتے ہیں اشہد انک تسمع کلامي و ترد سلامي و تري مقامي» آپ فرماتے ہيں کہ : اے امام! ميں اس چيز کي گواہي ديتا ہوں کہ آپ ميري بات کو سن رہے ہيں اور ميرے سلام کا جواب ضرور ديتے ہيں اور مجھے ديکھ رہے ہیں!ماہ صفر کی بیسویں تاریخ کو  یہ زیارت پڑھی جاتی  ہے. اس کا طریقہ یوں ہے  کہ زیر  آسمان  حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مقدس کی طرف اشارہ کرکے کہو:
بسم اللہ الرحمن الرحيم
السلام علیک یا ابا عبد اﷲ
(سلام ھو آپ پے اے ابا عبداللہ)
اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا بْنَ رَسُولِ اللہِ
(سلام ھو آپ پے اے رسول اللہ کے فرزند)
اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا بْنَ اَميرِ الْمُؤْمِنينَ وَابْنَ سَيِّدِ الْوَصِيّينَ،
اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا بْنَ فاطِمَہ سَيِّدَہ نِساءِ الْعالَمينَ،
اَلسَّلامُ عَلَى الْحُسَيْنِ
وَعَلى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ
وَعَلى اَوْلادِ الْحُسَيْنِ
وَعَلى اَصْحابِ الْحُسَيْنِ،
اَللّـہمَّ الْعَنْ اَوَّلَ ظالِم ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد
اَللّـہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ حَمْدَ الشّاكِرينَ
اَللّـہہمَّ ارْزُقْني شَفاعَتَ الْحُسَيْنِ يَوْمَ الْوُرُودِ
السلام علیک و رحمت اﷲ و برکاتہ
 اَللّـہہمَّ ارْزُقْني شَفاعَتَ الْحُسَيْنِ يَوْمَ الْوُرُودِ
السلام علیک و رحمت اﷲ و برکاتہ
یا خدا ھم امام حسین علیہ السلام کے مقدس خون کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ائمہ، اھل بیت علیہم السلام کے بارے میں ہماری معرفت اور آگاہی میں اضافہ فرما اور ہمارے دلوں کو نور  ولایت سے  منور فرما اور ہماری نسل اور اولاد میں سے کسی کو دشمن اہل بیت علیہم السلام قرار نہ دے۔ امین

ڈیجیٹل زمانے کی محبتوں میں سماجی ا خلاقی زوال

 



   محبت بذات خود بری بات نہیں لیکن کسی کا ہنستا بستا آنگن اجاڑ کر اس آنگن کے بچے در بدر کر کے  اپنا آنگن محبت کے نام پر بسا لینا   اخلاقی  انحطاط کی بد ترین مثال ہے -ا نجو اور نصر اللہ کی  محبت  کی یہ کہانی کیسے شروع ہوئی اور انجو کو پاکستان کا ویزہ اور دیر بالا جانے کی اجازت کیسے ملی؟ لیکن پہلے جانتے ہیں کہ انجو کے شوہر نے اس صورتحال کے بارے میں کیا کہا ہے۔انجو کا فون کبھی چیک نہیں کیا کیونکہ ’اس سے رشتہ خراب ہوتا ہے‘انجو کے شوہر اروند نے بی بی سی ہندی کو بتایا ہے کہ ’میں 40 سال کا ہوں اور انجو 35 کے لگ بھگ ہے۔ ۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری شادی سنہ 2007 میں ہوئی تھی۔ اب ہمارے دو بچے ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر 15 سال ہے اور ایک چھوٹا بیٹا ہے اور وہ دونوں سکول جاتے ہیں۔‘اروند کا کہنا ہے کہ انھوں نے بارہویں تک تعلیم حاصل کی ہے جبکہ ان کی اہلیہ انجو دسویں پاس ہے۔اروند کے مطابق ’انجو بھیواڑی میں ہی ایک کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ میں بھی پاس ہی کی ایک اور کمپنی میں کام کرتا ہوں۔‘اروند کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی بھی انجو کا فون چیک نہیں کیا کیونکہ ’اس سے رشتہ خراب ہوتا ہے۔‘انجو کے شوہر اروند نے فی الحال اس سلسلے میں پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کروائی ہے۔ویزہ حاصل کرنے میں دو سال لگے


نصر اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا انجو سے فیس بک کے ذریعے چند سال پہلے رابطہ ہوا۔لیکن اس پہلے رابطے کے بعد اگلے مراحل بہت جلدی طے ہوئے۔جب بی بی سی نے انجو سے بات کرنے کی درخواست کی تو نصر اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انجو اس وقت میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔نصر اللہ کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ رابطہ دوستی اور پھر محبت میں تبدیل ہو گیا جس کے بعد ہم دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘نصر اللہ کے مطابق ان کے گھر والے اس فیصلے میں ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’دونوں میں طے ہوا کہ انجو پاکستان کا دورہ کریں گی، میرے خاندان سے ملیں گی اور ہم پاکستان میں منگنی کریں گے، جس کے کچھ عرصے بعد ہم شادی کر لیں گے۔‘نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا، مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے۔‘ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں جبکہ نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔


نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہیں اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزہ انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے۔‘ان کی کوششیں بلاآخر رنگ لائیں۔ لیکن حکام کو قائل کرنے میں ان کو دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزہ بھی مل گیا اور ان کو دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔نصراللہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور پھر دیر بالا داخلے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔‘’انجو اور میں نے ویزہ حاصل کرنے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے ہیں۔ اب ایک دفعہ ویزہ لگ گیا ہے تو امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘  پاکستانی اور انڈین جوڑی کی شادی کیسے ممکن ہوئی؟مستقبل کا فیصلہ شادی کے بعد کریں گے‘نصر اللہ بتاتے ہیں کہ انجو انڈیا میں اپنی کمپنی سے چھٹی لے کر پاکستان آئی ہیں اور دوبارہ واپس جا کر اپنی ملازمت جاری رکھیں گی۔انھوں نے بتایا کہ ’انجو اس وقت میرے گھر میں ہے جہاں پر وہ بالکل پرسکون اور آرام سے رہائش پزیر ہے۔‘تاہم یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا کی موجودگی سے وہ خوش نہیں۔


بہت بڑی تعداد میں میڈیا اور لوگ اکھٹے ہوچکے ہیں۔ میں سب سے کہتا ہوں کہ جو ضروری ہوگا میں خود میڈیا کو بتا دوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے تعلق کو کوئی مسئلہ بنایا جائے۔ ہمارے تعلق میں مذہب بھی شامل نہیں ہے۔انجو مذہب تبدیل کرے گی یا نہیں، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہو گا اور میں اس کے فیصلے کا احترام کروں گا جیسے وہ میرے فیصلے کا احترام کرتی ہے۔‘نصراللہ کا کہنا تھا کہ ان کے تعلق سے انجو کے خاندان کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔’اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہماری پرائیویسی کا احترام کیا جانا چاہیے۔    انجو پختونوں کی مہمان ہے‘ایک انڈین خاتون کی موجودگی سے اہل علاقہ بھی خوش ہیں لیکن موسم اور حالات ان کے استقبال کی تیاریوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔نصر اللہ کے مقامی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت فرید اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انجو جمعہ کے روز صبح کے وقت پہنچی جب شدید بارش ہو رہی تھی۔‘اہلیان علاقہ شدت سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم سنیچرکو شاندار استقبالہ دیں گے مگر بدقسمتی سے علاقے میں ایک فوتگی ہو گئی۔ اب ہم یہ استقبالیہ جلد دیں گے۔‘


فرید اللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں اور اس کو یہ یقین بھی دلا رہی ہیں کہ وہ کسی بات کی فکر نہ کرے۔‘ڈی پی او دیر بالا محمد مشتاق کے مطابق دیر بالا پہنچنے والی انڈین لڑکی انجو کے ویزہ کاغذات کی ’پولیس نے جانچ پڑتال کی اور وہ کاغذات بالکل درست ہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ انجو کو ایک ماہ کا ویزہ دیا گیا ہے اور ان کو دیر بالا میں داخلے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اتوار کی شام نصراللہ اور انجو کو مقامی پولیس سٹیشن ایک رسمی پوچھ گچھ کے لیے طلب کر رکھا ہے۔’یہ رسمی انٹرویو تمام غیر ملکیوں کے لیے ہوتا ہے جہاں پر ان سے بات کرنے اور انٹرویو کرنے کے بعد ان کو واپسی کی اجازت دے دی جائے گی۔‘محمد مشتاق کا کہنا تھا کہ ’پولیس انجو کو مکمل سیکورٹی فراہم کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی پرائیویسی کا بھی مکمل خیال رکھے گی

منگل، 12 اگست، 2025

ڈیجیٹل زمانے کی ڈیجیٹل محبتیں اور ہمارا اخلاقی زوال


 ڈیجیٹل  زمانے کی ڈیجیٹل محبتیں 'کیا کبھی خواب میں کسی نے اس دور کے بارے میں سوچا ہو گا   کہ ایک عورت جس کے پاس باوفا شوہر بھی ہوگا   اور بچے بھی ہوں گے وہ گھر میں بچوں اور شوہر کو آگاہ کئے بغیر دوسرے ملک محض اس لئے چلی آئ   ہو گی کہ اس کو ایک دوسرے  مرد کی محبت نے  اپنا اسیر  کر لیا ہو گا  'یہ ہے ڈیجیٹل میڈیا کا کمال   ْہوا یوں کہ  پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع دیر بالا کے رہائشی نصر اللہ کی چند سال قبل انڈیا کی ریاست اتر پردیش کی ایک خاتون انجو سے سوشل میڈیا کے ذریعے  کوئ  گیم کھیلتے ہوئے بات چیت ہونا شروع ہوئی جو وقت کے ساتھ محبت میں بدل گئی اور اب انجو اس پاکستانی نوجوان سے ’ملنے‘ کے لیے پاکستان پہنچ گئی ہیں۔بی بی سی ہندی کو معلوم ہوا ہے کہ انڈین شہری انجو پہلے سے شادی شدہ ہیں اور وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ انڈیا کے الور شہر کے علاقے بھیواڑی میں رہتی تھیں۔صحافی موہر سنگھ مینا نے بی بی سی ہندی کے لیے بھیواڑی میں موجود انجو کے چالیس سالہ شوہر اروند سے بات کی ہے۔

 
انجو کے شوہر نے بتایا ہے کہ ان کی اہلیہ ’21 جولائی کو یہ کہہ کر گھر سے نکلی تھیں کہ وہ جے پور جائیں گی۔ تب سے ہم ان سے واٹس ایپ پر بات کر رہے تھے۔‘23 جولائی کی شام جب بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی تو انجو سے پوچھا گیا کہ وہ کب واپس آئیں گی۔ تو انھوں نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ہیں اور جلد ہی واپس آ جائیں گی۔روند کے مطابق انجو نے کسی کو اپنے پاکستان جانے کے بارے میں کبھی شک نہیں ہونے دیا اور انھیں بس اتنا معلوم تھا کہ انجو کے پاس کئی سال پہلے بنوایا گیا پاسپورٹ تھا۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا کے رہائشی نصر اللہ سے ملنے اور مبینہ طور پر ’منگنی‘ کرنے کے لیے آنے والی انڈین خاتون انجو کا کہنا ہے کہ انھوں نے انڈیا میں اپنے شوہر اور بچوں کو بتا دیا تھا کہ وہ پاکستان جا رہی ہیں۔انڈیا کے ٹی وی چینل زی نیوز سے ویڈیو کال کے ذریعے بات کرتے ہوئے انڈین خاتون انجو کا کہنا تھا کہ ’شوہر کو یہ علم تو تھا ہی کہ میں باہر جا رہی ہوں اور میں نے سوچا کہ جب میں بارڈر پار کر لوں گی تو انھیں بتا دوں گی اور میں نے انھیں بتایا بھی تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ میں چاہتی تھی کہ میں اپنے بیٹے کو بھی پاکستان ساتھ لے کر آؤں لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کو بھی پاسپورٹ کی ضرورت ہو گی۔


زی ٹی وی کے اینکر کے اس سوال پر کہ کیا آپ پاکستان میں نصراللہ سے شادی کرنے والی ہیں، انجو نے کہا کہ وہ پاکستان نصراللہ سے شادی کرنے نہیں آئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نصراللہ ان کے دوست ہیں اور وہ یہاں ان سے ملنے آئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری ان کے پورے خاندان سے ملاقات ہوئی ہے اور یہ سب لوگ بہت اچھے ہیں اور میرا بہت خیال رکھا جاتا ہے’میرا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔ وہ بس میرے دوست ہیں، ان سے ملنے اور پاکستان گھومنے آئی ہوں۔‘پاکستان جانے کا خیال کیسے آیا کے سوال پر انجو نے کہا کہ ہماری سوشل میڈیا کے ذریعے بات چیت ہوتی تھی۔ مجھے وہاں جانے کے متعلق کچھ پتا نہیں تھا تو میں نے نصراللہ سے کہا کہ وہ انڈیا آ جائیں لیکن اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ پھر میں نے نصراللہ سے کہا کہ میری درخواست کے لیے کاغذات جمع کروا دو۔ایک سوال میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے نصر اللہ سے ملنے کا شوق تو تھا ہی لیکن میں یہاں آنا چاہتی تھی کیونکہ عام جگہوں پر تو سب چلے جاتے ہیں لیکن پاکستان آنے کا خطرہ تو کوئی کوئی مول لیتا ہے۔


انجو نے بتایا کہ میں نصراللہ سے کہتی تھی کہ مجھے دیر اور اپنا علاقہ دکھاؤ۔انجو نے انڈیا میں اپنے ایک دفتری ساتھی کی جانب سے ہراساں کرنے اور تنگ کرنے کے متعلق بھی بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مجھے اغوا کرنے اور مارنے کی دھمکی دیتے تھے اور میں نے اس متعلق پولیس کو بھی بتایا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ ایسا نہیں کہ انڈیا میں ان کے شوہر سے ان کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں، بلکہ وہ صرف پاکستان گھومنے آئی ہیں۔ادھر ڈسڑکٹ پولیس افسر دیر بالا مشتاق احمد خان نے سوموار کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے نصراللہ اور ان کے خاندان  کو پابند کیا ہے کہ انڈین خاتون انجو ایک ماہ بعد 21 اگست سے پہلے دیر بالا چھوڑ دیں۔ان کا کہنا ہے کہ انجو کے پاس صرف اپر دیر کی رہائش کا ایک ماہ کا ویزہ اور این او سی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انڈین خاتون انجو سے رسمی انٹرویو کیا ہے۔’اس انٹرویو میں ہم نے نہ تو منگنی اور نہ ہی شادی کی بات سنی ہے۔ بہرحال یہ فیس بک کی دوستی ہے۔ اس سے آگے کا فیصلہ نصراللہ اور ان کا خاندان کرے گا کہ یہ منگنی کرتے ہیں یا شادی، یہ ان کا اپنا گھریلو معاملہ ہے۔‘مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ رسمی انٹرویو کے بعد ہم نے انجو کی ذاتی زندگی کا خیال رکھا اور ان کو سیکیورٹی فراہم کردی گئی ہےنصراللہ کی انجو سے فیس بک پر دوستی ہوئی تھی۔ اس کے بعد پاکستانی سفارت خانے کو 2022 میں درخواست بھیجی گئی تھی۔
 

 نصراللہ کی اس درخواست پر انڈیا میں پاکستانی سفارت خانے نے انجو کو ویزہ جاری کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انجو نے لاہور کے واہگہ بارڈر پر امریگیشن کی ہے۔ لاہور سے راولپنڈی تک انجو نے بس کا سفر کیا تھا۔راولپنڈی میں نصراللہ نے انجو کا استقبال کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا خطہ کی مہمان نوازی مشہور ہے اور ہم انجو کی مہمان نوازی کریں گے۔دوسری جانب 29 برس کے پاکستانی نوجوان نصر اللہ کے مطابق وہ اگلے دو سے تین دن میں انجو سے باضابطہ منگنی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے دس بارہ دن بعد انجو واپس انڈیا چلی جائیں گی۔انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے بعد انجو دوبارہ شادی کے لیے پاکستان آئیں گی۔ یہ میری اور انجو کی ذاتی زندگی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس میں مداخلت کی جائے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ میڈیا سے بھی دور رہا جائے۔‘اس وقت انجو دیر بالا میں نصراللہ کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈی پی او دیر بالا محمد مشتاق نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین شہری کی اس وقت انجو دیر بالا میں نصراللہ کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ڈی پی او دیر بالا محمد مشتاق نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین شہری کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔انجو کے لیے بھی پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ خصوصاً دیر بالا تک پہنچنے کے لیے جو ایک دور دراز ضلع ہے جس کی ایک سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔
 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر