منگل، 12 اگست، 2025

جابر بن عبد اللہ انصاری

 



جابر بن عبد اللہ   انصاری خزرجی رضی اللہ عنہٗ ہجرتِ مدینہ سے 16 سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دادا عمرو بن حرام انصاری اپنے قبیلے کے سردار تھے  19 کے قریب تمام بڑے غزوات میں نبی پاک ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ آپؓ نے بڑی عمر کی بیوہ سے شادی کی، تاکہ آپؓ کی 9 چھوٹی بہنوں کی تربیت و اُمورِ خانہ داری قائم رہ سکیں۔حضرت جابرؓ نے غزوۂ خندق کے موقع پر آپ ﷺ کی دعوت کی۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے اعلان کرا دیا کہ جابر کے ہاں تمام اہلِ خندق کی دعوت ہے۔ چناں چہ اس موقع پر آپؐ کی برکت سے چند افراد کا کھانا 1400 صحابہ کرامؓ نے کھایا۔ ایک موقع پر آپؐ نے 25 بار حضرت جابرؓ کے لیے استغفار کی دعا پڑھی۔ آپؐ کو اگر قرض کی ضرورت پڑتی تو آپؐ حضرت جابرؓ سے قرض بھی لے لیتے تھے۔حضرت جابرؓ سے سینکڑوں احادیث مروی ہیں، جن میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی، 



یہاں تک کہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔ حضرت جابرؓ نے طویل عمر پائی ۔ آپؓ تفسیر، حدیث اور فقہِ دین میں کمال درجے کی مہارت رکھتے تھے۔ آپؓ نے خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں بھی مختلف سماجی ذمہ داریوں پر فائز رہ کر بھر پور کردار ادا کیا۔ تابعینؒ کے ہر طبقے نے آپؓ سے کسبِ فیض کیا ہے۔ ایک قول کے مطابق جابر واقعہ کربلا کے چالیس دن بعد یعنی اربعین کو کربلا پہنچے۔ آپ کو حسین ابن علی کے پہلے زائر ہونے کا شرف حاصل ہے-ان کے والد نے غزوۂ احد میں شہادت حاصل کی کافروں نے مثلہ کر دیا تھا اس لیے جنازہ کپڑوں میں اڑھا کر لایا گیا، حضرت جابرؓ نے کپڑا اٹھا دیا اور دیکھنا چاہا لوگوں نے منع کیا،آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر کپڑا اٹھا دیا ، بہن پاس کھڑی تھیں، بھائی کی حالت دیکھ کر ایک چیخ ماری، آنحضرت ﷺ نے پوچھا کون ہے؟لوگوں نے کہا ان کی بہن ،فرمایا تم روؤ یا نہ روؤ جب تک جنازہ رکھا رہا ،فرشتے پروں سے سایہ کیے تھے  حضرت عبد اللہؓ نے دس لڑکیاں چھوڑیں  ،انھوں نے اپنے بھائی حضرت جابرؓ کے پاس ایک اونٹ بھیجا کہ ابا جان کی لاش گھر لے آئیں اور مقبرہ بنی سلمہ میں دفن کر دیں، وہ تیار ہو گئے،آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی فرمایا کہ جہاں ان کے دوسرے بھائی شہداء دفن کیے جائیں گے، وہیں وہ بھی دفن ہوں گے ؛چنانچہ احد کے گنج شہیداں میں دفن کیے گئے۔



ان پر قرض بہت تھا، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کو اس کے ادا کرنے کی فکر ہوئی، لیکن ادا کہاں سے کرتے؟ کل دو باغ تھے جن کی پوری پیدا وار قرض کو کافی نہ تھی، رسول اللہ ﷺ کے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور کہا یہودیوں کو بلاکر کچھ کم کرا دیجئے، آپ نے ان لوگوں کو طلب فرماکر حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کا مدعا بیان کیا انھوں نے چھوڑنے سے انکار کیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا دو مرتبہ میں اپنا قرض وصول کرلو، نصف اس سال اور نصف دوسرے سال، وہ لوگ اس پر رضا مند نہ ہوئے، آپ ﷺ نے یہ دیکھ کر حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کو تسکین دی اور فرمایا کہ سنیچر(ہفتہ) کے دن تمھارے ہاں آؤں گا، چنانچہ سنیچر کو صبح کے و قت تشریف لے گئے، پانی کے پاس بیٹھ کر وضو کیا،مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر خیمہ میں آکر متمکن ہوئے، اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ صدیق و حضرت عمرؓ بھی پہنچ گئے، تقسیم کا وقت آیا تو ارشاد ہوا کہ چھوہاروں کو قسم دار الگ کرکے خبر کرنا، چنانچہ آپ کو خبر کی گئی ،آپ تشریف لائے اور ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے،


حضرت جابرؓ بن عبد اللہ نے بانٹنا شروع کیا اور آپ دعا کرتے رہے، خدا کی قدرت کہ قرض ادا ہونے کے بعد بھی جو کچھ بچ گیا، حضرت جابرؓ خوشی خوشی آپ کے پاس آئے اور بیان کیا کہ قرض ادا ہو گیا اور اتنا فاضل ہے، آپ نے خدا کا شکر ادا کیا، حضرت ابوبکرؓ صدیق وحضرت عمرؓ کو بھی بہت مسرت ہوئی۔اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکان لے گئے اور گوشت ،خرما اور پانی پیش کیا، آپ نے فرمایا شاید تم کو معلوم ہے کہ میں گوشت رغبت سے کھاتا ہوں،چلنے کا وقت آیا تو اندر سے آواز آئی کہ مجھ پر اور میرے شوہر پر درود پڑھیے، فرمایا: اللھم صل علیھم   والد کی موجودگی تک انھوں نے کسی غزوہ میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم میں ہے کہ انھوں نے غزوہ بدر میں میدان کا عزم کیا،


  1932ء میں عراق کے اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل کو خواب میں صحابیِ رسول حذیفہ بن یمانی (معروف بہ حذیفہ یمانی) کی زیارت ہوئی جس میں انھوں نے بادشاہ کو کہا کہ اے بادشاہ میری قبر میں دجلہ کا پانی آ گیا ہے اور جابر بن عبد اللہ کی قبر میں دجلہ کا پانی آ رہا ہے چنانچہ ہماری قبر کشائی کر کے ہمیں کسی اور جگہ دفن کر دو۔ اس کے بعد ان دونوں اصحابِ رسول کی قبریں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کھولی گئیں جن میں مفتیِ اعظم فلسطین، مصر کے شاہ فاروق اول اور دیگر اہم افراد شامل تھے۔ ان دونوں کے اجسام حیرت انگیز طور پر تازہ تھے، جیسے ابھی دفنائے گئے ہوں۔ ان کی کھلی آنکھوں سے ایسی روشنی خارج ہو رہی تھی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ ہزاروں لوگوں کو ان کی زیارت بھی کروائی گئی جن کے مطابق ان دونوں کے کفن تک سلامت تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ زندہ ہوں۔ ان دونوں اجسام کو سلمان فارسی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی قبر مبارک کے بالکل قریب سلمان پاک نامی جگہ پر دوبارہ دفنا دیا گیا جو بغداد سے تیس میل کے فاصلے پر ہے۔

حضرت سلیمان ع کی فضائ چھا ؤنی کا رقبہ کتنا تھا

 



حضرت سلیمان علیہ السلام    کے لشکر کی چھاونی سو   فرسخ (ایک فرسخ  تین میل ہوتے ہیں )میں تھی ان میں سے پچیس   فرسخ جنوں کے لیے، پچیس   انسانوں کے لیے، پچیس  پرندوں کے لیے اور پچیس   فرسخ دیگر جانوروں کے لیے تھے- آپ کے لیے لکڑی کے تخت پر سو   گھر تھے جن میں آپ کی باندیاں رہائش پذیر تھیں- ان میں سے تین سو منکوحہ تھیں اور سات سو لونڈیاں تھیں- آپ تیز ہوا کو حکم دیتے تو وہ آپ کو لے کر چل پڑتی تھی- پس ایک دن آپ علیہ السلام زمین و آسمان کے درمیان جا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ میں نے آپ کی حکومت میں اضافہ کر دیا ہے وہ اس طرح کہ مخلوق سے جو بھی کہیں بات کرے گا ہوا اسے آپ کے پاس لے آئے گی اور آپ کو اس سے آگاہ کردے گی‘‘-  تفسیر مظہری، ج:5، ص723   وادیٔ نملہ کا سفر:ایک مرتبہ آپ کے لشکر کا گزر ایک وادی سے ہوا جو وادیٔ نملہ کہلاتی تھی- نملہ کی یہ وادی عسقلان کے قریب ہے- جب لشکر اس وادی کے قریب پہنچا تو ایک چیونٹی نے کہا کہ :-

﴿81یٰآَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُہ، وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوْن﴾﴿النمل: ﴾



’اے چیونٹیو! اپنے اپنے بِلوں    میں گھس جائو کہیں تم کو سلیمان   اور ان کے لشکر والے بے خبری میں روند نہ ڈالیں‘‘-حضرت سلیمان   نے ان کی یہ بات سن لی اور اللہ کی مخلوقات میں سے جو بھی مخلوق کوئی بات کرتی تھی تو ہوا اس بات کو حضرت سلیمان   کے کانو ں میں پہنچا دیتی تھی- مقاتل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ :-حضرت سلیمان  نے چیونٹی کی بات کو تین میل کی مسافت سے سن لیا تھا‘‘- امام بغوی ، معالم و التنزیل، ج: 3، ص:153 ، العلمیہ حضرت سلیمان کا چیونٹی سے مکالمہ :حضرت سلیمان   نے فرمایا کہ چیونٹی کو میرے پاس لاؤ- چنانچہ چیونٹی حاضر کی گئی -حضرت سلیمان  : اے چیونٹی! کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میر الشکر کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتا-چیونٹی: بے شک میرا عقیدہ یہی ہے کہ آپ کا لشکر ظلم و ستم نہیں کرتا لیکن چونکہ مَیں ان سب کی سردار ہو ں اس لیے میرا فرضِ منصبی تھاکہ میں انہیں ہر نشیب و فراز سے آگاہ کروں-حضرت سلیمان  : تیری اس تقریر سے میرے نزدیک تیری قدر و منزلت بڑھ گئی ہے- لہٰذا میرا جی چاہتا ہے کہ تو مجھے کوئی پند و نصیحت سنا ئے-



چیونٹی: آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے والد گرامی کا نام داؤد  کیوں رکھا گیا؟حضرت سلیمان  :مجھے معلوم نہیں!چیونٹی: آپ کے والد گرامی کا نام داؤد   اس لیے تھا کہ انہوں نے زخمی دل کا علاج کیا- گویا ان کانام ’’داوی جراحۃ قلبہ‘‘ کا مخفف ہے-پھر چیونٹی نے سوال کیا کہ اے حضرت سلیمان  کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کا نام سلیمان کیوں ہے؟حضرت سلیمان  : مجھے معلوم نہیں!چیونٹی: اس لیے کہ آپ ’’سلیم الصدر و القلب‘‘ ہیں- گویا سلیمان انہی الفاظ کا مخفف ہے-تفسیر روح البیان میں علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کشف الاسرار‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :-’حضرت سلیمان  نے چیونٹی سے پوچھا کہ تمھاری سلطنت کا حدود اربع اور تمہارے لشکر کی تعداد کتنی ہے؟ چیونٹی نے عرض کی کہ لشکر کی نگرانی کے لیے مَیں چار ہزار    کوتوال رکھتی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت چالیس ہزار  نقیب ہیں پھر ہر ایک نقیب کے تحت چالیس ہزار چیونٹیاں رہتی ہیں-



 پھر حضرت سلیمان  نے چیونٹی سے فرمایا کہ تو اپنے لشکر سے باہر کیوں نہیں جاتی؟ چیونٹی نے عرض کی کہ اے پیارے نبی  مجھے روئے زمین کا اختیار دیا گیا ہے لیکن میں نے ٹھکرا دیا صرف اس لیے کہ مجھے اپنے لشکر  کو چھوڑ کر کہیں جانا گوارا نہیں بلکہ عرض کی کہ اے پروردگارِ عالَم ہمیں زیرِ زمین رکھنا تا کہ تیرے سوا ہمیں کوئی نہ جانے اور ہم بھی تیرے سوا کسی کو نہ جانیں‘‘-  جلد: 6، ص :753، اس کے بعد چیونٹی نے حضرت سلیمان   سے کہا کہ آپ بھی تو مجھے بتا دیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی کون سی نعمت عطا فرمائی ہے ؟ حضرت سلیمان  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو میرے تابع کر دیا ہے- مَیں صبح کو مشرق میں ہوتا ہوں اور شام کو مغرب میں- چیونٹی نے کہا کہ یہ تو کوئی بڑا کمال نہیں بلکہ اس میں تو یہ اشارہ ہے کہ آپ کی بادشاہی گویا ہوا پر سہارا کر رہی ہے-   چیونٹی کی بات سن کر حضرت سلیمان   نے دعا مانگی کہ:-

رَبِّ اَوْزِعْنِیْْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ



’اے میرے رب! مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر فرمائی‘‘-  النمل:۹۱ ’’قرآن پا ک کی نظر میں آقا و غلام برابر ہیں- کوئی بوریا نشیں ہو یا تخت کا وارث ان میں کوئی فرق نہیں‘‘- رموزِ بیخودی، حکایت سلطان مرادیہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم تک جتنے بھی انبیائے کرام تشریف لائے وہ سب اسلام کے سلسلے کی ہی مختلف کڑیاں ہیں اس لیے ان کی زندگیوں کو اسلام اور قرآن کی تعلیمات سے الگ نہیں کیا جاسکتا- حضرت سلیمان   کے فیصلے:حضرت داؤد  اس امر سے آگاہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان   کو علم و دانش ذکاوت و خطابت اور مقدمات کے فیصلے کی صلاحیت بچپن ہی سے عطا کردی تھی

یرقان کے بر وقت علاج سے کالے بخار سے بچا سکتا ہے


 


  یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں جِلد اور آنکھ کا سفید  حصہ پیلا پڑ جاتا ہے ۔ یہ بیماری خون، جگر، یا پتے کے مسائل کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔ یرقان کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا جب خون میں بلی روبین کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہ ایک زرد سے نارنجی رنگ کا مادہ ہوتا ہے جو خون کے سرخ خلیوں میں موجود ہوتا ہے۔ جب یہ خلیےختم ہو جاتے ہیں تو جگر انہیں خون سے فلٹر کر لیتا ہے۔ لیکن اگر جگر صحیح طرح سے کام نہ کرے تو بلی روبین کی مقدار بڑھنا شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ  سے جِلد پیلی معلوم ہوتی ہے-یرقان کی وجوہا ت-یرقان کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔ہیپاٹائٹس-یہ انفیکشن ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جو کہ مختصر وقت تک بھی لاحق ہو سکتا ہے اور دائمی بھی۔ اگر دائمی لاحق ہو تو پھر یہ چھ ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے۔ مدافعتی نظام کی کمزوری اور مخصوص ادویات کا استعمال ہیپاٹائٹس کی وجہ بن سکتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہیپاٹائٹس جگر کو متاثر کر کے یرقان کا سبب بن سکتا ہے۔بعض ادویات کا استعمال-پینسیلین نامی اینٹی بائیو ٹکس، حمل روکنے والی دوائیں، اور اسٹیرائڈز کا استعمال جگر کو متاثر کر سکتا  ہے جس سے یرقان کے خطرات بڑھ جاتے ہیں

 

پت نالی میں رکاوٹ-یہ تنگ نالی ہوتی ہے جس میں سیال (پت) دوڑتا ہے۔ یہ نالی سیال کو جگر اور پتے سے چھوٹی آنت تک پہنچاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ نالی کینسر، جگر کے امراض، یا پتے کی پتھری کی وجہ سے بند ہو جاتی ہے جس سے یرقان لاحق ہو سکتا ہے۔لبلبے کا کینسر-یہ کینسر عورتوں میں پایا جانے والا نواں جب کہ مردوں میں پایا جانے والا دسواں سب سے عام کینسر ہے۔ یہ کینسر بھی پت نالی بلاک کر سکتا ہے جس سے یرقان لاحق ہونے کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔جگر کا کینسر-جگر کا کینسر اس وقت لاحق ہوتا ہے جب جگر کے سیلز کینسر زدہ بن جاتے ہیں اور بہت زیادہ مقدار میں بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ جگر کے کینسر کی وجہ سے بھی یرقان لاحق ہو سکتا ہے۔یرقان کی وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کی علامات بھی مختلف ہوتی ہیں۔یرقان کی علامات-یرقان کی علامات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں۔ 

 

اگر آپ کو کھانا کھانے کے بعد متلی یا قے کی لگاتار شکایت رہتی ہے تو آپ کو فوری طور پر معائنہ کروانے کی ضرورت ہے کیوں کہ متلی اور قے یرقان کی علامات ہو سکتی ہیں۔جِلد اور آنکھوں کی پیلاہٹ-جِلد اور آنکھوں کی پیلاہٹ یرقان کی سب سے عام علامت ہے۔ یرقان کی وجہ سے جِلد کا کوئی حصہ یا آنکھوں کا سفید حصہ پیلا ہو جاتا ہے۔بھوک اور وزن میں کمی ایسے افراد جو یرقان کا شکار ہوں ان کو بھوک کم لگتی ہے جس کی وجہ سے ان کا وزن تیزی سے گھٹنے لگتا ہے۔یرقان کے شکار افراد کو اکثر پیٹ درد کی شکایت رہتی ہےتھکاوٹ یرقان کی وجہ سے آپ کو جلد تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تھوڑا سا کام کرنے کے بعد بھی آپ تھکاوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔خارش، بخار، اور پیشاب کا گہرا رنگ -یرقان کی وجہ سے جسم کے کسی بھی حصے پر خارش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ بخار کی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یرقان کے مریضوں میں پیشاب کا رنگ بہت گہرا ہو جاتا ہے۔یرقان کی علامات کے دوران عمومی طور پر ادویات تجویز نہیں کی جاتیں اور گھریلو علاج کے ذریعے اس کی علامات کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔


 

ہلدی کا استعمال-ہلدی اینٹی آکسیڈنٹس خصوصیات سے بھرپور ہوتی ہے جس سے جگر کے سیلز مضبوط ہوتے ہیں-کد دو کو ٹکڑوں میں کاٹ کر شوربے دار پکائیں۔ کوشش کریں کہ اس شوربے میں چکنائی نہ ہو۔ بہترین ذائقے کے لیے سفید زیرہ، دھنیا، ادرک، ہلکا سا نمک، کالی مرچ، اور لہسن شامل کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ ہری یا سرخ مرچ، کھٹائی، اور کسی بھی قسم کا گرم مصالحہ شامل کرنے سے گریز کریں۔ بھوک لگنے کی صورت میں کدو کے ٹکڑے کھا کر شوربہ پی لیں۔کھیرے کے استعمال سے معدے اور جگر کی گرمی ختم ہوتی ہے اس لیے یرقان کے دوران اس کا استعمال نہایت مفید ہوتا ہے۔ آپ کھانے سے پہلے کھیرے پر کالا نمک بھی چھڑک سکتے ہیں

 

ادرک-تھوڑی سی ادرک، پودینہ کی دس پتیاں، اور سونف ایک چائے کا چمچ ایک کپ پانی میں شامل کر کے قہوہ بنا لیں اور دن میں تین سے چار مرتبہ استعمال کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ پسی ہوئی ادرک، ایک چمچ پانی، لیموں، پودینے کا عرق، اور ایک شہد کا چمچ شامل کر کے آمیزہ بنا لیں اور اس آمیزے کو بھی دن میں تین سے چار مرتبہ استعمال کریں۔ارجن کے پتے-شام کے وقت ارجن کے پتے پانی میں بھگو دیں۔ صبح انہیں پانی میں مکس کرنے کے بعد چھان کر پی لیں۔ صبح کے وقت پھر ان پتوں کو بھگو دیں اور شام کے وقت استعمال کر لیں۔مولی-یرقان کا شکار افراد کے لیے یہ سبزی نہایت مفید ہے۔ اسے کچا کھائیں۔ اس کے ساتھ آپ گُڑ بھی استعمال کر سکتے ہیں تا کہ یہ جلدی ہضم ہو جائےگاجر-اس مرض میں مبتلا مریضوں کے لیے گاجر کا مربہ بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ مربہ آپ گھر پر بھی بنا سکتے ہیں اور بازار سے بھی خرید سکتے ہیں۔ ہر روز دو چمچ مربہ کھانے کے بعد سونف اور سبز الائچی کا قہوہ پی لیں۔لیموں -ہر روز دو سے تین لیموں کا رس پانی میں استعمال کرنے سے کچھ دنوں میں یرقان کی علامات ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔انار-یرقان کی علامات کے دوران انار کا رس بھی نہایت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ ہر روز رات کو اس کا رس استعمال کرنے سے علامات میں واضح کمی آئے گی۔ اس مرض میں  گنے کے رس کا استعمال نہایت شفاء بخش ہوتا ہے۔

ایک بات زہن نشین کر لیجئے کہ یرقان کا مرض بگڑ جائے یا  مریض اپنے مرض سے ہی لا علم ہو  تب کالا بخار ہوتا ہے 

پیر، 11 اگست، 2025

مراکش کی مقدس ترین زیارت گاہ

 مراکش میں مولائے  إدريس جبل زرہون‘ کے دامن میں واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔یہ المغرب کے پہلے بڑے مسلمان حکمران ادریس بن عبداللہ کی قبر کی جگہ ہونے کی وجہ سے مشہور ہے، جن کے نام پر اس قصبے کا نام رکھا گیا ہے۔یہ مکناس کے قریب واقع ہے اور چند کلومیٹر دور ولیلی کے کھنڈر کے قریب ہے مراکش کے اس مقدس‘ قصبہ جس کے کچھ حصوں میں عمارتیں سبز و سفید اور راہداریاں اور زینے مختلف  رنگوں سے مزین نظر آتی ہیں، 1912 تک ا قصبے میں غیرمسلموں کا داخلہ مکمل طور پر ممنوع تھارنگوں اور روایتوں میں ڈوبا یہ چھوٹا سا قصبہ صدیوں تک بیرونی دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہا ہے۔ ’یہ قصبہ مولائے   ادریس زرہون  مراکش کے شہر ’شیفشاون‘ سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے-


تاریخی طور پر غیر مسلموں کے لیے بند ہونے اور براہ راست یہاں تک ٹرین کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مولائے ادریس سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ اس رنگ برنگے قصبے کا مراکش کی پہلی اسلامی سلطنت کے بانی ادریس اول سے تعلق ہے اور مولائے ادریس کو مراکش کی مقدس ترین زیارت گاہ تصور کیا جاتا ہے۔اگر آپ مولائے ادریس زیارت کے لیے آئیں، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ نے سعودی عرب کے شہر مکہ کی زیارت کی ہو۔‘اپنے شاندار رنگوں اور مقدس حیثیت کے باوجود، یہاں کی زندگی سادہ، خاموش اور روایتوں میں رچی بسی ہے۔ اس قصبے میں غیرمسلموں کے داخلے پر عائد پابندی سنہ 1912 میں ختم کر دی گئی تھی اور اب مراکش کے تیز رفتار ریلوے نظام میں بہتری کے ایک منصوبے کے تحت یہاں آنا مزید آسان ہو جائے گا، کیونکہ اس قصبے کے قریب واقع شہر ’مکناس‘ میں ایک نیا ریلوے سٹیشن بنایا جا چکا ہے۔



عماد المیلودی کہتے ہیں: کہ ’ہم مزید زائرین کے منتظر ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو مراکش کے اس اہم شہر کے بارے میں پتہ چلے۔‘کھنڈرات میں پناہ -یہ شہر سترہویں صدی میں آباد ہونا شروع ہوا تھا -سنہ 786 میں ایک ناکام بغاوت کے بعد مراکش کی پہلی اسلامی سلطنت کے بانی ادریس اول یعنی ادریس بن عبداللہ (جن کا نسب پیغمبر اسلام کے خاندان سے جا ملتا ہے) نے ولوبیلس یا ولیلی نامی کھنڈرات کو اپنا مرکز بنایا تاکہ وہ اسلام کی تبلیغ کر سکیں۔سنہ 791 میں زہر دیے جانے کے سبب ادریس اول کی موت واقع ہو گئی اور انھیں ان کھنڈرات سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دفنایا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ان کے پیروکاروں نے اُن کی قبر کے گرد گھر بنانا شروع کیے، جس سے اس قصبے کی بنیاد پڑی۔آج ولیلی کے کھنڈرات میں ستونوں، قدیم گھروں، عوامی حماموں اور نقش و نگار سے مزین در و دیوار کی باقیات، زرد پھولوں سے بھرے کھیتوں، زیتون اور انگوروں کے باغات کے بیچ، بکھری ہوئی ہیں۔ 


پہلے لوگ یہاں زرخیز زمین کی وجہ سے آباد ہوئے۔ ان کے پاس سب کچھ تھا۔‘مقدس شہروں کا مرکزاس قصبے کا وہ مقام جہاں سے آگے آج بھی غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہےجیسے جیسے مولای ادریس نے ترقی کرنا شروع کی یہ تیزی سے مراکش کا سب سے اہم مذہبی شہر بنتا گیا۔ اس کی تقدیس کو برقرار رکھنے کے لیے، اس میں غیرمسلموں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی جو سنہ 1912 تک نافذ العمل رہی۔اس کے بعد بھی یہاں غیرمسلموں کو رات گزارنے کی اجازت نہیں تھی تاہم سنہ 2005 میں مراکش کے بادشاہ حمد ششم کے حکم پر غیر مسلموں کو یہاں رات گزارنے کی اجازت دی گئی۔ اس اجازت کا مقصد مغربی تہذیبوں اور مراکش کے درمیان فاصلے کم کرنا اور مولای ادریس کو دنیا کے سامنے متعارف کروانا  ضروری سمجھا گیا تھا۔


تاہم اس کے باوجود اس قصبے کے کچھ سب سے مقدس مقامات آج بھی صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، جیسے ادریس اول کا مزار اور اُن سے منسلک مسجد۔ قصبے کے مرکزی چوک سے ایک محرابی راستے کے ذریعے آپ چمکدار سفید فرش پر چلتے ہوئے مسجد اور مزار کے اندر جاتے ہیں، یہاں وہ مقام ہے جہاں سے آگے غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع ہے اور اس کے آگے صرف مسلمان ہی جا سکتے ہیں۔اذان کی آواز-مقامی گیسٹ ہاؤس میں میرے میزبانوں میں سے ایک صاحبہ ضاحک مجھے کئی پُرپیچ راستوں سے گزارتے ہوئے مسجد کے سامنے ایک عام نظروں سے اوجھل مقام پر لے گئیں۔ یہاں اذان کی آواز تنگ گلیوں میں گونج رہی تھی۔ محراب دار کھڑکیوں سے ہم نے چند نمازیوں کو مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔جب ہم سبز و سفید پتھروں سے بنی ایک راہداری سے مسجد کو دیکھ رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ ’رمضان میں یہ راہداریاں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ اور ماہ اگست میں، مولای ادریس کی تعظیم میں ایک تہوار منایا جاتا ہے جس میں پورے مراکش سے مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ اس تہوار کے دوران لوگ زمین پر سوتے ہیں، اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔


اتوار، 10 اگست، 2025

راک فیلر-جو مرتے مرتے بھی جی گیا حصہ دوم

 


''  اب وہ مصمم ارادہ کر چکا تھا کہ وہ اب اپنی زندگی اور اپنی دولت  فلاحی کاموں میں خرچ کرے گا ۔اس نے ''راک فلر فاؤنڈیشن'' کی بنیاد رکھی کیونکہ  فیلر جا  ن چکا تھا کہ دنیا میں بے شمار اچھے کام ہیں جن کو انجام دینے سے  دلی سکون اور راحت حاصل کی جا سکتی  ہے اس نے سوچا صرف تریپن برس کی عمر میں اس کے پاس صرف وہ دولت  ہے جو اس کی زندگی نہیں خرید سکتی ہے  اس کی صحت اور زہنی سکون نہیں خرید سکتی ہے ،اس نے بار بار سوچا اور  اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان کی زندگی اور اس کی تمام حرکات سکنات کا ملک ایک اس زات سے  ہے جس کے پاس اختیارات کی کنجی ہے پھر اس نے    ان فلاحی تنظیموں کے بارے میں  سوچا ، جنہیں باشعور اور دانشمند اور انسانیت  کے لئے درد رکھنے والے انسان چلا رہے ہیں، یہ لوگ  مختلف علوم و فنون میں تحقیقات کرتے ہیں، کالج  اور دوسرے ادارے قائم کرتے  جاتے ہیں۔ کسی بیماری کا تدارک کرنے کے لیے ڈاکٹرز جدوجہد کرتے ہیں۔ لیکن اکثر اوقات یہ اعلیٰ پائے کا کام محض روپے کی کمی کی وجہ سے ادھورا اور نامکمل رہ جاتا ہے۔ اس نے انسانیت کے ان  مسیحا ؤں  کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔  انہیں مالی مدد دینے کا تاکہ وہ اپنی مدد آپ کرسکیں۔



جب ڈاکٹروں نے راک فیلر کی زندگی بچانے کی ذمہ داری قبول کی، تو انہوں نے اسے تین اصول بتائے، جن پر وہ آخری دم تک حرف بہ حرف عمل کرتا رہا اور وہ اصول مندرجہ ذیل ہیں۔- فکر و تردد سے گریز کریں۔ کسی حالت میں بھی کسی چیز کے متعلق پریشان نہ ہوں۔ اپنے جسم کو آرام پہنچائیے اور کھلی ہوا میں کافی دیر تک ہلکی ورزش کریں۔ اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ جب ابھی تھوڑی سی بھوک باقی ہو، کھانے سے ہاتھ کھینچ لیں۔جان ڈی راک فیلر ان اصولوں پر عمل کرنے لگا اور غالباً انہی نے اس کی جان بچائی، وہ کام سے سبکدوش ہوگیا۔ اس نے گولف کھیلنا سیکھا۔ وہ باغبانی میں دلچسپی لینے لگا اور اپنے پڑوسیوں سے ہنسی مذاق کرنے لگا۔ وہ مختلف قسم کے کھیل کھیلنے اور گیت گنگنانے لگا۔ 


لیکن اس نے اس کے علاوہ بھی کچھ کیا اذیت کے ایام اور بے خوابی کی راتوں کے دوران میں جان کو سوچنے کا موقع ملا۔ وہ دوسرے لوگوں کے متعلق سوچنے لگا۔ اس نے فوراً سوچنا چھوڑ دیا کہ وہ کس قدر روپیہ کما سکتا ہے، اس کے بجائے وہ سوچنے لگا کہ وہ روپے کے عوض کس طرح انسانی مسرت خرید سکتا ہے۔''اس نے ''راک فلر فاؤنڈیشن'' کی بنیاد رکھی۔ ۔ آج آپ اور میں راک فیلر کے شکر گزار ہیں کہ اس نے پنسلین اور درجنوں معجزاتی دریافتوں سے دنیا کو مستفید ہونے کے مواقع بہم پہنچائے۔ اس کی دولت نے انہیں معرض وجود میں لانے اور پھلنے پھولنے میں مدد دی۔اور پھر راک فیلر کا کیا بنا؟ جب وہ اپنی دولت تقسیم کرنے لگا تو کیا اسے ذہنی سکون مل گیا؟ ہاں آخر کار وہ بالکل مطمئن ہوگیا۔ ایلن نیونز کا کہنا ہے،''اگر 1900ء کے بعد بھی لوگ سمجھیں کہ وہ سٹینڈرڈ آئل کمپنی کی مخالفت کے متعلق سوچ رہا تھا تو وہ سخت غلطی پر ہیں۔



'' راک فیلر خوش تھا، اس میں مکمل تبدیلی آچکی تھی۔ وہ اب بالکل پریشان نہیں ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ جب اسے اپنی زندگی کے سب سے بڑے نقصان کو قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا تو یہ حقیقت ہے کہ اس نے ایک رات کی نیند بھی گنوانے سے انکار کردیا۔ اس کا اسے اس وقت سامنے کرنا پڑا جب اس کی قائم کردہ عظیم الشان کارپوریشن، سٹینڈرڈ آئل کو،''تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ'' ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ حکومت امریکا کے دعوے کے مطابق سٹینڈرڈ آئل ایک اجارہ دار کمپنی تھی، جو انٹی ٹرسٹ قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی تھی۔ یہ عدالتی جنگ پانچ سال تک جاری رہی۔ ملک کے بہترین قانونی دماغوں نے اس مقدمے میں حصہ لیا، جسے اس وقت تاریخ کا سب سے بڑا عدالتی مقدمہ کہا جاتا تھا۔ لیکن سٹینڈرڈ آئل کو شکست ہوئی جب جسٹس کینے ٹاؤماؤنٹین لینڈس نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا، راک فیلر کے وکیلوں کو اندیشہ ہوا کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکے گا۔


 لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ راک فیلر میں کتنی بڑی تبدیلی آچکی ہے۔ اس شام کو ایک وکیل نے اسے فون کیا اور جس قدر ممکن تھا، نرم ترین لہجے میں اس کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کی اور پھر متفکر ہوکر کہا۔''مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ فیصلہ بے چین نہیں کرے گا، مسٹر راک فیلر، مجھے امید ہے کہ آپ رات کو اچھی طرح سو سکیں گے۔'' اس نے فوراً سے ٹیلی فون پر جواب دیا۔''مسٹر جانسن فکر نہ کیجئے۔ میں رات کو سونا چاہتا ہوں اور آپ کو بھی پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اچھا شب بخیر۔''یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جو ایک دفعہ محض اس لیے بیمار ہوگیا تھا کہ اسے ڈیڑھ سو ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ہاں جان راک فیلر کو اپنے تفکرات، اپنی پریشانیوں اور اپنی الجھنوں پر غالب آنے میں کافی وقت لگا۔ وہ 53 سال کی عمر میں موت کی آغوش میں جارہا تھا لیکن وہ 97سال تک زندہ رہا۔یہ نئی سمت بالآخر پینسلین کی دریافت کا باعث بنی، ملیریا، تپ دق اور خناق کا علاج۔ اپنی موت سے پہلے، اس نے اپنی ڈائری میں  لکھا، *"سپریم انرجی نے مجھے سکھایا، کہ سب کچھ اس کا ہے، اور میں اس کی خواہشات کی تعمیل کرنے کے لیے صرف ایک چینل ہوں۔میری زندگی ایک طویل، خوشگوار چھٹی رہی؛  کام اور کھیل سے بھرپور۔میں نے پریشانی کو راستے میں چھوڑ دیا اب میں تھا اور میرا خدا تھا_میرے لیے ہر دن اچھا تھا۔ 

راک فیلر-جو مرتے مرتے بھی جی گیا حصہ اول





  جان ڈی راک فیلر سینئر 33 سال کی عمر میں لکھ پتی بن چکا تھا اور 43 سال کی عمر میں اس نے دنیا میں تیل کی سب سے بڑی کمپنی، سٹینڈرڈ آئل کمپنی، قائم کرلی تھی۔لیکن 53 ویں سال وہ کہاں تھا؟ 53 سال کی عمر میں پریشانیاں اس پر غالب آچکی تھیں۔ تفکرات اور اعصاب زدگی کی زندگی اس کی صحت کا پہلے ہی دیوالیہ نکال چکی تھی۔ اس کے ایک سوانح نگار جان کے ونکر کے الفاظ میں،''53 سال کی عمر میں وہ ایک حنوظ شدہ نعش کی مانند نظر آتا تھا۔'' 53 سال کی عمر میں ہاضمے اور معدے کی عجیب و غریب اور پراسرار بیماریوں نے راک فیلر پر حملہ کیا اور پلکوں سمیت اس کے سارے بال گرادیئے۔ صرف اس کی بھنوؤں کی ہلکی سی لکیر باقی رہ گئی۔ ونکر لکھتا ہے،''اس کی حالت اس قدر خطرناک ہوچکی تھی کہ وہ صرف دودھ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔''عالم شباب میں راک فیلر کی جسمانی بناوٹ آہنی تھی۔


 اس نے ایک زراعتی فارم پر پرورش پائی تھی اور اس زمانے میں اس کے بازو تنومند، اس کی کاٹھی مضبوط اور سیدھی، اس کی ٹانگیں لکڑی کی طرح سخت اور چال میں چستی چالاکی اور بندر کی سی پھرتی تھی۔ لیکن صرف53 سال کی عمر میں، جب اکثر لوگ بھرپور صحت مند زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، اس کے کندھے خمیدہ ہوگئے اور اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوگئی۔ حالت اس قدر خطرناک ہوچکی تھی کہ وہ صرف دودھ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگیاراک فیلر 53 سال کی عمر میں موت کے قریب پہنچ کر بھی وہ 97 برس کیسے زندہ رہا؟ اس کا ایک دوسرا سوانح نگار جان۔ ٹی۔ فلین کہتا ہے،''جب اس نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو اسے ایک بوڑھا آدمی نظر آیا۔ مسلسل کام، پیہم پریشانیاں، بے خواب راتیں، گالیوں کی بوچھاڑ، ورزش اور آرام کی عدم موجودگی اپنا رنگ دکھانے لگے۔'' انہوں نے اس کے جسم کا رس نکال لیا اور اسے گھٹنوں پر جھکا دیا۔



 وہ اب دنیا کا امیر ترین شخص تھا۔ پھر بھی اسے ایسی خوراک پر گزر بسر کرنی پڑتی جسے ایک بھکاری بھی ٹھکرا دے۔ اس کی ہفتہ وار آمدنی 10 لاکھ ڈالر تھی۔ لیکن جو کچھ وہ کھاتا تھا، اس پر ایک ہفتے میں غالباً دو ڈالر سے زیادہ خرچ نہیں آتا تھا اور وہ کھاتا کیا تھا؟ دودھ اور چند بسکٹ۔ ڈاکٹروں نے اسے صرف یہی کھانے کی اجازت دی تھی۔ اس کی جلد کا رنگ اڑ چکا تھا۔ اسے سوائے معجزاتی علاج کے دنیا کی ایسی کوئی چیز نہ بچا سکتی تھی، جسے پیسوں سے خریدا جا سکتا ہو۔یہ سب کیسے ہوا؟ پریشانیاں، تفکرات، صدمات، دباؤ اور کشمکش کی زندگی اور اعصابی تناؤ اس چیز کے ذمہ دار تھے۔ سچ پوچھیے تو وہ موت کی آغوش میں پہنچ چکا تھا۔ 23 سال کی عمر میں بھی راک فیلر اتنے آہنی عزم کے ساتھ اپنے نصب العین کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ اس کے جاننے والوں کے الفاظ میں ''اچھے سودے کی خبر کے سوا کوئی چیز اس کے چہرے کو گداز نہ کرسکتی۔'' جب اسے کہیں سے معقول منافع ہوتا تو وہ ایک عجیب و غریب قسم کا جنگی رقص کرتا۔


 اپنی ٹوپی اتار کر فرش پر پھینک دیتا اور ناچنے لگتا۔ لیکن اگر اسے خسارہ ہوتا تو وہ بیمار پڑجاتا۔ اس نے ایک دفعہ گریٹ لیکس کے راستے 40 ہزار ڈالر کا اناج ایک دخانی جہاز پر باہر بھیجا۔ اس کا بیمہ نہیں کرایا گیا تھا کیونکہ رقم ''بہت زیادہ'' تھی۔ کتنی؟ ایک سو پچاس ڈالر۔ اس رات جھیل ایری میں خوفناک طوفان آیا۔ راک فیلر جہاز کے تباہ ہونے کے متعلق اس قدر متردد اور پریشان تھا کہ جب اس کا شریک کار جاج گارڈنر صبح کے وقت دفتر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ راک فیلر نہایت بے قراری سے فرش پر ٹہل رہا ہے۔جلدی کرو،'' اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا،''اگر دیر نہ ہوگئی ہو تو جلد از جلد جہاز کا بیمہ کرا لو- گارڈنر شہر کی طرف بھاگا اور بیمہ کرا آیا۔ لیکن وہ واپس دفتر پہنچا تو اس نے راک فیلر کو پہلے سے بھی بدترین حالت میں دیکھا۔ گارڈنر کی عدم موجودگی میں ایک تار آیا تھا کہ جہاز لنگر انداز ہوچکا ہے اور طوفان سے بالکل صحیح سلامت نکل آیا ہے۔


اس کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی کیونکہ اس نے ڈیڑھ سو ڈالر خوامخواہ ضائع کردیئے تھے۔ اسے اس ''نقصان عظیم'' کا اس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ شدید بخار میں مبتلا ہوگیا اور اسے گھر جاکر آرام کرنا پڑا۔جب ڈاکٹروں نے راک فیلر کی زندگی بچانے کی ذمہ داری قبول کی، تو انہوں نے اسے تین اصول بتائے، جن پر وہ آخری دم تک حرف بہ حرف عمل کرتا رہا اور وہ اصول مندرجہ ذیل ہیں1 فکر و تردد سے گریز کریں۔ کسی حالت میں بھی کسی چیز کے متعلق پریشان نہ ہوں۔-2 اپنے جسم کو آرام پہنچائیے اور کھلی ہوا میں کافی دیر تک ہلکی ورزش کریں۔-3 اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ جب ابھی تھوڑی سی بھوک باقی ہو، کھانے سے ہاتھ کھینچ لیں۔جان ڈی راک فیلر ان اصولوں پر عمل کرنے لگا اور غالباً انہی نے اس کی جان بچائی، وہ کام سے سبکدوش ہوگیا۔ اس نے گولف کھیلنا سیکھا۔ وہ باغبانی میں دلچسپی لینے لگا اور اپنے پڑوسیوں سے ہنسی مذاق کرنے لگا۔ وہ مختلف قسم کے کھیل کھیلنے اور گیت گنگنانے لگا۔ لیکن اس نے اس کے علاوہ بھی کچھ کیا۔ ونکلر لکھتا ہے،''اذیت کے ایام اور بے خوابی کی راتوں کے دوران میں جان کو سوچنے کا موقع ملا۔ وہ دوسرے لوگوں کے متعلق سوچنے لگا۔ اس نے فوراً سوچنا چھوڑ دیا کہ وہ کس قدر روپیہ کما سکتا ہے، اس کے بجائے وہ سوچنے لگا کہ وہ روپے کے عوض کس طرح انسانی مسرت خرید سکتا ہے۔

 

لال سوہانرا نیشنل پارک، صوبہ پنجاب ضلع بہاولپور

 




  کیا  نہیں ہے میرے وطن میں شور مچاتے دریا   گنگناتے آبشار فلک بوس پہاڑ'گھنے جنگل  طویل ساحل بس اگر کمی ہے تو ایمان دار لوگوں کی جو اس وطن کوسنوار دیں -چلئے اس موضوع کو پھر کبھی دیکھیں گے ابھی تو میں بھاولپور کے ضلع میں واقع ایک خوبصور ت پارک  کی بابت بتانا چاہوں گی اس پار ک کا نام ہے  لال سوہانرا نیشنل پارک،یہ صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور میں32کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔اس کا رقبہ ایک لاکھ24ہزار480ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔ بتایا جاتا ہے کیونکہ اس میں مقامی آبادی بھی ہے ،صحرائی اور میدانی علاقے بھی ہیں اور گھنے جنگل اور بنجر علاقے بھی۔نہریں بھی ہیں اور بے آباد  ویرانے بھی۔بتایاجاتا ہے کہ لال سوہانرا نیشنل پارک کو کالے ہرن کے تحفظ کے لئے قائم کیا گیا تھا جو اس علاقے سے نا پید ہوچکے تھے۔ ورلڈ وائلڈ فنڈ فارنیچر کی اپیل کے جواب میں امریکہ سے جنگلی حیات کے حامیوں نے دس کالے ہرنوں کو ان کے اصل مسکن چولستان کے صحرائی علاقے میں بھیجا     



:سفاری پارک:یہ حقیقت بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی فضائیہ کا ایک افسر بہاولپور سے سیاہ ہرنوں کا تحفہ امریکہ لے گیا تھا اور اب وہاں ان کی تعداد 50ہزار سے زائد ہوچکی ہے جبکہ پاکستان میں اندھا دھند شکار کے باعث اس کی نسل ختم ہو گئی ہے۔ دراصل امریکہ سے کالے ہرنوں کا تحفہ امریکی فضائیہ کے افسر کو دئیے گئے تحفے کی واپسی تھی۔ ورلڈ وائلڈ فنڈ کی ایک اور اپیل کے جواب میں ہالینڈ کے بچوں نے اپنا جیب خرچ چندے میں دے کر12فٹ بلند اور70کلومیٹر طویل تار کی جالیاں تحفے میں دیں تاکہ کالے ہرن کی قیمتی اور نایاب نسل کی مزید افزائش کے لئے لال سوہانرا نیشنل پارک میں حفاظتی جنگلے بنائے جاسکیں۔ چنانچہ اس عطیے سے 18 کلو میٹر، 9کلومیٹر اور 8 کلو میٹر کے رقبے کے چار بڑے انکلوژر بنائے گئے۔ ان محفوظ باڑوں میں کالے ہرن کی تعداد اپریل1996 ء میں325 کے لگ بھگ تھی۔سیاہ ہرن کی افزائش نسل گھنے جنگل میں ممکن نہ تھی اس طرح شکاری ان کو ہر گز نہ چھوڑتے۔ حالانکہ انکلوژر میں بھی وہ شکاریوں کے دست برد سے محفوظ نہیں ہیں



حکومت پنجاب نے منصوبہ بنایاہے کہ یہاں معیاری قسم کا سفاری پارک قائم کیاجائے یہاں شیروں کے لیے قدرتی ماحول بنایاجائے گا تاکہ سیاح شیروں کو ان کے اصلی مسکن میں قریب سے دیکھ سکیں اس کے علاوہ نیپال سے لائے گئے گینڈوں کے لیے نسل میں اضافہ کے لیے ایک مرکز بھی ہے جو پاکستان میں معدوم ہے تقریباََ400 سے زائد جنگلی جانوروں اور پرندوں کی نسل افزائش کے لیے کام کیاجا رہاہے مثلاََ کالا ہرن، جو پاکستان میں خطرناک حد تک کم ہو رہاہے۔ یہ پارک آبی حیا ت سے مالا مال ہے  -ان میں سے کچھ کا تعارف اس طرح ہےیہ پارک جنگلی حیات (جنگلی پرندوں اور جنگلی جانوروں) سے بھر پور ہے۔ جنگلی بلی،خرگوش،تلور،ہرن، چھپکلیاں، سانپ، کوبرا، عقاب،شاہین،گدھیں،روسی عقاب،چڑیاں،الو یہاں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں،اس کے علاوہ تالابوں اور جھیلوں میں پانی کےجانور(مچھلیاں،کچھوے) بھی پائے جاتے ہیں یہاں تقریباََ 10 ہزار سے 30 ہزار تک آبی پرندوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے

 


لیکن اس طرح پھر بھی ان کی حفاظت اور دیکھ بھال نسبتاً آسان ہو گئی ہے۔ سیاہ ہرن کو ان وسیع و عریض انکلوژرز میں چنکاراGazellاور نیل گائے کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ اس پارک میں جنگلی حیات کی اقسام میں کالے ہرن کے علاوہ ہرن کے سہیہ، بھیڑیا، لومڑی، صحرائی لومڑی، گورپٹ، مشک بلاؤ،سرمئی نیولا،قراقال،بلی،صحرائی بلی،کلغی والاخارپشت، بڑے خرگوش، کالا تیتر، بھورا تیتر، کونک، بڑااُلو،چتی دار چھوٹا الو، کچھوے،چتی سانپ، سنگھاڑاور کھگا مچھلی شامل ہیں۔لال سوہانرا نیشنل پارک میں داخل ہوں تو ایک پختہ سڑک دور تک بل کھاتی جاتی ہے۔ تھوڑے فاصلے پر بہاول نہر ایک پیڈ ریگولیٹر کی مدد سے کئی شاخوں میں تقسیم ہوتی ہے جس کے بائیں جانب چلڈرن پارک ہے جہاں جھولوں اور سبزہ زار کے علاوہ مختلف حیوانوں کے جنگلے ہیں جن میںہندوستان نسل کے گینڈے، چنکارا، مختلف پرندے اور بندروغیرہ رکھے گئے ہیں۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر