منگل، 12 اگست، 2025

حضرت سلیمان ع کی فضائ چھا ؤنی کا رقبہ کتنا تھا

 



حضرت سلیمان علیہ السلام    کے لشکر کی چھاونی سو   فرسخ (ایک فرسخ  تین میل ہوتے ہیں )میں تھی ان میں سے پچیس   فرسخ جنوں کے لیے، پچیس   انسانوں کے لیے، پچیس  پرندوں کے لیے اور پچیس   فرسخ دیگر جانوروں کے لیے تھے- آپ کے لیے لکڑی کے تخت پر سو   گھر تھے جن میں آپ کی باندیاں رہائش پذیر تھیں- ان میں سے تین سو منکوحہ تھیں اور سات سو لونڈیاں تھیں- آپ تیز ہوا کو حکم دیتے تو وہ آپ کو لے کر چل پڑتی تھی- پس ایک دن آپ علیہ السلام زمین و آسمان کے درمیان جا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ میں نے آپ کی حکومت میں اضافہ کر دیا ہے وہ اس طرح کہ مخلوق سے جو بھی کہیں بات کرے گا ہوا اسے آپ کے پاس لے آئے گی اور آپ کو اس سے آگاہ کردے گی‘‘-  تفسیر مظہری، ج:5، ص723   وادیٔ نملہ کا سفر:ایک مرتبہ آپ کے لشکر کا گزر ایک وادی سے ہوا جو وادیٔ نملہ کہلاتی تھی- نملہ کی یہ وادی عسقلان کے قریب ہے- جب لشکر اس وادی کے قریب پہنچا تو ایک چیونٹی نے کہا کہ :-

﴿81یٰآَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُہ، وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوْن﴾﴿النمل: ﴾



’اے چیونٹیو! اپنے اپنے بِلوں    میں گھس جائو کہیں تم کو سلیمان   اور ان کے لشکر والے بے خبری میں روند نہ ڈالیں‘‘-حضرت سلیمان   نے ان کی یہ بات سن لی اور اللہ کی مخلوقات میں سے جو بھی مخلوق کوئی بات کرتی تھی تو ہوا اس بات کو حضرت سلیمان   کے کانو ں میں پہنچا دیتی تھی- مقاتل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ :-حضرت سلیمان  نے چیونٹی کی بات کو تین میل کی مسافت سے سن لیا تھا‘‘- امام بغوی ، معالم و التنزیل، ج: 3، ص:153 ، العلمیہ حضرت سلیمان کا چیونٹی سے مکالمہ :حضرت سلیمان   نے فرمایا کہ چیونٹی کو میرے پاس لاؤ- چنانچہ چیونٹی حاضر کی گئی -حضرت سلیمان  : اے چیونٹی! کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میر الشکر کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتا-چیونٹی: بے شک میرا عقیدہ یہی ہے کہ آپ کا لشکر ظلم و ستم نہیں کرتا لیکن چونکہ مَیں ان سب کی سردار ہو ں اس لیے میرا فرضِ منصبی تھاکہ میں انہیں ہر نشیب و فراز سے آگاہ کروں-حضرت سلیمان  : تیری اس تقریر سے میرے نزدیک تیری قدر و منزلت بڑھ گئی ہے- لہٰذا میرا جی چاہتا ہے کہ تو مجھے کوئی پند و نصیحت سنا ئے-



چیونٹی: آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے والد گرامی کا نام داؤد  کیوں رکھا گیا؟حضرت سلیمان  :مجھے معلوم نہیں!چیونٹی: آپ کے والد گرامی کا نام داؤد   اس لیے تھا کہ انہوں نے زخمی دل کا علاج کیا- گویا ان کانام ’’داوی جراحۃ قلبہ‘‘ کا مخفف ہے-پھر چیونٹی نے سوال کیا کہ اے حضرت سلیمان  کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کا نام سلیمان کیوں ہے؟حضرت سلیمان  : مجھے معلوم نہیں!چیونٹی: اس لیے کہ آپ ’’سلیم الصدر و القلب‘‘ ہیں- گویا سلیمان انہی الفاظ کا مخفف ہے-تفسیر روح البیان میں علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کشف الاسرار‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :-’حضرت سلیمان  نے چیونٹی سے پوچھا کہ تمھاری سلطنت کا حدود اربع اور تمہارے لشکر کی تعداد کتنی ہے؟ چیونٹی نے عرض کی کہ لشکر کی نگرانی کے لیے مَیں چار ہزار    کوتوال رکھتی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت چالیس ہزار  نقیب ہیں پھر ہر ایک نقیب کے تحت چالیس ہزار چیونٹیاں رہتی ہیں-



 پھر حضرت سلیمان  نے چیونٹی سے فرمایا کہ تو اپنے لشکر سے باہر کیوں نہیں جاتی؟ چیونٹی نے عرض کی کہ اے پیارے نبی  مجھے روئے زمین کا اختیار دیا گیا ہے لیکن میں نے ٹھکرا دیا صرف اس لیے کہ مجھے اپنے لشکر  کو چھوڑ کر کہیں جانا گوارا نہیں بلکہ عرض کی کہ اے پروردگارِ عالَم ہمیں زیرِ زمین رکھنا تا کہ تیرے سوا ہمیں کوئی نہ جانے اور ہم بھی تیرے سوا کسی کو نہ جانیں‘‘-  جلد: 6، ص :753، اس کے بعد چیونٹی نے حضرت سلیمان   سے کہا کہ آپ بھی تو مجھے بتا دیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی کون سی نعمت عطا فرمائی ہے ؟ حضرت سلیمان  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو میرے تابع کر دیا ہے- مَیں صبح کو مشرق میں ہوتا ہوں اور شام کو مغرب میں- چیونٹی نے کہا کہ یہ تو کوئی بڑا کمال نہیں بلکہ اس میں تو یہ اشارہ ہے کہ آپ کی بادشاہی گویا ہوا پر سہارا کر رہی ہے-   چیونٹی کی بات سن کر حضرت سلیمان   نے دعا مانگی کہ:-

رَبِّ اَوْزِعْنِیْْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ



’اے میرے رب! مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر فرمائی‘‘-  النمل:۹۱ ’’قرآن پا ک کی نظر میں آقا و غلام برابر ہیں- کوئی بوریا نشیں ہو یا تخت کا وارث ان میں کوئی فرق نہیں‘‘- رموزِ بیخودی، حکایت سلطان مرادیہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم تک جتنے بھی انبیائے کرام تشریف لائے وہ سب اسلام کے سلسلے کی ہی مختلف کڑیاں ہیں اس لیے ان کی زندگیوں کو اسلام اور قرآن کی تعلیمات سے الگ نہیں کیا جاسکتا- حضرت سلیمان   کے فیصلے:حضرت داؤد  اس امر سے آگاہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان   کو علم و دانش ذکاوت و خطابت اور مقدمات کے فیصلے کی صلاحیت بچپن ہی سے عطا کردی تھی

1 تبصرہ:

  1. حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ ان کومنفرد حکومت عطا ہو

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر