قیام پاکستان کے ساتھ ہی حکومت پاکستان نے ملک میں صنعتی زون بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے پاکستان انڈسٹریل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اسی ادارے نے بورے والا ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی اور پھر کراچی کی میمن برادری کی ایک مشہور کاروباری شخصیت سیٹھ داؤ د نے اس کا انتظام و انصرام سنبھال کر اس کی حیثیت کو عروج دیا -سیٹھ داؤد چاہتے تھے اس مل سے نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں بلکہ وہ ملکی ترقی میں بھی بھر پور کردار ادا کر سکے۔سیٹھ داؤد نے بوریوالا ٹیکسٹائل ملز پر شبانہ روز محنت کر کے مل کو صنعتی زون کی ایک روشن مثال بنا دیا تھا ۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ایشیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مل تھی۔ اس کے نام کو مختصر کر کے صرف تین الفابٹ
B-T- Mمیں بہت بڑی جسامت میں مل کی بلند ترین عمارت کی ٹنکی پر نصب کیے گئے تھے،
جو دن کو تو اتنے نمایاں نہ ہوتے لیکن رات کو سرخ رنگ کی برقی روشنی میں نہا کر یہ دور دور تک لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیے رکھتے۔یہ سینکڑوں ایکڑ پر محیط ایک ایسا صنعتی منصوبہ تھا جو نہ صرف مدتوں ملک کی صنعتی ترقی میں ایک فعال کردار ادا کرتا رہا۔ بلکہ یہ مقامی آبادی کو روزگار مہیا کرنے کا بھی ذریعہ تھا۔ تقریباً چار ہزار کے قریب اس مل کے باقاعدہ ملازم تھے۔ جن میں اکثریت تو مقامی لوگوں کی تھی۔ لیکن کئی خاندان وطن عزیز کے دور دراز علاقوں سے آ کر اسی مل کے وسیلے سے یہاں پر مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے تھے۔اس دور میں جب کہ لوگوں کو ابھی روٹی کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے متعلق کوئی خاص آگاہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس مل کے مالکان اپنے ملازمین کی یہ تمام بنیادی ضروریات بغیر کسی تشہیر کے پوری کر دیا کرتے تھے۔ ملازمین کی رہائش کے لیے چھوٹے چھوٹے کواٹرز اس طرح تعمیر کیے گئے تھے کہ ہر کوارٹر کا دروازہ ڈیڑھ دو ایکڑ رقبے پر مشتمل ایک پارک میں کھلتا تھا۔
جہاں پر ان ملازمین کے بچے کھیل کود اور دوسری جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہتے اور مختلف اجتماعات کے لیے بھی انہی پارکس کو کام میں لایا جاتا۔اپنے ملازمین کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مل مالکان نے یہاں پر ہی ایک بوائزز ہائی سکول اور ایک گرلز ہائی سکول قائم کیا ہوا تھا۔ جہاں پر بچوں کو دسویں جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ اپنے ملازمین کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں باقاعدہ طور پر ایک ہسپتال موجود تھا۔ جہاں ہمہ وقت دو ڈاکٹر اور بقیہ عملہ مل ملازمین کا علاج کرنے کے لیے موجود رہتا۔اس زمانے میں بورے والا شہر میں بھی غالباً دو ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوا کرتے تھے۔اس طرح بی ٹی ایم کے ملازمین کو صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولتیں میسر ہوا کرتی تھیں۔ کپڑے کے سلسلے میں ہر مزدور کو سال میں 20 میٹر کپڑا انتہائی سستے داموں میں دستیاب ہوا کرتا تھا۔بی۔ ٹی۔ ایم اپنے استعمال میں آنے والے خام مال کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے علاقے بھر کے زمینداروں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری بھی کیا کرتی تھی۔
یہاں پر موجود جیننگ فیکڑی کے دو افسران عزیز بھائی اور ادریس بھائی کمال کے لوگ تھے۔ آڑے وقت میں قرضوں کی شکل میں مقامی زمینداروں کی مدد کرنا اُن کا عام وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ زمیندار کو کپاس کا ریٹ پورا دیا جاتا ادائیگی وقت پر کی جاتی۔ کچھ زمیندار گھرانے ایسے بھی تھے کہ جیسے جیسے اُن کی کپاس اترتی جاتی وہ اس کی قیمت کا تعین کیے بغیر ہی اُسے مل میں پہنچاتے جاتے اور آخر پر اس سیزن کے بلند ترین ریٹ کے مطابق اپنی مہیا کی گئی کپاس کی قیمت وصول کر لیتے۔یہ ایک بہت بڑی سہولت تھی۔ جو کپاس کے کاشت کاروں کو بی۔ ٹی۔ ایم کی بدولت میسر ہوا کرتی تھی۔ لین دین میں دیانت داری، شرافت اور شفافیت کے اصولوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ بعض لوگ ان کے ساتھ کھل کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ دو چار سو بوری کھل خرید کر اس کی قیمت ادا کر دیا کرتے اور کھل وہاں سے اٹھانے کی بجائے گیٹ پاس کی صورت میں خرید شدہ کھل کی بوریوں کی تعداد کا اجازت نامہ صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے کی شکل میں حاصل کر لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد کھل مہنگی ہونے کی صورت میں وہ کھل اُن کو ہی فروخت کر کے اپنا منافع حاصل کر لیا کرتے۔ اس دوران انہیں کھل یہاں سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ پر سٹور کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
اس زمانے میں بورے والا میں اور بھی چھوٹی موٹی جیننگ فیکڑیاں موجود تھیں۔ بی۔ ٹی۔ ایم کی تقلید میں کھل کی خرید و فروخت کے لیے گیٹ پاس سسٹم کو وہ بھی استعمال میں لایا کرتی تھیں۔ لیکن وہاں پر بیوپاریوں کو اکثر و بیشتر اُن سے شکایات ہی رہا کرتی تھیں۔ کہیں پر اُن کے پیسے ہی مار لیے جاتے۔ کہیں پر ریٹ مارکیٹ کے مطابق نہ ملتا اور کہیں پر ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر کر دی جایا کرتی تھی۔بی۔ ٹی۔ ایم میں کام کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے پورے دن کو آٹھ آٹھ گھنٹوں کی تین شفٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلی شفٹ صبح چھ بجے سے لے کر دو بجے تک دوسری دو سے دس تک اور نائٹ شفٹ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک جاری رہا کرتی تھی۔ ہر شفٹ کے آغاز سے ایک گھنٹہ پہلے مل میں سائرن بجایا جاتا تھا۔ جسے اس زمانے میں سبھی لوگ سائرن کی بجائے گھگھو کہا کرتے تھے اور اس گھگھو کی آواز پورے شہر میں بآسانی سنائی دیا کرتی تھی۔ گویا کہ مل ملازمین کے لیے یہ گھگھو مل میں بلاوے کا اعلان ہوا کرتا تھا۔ آدھ گھنٹہ بعد ایک بار پھر یاد دہانی کے لیے گھگھو بجایا جاتا اور پھر اس کے آدھ گھنٹہ بعد گھگھو کے ذریعے شفٹ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا جاتا۔
اس کے علاوہ ماہِ رمضان میں روزے کی افطاری اور اختتام سحری کا اعلان بھی اسی گھگھو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ جو اس وقت سب سے مستند اور درست ذریعہ مانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آٹھ سے چار بجے تک جنرل شفٹ ہوا کرتی تھی ہر شفٹ کے آغاز سے آدھ گھنٹہ پہلے اور آدھ گھنٹہ بعد مل کو جانے والی سڑک پر سائیکل سوار مل مزدوروں کی آمد و رفت سے خوب چہل پہل رہتی۔ کچھ مزدور خاندان تو بی۔ ٹی۔ ایم کے کوارٹرز میں رہائش پذیر ہوا کرتے تھے لیکن بہت سے مزدور شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں سے بھی آیا کرتے تھے۔پہلی تاریخ کو جب لوگوں کو تنخواہ ملتی تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی اور اس کے مثبت اثرات شہر بھر کی دکانوں پر اُن کی سیل میں اضافے کی صورت میں نظر آیا کرتے تھے۔ یہیں پر ایک سوئمنگ پول اور ایک عدد بہت اچھے معیار کا کلب بھی موجود تھا۔ جہاں پر مل ملازمین اور اُن کے بچے اس سہولت سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک معیاری ریسٹ ہاؤس بھی موجود تھا۔ جو بی۔ ٹی۔ ایم کے افسران کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ سرکار کے اعلیٰ افسران کے قیام کے لیے بھی استعمال میں لایا جایا کرتا تھا۔ اس موقع پر سیٹھ سلیمان اور اس کی جوان سال، خوش خصال، خوش شکل اور نیک دل اہلیہ کے ذکر کے بغیر یہ کہانی ادھوری رہے گی۔
احمد داؤد خاندان سے تعلق رکھنے والے سیٹھ سلیمان اپنی اہلیہ کے ہمراہ یہاں پر جنرل منیجر کی حیثیت سے تعینات ہو کر آئے تو رومانوی اور افسانوی شخصیت رکھنے والے اس جوڑے نے یہاں پر اپنے حُسن ِ سلوک سے افسروں اور مزدوروں کا دل موہ لیا۔ یہاں پر گرمی کی شدت کے پیشِ نظر انہوں نے اپنے گھر پر ائرکنڈیشنر لگوایا تو اُن کی انصاف پسند اور وضع دار طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ اُن کی ماتحتی میں کام کرنے والے افسران گرمی کی شدت سے جھلستے رہیں۔ چنانچہ افسران کے گھروں میں بھی اے سی لگوا کر دیے گئے۔ انہوں نے یہیں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مل کے اندر بھی جن کھاتوں میں ائرکنڈیشنر کی ضرورت تھی انہیں بھی مرکزی طور پر ائرکنڈیشنڈ کیا گیا۔مزدوروں کے بونس کی وقت سے پہلے ہی ادائیگی کے لیے خصوصی انصرام و انتظام کیا کرتے۔ اپنے افسران کے ساتھ ساتھ مزدوروں سے بھی خوشگوار برتاؤ کیا کرتے تھے۔ اُن کی اہلیہ بھی اس معاملے میں اُن سے کسی بھی طور پر پیچھے نہیں رہتی تھیں۔ وہ تقریباً ہر مہینے ایک دعوت کا اہتمام کیا کرتیں۔ جس میں افسران کے بیوی بچوں کے علاوہ مزدوروں کے کچھ خاندانوں کو مدعو کیا جاتا۔ مزدور طبقے کی خواتین کے ساتھ رسم و راہ رکھنا اس کی اولین ترجیح ہوتی۔ وہ ہفتے میں ایک دو دن لیڈی پارک میں جایا کرتی۔ جہاں وہ مزدور گھرانوں کی خواتین کے ساتھ گھل مل جاتیں اور اُن کو درپیش مختلف مسائل کو حل کرنے میں اُن کی ممد و معاون ہوتیں۔ غرض کہ یہ خوب صورت خوب سیرت اور جواں سال جوڑا تمام مل ملازمین کو ایک خاندان کی طرح جوڑے رکھتا۔
یہ بات مزدور یونین کے لیڈروں کو کسی طور بھی گوارا نہیں تھی۔ انہوں نے مزدوروں کو مل مالکان کے خلاف بھڑ کانا شروع کر دیا۔ نفرت ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو بہت تیزی سے وائرس کی طرح پھیلتا ہے۔ مزدوروں کو اُن کے استحصال کے متعلق جھوٹی سچی کہانیاں جوڑ کر سنائی گئیں۔اس سازش کی آبیاری میں حسبِ معمول مقامی سیاست نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا اور مل مزدوروں اور مل مالکان کے درمیان نفرت کی ایک دیوار بلند ہوتی گئی۔ مزدور کو اُن کے حقوق دینے کی باتیں ہونے لگیں تو اُن میں کام چوری بلکہ سینہ زوری کی علتیں آ موجود ہوئیں۔ آئے روز ہڑتال کی دھمکی زندہ باد مردہ باد کے نعرے بدبو دار سیاسی رویے اور مداخلت نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ مل کو چلائے رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ اربوں سے لگائے گئے اس منصوبے کا منافع نامساعد حالات کی وجہ سے تقریباً صفر پر آ چکا تھا۔ لیکن سیٹھ سلیمان کا خیال تھا کہ پانچ سات ہزار خاندانوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔ اس لیے اسے ان حالات میں بھی چلتے رہنا چاہیے۔
اس نے اس منصوبے کے باقی حصہ داروں کو بھی اس بات پر راضی کر لیا تھا۔ لیکن عاقبت نا اندیش مزدور یونین کے رہنماؤں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے باقاعدہ سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ایک دن صبح فارغ ہونے والے مزدوروں کی پوری شفٹ کو روکے رکھا اور آٹھ بجے جب سیٹھ سلیمان مل کے اندر جانے کے لیے گیٹ پر آئے تو ان تمام مزدوروں نے مردہ باد کے نعروں کی گونج میں سیٹھ کو حقیقی معنوں میں ننگے ہو کر دکھا دیا۔ اس کے بعد سیٹھ وہیں سے واپس لوٹ آیا۔ گھر آ کر اپنا سامان سمیٹا اور دونوں میاں بیوی واپس کراچی لوٹ گئے۔ بلکہ وہ یہاں بھی نہیں رکے اور لندن جا کر دم لیا اور اپنی بقیہ زندگی وہیں پر گزار دی۔اُن کے جانے کے بعد مل کو بند کر دیا گیا۔ مزدوروں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ مشینری بیچ دی گئی اور آج وہ علاقہ جہاں پر ایک دنیا آباد ہوا کرتی تھی، سینکڑوں خاندان جہاں رہائش پذیر تھے، ہزاروں خاندانوں کا رزق جس کے ساتھ وابستہ تھا، جہاں رہائشی کالونیوں میں بچوں کی کلکاریاں اور بڑوں کے مسرت و شاد مانی سے بھرپور قہقہے سنائی دیا کرتے تھے وہاں پر آج کل ویرانی کےڈیرے ہیں -کہاں گئے وہ بدبخت جنہوں نے ہزاروں لوگوں کا روزگار چھین کر ایک لہلہاتی صنعتی بستی اجاڑ کر ہی دم لیا