بدھ، 7 مئی، 2025

بورے والا ٹیکسٹائل مل -جو مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئ

 قیام پاکستان کے  ساتھ ہی   حکومت   پاکستان نے  ملک میں صنعتی زون بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے  پاکستان انڈسٹریل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اسی ادارے نے بورے والا ٹیکسٹائل مل کی  بنیاد رکھی اور پھر کراچی کی  میمن برادری  کی  ایک مشہور کاروباری   شخصیت   سیٹھ داؤ د نے اس کا انتظام و انصرام سنبھال کر  اس کی حیثیت کو   عروج دیا   -سیٹھ داؤد چاہتے تھے  اس مل   سے   نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں بلکہ وہ ملکی ترقی میں بھی بھر پور کردار ادا کر سکے۔سیٹھ  داؤد  نے بوریوالا ٹیکسٹائل ملز پر شبانہ روز محنت کر کے  مل کو  صنعتی  زون کی  ایک روشن مثال بنا دیا تھا   ۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ایشیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مل تھی۔  اس کے نام  کو مختصر  کر کے   صرف تین الفابٹ

    B-T- Mمیں بہت بڑی جسامت میں مل کی بلند ترین عمارت کی ٹنکی پر نصب کیے گئے تھے،


جو دن کو تو اتنے نمایاں نہ ہوتے لیکن رات کو سرخ رنگ کی برقی روشنی میں نہا کر یہ دور دور تک لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیے رکھتے۔یہ سینکڑوں ایکڑ پر محیط ایک ایسا صنعتی منصوبہ تھا جو نہ صرف مدتوں ملک کی صنعتی ترقی میں ایک فعال کردار ادا کرتا رہا۔ بلکہ یہ مقامی آبادی کو روزگار مہیا کرنے کا بھی ذریعہ تھا۔ تقریباً چار ہزار کے قریب اس مل کے باقاعدہ ملازم تھے۔ جن میں اکثریت تو مقامی لوگوں کی تھی۔ لیکن کئی خاندان وطن عزیز کے دور دراز علاقوں سے آ کر اسی مل کے وسیلے سے یہاں پر مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے تھے۔اس دور میں جب کہ لوگوں کو ابھی روٹی کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے متعلق کوئی خاص آگاہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس مل کے مالکان اپنے ملازمین کی یہ تمام بنیادی ضروریات بغیر کسی تشہیر کے پوری کر دیا کرتے تھے۔ ملازمین کی رہائش کے لیے چھوٹے چھوٹے کواٹرز اس طرح تعمیر کیے گئے تھے کہ ہر کوارٹر کا دروازہ ڈیڑھ دو ایکڑ رقبے پر مشتمل ایک پارک میں کھلتا تھا۔


 جہاں پر ان ملازمین کے بچے کھیل کود اور دوسری جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہتے اور مختلف اجتماعات کے لیے بھی انہی پارکس کو کام میں لایا جاتا۔اپنے ملازمین کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مل مالکان نے یہاں پر ہی ایک بوائزز ہائی سکول اور ایک گرلز ہائی سکول قائم کیا ہوا تھا۔ جہاں پر بچوں کو دسویں جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ اپنے ملازمین کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں باقاعدہ طور پر ایک ہسپتال موجود تھا۔ جہاں ہمہ وقت دو ڈاکٹر اور بقیہ عملہ مل ملازمین کا علاج کرنے کے لیے موجود رہتا۔اس زمانے میں بورے والا شہر میں بھی غالباً دو ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوا کرتے تھے۔اس طرح بی ٹی ایم کے ملازمین کو صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولتیں میسر ہوا کرتی تھیں۔ کپڑے کے سلسلے میں ہر مزدور کو سال میں 20 میٹر کپڑا انتہائی سستے داموں میں دستیاب ہوا کرتا تھا۔بی۔ ٹی۔ ایم اپنے استعمال میں آنے والے خام مال کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے علاقے بھر کے زمینداروں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری بھی کیا کرتی تھی۔


یہاں پر موجود جیننگ فیکڑی کے دو افسران عزیز بھائی اور ادریس بھائی کمال کے لوگ تھے۔ آڑے وقت میں قرضوں کی شکل میں مقامی زمینداروں کی مدد کرنا اُن کا عام وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ زمیندار کو کپاس کا ریٹ پورا دیا جاتا ادائیگی وقت پر کی جاتی۔ کچھ زمیندار گھرانے ایسے بھی تھے کہ جیسے جیسے اُن کی کپاس اترتی جاتی وہ اس کی قیمت کا تعین کیے بغیر ہی اُسے مل میں پہنچاتے جاتے اور آخر پر اس سیزن کے بلند ترین ریٹ کے مطابق اپنی مہیا کی گئی کپاس کی قیمت وصول کر لیتے۔یہ ایک بہت بڑی سہولت تھی۔ جو کپاس کے کاشت کاروں کو بی۔ ٹی۔ ایم کی بدولت میسر ہوا کرتی تھی۔ لین دین میں دیانت داری، شرافت اور شفافیت کے اصولوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ بعض لوگ ان کے ساتھ کھل کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ دو چار سو بوری کھل خرید کر اس کی قیمت ادا کر دیا کرتے اور کھل وہاں سے اٹھانے کی بجائے گیٹ پاس کی صورت میں خرید شدہ کھل کی بوریوں کی تعداد کا اجازت نامہ صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے کی شکل میں حاصل کر لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد کھل مہنگی ہونے کی صورت میں وہ کھل اُن کو ہی فروخت کر کے اپنا منافع حاصل کر لیا کرتے۔ اس دوران انہیں کھل یہاں سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ پر سٹور کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔


اس زمانے میں بورے والا میں اور بھی چھوٹی موٹی جیننگ فیکڑیاں موجود تھیں۔ بی۔ ٹی۔ ایم کی تقلید میں کھل کی خرید و فروخت کے لیے گیٹ پاس سسٹم کو وہ بھی استعمال میں لایا کرتی تھیں۔ لیکن وہاں پر بیوپاریوں کو اکثر و بیشتر اُن سے شکایات ہی رہا کرتی تھیں۔ کہیں پر اُن کے پیسے ہی مار لیے جاتے۔ کہیں پر ریٹ مارکیٹ کے مطابق نہ ملتا اور کہیں پر ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر کر دی جایا کرتی تھی۔بی۔ ٹی۔ ایم میں کام کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے پورے دن کو آٹھ آٹھ گھنٹوں کی تین شفٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلی شفٹ صبح چھ بجے سے لے کر دو بجے تک دوسری دو سے دس تک اور نائٹ شفٹ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک جاری رہا کرتی تھی۔ ہر شفٹ کے آغاز سے ایک گھنٹہ پہلے مل میں سائرن بجایا جاتا تھا۔ جسے اس زمانے میں سبھی لوگ سائرن کی بجائے گھگھو کہا کرتے تھے اور اس گھگھو کی آواز پورے شہر میں بآسانی سنائی دیا کرتی تھی۔ گویا کہ مل ملازمین کے لیے یہ گھگھو مل میں بلاوے کا اعلان ہوا کرتا تھا۔ آدھ گھنٹہ بعد ایک بار پھر یاد دہانی کے لیے گھگھو بجایا جاتا اور پھر اس کے آدھ گھنٹہ بعد گھگھو کے ذریعے شفٹ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا جاتا۔


 اس کے علاوہ ماہِ رمضان میں روزے کی افطاری اور اختتام سحری کا اعلان بھی اسی گھگھو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ جو اس وقت سب سے مستند اور درست ذریعہ مانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آٹھ سے چار بجے تک جنرل شفٹ ہوا کرتی تھی  ہر شفٹ کے آغاز سے آدھ گھنٹہ پہلے اور آدھ گھنٹہ بعد مل کو جانے والی سڑک پر سائیکل سوار مل مزدوروں کی آمد و رفت سے خوب چہل پہل رہتی۔ کچھ مزدور خاندان تو بی۔ ٹی۔ ایم کے کوارٹرز میں رہائش پذیر ہوا کرتے تھے لیکن بہت سے مزدور شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں سے بھی آیا کرتے تھے۔پہلی تاریخ کو جب لوگوں کو تنخواہ ملتی تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی اور اس کے مثبت اثرات شہر بھر کی دکانوں پر اُن کی سیل میں اضافے کی صورت میں نظر آیا کرتے تھے۔ یہیں پر ایک سوئمنگ پول اور ایک عدد بہت اچھے معیار کا کلب بھی موجود تھا۔ جہاں پر مل ملازمین اور اُن کے بچے اس سہولت سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک معیاری ریسٹ ہاؤس بھی موجود تھا۔ جو بی۔ ٹی۔ ایم کے افسران کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ سرکار کے اعلیٰ افسران کے قیام کے لیے بھی استعمال میں لایا جایا کرتا تھا۔ اس موقع پر سیٹھ سلیمان اور اس کی جوان سال، خوش خصال، خوش شکل اور نیک دل اہلیہ کے ذکر کے بغیر یہ کہانی ادھوری رہے گی۔


احمد داؤد خاندان سے تعلق رکھنے والے سیٹھ سلیمان اپنی اہلیہ کے ہمراہ یہاں پر جنرل منیجر کی حیثیت سے تعینات ہو کر آئے تو رومانوی اور افسانوی شخصیت رکھنے والے اس جوڑے نے یہاں پر اپنے حُسن ِ سلوک سے افسروں اور مزدوروں کا دل موہ لیا۔ یہاں پر گرمی کی شدت کے پیشِ نظر انہوں نے اپنے گھر پر ائرکنڈیشنر لگوایا تو اُن کی انصاف پسند اور وضع دار طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ اُن کی ماتحتی میں کام کرنے والے افسران گرمی کی شدت سے جھلستے رہیں۔ چنانچہ افسران کے گھروں میں بھی اے سی لگوا کر دیے گئے۔ انہوں نے یہیں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مل کے اندر بھی جن کھاتوں میں ائرکنڈیشنر کی ضرورت تھی انہیں بھی مرکزی طور پر ائرکنڈیشنڈ کیا گیا۔مزدوروں کے بونس کی وقت سے پہلے ہی ادائیگی کے لیے خصوصی انصرام و انتظام کیا کرتے۔ اپنے افسران کے ساتھ ساتھ مزدوروں سے بھی خوشگوار برتاؤ کیا کرتے تھے۔ اُن کی اہلیہ بھی اس معاملے میں اُن سے کسی بھی طور پر پیچھے نہیں رہتی تھیں۔ وہ تقریباً ہر مہینے ایک دعوت کا اہتمام کیا کرتیں۔ جس میں افسران کے بیوی بچوں کے علاوہ مزدوروں کے کچھ خاندانوں کو مدعو کیا جاتا۔ مزدور طبقے کی خواتین کے ساتھ رسم و راہ رکھنا اس کی اولین ترجیح ہوتی۔ وہ ہفتے میں ایک دو دن لیڈی پارک میں جایا کرتی۔ جہاں وہ مزدور گھرانوں کی خواتین کے ساتھ گھل مل جاتیں اور اُن کو درپیش مختلف مسائل کو حل کرنے میں اُن کی ممد و معاون ہوتیں۔ غرض کہ یہ خوب صورت خوب سیرت اور جواں سال جوڑا تمام مل ملازمین کو ایک خاندان کی طرح جوڑے رکھتا۔ 


یہ بات مزدور یونین کے لیڈروں کو کسی طور بھی گوارا نہیں تھی۔ انہوں نے مزدوروں کو مل مالکان کے خلاف بھڑ کانا شروع کر دیا۔ نفرت ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو بہت تیزی سے وائرس کی طرح پھیلتا ہے۔ مزدوروں کو اُن کے استحصال کے متعلق جھوٹی سچی کہانیاں جوڑ کر سنائی گئیں۔اس سازش کی آبیاری میں حسبِ معمول مقامی سیاست نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا اور مل مزدوروں اور مل مالکان کے درمیان نفرت کی ایک دیوار بلند ہوتی گئی۔ مزدور کو اُن کے حقوق دینے کی باتیں ہونے لگیں تو اُن میں کام چوری بلکہ سینہ زوری کی علتیں آ موجود ہوئیں۔ آئے روز ہڑتال کی دھمکی زندہ باد مردہ باد کے نعرے بدبو دار سیاسی رویے اور مداخلت نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ مل کو چلائے رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ اربوں سے لگائے گئے اس منصوبے کا منافع نامساعد حالات کی وجہ سے تقریباً صفر پر آ چکا تھا۔ لیکن سیٹھ سلیمان کا خیال تھا کہ پانچ سات ہزار خاندانوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔ اس لیے اسے ان حالات میں بھی چلتے رہنا چاہیے۔


اس نے اس منصوبے کے باقی حصہ داروں کو بھی اس بات پر راضی کر لیا تھا۔ لیکن عاقبت نا اندیش مزدور یونین کے رہنماؤں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے باقاعدہ سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ایک دن صبح فارغ ہونے والے مزدوروں کی پوری شفٹ کو روکے رکھا اور آٹھ بجے جب سیٹھ سلیمان مل کے اندر جانے کے لیے گیٹ پر آئے تو ان تمام مزدوروں نے مردہ باد کے نعروں کی گونج میں سیٹھ کو حقیقی معنوں میں ننگے ہو کر دکھا دیا۔ اس کے بعد سیٹھ وہیں سے واپس لوٹ آیا۔ گھر آ کر اپنا سامان سمیٹا اور دونوں میاں بیوی واپس کراچی لوٹ گئے۔ بلکہ وہ یہاں بھی نہیں رکے اور لندن جا کر دم لیا اور اپنی بقیہ زندگی وہیں پر گزار دی۔اُن کے جانے کے بعد مل کو بند کر دیا گیا۔ مزدوروں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ مشینری بیچ دی گئی اور آج وہ علاقہ جہاں پر ایک دنیا آباد ہوا کرتی تھی، سینکڑوں خاندان جہاں رہائش پذیر تھے، ہزاروں خاندانوں کا رزق جس کے ساتھ وابستہ تھا، جہاں رہائشی کالونیوں میں بچوں کی کلکاریاں اور بڑوں کے مسرت و شاد مانی سے بھرپور قہقہے سنائی دیا کرتے تھے وہاں پر آج کل ویرانی کےڈیرے ہیں -کہاں گئے وہ بدبخت جنہوں نے ہزاروں لوگوں کا روزگار چھین  کر ایک لہلہاتی صنعتی بستی اجاڑ کر ہی دم لیا 


اتوار، 4 مئی، 2025

کینیڈا دنیا کا کثیر قومی ملک

    البرٹا مغربی کینیڈا میں واقع ہے اور اس کی سرحد مغرب میں برٹش کولمبیا، مشرق میں سسکیچیوان، شمال میں شمال مغربی علاقے اور جنوب میں امریکی ریاست مونٹانا سے ملتی ہے۔ البرٹا کینیڈا کے تین صوبوں میں سے ایک ہے جس کی سرحد صرف ایک امریکی ریاست سے ملتی ہے۔ دیگر دو یوکون اور نیو برنسوک ہیں۔ سسکیچیوان اور البرٹا دونوں کی زمینی سرحدیں ہیں۔ البرٹا کا دارالحکومت ایڈمونٹن ہے، جو صوبے کے جغرافیائی مرکز کے بالکل جنوب میں واقع ہے۔ کیلگری کا مشہور شہر اس سے 300 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ کیلگری البرٹا کا سب سے بڑا شہر ہے اور کینیڈا کے بڑے تجارتی مراکز میں سے ایک ہے۔کینیڈا کو غیر ملکی سیاحوں اور سیاحت کے شعبے میں ملازمین کی کمی کا سامنا قامی سیاحتی تنظیم کو ملازمین کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اس ایک جگہ کا نہیں ہے بلکہ کینیڈا میں سیاحت کے شعبے میں ہزاروں ملازمین کی کمی ہےکینیڈا نے حال ہی میں غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا آغاز کیا ہے۔


 تاہم اس کام میں چین سے تنازع کے ساتھ ساتھ جنگلات کی آتشزدگی اور ملازمین کی کمی آڑے آ رہی ہے۔جیک ریورز سیاحوں کے گائیڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کینیڈا میں سیاحوں کے لیے تین چیزیں موجود ہیں جن میں قدرتی نظارے، مقامی تہذیب اور تاریخ شامل ہیں۔جیک کا تعلق کینیڈا کی مقامی آبادی سے ہے جو اب اونٹاریومیں وکویمکونگ خطے کے ایک جزیرے کی سیر کرواتے ہیں۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں جھیل کنارے گھنے جنگلات موجود ہیں اور قدرتی حسن کی بہتات ہے۔ جیک سیاحوں کو کینیڈا میں بسنے والی مقامی آبادی کی تاریخ اور ان کے علاقے کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ان کو اپنا کام پسند ہے لیکن وہ مانتے ہیں کہ ’ہر کوئی یہ نہیں کر سکتا۔ یہ آٹھ گھنٹے کی نوکری نہیں ہے اور اس میں ہفتے اور اتوار کے دن کام کرنا پڑتا ہے، گھر والوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔‘اور اسی وجہ سے مقامی سیاحتی تنظیم کو ملازمین کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اس ایک جگہ کا نہیں ہے بلکہ کینیڈا میں سیاحت کے شعبے میں ہزاروں ملازمین کی کمی ہے۔یہ کمی اس صورت میں پوری ہو سکتی ہے اگر کینیڈا کی حکومت ملک میں سیاحوں کی تعداد بڑھانے کی کوششوں میں کامیاب ہو جاتی ہے۔


 کینیڈا میں کورونا وبا سے قبل 2019 میں دو کروڑ 20 لاکھ سیاحوں کی تعداد تھی جو گزشتہ سال ایک کروڑ 80 لاکھ یعنی 17 فیصد تک کم رہی۔تام نئی حکمت عملی، جسے ’ورلڈ آف اپارچیونٹی‘ کا نام دیا گیا ہے، کا مقصد ہے کہ سیاحت کے شعبے سے آمدن کو بڑھایا جائے اور اسے گزشتہ سال 109 ارب کینیڈیئن ڈالر سے 2030 تک 160 ارب ڈالر تک پہنچا دیا جائے۔اس حکمت عملی کے تحت کینیڈا کو دنیا میں سیاحوں کی ساتویں بڑی منزل بنانا مقصود ہے۔ اس وقت کینیڈا 13ویں پوزیشن پر موجود ہے۔کینیڈا نے حال ہی میں غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا آغاز کیا ہے-البرٹا کے مشہور سیاحتی قصبے جاسپر میں گزشتہ سال جولائی میں جنگلات میں لگنے والی آگ کو ’خطے میں صدی کی سب سے بڑی آتشزدگی‘ قرار دیا گیا تھا جس میں دو تہائی عمارات تباہ ہو گئی تھیں۔ان میں سے ایک عمارت اس ہوٹل کی تھی جو 1960 سے فعال تھا۔ اس ہوٹل کی مالک کیرن ڈیکور کے لیے یہ ’تباہ کن‘ واقعہ تھا۔لیکن انھوں نے ہوٹل کی انشورنس کروا رکھی تھی اور انھیں امید ہے کہ اگلے موسم گرما سے قبل یہ دوبارہ سے تیار ہو گا۔ لیکن قصبے کے باقی ہوٹلوں کو دوبارہ سیاحوں کے لیے مکمل تیار ہونے میں کتنا وقت لگے گا


مغربی البرٹا پہاڑوں سے چھایا ہوا ہے اور نسبتاً ہلکا درجہ حرارت ہے۔ جنوبی اونٹاریو کے بعد وسطی البرٹا کینیڈا کا واحد حصہ ہے جہاں بگولے آتے ہیں۔ موسم گرما کے طوفان عام ہیں، جن میں سے کچھ شدید ہیں۔ یہ طوفان کیلگری-ایڈمنٹن کوریڈور میں سب سے زیادہ عام ہیں۔ کینیڈا میں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ البرٹا نے حالیہ برسوں میں آبادی میں نمایاں اضافہ کا تجربہ کیا ہے۔ صوبے میں 2003 اور 2004 میں شرح پیدائش بہت زیادہ تھی اور نقل مکانی کی شرح بھی بہت زیادہ تھی۔ 81% آبادی شہروں میں اور 19% دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ کیلگری ایڈمنٹن کوریڈور میں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ کینیڈا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ راکی پہاڑوں کی وجہ سے جنوب مغرب میں موسم بہت مختلف ہے۔ ان پہاڑوں کی وجہ سے زیادہ تر مغربی ہوائیں یہاں تک پہنچنے سے پہلے بارش پیدا کرتی ہیں۔ صوبے کے شمالی محل وقوع اور سمندر سے دوری کی وجہ سے، یہاں کا موسم معتدل نہیں ہے - شمالی البرٹا زیادہ تر بوریل جنگلات سے گھرا ہوا ہے اور، سبارکٹک آب و ہوا کی وجہ سے، جنوب کی نسبت صفر سے زیادہ درجہ حرارت کے ساتھ کم دن ہوتے ہیں۔ جنوبی البرٹا میں نیم خشک آب و ہوا ہے، جہاں پانی کی طلب رسد سے زیادہ ہے۔ جنوب مشرقی کونا، جسے پالسیئر مثلث کہا جاتا ہے، بہت گرم گرمیاں اور کم بارش ہوتی ہے۔ یہ اکثر فصل کی ناکامی کا سبب بنتا ہے اور شدید خشک سالی کا شکار ہوتا ہے۔کینیڈا کا ایک زرعی صوبہ ہے۔ اسے 1 ستمبر 1905 کو صوبائی درجہ دیا گیا تھا۔



 یہاں تین بڑی جھیلیں ہیں اور 260 مربع کلومیٹر سے چھوٹی متعدد چھوٹی جھیلیں ہیں۔ جھیل اتھاباسکا، ساسکیچیوان میں 7,898 مربع کلومیٹر پر واقع ہے۔ جھیل کلیئر کا رقبہ 1,436 مربع کلومیٹر ہے اور یہ جھیل اتھاباسکا کے مغرب میں واقع ہے۔مانیٹوبا کے بعد، 2٪ پر۔ فرانسیسی بولنے والے لوگ صوبے کے شمال مغربی اور وسطی حصوں میں رہتے ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق اس صوبے میں چینی آبادی بھی 4% ہے۔ ایڈمنٹن اور کیلگری میں شروع سے ہی چائنا ٹاؤنز ہیں۔ کیلگری کینیڈا میں تیسری سب سے بڑی چینی آبادی کا گھر ہے۔ چینی یہاں ریلوے کی تعمیر کے دوران 1880 کی دہائی میں آنا شروع ہوئے۔ مقامی لوگ کل آبادی کا صرف 3% بنتے ہیں۔ البرٹا میں، مورمن صوبے کے انتہائی جنوب میں رہتے ہیں اور کل آبادی کا تقریباً 2.5% بنتے ہیں۔ البرٹا میں مسلمان، سکھ اور ہندو بھی رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کا تقریباً 2.5 فیصد، سکھ 0.8 فیصد اور ہندو 0.5 فیصد ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ حال ہی میں کینیڈا ہجرت کر گئے ہیں۔ شمالی امریکہ کی قدیم ترین مسجد البرٹا میں ہے۔

ہفتہ، 3 مئی، 2025

بھری بہار کے بچپن میں غربت کا آسمان

 

  مارچ 2025/24ء

پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے میں لے لیا گیا تھا لیکن عمائدین کی مداخلت کے بعد افغانستان واپس بھیج دیا گیا-مقامی قبائلی عمائدین نے بی سی کو بتایا کہ ان کے بچوں میں نوعمر اور بچے شامل ہیں اور یہ سرحد پر مختلف قسم کا سامان سمگل کرتے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقے ایک ماہ تک بند رکھنے کے لیے افغانستان کو بدھ کو کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ دونوں فریقوں کے درمیان تجارت اور سفر کے لیے مرکزی گزرگاہ سمجھی جاتی ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے پیدل افراد کو جمع کرنے کی اجازت دی گئی۔


طورخم سرحد پر زیرو پوائنٹ یا مرکزی گزرگاہ گاہ کے آس پاس کے کمرے سے تعلق رکھنے والے کم عمر بچے جن کی عمریں آٹھ سال سے 14 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے کہ اکثر سامان بھرے ہوتے ہیں افغانستان سے پاکستان اور افغانستان کی طرف سے سمگل کرتے ہیں۔ان بچوں کی گاڑیوں کے نیچے یا اوپر سے خفیہ طور پر سرحد پار کرتے ہیں اور اس سے روزگار حاصل کرتے ہیں لیکن بڑے وزیر کا کہنا ہے کہ سمگلرز کی طرف سے ان کا استحقاق بھی کیا جاتا ہے اور کم اجرت پر انتہائی پُرخطر اور غیرقانونی کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔


سنہ 2023 کی یونیسیف کی رپورٹ کے ادارے میں افغانستان کے ننگرہار صوبے میں چائلڈ پروٹیکشن کمیشن نے کہا کہ ’’سروے کے مطابق سال مارچ میں 2500 بچے زیادہ طور پر سرحد پر انتہائی چائلڈ لیبر کر رہے ہیں‘‘۔ویڈیو چلائیں، "چلتے ٹرکوں کے نیچے چھپ کر پاکستان سامان سمگل کرنے والے افغان بچے"،  چلتے ٹرکوں کے نیچے چھپ کر پاکستان کا سامان سمگل کرنے والے افغان بچے  پاکستان والے افغان بچوں کو کیسے کیسے لیا گیا؟لنڈی کوتل کے ایس ایچ اور عدنان خان آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ پچاس کے لگ بھگ غیر بچے اور نوعمر قانونی طور پر سرحد پر لگنے پر باڑ توڑ کر داخل ہو گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے غیر قانونی طریقے سے مختلف قسم کے سامان سمگل کرتے ہیں جن میں سگریٹ اور دیگر اشیا شامل ہوتی ہیں۔


پولیس نے ان بچوں کے خلاف جا کر 14 فارن ایکٹ کے تحت نامزد کیا تھا لیکن مقامی عمائدین اور نمائندوں کی کوششوں سے درخواست نہیں کی تھی۔عدنان خانریدی نے بتایا کہ ان بچوں کو تنبیہ کر دیا گیا ہے کہ اگر اس طرح سے آپ کے خلاف درج کیا جائے گا۔ بچے بڑی گاڑیوں کے نیچے یا گاڑیوں کے اوپر سے سرحد پار کرتے ہیں۔ لنڈی کوتل تحصیل کے چیئرمین شاہ خالد شنواری نے بتایا کہ پچاس بچوں کو تو آپ نے لے لیا تھا لیکن 30 بچے اور بھی تھے جنھوں نے اتوار کی رات افغان صوبائی وزیر کو خطاب کر دیا۔عدنان آفریدی نے بتایا کہ طور خم سرحدپر کوئی 700 لوگ لگتے ہیں جو سرحد پر اِدھر کا سامان اُدھر اور اُدھر کا ساما ن ا دھر ادھر  کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مقامی عمائدین اور جرگہ بااختیار نے ان کی واپسی کے لیے کوششیں کیں اور ماہِ رمضان میں جذبۂ خیر سگالی کے تحت جرگہ کے موقع پر بات چیت کی۔


مقامی قبائلی رہنما ملک تاج الدین نے بی سی کو بتایا کہ ’’سرحد کھلنے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے جس پر عصمت دری کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان کے بعد ان بچوں کو زیرو پوائنٹ پر افغان وزیر خارجہ کو دیا  گیا‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے بچوں میں 17 بچے شامل ہیں جبکہ 33 بچے اور نوعمر بچے شامل ہیں۔پاک افغان پر ماضی میں بڑے پیمانے پر مختلف اشیا کی سمگلنگ کی سرحد تھی لیکن سرحد پر سمگلنگ میں کمی واقع ہوئی لیکن اب بھی سرحد پر مختلف بچے اشیا سمگلنگ کرتے ہیں جن میں سگریٹ، نشہ آور اشیا، قسم کی اشیا اور دیگر اشیا شامل ہیں۔


یہ بچے ماضی میں بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کے اوٹ میں چھپ کر یا ان کنٹینرز اور ٹرکوں کے نیچے سامان سمگل کرتے ہیں۔لنڈی کوتل تحصیل کے چیئرمین شاہ خالد شنواری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’ایک المیہ ہے کہ بڑی تعداد میں انتہائی بچے راستے یا ان کی بڑی گاڑیوں کے نیچے اور ان گاڑیوں کے ساتھ افغانستان کے چھپے ہوئے ہیں اور ان بچوں کے پاس مختلف قسم کا سامان ہوتا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’اکثر یہ بچے جب اس طرف آکر واپس نہیں جاسکتے تو پھر یہ عورتیں اپنے ہوٹلوں پر آس پاس یا بازار میں چھپ کر گزارتے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا بھی ہوا ہے کہ ان کے نیچے بڑی ڈیکلیوں کے ساتھ ساتھ چھپ کر بچے زخمی بھی ہوئے ہیں لیکن اس گاڑی کو اس کام سے منع کیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اب یہ بچے باڑ کر رہے ہیں اور ان بچوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کو سامان دیا جاتا ہے اور اس سے مقامی سطح پر مسائل بڑھ رہے ہیں۔

جمعہ، 2 مئی، 2025

محمد صدیق سے بریگیڈئر صدیق سالک تک کا سفر

   محمد صدیق سے صدیق  سالک تک کا سفر  کیسے ممکن ہواسالک  بتاتے ہیں کہ جب انکی عمر صرف ڈھائ برس تھی کہ  ان کے والد خدا کے گھر چلے گئے ' اورگھر میں غربت کا  عالم تھا اور والدصاحب  ایک تیسرے درجے  کے کاشتکار تھے وہ تین بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ہماری بہادر  ماں کا امتحان تھا اور پھر ہماری ماں نے ماں اور باپ دونوں  کی زمہ داری کمال ہمت سے اٹھا لی  -اس دور میں   ہمارے  گاؤں میں کوئی پرائمری اسکول نہ تھا۔  اور نا  سماجی زندگی میں  اسکول جانے آنے کا رواج  تھا  ۔ والدہ پر چار بچوں کی کفالت کا بوجھ ہی بہت تھا چنانچہ میرے  اسکول بھیجنے پر کبھی کسی نے غور ہی نہیں کیا تھا۔ "پھر ایک مرتبہ یوں ہوا کہ شہر میں  شدید  طوفانی بارش ہوئی  جھکڑ چلے اور میں اس باد وباراں میں گم ہو گیا ہمارے گھر کے علاوہ پاس پڑوس میں بھی شور مچ گیا کہ بچہ گم ہو گیا ہے  تلاش بسیار کے بعد  بالآخر گھر والوں نے ٹھوٹھہ رائے بہاد ر اسکو کا رخ کیا جہاں میں کلاس روم میں موجود تھا  یہ محض ایک اتفاق تھا لیکن بعد میں وتیر ہ ہو گیا کہ جب بھی موقع ملتا میں بھاگ کر اسکول چلا جاتا مجھے پڑھتے ہوئے بچے اچھے لگتے تھے۔


  میرا بھی  جی  چاہتا تھا کہ میں بھی ان  بچوں کی طرح پڑھوں میرے شوق اور لگن کو دیکھ کر گھر والوں نے لکڑی کی تختی ،سرکنڈے کا قلم اور ایک کتا ب دلاکر اسکول بھیج دیا۔ بچے تو پڑھائی کے خوف سے اسکول سے بھاگتے ہیں۔ میں پڑھنے کے شوق میں گھر سے بھاگا۔  منگلہ کے چوہدری رحمت خان کا بیٹا محمد صدیق سے صدیق سالک کیسے بنا یہ بھی ایک دلچسب کہانی ہے۔ یہ کہانی ان کی اپنی زبانی   - ان دنوںمیں   آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور سالانہ امتحان کے داخلہ فارم پر کیے جا رہے تھے۔ ماسٹر صاحب کو ایک مشکل پیش آ رہی تھی۔ ایک ہی کلاس میں آدھ درجن سے زیادہ لڑکے "محمد صدیق" نام کے تھے۔ انھوں نے ایک حل تلاش کیا اور تمام صدیقوں کو کہا کہ ہر ایک اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی اضافہ نام جوڑے -   سالانہ امتحان کے داخلہ فارم   محمد صدیق جومستقبل میں صدیق سالک کہلایا اور اس نے اپنے نام کا لاحقہ بنا لیا اور محمد صدیق، محمدصدیق سالک ہو گیا۔ اس کی نشاندھی انھوں نے اپنے دوستوں اور اپنے بچوں کے سامنے کئی مرتبہ کی۔


 انھوں نے کہیں عبدالمجید سالک کا نام پڑھ رکھا تھا اور وہی سالک ان کے ذہن کے نہا ں خانے میں محفوظ تھا جو انھیں سالک  -انھیں اسلامیہ پرائمری اسکول ملکہ میں داخل کروایا گیا۔ اس دوران انھوں نے اسکول کے اوقات کے بعد حافظ محمد حیات سے قرآن کی تعلیم بھی حاصل کی۔ یہاں سے انھوں نے چار جماعتیں پاس کیں پھر ڈی سی ہائی اسکول ٹھوٹھہ رائے بہادر میں چلے گئے جہاں سے مڈل کا امتحان پاس کیا اس وقت یہ تعلیمی ادارہ مڈل تک ہی تعلیم دیتا تھا۔ اس کے بعد ڈی بی ہائی اسکول ککرالی نزد کوٹلہ عرب علی خان میں داخلہ لیا لیکن مالی مجبوریوں نے اسکول سے ناتا توڑنے پر مجبور کر دیا اوروہ اپنے بہنوئی چوہدری اقبال کے پاس چلے گئے جو اس وقت بہاولپور میں تھانیدار تھے۔ میڑک کا امتحان پرائیویٹ پاس کیا۔ ساڑھے آٹھ سو میں سے چھ سو چھیالیس نمبر حاصل کیے۔ ننھیال نے ان کی ذھانت دیکھتے ہوئے مد د کافیصلہ کیا اور انھیں زمیندارہ کالج میں سال اول میں داخل کروا دیا جہاں سے انھوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور پھر ڈی بی ہائی اسکول میں عارضی طور معلم کی حیثیت سے ملازمت کرلی جو دوسال تک جاری رہی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے انھوں نے 1955ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا


،وہاں سے انگریری ادب میں بی اے آنرز کیا اور پھر ایم اے انگریزی ادب کی ڈگری 1959ء میں مکمل کی۔ ابھی ایم اے کے نتائج کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ لائل پور(فیصل آباد) کے اسلامیہ کالج سے انھیں ملازمت کی پیشکش ہوئی جو انھوں نے قبول کر لی۔ اس ووران پبلک سروس کمیشن سے بھی ملازمت مل گئی اور ان کی بطور لیکچرر پہلی تعینا تی گورنمنٹ کالج مانسہرہ میں ہوئی ۔چنانچہ ایک نئی اڑان بھرنے کا فیصلہ کیا فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک ہفت روزہ "پاک جمہوریت" کو نائب مدیر کی حیثیت سے جائن کر لیا۔ ملازمت کا یہ عرصہ مختصر ثابت ہوا کیونکہ ایک سال بعد یہ پرچہ بند ہو گیا اور اس کے تمام ملازمین کو مختلف شعبوں میں کھپانے کا فیصلہ کیا گیا انھیں محکمہ اطلاعات و نشریات میں پی۔ آر۔ او مقرر کر دیا گیا۔ اس دوران فوج کی ایک مشتہر اسامی کے لیے انٹرویو دیا اور کامیاب ہو گئے ۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز کے 16سال بعد ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ عموماً نثر نگار لکھنے کا آغاز افسانوی نثر سے کرتے ہیں لیکن سالک نے ناول اس وقت لکھا جب وہ اڑتالیس(48) برس کے ہو چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ناول کی صنف کسی خاص مقصد کو پانے کے لیے اپنائی ورنہ وہ اتنی تاخیر سے اس طرف مائل نہ ہوتے۔ 


گزشتہ صفحات میں سالک کی زندگی کے اس پہلو پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے کہ سقوط ڈھاکہ نے ان کے دل و دماغ کو شدید متاثر کیا تھا۔وطن سے محبت سالک کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی،بھارتی قید نے اس میں کئی گنا اضافہ کیا تھا۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد جب وہ واپس وطن آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ آدھا ملک کھونے کے بعد بھی اہل اقتدار طبقے پر کچھ اثر نہیں ہوا اسی بددلی میں وہ فوج بھی چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں ملازمتی مجبوریوں کے تحت ایسے اقدامات میں شریک ہونا پڑتا تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ اس پس منظر میں سالک نے ”پر یشر ککر“ تخلیق کیا جس میں انہوں نے عام پاکستانی کو معاشرے میں در پیش مسائل ‘ ناانصافی کی تصویر پیش کیہے۔ صدیق سالک افسانوی نثر میں مہارت نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود یہ ناول قارئین میں مقبول ہوا کیونکہ اس کی بنیاد حقیقت پر رکھی گئی ہے۔


منگل، 29 اپریل، 2025

ماحولیاتی نظام کے محافظ ''ننھے پرندے ''پارٹ- 1

  

 ویسے تو اللہ  کریم و کارساز نے  دنیا میں ہر تخلیق   ہی بے مثال بنائ  لیکن   حقیقت  یہ ہے کہ روئے زمین پر   پرندے  اس کی تخلیق اعلٰی  کی   بے مثل ' مثال ہیں  پرندے ہماری زندگی کا لازمی جزو ہیں اور اللہ پاک  نے ان کو یہ سمجھ بوجھ عطا کی ہے کہ  یہ موسم کے لحاظ سے اپنے مسکن تبدیل کر لیتے ہیں  اور موسمی   سختیوں کی زد میں آنے کے بجائے وہاں سے   ہجرت کر جاتے ہیں ۔ اس ہجرتی   راہداری  کو پرندوں کا انڈس فلائ روٹ   کہا جاتا ہے، جو دنیا کی اہم ہجرتی گزرگاہوں میں شامل ہےجیسا کہ روس کے برفانی صحرا  سائبیریا میں جب  ہر طرف برف کا راج ہوتا ہے  یہ پرندے پاکستان کی جانب  ہجرت کرکے   منگلا ڈیم اور ہیڈ رسول پر  اپنے ڈیرے ڈالتے ہیں   جس کی وجہ سے  ان علاقون کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے ۔ ، مہمان موسمی پرندوں جن میں کونج، شاہین، تلور، بٹیر اور مرغابیاں شامل ہیں ان کی آمد کا سلسلہ ماہ کے آخر تک جاری رہتا ہے ۔اسی طرح پنجاب میں مختلف ہیڈورکس جن میں ہیڈبلوکی ، خانکی، سدھنائی ، سلیمانیکی ، قادرآباد اورمرالہ شامل ہے یہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں مہمان پرندے قیام کرتے ہیں۔اسی طرح مختلف جھیلیوں پر بھی ان پرندوں کی اچھی خاصی تعداد ڈیرے ڈالتی ہے، بد قسمتی سے گزرتے وقت کے ساتھ قدرتی حسن کو دوبالا کرنے والے ان مہمان پرندوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔


کیا آپ جانتے ہیں  کہ ایک براعظم سے دوسرے براعظم ہجرت کر نے والے یہ پرندے زمین پر اترے بغیر مسلسل دس ماہ تک اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد میں پچاس فیصد سے زائد کمی آئی ہے جس کی ایک وجہ ان پرندوں کا بڑے پیمانے پر ہونے والا غیرقانونی شکار ہے۔سائبیریا  کے سرد ترین برفانی  علاقے سے ہجرت کرنے والے پرندے ہر سال سردیوں میں گرم  ممالک  کی جانب محو  پرواز ہوتے ہیں ۔ یہ پرندے اکتوبر سے مارچ تک پاکستان کے دریاؤں، جھیلوں اور دلدلی علاقوں میں قیام کرتے ہیں اور موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی واپس سائبیریا چلے جاتے ہیں ۔ اس سال یہ دن ''پانی: پرندوں کی زندگی قائم رکھنے کا ضامن'' کے موضوع کے تحت منایا جائے گا جس سے ہجرتی پرندوں اور ان کے مساکن کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔13 اور 14 مئی کو ہجرتی پرندوں کا عالمی دن دنیا کی توجہ ان پرندوں کی زندگی کو لاحق خطرات کی جانب مبذول کراتا ہے۔


ہجرتی پرندے ہجرت، موسم سرما گزارنے، نسل کشی اور گھونسلے بنانے کے لئے پانی اور اس سے منسلک مساکن جیسا کہ جھیلوں، دریاؤں، ندیوں، تالابوں اور ساحلی نم دار جگہوں پر انحصار کرتے ہیں اور طویل موسمی ہجرتوں کے دوران ان مقامات پر آرام کرتے اور تازہ دم ہوتے ہیں۔تاہم دنیا بھر میں یہ آبی ماحولی نظام خطرے سے دوچار ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی انسانی طلب، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سے اس بیش بہا ماحولی نظام اور ان پر انحصار کرنے والے ہجرتی پرندوں کو خطرہ لاحق ہے-پرندوں کو عام طور پر ہماری زمین کی صحت کا پیمانہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ''ماحولی نظام کے انجینئر'' ہوتے ہیں جو پودوں کی افزائش کے لئے بیج پھیلاتے، زیرگی کرتے اور مردہ جانداروں کو کھا کر ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔معدومیت کا خطرہ  تاہم جیسا کہ دنیا میں پرندوں کی صورتحال کے بارے میں 2022 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے، پرندے اور ہماری زمین خطرے سے دوچار ہیں۔ آٹھ میں سے ایک پرندے کی نسل کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے اور دنیا بھر میں پرندوں کے حوالے سے صورتحال بگڑ رہی ہے۔


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی آبی پرندوں کی انواع کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ انہیں سب سے بڑے خطرے کا سامنا شمالی کرے میں موسم گرما کے نسل کشی کے مقامات اور جنوب میں خوراک کے حصول کی جگہوں کے مابین سالانہ دو طرفہ ہجرتوں کے دوران ہوتا ہے۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے رکن ممالک، بین الحکومتی ادارے کے نمائندوں اور این جی اوز نے متعدد قراردادوں اور رہنما ہدایات کی منظوری دی جس کا مقصد حیاتیاتی تنوع کے نقصان میں کمی لانا اور ان 255 آبی پرندوں کو تحفظ دینا تھا جنہیں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی حمایت سے طے پانے والے افریقین یوریشین واٹر برڈ ایگریمنٹ (اے ای ڈبلیو اے) کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی پرندوں کی بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔ONU News PT سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی پرندوں کی بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔بڑا ماحولیاتی چیلنج -تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کا نقصان اس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑے ماحولیاتی مسائل میں سے ایک ہے۔2019 میں 'حیاتیاتی تنوع اور ماحولی نظام کی خدمات پر بین الحکومتی سائنس۔پالیسی پلیٹ فارم' (آئی پی بی ای ایس) کے عالمگیر جائزے میں خبردار کیا گیا تھا کہ انسان حیاتیاتی تنوع کو جس شرح سے کھو رہا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔اگر اس حوالے سے موجودہ رحجانات کا رخ واپس نہ موڑا گیا تو مستقبل قریب میں جانداروں کی دس لاکھ انواع معدوم ہو جائیں گی۔


جنگلی جانوروں کی ہجرتی انواع کے تحفظ سے متعلق کنونشن (سی ایم ایس) نے اس رحجان کی تصدیق کی ہے۔ یہ ہجرتی جانوروں، ان کے مساکن اور ہجرتی راستوں کے تحفظ سے متعلق واحد مخصوص عالمی کنونشن ہے۔اس کنونشن کے فریقین کی 13ویں کانفرنس (کاپ-13) میں پیش کردہ سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔ حیاتیاتی تنوع اور ماحولی نظام انسانیت کی بقا کے لئے ضروری ہیں اور ان دونوں کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔عالمگیر تعاون-کنونشن کی ایگزیکٹو سیکرٹری ایمی فرینکل نے کہا ہے کہ ''ہجرتی جانور اس ماحولی نظام کا لازمی حصہ ہوتے ہیں جن میں وہ پائے جاتے ہیں۔ وہ صحت مند ماحولی نظام کی فعالیت، توازن اور اس کی بناوٹ میں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں جو ہمیں پودوں کی زیرگی، خوراک، فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو ختم کرنے اور کئی طرح کی معاشی منفعت جیسے بے شمار فوائد پہنچاتا ہے۔''چونکہ ہجرتی انواع قومی، علاقائی حتٰی کہ براعظمی حدود کے بھی آر پار آتی جاتی ہیں اس لیے سی ایم ایس نے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا ہے جو اس معاملے میں عالمگیر تعاون میں مدد دیتا ہے۔ ماحولیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلی جیسے کثیررخی عالمگیر مسائل سے نمٹنے کے لئے یہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوم پیچ » ماحولیات » سندھ: 2023 کے بعد مسافر پرندوں کی آمد میں مسلسل کمیانڈپینڈنٹ اردو گفتگو کرتے ہوئے محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو نے کہا کہ 2023 کے بعد مسافر پرندوں کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔


ماحولیاتی نظام کے محافظ ''ننھے پردے ''پارٹ -2

 

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق صوبے میں آنے والے مسافر آبی پرندوں کی آمد میں 2023 کے بعد مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے جس کی وجہ پانی کی قلت ہے۔محکمہ جنگلی حیات نے 11 اپریل کو صوبے کی آب گاہوں و آبی گذرگاہوں پر موسم سرما میں انڈس فلائی وے کے مسافر آبی پرندوں کے اعدادوشمار ’اینئوئل واٹرفاؤل سروے‘ کے نتائج کا اعلان کردیا ہے۔تازہ ترین اعداوشمار کے مطابق 2022 میں سندھ میں آنے والے شدید سیلاب کے باعث جھیلوں کو میٹھے پانی کی فراہمی اور شکار پر پابندی کے باعث 2023 میں صوبے میں 12 لاکھ مہمان پرندوں کی آمد کا نیا ریکارڈ قائم ہوا تھا-مگر 2024 میں یہ تعداد کم ہوکر چھ لاکھ 39 ہزار ہوگئی۔ حالیہ سال اس تعداد میں مزید کمی  آئ آئی  ' ایک زمانے میں یہاں دو لاکھ تک پرندے آتے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے چند سو رہ گئے ہیں،' انہوں نے بتایا۔ موسم سرما کے آغاز پر  ہررس ہالیجی  جھیل پر سائبیریا سے نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی لیکن اب یہاں ڈھونڈنے سے بھی صرف مقامی پرندے ہی ملتے ہیں۔


ان پرندوں میں کنگ فشر، چہکنے والے پرندے ( چیٹ)، گرے شرائک، ایک طرح کا کوا (سندھی میں گگھ پکھی)، ایک طرح کی چڑیا( جنگل بیبلر) ، یورپی کوا ( میگپائی)، اور دیگر پرندے شامل ہیں۔اور اس سال محکمے نے اپنے سالانہ سروے کے دوران صوبے میں پانچ لاکھ 45 ہزار آبی پرندوں کا شمار کیا۔سندھ میں آنے والے مسافر آبی پرندوں کی سالانہ شماریات کی رپورٹ محکمہ جنگلی حیات سندھ کی جانب سے 13 مئی کو دنیا بھر میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا عالمی دن  (ورلڈ مائیگریٹری برڈ ڈے) سے پہلے جاری کیے گئے ہیں۔اس عالمی دن کو منانے کا مقصد نقل مکانی کرنے والے پرندوں کو درپیش مسائل اور خطرات، پرندوں کی ماحولیاتی اہمیت اور ان کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی طور پر شعور پیدا کرنا ہے۔انڈپینڈنٹ اردو گفتگو کرتے ہوئے محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو نے کہا کہ ’آبی پرندے ایک ملک سے دوسرے ملک خوراک کی تلاش، شدید موسمی اثرات سے بچنے کے لیے عارضی طور پر آتے ہیں۔


پاکستان دیگر خطوں کی نسبت سندھ حیاتاتی تنوع کے لحاظ سے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے جہاں آب گاہیں، لگون، جھیلیں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ سندھ کے حیاتیاتی تنوع کی اہیمت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بھی میں رامسر کے عالمی کنوینشن کے تحت 19 آب گاہوں کو رامسر سائیٹ ڈکلیئر کیا گیا ہے، ان میں سے 10 صرف سندھ صوبے میں ہیں۔‘عالمی سطح کی اب گاہیں سندھ میں ہونے کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں مسافر آبی پرندے سندھ میں اترتے ہیں مگر 2023 کے بعد ان مسافر پرندوں کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔اس کمی کا سب سے بڑا سبب پانی کی مسلسل کمی، خشک سالی ہے اور کم پانی کے باعث پرندوں کی تعداد میں کمی دیکھی جارہی ہے۔‘ممتاز سومرو کے مطابق سندھ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، مگر آبی پرندوں کی گنتی کے لیے صوبے کے 40 فیصد حصے میں ہر سال سروے کیا جاتا ہے۔


اس سال محکمہ جنگلی کی آبی پرندوں کو شمار کرنے والی ٹیمز نے سندھ کی مشہور آب گاہوں بشمول کینجھر جھیل، منچھر جھیل، حمل جھیل، ہالیجی جھیل، رن آف کچھ، لنگھ جھیل اور نریڑی لیگون سمیت 30 کے قریب مقامات پر سروے کیا۔محکمہ جنگلی حیات کے رپورٹ کے مطابق اس سال گذشتہ سال کی نسبت اس سال مسافر پرندوں کے روایتی ٹھکانے بشمول رن آف کچھ وائلڈ لائف سینچری کے دلدلی علاقے پانی کی شدید کمی و خشک سالی دیکھی گئی۔محکمہ جنگلی حیات سندھ کے اعدادوشمار کے مطابق سب سے زائد پرندے بدین کی نریڑی لیگون میں ایک لاکھ 22 ہزار دیکھے گئے۔ اس کے علاوہ بدین ہی کے قریب رن آف کچھ کے مقام پر ساڑھے 91 ہزار مسافر پرندے رکارڈ کیے گئے۔ جب کہ اسی مقام کے قریب رن پور ڈیم ننگر پارکر کے مقام پر 22 ہزار 826 پرندے مہمان بنے۔موجودہ سال کے سروے میں اعداد و شمار جمع کرنے کے علاوہ مہمان پرندوں کے فوٹوگرافک شوائد بھی جمع کیے گئے، جیسا کہ گرے لیگ گوز، کاٹن پگمی گوز، انڈین اسپاٹ بلڈ ڈک، اوریئنٹل ڈارٹر، لیسر فلیمنگو کے علاوہ 57 مختلف اقسام کے ایسے واٹر فائولز جو روایتی طور آتے رہتے ہیں رکارڈ ہوئے جن میں سب سے زیادہ تعداد کامن ٹیل اور شاولر کے علاوہ،انڈین اسپاٹ بلڈ ڈک اور کاٹن پگمی گوز کی کچھ تعداد بھی دیکھی گئی۔


سروے سندھ کی مختلف سول ڈویژنز سکھر لاڑکانہ، حیدرآباد، میرپور خاص، شہید بےنظیر آباد اور کراچی میں کیا گیا۔دوران سروے لیسر فلیمنگوز اور خطرے سے دوچار نسل گریٹ وائیٹ پیلکن کی خاصی تعداد دیکھنے میں آئی۔سروے ٹیم میں زولوجیکل سروے آف پاکستان سے مہربان علی جب کہ سندھ وائیلڈ لائف ڈپارٹمینٹ کی طرف سے وائیلڈ لائف فوٹوگرافر یاسر پیچوہو، محرم کچھی اور رشید احمد خان شامل

پیر، 28 اپریل، 2025

مانسہرہ میں چائے کے پھلتے 'پھولتے باغات


 یہ میرے بچپن کی بات ہے جب مجھےمعلوم ہوا کہ پہلے وقتوں میں معاشرے میں چائے کا چلن نہیں تھا-ظاہر ہے اس بات پر میری حیرت بجا تھی -میں نے اپنی دادی جان سے سوال کیا پھر اس کا نعم البدل کیا تھا دادی جان نے بتایا سردیوں میں گرم دودھ کے ساتھ مختلف میوہ جات شامل کر کے استعما ل کیا جاتا تھا اور گر میوں میں لسی اور مختلف مشروبات ہوتے تھے -میرا اگلا سوال تھا پھر چائے  نے  کب رواج پایا -دادی جان نے بتایا بدیسی قومیں آ ئیں اور اپنے ساتھ چائے کی سوغات بھی ساتھ لائیں 'شروع شروع میں مفت تقسیم کی گئ جب مزہ مزاج میں سرائت کر گیا تب قیمت کے ساتھ دی جانے لگی اور اب یہ حال ہے کہ اس بار 52 کروڑ ڈالر کی چائے درآمد  کر کے ہم  پی چکے ہیں  ، پاکستانی قوم    مانسہرہ کے باغات جن کی چائے کو چینی کالج نے ’بہترین‘ چائے قرار دیا-سی پیک روٹ کے متصل ضلع مانسہرہ کے علاقے شنکیاری میں چائے کے باغات کے ساتھ ہی چائے بنانے کی فیکٹری بھی لگائی گئی ہے جہاں کی چائے چینی ایوارڈ جیت چکی ہے۔خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے علاقے شنکیاری میں میلوں دور تک چائے کے باغات پھیلے ہوئے ہیں جن سے ملنے والی چائے کو چین کے ایک ادارے کی جانب سے بہترین چائے قرار دیے جانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔شنکیاری میں 1986 میں قائم کیے گئے نیشنل ٹی اینڈ ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر عبدالوحید کے مطابق پاکستان میں کاشت کی گئی چائے کو چین کے ٹین فو ٹی کالج نے 2008، 2009 اور 2013 میں بہترین چائے کا ایوارڈ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ٹین فو ٹی کالج دنیا کا واحد کالج ہے جہاں چائے پر تحقیق کی جاتی ہے۔ یہاں کے طالب علم صرف چائے سے جڑے پہلوؤں پر  تحقیق کرتے ہیں اور کالج ایم ایس، پی ایج ڈی اور پوسٹ ڈاک بھی کرواتا ہے۔انہوں نے بتایا: ’اس کالج نے ہماری چائے کو بہترین چائے قرار دیا ہے اور سرٹیفیکٹ ہمارے پاس موجود ہے۔


‘سی پیک روٹ کے متصل شنکیاری میں ترکی کے تعاون سے چائے کے باغات کے ساتھ ہی چائے بنانے کی فیکٹری بھی لگائی گئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق شمالی علاقہ جات، کشمیر، مانسہرہ، بٹگرام اور سوات میں کل ایک لاکھ ایکڑ کے قریب زمین چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ تاہم ملک میں اب تک صرف پانچ سو ایکڑ رقبے پر کی چائے کاشت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں استعمال ہونے والی زیادہ تر چائے درآمد ہوتی ہے۔چائے جو مبینہ طور پر کرونا سے بچائےڈاکٹر عبدالوحید کہتے ہیں کہ کسان کو چائے کی فصل اگانے کے لیے پانچ سے چھ قربانی دینی ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ و کسانوں کو  کسانوں کو معاوضہ دے تاکہ وہ اسے کاشت کرنے پر آمادہ ہوں۔انہوں نے کہا: ’اگر ہم چائے کا ایک ایک پیالہ بھی پینا چھوڑ دیں تو ہماری بچت ہو جائے گی۔‘ڈاکٹر عبدالوحید نے قوم کو مشورہ دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سبز چائے پیئں۔ان کا کہنا تھا کہ ’بازار میں زیادہ تر چائے ملاوٹ شدہ ہے جسے پینے سے معدے کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ اس میں رنگ اور باقی کیمیکل ہوتے ہیں۔


نعمت خان مانسہرہ میں قائم چائے کے باغ میں گذشتہ پانچ سال سے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے بہترین روزگار ہے کیونکہ چائے کے باغات میں سال بھر کام کرنا ہوتا ہے۔نعمت خان نے بتایا کہ انہوں نے میٹرک کے بعد ہی چائے کے باغات میں کام شروع کردیا اور یہ انہیں بہت پسند ہے۔انہوں نے کہا: ’میں دیگر زمینداروں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ جتنا زیادہ ہو سکتا ہے چائے کی پیداوار کو زیادہ کریں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ نوکریوں کے مواقع ملیں -شاہراہِ ریشم پر واقع ہزارہ ڈویژن کا کُل رقبہ 17064 مربع کلومیٹر ہے، جب کہ آبادی 61 لا88 ہزار 736 افراد پر مشتمل ہے۔موسمی اعتبار سے یہ علاقہ چائے اور زیتون کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہے۔ 1982میں پاکستان اور چین کے زرعی ماہرین نے ایک سروے کیا تھا، جس کا مقصد جائزہ لینا تھا کہ کون کون سے علاقے چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔اس میں جو علاقے سامنے آئے ان میں ہزارہ کا علاقہ پہلے نمبر پر تھا،


جس کی وجہ سے حکومتِ پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے یہاں چائے کی کاشت کو فروغ دینے میں سرگرم ہے، مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔پاکستان سالانہ کتنی مالیت کی چائے درآمد کرتا ہے؟دنیا میں چائے کی پیداوار کی سالانہ مالیت 122.2 ارب ڈالر ہے، جو 2028 تک بڑھ کر 160ارب ڈالر ہو جائے گی۔اس میں چین 24 لاکھ ٹن کے ساتھ پہلے، انڈیا نو لاکھ ٹن کے ساتھ دوسرے اور کینیا تین لاکھ پانچ ہزار ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، پھر سری لنکا، ترکی اور انڈونیشیا کا نمبر آتا ہے۔2022 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان سالانہ 707 ملین ڈالر کی درآمد کے ساتھ پہلے، امریکہ 522 ملین ڈالر کے ساتھ دوسرے اور متحدہ عرب امارات 388 ملین ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔چائے کی پیداوار صدیوں پہلے چین میں شروع ہوئی تھی، جو آج بھی 38 فیصد کے ساتھ چائے کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔


تقریباً 200 سال پہلے ہندوستان میں چائے کی کاشت نہیں ہوتی تھی مگر آج وہ نہ صرف چائے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے بلکہ چائے کی پوری دنیا کی پیداوار کا 23 فیصد پیدا کرتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ انڈیا 200 سال میں چائے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر کیوں اور کیسے آیا اور پاکستان جو 78 سال پہلے ہندوستان کا ہی حصہ تھا وہ چائے کی پیداوار میں نہ صرف پیچھے ہے بلکہ دنیا میں چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بھی ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی 1820 میں چین سے ایک جاسوسی مشن کے ذریعے پودے چرا کر ہندوستان لائی، جن کو آسام اور دارجیلنگ میں کاشت کیا گیا۔تب ہزارہ کے علاقے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملکیت میں تھے، وگرنہ شاید ایسٹ انڈیا کمپنی ہزارہ کو بھی موزوں خیال کرتے ہوئے یہاں چائے کاشت کرتی اور آج ہزارہ کا معاشی منظر نامہ مختلف ہوتا۔ہزارہ میں چائے کی کاشت کیوں ناکامی سے دوچار ہے؟جبکہ مانسہرہ  میں چائے  پھل پھول رہی ہے -یہ بلاگ  انٹر نیٹ پر  لکھا ہوا ہے  میری  اپنی  تلخیص شامل ہے ۔  

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر