Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
منگل، 15 اپریل، 2025
مہاجر نامہ (منور رانا)
اتوار، 13 اپریل، 2025
چرنوبل جوہری پلانٹ کی تباہی-part 3
آج بھی تباہ شدہ ریکٹر کو مضبوط پتھروں سے چھپا دیا گیاہے ، 30 کلو میٹر پر محیط علاقے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چرنوبل کے قریبی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس حادثے سے کئی نسلیں متاثر ہوئی ہیں۔ اُس وقت جو لوگ کم عمر تھے ان کی قوت مدافعت کم ہوئی ہے اور وہ اپنی پچھلی دو نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہیں۔یہ حادثہ اتنا اچانک، بڑا اورہولناک تھا کہ اِس کو دیکھ کر اُس وقت کے سویت یونین کے حکام بوکھلا اٹھے ۔ اُن سے یہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا تھا کہ وہ کیسے اور کب لوگوں اور دنیا کو اِس حادثے کے بارے میں بتائیں۔بعض حکام یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کیا ہمیں لوگوں کو اِس خبر سے آگاہ کرنا بھی چاہیے یا نہیں؟میڈیا کو یہ لکھنے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جوہری پلانٹ میں دھماکہ نہیں ہوا بلکہ کسی حادثے کی وجہ سے ریڈیو ایکٹو شعائیں خارج ہونا شروع ہوگئی ہیں
۔26 اپریل 1986 کو جوہری ریکٹر میں حادثے کی وجہ سے آسمان پر ریڈیوایکٹو دھویں کے گہرے بادلوں کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا لیکن 29 اپریل کو اس حادثے کے سلسلے میں پہلا سرکاری بیان جاری کیا گیا۔ اِس میں کہا گیا کہ ماحول میں کچھ آلودگی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو۔ بعض اطلاعات کے مطابق سویت یونین کے حکام نے قریب کے علاقوں میں تابکاری اثرات محسوس کئے جانے کے بعد ان تنصیبات میں صرف ایک جوہری حادثے کے امکان کا اعلان کیا ۔ایک اخبار کے مطابق حکام کی مجرمانہ بزدلی کی وجہ سے تابکاری علاقے کے ہزاروں لوگ اس حادثے کا نشانہ بنے اور سپاہیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیے بغیر اور بغیر کسی حفاظتی انتظام کے تباہ شدہ جوہری پلانٹ کی طرف روانہ کیا گیا۔
اِس حادثے کے سلسلے میں متعدد تحقیقات کے باوجود ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے کیونکہ اب تک تحقیقاتی ٹیموں میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی کے زیر اثر ہونے یا دباﺅ کی وجہ سے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کی وجہ وہاں کے عملے کی طرف سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی بنی ہےلیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں پتا چلا کہ جن قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے انہیں اس حادثے کے بعد قلمبند کر کے قوانین کی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جبکہ درحقیقت جوہری ریکٹر کا اصل منصوبہ ہی ناقص تھا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی مختلف قسم کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔ا
قوام متحدہ نے اُس وقت 9 ہزار افراد کی ہلاکت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کی تصدیق کی تھی۔جبکہ ماحولیاتی ادارے Green Peace نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میںکہا ہے کہ چرنوبل کے جوہری تنصیبات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا یعنی 93 ہزار تک ہو سکتی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ریڈی ایکٹو اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۲ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ سب سے زیادہ تابکاری اثرات کی زد میں تھے انہیں سب سے کم اس حادثے کی اطلاع دی گئی۔چرنوبل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقعے Pripyat شہر کے لوگ اس واقعے کے بعد بھی معمول کی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ 36 گھنٹوں بعد اُن کو شہر خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور قریب کے دیہاتوں سے بھی انخلا کا عمل کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ یوکرائن کے دارالحکومت Kiev
5 دن تک تو شہر کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ تابکاری اثرات کی زد میں آ چکے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آج 20برس گزرنے کے بعد بھی اس حادثے کے تابکاری اثرات کی وجہ سے لوگ Chest اور Blood کینسر کے علاوہ مختلف قسم کے سرطانوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور پیدائش کے وقت بچوں کی اموات کے کیس سامنے آرہے ہیں۔اگرچہ اس حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ان تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا کیونکہ ملکی حکام اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان بڑھتی ہوئی خوفناک بیماریوں کی وجہ چرنوبل کے جوہری پلانٹ میں 20 برس قبل ہونے والا دھماکہ ہے۔
ہفتہ، 12 اپریل، 2025
چرنو بل جوہری پلانٹ کی تباہی -حصہ دوم
نیوکلئیر پلانٹ مقام پر پہنچنے والی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔تالاب کے جس حصے پر ہم کھڑے ہیں اس سے ایک کلومیٹر سے بھی کم دوری پر واقع کو میں گیناڈی کے عقب میں دیکھ سکتی ہوں۔یونٹ نمبر چار کو اپنے اندر سمائے ہوئے ایک بڑے حفاظتی سٹیل ’نیو سیف کنفائنمٹ‘ کا ڈھانچہ سورج کی روشنی سے دمک رہا ہے۔سنہ 2016 میں اس کو سانحے کے مرکز پر نصب کیا گیا تھا۔ اس نے نیچے روبوٹ کرینز 33 سال پرانے تابکاری کے ملبہ کو گرا رہی ہیں۔انخلا کے وقت لوگ جو کھیت اور باغ چھوڑ گئے تھے وہ زمین جنگلی حیات کے لیے حیران کُن طور پر زرخیز آماجگاہ بن گئی ہے۔ لمبے عرصے تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق متروکہ دیہات میں جنگلی حیات کی تعداد اس زون کے باقی علاقوں سے زیادہ ہے۔ بھورے ریچھ، جنگلی سور اور سیاہ گوش یہاں گھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔تحقیق کے مطابق تابکاری سے شدید متاثرہ علاقوں میں پائے جانے والے پرندوں کے ڈی این اے میں نقصان کے شواہد ملے ہیں۔
یوکرین میں یہ وہ مقام ہے جہاں سنہ 1986 میں جوہری تباہی آئی تھی۔اس واقعے کے بعد پلانٹ کے ارد گرد ایک ہزار مربع میل پر پھیلے وسیع علاقے کو الگ تھلگ کر دیا گیا تھا اور اب یہ ایک ممنوعہ علاقہ ہے جہاں کوئی نہیں رہتا -یوکرین کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس متروک علاقے میں موجود جوہری تابکاری کی وجہ سے لوگ آئندہ 24 ہزار سال تک اس علاقے میں آباد نہیں ہو سکیں گے۔تجربہ جو عالمی سانحے میں بدل گیا26 اپریل 1986 کو رات ایک بج کر 23 منٹ پر انجینیئرز نے چرنوبل جوہری پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر چار کے چند حصوں کو پاور کی سپلائی منقطع کر دی۔تجربے کا یہ اہم مرحلہ ان ممکنہ حالات کو سمجھنے کی کاوش کا حصہ تھا جو ری ایکٹرز کو بجلی کی مکمل عدم دستیابی یا بلیک آؤٹ کی صورت میں پیش آ سکتے ہیں۔لیکن انجینیئرز کو یہ علم نہیں تھا کہ ری ایکٹر پہلے سے ہی غیر مستحکم تھا۔پاور منقطع ہونے سے ری ایکٹر کو ٹھنڈا پانی پہنچانے والی ٹربائنز کی رفتار آہستہ ہو گئی۔ کم پانی کی وجہ سے زیادہ بھاپ بننے لگی اور نتیجتاً ری ایکٹر کے اندر دباؤ بڑھنے لگا۔جب آپریٹرز کو اس صورتحال کا علم ہوا اور انھوں نے ری ایکٹر کو بند کرنے کی کوشش کی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس جوہری پلانٹ سے ریڈیو ایکٹو یعنی تابکار شعائيں نکل پڑیں تھیں جو یورپ کے بعض علاقوں کی فضا میں پھیل گئی تھیں اور جس کی وجہ سے تھائرائڈ کینسر میں اضافہ دیکھا گیا۔، اس جوہری پلانٹ سے ریڈیو ایکٹو یعنی تابکار شعاعيں نکل پڑیں تھیں بھاپ کے دباؤ سے ہونے والے دھماکے نے ری ایکٹر کی چھت اڑا دی اور ری ایکٹر کا مرکزی حصہ بیرونی ماحول پر عیاں ہو گیا۔دھماکے کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک ہو گئے اور ہوا کی وجہ سے لگنے والی آگ مسلسل 10 دن تک لگی رہی۔ تابکار دھوئیں کی گرد کے بادل ہوا کے ذریعے یورپ میں پھیل گئے۔مہلک دھویں کے اخراج کے وقت امدادی کارکنوں کی پہلی کھیپ وہاں پہنچی ۔ہائڈرو میٹرولوجیکل انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماحولیاتی سائنسدان گیناڈی نے انخلا کے تین ماہ بعد ہی اس ممنوعہ علاقے میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔کیف چڑیا گھر میں کام کرنے والی ڈاکٹر مرینا کہتی ہیں ’15 سال تک ان پر تحقیق کرنے کے بعد ہمارے پاس ان کے رویے کے بارے میں بہت زیادہ معلومات ہیں۔ چرنوبل کے بھیڑیے یوکرین کے سب سے زیادہ قدرتی بھیڑیے ہیں۔‘
چرنوبل کے بھیڑیے، ہرن اور یہاں تک کے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ خفیہ کیمروں سے بنائی گئی تصاویر بھیڑیوں کے کھانے کی عادات ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں لوگوں کے پرانے باغات کے درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے۔ہر گاؤں پر جنگلی حیات قابض نہیں ہیں، 30 کلومیٹر زون کے اندر کچھ لوگ بھی رہتے ہیںیوکرائن کی عورتیں چرنوبل کے حادثے کے بعد ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شمعیں جلائے ہوئےبیلا روس کی سرحد کے قریب یوکرائن کے شہر چرنوبل کے ایٹمی ریکٹر کا دھماکہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا جوہری حادثہ ہے۔لیکن اس وقت گویا اس واقعے پر آہنی پردہ ڈال کراس کی اصل حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی لیکن آ ج بیس برس بعد بھی تابکاری اثرات کے شکار معصوم بچوں کی سسکتی ہوئی آوازوں اورسرطان جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہزاروںافراد کی دم توڑتی ہوئی سانسوں نے ماہرین کی اس رپورٹ کاعملی ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ جس کے تحت اس حادثے کے جان لیوا اور ماحولیاتی اثرات کئی نسلوں اور کئی صدیوں تک موجود رہیں گے۔کہا جا رہا ہے کہ آج بیس برس گزرنے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کے بعد اس کے تابکاری اثرات کو روکنے کے لئے اب تک جتنے اقداما ت بھی کئے گئے ہیں وہ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس مقام سے کہ جہاں تباہ شدہ ریکٹر کو مضبوط پتھروں سے چھپا دیا گیاہے ، 30 کلو میٹر پر محیط علاقے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چرنوبل کے قریبی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس حادثے سے کئی نسلیں متاثر ہوئی ہیں۔ اُس وقت جو لوگ کم عمر تھے ان کی قوت مدافعت کم ہوئی ہے اور وہ اپنی پچھلی دو نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہیں۔یہ حادثہ اتنا اچانک، بڑا اورہولناک تھا کہ اِس کو دیکھ کر اُس وقت کے سویت یونین کے حکام بوکھلا اٹھے ۔ اُن سے یہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا تھا کہ وہ کیسے اور کب لوگوں اور دنیا کو اِس حادثے کے بارے میں بتائیں۔بعض حکام یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کیا ہمیں لوگوں کو اِس خبر سے آگاہ کرنا بھی چاہیے یا نہیں؟میڈیا کو یہ لکھنے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جوہری پلانٹ میں دھماکہ نہیں ہوا بلکہ کسی حادثے کی وجہ سے ریڈیو ایکٹو شعائیں خارج ہونا شروع ہوگئی ہیں۔26 اپریل 1986 کو جوہری ریکٹر میں حادثے کی وجہ سے آسمان پر ریڈیوایکٹو دھویں کے گہرے بادلوں کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا لیکن 29 اپریل کو اس حادثے کے سلسلے میں پہلا سرکاری بیان جاری کیا گیا۔
اِس میں کہا گیا کہ ماحول میں کچھ آلودگی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو۔ بعض اطلاعات کے مطابق سویت یونین کے حکام نے قریب کے علاقوں میں تابکاری اثرات محسوس کئے جانے کے بعد ان تنصیبات میں صرف ایک جوہری حادثے کے امکان کا اعلان کیا ۔ایک اخبار کے مطابق حکام کی مجرمانہ بزدلی کی وجہ سے تابکاری علاقے کے ہزاروں لوگ اس حادثے کا نشانہ بنے اور سپاہیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیے بغیر اور بغیر کسی حفاظتی انتظام کے تباہ شدہ جوہری پلانٹ کی طرف روانہ کیا گیا۔اِس حادثے کے سلسلے میں متعدد تحقیقات کے باوجود ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے کیونکہ اب تک تحقیقاتی ٹیموں میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی کے زیر اثر ہونے یا دباﺅ کی وجہ سے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کی وجہ وہاں کے عملے کی طرف سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی بنی ہے
لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں پتا چلا کہ جن قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے انہیں اس حادثے کے بعد قلمبند کر کے قوانین کی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جبکہ درحقیقت جوہری ریکٹر کا اصل منصوبہ ہی ناقص تھا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی مختلف قسم کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔اقوام متحدہ نے اُس وقت 9 ہزار افراد کی ہلاکت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کی تصدیق کی تھی۔جبکہ ماحولیاتی ادارے Green Peace نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میںکہا ہے کہ چرنوبل کے جوہری تنصیبات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا یعنی 93 ہزار تک ہو سکتی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ریڈی ایکٹو اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۲ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ سب سے زیادہ تابکاری اثرات کی زد میں تھے انہیں سب سے کم اس حادثے کی اطلاع دی گئی۔
چرنوبل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقعے Pripyat شہر کے لوگ اس واقعے کے بعد بھی معمول کی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ 36 گھنٹوں بعد اُن کو شہر خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور قریب کے دیہاتوں سے بھی انخلا کا عمل کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ یوکرائن کے دارالحکومت Kiev کے لوگوں کو 5 روز تک تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ تابکاری اثرات کی زد میں ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آج 20برس گزرنے کے بعد بھی اس حادثے کے تابکاری اثرات کی وجہ سے لوگ Chest اور Blood کینسر کے علاوہ مختلف قسم کے سرطانوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور پیدائش کے وقت بچوں کی اموات کے کیس سامنے آرہے ہیں۔اگرچہ اس حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ان تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا کیونکہ ملکی حکام اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان بڑھتی ہوئی خوفناک بیماریوں کی وجہ چرنوبل کے جوہری پلانٹ میں 20 برس قبل ہونے والا دھماکہ ہے۔
سامعین بعض شخصیات نے چرنوبل کے واقعے کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سیاسی رنگ دیتے ہوئے ایک ایسے نظام کو ہدف تنقید بنایا ہے کہ جو ان کے نزدیک جب تک موجود رہے گا لوگوں کو مصیبتوں اور اذیتوں میں مبتلا کرتا رہے گا اور اُن کو اُن کے حقوق سے محروم کرتا رہے گا۔بیلا روس میں یونائیٹڈ ڈیموکریٹس کے ایک سرکردہ سیاستدان Anatolij Lebedko کا کہنا ہے: ایٹمی تابکاری کی وجہ سے ابھی بھی بہت سے لوگ بیمار ہو رہے ہیں لیکن ایک قانونی چرنوبل بھی ہے جس کی ذمہ دار بیلا روس کی حکومت ہے ۔ یہ حکومت بھی لوگوں کو جان سے مارتی ہے اور ان کے حقوق کو پامال کرتی ہےسنہ 2014 میں جب نزدیکی دریا سے پانی کھینچنے والے پمپس بند کر دیے گئے تو تالاب کا یہ حصہ خشک ہو گیا۔ ایسا بچ جانے والے تین ری ایکٹرز کو بند کرنے کے بھی 14 سال بعد کیا گیا۔۔ اسی لیے آج کے چرنوبل احتجاج کا عنوان ہم نے رکھا ہے
جمعہ، 11 اپریل، 2025
اونٹوں کا مقابلہ ءحسن پارٹ2
' جس طرح سے بو ٹوکس کے انجیکشن خواتین کو افزائش حسن کے لئے لگائے جاتے ہیں اسی طرح سے اونٹوں کو بھی بوٹوکس کے انجیکشن اونٹوں کے ہونٹوں، ناک، جبڑے اور سر کے دیگر حصوں میں لگا کر پٹھوں کو نرم کیا جاتا ہے، اور ان کے ہونٹوں اور ناک میں کلوجین بھرا جاتا ہے اور پٹھوں کو موٹا کرنے کے لیے ہارمونز دیے جاتے ہیں۔اونٹوں کے جسم کے مختلف حصوں پر ربڑ بینڈ لگا کر خون کا بھاؤ روک دیا جاتا ہے تاکہ کچھ حصے زیادہ بڑے ہو جائیں-لیکن مقابلہ کے منتظمین نے اس عمل کی نا صرف مذمت کی ہے بلکہ 'بوٹوکس' کے استعمال کے باعث کم از کم 40 اونٹ نااہل بھی قرار دئے گئے ہیں ، اونٹوں کا مقابلہ حسن ہر سال منعقد کیا جاتا ہے9 دسمبر 2021سعودی عرب میں ہونے والے اونٹوں کے مقابلہ حسن میں شرکت کے لیے لائے گئے چالیس سے زیادہ اونٹوں کو مصنوعی طریقوں اور 'بوٹوکس' کے انجیکش لگنے کی وجہ سے مقابلے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔
خوبصورت اونٹوں کا مقابلہ شاہ عبداللہ عزیز کے نام سے ہونے والے اونٹوں کے میلے کا اہم حصہ ہے جس میں جیتنے والے اونٹ کو چھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر انعام کی رقم دی جاتی ہے۔سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے خبر دی ہے کہ اس سال اونٹوں کے مقابلے کے ججوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اونٹوں کو کہیں مصنوعی طریقوں سے خوبصورت بنانے کی کوشش تو نہیں کی گئی۔ اونٹوں میں خوبصورتی کا معیار لمبے اور لٹکے ہوئے ہونٹ، بڑی ناک اور کوہان کی شکل ہوتی ہے۔شاہ عبدالعزیز اونٹوں کا میلہ دنیا میں سب سے بڑا اونٹوں کا میلہ ہے۔اس میلے میں امریکہ، روس اور فرانس سمیت دنیا بھر سے 33 ہزار اونٹ شرکت کے لیے لائے جاتے ہیں جو یکم دسمبر سے شروع ہو کر 40 دن تک جاری رہتا ہے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے سو کلو میٹر کی دوری پر 32 مربع میل پر پھیلے ہوئے ایک میدان میں یہ مقابلہ منعقد ہوتا ہے جس میں روزنہ ایک لاکھ سے زیادہ شائقین شرکت کرتے ہیں۔خوبصورت اونٹوں کا مقابلہ شاہ عبداللہ عزیز کے نام سے ہونے والے اونٹوں کے میلے کا اہم حصہ ہے جس میں جیتنے والے اونٹ کو چھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر انعام کی رقم دی جاتی ہے۔سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے خبر دی ہے کہ اس سال اونٹوں کے مقابلے کے ججوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اونٹوں کو کہیں مصنوعی طریقوں سے خوبصورت بنانے کی کوشش تو نہیں کی گئی۔ اونٹوں میں خوبصورتی کا معیار لمبے اور لٹکے ہوئے ہونٹ، بڑی ناک اور کوہان کی شکل ہوتی ہے۔
ابوظبی میڈیاآفس کے مطابق اونٹ میلے کے سرپرست ولی عہد شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے متحدہ عرب امارات کے بدوی ورثے کو فروغ دینے کے لیے انعامی رقم میں اضافہ کیا ہے۔یہ میلہ فروخت کنندگان کو نیلامی اور انفرادی سودے بازی کے ذریعے اپنے خالص نسل کے اونٹوں کو بھاری قیمت پر بیچنے کاموقع بھی فراہم کرے گا۔اونٹوں کے مقابلۂ حسن کے ساتھ ساتھ ٱلظَّفْرَہ میلے میں روایتی اماراتی سرگرمیوں کا ایک سلسلہ بھی شامل ہوگا۔اس میں شاہینوں کے مقابلے ہوں گے؛قریباً300 عرب گھوڑے اور اونٹ دوڑ میں حصہ لیں گے۔ان کے مختلف مقابلوں کے لیے 2700 سے زیادہ کے انعامات رکھے گئے ہیں۔یہ میلہ 22 جنوری 2022 تک ابوظبی کے مدینۃ الزاید میں جاری رہے گا۔ یہ اس سلسلے کا پندرھواں میلہ ہے اور یو ای اے کے قیام کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پرمنعقد ہورہا ہے۔واضح رہے کہ خلیجی ریاستوں میں اونٹوں کے مقابلۂ حسن عام ہوتے جا رہے ہیں۔
ان کے ذریعے اہل عرب اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس کوجدیدیت میں تبدیلی کے عمل سے خطرات لاحق ہیں۔ہمسایہ ملک سعودی عرب بھی دارالحکومت الریاض سے قریباً 100 کلومیٹرشمال میں دنیا کے سب سے بڑے شاہ عبدالعزیز شُترمیلے کی میزبانی کر رہا ہے۔توقع ہے کہ انعام یافتگان میں مجموعی طورپر 6کروڑ60 لاکھ ڈالر (25 کروڑ سعودی ریال) گھرلے جائیں گے
جمعرات، 10 اپریل، 2025
اونٹوں کا مقابلہ ء حسن -پارٹ1
امارت ابوظبی میں اونٹوں کا مقابلۂ حسن عام طور پر مڈ دسمبر سے شروع ہوتا ہے اور یہ 21 دسمبر تک چلتا ہے ۔پہلے اونٹوں کی خوب صورتی کا یہ مقابلہ 23 دسمبر سے شروع ہونا تھا لیکن اب اس کا نودن قبل آغاز کیا جارہا ہے۔مدینۃ الزاید میں منعقد ہونے والا اونٹوں کا مقابلہ حسن سالانہ ٱلظَّفْرَہ میلے کا حصہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے اونٹوں میں سے سب سے بہترکافیصلہ ان کی جسمانی خصوصیات کی بنا پرکیا جائے گا۔اس میں اصیل اور مجاحیم کے خون سے تعلق رکھنے والے خالص نسل کے اونٹ حصہ لیں گے۔ٱلظَّفْرَہ میلے میں اونٹوں کی خوب صورتی کے چار مقابلوں کے لیے انعامی رقم مجموعی طور پرتین کروڑ ڈالر 11 کروڑاماراتی درہم)ہوگی۔العلا: سعودی عرب صدیوںپراناقصبہ سعودی عرب کے پہاڑوں میں اونٹوں کے مجسمے دنیا میں ’قدیم ترین‘مقابلے میں شرکت کے لیے لائے گئے تمام اونٹوں کو پہلے ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں ماہرین نے ان کی ظاہری شکل و صورت اور ان کے چلنے کے انداز کا معائنہ کیا۔
پھر جدید ایکسرے اور 3 ڈی الٹرا ساؤنڈ کا استعمال کرتے ہوئے اونٹوں کے سر، گردن اور دھڑ کے عکس لیے گئے اور ان اونٹوں سے حاصل کیے گئے نمونوں کو جنیاتی معائنے اور چند دیگر ٹیسٹ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مقابلے میں شامل 27 اونٹوں کو اس لیے نااہل قرار دے دیا گیا کیونکہ ان کے جسم کے اعضا کو مصنوعی طریقوں سے بڑا کیا گیا تھا۔ سولہ اونٹوں کو انجیکشن لگائے جانے کی وجہ سے مقابلے سے نکال دیا گیا۔اونٹوں کے مقابلہ حسن کے منتظمیں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ اونٹوں کو دھوکے اور مصنوعی طریقے سے خوبصورت بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں اور دھوکہ بازی کرنے والوں پر جرمانے بھی عائد کریں گے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'بوٹوکس' کے انجیکشن اونٹوں کے ہونٹوں، ناک، جبڑے اور سر کے دیگر حصوں میں لگا کر پٹھوں کو نرم کیا جاتا ہے، ہونٹوں اور ناک میں کلوجین بھرا جاتا ہے اور پٹھوں کو موٹا کرنے کے لیے ہارمونز دیے جاتے ہیں۔
اونٹوں کے جسم کے مختلف حصوں پر ربڑ بینڈ لگا کر خون کا بھاؤ روک دیا جاتا ہے تاکہ کچھ حصے زیادہ بڑے ہو جا۔شاہ عبدالعزیز اونٹوں کا میلہ دنیا میں سب سے بڑا اونٹوں کا میلہ ہے۔اس میلے میں امریکہ، روس اور فرانس سمیت دنیا بھر سے 33 ہزار اونٹ شرکت کے لیے لائے جاتے ہیں جو یکم دسمبر سے شروع ہو کر 40 دن تک جاری رہتا ہے۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے سو کلو میٹر کی دوری پر 32 مربع میل پر پھیلے ہوئے ایک میدان میں یہ مقابلہ منعقد ہوتا ہے جس میں روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ شائقین شرکت کرتے ہیں۔سعودی عرب: اونٹوں کے مقابلہ حسن میں 'بوٹوکس' کے استعمال کے باعث کم از کم 40 اونٹ نااہل،اونٹوں کا مقابلہ حسن ہر سال منعقد کیا جاتا ہے9 دسمبر 2021سعودی عرب میں ہونے والے اونٹوں کے مقابلہ حسن میں شرکت کے لیے لائے گئے چالیس سے زیادہ اونٹوں کو مصنوعی طریقوں اور 'بوٹوکس' کے انجیکش لگنے کی وجہ سے مقابلے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔
مقابلے میں شرکت کے لیے لائے گئے تمام اونٹوں کو پہلے ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں ماہرین نے ان کی ظاہری شکل و صورت اور ان کے چلنے کے انداز کا معائنہ کیا۔پھر جدید ایکسرے اور 3 ڈی الٹرا ساؤنڈ کا استعمال کرتے ہوئے اونٹوں کے سر، گردن اور دھڑ کے عکس لیے گئے اور ان اونٹوں سے حاصل کیے گئے نمونوں کو جنیاتی معائنے اور چند دیگر ٹیسٹ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مقابلے میں شامل 27 اونٹوں کو اس لیے نااہل قرار دے دیا گیا کیونکہ ان کے جسم کے اعضا کو مصنوعی طریقوں سے بڑا کیا گیا تھا۔ سولہ اونٹوں کو انجیکشن لگائے جانے کی وجہ سے مقابلے سے نکال دیا گیا۔اونٹوں کے مقابلہ حسن کے منتظمیں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ اونٹوں کو دھوکے اور مصنوعی طریقے سے خوبصورت بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں اور دھوکہ بازی کرنے والوں پر جرمانے بھی عائد کریں گے۔
بدھ، 9 اپریل، 2025
چرنو بل جوہری پلانٹ کی تباہی-حصہ اول
چرنو بل پلانٹ کی تباہی اس جوہری پلانٹ سے ریڈیو ایکٹو یعنی تابکار شعاعيں نکل پڑیں تھیں جو یورپ کے بعض علاقوں کی فضا میں پھیل گئی تھیں اور جس کی وجہ سے تھائرائڈ کینسر میں اضافہ دیکھا گیا-بھاپ کے دباؤ سے ہونے والے دھماکے نے ری ایکٹر کی چھت اڑا دی اور ری ایکٹر کا مرکزی حصہ بیرونی ماحول پر عیاں ہو گیا۔دھماکے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہو گئے اور ہوا کی وجہ سے لگنے والی آگ مسلسل 10 دن تک لگی رہی۔ تابکار دھوئیں کی گرد کے بادل ہوا کے ذریعے یورپ میں پھیل گئےمہلک دھویں کے اخراج کے وقت امدادی کارکنوں کی پہلی کھیپ وہاں پہنچی۔بعد ازاں ان میں سے 134 کارکنوں میں تابکاری سے متعلقہ بیماریوں کی تشخیص ہوئی۔ ان 134 میں سے 28 کارکنوں کی موت اس واقعہ کے چند ماہ کے اندر ہی واقع ہو گئی جبکہ بچ جانے والوں میں سے اب تک 19 مذید ہلاک ہو چکے ہیں۔ہائڈرو میٹرولوجیکل انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماحولیاتی سائنسدان گیناڈی نے انخلا کے تین ماہ بعد ہی اس ممنوعہ علاقے میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔سٹیل کا حفاظتی ڈھانچہ متاثرہ ری ایکٹر کا احاطہ کیے ہوئے ہےیہ ایکسکلوژن زون یوکرین اور بیلاروس تک پھیلا ہے۔
یہ علاقہ 4،000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو کہ لندن کے رقبے کے دگنے سے بھی زائد ہے۔پلانٹ کے 30 کلومیٹر کے حصار میں موجود تمام آبادیوں کا انخلا عمل میں آیا اور کسی کو وہاں دوبارہ جا کر بسنے کی اجازت نہیں تھی۔اس حادثے کے چند ماہ بعد ممنوعہ متاثرہ علاقے کے بیرونی حصے میں لوگوں کو خاموشی سے ان کے گھروں میں لوٹنے کی اجازت دے دی گئی۔نیروڈیچی 2،500 لوگوں پر مشتمل ایک آبادی ہے-30 کلو میٹر زون‘ سے مختلف اس تقریباً غیر آباد علاقے میں آمد و رفت روکنے کے لیے چیک پوائنٹس موجود نہیں ہیں۔ اس تابکاری سے متاثرہ علاقے پر کڑے قوانین لاگو ہوتے ہیں اور یہاں کی زمین کو کاشت کاری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کو آباد کیا جا سکتا ہے۔آج نقشے پر یوکرین کے اس حصے کو دو حصوں یعنی آلودہ یا صاف میں تقسیم کرنا آسان نہیں ہے۔ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چرنوبل حادثے کے بعد کی صورتحال بہت پیچیدہ ہے
اور یہاں کا جغرافیہ نیروڈیچی پر لاگو ہونے والے 'ڈو ناٹ ٹچ' (یا ہاتھ مت لگائیے) جیسے کڑے قوانین سے زیادہ عجیب اور دلچسپ ہے۔نیروڈیچی کے باشندوں کو تابکار شعاعوں سے زیادہ تابکار شعاعوں کا خوف نقصان پہنچا رہا ہے۔یہاں تابکاری جہاز میں موجود تابکاری سے کم ہے‘ڈوزی میٹر تابکاری کی اس مقدار کو جانچتا ہے جو کہ ہم ہر ایک گھنٹے میں حاصل کرتے ہیں۔ڈوزی میٹر تابکاری کی اس مقدار کو جانچتا ہے جو کہ ہم ہر ایک گھنٹے میں حاصل کرتے ہیںسنہ 2019 میں یوکرینی سائنسدان گیناڈی لیپٹوو اور نمائندہ بی بی سی وکٹوریہ گِل نے اس علاقے کا ایک ہفتے پر محیط دورہ کیا تھا۔ اس وقت صورتحال کیا تھی ذیل میں اس کی تفصیلات بیان کی جا رہی ہیں۔ہم ایک خشک قطعہ زمین پر کھڑے ہیں جو کبھی چرنوبل جوہری پاور پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے والا تالاب ہوتا تھا۔کشادہ کندھوں والے گیناڈی لیپٹوو کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ یہاں گزارا ہے۔
میں فقط 25 سال کا تھا جب میں تابکاری سے متاثرہ علاقے کی صفائی کے لیے یہاں آیا تھا۔ اب میں تقریباً 60 سال کا ہوں۔‘سنہ 1986 میں وقوع پذیر ہونے والے تاریخ کے بدترین جوہری حادثے کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والے اس خطرناک صفائی کے کام میں ہزاروں افراد نے حصہ لیا تھا۔یناڈی نے مجھے میز کے سائز کا گرد اکٹھا کرنے والا پلیٹ فارم دکھایا۔ سنہ 2014 میں جب نزدیکی دریا سے پانی کھینچنے والے پمپس بند کر دیے گئے تو تالاب کا یہ حصہ خشک ہو گیا۔ ایسا بچ جانے والے تین ری ایکٹرز کو بند کرنے کے بھی 14 سال بعد کیا گیا۔گرد جانچ کر تابکار آلودگی کا اندازہ لگانا اس وسیع و عریض ویران علاقے پر کی جانے والی دہائیوں پر مشتمل ریسرچ کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ جوہری حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔تالاب کے جس حصے پر ہم کھڑے ہیں
اس سے ایک کلومیٹر سے بھی کم دوری پر واقع نیوکلئیر پلانٹ کو میں گیناڈی کے عقب میں دیکھ سکتی ہوں۔یونٹ نمبر چار کو اپنے اندر سمائے ہوئے ایک بڑے حفاظتی سٹیل ’نیو سیف کنفائنمٹ‘ کا ڈھانچہ سورج کی روشنی سے دمک رہا ہے۔سنہ 2016 میں اس کو سانحے کے مرکز پر نصب کیا گیا تھا۔ اس نے نیچے روبوٹ کرینز 33 سال پرانے تابکاری کے ملبہ کو گرا رہی ہیں۔انخلا کے وقت لوگ جو کھیت اور باغ چھوڑ گئے تھے وہ زمین جنگلی حیات کے لیے حیران کُن طور پر زرخیز آماجگاہ بن گئی ہے۔ لمبے عرصے تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق متروکہ دیہات میں جنگلی حیات کی تعداد اس زون کے باقی علاقوں سے زیادہ ہے۔ بھورے ریچھ، جنگلی سور اور سیاہ گوش یہاں گھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔تحقیق کے مطابق تابکاری سے شدید متاثرہ علاقوں میں پائے جانے والے پرندوں کے ڈی این اے میں نقصان کے شواہد ملے ہیں۔
کیف چڑیا گھر میں کام کرنے والی ڈاکٹر مرینا کہتی ہیں ’15 سال تک ان پر تحقیق کرنے کے بعد ہمارے پاس ان کے رویے کے بارے میں بہت زیادہ معلومات ہیں۔ چرنوبل کے بھیڑیے یوکرین کے سب سے زیادہ قدرتی بھیڑیے ہیں۔‘چرنوبل کے بھیڑیے، ہرن اور یہاں تک کے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ خفیہ کیمروں سے بنائی گئی تصاویر بھیڑیوں کے کھانے کی عادات ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں لوگوں کے پرانے باغات کے درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے۔ہر گاؤں پر جنگلی حیات قابض نہیں ہیں، 30 کلومیٹر زون کے اندر کچھ لوگ بھی رہتے ہیں -
منگل، 8 اپریل، 2025
جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو امام حسین سے غیر معمولی عقیدت تھی
ہندوستان کے تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو امام حسین علیہ السلام سے غیر معمولی عقیدت تھی۔ پروفیسر رفیعہ شبنم نے اپنی کتاب ہندوستان میں شیعیت اور عزاداری میں جھانسی کی رانی کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ یوم عاشورہ بڑے خلوص وعقیدت کے ساتھ مجلس عزا برپا کرتی تھی۔ مہارانی لکشمی بائی کی قائم کردہ مجلس اب تک جھانسی پولیس کوتوالی میں منعقد کی جاتی ہے جہاں پہلے اس رانی کا قلعہ تھا جس نے امام حسین علیہ السلام سے حق پر ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کیا تھا ۔ منشی جوالہ پرشاد اختر لکھتے ہیں کہ صوبہ اودھ میں امام حسین کی فوج کے سپہ سالار اور علمبردار عباس کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھا جس کے اٹھانے کا سہرا مغلیہ فوج کے ایک راجپوت سردار دھرم سنگھ کے سر ہے۔ اودھ سلطنت میں لکھنؤ کی عزاداری کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے
محرم کی مجلسوں اور جلوسوں میں ہندوﺅں کی شرکت و عقیدت ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا ایک ایسا نمونہ ہے جس نے قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔لکھنؤ کے ہندوؤں کی امام حسین سے عقیدت -مسز میر حسن علی نے لکھنؤ کی عزاداری کے سلسلہ میں اہل ہنود کی امام حسین سے غیر معمولی عقیدت و احترام کا ذکر اپنی ایک تحریر میں کرتی ہوئی لکھتی ہیں کہ لکھنؤ کا مشہور روضہ کاظمین ایک ایسے ہی ہندو عقیدت مند جگن ناتھ اگروال نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی طرح راجا جھاﺅلال کا عزاخانہ جو آج بھی لکھنؤ کے ٹھاکر گنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجا جھاﺅلال نے تعمیر کرایا تھا۔ راجا بلاس رائے اور راجا ٹکیل رائے نے بھی عزاخانے تعمیر کرائے اور ان میں علم اور تعزیے رکھے۔ گوالیار کے ہندومہاراجاﺅں کی امام حسین سے عقیدت خصوصی طور پر قابل ذکر ہے جو ہر سال ایام عزا کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کرتے تھے۔
مدھیہ پردیش کے علاقہ گونڈوانہ کے ضلع بیتول میں بلگرام خصوصًا بھاریہ نامی قصبہ میں ہریجن اور دیگر ہندو حضرات امام حسین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے اہم اور ضروری کاموں میں کامیابی کے لیے حسین بابا کا تعزیہ اٹھانے کی منت مانتے ہیں۔عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر نے ہندوﺅں کی عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشان دہی کرتے ہوئے لکھاہے۔ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے وہ امام حسین کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہمیراتعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سو گ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نہیں کھایا جاتا ہے۔ سری نگر کے امام باڑے میں حضرت امام حسین کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا ہے۔ ایک حسینی برہمن اسے سو سال قبل کابل کے امام باڑے سے لایا تھا۔
کشمیر سے کنیا کماری تک پھیلے ہوئے ہندوستان میں ماہ محرم آتے ہی یہاں کے مختلف شہروں، قصبوں، پہاڑی بستیوں اور دیہاتوں میں عزاداری سیدالشہدا کی مجالس اور جلوس عزا میں مشترکہ تہذیب کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں ہندو عقیدت مند مسلمان عقیدت مندوں کے ساتھ شریک عزا ہوتے ہیں۔ کہیں ہندو حضرات عزاداروں کے لیے پانی و شربت کی سبیلیں لگاتے ہیں تو کہیں عزاخانوں میں جا کر اپنی عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور اپنی منتیں بڑھاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عقیدت مند ہندو خواتین اپنے بچوں کو علم اور تعزیوں کے نیچے سے نکال کر حسین بابا کی امان میں دیتی ہیں۔-راجستھان اور آندھرا میں ہندوؤں کی عزاداریآندھراپردیش کے لاجباڑی ذات سے تعلق رکھنے والے اپنے منفرد انداز میں تیلگو زبان میں دردناک لہجہ میں پر سوز المیہ کلام پڑھ کر کربلا کے شہیدوں کو اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح راجستھان کی بعض ہندو ذات کے لوگ کربل اکی جنگ کا منظرنانہ پیش کرتے ہیں اور ان کی عورتیں اپنے گاﺅں کے باہر ایک جلوس کی شکل میں روتی ہوئی نکلتی ہیں۔
یہ عورتیں اپنی مقامی زبان میں یزیدی ظلم پر اسے کوستی ہیں اور اپنے رنج وغم کا اظہار اپنے بینوں کے ذریعے کرتی ہیں۔ راجستھان میں ہندوﺅں کی عزاداری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراجے جو ہندو سوراج کے لقب سے جانے جاتے تھے شب عاشور سر و پا برہنہ نکلتے تھے اور تعزیہ پر نقدی چڑھایا کرتے تھے۔پریم چند کا مشہور ڈراما کربلا حق و باطل سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح اردو ادب میں ایسے ہندو شاعروں کی تعداد کچھ کم نہیں جنہوں نے اپنی معرکہ آرا منظوم تخلیقات میں معرکہ کربلا سے انسانیت کے اعلیٰ کرداروں کی خوشہ چینی کی ہے۔ ایسے قابل ذکر شعرا بیجاپور کے رامارواﺅ، مکھی داس، منشی چھنولال دلگیر، راجا بلوان سنگھ، لالہ رام پرشادبشر، دیاکشن ریحان، راجا الفت رائے، کنوردھنپت رائے، کھنولال زار، دلورام کوثری، نانک لکھنوی، منی لال جوان، روپ کماری، یوگیندر پال صابر جوش ملیشانی منشی گوپی ناتھ امن، چکبست، باواکرشن مغموم، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کرشن بہاری، ڈالٹر دھرمیندر ناتھ، ماتھر لکھنوی، مہیندر سنگھ اشک، بانگیش تیواری، گلزاردہلوی، بھون امروہوی وغیرہ کا کلام امام حسین سے ان کی غیر معمولی عقیدتوں کا مظہر ہے۔
مگر اس سوال کے ساتھ کہ حسین ؑ صرف شیعوں کے ہوتے تو پروفیسر ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار کو کیا پڑی تھی کہ آپ کی شان میں قصیدے اور مرثیہ لکھتے۔؟ دلو رام کوثری کو مرثیہ اور نعت کہنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ ہندو شاعرہ روپ کماری امامؑ عالی مقام سے کیوں اظہارِ عقیدت کر رہی ہیں؟ پورن سنگھ ہنر کیوں واقعہ کربلا پر اشک بار ہیں؟ پرتپال سنگھ بیتاب کیوں واقعہ کربلا پہ بے تاب ہوجاتے ہیں؟ ان کے علاوہ بھی کئی اور غیر مسلم شعراء و مفکرین واقعہ کرب و بلا سے حریت و زندگی کا درس لیتے ہیں۔ حسین ؑ کی قربانی انسانی وقار اور عظمت کے لئے تھی۔ اسلام کی بقاء کا راز کربلا ہے۔ جس طرح نبی کی نبوت کسی ایک قوم یا قبیلے کے لئے نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح امام ؑ کی امامت بھی تمام عالمِ بشریت و جن و انس کے لئے ہوتی ہے۔ میرے پاس ہندو اور سکھ شاعروں کا نعتیہ کلام بھی موجود ہے اور ان کا رثائی کلام بھی۔ میرا مقصود مگر تمہید نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ حسین ؑ تو مسلمانوں کے نبی (ص) کے لاڈلے نواسے تھے۔۔ پھر ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار کو حسینؑ سے اتنا عشق کیوں؟ نکتہ یہی ہے جو ہندو شاعرہ روپ کماری نے کہا تھا۔ جوش ملیح آبادی کا مصرع بھی لمحہ بہ لمحہ اس حقیقت کا گواہ بنتا چلا جا رہا ہے کہ ‘‘ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ‘‘۔
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل
باؤ فاضل کا جب بچپن کا زمانہ تھا اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے 1960 ء...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
خوبصورت اور لہلہاتے قدرتی نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...