منگل، 5 نومبر، 2024

دیو سائ پارک سیاحوں کی جنت-پارٹ 1

    اس مرتبہ  چودہ اگست  2024ءکے دن یوم آزادی پر  یورپی یونین کی سفیر ڈاکٹر ریناکیونکا نے جنگ سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ زندگی میں پہلی بار آئیں اور یہ خوشگوار سیاحتی سفر  میں  کبھی   بھی  بھلا  نہیں سکوں گی۔ پچاس کلومیٹر کا پہاڑوں پر سفر چار گھنٹے دس منٹ میں طے کیا گیا۔ اگر پاکستان حکومت کروڑوں لگاکر اسے وادی کاشان ناران کے معیار کا تعمیر کرائے تو اس سے اربوں حاصل کر سکے گی ۔ سکردو (اسپیشل رپورٹ:حنیف خالد) دیوسائی نیشنل پارک قدرت کا عجوبہ‘ دنیا کی بلند ترین تازہ پانی کی جھیلیں ہیں،غیرملکی سفیروں کی 14ہزار فٹ بلند ترین مقام پر جشن آزادی تقریب‘ قومی پرچم لہراتے رہے ، دیوسائی نیشنل پارک جو پاکستان کے گلگت بلتستان میں واقع ہے‘ کا شمار دنیا کے سب سے بلند سطح مرتفع (plateau) میں ہوتا ہے جس کی اوسط بلندی 4114میٹر ہے۔ 1993ء میں قائم کیا گیا یہ پارک ہمالین براؤن بیئر (بھورے ریچھوں) کی نسل کی حفاظت کیلئے خاص طور پر بنایا گیا تھا جو اس علاقے میں ایک نایاب نوع ہے۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی دوسری سالانہ انٹرنیشنل سمٹ کے اختتام پر ایف پی سی سی آئی کے برسر اقتدار گروپ یو بی جی کے سیکرٹری ظفر بختاوری کا یورپی یونین سمیت پندرہ سفیروں اور انکی فیملی بچوں کو 14سے 15ہزار فٹ بلند PLATAEU پر لے جا کر سیرو تفریح ظہرانے کی دعوت دینا اور دریائے سندھ کا منبع دکھانا انکے لئے تاحیات تجربہ رہے گا۔


غیرملکی سفیروں نے چودہ ہزار فٹ بلند ترین مقام پر جشن آزادی کی تقریب میں شرکت کی ۔دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ۔ نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن پاکستان کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے شمالی علاقہ جات اپنی خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3000 مربع کلومیٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گذرتے۔ یہی برف جب پگھلتی ہے توتو دریائے سندھ کے کل پانی کا 5فی صد حصہ ہوتی ہے۔ ان پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے صد پارہ جھیل پر ایک بند زیر تعمیر ہے۔


پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے پانچ دریا عطا کئے ہیں اور ان میں دریائے سندھ دنیا کا بائیسواں طویل دریا سمجھا جاتا ہے۔ قدرت نے پاکستان کوانتالیس قدرتی اور آٹھ غیر قدرتی جھیلیں عطا کی ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان کو دیا ہے۔ دنیا کے بائیس ممالک پہاڑوں سے محروم ہیں جبکہ پاکستان کے حصے میں دنیا کی دوسری     بڑی چوٹی (کے ٹو) کے ساتھ ساتھ دنیا کے دس عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے تین عظیم پہاڑی سلسلے بھی آئے ہیں۔ یورپی ممالک صحرائوں سے محروم ہیں جبکہ پاکستان کو دنیا کا بیسیواں بڑا صحرا ملا ہے۔پاکستان عالمی سطح پر سونے کے ذخائر کے حوالے سے پانچواں بڑا ملک ہے اور ہماری ان کانوں میں سینکڑوں ارب ڈالروں کا سونا موجود ہے۔ ہمارے پاس کوئلے کے پا نچویں بڑے اور تانبے کے ساتویں بڑے ذخائر موجود ہیں۔ اللہ پاک نے پاکستان کو دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کانیں عطا کی ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم ہے، پانچ دریا ہیں جو کم کم ملکوں کو نصیب ہوئے ہیں -پاکستان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس قدر زرخیر مٹی دی ہے کہ سونا اگلتی اور دھرتی پر چلنے والوں کی خوراک کا نہایت آسانی سے بوجھ اٹھا سکتی ہے۔


 کرہ ٔاَرض پر پھیلے ہوئے دو سو انچاس ممالک میں سے پاکستان گنے کی پیداوار میں پانچواں اور چینی کی برآمد میں نواں بڑا ملک ہے۔ گندم کی پیداوار میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے اور چاول کی برآمد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔ پیاز کی پیداوار کے حساب سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے اور چنے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔ آم کی پیداوار کے لئے پاکستان عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر ہے،دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے ہے اور دوسرا استور سے۔ اسکردو سے دیوسائی 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسکردو جانے کے لیے اسلا م آباد سے روزانہ جہاز جاتا ہے جو محض 40منٹ میں اسکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائیٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لیے سیاح عموماً زمینی راستے سے اسکردو جانا پسند کرتے ہیں یہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم پرراولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس سے ہوتا ہوا بونجی کے مقام پر شاہراہ اسکردو سے جا ملتا ہے یہ راستہ تقریباً 24 گھنٹے میں طے ہوتا ہے مگر راستے کی خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دیتی ہے 


۔ دوسرے رستے سے دیوسائی پہنچنے کے لیے راولپنڈی کے پیر ودہائی اڈے سے استور جانے والی کوچ میں سوار ہوجائیں یہ کوچ تالیچی کے مقام سے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور روڈ پر آجاتی ہے اور مزید 45 کلومیٹر کے بعد استور آجاتا ہے۔ یہ سفر تقریباً 22 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔ تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لیے اسی شہر سے گذرتے تھے۔ یہاں رہائش کے لیے مناسب ہوٹل اور ایک مختصر سا بازار بھی ہے جہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ رات قیام کے بعد آگے کا سفر جیپ میں طے ہوگا جو استور میں بآسانی دستیاب ہیں۔ جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدئی کا گاؤں ہے جہاں سے ایک رستہ بوبن کی طرف جاتا نظر آتا ہے جو ایک خوبصورت سیا حتی مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے۔ یہ ایک مختصر سا گاؤں ہے جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں کیوں کہ یہیں سے ایک رستہ کارگل کی طرف نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کے حدود شروع ہوتی ہیں۔ چیک پوسٹ پر20 روپے فی کس کے حساب سے فیس دینی پڑتی ہے جو دیوسائی میں جانوروں کے بقا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

یہ مضمون میں نے روزنامہ جنگ سے لیا ہے


پیر، 4 نومبر، 2024

کراچی کا میری ویدر ٹاور

 


برصغیر کے کالونیل زمانے میں انگریز آئے  تھے قبضہ گروپ کی شکل میں لیکن انہوں نے اپنے دور حکومت  میں  ان شہروں کو چار چاند لگا دئے جو ان کے زیر نگیں رہے-کراچی بھی ان کے دور کا ایک ایسا بے مثال شہر بن کر ابھرا جس کے کچھ نا کچھ آثار ابھی بھی باقی ہیں    - ان یاد گاروں میں ایمپریس مارکیٹ 'ویسٹ و ہارف  'کیماڑی کی بندر گاہ'  کلفٹن کی چو برجی'  فرئر ہال بو ہری بازار  وغیرہ  'وغیرہ  کراچی کا میری ویدر ٹاور، تو آج میں اسی ٹاور کی بات کروں گی- شہر کی تاریخی یادگاروں میں   قیام پاکستان سے قبل  یہ   تاریخی ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں شہر کے وسط میں موجود ہے صوبہٴسندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی کی لانگ روٹ والی بسوں میں سفر کیا جائے تو نارتھ کراچی، گلستان جوہر اور دیگر علاقوں سے شہر کے مرکز ایم اے جناح روڈ آنےوالی متعدد بسوں کے کنڈیکٹر کی ’ٹاور۔۔۔ ٹاور۔۔۔۔ ٹاور‘ کی  آواز  یہ پتا دیتی ہے کہ اس بس کا آخری اسٹاپ ٹاور ہے۔ٹاور کا نام سن کر ذہن میں اکثر پیرس میں قائم دنیا کے سب سے مشہور 'ایفل ٹاور' کا خیال ذہن میں ابھرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ مگر جناب یہ کوئی ایفل ٹاور نہیں، بلکہ کراچی کی اہم اور مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ سے متصل شاہراہ پر قائم 'میری ویدر ٹاور' ہے

قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کیا گیا یہ ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں اہم یادگار کے طور پر موجود ہے۔اِسی ٹاور کی موجودگی کے باعث اس علاقے کو ٹاور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس علاقے کو تجارتی لحاظ سے مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اطراف میں آئی آئی چندریگر روڈ پر کئی تجارتی طرز کی اہم عمارتیں قائم ہیں، جن میں دفاتر اور بینک شامل ہیں۔ٹاور کے قریب شہر کی مشہور کاروباری مرکز ’کراچی اسٹاک ایکسنج‘ کی عمارت بھی ہے۔ٹاور کا علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ کہلاتا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد ہر ہزاروں افراد کا یہاں سے گزر ہوتا ہے، مگر اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے بہت ہی کم لوگ مانوس ہیں۔ اس کا اصل نام کہیں چھپ کہ رہ گیا ہے۔ پری اور پیکر کی طرح، ’میری‘ اور ’ویدر‘ کہیں غائب ہے، زدِ عام رہ گیا ہے تو صرف ایک ہی نام، یعنی، 'ٹاور-وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ نے کراچی کے میری ویدر ٹاور کے اطراف گزرتے چند شہریوں سے اس ٹاور کے نام اور اہمیت سے واقفیت کے بارے میں استفسار کیا تو سوائے چند لوگوں کے کئی شہری اس کے اصل نام اور یادگار اہمیت سے لا علم نظر آئے۔اس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے آج کے بہت کم شہری واقف ہیں۔


میری ویدر ٹاور کی تاریخی اہمیت:تاریخ بتاتی ہے کہ میری ویدر ٹاور سابق کمشنر سندھ 'ولیم میری ویدر' کی بہترین کارکردگی کے عوض سنہ 1884 میں تعمیر کروایا گیا تھاولیم میری ویدر سنہ 1868 میں سندھ کے کمشنر مقرر ہوئے، جنھوں نے اپنی 10 سالہ کارکردگی میں سندھ سمیت کراچی میں اہم ترقیاتی کام کرائے۔ٹاور کی بناوٹ:سنہ 1884 سے کراچی کی اہم شاہراہ ہر قائم ٹاور پر سندھ کے سابقہ ادوار کے کمشنر 'ولیم میری ویدر‘ کا نام کنندہ ہے۔اس یادگار ٹاور کی لمبائی 102 فٹ اونچی ہے۔اِس کی70 فٹ کی اونچائی پر ایک چار رخی گھڑی آویزاں ہے، جس کے اوپر نقش و نگاری کیلئے صیہونی طرز کے تارے بھی کنندہ ہیں اس ٹاور کی بناوٹ میں جودھپوری لال پتھر کا استعمال کیا گیا ہےمیری ویدر کلاک ٹاور   ایک گوتھک کلاک ٹاور ہے جو وکٹورین دور میں کراچی ، پاکستان میں بنایا گیا تھا۔ یہ ٹاور وسطی کراچی کا ایک تاریخی مقام ہے اور یہ وسطی کراچی کی دو اہم ترین سڑکوں محمد علی جناح روڈ اور II چندریگر روڈ کو علاحدہ کرتا ہے۔ یہ ٹاور شہر کی حدود کی نشان دہی کرتا تھا جب کیماڑی کی بندرگاہ سے آتے تھے،  اور کراچی کے اولڈ ٹاؤن اور مشرق میں اس کے نئے یورپی کوارٹرز کے درمیان تقسیم کی لکیر کو نشان زد کرتا تھاتاریخ میری ویدرٹاورکو عوامی رکنیت کے ذریعے سر ولیم L. Merewether کی یادگار کے طور پر اٹھایا گیا تھا،   جنھوں نے 1867ء سے 1877ء تک سندھ کے کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

اسے کراچی کے میونسپل انجینئر جیمز اسٹریچن نے ڈیزائن کیا تھا، اس کا سنگ بنیاد بمبئی کے گورنر سر جیمز فرگوسن نے 1884ء میں رکھا تھا   اسے باضابطہ طور پر 1892ء میں سندھ کے کمشنر سر ایوان جیمز   نے 37,178 روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے کے بعد عوام کے لیے کھولا تھافن تعمیر رات کو Merewether کلاک ٹاورنیپئر مول روڈ کے ساتھ کیماڑی میں بندرگاہ سے پہنچنے پر ٹاور شہر کی جنوبی حد کوظاہرکرتا تھا۔  یہ نئے یورپی سرائی کوارٹرز سے اولڈ ٹاؤن کے درمیان تقسیم کی لکیر کے نشان کے طور پر بھی کام کرتا ہے  یہ دو بڑے راستوں کے ٹرمینی پر بھی واقع ہے: محمد علی جناح روڈ اور II چندریگر روڈ اور یہ ایک بڑا بس اسٹاپ ہے۔   ایک اور نظارہ اسٹراچن نے ٹاور کو گوتھک ریوائیول اسٹائل میں ڈیزائن کیا جو وکٹورین انگلینڈ میں مقبول تھا،۔ کلاک ٹاور 44 فٹ مربع کی بنیاد پر کھڑا ہے اور 102 فٹ کی بلندی پر ہے۔ 4 گھڑیاں 70 فٹ کی اونچائی پر ہر اگواڑے پر واقع ہیں، جس میں ایک گھنٹی ہے جس کا وزن 300 پاؤنڈ ہے جو گھنٹے پر ٹکراتی ہے۔ 100 پاؤنڈ وزنی چھوٹی گھنٹیاں چوتھائی گھنٹے میں ٹکراتی ہیں۔   یہ مقامی گیزری ریت کے پتھر سے بنا ہے اور اس کے بیرونی حصے پر سٹار آف ڈیوڈ بھی نظر آتا ہے۔ ٹاور کو نازک پتھر کے کام سے سجایا گیا ہے،   ۔

اتوار، 3 نومبر، 2024

آ ئ دیوالی کی رات آئ

 

 دیوالی ایک دن کا تہوار نہیں بلکہ پانچ دن کے تہوار کا سلسلہ ہے۔ عام تقویم کے اکتوبر اور نومبر مہینے کے درمیان میں پیش آتا ہے۔ دیوالی اماوس کی رات کو منائی جاتی ہے۔ اماؤس گہری سیاہ رات ہوتی ہے، اس گہری سیاہ رات میں دیے روشن کرکے عید منائی جاتی ہے۔دیوالی صرف دییوں کا تہوار ہی نہیں بلکہ آواز، پٹاخے، رنگولی، ذائقے، مٹھائیاں، جذبات اور روحانیت کا بھی تہوار ہے۔جذباتی طور پر دیوالی سارے خاندان کو، دوست احباب کو ایک جگہ جوڑتا ہے-دیوالی جو دیپاولی اور عید چراغاں کے ناموں سے بھی معروف ہے ایک قدیم ہندو تہوار ہے، جسے ہر سال موسم بہار میں منایا جاتا ہے۔  یہ تہوار یا عید چراغان روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، جہالت پر علم کی، بُرائی پر اچھائی کی اور مایوسی پر اُمید کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔  اس تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہوجاتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتے ہیں۔ اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔


 اصل تہوار شمسی-قمری ہندو تقویم کے مہینہ کارتیک میں اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔ گریگورین تقویم کے مطابق یہ تہوار وسط اکتوبر اور وسط نومبر میں پڑتا ہے۔دیوالی  ایک ایسا تہوار جس کو ہندو برادری کا سب سے بڑا تہوار سمجھا جاتا ہے، اسے  دنیا بھر میں ہندی برادری بڑے جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہے۔یہ ایک قدیم تہوار ہے جسے دسہرے کے تہوار کے بعد منایا جاتا ہے، اسے روشنیوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے جس میں گھروں میں چراغاں ہوتا ہے اور پٹاخے پھلجھڑیاں جلائی جاتی ہیں۔دیوالی دراصل ’دیپاولی‘ کا بگڑا ہوا نام ہے، دیپ کا مطلب روشنی اور ولی کا مطلب قطار ہوتا ہے، یعنی قطار در قطار جلائے گئے دیے، اسی لیے اسے روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔اِس تہوار کے موقع پر جھونپڑیوں سے لے کر محلوں تک، تمام گھروں میں روشنی اور چراغاں کیا جاتا ہے اور انہیں سجایا جاتا ہے۔دیوالی سے جڑی مختلف روایات-ہندوؤں کی روایت کے مطابق یہ جشن اور چراغاں اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس دن ان کے بھگوان رام، ان کی اہلیہ سیتا اور ان کے بھائی لکشمن 14 سال کے بن باس یعنی جنگل میں جلاوطنی اور لنکا کے بادشاہ ’راون‘ کو شکست دینے کے بعد اپنے گھر، اپنے شہر ایودھیا واپس لوٹے تھے۔


اس موقع سارا شہر ان کے استقبال کے لیے اُمڈ آیا تھا اور ایودھیا کے چپے چپے سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں، آج بھی لوگ رام کی اِس واپسی کا جشن دیوالی کی صورت میں مناتے ہیں۔دیوالی سے جڑی اور بھی کہانیاں ہیں، مثلاً کہا جاتا ہے کہ کسور نامی ایک راجہ تھا، جو بڑا ظالم اور ہوس پرست تھا، حسین نوجوان دوشیزاؤں کو اغواء کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا پھر انہیں جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کر دینا اس کا محبوب مشغلہ تھا، ہندو مذہب کے ایک دیوتا وشنو نے بھگوان کرشن کا روپ دھار کر دیوالی کے دن دنیا کو اس ظالم راجہ سے نجات دلائی تھی۔دیوالی کا تہوار کب اور کس طرح منایا جاتا ہے؟دیوالی کے تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتی ہیں، اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔دیوالی کے 5 دنوں کا آغاز ’دھن تیرس‘ سے ہوتا ہے، اس دن لوگ سونا چاندی یا کسی بھی دھات کی خریداری کو نیک شگون مانتے ہیں، اس دن لوگ کوئی نہ کوئی نئی چیز ضرور خریدتے ہیں۔دوسرا دن ’نرک چتور داس‘ ہوتا ہے، اس دن کی اہم رسومات میں سے ایک غسل کرنا، آرام کرنا اور سبزیوں کے تیل سے جسم کی مالش کرنا ہے۔تیسرا دن ’دیوالی‘ کا ہوتا ہے جو سب سے اہم اور مرکزی دن ہوتا ہے، 


اس دن چاند مکمل طور پر غروب ہوتا ہے اور ماحول معمول سے زیادہ تاریک ہو جاتا ہے، اسی لیے بہت سے دیے جلائے جاتے ہیں اور چراغاں کیا جاتا ہے۔اس روز لوگ پوجا پاٹ کرتے ہیں اور رات کو اپنے گھروں کے دروازے، کھڑکیاں کھول دیتے ہیں تاکہ ان کے گھروں اور زندگیوں میں مزید روشنی آئے، دیر رات تک آتش بازی ہوتی ہے جبکہ بعض جگہ تو صبح صادق تک آتش بازی ہوتی ہے۔چوتھا دن ’گووردھن پوجا‘ ہے، اِس دن کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں، کچھ لوگ اسے میاں بیوی کے دن کے نام سے جانتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں، جبکہ بعض لوگ چوتھے روز بارش کے دیوتا ’اِندر پر کرشن‘ کی فتح کو یاد کرتے ہیں اور اس کا جشن مناتے ہیں۔


  اس تہوار پردولت و خوش حالی کی دیوی لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے، پٹاخے داغے جاتے ہیں،  بعد ازاں سارے خاندان والے اجتماعی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور خوب مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے اور تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔ دیوالی ہندوؤں کا اہم تہوار ہی نہیں بلکہ اہم رسم یا رواج بھی ہے ۔ بھارت کے کئی علاقوں میں،  یہ تہوار دھنتیرس سے شروع ہوتا ہے، نرک چتردشی دوسرے دن منائی جاتی ہے، دیوالی تیسرے دن، چوتھے دن دیوالی پاڑوا شوہر بیوی کے رشتوں کے لیے وقف ہے اور پانچواں دن بھاؤبیج بھائی بہن کے رشتوں کے لیے مخصوص ہے، اس پر یہ تہوار ختم ہوجاتا ہے۔ عام طور پر دھنتیرس، دسہرا کے اٹھارہ دن بعد پڑتا ہے۔جس رات کو ہندو دیوالی مناتے ہیں، اُسی رات کو جین پیروکار مہاویر کے موکش (نجات) پانے کی خوشی میں جشنِ چراغاں دیوالی مناتے ہیں،سکھ پیروکار اس تہوار کو انچواں اور آخری دن ’بھیادوج‘ کہلاتا ہے، یہ بہن بھائیوں کے رشتے کے جشن کا دن ہوتا ہے، اس موقع پر بہنیں اپنے بھائیوں اور سرپرستوں کے لیے خصوصی دعا کرتی ہیں،

ہفتہ، 2 نومبر، 2024

دیودار کے جنگلوں کے درمیان "وادئ کمراٹ"


 پا کستان کے پہاڑی علاقے میں جانے کا پروگرام اگر بنانا ہو تو  ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے  جہاں میدانی علاقوں کی طرح  نا گرمی ہو' نا سردیوں کی  برفیلی ہواؤں کے تھپیڑے ہوں بس   درختوں کی گھنی چھاﺅں میں  آس پاس کے سر سبز و شاد اب  درختوں  کی مسحور کن خوشوؤں نے گھیرا ہوا ہو تو وہ جگہ یقیناً وادئ کمراٹ ہی کہی جا سکتی ہے  جہاں  ایک قدرتی چشمہ اور جگہ جگہ رواں شفاف پانی کے باعث اس علاقے کو پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں بآسانی شامل کیا جا سکتا ہے۔ چاہے مختصر تفریحی دورہ ہو یا کیمپنگ کا ذوق رکھنے والوں کا تفصیلی سفر، کمراٹ ہر طرح کے لوگوں کے لئے ایک جنت سے کم نہیں۔ کمراٹ کے ارد گرد موجود بڑی آبشاریں بھی اس کی انفرادیت کو چار چاند لگاتی ہیں۔ ان آبشاروں تک پہنچنے کے لئے دریا پار کر کے کچھ بلندی تک چلنا پڑتا ہے-فطری مناظر سے  بھرپور، عام نگاہوں سے اوجھل، ہجوم اور شور سے دور ایک وادی کمراٹ بھی ہے۔چاروں طرف واقع سر سبز پہاڑوں کے بیچ، سبزی مائل دریا کے کنارے ایک پرسکون قصبہ جہاں کے لوگوں میں اب بھی وہ سادگی اور اخلاص ہے جو دورِ موجودہ میں ایک خیال کی صورت میں ہی باقی رہ گیا ہے۔


تھل سے دریا کے ساتھ ساتھ کچھ پختہ اور بیشترکچا راستہ ایک ایسی وادی کی طرف راہنمائی کرتا ہے جہاں صرف اور صرف سکون ہے۔دیار کے گھنے درختوں میں سے ہوتے ہوئے، دونوں اطراف کے گھنے جنگل سے گھرے پہاڑوں کے سائے میں یہ سفر ایک منفرد تاثیر رکھتا ہے۔ سفر کی طوالت اور ناہموار راستے کے سبب اس پوشیدہ حسن تک پہنچنے کے لئے جیپ ہی بہتر انتخاب ہے۔ تھل کی آبادی سے نکلتے ہی دریا کے کنارے کئی مقامات ایک راحت افزا پڑاﺅ بن سکتے ہیں۔ دریائے پنجگوڑہ میں ٹراﺅٹ مچھلی کی بہتات ہے لیکن اس برفیلے اور تند رفتار پانی میں مچھلی کا شکار نہایت مشکل ہے۔ بغیر مقامی تجربہ کاروں کی مدد کے یہ کام بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کمراٹ کا موسم نہایت معتدل ہے۔ ۔ لیکن کمراٹ جا کر ان آبشاروں کا قریب سے مشاہدہ نا کرنا بدذوقی ہی کہی جا سکتی ہے۔پاکستان کے دیگر پہاڑ ی مقامات مثلاً سوات، کاغان، مری اور گلیات کی نسبت کمراٹ کا سفر کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے لوگ اس نام تک سے واقف نہیں۔ اس کی ایک وجہ دیر کے نہایت دور دراز علاقے میں واقع ہونا بھی ہے۔


 اس کے علاوہ سفری سہولیات کا میسر نا ہونااور رہائش کی عدم دستیابی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ علاقہ وہ شہرت بھی حاصل نا کر سکا جو اس سے کہیں کم خوبصورت علاقوں کو حاصل ہے۔ تھل کی منفرد چیزوں میں سے ایک یہاں کی لکڑی کی نہریں ہیں۔ یہ لکڑی کی نہریں کسی بھی دیکھنے والے کو متاثر کرتی ہیں۔ان  ان نہروں میں دریائے پنجکوڑہ اور دیگر نالوں سے پانی آتا ہے۔ یہ لکڑی کی شیٹ سے بنائ گئ  ہیں اور ان کو سپورٹ دینے کے  لئے پلرز بھی بنائے گئے ہیں۔کمراٹ کے لئے ایک راستہ ضلع سوات سے بھی ممکن ہے۔ کالام اور اتروڑ سے ہوتا ہوا یہ راستہ ایک دشوار، نہایت بلند لیکن انتہائی گھنے جنگلات میں سے گزرتا ہے۔ اس راستے سے کمراٹ کا سفر اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد سفر ہے۔ اس سفر کے لئے چھوٹی جیپ اور چاک و چوبند ڈرائیور کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ تنگ موڑوں اور مکمل کچے راستے پر مشتمل اس سفر میں شاید ہی کسی جگہ سورج کی کرنیں زمین تک پہنچتی ہوں۔ ایک بلند درہ، سوات اور دیر کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔


 اس درے سے دور دور تک کے پہاڑوں اور سر سبز ڈھلوانوں کا منظر بھی دیکھنے کے لائق ہے۔کمراٹ کے جنگلات جنگلی حیات سے بھی بھرپور ہیں۔یہاں مارخور، ہرن اور چیتے وغیرہ پائے جاتے ہیں۔بندر تو عام طور پر آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر تجربہ کار مقامی شکاری میسر ہو تو ٹراﺅٹ مچھلی بھی بآسانی شکار کی جا سکتی ہے۔کسی بھی قسم کی آبادی نا ہونے کی وجہ سے کمراٹ میں ضروری اشیاءساتھ لانا ضروری ہے۔ تھل کے بازار سے خوراک وغیرہ دستیاب ہے جو ضرورت کے مطابق ساتھ لائی جا سکتی ہے -لیکن کمراٹ آنے لئے  سیاح   کو تھل سے اشیائے  ضروریات لینی ہوں گی کیونکہ کمراٹ میں  اشیائے ضروریہ کا کوئ بندوبست نہیں ملے گا  -


تھل میں دیکھنے کے لئے یہاں ایک قدیم مسجد ہے  تھل کی اس تاریخی مسجد کی دیواریں اور چھت بھی اخروٹ کی لکڑی سے تعمیر کی گئی ہیں۔ ان پر بھی نقش و نگاری کنندہ ہے۔چھت سے فانوس اور لالٹین لگی نظر آتی ہیں۔ مسجد کی محراب میں کلمہ لکھا ہے۔ لکڑی کاٹنے کی کوئی مشین نہیں تھی تو سارا کام کلہاڑے سے کیا گیا۔دیواروں پر بنے خوبصورت پھول اور ہاتھ سے بنا آرٹ اس کی اصل خوبصورتی ہے۔ جامع مسجد دالالسلام کے ساتھ دریائے پنجکوڑہ بہتا ہے جس کے پانی سے یہاں نمازی وضو کرتے ہیں۔مسجد کے اندر ایک انگیٹھی بنائی گئی ہے جو سردیوں میں نمازیوں کو حرارت فراہم کرتی ہے۔ وادی کمراٹ میں تفریح کی غرض سے آنے والے سیاح اس مسجد کے حصار میں کھو جاتے ہیں۔اِس مسجد کی منفرد حیثیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دیودار کی بنی ہوئی 45 فٹ لمبی اور 1.5×1.5 فٹ چوڑی شہتیر بغیر کسی جوڑ کر لگائی گئی ہے۔ اس کے شہتیروں کو 2×2 فٹ چوڑے اور 8 فٹ بلند دیودار کے ستونوں سے سہارا دیا گیا ہے۔ان ستونوں پر بہترین نقش و نگار بنائے گئے ہیں جو کہ علاقائی فن تعمیر اور نقش و نگاری کا شاہکار ہیں۔ چار سو سالہ  تھل کی تاریخی مسجد دارالسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک قدیمی حصہ اور دوسرا بعد میں بنا جو اوپر واقع ہے۔تھل کی تاریخی مسجد کے نقش و نگار-مسجد کے صحن سے اندر داخل ہوں تو سامنے ہال آتا ہے جہاں چھ مضبوط ستون چھت کو سہارا دیتے ہیں۔ ستونوں کے اوپر لکڑی کی انتہائی مضبوط اور موٹی شہتیریں رکھی گئی ہیں جو بغیر کسی جوڑ کے ہیں اور اس کو منفرد بناتے ہیں۔

مضمون کی تیاری میں گوگل سرچ سے استداہ کیا گیا ہے

جمعہ، 1 نومبر، 2024

ٹرک آر' ٹریٹ یعنی ہالو وین

     ہالو وین  در اصل امریکا  اور کچھ  یورپی ممالک میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے جس  کا  تصو ر  بھوتوں چڑیلوں اور بدروحوں سے وابستہ ہے  -اس رات کے مشہور ہے کہ ماورائ بدی کی قوتیں زمین پر اترتی ہیں اور انسانوں کو تکلیف پہنچاتی ہیں اور ان بری قوتوں کو ان ڈراؤنے ملبوسات اور ڈراؤنے چہروں سے بھگایا جاتا ہےاس رات میں گلی کوچوں، بازاروں، سیرگاہوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے نظر آتے ہیں جن پر ہیبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈراؤنے ڈھانچے کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے قریب سے گزریں تو وہ ایک خوف ناک قہقہہ لگا کر دل دہلا دیتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہالووین کی ابتدا 1921ء میں شمالی ریاست منیسوٹا سے ہوئی اور اس سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا۔ پھر رفتہ رفتہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکا کے دوسرے قصبوں اور شہروں تک پھیل گیا اور پھر اس نے قومی سطح کے بڑے تہوار اور ایک بہت بڑی کاروباری سرگرمی کی شکل اختیار کرلی-تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں کیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔


موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ سردیوں کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔قبائل کا عقیدہ تھا کہ نئے سال کے شروع ہونے سے پہلے کی رات یعنی 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے کیلٹک قبائل 31 اکتوبر کی رات آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے تھے، اناج بانٹتے تھے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ اس موقع پر وہ جانوروں کی کھالیں پہنتے اور اپنے سروں کو جانوروں کے سینگوں سے سجاتے تھے۔جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔


 یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔امریکا دریافت ہونے کے بعد بڑی تعداد میں یورپی باشندے یہاں آکر آباد ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی ثقافت اور رسم و رواج اور تہوار بھی لے کر آئے۔ کہا جاتا ہے کہ شروع میں ہالووین میری لینڈ اور جنوبی آبادیوں میں یورپی تارکین وطن مقامی طور پر چھوٹے پیمانے پر منایا کرتے تھے۔ انیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر یورپ سے لوگ امریکا آکر آباد ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد آئرش باشندوں کی بھی تھی۔ ان کی آمد سے اس تہوار کو بڑا فروغ اور شہرت ملی اور اس میں کئی نئی چیزیں بھی شامل ہوئیں جن میں، ٹرک آر ٹریٹ، خاص طور پر قابل ذکر ہے، جو آج اس تہوار کا سب سے اہم جزو ہے۔انیسویں صدی کے آخر تک امریکا میں ہالووین پارٹیاں عام ہونے لگیں یہ تو ہم سب  ہی جانتے ہیں کہ کوئ موقع ہو وہ کارپوریٹ طبقے کے ہاتھ آ جائے تو سمجھ لیں کہ اربوں کا بزنس ہاتھ آ گیا یہی کچھ اب ہالو وین کی رسم کے ساتھ ہو چکا ہے


ان پارٹیوں میں کھیل کود اور کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ڈراؤنے کاسٹیوم پہنے جاتے تھے۔ان پارٹیوں میں اس دور کے اخباروں میں اس طرح کے اشتہار شائع ہوتے تھے جن میں ایسے بہروپ دھارنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی جنہیں دیکھ کر لوگ دہل جائیں بیسویں صدی میں1950ء کے لگ بھگ ہالووین کی حیثیت مذہی تہوار کی بجائے ایک ثقافتی تہوار کی بن گئی جس میں دنیا کے دوسرے حصوں سے آنے والے تارکینِ وطن بھی اپنے اپنے انداز میں حصہ لینے لگے۔ رفتہ رفتہ کاروباری شعبے نے بھی ہالووین سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے نت نئے کاسٹیوم اور دوسری چیزیں مارکیٹ میں لانا اور ان کی سائنسی بنیادوں پر مارکیٹنگ شروع کردی۔ یہاں تک کہ اب ہالووین اربوں ڈالر کے کاروبار کا ایک بہت بڑا ثقافتی تہوار بن چکا ہے۔کاروباری مراکز میں بھی یہ مناظر اکتوبر شروع ہوتے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جا کر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انھیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔

 

منگل، 29 اکتوبر، 2024

بولیں اماں محمد علی کی 'جان بیٹا خلافت پہ دے دو



   سنہ ء  1857 میں  دہلی  کی جنگ آزادی  اور پھر مسلمانوں  کے قتل عام سے  کچلے جانے کے بعد ہندوستان کے عوام میں  دوباہ  آزادی کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں لیکن اس بار ان کا مرکز دہلی نہیں تھا بلکہ  یوپی تھا -یوپی کے ایک شہر رام پور  کے مو لانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کی والدہ،(پیدائش: 1850ء – وفات: 12 نومبر 1924ء     رام پور  شہر  پیدا ہوئیں۔   وہ ایک سچی مومنہ تھیں۔انہوں نے ہندوستان کی عورت  میں آزادی کی روح پھونکتے ہوئے کہا    کہ    ہندوستان کی یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ یہاں کی عورتیں عیش و آرام کی عادی ہوگئی ہیں اور خود کو حب الوطنی کے فرائض سے الگ کرلیا ہے۔ بہنو! اب وقت آگیا ہے کہ ہر وہ مرد و عورت جس میں ذرّہ برابر ایمان اور خودداری ہو، اپنے آپ کو خدا کی فوج کا سپاہی سمجھے، ہم میں سے ہر مرد اور عورت والنٹیئر ہے۔ ملک و قوم کی حالت بے حد نازک ہے، قید خانوں سے خوف نہ کھائو، اپنے فرائض ادا کرو اور ساتھ ہی مذہبی اور سوشل ذمہ داریاں بھی فراموش نہ کرو، میں تم کو نصیحت کرتی ہوں کہ جذبات کو مشتعل کرکے اپنی گرفتاری کا سبب بھی پیدا نہ کرو، لیکن اگر گرفتار ہوجائو تو اس سے بھاگو بھی نہیں۔ اگر ہمارے مرد جیلوں میں چلے جائیں گے اُس وقت آزادی کے پھریرے اڑاتے ہوئے ہم آگے بڑھیں گے۔‘‘تو یہ تھی ایک غیر تعلیم یافتہ مگر سرفروش ماں کی تقریر، جس کو اللہ نے شوکت علی اور محمد علی جیسے آزادی کے علَم بردار بیٹے دیے تھے۔


انہوں نے اسلامی حمیت، جرأت، بے خوفی، ایثار و قربانی اور جذبۂ حریت کے جو نقوش تاریخ میں چھوڑے ہیں اس سے ان کا نام تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اُس دور میں عورت کے لیے بہت بڑی چیز تھی انہیں تحریکِ آزادیِ مسلمانانِ ہند کی پہلی مجاہد خاتون کی حیثیت سے تاریخ میں جگہ ملی۔ بی اماں کے بیٹے جب جیل میں ڈال دیے گئے تھے تو انہوں نے برقع پہن کر ایک بڑے اجلاس کی صدارت کی۔ جب وہ دونوں ’’چھندواڑے‘‘ میں نظر بند تھے تو بی اماں وہاں موجود تھیں۔ حکومت کے لوگ مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کے پاس ایک ٹائپ شدہ معافی نامہ لے کر آئے کہ وہ ان پر دستخط کردیں۔ بی اماں دوسرے کمرے میں بیٹھی یہ گفتگو سن رہی تھیں، اُن کو خیال ہوا کہ کہیں ان کے بیٹے دستخط نہ کردیں، انہوں نے بے تابی سے محمد علی کو پکارا۔وہ آئے کہ نہ معلوم ماں کیا کہنا چاہتی ہیں؟بی اماں بولیں ’’تم دونوں بھائی معافی نامے پر دستخط نہیں کرو گے، اور اگر تم نے دستخط کردیے تو میں نہ تمہارا دودھ بخشوں گی، نہ تمہاری شکل دیکھوں گی، نہ تم کو کبھی گھر کے اندر گھسنے دوں گی، ذلت کی آزاد زندگی سے جیل کی کوٹھری ہزار درجہ بہتر ہے جہاں انسان کا وقار قائم رہے۔اور وقت نے بتایا کہ  بی اماں کے دونوں بیٹے اپنی ماں کے مشن پر ثابت قدمی سے قائم رہے 


‘‘بی اماں نے 30 دسمبر 1921ء کو آل انڈیا لیڈیز کانفرنس سے خطاب کیا جس میں ہر مذہب کی خواتین شریک تھیں۔ انہوں نے اس میں کہا کہ ’’بہنو! خدا کا قانون مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے، قومیں مردوں اور عورتوں دونوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ملک کے لیے جو فرائض مردوں پر عائد ہوتے ہیں وہی عورتوں پر۔ ان کی خطابت نے ہندوستان کی عورتوں میں حریت کا جزبہ بیدار کیا -جس کے طفیل لاتعداد عورتیں بی اماں کے قافلے میں شال ہوتی گئیں -انہوں نے محدود وسائل میں بچوں کو اچھی تعلیم دلائی، اپنے زیور بیچ کر علی گڑھ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا۔  مولانا محمد علی جوہر  کے چچا نے انگریزی تعلیم کی مخالفت کی تو انہوں نے اپنا زیور بیچ کر چپکے چپکے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی پورا خیال رکھا۔ نہ صرف دینی تعلیم دلائی بلکہ ان کے دلوں میں دین سے گہرا لگائو بھی پیدا کیا۔1887ء میں بی اماں نے مولانا محمد علی کو مزید تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا۔ پہلی جنگِ عظیم (1914-18) کے بعد برطانوی سامراج نے خلافتِ عثمانیہ کو اپنی سازشوں کا نشانہ بنایا اور اندرونی اور بیرونی سازشوں کے ذریعے ترکی کی خلافت کا خاتمہ کردیا تو مسلمانانِ ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ خلافت کی بحالی کے لیے زبردست تحریک چلائی گئی۔ 


مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی نے بی اماں کے ساتھ مل کر ملک کے طول و عرض کے دورے کیے اور مسلمانو ں کی غیرت کو جھنجھوڑا۔1921ء میں دونوں بھائیوں کو انگریز حکومت نے گرفتار کرلیا اور مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔ اس مقدمے کی سماعت کراچی کے خالق دینا ہال میں ہوئی۔ اُس زمانے میں کسی صاحبِ دل نے ’’صدائے خاتون‘‘ کے نام سے نظم لکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئی۔ حالانکہ اس نظم کو پھیلانے میں سوائے زبان کے اور کسی میڈیا نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ قرائین بتاتے ہیں کہ مولانا  محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر  دونوں بھائیوں کو اپنی ماں کی فہم و فراست پر بڑا ناز تھا، وہ ہر سیاسی معاملے میں ماں کے مشورے پر عمل کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا مشورہ بہترین ہوتا تھا، حالانکہ انہوں نے اردو کی چند ہی کتابیں پڑھی تھیں مگر بے حد زیرک اور عقل مند تھیں۔ ملکی سیاست پر انہیں پورا پورا عبور حاصل تھا۔‘‘تو یہ تھیں وہ پہلی مسلمان خاتون رہنما جنہوں نے ہندوستان میں تمام خاندانی جکڑبندیوں کو توڑ کر آزادیِ مسلمانانِ ہند کی راہ میں پہلا قدم  بڑھایا، یہ بی اماں تھیں جن کے ولولہ انگیز خطابت کے نتیجے میں ہندوستان کی عورت میں  آزادی  کا   بدل جذبہ  بیدار کیا اور پھر لاتعداد خواتین نے بی اماں کے قافلے میں شامل ہو کر اس   کو کارواں  میں بدل دیا

 


نومبر 1924ء میں بی اماں  راہئ  ملک عدم  ہوئیں  تو ان کے دونوں بیٹے ہی نہیں پوری قوم قابلِ احترام ماں کی شفقتوں سے محروم ہوگئی جن کے بارے میں شوکت علی نے کہا تھا کہ ’’ہماری ماں نے ہمیں زندہ رہنے اور آزادی سے زندگی گزارنے کا سبق دیا۔‘‘اور مولانا محمد علی جوہر کہا کرتے تھے کہ ’’ماں کی اصل خوب صورتی اس کی محبت ہے، اور میری ماں دنیا کی خوب صورت ترین ماں ہے۔‘‘مولانا محمد علی جوہر کی اہلیہ کہتی تھیں کہ ’’دونوں بھائیوں کو اپنی ماں کے فہم و فراست پر بڑا ناز تھا، وہ ہر سیاسی معاملے میں ماں کے مشورے پر عمل کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا مشورہ بہترین ہوتا تھا، حالانکہ انہوں نے اردو کی چند ہی کتابیں پڑھی تھیں، مگر بے حد زیرک اور عقل مند تھیں، ملکی سیاست پر انہیں پورا پورا عبور حاصل تھا۔‘‘تو یہ تھیں وہ پہلی مسلمان خاتون راہ نما، جنہوں نے ہندوستان میں تمام خاندانی جکڑ بندیوں کو توڑ کر آزادیِ مسلمانانِ ہندکی راہ میں پہلا قدم بڑھایا۔یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی  مسلمان عورت یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ مسلمانانِ ہند کی آزادی کیا چیز ہے۔ ایسے دور میں رام پور  شہر کے   لوگوں کے درمیان بی اماں اپنے انفرادی کردار کے باعث حیرت انگیز طریقے سے سامنے آئیں۔اور آزادئ ہند کے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے  

 بو لیں  اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ساتھ تیرے ہے شوکت علی بھی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ہو تم ہی میرے گھر کا اجالا ،تھا اسی واسطے تم کو پالا

کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ ،جان بیٹا خلافت پہ دے دو

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

میرا تعارف-زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

 

میرا تعارف

نحمدہ  ونصلّٰی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین

جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان 

 عمر  عزیز پاکستان  جتنی 

پاکستان  کی معزّز قوموں میں  معتوب قوم مہاجر  سے تعلّق ،

 میں سب سے پہلے اللہ کریم رحمٰن و رحیم , کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین مر حومین کی بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے   قرطاس وقلم کی اہمیت سےروشنا س کیا,اور زندگی کے لق ودق صحرا میں پیش آنے والی  اونچ نیچ سمجھائ ,,مشکلات کی کٹھن گھڑیوں میں  صبر اور نماز سے مدد کی  نصیحت کی  اور زندگی کے ہر ہر قدم پر میری رہنمائ کی  ان ہستیوں کے ہمراہ اپنےمحترم علم دوست شوہر  کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جن کی قریب قر یب بیالیس سالہ رفاقت میں مجھے ا ن کے آ  نگن میں سائبا ن  عِلم نصیب ہواہجرت , جون انیس سو  انچاس بوجوہ سقوط حیدرآباد دکن کے بعد وہاں کے قتل عام سے بچنے کے بعد بعد از ہجرت تمام عمر اپنے پیارے محبوب وطن پاکستان کے قلب کراچی میں بسر ہوئ 

 اب میں قارئین کو اپنا خاندانی پس منظر بتانا چاہوں گی 

میری والدہ اور والد کے اجد ا دسرزمین ہند کے زی وقار اور منفرد تہذیب رکھنےوالے شہر لکھنؤ میں سادات کے سو سالہ دور حکومت  میں ایران سے وارد ہند ہوئے،ان کا شجرہء نسب نجیب الطرفین سادا ت سے ہوتا ہوا چوتھے امام حضرت اما م زین العابدین علیہ السّلام سے جا ملتا تھا اور وہ  ایران کے شاہی دربار سےمنسلک شاہانہ طرز حیات رکھنے والے  لوگ تھے   ان میں ادباء و فضلاء شعراءصاحبان علم وحکمت  تھے  اور جو دربار سے وابستہ نہیں تھے وہ ہیروں اور جواہرات کی تجارت کرنے والے ملک التّجار تھے چنانچہ ان کی لکھنؤ میں آمد پر شاہی دربار میں بھی ان کی خاص پذیرائ ہوئ اور یہ یہاں بھی شاہی دربار سے ہی وابستہ ہوئےان کی امارت کا یہ عالم تھا کہ جب میری والدہ شادی ہو کر حیدرآباد دکن آئیں اسوقت ان کا جہیز ریل کی دو بوگیاں ریزرو کر کے لایا گیا ،میری والدہ کے شادی کے جوڑے سونے کے تاروں اور ریشم کی آمیزش سے تیّار کئے گئے تھے جنہیں زربفت اور کمخواب  کہتے تھے ( ہجرت نے ہماری والدہ کواور ہم کو اس الغاروں سامان  سے فیضیاب ہونے کی مہلت نہیں دی اور سب کچھ بھرا گھر چھوڑ کر جان بچانے کو گھر سے نکل آ ئےامارت کے باوجود ہمارے خاندان میں علم و ادب کے شیدا ئیو ں میں  خواتین کا بھی علم سے  وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں جب ہند وستان میں عورت کی تعلیم ایک جرم سمجھی جاتی تھی یہ لوگ اپنے گھر کی بچّیوں کی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دیتے تھے  مجھے میری نانی جان نے بتایا تھا کہ سن انّیس سو تیس میں جب میری والدہ پانچ برس کی ہوئیں تب ان کو پڑھانے کے لئے ایک بزرگ استاد گھر پر رکھّے گئے اور میری والدہ نے اپنے استاد محترم سے فارسی عربی اردو اور انگلش کی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کا داخلہ بھی ایک مسلم اسکول میں اسی عمر میں کروادیا گیا ،، صبح آٹھ بجے ان کی ڈیوڑھی پر پردے لگا ہوا یکّہ آکر رکتا تھا اور اس طرح اسکول جاتے ہوئے میری والدہ نے غیر منقسم ہندوستان میں ہی مڈل کلاس پاس کرلی تھی  اور ہمارے گھرانے کی خواتین بھی علم وادب کی دلدادہ تھیں    ہجرت  کی درماندگی کے باوجود میں نے اپنے گھر کے آنگن میں ادبی محفلیں سجتی ہوئ دیکھیں 

میری والدہ کے  قبلہ محترم رئیس امروہوی صا حب  سے  گھریلو مراسم تھے ،جبکہ  محترم سجّاد ظہیر صاح کے گھر ا نے سے  بھی والدہ کے ہمراہ آنا جانا لگا رہتا تھامیری والدہ صاحبہ کے  یہ خا ندانی  مراسم تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ سے ہی چلے آرہے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری والدہ محترمہ کا تعلّق لکھنؤ کے سادات سے تھا جبکہ والد بھی یوپی کے سادات کے اہم خانوادے سادات نو گانواں میں عابدی سادات کےجیّد علمائے دین کے قبیلے  سے تعلعق رکھتے تھے ،میرے محترم دادا جان جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی دور حکومت میں اپنا آبائ شہر چھوڑ کر حیدرآباد دکن آئے اور انہون نے یہیں پر مستقل سکونت اختیار کی ،جسے ازاں بعد ہم بھی چھوڑ کر پاکستان آگئے 

میرابچپن

 حالانکہ میرا بچپن عام بچّوں کا بچپن نہیں تھا ،کیونکہ ہجرت کے مصائب نے شائد مجھ کو قبل از وقت ہی بہت کچھ  سوچنے پر مجبور کردیا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ گھر کے اندر کےادبی وتہذیبی ماحول کا اثر مجھ میں خوب اچھّی طرح سرائت کرنے لگا اور میں پرائمری جماعتوں کی تعلیم کے دوران ہی میں ناول بینی کی شوقین ہو گئ با لآخرزمانے کے ان نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ہمارے گھرانے کی علمی صحبتیں برقر ار ہی تھیں اور ان ادبی صحبتوں کارنگ بھی میری زات پر نمایاں ہو نے لگا تھا  اور  مجھے  ا دب سے دلچسپی ہو گئ  میں نے بچپن کے ہی دور میں  نامور ادباء میں کرشن چندر ،راجندر سنگھ  بیدی عصمت چغتائ ،قرّۃ العین حیدر ،عظیم بیگ چغتا ئ ،را م لعل ساحر لدھیانوی  اور اس وقت کے جو بھی مشہور ادیب اور شاعر تھے  سب کو بار بار  پڑھا اور پھر میرے اندر کی ادیبہ  جاگ اٹھی  اور میں نے  چھٹی کلاس میں ایک نظم اپنے وطن سے محبّت کے اوپرپڑھی یہ ہمارے اسکول کی جانب سے طالبات کا مشاعرہ تھا جو بیگم رعنا لیاقت علی خان کے  فلاحی ادارے  اپوا کے زیر انتظام  بیگم رعنا  لیاقت علی خان کے زیر    صدارت ہوا تھا  میں نے اس مشاعرے میں پاکستان کی آزادی پر نظم پڑھی تھی اور  مجھے مشاعرے کے اختتام پر ایک خوبصورت ڈائری بھی انعام میں ملی تھی 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر