جمعرات، 9 مارچ، 2023

اثنا ء عشری نجیب الطرفین سید''خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ

 

 

 آفتابِ طریقت اور ماہتابِ شریعت۔سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ’۔۔جو پاسبانِ حقیقت بھی تھے اور صاحبِ نسبت بھی۔۔۔جورہبرِ گمگشتگانِ راہ بھی تھے اور شبستانِ ہدایت بھی۔۔۔جو آلِ رسول بھی تھے اور بدرِ ولایت بھی۔ خواجہ اجمیری کی زندگی سادہ تھی،لباس پیوند دار تھا۔ خوراک سوکھی روٹی تھی،رہنے کیلئے ایک جھونپڑی تھی مگر بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہو کر آپ کی قدم بوسی کو اپنے لئے سب سے بڑی سعادت اور اعزاز سمجھتے تھے۔سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کیلئے آیا۔کبھی سلطان شمس الدین التمش نے آپ کے سامنے سر ارادت جھکایااور یہ سلسلہ صرف ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جاری رہا۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضہ انوار پر حاضرہو کر فتح کی دعا مانگتا ہے

 سلسلہ نسب -سلطان الہند ’’  اثنا ء عشری سادا ت میں نجیب الطرفین سید‘‘ ہیں نجیب الطّرفین کے معنی  والدہ کا بھی اہلِ سادات سے تعلّق ہونا اور والد کا بھی سیّد ہونا اس طرح آپ حسنی اور حسینی سیّد  ہیں ۔  کفر کے اندھیروں میں حق پرستی کی شمع جلانے کے واسطے بحکم پروردگار عالم آپ وارد ِ ہند ہوئے اور بستی سے کچھ فاصلے پر  ایک ویرانے میں جھیل اناساگر کے پہلو میں ایک پہاڑ ی پر گوشہ نشین ہو گئے ،یہ ہندوستان میں راجہ پرتھوی راج کا دور تھا اور اسی کی سلطنت کا ہندوستان  کی عظیم الشّان حکومت میں  چار دانگ عالم ڈنکا بج رہا تھا ،ایسے میں ناجانے  کس طرح ایک درویش کی کٹیا کا کیونکر  شہرِ میں شہرہ ہوا کہ پرتھوی راج کے محل  مین عوام الناّ س کی حاضری کم ہونےلگی راجہ نے اپنے خدّام سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ شہر سے باہر ایک درویش نے اپنا فقیرانہ آشیانہ جب سے بنایا ہے عوام کا ہجوم صبح ہوتے ہی اسی درویش کی کٹیا  کی جانب چلا جاتا ہے  بس یہیں سے راجہ پرتھوی راج کے زوال کا وقت شروع ہو گیا کیونکہ اس نے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے سپاہیوں کو بھیجا کہ فقیر سے کٹیا خالی کروا کر اسےاس کی سلطنت بدر کیا کر کے  جنگل میں بھیجا جائے جب سپاہی راجہ کا حکم لے کر آئے تو خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں تمھارے راجہ کے لئے خطرہ نہیں ہوں لیکن اگر مجھے یہاں سے ہٹایا گیا تو یہ تمھارے راجہ کے لئے اچھّا نہیں ہو گا ،سپاہیوں نے جب خواجہ جی کا پیغام راجہ کو پہنچایا لیک اس نے سپاہیوں سے کہا کہ فقیر کو ہر صورت ہٹانا ہے اس بار جب سپاہی خواجہ جی  رحمۃ اللہ علیہ کے پاس راجہ کا حکم نامہ لے کر آئےتب خواجہ جی نے ان سے کہااچھّا مجھے جھیل سے ایک کٹوراپانی لے لینے دو آپ پہاڑی سے اتر کر جھیل تک آئے اور جونہی پا نی کا کٹوارا بھرا جھیل کاپانی مکمّل خشک ہو گیا یہ منظر دیکھ کر سپاہی خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ گئے اور راجہ پھر سے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر کرنے کی ترکیبیں سوچنے لگا اور آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرچمنستان اسلام  کی آبیاری میں لگے رہے ، آپ اپنی  مخالفت  اور ناسازگار ہوائے زمانہ کی پرواہ کئے بغیر،بدسے بدتراورسخت سے سخت تر حالات میں بھی مشنِ تبلیغِ اسلام سے شمّہ بھر بھی پیچھے نہیں ہٹےاوربالآخر کامیابی  آپ ہی کی رکابِ قدم ہوئ۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندرکا سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی اسلام قبول کرلیااوریہ دونوں قبولِ اسلام کے ساتھ ہی خواجہ جی کے ساتھ اسلامی مشن میں ہاتھ بٹانے لگے اور پھرہندوستان کے کفرستان میں سینکڑوں سال سے بڑے بڑے تاجدار  شہنشاہوں، بادشاہوں و گداؤ ں کے دلوں پر بلا تفریق  مذ ہب و مسلک راج کرنے والا بے تاج  بادشاہ تاجدار ہند جنہوں نے اپنے کاملہ اخلاق سے ہندوستان کے کفرستان میں علم ِ دین کا کبھی نا بجھنے والا ایسا چراغ جلایا کہ آج تک کوئ اس کو گل کرنے کی ہمّت بھی نہیں پیدا کر سکا  سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ ، علم منطق اورعلم فلسفہ اور دیگر علوم ظاہری وباطنی کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علمِ حصولی کے حصول  کی خاطر  اپنی عمرِعزیز کے  تقریباًچونتیس برس صرف کیے،جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعدعلم معرفت وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی۔

چنانچہ  سرزمین   عجم میں پہنچ کرعلمِ معرفت وسلوک کی تحصیل کے لیےآپ نے اپنے علم ِ معرفت کی خاطر مرشدکامل کو تلاش کیا اور بالآخرآپ کونیشاپورکے قصبہ ’’ہاروَن‘‘میں مل گیا۔جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدربزرگ کی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے نہ صرف آپ کودولت بیعت سے نوازابلکہ آپکوخرقۂ خلافت کے ساتھ ساتھ آپ کواپناخاص مصلّٰی، عصااورپاپوش مبارک بھی د یا-بارگاہِ  خاتم المر سلین حضرت محمّد  صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم  میں حاضری

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے

 ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔ چنانچہ اس مقدس سفر میں اسلامی علوم و فنون کے عظیم مراکز مثلاً بُخارا،

 سمر قند، بلخ، بد خشاں وغیرہ کی سیرو سیاحت کی۔ بعد ازاں مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی

 رحمۃ اللہ علیہ نے حضر ت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں

 اپنے ہاتھ پھیلا کر یوں دُعا فر ما ئی

’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فر ما‘‘!

اسی وقت غیب سے آوازآئی’’معین الدین !ہمارا دوست ہے ، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزت و عظمت عطا کی ‘‘۔

یہاں سے فراغت کے بعد حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر مدینہ منورہ میں بار گاہِ  رسولِ

 دوسرا  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پہنچے اورآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم کی بار گاہِ مقدسہ میں اپنا ہدیہ درودو سلام پیش کیا الصلوٰ ۃ والسلام

 علیکم یا سید المرسلین و خاتم النبین۔روضۂ اقدس سے یوں جواب عنایت ہوا وعلیکم السلام یا قطب المشائخ حضرت خواجہ معین

 الدین چشتی علیہ الرحمۃ با ر گاہ ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سن کر بہت ہی

 خوش ہوئے ۔

چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ سیروسیاحت کرتے کرتے مختلف شہروں سے ہو تے ہوئے اور اولیاءِ کرام کی

 زیا رت و صحبت کا فیض حاصل کر تے ہوئے جب لا ہور تشریف لا ئے تو یہاں حضور دا تا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کے

 مزار شریف پر حاضری دی اور چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلیات سے فیضیاب ہو ئے تو رخصت ہو

 تے وقت یہ شعر بہ طورِ نذرانۂ عقیدت حضور داتا صاحب کی شان میں پیش کیا ۔

گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نورِ خدا

ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں را راہنما

حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ کو جو فیوض برکا ت اور انوار و تجلیات یہاں سے حاصل ہوئیں ، اس کا اظہار و اعلان اس

 شعر کی صورت میں کر دیا۔ اس شعر کو اتنی شہرت ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کو لوگوں نے

 ’’داتا گنج بخش‘‘کے نام سے مو سوم اور مشہور کر دیا۔

سیرت و کردار-حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمع ِ اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا

 اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کی

 تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی

 تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے

 تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال

 محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ

 عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔ سخاوت

 و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور

 بڑے متوا ضع تھے۔

آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ

 بڑے صاحب دل،وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین

 ، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین

 ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیاکریں۔

اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ

 اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس بندے کو اپنیرحمتِ خاص

 سے نواز دیتا ہے  یہاں تک کہ وہ صفات الٰہی کا خودمظہر بن جاتا ہے اور آپ حقیقت میں اس کا عملی نمونہ بن گئے تھے ‘۔تبلیغ و اشاعت دین-تاجدارِ ہند حضرت خواجہ معین الدین  حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم وعرفاں اورمعرفت وسلوک کے منازل طے کرچکے اوراپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے توپھراپنے وطن واپس تشریف لے گئے۔وطن میں قیام کئے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے تڑپ پیدا ہوئی۔چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفرکے لئے چل پڑے۔حرمین طیبین پہنچنے کے بعداپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی۔ حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں تک عبادت و ریاضت اورذکروفکرمیں مشغول رہے۔(آپ کی اجمیر آمد )آپ ایک دن اسی طرح عبادت اورذکرو فکر میں مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سعادت افروزآوازآئی:

’’اے معین الدین!توہمارے دین کامعین ومددگار ہے،ہم نے تمھیں ہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکر اپناقیام

 کروکیوں کہ وہاں کفرو شرک اورگمراہی وضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمھارے وہاں ٹھہرنے سے کفروشرک کا

 اندھیرادور ہوگااوراسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی‘‘۔ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمی

 کس جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ

 وسلم نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا ۔

اجمیرشریف!وسطیٔ ہندکاایک مشہورشہرہے۔جس طرح یہ شہرمرکزِ سلطنت بننے کیلئے موزوں تھا،اسی طرح یہ

 شہرتوحیدورسالت کے انوارو تجلیات اور علم وعرفاں کاروحانی مرکزومنبع بننے کیلئے بھی بے حد مناسب تھا۔حضرت ِوالانے ایک

 مناسب جگہ منتخب کرکے اس کواپنامسکن بنالیااور ذکروفکراوریادخداوندی میں مشغول ہوگئے۔لوگوں نے جب آپ کے سیرت

 وکردار،علم وفضل اورذکروفکر کے اندازو اطور کودیکھاتووہ خودبہ خودآپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی

 ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی میں حاضرہوجاتاوہ اسی وقت آپ کا مریدو معتقد اور گرویدہ ہو جاتا۔تھوڑے ہی عرصہ میں

 ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثراورآپ کے عظیم اخلاق وکردارکے باعث اسلام قبول گیا۔چنانچہ ایک

 مشہورروایت کے مطابق تقریباًنوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر

 گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔آپ نے دین حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار

 طریقے سے سر انجام دیا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل

 روشن کر نے کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیاتا کہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و

 تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام

 قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ

 کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا۔ یہ تھا ایمان ویقین اور علم و عمل کا وہ کرشمہ اور کرامت جو ایک مر د ِ مو من نے سر

 زمینِ ہند پر دکھا ئی اور جس کی بدولت اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کر تے تھے  بت خانوں میں اپنی اپنی پسند کے بتوں کی

 پوجا ہوتی تھی وہاں جائے نمازوں کی صفیں بچھائ جانے لگیں ، اور معاشرے میں  اللہ اکبر‘‘کی دلفریب و دلآویز صدائیں  گونجنے

 لگیں۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جدو جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و

 شرک اور گمراہی و ضلالت کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کے لئے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور

 استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا اور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ

 ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن کے دل درست عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق  سے سیراب ہو  گئے اور اصلاحِ

 معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استحکام نصیب ہوا۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن

 کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغ اسلام کے

 طفیل ہندوستان میں دین ِ اسلام کی حقانیت و صداقت کا بو ل با لا ہوا۔سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ  نے عوام

 النّاس کے قلوب کو اپنی اخلا ق اور حلم سے سنوارا   اور شہر اجمیر کو  اجمیر  شریف کا لقب دے کر  جنت ِمعرفت بنا دیا۔ آپ کے فیضِ

 با طنی سے اسلام کا آفتاب ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔تقریباً 45برس

 تک آپ اجمیر شریف میں حیات ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد

 وہدایت کی شمع روشن کر نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کا ر نا مہ ہے  آپ فرماتے تھےجس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی

 ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے

 کے اعمال نامہ میں لکھاجائے گا‘‘)

چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت وتبلیغ، سیرت و کردار کی برکت سے دنیامیں جس قدر مسلمان ہو ئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی، اُن سب کا اجر و ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا،کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا۔اجمیر شریف آمداورپرتھوی راج کی مخالفت-سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ لاہورسے دہلی تشریف لے گئے،جہاں اس دورمیں ہر طرف کفرو شرک اورگمراہی کادوردورہ تھا۔حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ نے یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایااورپھراپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کو مخلوق کی ہدایت اورراہنمائی کے لئے متعین فرماکرخودحضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اجمیرجانے کاقصد فرمایا،آپ کی آمدسے نہ صرف 

اجمیربلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی ۔  

راجہ پرتھوی راج کاستانا اور اس کا بد انجام

اجمیرکاراجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے خواجہ جی کو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا  تھا - اللہ

 تعالٰی  کے فضل و کرم اور عنائت سے اس کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی تھی اکبر بادشاہ نے اپنے یہاں اولادِ نرینہ کی دعاء حضر خواجہ معین

 الدّین سے کروائ تھی اور ساتھ ہی منّت مانی تھی کہ اگر بیٹا ہو گیا تو وہ م آستانہ پر ننگے پاؤں حاضری دے گا اور چار من  چاول کی

 دیگ چڑھائے گا جب اس کی منّت پوری ہوئ تب وہ پاپیادہ دیگ لے حاضر آستانہ ہوا اور آستانہ ء مبارک پر اس دیگ میں چاول

 پکائے جانے لگے اللہ کی مخلوق ان چاولوں سے فیضیاب ہونے لگی راجہ پرتھوی راج نے اپنے سپاہی بھیج کر خواجہ جی کو پیغام بھیجا کہ

 اس طرح رعایا کی عادتیں خراب ہوتی ہیں اور آستانے پر چاول پکانے اور کھلانے کا ،

سلسلہ موقوف کیا جائے

خواجہ جی نے راجہ کو جواب میں کہلوایا کہ جس روز میرا اللہ مجھ کو چاول دینا بند کر دے گا میں اس کی مخلوق کو کھلانا بند کر دوں گا

پھر ایک دن خواجہ جی نے اپنے مریدین سے با اطمینان کہا

’’میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکراسلام کے سپردکردیا‘‘۔

چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوااورتیسرے ہی روزفاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کوفتح

 کرنے کی غرض سے دہلی پرزبردست لشکرکشی کی۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ

 کارزارگرم کردیا۔کفرواسلام اورحق وباطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اوردست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھی

 کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اوراس کے لشکرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کوزندہ گرفتارکرلیا اوربعدازاں وہ قتل

 ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیزشکست اور سلطان شہاب الدّین غوری کے لشکراسلام

 کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے۔یوں اجمیر شریف میں سب سے

 پہلے پرچم  اسلام سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  کے دستِ حق پرست سے بلند ہو ا۔

سلطان شہاب الدین غوری کاشرفِ بیعت

فاتح ہندسلطان شہاب الدین غوری بہ صدعجزوانکسارسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی

 خدمت عالیہ میں حاضرہوا اورآپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔چنانچہ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعدجب سلطان شہاب

 الدین غوری اجمیرشریف میں داخل ہوئے تو شام ہوچکی تھی۔ مغرب کاوقت تھا،اذانِ مغرب سنی تودریافت کرنے پرمعلوم

 ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پذیرہیں۔ چنانچہ سلطان غوری فوراًمسجد کی طرف چل پڑے۔جماعت کھڑی

 ہوچکی تھی اور سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مصلیٔ امامت پرفائزہوکرامامت فرما رہے ہیں ۔

 سلطان غوری بھی جماعت میں شامل ہوگئے۔

جب نمازختم ہوئی اوراُن کی نظر خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ پرپڑی تویہ دیکھ کرآپ کوبڑی حیرت ہوئی کہ آپ کے سامنے وہی

 بزرگ جلوہ فرماہیں، جنہوں نے آپ کوخواب کے اندر’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری فوراًآگے

 بڑھے اورخواجہ غریب نوازکے قدموںمیں گرگئے اور آپ سے درخواست کی کہ حضور!مجھے بھی اپنے مریدوں اورغلاموں

 میں شامل فرمالیں ۔چنانچہ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس خواہش کو شرف ِقبولیت بخش کرآپ کودولت

 بیعت سے نوازکر اپنامرید بنالیا۔

یہ وہی سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی سے ہمارے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان

 کا سپرپاور اسلامی ایٹمی میزائل’’غوری میزائل‘‘موسوم ہے،جو محسنِ پاکستان  فرزندپاکستان   وقومی ہیروڈاکٹرعبدلقدیر خان اور

 آپ کے دیگرسائنس داں ساتھیوں نے تخلیق کیاہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان سلطان شہاب الدین غوری خاندان

 سے تعلق رکھتے ہیں۔

خواجہ غریب نوازکافیض عام  تو فتح یاب ہوتا ہے اور کبھی اکبر بادشاہ آپ کی درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامراد لوٹتا ہے۔ کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ کا حلقہ بگوش غلام ہو جاتا ہے۔

اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکمران بلا امتیاز عقیدہ و مسلک، اس آستانہ عالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے

 ہیں اور آپ کے  مبارک قدموں کے طفیل  سرزمینِ ہندوستان رشک فردوس بن  گئ اور  آپ کی دہلیز کی خاک ہزاروں قلوب کی

 شفائے  دوا بن گئ  ۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے۔ آپ کا پیغامِ محبت فضائے عالم میں گونج رہا ہے۔اللہ کی مخلوق

 سے بے غرض  الفت و محبّت  دھرتی کے سینے پر امر ہو گئ اوراہلِ طریقت آپ کے حسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے

 آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک اور دمک رہا ہے۔ آپ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش

 عالم ہے۔آپ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں۔نامورخلفاء

 کرامحضرت خواجہ خواجگان، قطب الاقطاب، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ سے حسب ِ ذیل جلیل القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی:

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت علاءو الدین علی بن احمد صابر کُلیری، حضرت خواجہ نظام

 الدین اولیاء محبوب ِالٰہی، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ شامل ہیں۔۔۔یہ برگزیدہ اور عظیم المرتبت بزرگ اپنے وقت

 کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاء اللہ ہوئے۔ ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی جلائی ہوئی شمعِ توحید سے نہ صرف خود

 روشنی حاصل کی بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس شمعِ توحید کی ضیاء پاشیوں سے فیض یاب کیا، جس کی بدولت آج چہار عالم روشن و

 تاباں ہیں۔۔۔ چناں چہ خانقاہِ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف، گولڑہ شریف، سیال شریف،مکھڈشریف، چشتیاں شریف وغیرہ کی

 خانقاہوں کے چراغ اسی شمع کی بدولت روشن ہیں اور دوسروں کو بھی نور ایمان و ایقان اور نورِ علم و معرفت سے روشن کر رہے ہیں۔

وصال مبارک

تاجدارعلم ومعرفت، آفتابِ رشدوہدایت، قطب المشائخ، سلطان الہند،خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ایک طویل مدت تک مشارق ومغارب میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کرتے رہے۔ رشدوہدایت کی شمع جلاتے رہے۔ علم ومعرفت کوچہارسوپھیلاتے رہے۔ لاکھوں افراد کومشرف بہ اسلام کیا۔ لاتعدادلوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔ ہزاروں کو رشدوہدایت کا پیکر بنایا۔ الغرض یہ کہ آپ کی ساری زندگی امربالمعروف ونہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری۔بالآخریہ عظیم پیکرعلم وعرفاں، حامل سنت وقرآں، محبوبِ یزداں،محب سروروکون ومکاں،شریعت وطریقت کے نیرتاباں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 6رجب المرجب633ھ/1236ء کو باغ عدن کی جانب کوچ کر گئےروایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا،آپ کی پیشانی مبارکہ پرنورانی خط میں تحریرتھااللہ کا دوست، اللہ کی محبت میں وصال کرگیاخواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزارپرانوار اجمیر شریف ہندوستان  میں مرجع خلائق ہے ۔آپ کے مزارِ مبارک  پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لا کھوں افراد بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں ۔ اجمیر شریف میں آپ کی درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں۔

آپ کا عرس مبارک ہر سال نہ صرف اجمیرمیں بلکہ پورے پاک وہند میں پورے عقیدت واحترام اورتزک واحتشام کے ساتھ

 منایاجاتا  ہے،تاجدارِ معرفت اوررشدو ہدایت کے پیکر عارف باللہ  قطب الاقطاب اس عظیم سورج کو غروب ہوئے کئی سوسال

 گزرچکے ہیں مگراس کی گرمی وحرارت سے آج بھی طالبانِ علم و معرفت اسی طرح فیض یاب ہو رہے ہیں، جس طرح آپ کی

 حیاتِ مبارکہ میں ہوتے تھے

آ پ کے مزار پر فارسی زبان میں جو شعر تحریر ہے اس کے معنی ہیں میرے اجداد کربلا میں پانی کے محتا ج  نہیں تھے لیکن انہوں

 نے دینِ حق بقاء کی خاطرپیاس کی شدّت میں شہادت کو ترجیح دی

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے


بدھ، 8 مارچ، 2023

"خواتین کا عالمی دن"میرا جسم میری مرضی

 

 

"خواتین کا عالمی دن" خواتین اسلام کی نظر میں

8 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے. غور کریں تو بہت سے سوالات سر اٹھاتے

 ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ آیا اس دن کو کیوں منایا جاتا ہے؟ اس دن کو منانے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ اور اس دن کو منانے کے 

پیچھے کون سے حقائق پوشیدہ ہیں جن کی بنا پر اس دن کو خواتین کے دن سے منسوب کر دیا گیا ہے؟ اگر اس دن کے حوالے سے 

تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 8 مارچ 1907ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں 1

0 گھنٹے روزانہ کام کرنے والی خواتین نے اوقات کار کم کرنے کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔ ان خواتین کا مطالبہ تھا کہ انھیں مردوں

 کے برابر حقوق دیئے جائیں۔ پولیس نے ان خواتین پر تشدد کیا۔ مظاہرہ کرنے والی خواتین کے خلاف گھڑسوار دستوں کو استعمال 

کیا گیا۔ نیویارک پولیس نے مظاہرہ کرنے والی خواتین کو گرفتار کر لیا۔


اس واقعے کے بعد یورپی ممالک میں ہر سال عالمی کانفرنس برائے خواتین کا انعقاد ہونے لگا۔ سب سے پہلے 1909ء میں

 سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظورکی۔ 1913ء تک ہر سال فروری کے آخری اتوارکو عور

توں کا دن منایا جاتا تھا۔ پھر 1913ء میں پہلی دفعہ روس میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین 

نے سرکاری طور پر 8 مارچ کو خواتین کا قومی دن قرار دیا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ 

ریاست کی ذمے داری ہے مگر خواتین دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان کے بیشتر خاندانوں میں خواتین کی حیثیت ثانوی ہ

ے۔ اس روایت پر ریاستی اداروں اور غیر ریاستی اداروں میں یکساں طور پر عمل ہوتا ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو 

ان کے حقوق کا تحفظ تقریباً چودہ سو سال پہلے کیا.

اسلام نے عورت کو مقام و مرتبہ عطا فرمایا. ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت رکھ دی. بیٹی ہے تو اس کا اپنا مقام اور بیوی ہے تو

 اس کا الگ مقام رکھا. بہن ہے تو اس کو الگ مقام عطا کیا. جس دور میں عورت کو نفرت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بیٹی کی پیدائش

 پر افسوس کا اظہار کیا جاتا تھا بلکہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ایسے دور میں اسلام کی آفاقی تعلیمات عورت کے عزت و مقام کا پرچار کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں. بلکہ اس کے ساتھ عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں. اسلام نے عمل اور اجر میں مرد و عورت کو مساوی کیا ہے. چنانچہ قرآن پاک میں واضح کردیا گیا کہ'مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کو 

اپنی کمائی کا حصہ ہے اور (دونوں ) اللہ سے اس کا فضل مانگو' (سورۃ النساء 32 )

عورت کے حقوق کے حوالے سے متعدد آیات اور احادیث ملتی ہیں. جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ 'عورتوں

 کےمعاملے میں ﷲ سے ڈرو' (الحدیث)

اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ہر حقوق عطا کیا. اسلام نے عورت کو ذلت و پستی سے نکال کر شرف انسانیت بخشا

. لیکن ہماری آج کی مسلم خواتین نہ جانے کس روش پر چل نکلی ہیں.! اسلام نے تمام حقوق عطا کیے ہیں یہاں تک کہ جائیداد میں 

بھی حصہ رکھ دیا. مگر آج کی خواتین پھر اپنا حق مانگنے کے لیے مغرب کے دکھائے گئے راستوں پر چل رہی ہیں. اور یہ حق وہی خ

واتین مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتی ہیں جو پہلے سے خود مختار ہیں. جن کو انصاف یا حق چاہیے وہ تو آج بھی سفید پوش بنی گھر 

والوں کی عزت کی خاطر ہر ظلم سہہ جاتی ہے اور کوئی اولاد کی خاطر خاموش ہے.آج کی عورت کو اپنے 'عورت ' ہونے کا مفہوم

 سمجھنے کی ضرورت ہے. عورت کا مطلب پردہ ہے. مگر عورت وہ آزادی چاہ رہی ہے جو ہمارے اسلا م میں نہیں ہے

. اسلام نے

 عورت کو تمام تر حقوق عطا کیے ہیں. اس کو ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت دی ہے.عورتیں تمام

 شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں اور کرتی آ رہی ہیں. اگر اسلام میں دیکھا جائے تو غزوات میں بھی 

خواتین شامل تھیں. مگر ہماری آج کی عورت مرد کی برابری چاہتی ہے جب کہ قرآن مجید میں ﷲپاک نے واضح طور پر فرمایا ہے 

کہ ' اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور ﷲتعالی غالب اور حکمت والا ہے.' (سورہ البقرہ آیت 228)اگر دیکھا جائے تو ہما

ری آج کی عورت تربیت چھوڑ کر کفالت کے پیچھے بھاگ رہی ہے.کفالت سے صرف گھر بنتا ہے. جب کہ تربیت عورت کو امن 

کی جگہ پر ٹھہرا کر سنوارتی، سجاتی اور قائم رکھتی ہے. ہماری آج کی عورت مرد کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے کہ اگر مرد نے چار قدم اٹھائ

ے ہیں تو عورت کو پانچ اٹھانے پڑتے ہیں. لیکن عورتیں مقابلے کی زد میں آ کر چار کے مقابلے میں چار اٹھانے کی کوشش میں اپ

اپنا حسن کھو بیٹھے گی. احساس، محبت، شائستگی، حیا، ممتا، نزاکت، یہی تو زن کا حسن ہے. مرد و زن سائیکل کے دو پہیوں کی طرح

 ہوتے ہیں. آگے پیچھے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے. اگر پچھلا پہیہ آگے والے سے مقابلہ شروع کر دے تو سائیکل تو ٹوٹ جائے گی 

نا. محافظ ہی آگے چلتے ہیں، محبوب نہیں. عورت محبوب اور مرد اس کا محافظ ہے. لیکن آج کی خواتین آزادی کے نام پر بے بہود 

قسم کے پوسٹرز بنا کر اور 'میرا جسم میری مرضی' جیسے نعرے لگا کر مرد کی غیرت کو للکار رہی ہیں.آج کی عورت ہر مرد کو ہرانا چ

اہتی ہے جب کہ ﷲ پاک نے تمام جانداروں کو جوڑوں میں پیداکیا. انسان کے علاوہ کوئی جاندار اپنے ساتھی سے مقابلہ نہیں کرتا

 ہے. ہمارے ہاں مرد و زن نے آپس میں ہی مقابلہ شروع کر رکھا ہے. ہر کوئی انا کا مسئلہ بنا کر چلنا چاہتا ہے. مرد اور عورت مل کر

 معاشرہ بناتے ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہذا دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق دینے پڑیں گے۔-

خواتین کا عالمی دن ایک مزدور تحریک کے طور پر شروع ہوا تھا اور اب یہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ ایک سالانہ دن

 ہے۔اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارا زتکن نامی خاتون کا تھا جو کہ ایک کومیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھ

یں۔اس دن کا آغاز 1908 میں نیو یارک شہر سے ہوا جب 15000 خواتین نے کم گھنٹے کام، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق 

کے لیے مارچ کیا۔ اس سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یومِ نسواں منایا۔

اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارا زتکن نامی خاتون کا تھا جو کہ ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں۔ انھوں 

نے 1910 میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا۔ وہاں 17 ممالک سے 100

 خواتین موجود تپیں جنھوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی- ہ پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911 میں منایا گیا۔ اس کے سو سال 2011 میں منائے گئے چنانچہ اس سال ہم 111واں یومِ خواتین منائیں گے۔سنہ 1975 میں اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کر دیا۔ سنہ 1996 میں پہلی مرتبہ اس کو ایک تھیم دیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے ‘ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘ کے عنوان سے منایا۔

جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی 

کلارا نے خواتین کے عالمی دن کے لیے کوئی خاص تاریخ منتخب نہیں تھی اور یہ 1917 تک متعین بھی نہیں ہوئی تھی جب پہلی

 عالمی جنگ کے دوران روسی خواتین نے ‘روٹی اور امن‘ کے مطالبات کے ساتھ ہڑتال کر دی اور چار دن کے بعد روسی سربراہ کو 

حکومت چھوڑنی پڑی اور خواتین کو ووٹ کا عبوری حق مل گیا۔جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی وہ جولیئن 

کیلنڈر میں 23 فروری تھی جو موجودہ کیلنڈر میں 8 مارچ ہے اور اسی لیے یہ آج کی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔

3۔ لوگ جامنی رنگ کیوں پہنتے ہیں؟

جامنی رنگ انصاف اور وقار کی علامت ہے۔

عالمی یومِ خواتین کے رنگوں میں جامنی، ہرا، اور سفید شامل ہیں۔

۔ ہرا رنگ امید ظاہر کرتا ہے۔ سفید پاکیزگی کے لیے رکھا گیا ہے تاہم یہ قدرے متنازع ہے۔ یہ رنگ برطانیہ میں 1908 میں

 ویمنز سوشل این پولیٹیکل یونین سے نکلے ہیں۔

۔ خواتین کا عالمی دن کیسے منایا جاتا ہے؟اٹلی میں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایات کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی

 کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد شروع ہوا۔خواتین کا عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل

 کا دن ہے، بشمول روس کے جہاں 8 مارچ کے آس پاس تین چار دنوں میں پھولوں کی فروخت دگنی ہو جاتی ہے۔چین میں

 حکومت کی جانب سے خواتین کو آدھے دن کی چھٹی دی جاتی ہے مگر بہت سی کمپنیاں یہ چھٹی اپنے ملازموں کو نہیں دیتیں۔اٹلی م

یں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایات کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں 

دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوا۔

امریکہ میں مارچ کا مہینہ تاریخِ نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صدارتی اعلان بھی کیا جاتا ہے جس

 میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز دیا جاتا ہے۔ اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے تقریبات آن لائن کی جانی ہیں۔

کملا ہیرس امریکہ کی تین سو سالہ تاریخ میں نائب صدر بننے والی پہلی خاتون ہیں

اقوام متحدہ نے 2022 کے لیے اس دن کا عنوان رکھا ہے ‘ایک پائیدار کل کے لیے صنفی مساوات‘۔ اس سال تقریبات میں یہ دیکھا جائے گا کہ خواتین ماحولیاتی تبدیلی سے کیسے نمٹ رہی ہیں۔مگر دنیا بھر میں اس کے علاوہ عنوانات بھی رکھے گئے ہیں۔ #BreakTheBias لوگوں کو ایسی دنیا تصور کرنے کا کہہ رہا ہے جہاں امتیازی سلوک، دقیانوسی سوچ اور تعصب نہ ہو۔۔ ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟

گذشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہم کچھ پیچھے چلے گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار 

سنبھالنے سے لاکھوں افغان خواتین کی زندگی بدل گئی ہے۔ لڑکیوں کو سکول جانے سے روکا گیا ہے، خواتین کے امور کی وزارت

 ختم کر دی گئی اور بہت سی خواتین کی ملازمتیں ختم ہوئیں۔برطانیہ میں پولیس اہلکار سارہ ایورارڈ کے قتل کے بعد خواتین کے تحفظ

 پر بحث شروع ہوئی۔ امریکہ میں اسقاطِ حمل کے حق پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔کورونا وائرس کی عالمی وبا نے بھی خواتین کے حقوق پر منفی اثر ڈالا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی 2021 کی صنفی رپورٹ کے مطابق صنفی امتاز ختم کرنے کے لیے درکار تحمینے کو 99.5 سال سے بڑھا کر 135.6 سال کر دیا گیا ہے۔

سنہ 2021 میں اقوام متحدہ کی 13 ممالک میں ایک تحقیق میں پتا چلا کہ ہے تقریباً ہر دو میں سے ایک (45 فیصد) خواتین نے  

 تشدد سہا یا پھر کسی جاننے والی خاتون کے بارے میں تشدد کی کہانیاں سنیں۔سنہ 2021 میں کورونا وائرس کی وبا کے باوجود

 عالمی دن کی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔تیونس میں پہلی مرتبہ خاتون صدر کو چنا گیا جبکہ ایسٹونیا، سوئیڈن، ساموئا، اور تیونس میں پہلی

 مرتبہ خواتین وزیرِ اعظم کے عہدوں پر پہنچیں

اور اس کے علاوہ می ٹو موومنٹ کو کون بھول سکتا ہے جو کہ 2017 میں ہالی وڈ میں شروع ہوئی تھی مگر اب دنیا بھر میں پھیل چکی 

اس مضمون کی تیّاری میں انٹر نیٹ سے مدد لی ہے!

ممّا ممّم دے دو

 

یوں تو حوادث زمانہ اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن بہر حال کبھی 'کبھی کچھ ایسے حادثے بھی رونما ہو جاتے ہیں جن کے

 رونما ہونے سے پہلے بر وقت اچھے فیصلے کر لئے جائیں تو ان سے بچا جا سکتا ہے ایسے کچھ واقعات جو میری نظروں کے سامنے پیش

 آئے اور پھر زندگی ان کا ازالہ نا کر سکی --پہلی سچّی کہانی-شادی کا گھر تھا ،رات ہوئ توڈھول ڈھمکّے سے فراغت کے بعد منچلے تاش

 کھیلنے بیٹھ گئے ایک لڑکی کے گھر پہلا پھول کھلا تھا جو صرف ایک مہینے کا ہوا تھا بچّے کو برابر کے کمرے میں چار پائ پر سلا کر ماں بھی

 کھیل میں شامل ہونے دوسر ے کمرے میں آگئ اور پھر سب ہی تاش کے پتّو ں میں ایسے گم ہوئے کہ جب کھیل ختم ہوا تب

 خیال  آیا کہ بچّہ دیکھ لیا جائے ،اب تو بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ کسی مہربان نے گھر کے سا رے لحاف گدّ ے اس پلنگ پر لا کر بغیر

 دیکھے ڈ ھیر کر دئے تھے جو جلدی جلد ی ہٹائے گئے تب تک پھول کو مرجھا ئے ہوئے کئ گھنٹے بیت چکے تھے ،کیا تمام عمر اس

 نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے

دوسری  کہانی --ایک لڑکی کے یہاں پہلا بچّہ چند دن کا ہوا تھاکہ ایک دیرینہ سہیلی ملنے آگئ ،بچّے کی ما ن کو ہاسپٹل جانا تھا اس نے

 اپنی سہیلی سے کہا کہ اسٹور میں جھولا رکھا ہے اگر بچّہ روئے تو جھولا نکال کر اس میں لٹا دینا یہ کہ کر بچّے کے ما ں باپ بے فکری

 سے چلے گئے اور جب بچّہ رویا تو سہیلی نے اسٹور سے جھولا نکال کر اس میں بچّے کو  لٹایا لیکن جیسے ہی بچّے کو لٹایا بچّہ ایک دلخراش

 چیخ مار کر رویا پھر نیلا ہو کر ساکت ہو گیا ،جھولے میں بڑا سا سیا ہ رنگ کا بچھّو چھپا ہوا تھا بچّے کے ماں باپ جب گھر آئے تو سہیلی

 قدموں میں گر پڑی اور کہنے لگی میں نے کچھ نہیں کیا ،جو یہ ایسا ہو گیا جب جھولے سے بچّے کو نکالا گیا تو بچھّو اس کی ننھی سی پیٹھ

 سے چپکا ہوا تھا یہ کیس سراسر بچّے کے ماں باپ کی غفلت کی نشاندہی کرتا ہے کہ بچّے کے جھولے کی دیکھ بھال انہی کا فرض بنتا تھا ،

تیسری  کہانی --اس بات کو کافی عر صہ گزرا لیکن میری نظروں میں آج تک اس پھول کا چہرہ محو نہیں ہو سکا بچّی میرے محلّے میں

 اپنے ماں باپ کے ساتھ آئ ،میری اپنی تین برس کی چھوٹی بیٹی جتنی اور اتنی پیاری بھی تھی دونو ں میں خوب دوستی ہوگئ ،بچّی صبح

 سے لے دوپہر تک بھی رہتی تو گھر سے کوئ پوچھنے نہیں آتا تھا کہ بچّی کس حال میں ہے بہر حال وہ دوپہر کو کچھ دیر کے لئے گھر

 چلی جاتی اور پھر واپس آ جاتی ،مجھے بھی اپنی بیٹی کی جانب سے سکون رہتا کہ وہ بھی اس کے آ جانے سےہہلی رہتی تھی اور میں

 سکون سے اپنے کام کاج نمٹا لیتی تھی  ،کئ مہینے یوں ہی گزر گئے


،پھر ایک دن وہ سہ پہر میں میرے گھر نہیں آئ ،مغرب سے کچھ

 پہلے اس کے بڑے بھائ نے آکر اس کے لئے پوچھا تو میں نے بتا یا کہ آج تو سہ پہر میں آئ ہی نہیں ہے،پھر محلّے میں اس کو تلاش

 کیا گیا تو بھی نہیں ملی کسی نے کہا ٹینک تو جھانک لو ،ٹینک دیکھا گیا تو بچّی کی لاش پانی پر تیر رہی تھی،پوچھنے پر معلوم ہواکہ سہ پہر

 میں بچّی کی امّاں کے پاس ان کے ا یک چہیتے دوست آئے ہوئے تھے بچّی امّاں کو بات نہیں کرنے دے رہی تھی تو امّاں صاحبہ نے

 بچّی کے ہاتھ میں کچھ پیسے دے کر کہا جاؤ دکان سے سپاری لے کر کھا لو بچّی نے دکان سے سپاری خریدی اور گھر کے اندر تک آگئ

 لیکن ٹوٹی لکڑی کے ڈھکنے والے ٹینک کے اندر گر کر مر گئ ،داکٹر نے بچّی کی ماں کی سونے کی چوڑیوں سے بھری کلائ دیکھ کر

 طنزیہ کہا تھا کہ محترمہ اگر آپ اپنی ایک چوڑی بھی فروخت کرتیں تو ٹینک کا لوہے کا ڈھکّن خریدا جاسکتا تھا .

ما ں کی بے حسی کی کہانی

ممّا ممّم دے دو ....وہ معصوم جان ما ں سے کہتی رہی ،ماں نے کہا جاؤ بھائ سے لے لو

اس معصو م نے ابھی چند الفاظ ہی بولنے سیکھے تھےگرمیوں کے دنوں کی سخت جلتی دوپہر تھی ما ں باورچی خانے میں کھانا پکا رہی

 تھی ایسے میں ننھی بچّی اپنے پانی پینے کی چھوٹی سی کٹوری لے کر ماں کے پاس آئ اور اس نے ماں سے کہا ممّا ممّم دے دو-ماں نے

 جواب میں کہا جا ؤ بھائ سے لے لو میں کام کر رہی  ہوں بچّی چلی گئ اس نے جا کر بھائ سے پانی کی فرمائش کی بھائ میٹرک کے

 امتحان کی تیاری کر رہا تھا اس نے کہا جا کر ممّا سے کہو ، بچّی بھائ کے پاس سے بھی چلی گئ اب ماں سمجھ رہی تھی بچّی بیٹے کے پاس

 ہئے اور بھائ سمجھا کہ بہن ماں کے پاس ہئے جب ماں کام سے فارغ ہوئ تواس نے بیٹے سے پوچھا کہ بچّی کہاں ہے بیٹے نے کہا میں

 نے تو اس کو آپ کے پاس بھیج دیا تھا اب بچّی جو گھر میں ڈھو نڈی گئ تو گھر کے آنگن میں دھوپ میں رکھّئ ہوئ جلتے پانی کی بالٹی

 میں بچّی کی لاش اپنے پانی پینے کی کٹوری سمیت پڑی ہوئ تھی

 مضمون کے آخر میں معذرت خواہ ہوں اگر کسی ماں کو اس تحریر میں اپنا چہرہ نظر آئے


منگل، 7 مارچ، 2023

جب خون ناحق نے کنوئیں سے پکارا


جب خون ناحق نے کنوئیں سے پکارا

خون ناحق نے کنوئیں سے پکاراجب بلو چستان کے ایک ہی کنوئیں سے دو جوان لڑکوں کی اور ایک تیزاب سے جھلسے چہرے کے ساتھ لڑکی کی لاش برامد ہوئ تب حسب معمول کوئ غلغلہ نہیں اٹھا لیکن جیسے ہی معلوم ہوا کہ یہ مظلوم لاشیں ایک سردار کے انتقام کی بھینٹ چڑھی ہیں تو پورے ملک میں سرداری ظالمانہ نظام پر عوام برانگیختہ ہو گئے اور بالآخر مجرم سردار کھیتران کٹہرے میں کھڑا کیا گیا  آئے دیکھتے ہیں سرداروں کی عملداری میں عوام کے ساتھ کیا کیا مظالم کی داستانیں رقم ہوتی ہیں

پاکستان میں سرداروں کی کی نجی جیلیں

سندھ کی نجی جیلیں: ’20 کلو کی زنجیر ہاتھ اور پاؤں میں ڈال کر کام کرواتے تھے‘

28 فروری 2023

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے بارکھان میں ایک سردار کے مبینہ نجی جیل کی خبروں کے بعد نجی جیلوں کی موجودگی پر ایک بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ملک میں اس وقت بھی ایسی جیلیں ہیں، ماضی میں ایسی جیلوں سے جو لوگ برآمد ہوئے وہاں کہاں گئے کس حال ہیں-سندھ کی نجی جیلیں: ’لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ کر کہتا یہ زمین کا کام نہیں اور کام کرے گی‘مجھے دو تین بار اغوا کیا گیا، مارا پیٹا گیا، رحیم یار خان اور جامشورو میں بھی اغوا ہوئی، زمینداروں نے بہت مارا لیکن میں نے کہہ دیا کسانوں سے دستبردار نہیں ہوں گی، انھیں آزاد ضرور کروائیں گے۔‘

یہ ہیں لالی کولھی جو پہلے خود نجی جیل میں قید تھیں اور اب دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔بلوچستان کے علاقے بارکھان میں مبینہ طور پر نجی جیل کی موجودگی اور ایک خاندان کی بازیابی نے پاکستان میں زمینداروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی نجی جیلوں کی موجودگی کی بحث کو زندہ کر دیا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ نجی جیلوں کا کیا یہ پہلا انکشاف ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔دو دہائی قبل صوبہ سندھ میں سینکڑوں کسان نجی جیلوں سے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں سمیت رہا ہوئے تھے، جن میں لالی کولھی بھی شامل تھیں۔زمیندار نے بہن سے ناجائز تعلق بنا لیالالی کولھی اور ان کا خاندان عمرکوٹ کے ایک زمیندار کے پاس بائیس سال جبری مشقت کرتا رہا۔ بقول ان کے زمیندار کے بیٹے نے ان کی بہن سے ناجائز تعلق قائم کر لیا اور بھائیوں اور والد پر سختیاں بڑھا دیں اور کہا کہ یہ لڑکی اس کے حوالے کرو۔’وہ دن رات کام لیتا، گھر آنے نہیں دیتا تھا کسی کی شادی بیاہ اور فوتگی تک میں نہیں جاتے تھے۔ چار پانچ منشی ہوتے تھے، خواتین کا منشی الگ اور مردوں کا الگ، جو جانے نہیں دیتے تھے۔‘

منو بھیل سانگھڑ کے زمیندار کے پاس کسان تھے جہاں سے بعد میں وہ بھاگ نکلے۔وہ بتاتے ہیں کہ اگر کسی کسان کی لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ لیتا اور کہتا کہ یہ زمین کا کام نہیں کرے گی بلکہ اور کام کرے گی۔عزت محفوظ نہیں تھی، لڑکی کی نہ گھر والوں اور نہ ہی ماں کی۔ کوئی نہیں تھا جو انصاف کرے اس صورتحال میں کسان بھاگے گا ہی نہ۔‘

پیروں میں آدھے من کی کڑیاں

لالی کولھی کے مطابق یہ ’سنہ 1996 کی بات ہے جب انھیں پورے خاندان کے لیے ایک من آٹا اور سولہ روپے مزدوری دی جاتی تھی۔پیروں میں آدھے من کی زنجیر باندھی جاتی تھی، بالآخر ایک کسان بھاگ نکلا اور اس نے عدالتوں سے رجوع کیا اور لالی کولھی کے خاندان سمیت 60 کسان رہا ہوئے۔‘منو بھیل کے مطابق ’ان سے لوہے کی بیس کلو وزنی زنجیر لگا کر کام کروایا جاتا، صبح فجر سے لے کر رات کو دس گیارہ بجے تک کام لیا جاتا تھا۔‘’ہم وہاں دو سال رہے اس عرصے میں برادری کا کوئی بندہ ہمارے پاس نہیں آتا تھا اگر کوئی آتا تو اس کو بھی پکڑ کر کام پر لگا دیتے تھے۔‘’کوئی شدید بیمار بھی ہو جائے تو ڈاکٹر آ کر دوائی دے جاتا لیکن باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔منو بھیل سنہ 1996 میں جیل سے بھاگ کر پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے دفتر پہنچے اور مدد کی اپیل کی۔ایچ آر سی پی کی حیدرآباد میں ان دنوں میں خصوصی ٹاسک فورس موجود تھی۔ اس کے ایک سابق رکن اور سینئر صحافی ناز سہتو بتاتے ہیں کہ ’منو بھیل کے ساتھ وہ روانہ ہوئے لیکن اس سے پہلے مقامی سطح پر معلومات لی گئیں۔ یہ اس طرح سے کیا گیا تاکہ پولیس کو معلوم نہ ہو سکے۔‘’جب ہم چھپتے چھپاتے زمینوں پر پہنچے تو ہمیں جھٹکا لگا۔ لوگوں کے پیروں میں اور ہاتھوں میں زنجیریں پڑی ہوئی تھیں۔ پہرے پر تین چار گارڈ موجود تھے۔ اس دوران زمیندار بھی پہنچ گئے اور تکرار شروع ہو گئی، ہمارے ہاتھ خالی تھے وہ ہوائی فائرنگ کر رہے تھے لیکن ہم کسانوں کو رہا کروا کے ڈی سی آفس پہنچ گئے اور پولیس مدد کے لیے طلب کر لی۔‘آشو کولھی کا خاندان گذشتہ سال رہا ہوا اور ان کے حصے میں چند برتن اور چارپائیاں آئیں ہر گھر میں ظلم و ستم کی داستان-انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں -ہوتا ہے جہاں ’جدید غلامی‘ موجود ہے یعنی مزدوری میں ناانصافی، کسانوں کو قرضے میں جکڑے رکھنا، ان کو قید و بند میں رکھنا۔سنہ 2020 سے جنوری 2023 تک صرف صوبہ سندھ میں پانچ ہزار سے زیادہ کسان جبری مشقت سے رہائی حاصل کر چکے ہیں۔

کوٹری، حیدرآباد اور عمرکوٹ میں ایسے چار ہاری کیمپس ہیں جہاں نجی جیلوں سے رہا ہونے والے کسان رہتے ہیں۔ ان بستیوں کے ہر گھر میں قید و بند اور ظلم و ستم کی داستان ہے۔آشو کولھی کا خاندان گذشتہ سال رہا ہوا اور ان کے حصے میں چند برتن اور چارپائیاں آئیں۔وہ ہمت نگر نامی کسان کیمپ میں ایک جھونپڑی میں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’زمیندار مار پیٹ کرتا تھا ہمارے بچے تنگ تھے اور ہم بھی تنگ تھے۔زمیندار ہمارے پیسے کھا گیا اس نے بہت رلایا تنگ کیا، ہم پولیس کے پاس بھی گئے لیکن ہماری کسی نے نہیں سنی بس یہاں آ کر بیٹھے ہیں۔‘

منو بھیل سانگھڑ کے زمیندار کے پاس کسان تھے جہاں سے بعد میں وہ بھاگ نکلےمنو بھیل کی قانونی جنگ منو بھیل کا خاندان ابھی آزادی کی سانس بھی نہیں لے سکا تھا کہ اس کو دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔ منو بھیل کے مطابق آزادی کے دو سال کے بعد ان کے خاندان کو کوٹ غلام محمد سے ایک زمیندار کے پاس سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ گندم کی کٹائی کر رہے تھے۔زمیندار کے لوگ آئے ان کے والد، والدہ، بھائی، بیوی، دو بیٹیوں ایک بیٹے کو اغوا کر کے لے گئے۔ وہ اس روز گھر موجود نہیں تھے، کام سے تھر گئے ہوئے تھے، پھر آٹھ روز بعد واپس آئے تو پتا چلا۔منو بھیل کئی سال تک حیدرآباد پریس کلب کے باہر منو بھیل کئی سال تک حیدرآباد پریس کلب کے باہر علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد ہائیکورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ تک معاملہ گیا۔عدالت کے یہ ریمارکس بھی آئے کہ ’ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے- لیکن اس کے باوجود منو بھیل کے اہلخانہ بازیاب نہیں ہوئے۔منو بھیل کے مطابق ’میرے بیٹے کانجی کی عمر اس وقت سات سال تھی۔ بیٹی کی عمر تین سال تھی، میرا بیٹا جوان ہوگیا ہو گا۔‘

’میرے والد کی عمر اس وقت ستر سال تھی میری والدہ ساٹھ سال کی تھی، کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس میں لاش مل جاتی ہے لیکن یہ تو حادثہ بھی نہیں اگر ایک آدمی بھی مجھے مل گیا تو میری کہانی سچی ہوجائے گی اور جب تک میں زندہ ہوں یہ شور کرتا رہوں گا کہ میرے ساتھ ناانصافی کی گئی۔‘منو بھیل کوٹڑی میں واقعے ہاری کیمپ میں رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں روڈ حادثے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی لیکن انھیں ابھی تک عدالتوں سے نوٹس آتے ہیں اور ان کے پاس کل اثاثہ ایک فائل ہے جس میں اخباروں کی درجنوں کٹنگز موجود ہیں جو ان کی جدوجہد پر مبنی ہیں۔لالی کولھی جو پہلے خود نجی جیل میں قید تھیں اور اب دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں-لالی کا کسانوں کی رہائی کا مشن-کیا آپ نے امریکی سیاہ فاموں کی غلامی پر مشتمل نیٹ فلکس کی فلم ہیریئٹ (Harriet) دیکھی ہے؟حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم میں ایک خاتون فرار ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے رشتے داروں اور دیگر سیاہ فام افراد کو رہا کرواتی ہے۔ لالی کولھی بھی ایک ایسا ہی کردار ہیں۔لالی کولھی بتاتی ہیں کہ ’ہم جبری مشقت کی شکایت عدالت میں کرتے ہیں پھر عدالت رہائی کی اجازت دیتی ہے اور ہم مدد کے لیے تھانے جاتے ہیں لیکن پولیس زمینداروں کے ساتھ مل جاتی ہے اس لیے انھیں پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں متعدد بار اغوا کیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’ہم بسوں میں سفر کرتے ہیں، اسی طرح عدالتوں میں اور تھانوں میں پہنچتے ہیں۔ زمیندار بااثر ہوتے ہیں، ہمیں بس سٹاپ سے اٹھا لیا جاتا ہے یا سڑک سے لیکن ہم نے کبھی شکست قبول نہیں کی، ہم کولھی اور بھیل کمیونٹی کے لوگوں کے لیے رات ہے اور سویرا ہوا ہی نہیں۔‘آئین پاکستان کی شق 11 غلامی اور جبری مشقت کی ممانعت کرتی ہے تاہم کسانوں کو قید بند رکھنے پر آج تک کسی زمیندار یا سردار کو سزا نہیں ہوئی۔ان میں سے کئی زمینداروں کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ بارکھان جیسے واقعات پر ایوانوں اور سڑکوں پر خوب شور مچتا ہے، کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور پھر یہ معاملہ سرد خانے کا شکار ہو جاتا ہے۔کراچی میں ناظم جوکھیو کا قتل کیس ایک تازہ مثال ہے جس کی موت ایک سردار کی نجی قید میں ہوئی لیکن بعد میں لواحقین نے سمجھوتہ کر لیا۔

پیر، 6 مارچ، 2023

پاک و ہند کے شہرہ آفاق شاعر'جگر مراد آبادی

 

 

 

پاک و ہند کے شہرہ آفاق شاعر'جگر مراد آبادی جگر مراد آبادی کااصل نام علی سکندر تھا ۔ 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر اور

 مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں انہوں نے اردو اور فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی ۔بعد ازاں اپنے چچا کے پاس لکھنؤ چلے گئے، جہاں اسکول میں داخلہ

 لیا ۔ نویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہونے کے بعد حصول تعلیم سے دستبردار ہو گئے۔ ان کو شاعری ورثہ میں ملی تھی، ان کے والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی

 علی ظفر دونوں شاعر تھے۔ اصغر گونڈوی کی صحبت نے جگرکی شاعری کو بہت جلا بخشی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ بھارتی حکومت نے انھیں ’’پدما بھوشن‘‘ خطاب

 دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے آخری مجموعہ کلام ’’آتِش گل‘‘ پر ان کو ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘ سے پانچ ہزار روپیہ انعام اور دو سو روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا تھا۔ ’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔اصغر گونڈوی، جگر کے ہم زلف، جنہیں جگر اپنا مربّی اور مرشد جانتے تھے اور کے سامنے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتے۔ان کی ہر بات مانتے اور ان کی موجودگی میں نظریں نیچی کئے رہتے۔ نہ صرف اصغر بلکہ ا کے قریبی اور بے تکلف دوستوں کے سامنے بھی اسی رکھ رکھاؤ سے پیش آتے کہ وضع داری شریفوں کی پرانی کمزوری ہے ۔ اب نہ وہ شریف رہے نہ ویسی وضع داریاں۔ خواتین اور لڑکیوں کی موجودگی میں جگر نظریں یوں نیچی رکھتے جیسے وہی ان کی عزت وآبرو کی نگہبان ہیں۔جگر پر تو اصل مشکلیں ترک شراب کے بعد آئیں۔ صحت بگڑتی گئی، مالی حالات دگرگوں ہوگئے، ذمہ داریاں بڑھتی گئیں۔ لیکن وہ اس کا پامردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ اپنی کیفیت اوروں سے چھپاتے، ویسے ہی قیمتی کپڑے پہنتے، اور قیمتی چیزیں استعمال کرتے جنھیں یار دوست ہتھیالیتے اور یہ کبھی ان سے نہ کچھ کہتے اورنہ پوچھتے۔جگر کی شراب نوشی کے ذمہ دار بھی یہی دوست تھے جو بقول اصغر گونڈوی، ان کا گوشت کھا رہے تھے۔ انہیں سستی شرابیں پلاکر مشاعروں میں لے جاتے یا نجی محفلوں میں ان سے غزلیں سنتے۔ یہ بھی عجیب سی بات ہے کہ جگر سخت مذہبی آدمی تھے۔ جوش سے اکثر ان کی بے دینی پر الجھتے۔ جگر نہ صرف اللہ اور رسول بلکہ انسانوں کے حقوق بھی پہچانتے تھے ،جبکہ بہت سے پارساؤں کا یہ خانہ اکثر خالی ہی رہتا ہے۔

وہ کسی کا حق نہیں مار سکتے تھے، اسی لئے سب کے محبوب تھے۔ معمولی آدمی کی بدتمیزی برداشت کرلیتے لیکن بڑے لوگوں کی نا واجب حرکت پر کچھ کہے بغیر نہ

 رہتے۔ ان کا شمار کھاتے پیتے لوگوں میں نہیں ہوتا تھا ، تنگی سے بسر ہوتی تھی لیکن مہمانوں کے سامنے آنکھیں بچھائے رکھتے۔ غصے میں کبھی آپے سے باہر نہ

 ہوتے نہ کبھی اپنی بڑائی جتلا کر دوسروں کے عیب بیان کرتے۔مشاعروں میں کبھی اس بات کا تردد نہیں کیا کہ انہیں سب سے پہلے یا سب سے آخر میں پڑھوایا

 گیا۔ منتظمین نے جو کچھ دیا خاموشی سے جیب میں ڈال لیا۔ ایک بار جب وہ سو رہے تھے کسی جاننے والے نے ان کے جیب سے سارے پیسے نکال لئے، جگریہ دیکھ

 رہے تھے۔ جب لوگوں کو علم ہوا تو پوچھا کہ آپ نے کیوں نہیں بتایا، کہنے لگے شریف آدمی کو رسوا کرنا تو کوئی اچھی بات نہیں۔

جگر داغ کے شاگرد تھے اور اصغر کی عزت کرتے تھے لیکن دونوں کا انداز نہیں اپنایا کیونکہ  وہ تو ایک سرمست انسان کا دل رکھتے تھے، جس کے پاس خلوص کی

 دولت اور عشق کی قوت کے سوا کچھ نہ تھا۔ جگر کے ہاں محبت ہی محبت تھی۔انسانی خوشحالی اور آسودگی ان کی آرزو رہی۔جگر آزاد طبیعت کے مالک اور حُسن

 پرست تھے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جگر کو اپنے عہد وہ شہرت اور مقبولیت ملی جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اس میں ان کی رنگا

 رنگ شخصیت کے ساتھ ان کے رنگِ تغزّل اور ترنم کا بڑا دخل ہے۔ کئی شعرا نے جگر کا طرزِ شاعری اپنانے اور ان کے ترنّم کی نقل کرنے کی کوشش کی، لیکن

 اس مقام و مرتبے کو نہ پہنچ سکے جو جگر کا خاصّہ تھا۔

جگر مراد آبادی کسی کی تقلید کے قائل نہیں تھے، اسی لیے انہوں نے آغاز میں ہی اپنی روش طے کر لی تھی جو دوسرے شعرا سے الگ ہے۔ وہ خود ہی لکھتے ہیں:

”ہو سکتا ہے میرے کلام میں کہیں کہیں مومن کا اثر غیر شعوری طور پر موجود ہے۔ لیکن واضح رہے کہ میں تقلید کا قائل نہیں۔ البتہ اس کا اعتراف ہے کہ

 میرے ابتدائی کلام پر داغ کا نمایاں اثر موجود ہے۔ غالب کی عظمت اور محبت میرے دل میں ہے لیکن مقلد ان کا بھی نہیں۔“

جگرمراد آبادی کا انتقال نو ستمبر 1960ء کو گونڈا میں ہوا تھا اور وہیں انہیں محمد علی پارک میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیکن جگر کی موت کی خبر دو دو بار اخبارات میں

 شائع ہوئی اور ریڈیو سے بھی نشر ہوئی۔ اس کے بعد ان کے عقیدت مندوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ پہلی بار چارمئی سنہ 1938ء کو جب ان کے موت کی خبر شائع

 ہوئی تو بعض اخبارات نے خاص نمبر تک شائع کر دیے۔ ہر جگہ تعزیتی جلسے ہوئے۔ دہلی کی جامع مسجد میں تو تعزیتی جلسے کے ساتھ ساتھ نمازِ غائبانہ بھی ادا کی گئی۔

لیکن چند دنوں بعد لوگوں کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ جگر بقید حیات ہیں۔ سنہ 1958ء میں جب جگر کو دل کا شدید دور پڑا تواس وقت بھی ان کے

 انتقال کی خبر ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ لاہور اور کراچی میں متعدد تعزیتی جلسے ہوئے۔ لاہور کے ایک جلسے کی صدارت

 احسان دانش نے کی تھی۔ اس خبر کی تردید ہونے کے بعد مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی نے روزنامہ ”جنگ“ میں لکھا تھا کہ پہلی خبرکے بعد جگر صاحب کی عمر

 بیس سال بڑھ گئی تھی اوراب اس خبر کے بعد پھر کم از کم بیس برس کے اضافے کی توقع ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا نو ستمبر 1960ءکو ان کو دل کا دورہ پڑا اور روح

 قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔

جان کر من جملہٴ خاصانِ مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جگر مرادآبادی اور ایک نعتیہ مشاعرہ

رئیس المتغزلین حضرت جگر ؔمردآبادی پچپن ہی سے حسن پرست واقع ہوئے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تھی جب اپنے چچا کے ایک کرایہ دار کی بیوی کا حسن ان کی

 آنکھوں میںسما گیا تھا۔اس کے بعد وحیدن، روشن فاطمہ،نسیم،سندری ، مندری اور شیرازن جیسی عورتوں کے حسن کاوہ شکار ہوتے رہے ور ان کے عشق میں

 بیمار بھی۔ چودہ پندرہ برس کی عمرمیں انگورکی بیٹی سے تعارف ہوا اور جب یہ کافر ادا منہ لگی تو پھر چھڑائے نہ چھٹی۔ لاکھ توبہ کرتے مگر انگور کی بیٹی ایک بار جب ان

 کے سامنے آجاتی توبہ دھری کی دھری رہ جاتی۔کبھی لہراکے پی جاتے تو کبھی شرماکے پی جاتے اور کبھی رحمت تمام کو باتوں باتوں میں بہلاکے پی جاتے۔شراب

 ان کی گھٹی میں اپنامستقربنا چکی تھی اوران کی شیروانی میں بوتل ہمیشہ پڑی ملتی۔کبھی اپنے مرشد حضرت اصغرؔ گونڈوی سے دعا کی درخواست کرتے اور اپنے ہی

 جیسا مستانہ بنانے کی فرمائش کرتے تو کبھی شاہ عبد الغنی منگلوری کے در پر حاضر ہوکررہنمائی کی التجا کرتے ۔ وہ اپنی رندی وبلانوشی پرنادم بھی ہوتے اور شرمندہ بھی ۔ اسے ترک کرنے کی کوشش بھی کرتے مگرجس دل پر پیہم وار لگے ہوں اس کے کاری زخم کو شراب کے علاوہ اور کس شے سے قرار مل سکتا تھا۔وہ آوارہ ہوگئے تھے، عینک فروشی سے جو کچھ ہاتھ آتا اسے شراب میں لٹادیتے اور عالم مدہوشی      میں  ان کا جذبۂ شوق جدھر لے جاتا وہ پھرتے رہتے۔کئی کئی دن گھر نہیں آتے۔ جانے کہاں کہاں بیٹھ کر شراب پیتے رہتے۔جیسے جیسے دل پر وار ہوتا،ضرب لگتی دل کی آہ شاعری بن جاتی۔بڑی سادگی سے وہ اپنے قلب وجگرکے سوز پنہاں کو شاعری کے پیکر میں ڈھال دیتے۔جیسے جیسے درد بڑھتارہا، شغل مے نوشی اور بادہ نوشی میں اضافہ ہوتا رہا اور شاعری پروان چڑھتی رہی۔جب جگر کے مخصوص ترنم میں ان کا مخصوص کلام سامعین کی سماعتوں سے ٹکراتا تو دلوں میں گھر کرلیتا، سامعین جھوم جھوم جاتے عش عش کر اٹھتے۔وہ دن مشاعروں کے موسم بہار اور اردو شعر وادب کے عروج کے دن تھے۔جگر ؔمرادآبادی کا نام ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ شاعری کی شہرت کے ساتھ مے نوشی میں بلا کا اضافہ ہوگیا تھا۔ منتظمین مشاعرہ انہیں بھر بھر کر پلاتے اور جی بھر کر سنتے اور حظ اٹھاتے۔کبھی شراب کے لیے انہیں عینکوں کاکاروبار کرنا پڑتا تھا مگراب یہ حالت تھی کہ انہیں شراب پلانے میں لوگ اپنی سعادت سمجھنے لگے تھے۔مشاعرہ جگرؔ اور شراب لازم ملزوم بن گئے تھے۔کوئی مشاعرہ جگرؔ کے بغیر کامیاب تسلیم نہیں کیا جاتا تو جگرؔ شراب کے بغیر کچھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے اور جب پڑھتے تو ایسا کلام سامنے آتا کہ گلی کوچوں میں مدتوں دہرایا جاتا۔مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی مذاق میں بھی کہہ دیتا’’ وہ دیکھوجگر صاحب آرہے ہیں‘‘تو بے شمار آنکھیں اس طرف اٹھ جاتیں۔

جگرؔ صاحب نے ہمیشہ شغل مے نوشی کی اور صرف غزلیں کہیں۔جن دنوں بھوپال ہاؤس میں جگر صاحب ٹھہرے ہوئے تھے نعت کے مشہور شاعراور زائرحرم

 کے خالق جناب حمیدؔ صدیقی بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے اور جگرؔصاحب سے ملنے آیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حمیدؔ صدیقی ان سے ملنے آئے جگر ؔعالم سرشاری

 میں لیٹے ہوئے کوئی غزل گنگنا رہے تھے۔ تپائی پر بوتل رکھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی حمیدؔ صدیقی پر نظر پڑی وہ گھبراگئے اور کہا میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ ایسے وقت

 میرے پاس نہ آیا کریں۔ انہوں نے کہا حرج ہی کیا ہے۔ میں آپ کے اس شغل سے واقف بھی ہوںاور معترض بھی نہیں۔ جگرصاحب نے کہا بات معترض

 ہونے کی نہیں ہے اس عالم میں اگر میں آپ سے نعت سنوں تو کیسے سنوں۔ اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔

جگرؔجیسے شرابی شاعر کا یہ اعلیٰ شعور۔ اللہ اکبر! جگرؔ نے کبھی نعت نہیں کہی صرف غزلیں کہتے رہے اور دل کا غبار کاغذ پر اُنڈیلتے رہے۔جگرؔ صاحب نے پہلی نعت

 اجمیر کے مشاعرے کے لیے کہی۔اس نعت کا عجیب وغریب شان نزول پاکستان کے مشہورومعروف تذکرہ وخاکہ نگار ڈاکٹر ساجد حمید نے کچھ ا س طرح

ہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔

 کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔در اصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ  مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی

 عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب

 نہیں‘‘ ۔

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے

 انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ

 ہوگئے۔سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوںسے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ

 بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، لیکن شراب سے تو نہیں لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس

 زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے،

 شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے

 تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا،  تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔

مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں

 نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے

 تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ

 اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ

 رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوںکو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے ؎

کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی

جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘

اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے

 پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے

 ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہےجوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی

 گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے،

 اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے

 بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے  اشعار یوں ہیں:,,

 اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم

شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اللہ کی یونیورسٹی سے ڈگری ہولڈر انجینئر پرندہ ننھا بیا

       ٍکیا آ پ جانتے ہیں کہ بیا جیسا ننھا پرندہ اپنی زات میں آرکیٹکٹ بھی ہے سول انجینئر بھی ہے اور انتہائ سگھڑ بھی ہے اس کے گھونسلے میں ایک...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر