ہفتہ، 13 دسمبر، 2025

مورقدرت کی رعنائ کا عکاس پرندہ

       مور ایک خوبصورت دلکش اور انتہائی چوکنا رہنے والا پرندہ ہے جو برما‘ جاوا‘ ہندو پاکستان اور مشرقی ایشیا کے ممالک میں پایا جاتا ہے اس کے پروں کی رنگینی دم کا پھیلاؤ اور رقص انتہائی جاذب نظر ہوتا ہے جب یہ اپنی دم کو جو ۵ ۵ انچ سے ۷۲ انچ تک لمبی ہوتی ہے۔ پھیلا کر چکر کاٹتا ہےنظروں میں مختلف رنگوں کی دنیا آباد ہو جاتی ہے جس طرح خزاں میں درختوں کے پتے جھڑتے اور بہار میں اگتے ہیں ۔ اسی طرح اس کے پر خزاں میں جھڑجاتے ہیں اور بہارمیں دوبارہ اگ آتے ہیں ۔ بہار کا موسم اس کے حسن کے نکھار کا زمانہ ہوتا ہے۔ اسی موسم میں جوڑ کھاتا ہے مورنی تین سال کی عمر سے انڈے دینے لگتی ہے اور اس کی اوسط عمر پینتیس برس ہوتی ہے ایک سال میں کم و بیش بارہ انڈے دیتی اور ایک مہینہ تک انہیں سیتی ہے۔ مور اپنی دلکشی و خوبصورتی  سمجھا جاتا ہے۔     یوں کہ جس رنگ میں انہیں ڈبو دیا گیا ہے اس کے علاوہ کسی اور رنگ کی ان میں آمیزش نہیں کی گئی اور بعض اس طرح رنگ میں ڈبوئے گئے ہیں کہ جس رنگ کا طوق انہیں پہنا دیا گیا ہے وہ اس رنگ سے نہیں ملتا جس سے خود رنگین ہیں ۔ ان سب پرندوں سے زائد عجیب الخلقت مور ہے کہ (اللہ نے) جس کے (اعضاء کو) موزونیت کے محکم ترین سانچے میں ڈھالا ہے اور اس کے رنگوں کو ایک حسین ترتیب سے مرتب کیا ہے۔


 یہ (حسن و توازن) ایسے پروں سے ہے کہ جن کی جڑوں کو (ایک دوسرے سے) جوڑ دیا ہے اور ایسی دم سے ہی جو دور تک کھنچتی چلی جاتی ہے جب وہ اپنی مادہ کی طرف بڑھتا ہے تو اپنی لپٹی ہوئی دم کو پھیلا دیتا ہے اور اسے اس طرح اونچا لے جاتا ہے کہ وہ اس کے سر پر سایہ افگن ہوکر پھیل جاتی ہے۔ گویا وہ (مقام) دارین کیاس کشتی کا بادبان ہے جسے اس کا ملاح ادھر ادھر موڑ رہا ہو۔ وہ اس کے رنگوں پر اتراتا ہے اور اس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے اور مرغوں کی طرح جفتی کھاتا ہے اور (اپنی مادہ کو) حاملہ کرنے کیلئے جوش و ہیجان میں بھرے ہوئے نروں کی طرح جوڑ کھاتا ہے۔ تم اگر بغور دیکھو گے) تو اس کے پروں کی درمیانی تیلیوں کو چاندی کی سلائیاں تصور کرو گے اوران پر جو عجیب و غریب ہالے بنے ہوئے ہیں اور سورج (کی شعاعوں ) کے مانند (جو پروبال) اگے ہوئے ہیں (انہیں زردی میں ) خالص سونا اور (سبزی میں ) زمرد کے ٹکڑے خیال کرو گے‘ اگر تم اسے زمین کی اگائی ہوئی چیزوں سے تشبیہہ دو گے تو یہ کہو گے کہ وہ ہر موسم بہار کے چنے ہوئے شگوفوں کا گلدستہ ہے


اور اگر کپڑوں سے تشبیہہ دو گے تو وہ منقش حلول یا خوشنما یمنی چادروں کے مانند ہے اور اگر زیوراتگ سے تشبیہہ دو گے تو وہ رنگ برنگ کے ان نگینوں کی طرح ہے جو مرصع بجواہر چاندی میں دائروں کی صورت میں پھیلا دئیے گئے ہوں وہ اس طرح چلتا ہے جس طرح کوئی ہشاش بشاش اور متکبر محو خرام ہوتا ہے اور اپنی دم اور پروبال کو غور سے دیکھتا ہے تو اپنے پیراہن کے حسن و جمال اور اپنے گلوبند کی رنگتوں کی وجہ سے قہقہہ لگا کر ہنستا ہے مگر جب اپنے پیروں پر نظر ڈالتا ہے تو اس طرح اونچی آواز سے روتا ہے کہ گویا اپنی فریاد کو ظاہر کر رہا ہے اور اپنے سچے درد (دل) کی گواہی دے رہا ہے۔ کیونکہ اس کے پیر خاکستری رنگ کے  باریک اور پتلے ہوتے ہیں اور اس کی پنڈلی کے کنارے پرایک باریک سا کانٹا نمایاں ہوتا ہے اور اس کی (گردن پر) ایال کی جگہ سبز رنگ کے منقش پروں کا گچھا ہوتا ہے اور گردن کا پھیلاؤ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے صراحی (کی گردن) اور اس کے گڑنے کی جگہ سے لے کر وہاں تک کا حصہ کہ جہاں اس کا پیٹ ہے یمنی دسمہ کے رنگ کی طرح (گہرا سبز) ہے یا اس ریشم کی طرح ہے جو صیقل کئے ہوئے آئینہ پر پہنا دیا گیا ہو۔ گویا کہ وہ سیاہ رنگ کیاوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے لیکن اس کی آب و تاب کی فراوانی اور چمک دمک کی بہتات سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ اس میں تروتازہ سبزی کی (الگ سے) آمیزش کر دی گئی ہے


اس کے کانوں کے شگاف سے ملی ہوئی بابونہ کے پھولوں جیسی ایک سفید چمکیلی لکیر ہوتی ہے۔ جو قلم کی باریک نوک کے مانند ہے وہ (لکیر) اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہیوں میں جگمگاتی ہے۔ کم ہی ایسے رنگ ہوں گے جس نے سفید دھاری کا کچھ حصہ نہ لیا ہو اور وہ ان رنگوں پر اپنی آب و تاب کی زیادتی اپنے پیکر ریشمیں کی چمک دمک اور زیبائش کی وجہ سے چھائی ہوئی ہے۔ وہ ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہے کہ جنہیں نہ فصل بہار کی بارشوں نے پروان چڑھایا ہو اور نہ گرمیوں کے سورج نے پرورش کیا ہو۔ اس کے بال و پر لگاتار جھڑتے ہیں اور پھر پے درپے اگنے لگتے ہیں ۔جب اس کے پروں کے ریشوں میں سے کسی ریشے کو تم غور سے دیکھو گے تو وہ تمہیں کبھی گلاب کے پھولوں جیسی سرخی اور کبھی زمرد جیسی سبزی اور کبھی سونے جیسی زردی کی (جھلکیاں ) دکھائے گا 

۔

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر