ہفتہ، 13 دسمبر، 2025

الن فقیر کی سدابہار یادیں

 



پی ٹی وی پر فوک گلو کار الن فقیر نے آ کر اپنے ایک تارے کا سُر چھیڑا اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا ہو اللہ اور پورا پاکستان الن فقیر کا ہم نوا بن گیا -یہیں سے الن فقیر نے شہرت اور عزت کی اس سیڑھی پر قدم رکھا جس میں پیچھے  پلٹ کر دیکھنا ناممکن ہو  تھا-پھر وہ ملکوں ملکوں پاکستان کا چہرہ بن گئے-گلی گلی ان کی گائیکی کی دھوم مچ گئ سندھی زبان کے لوک فنکار الن فقیر صوبہ سندھ کے ایک چھوٹے سے علاقے جام شورو میں 1922ء میں پیدا ہوئے۔ الن فقیر نے صوفیانہ کلام گاکر ملک گیر شہرت حاصل کی۔، انہوں نے سندھی، اردو، پنجابی اور سرائیکی زبانوں میں گائیکی کی۔ ان کی گائیکی کا ایک انوکھا انداز تھا جو انہیں دوسرے لوک فنکاروں سے منفرد کرتا ہے۔انہوں نے اپنی گائیکی کی بدولت کئی ایوارڈ حاصل کئے۔ان میں80 کی دھائی میں ملنے والا صدارتی ایوارڈ سرفہرست ہے۔ان کا انتقال 4 جولائی 2000ء کو ہوا مگروہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
الن فقیر کی گائیکی نے فلسفیانہ عشق الٰہی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔انہوں نے روایتی لوک گائیکی کوایک نیا انداز بخشا۔الن فقیر نے شاہ عبد الطیف بھٹائی کی شاعری کو بھی اپنی آواز میں پیش کیا۔ ان کا گایا ہوا ایک گیت "تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا... اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا۔۔" انہیں فن کی دنیا میں امر کرگیا ہے۔


 

لن فقیر 1932ء کو جامشورو، سندھ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام علی بخش تھا لیکن الن فقیر کے نام سے مشہور ہوئے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر یکساں مقبول تھے۔الن فقیر کو فنی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا سندھ کے ادیب، دانشور اور ماہرثقافت ممتاز مرزا کے سرجاتا ہے۔ الن فقیر نے سندھی، پنجابی، اردو، سرائیکی اور دوسری بہت سی زبانوں میں گانے اور صوفیانہ راگ گائے لیکن محمد علی شہکی کے ساتھ گایا جانا والا نغمہ تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا الن فقیر کی فنی شہرت میں اضافے کا باعث بنا۔اس کے علاوہ ان کا ایک ملی نغمہ اتنے بڑے جیون ساغر میں تو نے پاکستان دیا بھی بہت مشہورہوا۔ 1980ء میں انھیں صدارتی تمغہ  برائے حسن کارکردگی ملا۔ سر پر اجرک کی پگڑی باندھے، گلے میں رنگ برنگے ہار لٹکائے یہ ہیں پنجاب کی تحصیل رحیم یار خان کے رہنے والے فقیر واحد بخش، جو سندھ کے مشہور صوفی گلوکار الن فقیر کا روپ دھار کر اپنے بیٹے کے ساتھ لوک ورثہ اسلام آباد میں اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔الن فقیر سندھ کے شہر جامشورو سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے سندھی، اردو، پنجابی اور سرائیکی زبانوں میں گائیکی کی۔فقیر واحد بخش نے ہو بہ ہو الن فقیر کا روپ دھار رکھا ہے۔


 

ہاں تک کے ان کی داڑھی مونچھوں اور بالوں کا انداز بھی الن فقیر جیسا ہی ہے اور وہ الن فقیر کے انداز میں ہی لاگ الاپتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں فقیر واحد بخش نے بتایا کہ ’الن فقیر سے میرا بہت لگاؤ تھا. انہیں جب جب سنتا تھا مزا آتا تھا. جب الن فقیر اس جہان سے چلے گئے تو میں نے ان کا روپ اختیار کیا اور جیسے میں ان ہی میں سما گیا۔‘فقیر واحد بخش کا تعلق پنجاب سے ہے لیکن وہ زیادہ تر وہی کلام گاتے ہیں جو الن فقیر سندھی زبان میں گاتے تھے۔ انہوں نے بتایا: ’سندھی کلچر (محکمہ ثقافت) والے کہتے ہیں کہ آپ کا شناختی کارڈ پنجاب کا ہے، پنجاب والے (ثقافت پنجاب) کہتے ہیں کہ آپ تو گاتے سندھی میں ہیں اور پروموٹ بھی اسی زبان کو کرتے ہیں۔ بات سچ بھی ہے میں اکثر سندھی میں ہی گاتا ہوں۔‘کوک سٹوڈیو کا گانا ’آئی آئی‘، جو وٹس ایپ کے ذریعے لکھا گیافقیر واحد بخش دو بار امریکہ اور پانچ بار انڈیا بھی جا چکے ہیں،جہاں انہوں نے صوفی فیسٹیولز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔فقیر واحد بخش کہتے ہیں کہ ’فوک سنگر ملک کا اثاثہ ہیں۔‘اسلام آباد میں پرفارمنس کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’لطیف سائیں (صوفی بزرگ و شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی) کی مہربانی سے ہمیں اسلام آباد میں پرفارمنس کا موقع ملا ۔


 

ہم یہاں پورے ملک کے لیے گاتے ہیں۔‘فقیر واحد بخش کے جواں سال بیٹے ساجد علی بھی ان کے ہمراہ گاتے اور جھومتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’مجھے والد کے ساتھ پرفارم کرکے مزا آتا ہے، والد کا اپنے استاد الن فقیر کے لیے پیار ہی اتنا ہے کہ ان کے گانوں پر ہم جھومے بغیر رہ نہیں پاتے۔‘موسیقی کے آلات ’یکتارو اور چپڑی‘ تو فقیر واحد بخش خود بناتے ہیں۔ وہ اور ان کے بیٹے ساجد علی اس فن کو نئی نسل میں منتقل کرنے کے لیے اپنے کئی شاگردوں کو صوفی گائیکی کی تربیت بھی دیتے ہیں۔فقیر واحد بخش صوفی شعرا شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمست، بابا بلھے شاہ اور دیگر شعرا کے کلام گاتے ہیں۔دونوں باپ بیٹا پرعزم ہیں کہ وہ صوفی ازم، صوفی شاعری اور پاکستان کی خدمت کرتے رہیں گے۔پاکستان میں حالیہ چند سالوں کے دوران مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے گلوکاری کے میدان میں قسمت آزمائی کے واقعات میں قابل زکر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز خاص طور پر یوٹیوب کی وجہ سے نئے گلوکاروں اور لوک فنکاروں کو حاصل ہونے والی وسیع پزیرائی اور ان کے مالی حالات میں آنے والی بہتری ہے۔اب سوشل میڈیا کے اس دور میں بیشتر لوک فنکار ایک ایسی خوشحال زندگی اور مقبولیت رکھتے ہیں، جس کا ماضی قریب میں تصور تک نہ تھا۔ گزشتہ نسلوں کے لوک گلوکاروں کی شہرت اور آمدن کا انحصار یوٹیوب وغیرہ کے برعکس شادی بیاہ کی محفلوں اور آڈیو کیسٹس پر ہوا کرتا تھا۔ آج کے لوک گلوکار اپنے ایک ہٹ گانے سے راتوں رات وہ شہرت اور دولت کما سکتے ہیں، جو ماضی میں فن کو تمام عمر دینے کے بعد بھی نصیب نہ ہوتی تھی۔اس کی ایک بہترین مثال صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے گلوکار ملکو کا گیت 'نک دا کوکا‘ ہے ۔ اس گیت کو صرف یوٹیوب پر چھ ماہ کے دوران چھ کروڑ سے زیادہ مرتبہ سنا گیا۔

1 تبصرہ:

  1. الن فقیر ہمارا قومی سرمایہ ہیں جو ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر