شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد ضلع بجنور کی تحصیل نگینہ کے ایک گاؤں ریہر میں پیدا ہوئے۔ ایک مشہور بزرگ شاہ عبد الغفور اعظم پوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ کے والد مولوی سعادت علی غریب آدمی تھے اور یو پی کے ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔شروع کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی۔ چودہ برس کے ہوئے تو دلی آ گئے اور یہاں اورنگ آبادی مسجد کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ مولوی عبدالخالق ان کے استاد تھے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ دہلی کے آس پاس برائے نام مغل بادشاہت قائم تھی۔ دینی مدرسوں کے طالب علم محلوں کے گھروں سے روٹیاں لا کر پیٹ بھرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نذ یر احمد کو بھی یہی کچھ کرنا پڑتا تھا، بلکہ ان کے لیے تو ایک پریشانی یہ تھی کہ وہ جس گھر سے روٹی لاتے تھے اس میں ایک ایسی لڑکی رہتی تھی جو پہلے ان سے ہانڈی کے لیے مصالحہ یعنی مرچیں، دھنیا اور پیاز وغیرہ پسواتی تھی اور پھر روٹی دیتی تھی اور اگر کام کرتے ہوئے سُستی کرتے تھے تو ان کی انگلیوں پر سل کا بٹہ مارتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔کچھ عرصہ بعد دلی کالج میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔مولوی نذیر احمد نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مدرس کی حیثیت سے کیا لیکن خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے جلد ہی ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔
مولوی صاحب نے انگریزی میں بھی خاصی استعداد پیدا کر لی اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے صلے میں آپ کو تحصیلدار مقرر کیا گیا۔ پھر ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔ نظام دکن نے ان کی شہرت سن کر ان کی خدمات ریاست میں منتقل کرا لیں جہاں انھیں آٹھ سو روپے ماہوار پر افسر بندوبست مقرر کیا گیا۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مولوی صاحب نے اپنی زندگی تصنیف و تالف میں گزاری۔ اس علمی و ادبی میدان میں بھی حکومت نے انھیں 1897ء شمس العلماء کا خطاب دیا اور 1902ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1910ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ او۔ ایل کی ڈگری عطا کی۔ شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کی مشہور تصنیفات میں مراۃ العروس (جو ان کا پہلا اردو ناول ہے)، توبۃ النصوح، فسانۂ آزاد (جسے اردو کا پہلا طویل ناول بھی کہا جاتا ہے)، فائدہ العوام، اور نصائح عثمانیہ شامل ہیں۔ ان کی تصانیف زیادہ تر اصلاحی اور معاشرتی نوعیت کی ہیں، جن کا مقصد اردو معاشرے کی اصلاح تھا۔ مراۃ العروس: ڈپٹی نذیر احمد کا پہلا اردو ناول ہے جو 1869 میں شائع ہوا۔ یہ ناول مسلمان بچیوں کی اخلاقی اور خانہ داری کی اصلاح کے لیے لکھا گیا تھا۔توبۃ النصوح: یہ ناول بھی ایک اصلاحی ناول ہے جو مسلمانوں میں خاندانی اصلاحات کو نمایاں کرتا ہے۔
فسانۂ آزاد: اس طویل ناول میں 19 ویں صدی کے ہندوستان کی سماجی اور سیاسی زندگی کا تذکرہ ہے، جس میں معاشرتی اخلاقیات اور اصلاح پر زور دیا گیا ہے۔فائدہ العوام: یہ ایک اصلاحی کتاب ہے جو عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے لکھی گئی ہے۔نصائح عثمانیہ: یہ کتاب اصلاحی اور اخلاقی نصیحتوں پر مشتمل ہے۔اردو زبان کی ترویج: ڈپٹی نذیر احمد نے اردو زبان کے فروغ کے لیے بھی کام کیا ہے، جس میں کئی اصلاحی اور اخلاقی نظریات پر مبنی کتب بھی شامل ہیں۔دو بہنوں کی عادات و اطوار پر مبنی اس ناول نے گویا ناول نگاری کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا ’مراۃ العروس‘‘ کے ذریعے قارئین، ناولز میں پہلی مرتبہ ایسے کرداروں سے آشنا ہوئے کہ جن کی اچھی، بُری صفات اُس سماج سے کشید کی گئی تھیں کہ جن کا وہ خود حصّہ تھے۔ اس ناول میں وہ داستان پیش کی گئی ، جو اُس زمانے میں گھر گھر کی کہانی تھی۔ یوں ایک قلم کار نے سماجی تخلیق کار کا رُوپ اختیار کیا اور یہ قلم کار، ڈپٹی نذیر احمد تھے۔ علی عبّاس حسینی نے ’’اُردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’’ڈپٹی نذیر احمد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اُن تمام قصّوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی بالکل سچّی تصویر کشی کی ہے۔ انہوں نے جن، پری، بُھوت پریت اور جادو طلسم جیسے غیر انسانی عناصر ترک کر کے اپنے گرد و پیش کے لوگوں اور اپنی ہی طرح کے معمولی انسانوں کے حالات بیان کیے ہیں۔‘‘ ’’مراۃ العروس‘‘اپنی اوّلین اشاعت کے بعد سےاب تک مسلسل شایع ہونے کے اعزاز کی حامل کتاب بھی ہے۔
1877ءمیں انہوں نے حیدر آباد، دکن کا رُخ کیا۔ وہاں کی علم دوست حکومت نے اُن کی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن کی تن خواہ 850روپے ماہ وار مقرّر کی، جو کچھ ہی عرصے میں بڑھ کر 1700روپے ماہ وار ہو گئی۔ یہاں دیگر علمی اُمور کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد نے حفظِ قرآن کی طرف بھی توجّہ دی اور محض چھے ماہ کے اندر حافظِ قرآن ہوگئے۔ بعد ازاں، ’’فسانۂ مبتلا‘‘(1885ء ) اور ’’ابن الوقت‘‘ (1888ء ) شائقین ِ ادب کے سامنے آئیں اور انہیں بھی پسندیدگی کی سند ملی۔ ڈپٹی نذیر احمد ایک کثیر التصانیف مصنّف تھے ۔ اُن کی دیگر کُتب میں ’ایّامیٰ‘‘، ’’رویائے صادقہ‘‘، ’’منتخب الحکایات‘‘،’’اُمّہات الامّہ‘‘ کے علاوہ بہت سی اخلاقی، دینی اور مذہبی کُتب شامل ہیں۔ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی زندگی متوسّط طبقے کے ایک فرد کی حیثیت سے بسر کی اور اُن کی تحریروں میں بھی دِلّی کا متوسّط طبقہ واضح طور پر جھلکتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے ناولز میں ہونے والی گفتگو، بالخصوص وہ مکالمے، جن میں خواتین کی زبان، محاورے اور ضرب الامثال شامل ہیں، بِلاشُبہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اپنے قلم کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ اُن کا بنیادی مقصد تھا اور اُنہوں نے شاید اپنے اس مقصد سے ایک لمحہ بھی رُوگردانی نہیں کی۔ تاہم، کمال یہ کیا کہ اپنے ارد گرد کی فضا کو اپنے مشاہدے اور مکالمے سے تبدیل کرنے کی شعوری کوشش کی
ڈپٹی نذیر احمد ایک کثیر التصانیف مصنّف تھے ۔ اُن کی دیگر کُتب میں ’ایّامیٰ‘‘، ’’رویائے صادقہ‘‘، ’’منتخب الحکایات‘‘،’’اُمّہات الامّہ‘‘ کے علاوہ بہت سی اخلاقی، دینی اور مذہبی کُتب شامل ہیں
جواب دیںحذف کریں