خیام 427 ہجری شمسی میں خراسان کبیر کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئےخیام بن ابراہیم نیشا پوری،ایران کے عظیم شاعر، دانشور، ریاضی داں، منجم اور فلاسفرہیں جن کی شہرت ایران کی قلمرو سے ماورا ہے اور آج بھی شعرو ادب اور علم وحکمت کے شیدائیوں کے قلب وذہن پر ان کی حکمرانی باقی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو دنیا میں کسی شاعر کو اتنی مقبولیت نہ ملی ہو گی جتنی خیّام خیمہ دوز کو ملی۔‘‘ دراصل خیّام کے معنی، خیمہ بنانے والے کے ہیں اور یہ اُن کا خاندانی پیشہ تھا۔ اُردو نظم کے عظیم شاعر، میراجی نے جہاں دنیا بھر کے عظیم شعراء کے کلام کے تراجم کیے، وہیں ’’خیمے کے آس پاس‘‘ کے نام سے ’’رباعیاتِ خیّام‘‘ کا ترجمہ بھی کیا اور یہ وہی کام ہے، جو انگریزی میں فٹز جیرالڈ نے سرانجام دیا تھا؎ جاگو، سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دُور بھگایا ہے..... اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے..... جاگو، اب جاگو، دھرتی پر اس آن سے سورج آیا ہے.....راجا کے محل کے کنگورے پر اجول کا تیر چلایا ہے۔
خیام کا شمار دنیا کے عظیم شاعروں ، دانشوروں، حکما اور فلاسفروں میں ہوتا ہے اور انہیں ریاضی اور علم نجوم میں بھی مہارت حاصل تھی ۔عمرخیام کی رباعیات کا دنیا کی تقریبا سبھی قابل زکر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ انھوں ابتدا تعلیم منجملہ،قرآن پڑھنا، عربی ، فارسی، ریاضی اور فقہی احکام کی تعلیم نیشا پور میں حاصل کی- ایک شاعرنے خیّام کے لئے کہا ہےکس کی کھوج میں گُم صُم ہو، خوابوں کے شکاری، جاگو بھی.....اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چُکا۔آغا شاعر قزلباش نے 1932ء میں ’’خم کدۂ خیّام‘‘ کے عنوان سے خیّام کی200رباعیوں کا ترجمہ کیا،جن میں سے ایک رباعی کا ترجمہ اس طرح ہے؎ آئی یہ صدا صبح کو مئے خانے سے..... اے رندِ شراب خوار، دیوانے سے.....اُٹھ جلد بھریں شراب سے ساغر ہم..... کم بخت چھلک نہ جائے پیمانے سے۔ اِسی طرح برصغیر پاک و ہند کے درجنوں شعراء نے خیّام کی شاعری کے ترجمے اُردو زبان میں علم حضوری کے مراحل میں خواجہ ابولحسن انباری سے ریاضیات اور ہندسہ کے بنیادی اصول سیکھے
اور پھر حکمت، فلسفے، عرفان اور اخلاقی علوم نیز قرآن کریم کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے مکتب امام موفق نیشابوری میں داخلہ لیا اور زیور علم ودانش اور اخلاقیات سے آراستہ ہوئے۔ خیام نے نوجوانی میں ہی فلسفے اور علوم ریاضی میں تبحر حاصل کرلیا اور مزید علوم حاصل کرنے کے لئے 461 ہجری میں نیشاپور سے سمر قند گئے ۔وہ سمرقند سے اصفہان گئے جہاں اپنے اٹھارہ سا لہ قیام کے دوران ملک شاہ کے فرمان پر بننے والی رصد گاہ میں علم نجوم کی تحقیقات میں مصروف رہے۔ پھر جب ملک شاہ کے ورثا میں سلطنت کے لئے لڑائی شروع ہوئی اور علمی فروغ کے مسائل پس پشت ڈال دیئے گئے تو خیام اصفہان سے خرسان روانہ ہوگئے اور اپنی عمر کے باقی ایام مرو سمیت خراسان کے اہم شہروں میں گزارے اور ان کے زیادہ تر علمی کارنامے اصفہان سے واپسی پرخراسان میں ہی انجام پائے ہیں۔عمرخیام نیشاپوری کا فلسفہ ہمیشہ پرکشش رہا ہے ۔ جب کہ مغرب میں جیرالڈ کی وجہ سے خیّام کی شہرت اس قدر پھیلی کہ اُن کا نام خمریات کی علامت بن گیا۔
یوں بھی شراب ان اقوام کی زندگی کا جزوِ لازم، تو خیّام کی شاعری کا بنیادی استعارہ تھی۔خیّام نے مئے خانہ، جام، پیمانہ، پیالہ اور ساقی جیسی لفظیات سے ذکرِ معرفت، سرمستی اور عشق میں ڈوب جانے کی کیفیات کو رباعیات کا موضوع بنایا، تو عیش و عشرت کی دل دادہ یورپ کی اقوام نے اسے مئے نوشی اور وہ بھی بلانوشی سے تعبیر کیا، لہٰذا خیّام کے نام سے شراب خانے، جوا خانے اور نائٹ کلب بناڈالے،عمر خیّام کی سحر انگیز شخصیت پر متعدد ناولز بھی لکھے گئے پورے یورپ میں ایک عرصہ دراز تک انکی رباعیات کی دھوم رہی ۔ اُن کے اشعار پر انگریزی کے معروف ادیبوں یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی، اسٹیون کنگ اور دیگر نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے، وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیومنرو نے عمر خیّام سے متاثر ہو کر اپنا قلمی نام ہی ’’ساقی‘‘ رکھ لیا۔ اور خیّام کی شہرت صرف یہیں تک محدود نہیں، اُن کی زندگی پر ہالی وڈ کی متعدد فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
خیّام کی کتب کے قدیم نسخےعمر خیّام نے اپنی کئی کتب کی نقول تیار کروا کر اپنے عہد کے نام وَر اہلِ علم کو بھیجیں۔ بادشاہوں کے درباروں تک اُن کی رسائی کا اہتمام کیا۔ کتب خانوں تک پہنچائیں، مگر اپنی رباعیات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اس وقت دنیا میں اُس کی رباعیات کا جو سب سے پرانا نسخہ موجود ہے، وہ 1207ء کا ہے -گوگل ڈوڈل نے کو معروف عالم، فلسفی اور شاعر ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری کو عالمی سطح پر ان کے 971 ویں یوم پیدائش پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کا باعث ان کی رباعیاں بنیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ عمر خیام کی ایک ہزار سال بعد بھی پزیرائی ہو رہی ہے۔ سنہ 1970 میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے جبکہ سنہ 1980 میں ایک سیارچے (3095) کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔عمر خیام کے اشعار پر انگریزی کے معروف شاعر یوجین او نیل، اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ وغیرہ نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیو منرو نے عمر خیام سے متاثر ہوکر اپنا قلمی نام ہی 'ساقی' رکھ لیا۔خیام کا انتقال 1123 عیسوی میں نیشاپور میں ہوا اور وہیں سپردخاک کئے گئے ۔نیشاپور میں خیام کی آخری آرامگاہ آج بھی سیاحوں اور علم دوست حلقوں کا مرکز نگاہ مانی جاتی ہے
مضمون انٹر نیٹ سے حاصل کردہ معلومات نیز اپنی یاداشت میں محفوظ یادوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے-کیونکہ میری والدہ اور دادی محترمہ کا تعلق ایران سے تھا جس کے سبب ہمارے گھر میں اردو کے ساتھ فارسی ادب بھی موجود تھا
بتایا جاتا ہے کہ خیام کا مزارفردوسی کے مزار کے بعد اس صوبے کا دوسرا مرکز ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح جاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںکہا جاتا ہےکہ سالانہ ہزاروں سیاح ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
17 مئی عالمی یوم ثقافتی ورثے کے ساتھ ہی عمرخیام کی یاد کا دن بھی قرار دیا گیا ہے