Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعرات، 16 اکتوبر، 2025
حضرت لقمان کو ندائے غیبی آئ
بریسٹ کینسر -خاموش جانلیوا مرض
ایہ ایک سچی کہانی ہے جو میں نے معاشرے کی لڑکیوں اور خواتین کی آ گہی کے لئے انٹر نیٹ سے لے کر یہاں تحریر کی ہے -ا ٹھائیس سالہ ایم فِل سوشیالوجی کی طالبہ نازیہ* نے نہاتے ہوئے محسوس کیا کہ چھاتی میں ایک اُبھار سا بنا ہوا ہے۔ ہاتھ لگانے پر کچھ گُٹھلی جیسا احساس ہوتا تھا۔ لیکن کوئی خاص درد تکلیف وغیرہ نہ تھی۔ اس نے سوچا والدہ سے ڈسکس کر لے گی۔ چند ہفتے یونہی بےدھیانی میں یاد نہ رہا۔ ایک دن دوبارہ نہاتے ہوئے اس طرف دھیان گیا تو ماں سے اس بارے مشورہ کر ہی لیا۔ ماں نے کہا کوئی درد یا تکلیف ہے تو دکھا لیتے ہیں ڈاکٹر کو، ساتھ مشورہ دیا کہ زیادہ مسئلہ نہیں لگ رہا تو پیاز باندھ لو اور ساتھ وظیفہ پڑھ لو یہ آپ ہی “گُھل” جائے گی۔ چند ہفتے وظیفہ پڑھا، اور پیاز بھی باندھا اور ساتھ ساتھ زیتون کے تیل سے ہلکے ہاتھ مالش بھی کی۔ گویا نازیہ نے نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو یقین دلا دیا کہ ٹوٹکوں سے ابھار کا سائز کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ مطمئن ہو گئی۔ ابھار اپنی جگہ موجود رہا۔ خاموش۔ کسی تکلیف یا درد کے بغیر۔ جیسے طوفان سے پہلے سمندر ہوتا ہے۔چھے مہینے ایسے ہی گزر گئے۔ نازیہ کو بھول گیا کہ ایک چھاتی میں ابھار ہے۔
اب کے نازیہ کو عجیب سا درد دائیں بازو میں اٹھا، جیسے اس کی ہڈی میں کوئی سوراخ سا کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ درد کی دوا لی چند دن، اور درد کو آرام آ گیا۔ لیکن دوا چھوڑتے ہی درد نے پھر زور پکڑا۔ آخرکار قریبی ڈاکٹر سے مشورہ ہوا۔ اس نے کہا جوان لڑکی ہے اسے کیا ہونا ہے۔ کیلشیئم اور وٹامن ڈی تجویز کیا، ساتھ ایک تگڑا سا پین کِلر انجیکشن ٹھوکا اور گولیاں دے کر چلتا کیا۔ پھر سے عارضی آرام آ گیا۔ لیکن دوا کا کورس ختم ہوتے ہی پھر وہی تنگی شروع!اب نازیہ کو پریشانی ہوئی کہ یہ موئی درد جان کیوں نہیں چھوڑ رہی۔ اس نے اپنی ڈاکٹر دوست کو کہہ کر سرکاری ہسپتال سے ایکسرے کروایا۔ ایکسرے کروا کے ہڈی والے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ اس نے ایکسرے دیکھ کر کہا کہ اس میں کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے، آپ اس کو ذرا کینسر آوٹ ڈور میں دکھا کر آئیں۔ اور یوں میری نازیہ سے پہلی ملاقات کا بندوبست ہوا۔۔۔۔نازیہ نے مجھے سلام کر کے ایکسرے پکڑاتے ہوئے کہا کہ اسے بازو کی ہڈی میں درد کی شکایت ہے۔
میں نے ایکسرے دیکھتے ہی ہڈی کا پوچھنے کی بجائے اس سے پوچھا “آپ کو جسم میں کہیں کوئی گِلٹی محسوس ہوتی ہے”، جس کے جواب میں اس نے کہا کہ ہاں بس چھاتی میں ابھار سا تھا لیکن وہ وظیفے اور مالش سے بہتر ہو گیا، لیکن “تھوڑا سا” ابھی بھی ہے۔ وہ “تھوڑا سا” ابھار چیک کرتے ہی الارم بجنے لگے۔ میں نے نازیہ کو بائیاپسی، ہڈیوں کا اسکین اور سی ٹی اسکین لکھ کر دیے۔ رپورٹ میں چوتھی اسٹیج کا انتہائی اگریسیو بریسٹ کینسر تھا، جس کی جڑیں ہڈیوں میں ہی نہیں بلکہ جگر، پھیپھڑوں اور ایڈرینل گلینڈ میں بھی پہنچ چکی تھیں۔۔۔۔نازیہ کے علاج کا دورانیہ لگ بھگ اٹھارہ ماہ کا تھا۔ زندگی کے آخری چار ماہ اس نے بہت تکلیف میں گزارے۔ بستر پر معذوری کے عالم میں وہ کبھی کبھار اپنے دل کی باتیں کیاکرتی تھی۔ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔ ڈگری مکمل کرنا چاہتی تھی۔ ماں بننا چاہتی تھی۔ کچھ اور جینا چاہتی تھی۔ لیکن مقدر کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا۔۔۔شاید ہمارے ارد گرد بہت سی نازیہ موجودہوں۔
کیونکہ ہر نو میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں اس کا شکار ہوتی ہے۔ خواتین کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ چھاتی میں تبدیلیاں ہوں تو ڈاکٹر سے مشورے میں تاخیر نہ کریں۔ پہلی اسٹیجز میں اگر ہم اس بیماری کو پکڑ لیں تو اللہ کی مہربانی سے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے اچھے چانسز ہوتے ہیں۔ اگر آپ خاتون ہیں اور تصویر میں دکھائی گئی کوئی علامات آپ میں ہیں تو فوراً کسی ڈھنگ کے ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں۔ اگر آپ مرد ہیں تو اپنی خواتین کو آگہی دیں کہ جھجک، اور خواہ مخواہ کی شرم کو زندگی اور صحت سے قیمتی نہ جانیں۔ خواتین میں چھاتی کے سرطان کا شعور اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے اس کی بروقت تشخیص اور مؤثر علاج انتہائی ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت سرطان سے بچاؤ کی سہولیات کے لئے پر عزم ہیں۔ چھاتی کے سرطان کی بروقت تشخیص سے کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔چھاتی کے کینسر سے آگاہی کا مہینہ، ہر اکتوبر میں منایا جاتا ہے، چھاتی کے کینسر کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا ایک اہم وقت ہے، جو دنیا بھر میں خواتین کو متاثر کرنے والے سب سے عام کینسروں میں سے ایک ہے۔
مکران کوسٹل ہائی وے ' انتہائ خوبصورت ترین ہائی وے
مکران کوسٹل ہائی وے ایک نہایت ہی خوبصور ت شاہراہ ہائی وے کراچی سے گوادر تک جاتی ہے اور اس کی تعمیر 1988 میں شروع ہوئی اور 2007 میں مکمل ہوئی۔- کوسٹل ہائی وے کی کل لمبائی 653میل ہے ۔ اس کی تعمیر سے پہلے راستہ کچا اور سفر طویل تھا، لیکن اب یہ چند گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ یہ بلوچستان میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے منصوبے کا حصہ تھی، دو رویہ یہ شاہراہ کراچی، اورماڑہ، پسنی سے گزرتی ہے اور اپنی دلکش قدرتی مناظر کی وجہ سے پاکستان کی خوبصورت ترین شاہراہوں میں شمار ہوتی ہے۔مکران کوسٹل ہائی وے وہ راستہ ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے دلکش راستہ سمجھا جاتا ہے۔اس پر سفر کرنے کے لئے یہ حکومت کی جانب سے اجازت نامہ لینا ہوتاہے جو غیر ملکیوں کو ملک کے حساس علاقوں میں سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
گوادر سے افغانستان کے لیے تجارتی سامان کی ترسیل مکران کوسٹل ہائی وے 650 کلومیٹر دور ہے جو 25 اور ایران کے بارڈر تک لے جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر بلوچستان سے کراچی اور گوادر کے درمیان گزرتی ہے، جو بندرگاہوں اور مارا اور پسنی کے قریب سے گزرتی ہے۔اس شاہراہ سے گزرتے ہوئے آپ شاید دنیا کو محسوس کریں گے کہ یہ چند مقامات میں سے ایک ہے۔ آپ کے ہاتھ پر ساحل سمندر ہے، اور اس سے پہلے ریگستان میں ریت کے ٹیلے اور اس کے ساتھ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانیں ہیں۔یہ دیکھنا اور پڑھنا میں افسانوی لگتا ہے، یقین ہے کہ یہ دیکھنے میں زیادہ رومانوی اور افسانوی محسوس ہوتا ہے۔ آپ سے پہلے یہاں سے کسی کا گزر ہی نہیں ہوا۔کراچی سے رخصت کرتے ہوئے ’’ایم سی ایچ‘‘ کا ’’زیرو پوائنٹ‘‘ حب، بلوچستان میں۔ جہاں آپ مکران ساحلی شاہراہ پر ایک بار جب آپ ایم سی آپریشن شروع کریں تو زمین کے خدوخال میں کافی حد تک تبدیلی آ جاتی ہے۔زمین کے خدوخال کے لیے یہ دلکش حیرت زدہ ہو جاتا ہے
، اور ہر چند کلومیٹر کے بعد آپ کو یہ نیا ہوتا ہے یا تو ایک پتھریلی بنجر زمین یا صحرا کے ریت کی چیز دیکھنے کے قابل ہے۔اسی ایچ کی پہلی والی پہلی کشش ’مڈ والکینوز‘۔ ایک گھنٹہ اضافی سفر کرتے ہوئے، آپ ہر ایک کے لیے ایک ابھرتی ہوئی نئی سیاحتی منزل، پرسکون ساحل پر پہنچ گئ -مکران کوسٹل ہائی وے کے مختلف مقامات پر یہ مٹی اگلتے پہاڑ ہیں۔ ان پہاڑوں سے گرم مٹی نکلتی ہے جس کو والکینک ایش بھی کہتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں یہ مٹی اگلتے پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ ان سب میں نامور چندرگپ مڈ والکینو ہے۔مٹی اگلتے پہاڑوں کی تعداد بلوچستان میں 100 کے قریب بتائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ چھوٹے سے بڑے ہر سائز میں ہمیں مل سکتے ہیں۔ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ پہاڑ بہت مقدس ہیں۔ وہ ان پہاڑوں کو پانے جسم پر مل کر خاص روحانی طاقت اور سکون محسوس کرتے ہیں۔
بلتی شاعر علی احمد قمر، جو چار زبانوں میں شاعری کرتے ہیں
ویسے تو قیام پاکستان سے قبل ہی اردو زبان و ادب کا پودا گلگت بلتستان میں نمو پا چکا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد بلتی شعراء کرام کی ادب پروری ہوتے'ہوتے پہلی بار موضع سکردو میں پہلی ادبی انجمن "شائقین ادب” کے نام سے ایک تناور درخت کی شاخت سے وجود میں آگیا۔۱۹۸۰ء کے دہائی تک آتےآتے شاعروں کی ایک بڑی کھیپ ایسی تیارہوگئی جن کے ہاں اردومقامی زبان کی نسبت زیادہ استعداد کے ساتھ ذریعہ اظہارقرارپائی۔ اس دورمیں جن شاعروں کو مقامی سطح پرشہرت حاصل ہوئی یاجن کا کلام ادبی رسائل وجرائد کے توسط سے پڑھااور سراہاگیاان کی فہرست طویل ہے حفظ مراتب اور شاعری کے زمانہ آغازسےقطع نظردرجہ ذیل شعراء کے نام اس دور کی اردو شاعری کے حوالے سےقابل ذکرہیں۔ ، بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سےملیے بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سےبلتستان کے سینیئر شاعر علی احمد قمر، جو چار زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور حکومتِ پاکستان سے ایوارڈ بھی وصول کیےعلی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے
لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے کہرا جسم مگر کسی حد تک خمیدہ، سر پر بالوں کی سفیدی زیادہ نمایاں اور چہرے پر داڑھی۔ علی احمد قمر سے مل کر نہیں لگا کہ وہ ادھیڑ عمری سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔گفتگو کی تو کھلا کہ آواز میں بڑا طنطنہ اور جوش ہے حالانکہ اکثر لوگ اس عمر میں کھردری آواز کے مالک بن جاتے ہیں مگر علی احمد قمر کی آواز صاف اور اس میں کسی نوجوان کی سی تازگی اور فرحت موجود تھی۔خنک دار آواز میں انہوں نے جب اشعار سنائے تو یوں لگا کہ جیسے کوئی نوجوان شاعر بڑے چاؤ سے اپنی قلبی واردات کو الفاظ کے مخملی لباس میں ملفوف پیش کر رہا ہے۔علی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے۔ کہاں پاکستان کا آخری کونا سلترو گوما اور کہاں مسوری انڈیا لیکن اس تعلق کا پس منظر بھی بڑا دلچسپ ہے۔انڈیا پاکستان کے بٹوارہ سے پہلے بلتستان کے لوگ اپنا رزق کمانے کے لیے، شملہ، نینی تال، میسوری، ڈلہوزی، کلو اور کرگل لداخ کا رخ کرتے تھے۔
کیونکہ وہاں کا موسم معتدل تھا لہٰذا میدانی علاقوں کی نسبت ان جگہوں پر رہنا قابل برداشت تھا۔ ان متذکرہ جگہوں تک جانے کے لیے بڑا طویل پیدل راستہ اختیار کیا جاتا تھا۔ سکردو یا خپلو سے کرگل پھر لداخ وہاں سے پھر آگے ان جگہوں کی طرف جانا پڑتا تھا۔علی احمد قمر کے والد بھی 1947 سے کافی پہلے میسوری گئے اور وہیں پر اپنے قدم جما کر زندگی کے شب و روز گزارنے لگے۔ ان کے کئی اور رشتہ دار اور علاقے کے لوگ بھی وہاں اپنے قدم جمائے ہوئے تھے ۔ وہیں پر علی احمد قمر کی ولادت ہوئ ۔علی احمد قمر کا گھرانہ بھی ہجرت کر کے پہلے پہل لاہور پہنچا اور پھر وہاں سے مری جا کر بس گیا جہاں ان کی تعلیم و تربیت مکمل ہوئی۔ہم نے جب ان سے اُردو شاعری کی طرف راغب ہونے اور شعر کہنے کے شوق کا پوچھا تو ان کہنا تھا کہ بطور علی احمد قمر ان کا نام آٹھویں جماعت میں درج ہوا اور اس نام کے پیچھے بھی ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے۔انہوں نے بتایا کہ والد نے ان کا نام علی محاما رکھا تھا اور یہ بلتستان میں عام مروج نام تھا جو یقیناً علی محمد کا مقامی بگڑا تلفظ ہے۔
سکول میں اسے کچھ اور بگاڑ کر علی ماما لکھا گیا تھا جو آٹھویں جماعت تک جوں کا توں رہا۔تاہم ہیڈ ماسٹر نے آٹھویں کلاس میں نام کی تبدیلی کے لیے خود ان سے دریافت کیا کہ کیا لکھا جائے یوں انہوں نے خود کو علی احمد قمر لکھوایا۔انہوں نے بتایا کہ انہیں شعرو سخن سے دلچسپی سکول دور سے شروع ہوئی تھی۔ علی احمد قمر کی شعری تخلیقات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذہنی میلان غزل کی طرف زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ تر شعری مجموعے جو شائع ہو چکے ہیں وہ غزلوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں پہلا مجموعہ ’زخم گل‘ 1976 میں شائع ہوا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ غالباً بلتستان کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں جن کا اردو میں پہلے پہل کلام منظر عام پر آیا۔
بدھ، 15 اکتوبر، 2025
کراچی کے جزائر'ماہی گیروں کی جنت ہیں پارٹ2
علی حسن کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے یہ آرڈیننس جاری کر کے ان جزیروں پر ماہی گیروں کے حقِ ملکیت کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ جزیرے اور ان سے ملحقہ تمر (mangrove) کے جنگلات قانونی طور پر ہماری ملکیت ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کے کاغذات ہمارے پاس موجود ہیں'۔خطرات اور خدشات-محمد علی شاہ پچھلی کئی سالوں سے ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، کراچی کے جنوب مغرب میں واقع جزائر، جن میں بھنڈار اور ڈنگی بھی شامل ہیں، آٹھ لاکھ کے قریب ماہی گیروں کے لیے روزگار اور رہائش کا ذریعہ ہیں۔ 'اگر یہاں شہر تعمیر کر دیے جاتے ہیں تو بہت بڑی تعداد میں ماہی گیروں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے'۔محمد علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار ہزار کے قریب مزید ماہی گیر جو کراچی اور ٹھٹھہ سے منسلک ساحل پر رہتے ہیں مختلف ندیوں کے ذریعے کھلے پانیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو انہی جزیروں کے پاس سے گذرتی ہیں اور جن میں سب سے بڑی ملیر ندی ہے۔ 'لیکن صدارتی آرڈیننس کے تحت جب بھنڈار اور ڈنگی کو شہر کے باقی حصوں سے ملا دیا جائے گا تو ماہی گیروں کی یہ رسائی ختم ہو جائے گی جس کے باعث ان کا روزگار شدید طور پر متاثر ہو گا'۔
ماہرہ عمر کو ماہی گیروں کے معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ آبی اور جنگلی حیات کو لاحق ہونے والے سنگین خطرات کی بھی فکر ہے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر دستاویزی فلمیں بناتی ہیں اور انہوں نے کراچی اور اس کے ارد گرد موجود تمر کے جنگلات پر کئی سال تحقیق بھی کی ہے- ان کا کہنا ہے کہ بھنڈار، ڈنگی اور اس طرح کے دوسرے جزائر 'کے ایک ایک انچ پر قسم قسم کی سمندری مخلوق پائی جاتی ہے جو یہاں موجود قدرتی ماحول میں افزائش پاتی ہے'۔ اس لئے وہ سمجھتی ہیں کہ 'ان جزائر پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز یہاں موجود آبی اور قدرتی حیات کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو گا'۔بھنڈار اور ڈنگی کے بارے میں ماہرہ عمر کا خاص طور پر کہنا ہے کہ ان جزائر پر پختہ زمین نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کا بیشتر حصہ کیچڑ اور گیلی مٹی پر مشتمل ہے کیونکہ یہ دریاؤں کی لائی ہوئی سِلٹ کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ 'یہ کیچڑ اور دلدلی زمین گھونگوں اور کیچڑ میں پیدا ہونے والی مچھلیوں کی قدرتی نشوونما کے لیے لازم ہیں۔ شہری بستیوں کی تعمیر سے اس تمام آبی حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا'۔
ماحولیاتی امور کے ایک اور ماہر نصیر میمن کا خیال ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی پر رہائشی اور تجارتی عمارات کی تعمیر پورے کراچی کے لئے ایک ماحولیاتی خطرہ بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی ان جزائر پر لاکھوں ایکڑ پر تمر کے جنگلات پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کا رقبہ سکڑ کر ستر ہزار ایکڑ تک رہ گیا ہے۔ 'اگر یہاں سے مزید جنگلات ختم کیے گئے تو مستقبل میں کراچی کو خطرناک سونامیوں کا سامنا ہو سکتا ہے'۔کراچی کے مشہور سماجی محقق اور ماہرِ تعمیرات عارف حسن بھی معاشی اور ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر اِن جزیروں پر شہری آبادیاں بسانے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے تحت یہاں تعمیرات کی اجازت دینا دراصل رامسار کنوینشن (Ramsar Convention) کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں۔یہ بین الاقوامی کنوینشن 1971 میں ایران کے شہر رامسار میں منظور کیا گیا اس کا مقصد دنیا کے مختلف حصوں میں موجود نم زمینوں (wetlands) کو جنگلی اور آبی حیات کی پناہ گاہوں کے طور محفوظ کرنا ہے۔ جب پاکستان نے 23 نومبر 1976 کو اس کنوینشن کی توثیق کی تو 19 مقامی جگہوں کو اس کے تحت تحفظ مل گیا۔
ان جگہوں میں وہ تمام جزائر، ساحلی علاقے اور جھیلیں شامل ہیں جو دریائے سندھ اور دوسری ندیوں کے سمندر میں گرنے کی وجہ سے قدرتی طور پر وجود میں آئی ہیں۔ ان wetlands کا کل رقبہ 1،343،807 ہیکٹر ہے۔/عارف حسن کے مطابق ان جزائر پر شہری آبادی بنانا ایک طرف تو کراچی کے ماحولیاتی بگاڑ کو اور شدید کردے گا اور دوسری طرف یہ اقدام یہاں موجود پرندوں، کیکڑوں اور نایاب ہرے کھچووں کی قدرتی افزائش کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ وہ کہتے ہیں: 'بھنڈار اور ڈنگی کے سبز جزائر کراچی کے گرد و نواح میں بچ جانے والے وہ واحد علاقے ہیں جہاں ابھی تک کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے شہر میں ماحولیاتی استحکام قائم رکھنے میں ان جزائر کا ایک اہم کردار ہے۔ ان پر پختہ تعمیرات کرنا کراچی کو مستقبل میں سنگین قدرتی آفات کے منہ میں دھکیل دے گا'۔ ۔محمد علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی کے جزائر پر صدارتی آرڈیننس کے تحت شہر بنانے کی اجازت دینا آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کی ضمانت کی خلاف ورزی ہے اور مضبوط مرکزی حکومت کی حامی قوتوں کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاقی کنٹرول کے تحت لانے کے وسیع عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔ان کے بقول اس طرح کی کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔
کراچی کے جزائر' ماہی گیروں کی جنت ہیں
کراچی کی سمندری حدود میں صرف نو ایسے جزائر ہیں جو آباد ہیں، ان میں شمس پیر، بابا، بھٹ چاگلو، قلعو، کنیری، واگورو اور بھنڈار شامل ہیں۔ شمس پیر جزیرے کی جیٹی کے قریب نیوی نے مینگرووز کاٹ کر نیول پوسٹ بنا لی ہے۔سندھی میں تحریر کی گئی کتاب کے مصنف کے مطابق صالح آباد جزیرہ تھا لیکن منوڑہ کو بذریعہ سڑک ملانے کے بعد یہ آبادی بن چکی ہے اس طرح منوڑہ بھی جزیرہ نہیں رہا یہ کنٹمونمنٹ ایریا ہے۔ یہاں دو قلعوں کے آثار موجود ہیں جو کراچی شہر اور بندرگاہ کی حفاظت کے لیے بنائے گئے تھے۔باتھ آئی لینڈ کو مصنف کے مطابق مقامی طور پر ’خرکھاری‘ کہا جاتا تھا۔ انگریز دور میں اس کی جزیرے والی حیثیت ختم کردی گئی تھی اور اسی طرح کلفٹن جسے ’ہوا بندر‘ کہا جاتا تھا وہاں بھی جزیرہ نہیں رہا۔کلفٹن کے بارے میں مصنف نے مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ سندھ کے فاتح چارلز نپیئر برطانیہ میں جہاں پیدا ہوئے اس علاقے کا نام کلفٹن تھا۔ اس وجہ سے ہوا بندر کا نام کلفٹن سے منسوب کیا گیا۔
مشہور محقق گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ اس کے دوسری جلد میں وہ ٹھٹہ اور بدین کے جزائر کی تفصیلات بیان کریں گے۔گل حسن کلمتی ڈیفنس کے قریب گذری کے علاقے کو ’گسری بندر‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں کے پہاڑوں کا پتھر کراچی کی قدیم عمارتوں میں استعمال کیا گیا۔ بعد میں یہ علاقہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں آگیا اور میرین ڈرائیو کی وجہ سے ماہی گیروں پر مچھلی کا شکار کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔گل حسن کلمتی نے کراچی کے چھوٹے بڑے تمام ہی جزائر کا خود دورہ کیا ہے اور یہ کتاب تحریر کی ہے۔ تحقیق میں برطانوی دورِ حکومت کے افسران کی ڈائریوں اور سرکاری ریکارڈ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔مصنف کے مطابق جزائر پر پینے کے پانی، صحت اور صفائی، کھیل کے میدانوں کا فقدان دیکھا گیا۔ بابا اور بھٹ جزائر میں قبرستان نہیں ہیں اور وہاں کے لوگ تدفین کے لیے میتیں موروڑو قبرستان، شیر شاہ اور میوہ شاہ قبرستان لیاری لے کر جاتے ہیں۔کراچی میں ان دنوں چرنا جزیرہ سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ کی وجہ سے مقبول ہے۔ گل حسن کے مطابق یہ جزیرہ سندھ اور بلوچستان کی سمندری سرحد ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک پہاڑ ہے جس پر انسانی آبادی نہیں ہے۔
حب ندی سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ جزیرہ 1.2 کلومیٹر لمبا اور نصف کلومیٹر چوڑا ہے۔ یہاں مچھلیوں کی مختلف اقسام سمیت سبز کچھوے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس جزیرے کو پاکستان نیوی فائرنگ رینج کے طور پر استعمال کرتی ہے۔مصنف کے مطابق چرنا کے قریب ماہی گیروں کے تین گاؤں موجود ہیں۔ نیوی نے انھیں وہاں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کے ان کے پاس برطانوی دور کے کاغذات موجود تھے۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن اب ان علاقوں میں کسی عام شخص کو جانے کی اجازت نہیں جب تک کوئی مقامی شخص ساتھ نہ ہو۔سینڈز پٹ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ مقامی لوگ اسے ’دوہو‘ کہتے تھے اب اس سے ملحقہ علاقے کو ہاکس بے کہا جاتا ہے۔ انگریز دور میں مسٹر ہاکس کی بیوی بیمار ہوگئیں اور موسم کی تبدیلی کے لیے وہ انھیں یہاں لے کر آئے جس کے بعد سے اس کا نام ہاکس بے پڑ گیا۔کراچی کے ساحلی جزیروں پر تعمیرات کا منصوبہ: ماہی گیروں اور قدرتی ماحول کے لیے سنگین خطرہ۔
دابلو قبیلے کے ماہی گیر سندھ کے زیریں ضلع ٹھٹھہ کے علاقے کیٹی بندر میں رہتے تھے لیکن کچھ دہائیاں پہلے سمندر کا کھارا پانی ان کی زمینوں اور بستیوں میں گھس کر انہیں نا قابلِ رہائش بنانے لگا تو انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کے بارے میں سوچنا پڑا۔ان میں سے ایک ماہی گیر علی حسن کے بقول نئی جگہ کے انتخاب کے دوران ان کے پیشِ نظر دو ہی باتیں تھیں، ایک یہ کہ وہ وہاں آسانی سے مچھلیاں پکڑ سکیں اور دوسری یہ کہ انہیں اپنا نیا گھر جلدی نہ چھوڑنا پڑے۔ اس لئے انہوں نے کراچی کے ساحل کے ساتھ واقع دو سمندری جزیروں – بھنڈار اور ڈنگی -- کا انتخاب کیا جو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے انتہائی مغربی حصے – فیز آٹھ – سے لگ بھگ ڈھائی کلومیٹر مغرب میں سمندر کے اندر واقع ہیں اور باقی شہر سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔علی حسن اور ان کا قبیلہ یہاں کئی برسوں سے رہ رہا ہے۔لیکن اب انہیں ایک بار پھر نقل مکانی کا سامنا ہے کیونکہ صدرِ پاکستان عارف علوی کی طرف سے یکم ستمبر 2020 کو ایک آرڈیننس نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کی سرحدوں کے اندر واقع تمام سمندری جزیروں پر رہائشی، تجارتی اور صنعتی منصوبوں کو فروغ دینے کے لئے پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک نیا وفاقی ادارہ بنایا جائے گا جس کے اولین منصوبوں میں بھنڈار اور ڈنگی – جنہیں سرکاری کاغذات میں بُنڈل اور بُڈو کہتے ہیں -- میں پرُ آسائش رہائشی سکیموں اور اونچی اونچی تجارتی عمارات کی تعمیر شامل ہے۔
تحریر انٹرنیٹ سے لی گئ ہے
منگل، 14 اکتوبر، 2025
"وردزیا غار کمپلیکس" ایک جنگجو ملکہ کی عظیم الشان تعمیرpart '2
اس کے باوجود، وردزیا کو قدرتی زوال اور انسانی اثرات کی وجہ سے تحفظ کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ تحفظ کی کوششیں ایک مشترکہ ترجیح بن گئی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آنے والی نسلیں اس جگہ کے اس دور کا تجربہ کر سکیں۔ زیارت اور تعلیم کی جگہ کے طور پر وردزیا جارجیا کی پیچیدہ تاریخ اور ثقافتی شناخت کو سمجھنے میں ایک لازمی کردار ادا کرتا ہے۔ملکہ تمر کے تحت تعمیراتی آغاز، شاندار غار کمپلیکس، 12 ویں صدی میں ملکہ تمر کے دور میں جارجیا کے قلب سے نکلا تھا۔ اس کا آغاز حملہ آوروں کے خلاف ایک تزویراتی دفاع کے طور پر ہوا، جلد ہی ایک پھلتے پھولتے خانقاہی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ یہ شہر ملکہ تمر کے طاقت اور تقویٰ کے وژن کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ہزاروں راہب اور ان کے مقدس فن پارے موجود ہیں۔ وردزیا کے چٹان سے بنے فن تعمیر نے وقت اور فطرت کا مقابلہ کیا، جارجیائی تاریخ کو اپنی دیواروں میں محفوظ رکھا۔-خانقاہی زندگی اور فنی اظہاروردزیا میں زندگی عقیدت اور فنکاری کا امتزاج تھی، جو اس کے چرچ کی دیواروں کو سجانے والے فریسکوز میں گونجتی تھی۔
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد
مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
خوبصورت اور لہلہاتے قدرتی نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...