آج ہی یہ تحریر انٹرنیٹ سے ملی ہے غور سے پڑھئے
سعودی عرب نے پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سخت اقدامات کیے ہیں، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں: بڑے پیمانے پر ملک بدری: سال 2025 میں اب تک 24,000 سے زائد پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کے الزام میں سعودی عرب سے ڈی پورٹ (ملک بدر) کیا جا چکا ہے۔ مجموعی طور پر حالیہ برسوں میں سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانی بھکاریوں کی تعداد 56,000 تک پہنچ گئی ہے۔ویزہ پالیسی میں تبدیلی: فروری 2025 سے سعودی حکومت نے پاکستان سمیت 14 ممالک کے لیے ملٹی پل انٹری وزٹ ویزے معطل کر دیے ہیں اور اب صرف 30 دن کا سنگل انٹری ویزہ جاری کیا جا رہا ہے تاکہ ویزے کے غلط استعمال اور غیر قانونی قیام کو روکا جا سکے۔پاکستان میں سخت کارروائی: حکومتِ پاکستان نے بھکاریوں کی وجہ سے ملک کی بدنامی روکنے کے لیے ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (ATA) کے تحت مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 2025 ایف آئی اے نے اب تک 51,000 افراد کو مشکوک سفری دستاویزات یا بھیک مانگنے کے شبے میں ایئرپورٹس سے آف لوڈ کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھکاریوں کے گروہ چلانے والوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے اور ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ یا بلیک لسٹ میں ڈالنے کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔عمرہ ویزے کا غلط استعمال: حکام کے مطابق بہت سے پیشہ ور بھکاری عمرہ ویزہ حاصل کر کے وہاں جاتے ہیں اور مقررہ مدت کے بعد واپس نہیں آتے،۔ کچھ عرب ممالک اور عراق میں گرفتار کیے جانے والے بھکاریوں میں سے 90 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔ حرم کے اندر زیادہ تر جیب کترے بھی پاکستانی ہوتے ہیں۔پیشہ ور بھکاری عمرے یا وزٹ ویزا پر جاتے ہیں-، اسلام آباد میں مقیم سفیر ہمیں کہتے ہیں کہ آپ عادی مجرم ہمارے پاس بھیجتے ہیں جس سے ہماری جیلیں بھر گئی ہیں۔ یہ انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ ہے۔ بھکاری زیادہ تر عمرے یا وزٹ ویزے پر جاتے ہیں اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگتے ہیں۔ ہمارے کئی افراد اس لیے ڈی پورٹ ہو رہے ہیں کہ وہ وہاں جاکر بھکاری بن جاتے ہیں۔"پاکستانی زائرین پر اب عراق میں بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ افراد وہاں بھی گداگری کا پیشہ اپنا لیتے ہیں۔
اب عراق نے بھی پاکستانی زائرین پر کافی سختی کر دی ہے، جس کا سبب پاکستانیوں کی غیر قانونی سرگرمیاں ہیں، ”عراق میں معاوضہ ڈالر کی شکل میں ملتا ہے اس لیے کچھ لوگ زائرین کے روپ میں وہاں کمائی کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے افراد اربعین کے دنوں میں بھیک مانگتے ہیں اور بعد میں وہیں چھپ کر مزدوری کرنے لگتے ہیں۔ جیسے ہی پکڑے جائیں تو ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں۔‘‘عراقی قوانین میں بھکاریوں پر مالی جرمانہ اور ایک سے چھ ماہ تک کی قید کی سزا ہے۔ سید ہادی حسن کے مطابق یہ افسوسناک ہے لیکن بعض پاکستانی شہری ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں جو باقی کمیونٹی کے لیے شرمندگی کا باعث ہوتا ہے،''اب جب تک زائرین کے قافلے میں شامل تمام افراد واپسی پر ساتھ نہ ہوں عراقی حکام پلٹنے نہیں دیتے، چاہے کئی کئی دن سرحد پر انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔"عراق سے شائع ہونے والے آن لائن نیوز پیپر عراقی نیوز نے 2018ء میں دو سو پاکستانی بھکاریوں کی گرفتاری کی خبر دی تھی۔متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبار دی نیشنل میں2017ء کے دوران ایک رپورٹ 'عمان اور یمن میں رمضان کے دوران پاکستانی بھکاریوں کے جھرمٹ‘ کے نام سے پبلش ہوئی۔اس کے مطابق، ”رمضان کے مہینے میں کچھ پاکستانی گوادر کے راستے عمان اور یمن پہنچ کر بھیک مانگتے ہیں۔ یہ گداگر مساجد کے باہر ہی نہیں بلکہ در در جا کر بھی یہ کام کرتے ہیں۔"
اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کہتے ہیں، ''بہت معمولی تعداد یہ شرمناک حرکت کرتی ہے مگر بطور پاکستانی بدنامی ہم سب کی ہوتی ہے۔"وہ کہتے ہیں، ”ہر سال لاکھوں پاکستانی محنت مزدوری کرنے ملک سے باہر جاتے ہیں ان میں کتنے افراد بھیک مانگتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ چند سو جو مجموعی تعداد کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔ بعض اوقات میڈیا نان ایشو کو ایشو بنا دیتا ہے۔"وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے ملک کی ساکھ مجروح ہوتی ہے اور ایسے افراد کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں جو واقعی پڑھنے کے لیے، زیارات کے لیے یا مزدوری کے لیے ورک ویزا پر جا رہے ہوتے ہیں۔لیکن دیلھا جاے تو ایک مسئلہ ہمارے ملکی معاشی حالات بھی ہیں جہاں ہماری بہت سے فیکٹریاں بند ہو چکی ہیی۔کاروبار چل نہیں رہے اور کسی بھی قسم کی بیرونی انویسٹمنٹ اس وقت ملک میں نہیں آرہی ہے جسکی وجہ سے بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے اور ہر سال ان بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں مزیر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو مثبت طریقے سے ملکی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔ورنہ یہ ایک چلتا پھرتا اٹامک بمب ہیں۔جنکو بہت سے غلط سرگرمیوں میں ملوث لوگ چند پیسوں کا لالچ دے کر اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں۔حکومتی سطح پر ایک سنجیدہ سوچ کا ہونا بہت ضروری ہے۔طلبہ کو ڈگریوں کی بجاے ٹیکنیکل تعلیم کی طرف لے کر جانا ہو گا۔سکلڈ ورکرز کی پوری دنیا میں مانگ ہوتی ہے۔اور کم از کم سکلڈ لوگ عزت سے پیسے کماتے ہیں اور ملکی عزت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔زرا سوچئے
ایسے مافیاز پر ہاتھ ڈالنا حکومت کا فرض بنتا ہے
جواب دیںحذف کریں