تین زبانوں میں گیت گانے والی پاکستانی فوک گلو کارہ نصیبو لال ۔ نصیبولال کی والدہ کلورکوٹ کی مشہور "ببلی گڈوی والی" تھیں۔1970 میں اسی ببلی گڈوی والی کی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام نصیبولال رکھا گیا اور واقعی وہ نصیبولال ثابت ہوئی۔ نصیبولال نے بھی کلورکوٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ گانے بجانے کا کام کیا اور کلورکوٹ میں ان کو گڈوی والی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ نصیبولال کے خاندان کے لوگ کلورکوٹ سے باہر بھی گانا گانے جاتے تھے اور کچھ ان کے لوگ مستقل طور پر بڑے شہروں میں چلے گئے۔ ایک محفل میں نصیبولال کو گانے کا موقع دیا گیا جس کی آواز کو اتنا پسند کیا گیا کہ ان کو بہت سے شادی کے گانے کے پروگرام میں بلایا گیا۔ اسی طرح نصیبولال ریڈیو پاکستان تک پہنچ گئی جہاں انہوں نے اپنی آواز کے ایسے سُر بکھیرے کہ لوگ نصیبولال کو ڈھونڈنے لگے۔ انھوں نے کوک اسٹوڈیو کے نویں سیزن میں بطور نمایاں فنکار کے طور پر کام کیا، انہوں نے راجپوتانہ ، ہندوستان میں ایک خانہ بدوش گھرانے میں جنم لیا ۔ بچپن کی ابتدائی عمر میں ہی گلوکاری کا آغاز کیا اور مشہور ہوگئیں۔ ان کے کریڈٹ میں ان کے بہت سے گانے ہند و پاک دونوں ملکوں میں یکساں مقبول ہیں ۔آپ کو بین الاقوامی میوزک شوز میں بھی مدعو کیا جاتا ہے-پاکستان کی مایہ ناز گلوکارہ نصیبولال کا خاندان 1947 سے پہلے انڈیا علاقہ راجھستان میں رہتے تھے۔
ان کا خاندان گلی محلوں میں ہونے والی تقریبات میں بالخصوص شادی بیاہ میں گیت گا کر اپنی معاشی ضروریات پوری کرتا تھا ۔ یہ راجھستان کے ثقافتی گلوکار تھے جو راجھستانی لباس کے ساتھ راجھستانی گانے بھی گایا کرتے تھے۔ لوک موسیقی بھی راجستھانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ لوک گیت عام طور پر بہادری کے کاموں اور محبت کی کہانیوں سے متعلق ہوتے ہیں اس وقت راجپوتوں کے محلوں میں انگریزوں کو عشایہ رکھا جاتا تو ان مقامی گلوکارں کو بھی بلایا جاتا جن کے لباس اور گانوں سے انگریز بہت خوش ہوتے اور ان کو کچھ انعامات سے بھی نواز دیتے۔ 1947 کی تقسیم کے وقت نصیبولال کا خاندان نے بھی انڈیا سے پاکستان ہجرت کی ۔ وہ ٹرین ان کو اس وقت کے ضلع میانوالی اور آج کا ضلع بھکر کے شہر کلورکوٹ میں لے آئی۔کلورکوٹ میں آجانے کے بعد نصیبولال کے خاندان نے گلوکاری کو جاری رکھا اور شروع میں ان کے خاندان نے اپنے راجھستان لباس پہنے رکھا جس میں مرد کرتی لنگی اور رنگ برنگی پگڑی اور عورتیں کسی بڑی محفل میں ساڑی پہنتی تھی اور محفل میں ان کے لباس سے مزید نکھار پیدا ہو جاتا اور یہ لباس ان کی ایک پہچان بھی تھی۔ فلم انڈسٹری نے نصیبولال سے بہت گانے رکارڈ کیے لیکن فلمانڈسٹری کے حلات خراب ہونے کے بعد نصیبولال نے لاہور تھیٹر کے لیے گانے رکارڈ کرئے مگر وہ گانے ان کو راس نہیں آئے۔ تو پھر وہ اپنے ٹریک پر واپس آگئیں اللہ نے نصیبو لال کی قسمت میں بے پناہ شہرت بھی رکھی اور دولت بھی رکھی -نصیبو لال جو اپنے بچپن کی عمر سے اپنی ماں کی مددگار بن کر کھڑی ہوئیں تو اللہ نے بھی ان کا ہاتھ تھام کر بتا دیا کہ ہم کسی کی محنت کو رائگاں نہیں کرتے ہیں
اب نصیبو لال اور ان کے خاندان کے کچھ فرد لاہور شاہدرہ کے گڈوی ولے محلے میں رہتے ہیں۔ نصیبولال ساڑی پہنتی ہیں اور ایک انٹرویو میں ان سے سوال ہوا کہ آپ زیادہ ساڑی کیوں پہنتی ہیں انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا خاندان 1947 سے پہلے راجھستان سے تھا اور وہاں کا ہمارا لباس ساڑی تھا اور پاکستان آنے کے بعد ہم نے یہی اپنا لباس رکھا۔ کلورکوٹ میں پیدا ہونے والی نصیبولال نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی اپنے سُر کے جادو جگا چکی ہیں اور بہت سے ملکی اور غیر ملکی عزاز اپنے نام کیے۔نصیبو لال چنگڑ قوم سے تعلق رکھتی ہے بھکر کے علاقے کلور کوٹ سے اسکا تعلق ہے لیکن یہ لوگ خانہ بدوش لوگ تھے جن کو پکھی واس جھونپڑوں والے کہا جاتا ہے تو یہ لوگ نگر نگر گھوما کرتے تھے۔کبھی کہاں جھونپڑیاں لگا لیں تو کبھی کہاں۔۔نصیبو گھڑوی بجاتی تھی اور اسکی ماں اور اسکی بڑی بہن تینوں مل کر گانا گاتی تھیں۔۔نصیبو کی ماں کی آواز بھی بہت سریلی تھی اور نصیبو کی بڑی بہن فرح کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی۔ یہ تینوں ماں بیٹیاں ٹرک اڈوں پر دوکانوںپر گھڑوی پر گانے سنا کر پانچ پانچ روپے وصول کرتی تھیں۔1998 /99 کے زمانے میں پانچ روپے کی بڑی قدر ہوتی تھی۔نصیبو کے خاندان نے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں کے نواحی قصبہ آدھی والی کھوئی میں اپنی جھونپڑیاں لگائی تھیں اور قصبے میں تینوں ماں بیٹیاں گھڑوی پر گانا بھی سناتی تھیں۔
وہاں پر ایک بڑا زمیندار تھا جس کا نام تھا پیر پپو چشتی۔ پیر پپو نے جب نصیبو کا گھڑوی پر گانا سنا تو اسے نصیبو کی آواز دل کو لگی اور اس نے اپنے خرچہ پر لاہور کی ایک کیسٹ کمپنی میں نصیبو کا پہلا البم ریکارڈنگ کروایا جس کا گیت تھا۔وے توں وچھڑن وچھڑن کرنا ایں جدوں وچھڑے گا پتہ لگ جاو گا۔اسی البم کا دوسرا گیت تھا۔ جِنے ٹکڑے ہونے دل دے وے ہر ٹکڑے تے تیرا ناں ہونایں۔یاد رہے پہلے البم کے وقت یہ صرف نصیبو ہی تھی نصیبو لال نہیں تھی۔پہلا البم نصیبو کا اتنا ہٹ ہوا کہ سپرہٹ ہوگیا۔ انہی دنوں ملکہ ترنم نورجہاں کی وفات کو تھوڑا وقت ہوا تھا اور نورجہاں کے پرستار بہت بے چین تھے کہ نصیبو نے پہلا البم ریلیز کیا تو نورجہاں کے سب پرستار نصیبو کی طرف لپک پڑے اور نصیبو واحد سنگر ہے جو پہلے البم پر ہی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔بعد میں نصیبو نے اپنے نام کے ساتھ نصیبو لال لگا دیا اور موسیقی کی دنیا میں چھا گئی-نصیبو لال نے نورجہاں کی کمی پوری کر دی تھی بلکہ نورجہاں سے بھی زیادہ شہرت پا گئی۔نصیبو لال جھونپڑیاں چھوڑ کر لاہور شفٹ ہوگئی۔نصیبو نے اپنی ماں کو بھی سنگر بنانا چاہا مگر اس نےمعذرت کرلی کہ میری اب عمر ڈھل گئی ہے اپنی بہن کو سنگر بنا دیں۔نصیبو لال نے اپنی بہن فرح کو بھی سنگر بنا دیا جو فرح لال کے نام سے مشہور ہے
۔ لوک موسیقی بھی راجستھانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ بھوپا، چانگ، تیراتلی، گھندر، کچیگھوری، تیجاجی اور پارتھ ڈانس روایتی راجستھانی ثقافت کی مثالیں ہیں۔ لوک گیت عام طور پر گانٹھ ہوتے ہیں جو بہادری کے کاموں اور محبت کی کہانیوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ اور مذہبی یا عقیدتی گیت جنہیں بھجن اور بنیاں کہا جاتا ہے (اکثر آلات موسیقی جیسے ڈھولک، ستار اور سارنگی کے ساتھ) بھی گائے جاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں