اتوار، 30 نومبر، 2025

اجنٹا کے غار -عجوبہءروزگار

 جنوبی ہند کے غار، جو قدیم زمانے کے انتہائ ماہر کاریگروں نے پہاڑ تراش کر بنائے تھے۔ دراصل یہ حیدرآباد دکن کے نزدیک اورنگ آباد سے تیرہ میل شمال مغرب کی جانب واقع ہیں۔ ان کا زمانہ پانچویں سے دسویں صدی عیسوی خیال کیاجاتا ہے اور یہ 4\1 مربع میل علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کل غار یا عمارتیں چونتیس ہیں۔ ان میں بدھ مت کی بارہ۔ برہمنوں کی سترہ اور جینیوں کی پانچ ہیں۔پہاڑ کی جن چٹانوں کو تراش کر یہ غار بنائے گئے ہں۔ وہ خشک پہاڑ ہیں۔ ان غاروں کی ترتیب اور تراش میں معماروں نے کمال دکھایا ہے۔ چٹانوں کو کاٹ کر دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارتیں تیار کی گئی ہیں۔ ایک ہی چٹان سے دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارت کے چھت ،پیلپائے، دلان، حجرے، سیڑھیاں اور دیواروں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بت بنانا آسان کام نہیں۔ ان سنگ تراشوں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ اندازہ کر لیا کہ چٹان میں وہ عمارت کھودنے والے ہیں وہ اندر سے ٹھوس اور دراڑ کے بغیر ہےن عمارتوں کے کمرے بھی اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں ایک ہزار سے زیادہ آدمی ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔


تمام عمارتوں میں دو طرفہ زینے تراشے گئے ہیں جن پر چار رپانچ آدمی بیک وقت ایک ساتھ چڑھ سکتے ہیں۔ اسی سے باقی عمارتوں کی وسعت اور عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان میں ہوا اور روشنی کا بھی انتظام تھا۔ صرف چند کمرے ایسے ہیں جنھیں تاریک کہا جا سکتا ہے۔ان غاروں میں بے شمار تراشیدہ بت ہیں جن کی ساخت بتاتی ہے کہ اس زمانے کے سنگ تراش اپنے فن میں کس قدر ماہر تھے۔ بعض بت بہت بڑے لیکن طبعی تناسب کے لحاظ سے کاریگری کے بہترین نمونے ہیں۔ سب سے زیادہ بت بدھ،مہادیو اور پاربتی کے ہیں۔ مشہور ہے کہ مہادیو سب سے پہلے انھی پہاڑیوں پر ظاہر ہوئے تھے اور اپنی بیوی پاربتی کے ساتھ یہاں رہا کرتے تھے۔ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ایلورا کی عمارتیں کسی ایک زمانے میں تعمیر نہیں ہوئیں بلکہ مختلف زمانوں میں ایک طویل عرصے یعنی صدیوں کی محنت اور صبر و استقلال کا نتیجہ ہیں۔یہ غار دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کاباعث ہیں ا جنتا کے غاروں کی نقاشی کا سب سے بڑا راز ان کی خطوط کشی ہے۔ خطوط کا جتنا نظر نواز استعمال اجنتا کی نقاشی میں پایا جاتا ہے اس کی مثال کسی اور جگہ نہیں ملتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تصویریں ابھی بول پڑیں گی۔کنول کے پھول کو اجنتا کی مصوری میں ہر موقع پر کام میں لایا گيا ہے اور کنول کی یہ امتیازی شان ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتی


عورت کی عظمت کو اجنتا کی نقاشی میں نمایاں مقام دیا گيا ہے جس سے ان دور میں عورت کے مرتبے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ہاتھی کی تصویر کشی بھی اجنتا کی مصوری کا موضوع ہے۔ ڈیزائن سازی میں غاروں کے نقاش اپنا جواب نہیں رکھتے۔ دیوی دیوتاؤں، چرند و پرند اور انسانوں سے لے کر پھولوں کومنقش کیا ہے سنہ 1822 میں ایک دوسرے شخص ولیم آئیکسن نے ان غاروں پر مبنی ایک مقالہ پڑھا اور صدیوں سے دنیا کی نظروں سے اوجھل ان غاروں کو زندہ جاوید کر دیا۔ بہت جلد یہ غار اپنی نقاشی اور سنگ تراشی کے بہترین نمونوں کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہوئے اور دنیا بھر سے نامور نقاش اور سنگ تراش انھیں دیکھنے آنے لگے۔ دھیرے دھیرے یہ غار سیاحوں کا پسندیدہ مرکز بن گئے۔جب اورنگ آباد کا علاقہ ریاست حیدرآباد کا حصہ بنا تو نظام نے ان غاروں کی تجدید پر توجہ دی اور سنہ 1920 میں غاروں کو میوزیم کی شکل دی، آمد و رفت کے ذرائع فراہم کیے اور داخلے کی فیس مقرر کر دی۔ آج بھی لوگ جوق در جوق ان غاروں کو دیکھنے آتے ہیں۔عالمی ادارے یونیسکو کا کہنا ہے کہ یہ 30 غاروں کا یہ مجموعہ مختلف زمانے میں بنا ہے۔


پہلا مجموعہ قبل مسیح کا ہے تو دوسرا مجموعہ بعد از مسیح کا ہے۔ الغرض اجنتا کے ان غاروں کی نقاشی قابل دید ہے جو تیز رنگوں سے بنائی گئی ہے اور تصویریں ہوش ربا منظر پیش کرتی ہیں۔ نقاشی میں استعمال کیے جانے والے رنگی بیشتر، سرخ، زرد، بھورے، کالے یا سفید ہیں۔ لاجورد اور زرد رنگ کی آمیزش سے سبز رنگ تیار کیا گيا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی رنگ کو نقاشی میں دوبارہ استعمال نہیں کیا گيا ہے۔ان غاروں میں مہاتما بدھ کے آثارو احوال کو پیش کیا گيا ہےیہ غار مہاتما بدھ کے آثار کا آئینہ ہیں اور بودھ مت کی مختلف کہانیوں کے عکاس ہیں۔ اس کے ذریعے بودھ مت کی تاریخی اور تہذیبی عظمت کے ساتھ مصوری کی ارتقائي صورت بھی نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔ ان کی ساخت، چہروں پر چھائے جذبات، حرکات و سکنات کے دلفریب انداز ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ جن کا تصور برسوں تک دماغ سے محو نہیں ہوتا۔ا۔اس کی نرم و نازک پنکھڑیوں سے لے کر ڈنٹھل تک کی نقاشی میں وہ مہارت ہے کہ اصل کا دھوکہ ہوتا ہے۔

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر