منجھلی آپا کو اب بلکل چپ لگ گئ تھی کیونکہ ان کی سسرال سے اب کوئ بھی رفاقت بھائ سمیت ان سے رابطے میں نہیں تھا ان حالات میں منجھلی آپا ا کا دلگرفتہ ہونا اپنی جگہ بلکل درست تھا اور کسی کسی وقت وہ ہم سب سےچھپ کر اکیلے میں روتی بھی تھیں ایسے میں ایک دن فریال بجّو نے امّاں سےآ کر کہا امّاں !منجھلی آپا رو رہی ہیں ،،بس امّاں فوراً سارے کام چھوڑ کر منجھلی آ پا کے پاس پہنچ گئیں اور انہوں نے منجھلی آپا سے پیاربھری ڈانٹ کے لہجے میں کہا تجھے پہلے بھی کہ چکی ہوں مت رویا کر ابھی تو زچّہ ہے تیرا بال بال کچّا ہے -زچّہ خانے میں رونے سے "پربال" ہوجاتے ہیں آنکھوں میں ،،امّاں کی بات کے جواب میں میں نے چپکے سے قریب بیٹھی نرگس آپی سے پوچھا آپی پر بال کیا ہوتے ہیں ،نرگس آپی نے کہا مجھے نہیں معلوم لیکن فریال بجّو نے چپکے سے جواب دیا ڈلیوری کے دنوں میں رونےسے پلکیں جھڑ جاتی ہیں اوردوبارہ نہیں آتیں میں نے فوراً اپنے کمرے میں آ کر آئینہ میں اپنی پلکیں دیکھیں مجھے لگا بیٹی مجھلی آ پا کے یہان نہیں بلکہ میرے یہاں ہوئ ہے اور میں رو رہی ہوں اور میری پلکیں جھڑ گئ اورپھرمنجھلی آپا کے دکھ پر میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور مجھے امّاں کی آوز آئ
-ارے نگین کہاں ہو آ کر زرا کام میں تو ہاتھ لگاؤ اور میں امّاں کی آواز پر فوراً ان کے پاس چلی گئ بالآخرمنجھلی آپا کو آئے ہوئے جب مہینے سے اوپر وقت گزرا تب امّا ں نے ان سے کہا منجھلی تیّاری کر لو ،بس منجھلی آپا نے بغیرکسی حیل حجّت کے امّاں کے حکم کی تعمیل کی ہم بہنوں نے بھی منجھلی آپا کاسامان رکھوانے میں مدد کی اور پھر بھیّا منجھلی آپا کو ان کی سسرال چھوڑکر آ گئے اور وقت پھر کچھ مہینے دبے پاؤں گزر گئے اب منجھلی آپا ہمارے گھر بہت کم آتی تھیں کہ اچانک ہم سب کو ایک بڑی خوشخبری سننے کو ملی کہ منجھلی آپا کے گھر بس سال پیچھے بیٹا بھی آگیا -چھٹی بہت دھوم دھام سے منائ گئ اور چھٹی والے دن رفاقت بھائ نےمنجھلی آپا کو سونے کے کنگن پہنائے اوران کی سسرال میں خوشی کے شادیانے بج اٹھے اب اماں ہر وقت خوش رہنے لگیں اور چھٹی میں شریک ہونے کے لئے اپنی گلابی گڑیا کے ساتھ بڑی آپا بھی آ گئیں تھیں -اور ہم بہنوں کے آزردہ دل منجھلی آپا کی سسرال میں قدر دانی سے نہال ہو گئے تھے اب وقت ہنسی خوشی گزر رہا تھا کہ اچانک ہمیں معلوم ہوا کہ بھیّا سیاست کی خار زار وادی میں قدم رکھ چکے تھے
اور پھر ،ایک رات یہ ہوا کہ ابّا سے چھپ کر انہوں نے امّاں سے کہا کہ وہ ایک دوست کے ساتھ اس کے گھر کی شادی میں شرکت کے لئے دوسرے شہرجا رہے ہیں اور چند روز بعد ہی انکی واپسی ممکن ہوسکے گی -بھیّا کی بات پراس وقت نا جانے کیوں امّا ں کے چہرے پر کچھ تشویش کے سائے لرزاں ہوئے تھے, بھیّا کی سواری باہر تیّار تھی اس لئےامّاں کچھ کہ نہیں سکیں ، لیکن صبح نور کے تڑکے پولس نے ہمارے گھر پر بھیّا کی تلاش میں چھاپا جومارا تو ابّا پر عقدہ کھلا کہ بھیّا کی گرفتاری کے لئے پولس ہمارے گھر پر آئ ہے ,امّاں نے تو بھیّا کے اس طرح گھر سےجانے کی خبر بھی ابّا کی گرتی ہوئ صحت کی خا طر چھپا ئ تھی لیکن پولس کی آ مد کو بھلا کیسے چھپاتیں ، بھیّا تو گھر سے جا ہی چکے تھےاورپولس کو گھر سے خالی ہاتھ تو جانا نہیں تھا وہ ابّا کا دھڑکتا دل ساتھ لے گئ ،امّاں نے بیوگی کی چادر اوڑھ کر اپنا دل سنبھال کر ہم بیٹیوں سے کہا خبردار جو کسی نے رونا دھونا مچایا ،رونے سے مرنے والے کو تکلیف ہوتی ہے اور ہم بیٹیاں اپنے خون کے آنسو پی کر سسکیا ں لیتے اور آنسو پونچھتےہوئےابّا کی قبر کی کشادگی اور نور کے لئے پڑھنے بیٹھ گئےتھے
ویسے تو ہم سب بیٹیاں ہی ابّا سے بے حد قریب تھیں لیکن فریال بجّو خاص طور پرایک چھوٹے بچّے کی طرح ابّّا کی روح اور جان تھیں جب تک ابّا دفترسے گھر نہیں آجاتے تھے وہ کھانا نہیں کھاتی تھیں ,ابّا کی موت پر فر یال بجّو کو سکتہ ہو گیا تھا امّا ں نے ہم بہنوں ایک نظر دیکھا اور پھر مجھ سے پوچھا فریال کہاں ہے میں نے لاعلمی کا اظہا رکیا تو امّاں نے کہا اٹھ کر دیکھواور میں امّاں کی ہدائت پر اٹھ گئ فریال بجّو کو کمروں میں, ,اورہر جگہ دیکھ کر جب اسٹور روم میں آئ تو میں نے فریال بجّو کو دیکھا وہ اسٹور روم کی دیوار سے ٹیک لگائے سامنے ٹانگیں پسارے بلکل خاموش اپنے ہوش حواس سے بیگانہ بیٹھی ہوئ سامنے دیوار کو پلکیں جھپکائے بغیر دیکھے جا رہی تھیں ،میں نے کہا فریال بجّو امّاں کہ رہی ہیں ابّا کے لئے سپارہ پڑھنا ہے تو فریال بجّو میری بات کے جواب میں ایسی بنی رہیں جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ہو پھر میں نے فریال بجّو کے قریب بیٹھ کر ان کاشانہ ہلا کر کہا فریال بجّو امّاں آپ کو بلا رہی ہیں اور میرے ہلانے سے فریال بجّو سوکھی ٹہنی کی طرح زمین پر گر گئیں اورپھر ایکدم میری چیخ گھر میں گونجی امّا ں فریال بجّو اور میں چیخ چیخ کر رونے لگی
یہ اقتباس میں سہاگن بنی مگر !سے ہے
جواب دیںحذف کریں