سیلابی نالے کے کنارے کھڑے لوگوں کی دیکھنے والی آنکھوں کے لئے عجیب دلخراش منظر تھا جب ان کے سامنے سیلاب میں بہتی کار سے مدد کے لئے ہاتھ ہلایا جا رہاتھا لیکن تند و تیز سیلابی ریلے کے سبب وہ مدد کرنے سے قاصر تھے -پھر سیلابی ریلے نے بہتی ہوئ سرمئی رنگ کی ایک سیڈان کار کو اپنے اندر سمو لیا ۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لڑکی کی دوست نے بتایا کہ ’گھروالوں سے آخری بار ریٹائرڈ کرنل اسحاق قاضی اور ان کی بیٹی کا رابطہ منگل کی صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ہوا جس کے بعد فون بند ہو گیا۔وفاقی دارالحکومت میں شدید بارش کے باعث پاک فوج کے ریٹائرڈ کرنل اسحاق اپنی بیٹی کے ہمراہ گھر سے نکلے کہ ان کی گاڑی خراب ہو گئی اور اسی دوران پانی کا ریلا آ گیا جس میں دونوں باپ بیٹی گاڑی سمیت پانی میں بہہ گئے تھے۔
گزشتہ دو روز سے گاڑی سمیت لاپتہ ہونے والے باپ اور بیٹی کی تلاش کا کام جاری تھا اور گزشتہ روز نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے برساتی نالے میں سرچ آپریشن مکمل کر لیا گیا تھا جس کے بعد اب دریائے سواں کے داخلی و خارجی راستوں پر سرچ آپریشن کیا گیا۔‘دریائے سواں میں گرنے والے نالے میں کھدائی کا عمل منگل اور بدھ کی درمیانی شب تین بجے تک جاری رہا۔ تاہم مسلسل جاری رہنے والی بارش کے باعث پانی کا بہاو بڑھ جانے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن رات 3 بجے روک دیا گیا تھا۔یہ منظر اس خوفناک حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ اب سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں صرف پہاڑی علاقوں اور دریاؤں کے گرد موجود علاقوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ اب یہ شہروں میں موجود بڑی بڑی سوسائٹیز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں سیلابی پانی میں بہتی گاڑیاں تو اب جیسے ایک معمول بن چکی ہیں۔ اس کے ساتھ بجلی کے کھمبوں سے کرنٹ لگنے کے باعث ہونے والی ہلاکتیں، برساتی نالوں میں اچانک طغیانی اور پھر سولر پینلز گرنے کے واقعات شہروں میں رہنے والوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق وفاقی دارالحکومت اس کے گردونواح اور پنجاب کے مختلف شہروں میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 138 ہو گئی ہے جبکہ ان بارشوں کی وجہ سے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ لوگوں کی کروڑوں روپے مالیت کی املاک بھی اربن فلڈنگ کی نظر ہو گئی ہیں۔ادھر صوبہ پنجاب میں اربن فلڈنگ کی وارننگ جاری کی گئی ہے اور ابھی بھی پورے صوبے میں رین اینڈ فلڈ ایمرجنسی نافذ ہے۔آئیے آپ کو ان خطرات کے بارے میں بتاتے ہیں جو اربن فلڈنگ کے دوران بڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سے بچاؤ کیسے ممکن اس نے اپنی بہن کو کال کی اور بتایا کہ ہم ڈوب رہے ہیں۔ پھر فون بند ہو گیا۔
‘پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈیفینس فیز فائیو سے گزشتہ روز ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل پوئی تھی جس میں ایک گاڑی کو پانی میں بہتے ہوئے دیکھا گیا تھااسلام آباد پولیس کے مطابق نجی سوسائٹی ڈی ایچ اے میں پانی میں بہہ جانے والی گاڑی میں ایک ریٹائرڈ کرنل اور ان کی بیٹی سوار تھے جن کا سراغ تاحال نہیں لگایا جا سکا ہے۔ ریسکیو حکام کے مطابق تلاش کا عمل جاری ہے۔واضح رہے کہ منگل کے روز اسلام آباد اور راولپنڈی میں تیز بارش کی وجہ سے دونوں شہروں کے متعدد مقامات زیرآب آنے کے ساتھ ساتھ برساتی ندی نالوں میں شدید طغیانی دیکھنے میں آئی۔لیکن پہلے یہ جانتے ہیں کہ ریٹائرڈ کرنل اسحاق قاضی اور ان کی بیٹی کی گاڑی کا سراغ لگانے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔باپ بیٹی کو بچانے والے آپریشن میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے؟
ریٹائرڈ کرنل اور ان کی بیٹی کی تلاش کے لیے ریسکیو ٹیموں کے علاوہ نیوی کے غوطہ خوروں نے بھی حصہ لیا۔ امدادی کاموں میں مصروف ریسکیو کے اہلکار صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ ’جس نالے میں ان کی گاڑی گری ہے اس کو پانچ سو میٹر تک کنکریٹ سے ڈھکا ہوا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’کنکریٹ کے نیچے بھی جا کر دیکھ لیا ہے لیکن وہاں پر بھی نہ تو گاڑی کا کوئی سراغ نہ ملا ہے اور نہ ہی باپ بیٹی کا۔‘منگل کے روز ریسکیو کے اہلکار صبغت اللہ نے بتایا تھا کہ پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ ’مشکل دکھائی دیتا ہے کہ وہ گاڑی سمیت اس نالے میں موجود ہوں۔‘اربن فلڈنگ: برساتی نالوں میں طغیانی کا بڑا خطرہ -شہروں کے مختلف علاقوں میں برساتی ندی نالے موجود ہوتے ہیں جن کا مقصد بارش کے پانی کی نکاسی ہوتی ہے۔
ریسکیو اور ریلیف کے کاموں میں حصہ لینے والے صبغت اللہ کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے ملک کے مختلف شہروں میں جو برساتی نالے بنائے گئے ہیں وہ ڈرین ایج سسٹم کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’بارشوں کے دوران ڈرین ایج سسٹم چوک ہونے کی وجہ زیادہ دباؤ برساتی ندی نالوں پر آ جاتا ہے اور ان ندی نالوں میں ان کی کپیسٹی سے زیادہ پانی آنے کی وجہ سے سیلاب کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’پوٹھوہار ریجن میں فلش فلڈنگ ہوتی ہے جس میں پانی کا بہاؤ بہت ہی تیز ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ برساتی ندی نالوں کی صفائی نہ ہونا ہے جس کے باعث ان میں پانی سٹور کرنے کی گنجائش نہایت کم رہ جاتی ہے۔‘پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب میں سب سے زیادہ نقصان ان گھروں کا ہوتا ہے جو کہ نالہ کی آبی گزرگا ہ کے قریب بنائے گئے ہوتے ہیں