جمعہ، 25 جولائی، 2025

کرنل اسحٰق اور ان کی بیٹی لاشیں مل گئیں

 



سیلابی نالے کے کنارے کھڑے لوگوں کی   دیکھنے والی آنکھوں کے لئے عجیب دلخراش  منظر تھا جب  ان کے سامنے سیلاب میں بہتی کار سے مدد کے لئے ہاتھ ہلایا جا رہاتھا لیکن تند و تیز سیلابی ریلے  کے سبب وہ مدد کرنے سے قاصر تھے -پھر  سیلابی ریلے  نے بہتی ہوئ  سرمئی رنگ کی ایک سیڈان کار کو  اپنے  اندر سمو لیا ۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے  لڑکی کی دوست نے بتایا کہ ’گھروالوں سے آخری بار ریٹائرڈ کرنل اسحاق قاضی اور ان کی بیٹی کا رابطہ منگل کی صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ہوا جس کے بعد فون بند ہو گیا۔وفاقی دارالحکومت میں شدید بارش کے باعث پاک فوج کے ریٹائرڈ کرنل اسحاق اپنی بیٹی کے ہمراہ گھر سے نکلے کہ ان کی گاڑی خراب ہو گئی اور اسی دوران پانی کا ریلا آ گیا جس میں دونوں باپ بیٹی گاڑی سمیت پانی میں بہہ گئے تھے۔


گزشتہ دو روز سے گاڑی سمیت لاپتہ ہونے والے باپ اور بیٹی کی تلاش کا کام جاری تھا اور گزشتہ روز نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے برساتی نالے میں سرچ آپریشن مکمل کر لیا گیا تھا جس کے بعد اب دریائے سواں کے داخلی و خارجی راستوں پر سرچ آپریشن کیا گیا۔‘دریائے سواں میں گرنے والے نالے میں کھدائی کا عمل منگل اور بدھ کی درمیانی شب تین بجے تک جاری رہا۔ تاہم مسلسل جاری رہنے والی بارش کے باعث پانی کا بہاو بڑھ جانے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن رات 3 بجے روک دیا گیا تھا۔یہ منظر اس خوفناک حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ اب سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں صرف پہاڑی علاقوں اور دریاؤں کے گرد موجود علاقوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ اب یہ شہروں میں موجود بڑی بڑی سوسائٹیز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں سیلابی پانی میں بہتی گاڑیاں تو اب جیسے ایک معمول بن چکی ہیں۔ اس کے ساتھ بجلی کے کھمبوں سے کرنٹ لگنے کے باعث ہونے والی ہلاکتیں، برساتی نالوں میں اچانک طغیانی اور پھر سولر پینلز گرنے کے واقعات شہروں میں رہنے والوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔


یہاں یہ بتاتے چلیں کہ آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق وفاقی دارالحکومت اس کے گردونواح اور پنجاب کے مختلف شہروں میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 138 ہو گئی ہے جبکہ ان بارشوں کی وجہ سے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ لوگوں کی کروڑوں روپے مالیت کی املاک بھی اربن فلڈنگ کی نظر ہو گئی ہیں۔ادھر صوبہ پنجاب میں اربن فلڈنگ کی وارننگ جاری کی گئی ہے اور ابھی بھی پورے صوبے میں رین اینڈ فلڈ ایمرجنسی نافذ ہے۔آئیے آپ کو ان خطرات کے بارے میں بتاتے ہیں جو اربن فلڈنگ کے دوران بڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سے بچاؤ کیسے ممکن اس نے اپنی بہن کو کال کی اور بتایا کہ ہم ڈوب رہے ہیں۔ پھر فون بند ہو گیا۔


‘پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈیفینس فیز فائیو سے گزشتہ روز ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل پوئی تھی جس میں ایک گاڑی کو پانی میں بہتے ہوئے دیکھا گیا تھااسلام آباد پولیس کے مطابق نجی سوسائٹی ڈی ایچ اے میں پانی میں بہہ جانے والی گاڑی میں ایک ریٹائرڈ کرنل اور ان کی بیٹی سوار تھے جن کا سراغ تاحال نہیں لگایا جا سکا ہے۔ ریسکیو حکام کے مطابق تلاش کا عمل جاری ہے۔واضح رہے کہ منگل کے روز اسلام آباد اور راولپنڈی میں تیز بارش کی وجہ سے دونوں شہروں کے متعدد مقامات زیرآب آنے کے ساتھ ساتھ برساتی ندی نالوں میں شدید طغیانی دیکھنے میں آئی۔لیکن پہلے یہ جانتے ہیں کہ ریٹائرڈ کرنل اسحاق قاضی اور ان کی بیٹی کی گاڑی کا سراغ لگانے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔باپ بیٹی کو بچانے والے آپریشن میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے؟


ریٹائرڈ کرنل اور ان کی بیٹی کی تلاش کے لیے ریسکیو ٹیموں کے علاوہ نیوی کے غوطہ خوروں نے بھی حصہ لیا۔ امدادی کاموں میں مصروف ریسکیو کے اہلکار صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ ’جس نالے میں ان کی گاڑی گری ہے اس کو پانچ سو میٹر تک کنکریٹ سے ڈھکا ہوا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’کنکریٹ کے نیچے بھی جا کر دیکھ لیا ہے لیکن وہاں پر بھی نہ تو گاڑی کا کوئی سراغ نہ ملا ہے اور نہ ہی باپ بیٹی کا۔‘منگل کے روز ریسکیو کے اہلکار صبغت اللہ نے بتایا تھا کہ پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ ’مشکل دکھائی دیتا ہے کہ وہ گاڑی سمیت اس نالے میں موجود ہوں۔‘اربن فلڈنگ: برساتی نالوں میں طغیانی کا بڑا خطرہ -شہروں کے مختلف علاقوں میں برساتی ندی نالے موجود ہوتے ہیں جن کا مقصد بارش کے پانی کی نکاسی ہوتی ہے۔


ریسکیو اور ریلیف کے کاموں میں حصہ لینے والے صبغت اللہ کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے ملک کے مختلف شہروں میں جو برساتی نالے بنائے گئے ہیں وہ ڈرین ایج سسٹم کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’بارشوں کے دوران ڈرین ایج سسٹم چوک ہونے کی وجہ زیادہ دباؤ برساتی ندی نالوں پر آ جاتا ہے اور ان ندی نالوں میں ان کی کپیسٹی سے زیادہ پانی آنے کی وجہ سے سیلاب کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’پوٹھوہار ریجن میں فلش فلڈنگ ہوتی ہے جس میں پانی کا بہاؤ بہت ہی تیز ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ برساتی ندی نالوں کی صفائی نہ ہونا ہے جس کے باعث ان میں پانی سٹور کرنے کی گنجائش نہایت کم رہ جاتی ہے۔‘پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب میں سب سے زیادہ نقصان ان گھروں کا ہوتا ہے جو کہ نالہ کی آبی گزرگا  ہ کے قریب بنائے گئے ہوتے ہیں 


جمعرات، 24 جولائی، 2025

میرا لاوارث کراچی -پھر ایک بیٹا ڈاکوؤں نے مار ڈالا

 






کراچی پولیس کے پالے ہوئے دہشت گرد ڈاکوؤں نے  پھر کراچی کا ایک بیٹا مار ڈالا -کراچی کے علاقے کورنگی نمبر دو میں جیولری کی معروف مارکیٹ ایک سنگین واردات کی زد میں آ گئی جہاں جدید ہتھیاروں سے لیس ملزمان نے دن دہاڑے کئی دکانوں کو نشانہ بنایا۔ موٹر سائیکلوں پر سوار آٹھ افراد نے منظم طریقے سے تین جیولرز کی دکانوں پر دھاوا بولا اور بڑی مقدار میں سونا لے کر فرار ہو گئے۔ واردات کے دوران ایک دکاندار اور ایک خاتون شہری زخمی ہوئیں، جن میں سے دکاندار دوران علاج دم توڑ گیا۔عینی شاہدین کے مطابق واردات دوپہر کے قریب اس وقت ہوئی جب مارکیٹ میں کاروباری سرگرمیاں بحال ہو رہی تھیں۔ لوڈشیڈنگ کے باعث مارکیٹ میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے کام نہیں کر رہے تھے، جس کا فائدہ اٹھا کر ملزمان چہرے چھپائے، نقاب پہنے اور پی کیپ لگائے ہوئے داخل ہوئے۔ تین جیولرز کی دکانوں فریال زرگر، العزیز جیولرز اور کرن جیولرز کو لوٹا گیا۔ دکانوں سے چوری کیے گئے سونے کی مالیت کا تخمینہ فی الحال جاری ہے۔



واردات کے دوران جب ایک دکاندار عبدالمتین نے مزاحمت کی، تو فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ملزمان کی گولیوں سے ایک خاتون راہگیر زخمی ہوئیں، جبکہ دکاندار کو تین گولیاں لگیں۔ زخمی عبدالمتین کو پہلے جناح اسپتال اور بعد ازاں ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے۔ متوفی عبدالمتین، مارکیٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدالمقیم کے صاحبزادے تھے، جن کی شادی محض دو ماہ بعد ہونا طے تھی۔واقعے کے بعد دکانداروں اور عوام میں شدید غصہ پھیل گیا۔ مشتعل افراد نے احتجاج کے طور پر سڑکیں بلاک کر دیں اور ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کر دی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ شہر میں جرائم پیشہ عناصر بے خوف گھوم رہے ہیں جبکہ پولیس محض دعوے کرنے تک محدود ہے۔


 مظاہرین نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ شہر میں بڑھتے جرائم کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اور ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے۔پولیس اور رینجرز اہلکار موقع پر پہنچے اور ابتدائی تفتیش شروع کر دی۔ کورنگی تھانے کے ایس ایچ او کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی شناخت کی جا رہی ہے۔ ایک فوٹیج میں تین موٹر سائیکلوں پر پانچ ملزمان کو اسلحے کے ساتھ فرار ہوتے دیکھا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان میں سے ایک اپنے زخمی ساتھی کو بھی ساتھ لے گیا، جس سے امکان ہے کہ وہ کسی قریبی مقام پر چھپے ہوئے ہوں گے۔دوسری جانب دکانداروں نے حکومت سے سیکیورٹی بڑھانے اور مارکیٹ میں مستقل بنیادوں پر پولیس گشت کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کاروبار کے تحفظ کے لیے ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود جان و مال کی ضمانت نہیں دی جا رہی۔دریں اثناء کورنگی صرافہ بازار میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق نوجوان کی نماز جنازہ مرکزی شاہراہ کورنگی نمبر 2 پر ادا کی گئی۔



واقعے کے باعث علاقے میں سوگ کا سماں تھا اور کاروبار بھی بند رہا، نماز جنازہ میں امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر کے علاوہ مقتول کے رشتے دار، اہل علاقہ، تاجروں سمیت لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔بعد ازاں کورنگی نمبر ایک قبرستان میں تدفین کر دی گئی۔منعم ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس شہر میں ڈاکو لٹیرے آزاد اور شہری پریشان ہیں کیونکہ احساس تحفظ کہیں نہیں ہے، لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں یہ ظلم ہے، لوٹنے کے باوجود کاروباری افراد کو قتل کیا جارہا ہے۔ انہوں نےکہا کہ ہم متاثرہ تاجروں کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومت فی الفور ایکشن لے اور قاتلوں کو گرفتار کرے

یہ خبر میں نے انٹرنیٹ سے لی

منگل، 22 جولائی، 2025

شیخ زید النہیان کی چولستان کے لئے خدمات





 

عرب حکمرانوں کا شکار کے لیے پاکستان آنے کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ ایک خیال یہ ہے کہ پاکستان میں خلیجی ممالک کے سربراہان کی شکار کے لیے آمد کا باقاعدہ سلسلہ جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت سے شروع ہوا تھا۔جبکہ ایک اور عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں عرب حکمرانوں کی شکار کے ارادے سے آمد کا سلسلہ 1970 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تیل کی دولت سے مالامال مشرق وسطی کی ریاستوں سے بہتر تعلقات استوار کیے۔مصنف ندیم فاروق پراچہ کی ایک تحریر میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1970 کی دہائی کے وسط میں رحیم یار خان شکار کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کا پسندیدہ علاقہ بن گیا کیونکہ ان کے اپنے صحراؤں میں تلور معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ یہ شیوخ دسمبر سے فروری کے مہینوں میں آتے کیونکہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں نایاب سمجھا جانے والا پرندہ تلور موسمِ سرما گزارتا ہے۔


رفتہ رفتہ یہ حکومت اور مقامی لوگوں کے لیے منافع بخش کام بھی بن گیا۔ 2019 میں معاشی امور پر رپورٹ کرنے والے جریدے ’دی اکانمسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ ڈالر کے عوض شکار گاہ، ایک لاکھ ڈالر کے عوض دس دن کا اجازت نامہ دیا جانے لگا جس کے تحت صرف سو تلور کے شکار کی اجازت دی جاتی اور ہر تلور کے عوض ایک ہزار ڈالر اضافی دینا ہوتے۔تاہم اس سے قبل یہ معاملہ اس وقت متنازع ہو گیا تھا جب بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014 میں اپنے ایک فیصلے میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد اگست 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کرنے کے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔تاہم پھر جنوری 2016 میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔


اس وقت جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلے میں لکھا تھا کہ عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات نے تلور کو اُن پرندوں میں شامل نہیں کیا جن کی نسل معدوم ہو رہی ہے اور اقوامِ متحدہ کا کنونشن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان نسلوں کی افزائش کر کے شکار کیا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ قانون کا جائزہ لے کر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تلور کے شکار پر مستقل پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔شیخ زید النہیان کا ’دوسرا گھر‘تحقیق سے علم ہوتا ہے کہ ستر کی دہائی میں شیخ زید نے رحیم یار خان میں فلاحی منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ڈان اخبار کی 24 جنوری 1974 کی خبر کے مطابق اس دن شیخ زید نے رحیم یار خان کے محل میں ایک پریس کانفرنس کی اور اعلان کیا کہ شہر سے صحرا تک 19 میل طویل سڑک تعمیر کروائی جائے گی جبکہ ہسپتال اور مسجد کی تعمیر کا اعلان بھی کیا گیا۔ شہر کے ڈپٹی کمشنر نے اس سڑک کا نام شیخ زید روڈ رکھنے کا اعلان کیا۔


رئیس عباس زیدی، جو اس وقت پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں، 1993 سے 1996 تک رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ان کا دعویٰ ہے کہ ’متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ زید اس وقت بھی رحیم یار خان آیا کرتے تھے جب ان کا ملک تیل کی وجہ سے امیر نہیں ہوا تھا۔‘شیخ زید کے رحیم یار خان سے تعلق کے بارے میں بتاتے ہوئے اہم سفارتی ذرائع نے بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی کہ متحدہ عرب امارات کے قیام سے قبل ہی شیخ زید النہیان رحیم یار خان کے دوروں پر آیا کرتے تھے۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ابتدائی دوروں کی وجہ شیخ زید کا شکار کا وہ شوق تھا جسے فالکنری کہتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ عرب ثقافت سے جڑے اس روایتی کھیل میں تربیت یافتہ شکاری پرندوں، جیسا کہ باز، عقاب اور شکروں، کی مدد سے قدرتی ماحول میں شکار کیا جاتا ہے جسے یونیسکو نے ’انسانیت کے ثقافتی ورثے‘ کا درجہ دیا ہے۔


تحقیق سے علم ہوتا ہے کہ ستر کی دہائی میں شیخ زید نے رحیم یار خان میں فلاحی منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ڈان اخبار کی 24 جنوری 1974 کی خبر کے مطابق اس دن شیخ زید نے رحیم یار خان کے محل میں ایک پریس کانفرنس کی اور اعلان کیا کہ شہر سے صحرا تک 19 میل طویل سڑک تعمیر کروائی جائے گی جبکہ ہسپتال اور مسجد کی تعمیر کا اعلان بھی کیا گیا۔ شہر کے ڈپٹی کمشنر نے اس سڑک کا نام شیخ زید روڈ رکھنے کا اعلان کیا۔رئیس عباس زیدی، جو اس وقت پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین  تھے، 1993 سے 1996 تک رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ان کا دعویٰ ہے کہ ’متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ زید اس وقت بھی رحیم یار خان آیا کرتے تھے جب ان کا ملک تیل کی وجہ سے امیر نہیں ہوا تھا۔‘شیخ زید کے رحیم یار خان سے تعلق کے بارے میں بتاتے ہوئے اہم سفارتی ذرائع نے بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی کہ متحدہ عرب امارات کے قیام سے قبل ہی شیخ زید النہیان رحیم یار خان کے دوروں پر آیا کرتے تھے۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ابتدائی دوروں کی وجہ شیخ زید کا شکار کا وہ شوق تھا جسے فالکنری کہتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ عرب ثقافت سے جڑے اس روایتی کھیل میں تربیت یافتہ شکاری پرندوں، جیسا کہ باز، عقاب اور شکروں، کی مدد سے قدرتی ماحول میں شکار کیا جاتا ہے جسے یونیسکو نے ’انسانیت کے ثقافتی ورثے‘ کا درجہ دیا ہے۔

آخر چینی کی ہاہا کار کیوں مچی ہے -پارٹ -1

 





گذشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 750000 ٹن سے زائد چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ اور اب حکومت نے 750000 ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا    اور اس  ٹوپی ڈرامے میں سبسڈی کا فائدہ بھی چینی  مافیا  کو اور درآمد پر منافع بھی چینی مافیا کو  آٹے کی مفت تقسیم میں سارا فائدہ   منافع خور ما فیا کا یعنی  حکومت اورشوگر مافیا ملکر عوام کا خون چوس  رہے ہیں،کیونکہ حکومت اور مافیا ایک ہی  ہیں -بتایا جا رہا ہے کہ   عوام پر چینی کی مد میں 600 ارب کا بوجھ ڈالا جا  ئے گا جو سیدھا سیدھا مافیا کی جیب میں جائے گا ،ملک میں اس وقت چینی کی قیمت بعض شہروں میں  200روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔پا کستان کے ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ ہفتے چینی کی فی کلو ریٹیل قیمت 182 فی کلو تھی جو گذشتہ سال 143 روپے تھی۔ چینی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے حکومت نے چینی کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے۔تاہم تیس جون 2025 کو ختم ہونے والے مالی سال میں 750000 ٹن چینی کی برآمد کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے ذریعے شوگر ملز نے چینی برآمد کر کے غیر ملکی زرمبادلہ کی صورت میں آمدنی حاصل کی۔ دوسری جانب مقامی مارکیٹ میں صارفین کے لیے اس کی قیمت بڑھ گئی۔



موجودہ حکومت سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بھی ایسا ہی ایک تنازع پیدا ہوتا تھا۔ اپوزیشن کی تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر ایف آئی اے نے ایک انکوائری بھی کی جس میں ملک میں چینی کی قلت اور اس کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار شوگر ملز کو قرار دیا گیا تھا۔ایف آئی اے کی اس انکوائری رپورٹ میں جے ڈی ڈبلیو یعنی جمالدین والی گروپ، رحیم یار خان گروپ، اومنی گروپ، شامین احمد خان گروپ کی شوگر ملز کو اس وقت چینی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔اس انکوائری میں ملز کو چینی کی برآمد کے لیے برآمدی سبسڈی سے فائدہ اٹھا کر منافع کمانے کے ساتھ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے سے زیادہ منافع کمانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔واضح رہے کہ اس وقت بھی چینی کی برآمد کی وجہ سے اس کی قیمت مقامی منڈی میں کافی اوپر چلی گئی تھی۔



جمالدین والی شوگر مل کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ہیں جس کی ملکیت میں تین شوگر ملز ہیں -پاکستان میں کتنی شوگر ملز ہیں اور ان کے مالکان کون ہیںپاکستان کے صنعتی شعبے میں شوگر انڈسٹری کا حصہ قریب ساڑھے تین فیصد ہے۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس تنظیم کے 48 ارکان ہیں۔ تاہم ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نامی سرکاری ادارے کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر 72 شو گر ملز کام کر رہی ہیں۔جبکہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی تعداد 85 ہے --جن کی اکثریت 45 شوگر ملز پنجاب میں قائم ہیں جبکہ سندھ میں ان کی تعداد 32 اور خیبر پختونخوا میں آٹھ ہے۔


چینی سے جڑے تنازعات پر اکثر شوگر ملز مالکان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے منافع کی قیمت عام صارفین کو چکانی پڑتی ہے۔درحقیقت ملک میں قائم کئی شوگر ملز کاروباری افراد کے علاوہ بااثر سیاسی شخصیات اور خاندانوں کی ملکیت میں بھی ہیں تاہم ہم نے اس حوالے سے کچھ جانچ پڑتال کی ہے-پاکستان میں شوگر ملز کی ملکیت خالصتاً کاروباری افراد، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، کے ساتھ ساتھ سیاسی افراد کے پاس بھی ہے۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:جمالدین والی شوگر مل اور جہانگیر ترین -جمالدین والی شوگر مل کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ہیں جس کی ملکیت میں تین شوگر ملز ہیں۔ ان میں دو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور ایک سندھ کے ضلع گھوٹکی میں موجود ہے۔


اس گروپ کے بورڈ کے ڈائریکٹر اور چیئرمین مخدوم احمد محمود ہیں جو سابق گورنر پنجاب ہیں۔ اسی طرح ان کے بیٹے سید مصطفی محمود بھی ایک بورڈ کے ایک ڈائریکٹر ہیں جو رحیم یار خان سے پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے ہیں۔شریف گروپ، شوگر مل،شریف گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی ملکیت میں دو شوگر ملز ہیں جن میں سے ایک رمضان شوگر مل اور دوسری العربیہ شوگر مل ہے۔چینی فورینزک رپورٹ: ’ترین، زرداری، شریف خاندان سمیت چھ بڑے گروپس نے فراڈ اور ہیرا پھیری کی‘وفاقی کابینہ نے جمعرات کو چینی بحران سے متعلق فورینزک رپورٹ عام کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے نو بڑے گروپوں کی ملز کی آڈٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی ہے‘

کراچی میں نئ اجرک نمبر پلیٹس کے حصول میں دشواریاں




ویسے تو کئی سالوں سے کراچی کے تمام ہی علاقوں میں لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، انھوں نے کراچی کے لیے دعوے زیادہ اورکام برائے نام کیا۔ ہر ایک  حکومت نے کراچی کو جی بھر کر لوٹا ہے۔ اب دیکھئے کہ  کراچی کے اہم سرکاری دفاتر،گورنر، وزیر اعلیٰ ہاؤس، سٹی کورٹس اور ریڈ زون بھی کراچی کے پرانے ضلع جنوبی میں ہے جہاں مسائل کی بھی بھرمار ہے اور فراہمی و نکاسی آب، بجلی،گیس پانی و دیگر بلدیاتی مسائل کراچی کے سات اضلاع میں جنوبی ضلع میں سب سے زیادہ ہیں اوراب  کراچی والوں کے لئے نئ افتاد یہ ہے کہ  کراچی کے 60 لاکھ موٹرسائیکل سواروں کو نئی نمبر پلیٹں لگانے کا کہا گیا ہے۔اس فیصلے سے کراچی والوں کو مزید مالی بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔ حکومت نے حکم جاری کیا ہے کہ تمام موٹرسائیکلوں پر نئی اجرک والی پلیٹیں لگائیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے بڑھا دیے گئے ہیں اور یہ مہربانی پورے سندھ کے لیے نہیں صرف کراچی کے لیے ہے حالانکہ اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو اس کا اطلاق پورے سندھ پر ہونا چاہیے۔


 سندھ حکومت کو کراچی کی تباہ حال سڑکوں، بجلی،گیس، پانی فراہمی و نکاسی آب کے مسائل کو حل کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔  کراچی کی  گاڑیوں کے لیے اجرک والی نمبر پلیٹ ضروری کیوں؟محکمہ ایکسائز کے ذرائع کے مطابق نئی نمبر پلیٹوں میں سکیورٹی فیچرز شامل کیے گئے ہیں تاکہ گاڑیوں کی شناخت کو مزید محفوظ اور مؤثر بنایا جا سکے کراچی کے سوک سینٹر میں واقعہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کے دفاتر میں غیر معمولی رش دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہاں لوگ گاڑیوں کی نئی نمبر پلیٹیں حاصل کرنے آئے ہیں اور عمارت میں داخل ہونے 3والوں کے لئے کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ہے۔اور عملے کی بے حد کمی  ہے  لوگ دفاتر سے چھٹی کر کے  پلیٹس کے لئے دھکے کھا رہے ہیں -سندھ کے سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن کی جانب سے پرانی نمبر پلیٹوں کو قبول نہ کرنے کے اعلان کے گاڑیوں پر نئی نمبر پلیٹیں نصب کروانا ضروری قرار پایا ہے۔  محکمہ ایکسائز کے ذرائع کے مطابق نئی نمبر پلیٹوں میں سکیورٹی فیچرز شامل کیے گئے ہیں تاکہ گاڑیوں کی شناخت کو مزید محفوظ اور مؤثر بنایا جا سکےتاہم شہریوں کو ایکسائز کے دفاتر میں نمبر پلیٹیں حاصل کرنے کی غرض سے گھنٹوں کے انتظار کی کوفت اٹھانا پڑی رہی ہے۔


 سوک سینٹر میں نمبر پلیٹ حاصل کرنے کی غرض سے لائن میں لگے   ایک شہری نے  بتایا کہ ’گاڑی اپنے نام پر ٹرانسفر کرنے کی مہلت 14 اگست کو ختم ہو جائے گی ۔‘ گاڑی کی نمبر پلیٹ حاصل کرنے والی ایک خاتون نے  بتایا کہ ’نمبر پلیٹ تو مل گئی ہے، لیکن یہاں انتظامیہ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ خواتین کے لیے تھوڑی سہولت ضرور ہے، مگر مجموعی طور پر بدانتظامی اور رش نے عوام کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔‘وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ نے   گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سندھ حکومت نے نئی نمبر پلیٹوں پر سندھ کی ثقافتی پہچان اجرک کا ڈیزائن شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جیسے اسلام آباد کی نمبر پلیٹس پر فیصل مسجد، پنجاب میں گندم کا خوشہ اور خیبرپختونخوا میں خیبر پاس کا نشان موجود ہے، ویسے ہی سندھ کی نمبر پلیٹوں پر اجرک کے ڈیزائن کو شامل کیا گیا ہےتاکہ قومی یک جہتی کے علاوہ ہر صوبے کی انفرادی پہچان بھی سامنے آئے۔‘


سندھ میں اجرک کے ڈیزائن اور ’چِپ‘ کے ساتھ نئی نمبر پلیٹس اسلام آباد میں رجسٹریشن کے ساتھ نمبر پلیٹ، پنجاب میں کیوں نہیں؟'سندھ تعلیمی اداروں میں اجرک اور ٹوپی کے تحفے پر پابندی کیوں؟انہوں نے مزید بتایا کہ ’تین اقسام کی نمبر پلیٹس جاری کی جا رہی ہیں: سرکاری گاڑیوں کے لیے سبز، پرائیوٹ گاڑیوں کے لیے سفید اور کمرشل گاڑیوں کے لیے پیلی۔ یہ نمبر پلیٹیں جدید سکیورٹی فیچرز سےآراستہ ہوں گی، جن میں بارکوڈ اور ایک مخصوص سکیورٹی تھریڈ نصب ہے، جو رات کے اندھیرے میں بھی نمبر پلیٹ کو کیمرے سے واضح طور پر شناخت کے قابل بناتا ہے جبکہ نئی نمبر پلیٹس سیف سٹی پراجیکٹ سے بھی منسلک ہوں گی۔‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’سکیورٹی فیچرز کے ذریعے مشتبہ گاڑیوں کی نگرانی، ٹریکنگ اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا آسان ہو جائے گا۔‘محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے دفاتر میں نئی نمبر پلیٹیں ھاصل کرنے والوں کی رش دیکھی جا سکتی ہے


 ( مکیش کمار  کے مطابق: ’نمبر پلیٹ سکیم 2022 میں لانچ کی گئی تھی اور اب تک 21 لاکھ گاڑیوں کو نئی نمبرپلیٹس جاری کی جا چکی ہیں۔ سندھ میں تقریباً 12 لاکھ موٹر سائیکل ایسی ہیں جو ابھی رجسٹرڈ نہیں ہیں، جبکہ دو دو لاکھ پرانی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ایسی ہیں جنہوں نے نئی سکیورٹی فیچر والی نمبر پلیٹس حاصل کی ہیں۔‘ترجمان ٹریفک پولیس نے  موقف   بتایا کہ ’شہریوں کو نمبر پلیٹ کے معاملے پر بلاوجہ چالان نہیں کیا جا رہا، بلکہ صرف اُن گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جن کے پاس مکمل دستاویزات موجود نہیں ہیں یا جن پر نمبر پلیٹ ہی نہیں لگی۔

اتوار، 20 جولائی، 2025

اور ڈاکٹر امجد کا جنازہ تیار تھا

 


آپ کی عمر اگر پچاس سال ہو گئ ہے تو سمجھ لیجئے توبہ کا وقت آچکا ہے نا جانے  زندگی کی رسی کسی بھی وقت کھینچ لی جائے گی اور آپ یہ حقیقت جتنی جلدی سمجھ جائیں گے آپ کے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا اور آپ یہ بھی جان لیں چیونٹیوں کا اکٹھا کیا ہوا رزق ہمیشہ چوہے کھاتے ہیں لہٰذا خدا کے لیے چیونٹیوں کی زندگی نہ گزاریں‘ اپنے قد سے بڑے دانے نہ کھینچیں اور اپنی ضرورت سے زیادہ جمع نہ کریں‘ آپ کی حرص آپ کو جینے نہیں دے گی اور آپ کا جمع کیا ہوا پلے کارڈ بن کر آپ کے جنازے کے آگے آگے چلتا رہے گاجب کہ آپ کی ہوس کے بینی فشری پانچ دس ہزار کلو میٹر دور بیٹھ کر اپنے دوستوں کو ’’مائی ڈیڈ پاسڈ اوے‘‘ کے میسج کرتے رہیں گے اور ان کے دوست ’’اووو‘‘ کا جواب دے کر پارٹی میں مصروف ہو جائیں گے چناں چہ رک جائیں‘ آگے کھائی ہے اور اس کھائی میں ڈاکٹر امجد ایڈمرل منصور  اور ڈبل شاہ  جیسے ہزاروں لوگ گرے پڑے ہیں۔اور قبر کی  اندھیری کوٹھری میں بد دعائیں      ساتھ ہوں گی -استغفر اللہ میں نے یہ پیرا گراف اپنے وطن کے معروف جرنلسٹ محترم جاوید چوہدری کےکالم سے لیا ہے


 اب میری تحریر پڑھئے برس گزرے پاکستان میں میگا کرپشن کیسز نے چپکے چپکے سر اٹھا یا تو سب سے پہلا کیس ایڈمرل منصور علی خان کا سامنے آیا پھر  مشہور زمانہ اور بد نام زمانہ کیس ڈبل شاہ کا تھا اور اور اب جو کیسز سامنے آ رہے ہیں  تو ان کی تفصیل جان کر آپ کہیں گے  کہ ڈبل شاہ اور ایڈمرل منصور  تو معصوم سے چور تھے  تو اب بات ہو گی ڈاکٹر امجد کی  جی ہاں دل تھام کر پڑھئےتو اب وقت گزر چکاتھا اوراور  ڈاکٹر امجد کا جنازہ  تیار  تھا‘ ڈاکٹر امجد ایڈن ہائوسنگ سکیم کا مالک تھا‘ اس کے والد ڈپٹی کمشنر رہے تھے اور یہ آئی جی پنجاب سردار محمد چودھری کا داماد تھا‘ اللہ تعالیٰ   کی مہربانی سے  گھر میں دولت کا ہُن برس رہا تھا   ڈاکٹر امجد نے اس دولت سے   ایڈن ہائوسنگ سکیم  کی بنیاد رکھی  پھر  اسکیم کے 13 ہزار ممبرز کے دس ارب روپے   جمع ہو گئے  جواس نے زاتی اکاؤنٹ میں جمع کر لئے اور پھر اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں نذر گوندل کے بھائی ظفر گوندل کے ساتھ مل کر ای او بی آئی کی رقم بھی غبن کر لی ‘ 


ڈاکٹر امجد نے فرضی پلاٹ دے کر ظفر گوندل سے دو ارب روپے لیے تھے اور یہ دونوں بعدازاں یہ رقم آدھی آدھی کر کے غصب کر گئے ‘ متاثرین نے  پلاٹس کا تقاضا کیا اور نا ملنے کی صورت میں احتجاج شروع کیا‘ افتخار محمد چودھری چیف جسٹس  کا طو طی بول رہا تھا  سوموٹو ہوا‘ عدالت میں پیشیاں شروع ہوئیں‘ لاہور کے ایک وکیل کےذریعے چیف جسٹس اور ملزم کے درمیان رابطہ ہوا اور یہ رابطہ بہت جلد رشتے داری میں بدل گیا‘جی ہاں جیسی روح ویسے فرشتے  ' ڈاکٹر امجد کے صاحبزادے مرتضیٰ امجد اور افتخار محمد چودھری کی صاحبزادی افرا افتخارکی شادی ہو گئی اور یوں ایڈن ہائوسنگ سکیم اور ای او بی آئی کے کیسز بند  ہو گئے  دور بدلا‘ نیب کے مقدمے شروع ہوئے تو پورا خاندان ملک سے  فرار ہو گیا‘


 نیب نے ریڈ وارنٹ جاری کر دیے‘ ایف آئی اے نے 26 ستمبر 2018ء کو مرتضیٰ امجد کو دوبئی سے گرفتار کر لیا‘ افتخار محمد چودھری نےکوشش کی‘ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے ریڈ وارنٹ کو غیرقانونی قرار دے دیا اور یہ پورا  خاندان   کینیڈا  میں عیش کرنے لگا -کیسز چلتے رہے اور افتخار محمد چودھری کا اثرورسوخ ڈاکٹر امجد کو بچاتا رہا‘ فراڈ کی رقم 25 ارب روپے تک پہنچ گئی‘ یہ اس دوران پلی بارگین کے لیے بھی راضی ہو گیا لیکن یہ تین ارب روپے دے کر 25 ارب روپے معاف کرانا چاہتا تھا‘ نیب نہیں مانا‘ یہ اس دوران کسی پراسرار بیماری کا شکار ہو گیا‘ پاکستان آیا‘ علاج شروع ہوا لیکن طبیعت بگڑتی رہی یہاں تک کہ دنیا بھر کے ڈاکٹرز‘ ادویات اور افتخار محمد چودھری کا اثرورسوخ بھی کام نہ آیا اور ڈاکٹر امجد 23 اگست 2021ء کو لاہور میں انتقال کر گیا‘ لواحقین نے اسے خاموشی کے ساتھ دفن کرنے کی کوشش کی لیکن متاثرین کو خبر ہو گئی اور یہ پلے کارڈز اور پوسٹرزلے کر پہلے اس کے گھر اور پھر     جنازے پر پہنچ گئے   



 اور ’’ہماری رقم واپس کرو‘‘ کے نعرے لگانے لگے‘ پولیس بلائی گئی‘پولیس جنازے اور احتجاجیوں کے درمیان کھڑی ہو گئی‘ پولیس کی مدد سے جنازہ اٹھا  کر پولیس  کی ہی نگرانی میں اس غاصب    ڈاکٹر امجد کو دفن کیا گیا‘ تدفین کو کئ مہینے ہو چکے ہیں لیکن متاثرین اس کی قبر پر بھی آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے خاندان نے وہاں گارڈز کھڑے کر دیے ہیں۔یہ انتہا درجے کا عبرت ناک واقعہ ہے لیکن آپ اس سے بھی بڑی عبرت ملاحظہ کیجیے‘ ڈاکٹر امجد نے جس خاندان اور جن بچوں کے لیے 25 ارب روپے کا فراڈ کیا تھا‘ وہ جنازے کے وقت کینیڈا میں بیٹھے تھے اور ان میں سے کوئی  بچہ  اسے مٹی کے حوالے کرنے کے لیے پاکستان نہیں آیا تھا۔یہ واقعہ دولت کے پیچھے باولے ہونے والے بے وقوفوں کے لیے نشان عبرت ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے انسان جب ہوس کے  اندھے کنوئیں  میں گرتا ہے تو اپنی  دنیا کے ساتھ 'ساتھ عقبیٰ کی بربادی  کا سامان بھی کرتا ہے جن کی قبروں پر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے نہیں بد دعائیں  اور کوسنے دینے لو گ  آتے ہیں 



ہفتہ، 19 جولائی، 2025

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم

   ' ٹیلی ویژن کی معروف سینئر ادکارہ عائشہ خان کی انکے گھر سے7 روز پرانی لاش ملی، پولیس کے مطابق عائشہ خان کی طبعی موت واقع ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی صف اول کی اداکارہ عائشہ خان 77 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں، وہ گلشن اقبال بلاک 7نجیب پلازہ میں واقع اپنے فلیٹ سے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مردہ حالت میں پائی گئیں، پولیس ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ متوفیہ طویل عرصہ سے گھر میں اکیلی رہتی تھیں، جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اداکارہ کے فلیٹ سے تعفن اٹھا تو اہل محلہ نے پولیس کو بلا کر انکے فلیٹ کا دروازہ توڑ کراندر داخل ہوئےتو اداکارہ گھر میں مردہ حالت میں پائی گئیں جبکہ انکی لاش مسخ ہوچکی تھی،


لاش کی اطلاع پر پولیس اور ریسکیو اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر متوفیہ کی لاش کو اسپتال منتقل کیا، جہاں پر متوفیہ کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا، پولیس کا کہنا ہےکہ متوفیہ بیمار تھی اور گھر میں اکیلی ہونے کی وجہ سے انکی دیکھ بھال نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے انکی طبعی موت واقع ہوئی ہے،اداکارہ کے بچے ملک سے باہر ہیں جس کی وجہ سے پولیس نے ضابطے کی کارروائی کے بعد لاش کو سرد خانہ منتقل کردی ہے، پولیس کا کہنا ہےکہ ادکارہ عائشہ خان کے 3 بچے ہیں اور وہ ملک سے باہر مقیم ہیں ان سے رابطہ ہوگیا ہے، وہ ہفتہ کو کراچی پہنچیں گے، جسکے بعد اداکارہ کی لاش کو انکے بچوں کے حوالے کردی جائے گی



لیجنڈری اداکارہ عائشہ خان 76 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں،داکارہ عائشہ خان کی آخری رسومات خاموشی سے ادا کی گئیں،یہ المیہ ہمیں سمجھا رہا ہے کہ خاندان، خلوص، محبت اور خدا سے تعلق ہی فرد کی تنہائی کا مداوا ہیں جن کا نعم البدل کوئی ذہین سے ذہین ترین سائنسی ایجاد نہیں ہوسکتی۔ نہ میڈیا کو اطلاع دی گئی اور نہ ہی شوبز سے وابستہ کوئی شخصیت جنازے میں شریک ہوسکی۔ تاہم جس پہلو نے عوام کو گہرے دکھ میں مبتلا کیا وہ اُن کی المناک اور تنہائی بھری موت تھی۔یہ المیہ ہمیں سمجھا رہا ہے کہ خاندان، خلوص، محبت اور خدا سے تعلق ہی فرد کی تنہائی کا مداوا ہیں جن کا نعم البدل کوئی ذہین سے ذہین ترین سائنسی ایجاد نہیں ہوسکتی۔ اداکارہ کے انتقال کی خبر ایک ہفتے تک منظرِ عام پر نہ آسکی۔


بعدازاں، پڑوسیوں کی شکایت پر پولیس نے کارروائی کی اور ان کی لاش کو ایدھی سرد خانے میں منتقل کردیا۔عائشہ خان کے جنازے میں کوئی شوبز شخصیت شریک نہ ہو سکی کیونکہ کسی کو اطلاع نہیں دی گئی اور تمام معاملات بہت خاموشی اور نجی انداز میں انجام دیے گئے۔ایک خوش اخلاق اور ملنسار خاتون تھیں، مگر زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے خود کو تنہا کر لیا تھا، اداکارہ کے پاؤں میں فریکچر ہوا تھا اور وہ شدید مایوسی کا شکار تھیں۔ماہرین نے اس تحقیق کے لیے بوڑھے، اور بڑھاپے میں چست رہنے والے افراد کا انتخاب کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ افراد جو بڑھاپے میں بھی چست تھے، دراصل وہ کبھی بھی یہ سوچ کر کسی کام سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے کہ زائد العمری کی وجہ سے اب وہ اسے نہیں کرسکتے۔وہ نئے تجربات بھی کرتے تھے اور ایسے کام بھی کرتے تھے جو انہوں نے زندگی میں کبھی نہیں کیے۔ یہی نہیں وہ ہمیشہ کی طرح اپنا کام خود کرتے تھے اور بوڑھا ہونے کی توجیہہ دے کر اپنے کاموں کی ذمہ داری دوسروں پر نہیں ڈالتے تھے۔ماہرین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں معمر افراد کی موجودگی کے باعث مختلف ایشیائی ممالک اپنے صحت کے بجٹ کا بڑا حصہ معمر افراد کی دیکھ بھال پر خرچ کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھاپے میں لاحق ہونے والی مختلف بیماریوں جیسے ڈیمنشیا، الزائمر، اور دیگر جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اوائل عمری سے ہی صحت کا خیال رکھا جائے اور صحت مند غذائی عادات اپنائی جائیں۔


ایک ڈرامہ ایکٹر نے بتایا کہ یہ خبر میرے لیے ایک صدمہ تھی۔‘انھوں نے ساتھی فنکاروں سے تعلق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈسٹری میں دوست ہوتے ہیں لیکن سب کی ذاتی مصروفیات اور گھریلو ذمہ داریاں بھی ہیں اور زیادہ تر دوستیاں اور ملاقاتیں سیٹ پر ہی ہو پاتی ہیں۔ چند ایک دوستیاں عام زندگی تک ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے لوگ چند ہی ہوتے ہیں سارے نہیں ہوتے۔ ہمارے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ملاقات ہی چھ سے آٹھ ماہ بعد ہوتی ہے۔ ہاں اگر کام کر رہے ہوں تو روزانہ مل لیتے ہیں۔سینیئر اداکاروں میں شامل شہود علوی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ویسے ہم سب کو ایک دوسرے کا پتا بھی ہوتا ہے اور ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ہم کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں یا عمر زیادہ ہوجاتی ہے اور کام بند کر دیتے ہیں تو تعلق کم سے کم ہو جاتا ہے۔‘’سینیئر آرٹسٹ جب کام چھوڑ دیتے ہیں۔ٹی وی سے بہت دور ہو جاتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کئی روز لاشوں کی خبر تک نہ ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ تعلق واسطہ کم سے کم رکھا جاتا ہے۔شہود علوی کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ ملتے ہی سال میں ایک بار ہیں اور صرف کام کے لیے۔ تو مشکل ہوتا ہے سب کچھ جاننا

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر