سنا ہے کہ چینی کے شفاف حساب کے لئے کوئ کمیشن بنا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں چینی کی برآمدات اور سبسڈی سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے بیان کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’کمیشن کی رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عام آدمی اور کسان دونوں کو دونوں سے ہی خوب منافع کمایا ہے۔رحیم یار خان گروپ کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق اس کی ملکیت شوگر مل رحیم یار خان میں واقع ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مخدوم عمر شہر یار ہیں جو سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہیں۔الیکشن کمیشن میں جمع اثاثوں کے تفصیلات کے مطابق اس گروپ کے مالکان میں کیسکیڈ ٹیک کمپنی بھی شامل ہے جس میں چوہدری مونس الہی شیئر ہولڈرز ہیں۔ وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے بیٹے ہیں۔
یہ رحیم یار خان شوگر ملز، الائنس شوگر ملز کی بھی مالک ہے۔ اشرف گروپ آف انڈسٹریز کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع بہاولپور میں واقع اشرف شوگر ملز چوہدری ذکا اشرف کی ملکیت ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اور صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔شریف گروپ اور سیاست دانوں کی شوگر ملزشریف گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی ملکیت میں دو شوگر ملز ہیں جن میں سے ایک رمضان شوگر مل اور دوسری العربیہ شوگر مل ہے۔شریف گروپ کی بنیاد میاں محمد شریف نے رکھی تھی جو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے والد ہیں۔اسی طرح کشمیر شوگر مل الشفیع گروپ کی ملکیت ہے جو شریف فیملی کے رشتہ دار ہیں۔حسیب وقاص گروپ تین شوگر ملوں کا مالک ہے۔ گروپ کی ویب سائٹ پر دی گئی تفصیلات کے مطابق اس کی ملکیت میں حسیب وقاص شوگرملز، یوسف شوگر ملز اور عبداللہ شوگر ملز ہیں۔ حسیب وقاص گروپ میاں الیاس معراج کی ملکیت ہے جو میاں نواز شریف اور میاں شہاز شریف کے کزن ہیں-
ملتان میں قائم فاطمہ شوگر مل کی ویب سائٹ پر معلومات کے مطابق اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فیصل مختار ہیں جو ملتان کے سابق ضلع ناظم ہیں۔نون شوگر ملز کے بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیف اللہ خان نون ہیں جو معروف سیاسی خاندان نون فیملی کا حصہ ہیں۔راجن پور کا دریشک خاندان انڈس شوگر ملز راجن پور میں حصہ دار ہے۔ 2018 کے انتخابات میں راجن پور سے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے سردار حسنین بہادر خان دریشک ماضی میں صوبے کے وزیر خزانہ اور لائیو سٹاک کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ ان کے الیکشن کمیشن میں جمع اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق وہ اس مل میں حصہ دار ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملک کے طول و عرض میں چینی چینی کی ہاہا کار مچی ہوئ ہے۔2023ء کے کرشنگ سیزن کی چینی ایکسپورٹ کر دی گئی تو 2024 کے کرشنگ سیزن کی چینی کہاں ہے۔ کیا ذخیرہ اندوزوں نے ذخیرہ کر لی ہے اس سوال کا جواب دینے کیلئے نہ کوئی حکومتی نمائندہ تیار ہے اور نہ ہی پاکستان شوگر مل ایسوایشن اور نہ ہی مل مالکان تیار ہیں
ملک کی ضرورت سے زائد چینی ملک کے اندر ہونے کے دعوے کر کے اپنی چینی کے منہ مانگے ڈالر کمانے کیلئے چینی کو ایکسپورٹ کرنے کی اجازت حاصل کی گئی جس سے اربوں روپے پہلے بھی کمائے گئے ۔ اکتوبر 2024 کو وفاقی کابینہ سے پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی منظوری لے لی پانچ لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی منظوری حاصل کرنیوالی پاکستان شوگر ملز ایسوایشن نے انڈرٹیکنگ دی حکومت کو کہ انہیں چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیدی جائے تو وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ ملک کے اندر چینی 140 روپے فی کلوسے اوپر قیمت نہیں جائے گی اگر جائے گی تو وہ ذمہ دار ہوں گے۔یہاں اپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ جو چینی ایکسپورٹ کرنے کی منظوری دی گئی یہ چینی 23 20کے کرپشن سیزن کی پیداوار تھی اس کے فوری بعد نومبر میں 2024 کا کرشنگ سیزن شروع ہو گیا اور اس کی شکل میں نئی چینی آگئی جو پانچ لاکھ میٹرک ٹن سے زائد پیداوار تھی۔حالات و واقعات اور معلومات کے مطابق یہ نئے سیزن کی چینی بھی ملک میں موجود نہیں ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نئے سیزن کی چینی کہاں گئی
اب چونکہ ملک کے اندر چینی کا بدترین بحران پیدا ہو چکا ہے اور ملک کے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹوروں پر اور پرچون فروشوں کی دکانوں پر 200 روپے فی کلوگرام کے حساب سے چینی فروخت ہو رہی ہے اور حکومت اعلان کر چکی ہے کہ ملک کے عوام کی ضروریات کے لیے انہیں بیرون ملک سے پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنا پڑے گی جس کی منظوری آج کل میں ہونا ہے جو چینی باہر سے درآمد کی جانی ہے وہ ماضی کے ریکارڈ کے مطابق ناقص ہوتی ہے باریک ہوتی ہے اور اس میں مٹھاس بھی نہیں ہوتی رائے بتایا جا رہا ہے جب یہ چینی آئے گی حکومت است 174 روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت کرے گی بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹوروں پر چینی 200 سے زائد قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔اب یہاں ارباب اقتدار سے سوال بھی کرنا ہے اور عوام کو بتانا بھی ہے کہ وہ پاکستان شوگر ملز اسوسی ایشن جس نے انڈرٹیکنگ دی تھی اپنی پانچ لاکھ ٹن میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کے لیے کہ ملک کے اندر چینی کی قیمت 140 روپے فی کلو رہے گی اگر اس سے اوپر جاتی ہے تو پاکستان شوگر ملز ایسوسییشن اس کا ہرجانہ بھی ادا کرے گی اور اس کا جرمانہ بھی ادا کرے گی اور مجرم بھی ہوگی اب جب ملک کے اندر چینی 200 روپے سے زائد فی کلو ہو چکی ہے اور کوئ جواب دہ نہیں کہ یہ سب کیاہورہا ہے