ہفتہ، 18 اکتوبر، 2025

بلتستان میں تاریخ عزاداری

 

بلتستان میں چودہویں صدی عیسوی سے قبل اسلام کا نام و نشان نہ تھا -لیکن چودہویں صدی کے بعد اسلام اس شان وشوکت سے پھیلا کہ اب یہاں علوی اورحسینی تہذیب و تمدن جا بجادکھائی دیتا ھے ۔یہاں اسلام تشیع کی صورت میں پھیلا ھے کیونکہ جنہوں یہاں نوراسلام کو پھیلایا وہ  نور ولایت محمد وآل محمد  سے منور تھے۔یہی وجہ ہے کہ صد ھا سال بعد بھی اس علاقے میں محبان اہلیبیت اطہار علیہم السلام کی اکثریت موجود ہیں جن کے دل محبت آل محمد سے سرشار ہیں ۔آل محمد کی محبت میں یہ لوگ اپنا جان مال سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں ۔جب بھی محرم کا چاند افق عالم پر نمودار ہوتا ہے بلتستان کے لوگ سیاہ لباس میں غم حسین منانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں ان ایام میں کام کاج چھوڑ کر صرف سیدہ زہرا کو ان کے دلبند کا ماتم وپرستہ دیتے ھیں۔جس دن بلتستان میں پہلا مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی پہنچے اسی دن سے عزاداری کی ابتداء ہو چکی   تھی -لیکن  باقاعدہ آداب اسلامی کے ساتھ فرھنگ و تمدن اسلامی کو ملحوظ نظر رکھ کر انجام پانے والے عزاداری کی تاریخ کو اس سرزمین میں دیکھنا ہو تو ہمیں میرشمس الدین عراقی کے دور (1490ء سے 1515ء)کا مطالعہ کرنا ہوگا۔


جس  زمانے  میں میر شمس تبلیغ دین اور ترویج مذہب تشیع کی خاطر آئےتویہاں مقپون بوخا کی حکومت تھی۔مقپون بوخا کا بیٹا شیر شاہ میر شمس الدین عراقی معتقد تھابعد میں 1515ء میں جب وہ خود برسر اقتدار آیا تو اس نے اسلامی رسومات کے فروغ اور اشاعت اسلام کے لیے خدمات انجام دینے والوں کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومتی سطح پر انہیں پروٹوکول دئیے بہت سے علماکرام ،مبلغین دین اور ذاکرین کو مختلف علاقوں میں بھیجے تاکہ زیادہ سے زیادہ ترویج دین ہو سکے بہت سوں کو زمین بخش دئیے۔ان علما کرام کی کوششوں سے دیگر اسلامی آداب و رسوم کے ساتھ عزاداری بھی باقاعدگی سے شروع ھوئی۔بعد میں بلتستان کے معروف راجہ علی شیر خان انچن (1588ء تا 1625ء) کے دور میں رسمِ عزاداری اور فن شاعری کو بھی عروج ملنا شروع ہو گیا۔اس وقت عزاداری حکمرانوں کے درباروں میں ھوتی تھیں -اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مذہب تشیع کی ترویج اور فرھنگ وتمدن شیعی کو بلتستان اور گردو نواح میں مرائج کرنے میں مقپون راجاوں نے بڑا اہم کردار ادا کیاھے ۔


جب سید حسین رضوی کشمیر سے تبلیغ دین کے لئے کھرمنگ پہنچے تو وہاں کے راجہ نے از خود استقبال کئےاور اس سید بزرگوار کے حکم پر راجہ نے پولوگراونڈ میں ہی عزا خانہ بنایا گیا جہاں اب بھی عزاداری ابا عبداللہ ہوتی ہیں۔امام بارگاہ پاک و ہند میں مذہبی رسومات انجام دینے کے جگے کا نام ہے اسی کو خانقاہ بھی کہتے ہیں جنوب ہندوستان میں اسے عاشور خانہ بھی کہتے ہیں ۔پہلی بار نواب صفدر جنگ نے ۱۷۵۴م میں دھلی میں ایک مکان عزاداری کی خاطر تعمیر کروایا جسے پاک و ہند کا اولین امام بارگاہ مانا جاتا ہے اس کے بعد آصف الدولہ کا امام باڑہ ۱۷۸۴ میں تعمیر ہوا جس کے بعد سے امام باڑے تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔داءرۃ المعارف بزرگ اسلامی،ص۱۳۶، جلد دھم۔احمد شاہ مقپون کی دور حکومت 1840ء میں سکردو میں امام بارگاہ کلاں کے نام سے پہلی امام بارگاہ بنی جس کے بعد امام بارگاہ لسوپی اور امام بارگاہ کھرونگ تعمیر ہوئیں۔ امام بارگاہوں کی تعمیر کے ساتھ ہی باقاعدہ عزاداری کا سلسلہ شروع ہوا آج بلتستان کے ہر ہر علاقے میں امام بارگاہیں موجود ہیں جہاں لوگ اپنے علاقوں میں مسجد کو ضروری سمجھتے ہیں وہاں غم ابا عبداللہ الحسین منانے کے لئے عزاخانے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں


 اس وقت  بلتستان کی سرزمین پر کوئی محلہ ایسا نہیں جہاں محرم اور صفر میں عزاداری نہ ہوتی ہو ۔لوگ امام بارگاہوں کے علاوہ اپنے گھروں میں بھی عزاداری کرتے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام رات باری باری لوگوں کے گھروں میں جا کر سیدہ زہرا کو ان کے لال حسین کا پرسہ دیتے ہیں ۔اہل بلتستان کے رگوں میں خون حسینی دوڑ رہا ہے یہ لوگ نام حسین پر سب کچھ فدا کرنے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔عقیدت کی انتہا یہ ہے کہ بعض اہل معرفت لوگ سال بھر میں ہر روز نماز صبح کے بعد ایک مرثیہ پڑھ کرکربلا والوں پر چند قطرے آنسو بھاتے ہیں ۔نہ صرف مرد حضرات ایسا کرتے ہیں بلکہ بعض خواتین کا بھی یہی روش رہتا ھے۔ڈوگروں کا 108 سالہ دور بلتستان والوں کے لیے ایک سیاہ ترین دور تھا لیکن عزاداری کے حوالے سے ڈوگرہ حکمرانوں نے بھی خصوصی سہولیات فراہم کیں۔ جب جلوسِ عزا امام بارگاہ کلاں کے نزدیک پہنچتا تھا تو ڈوگرہ فوج کا ایک خصوصی دستہ تعزیہ اور عَلم کو سلامی پیش کرتا تھا اور جلوس کے اختتام تک احتراماً اپنی سنگینوں کو سرنگوں رکھتا تھا۔


بشکریہ 

بلتستان میں تاریخ عزاداری

تحریر: سید قمر عباس حسینی حسین آبادی

تلخیص (بلتی اسلامی ثقافت پاکستان)


زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -ان دنوں میرا اسکول چل رہا تھا

  شادی کے بعد ہم نے چالیس روپئے ماہانہ کرائے پر اپنی ضروریات کے مطابق لالو کھیت چار نمبر بس اسٹاپ کے نزدیک ایک مکان لے کر زندگی کی ابتداء کی ,مکان کی مکانیت یہ تھی ایک بیڈ روم ایک بیڈروم کے ہی اتنا برامدہ اور اتنا ہی بڑا آنگن  ایک چھوٹا سا کچن غسل خانہ  اورعلیٰحدہ سے   ٹوائلٹ  -یہی اس زمانے کا رواج تھا اس مکان کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ ہماری مالک مکان ہمارے ہی ساتھ والے گھر میں رہتی تھی جو بہت با اخلاق خاتون تھیں  اور میرا بہت خیال رکھتی تھیں  ان دنوں میرا اسکول چل رہا تھا اس لئے میں اکثر چھٹی کے بعد  اپنے میکے چلی جایا کرتی کبھی اپنے ہی گھر آجاتی تھی ,,اس وقت اپنی شادی شدہ زندگی کی زمّہ داریوں کو نباہنے کے ساتھ ساتھ   میری توجّہ کا مرکز میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائ ہو ا کرتے تھے اور میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میں کسی بھی صورت وقت نکال کر اپنی پیاری ماں کی کوئ تو خدمت کر کے گھر واپس آجاؤن ،


میں نے دیکھا کہ اللہ پاک شکر خورے کو شکر ضرور دیتا ہئے چنانچہ اس مالک کے کرم سےمیری شادی کے   بعد ہی   انیّس سو پینسٹھ میں ہی والد صاحب  نے بینکنگ کا ایک امتحان پاس کیا اور ابا جان کی ترقی ہوئ اس ترقی سے ابا جان کو بنک کی جانب سے   بنگلے کی رہائش کی آ فر ہوئ اور  میرے والدین  لالوکھیت کے مکان سے اٹھ کرفیڈرل بی ایریا کے علاقے میں  دو سو چالیس گز کے بنگلے میں  دستگیر نمبر نو میں آگئے،والدہ جیسے ہی فیڈرل بی ایریا شفٹ ہوئیں انہوں نے مجھے بھی اپنے برابر کے مکان بلاکر رکھ  لیا فیڈرل بی ایریا ان دنوں نیا نیا آباد ہونا شروع ہواتھاہمارے  گھر سے بلکل قریب  اونچے اونچے درختوں کی باڑھ تھی اور اس باڑھ کے اندر تازہ سبزیوں کے کھیت ہوا کرتے تھے -ان کھیتوں کی آبیاری کے لئے صبح منہ اندھیرے رہٹ چلا کرتی تھی -وہ سبزیاں  سبزی والے  کھیتوں سے لے کر اپنے اپنے ٹھیلوں پر  لے کر گلی کوچوں میں بیچا کرتے تھے  آ م کا موسم قریب آنے پر کوئل کی کوک وہ بھی صبح صادق میں بہت ہی پیاری سنائ دیتی تھی 


 اور یہاں کے مکانات  بھی  ہرے بھرے درختوں کے درمیان اور لہلہاتے کھیتوں کے قریب ترتیب میں بھی اچھّے لگتے تھے اور رہائش کے لئے بھی کشادہ تھے  یہ نئ بستی لالوکھیت کے مقابلے میں اسوقت  کی ڈیفنس سوسائٹی دکھائ دیتی تھی   چنانچہ والد صاحب جو جہد مسلسل سے وابستہ رہتے ہوئے ترقّی کی جانب گامزن تھے ہما را یہ گھر کرائے کا تھا لیکن والد صاحب نے جلد ہی پھر بنکینگ کا امتحان پاس کیا اس کامیابی نے محض پانچ برس کی قلیل مدت میں  ان  کو  دوسو چالیس گز کے  بنگلے  سے اٹھا کر نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی  بابلعلم کی بیک پر  پانچ سو گز کے  اپنے زاتی بنگلے میں بٹھا دیا میری والدہ  ایف بی ایریا میں پانچ سال رہیں اور میں انکے ہمراہ دوسرے گھر مین رہتی رہی اس طر ح پورے پانچ سال گزر گئے  ،لیکن پانچ سالوں  بعدجب مجھے محسوس ہوا کہ اب میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں تب میں نے قلم کا سفر شروع کیا میرے قلمی سفر کی ابتداء  جنگ اخبار میں معاشرتی موضوعات سےہو ئ لیکن  جلد ہی  افسانہ نگاری شر وع کی

 

افسانہ نگاری کا سفر طویل رہا ،پاکیزہ ،دوشیزہ جنگ ڈائجسٹ ،حنا ،آنچل اخبار جہاں سچّی کہانیا ں آئیڈئیل اور بھئ کئ جن کے نام بھی زہن میں نہیں ہیں ان میں لکھتی رہی ،میرا خیال ہئے کہ آج کے دور میں ناول کے مقابلے میں افسانہ زیادہ پڑھا جانے والا ادب ہئے لیکن ناول پڑھنے والے بھی کم نہیں ہیں ،شائد افسانہ نگاری کی جانب میری زیادہ توجّہ کا سبب بھی یہی ہو کہ افسانہ لکھنا مجھے ناول کی نسبت ہمیشہ آسان لگا در اصل میرے خیال میں ناول ایک بڑی اور کشادہ زہنی کی تخلیق ہوتا ہے ،اور میں اپنی گونا گوں زمّے داریوں کے سبب بڑی سوچ پر آنا نہیں چاہتی ہوں یہاں کینیڈا میں میری اون لائن ناول میں سہاگن بنی !مگر، عالمی اخبار کی زینت بنی ، یہ ناول در حقیقت میں نے پاکستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئ شرح'' طلاق''' جیسے ناروا و ناپسندیدہ امر پر لکھی اس کے لکھنے کا مقصد نوجوان نسل کو پیغام دینا تھا کہ شادی ہوجانے  کے بعد ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور کمزوریو ں کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر کی بنیاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں

 

،اسی طرح میری کوشش یہی ہوتی ہئے کہ میں اپنی افسانوی تحریروں کے زریعے اپنے سماج کو کوئ ایسا مثبت پیغام دے سکوں جو پڑھنے والے کی رہ نمائ کا باعث ہو  افسانہ نگاری کا لم نویسی آج بھی  جاری ہئے افسانہ نگاری نا ول نویسی معاشرتی مضامین کچھ روحانیت کے کام  پر بھی توجّہ ہئےاس کے علاوہ ایک دستر خوان بھی شمع کا دستر خوان کے نام سے بازار میں آیا ،میرے ایک افسانو ی مجموعے رنگ شفق کی یہاں کینیڈاایڈمنٹن میں ہی ملٹی کلچرل  کونسل کی روح رواں محترمہ صوفیہ یعقو ب صاحبہ نے رونمائ کروائ اور ٹورانٹو سے کہنہ مشق ادیب و شاعرجناب تسلیم الٰہی زلفی نے میرے اس مجموعے پر تبصرہ لکھا  یہ مجھ جیسی کم علم رکھنے والی طالبہ کے لئے ایک یقینی  اعزاز کی بات ہے بات یہ ہئے کہ انسان سماج میں رہتے ہوئے کبھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ہئے اس کو ہر حال میں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہئے رہبری بھی چاہئے ہوتی ہئے ،یہ میری خوش قسمتی ہئے کہ مجھے تمام عمر ،اچھّے راہبر ،اور اچھّے استاد میسّر آئے جنہوں نے فراخ دلی سےمیری بھرپور رہ نمائ کی اور ادب کی دنیا میں مجھے قدم جمانے کے موقع فراہم کئے

 

جمعہ، 17 اکتوبر، 2025

ہمارے نونہال 'کس کی جانب دیکھیں

 

 ایک  دن کی بات ہےمیرا  کسی کام سے   اپنے گھر فیڈرل بی ایریا بلاک 9 سے   عزیز آبا دنمبر8جانا ہوا واپسی پر میں نے دیکھا عزیز آباد آٹھ نمبر کے کونے پر ایک وسیع عریض کمپری ہنسیو بوائز اسکو ل  کے بہت بڑے گراؤنڈ میں تین حصوں میں طالب علم اپنے انٹرویل ٹائم میں  الگ الگ کھیل 'کھیل رہے تھے -میں بچوں کے ہاتھ تھامے کھڑی ہو کر محویت سے طالب علموں کے کھیل دیکھتی رہی  -پھر اللہ کریم کی کرم نوازی سے وہ دن بھی آیا جب میرے اپنے بچے اسی اسکول  میں   امتیازی کامیابی سے ہمکنار ہو کر دہلی کالج کے طالب علم بنے-میں آج کراچی میں طالبعلموں کی حق تلفی دیکھ کر بہت دکھی ہوتی ہوں جن سے ا نکے کھیل کے میدان چھین لئے گئے اور کوئ پرسان حال نہیں کہ  قوم کے نونہالوں پر یہ ظلم  نہیں کرو-ویسے تو کراچی میں سارے ہی کھیل بڑے شوق سے کھیلے جاتے تھے لیکن ایک ایسا کھیل تھا جو شوق  کے علاوہ جنون سے کھیلا اور دیکھا جاتا اور وہ تھا کرکٹ۔کھیل کود کے اس باب میں ہم بھی زیادہ تر توجہ اسی کھیل پر مرکوز رکھیں گے۔






کرکٹ ایک ایسا کھیل تھا جو ایک بیٹ اور ایک بال کی ملکیت ہونے کے بعد چند دوستوں کو اکٹھا کرکے کہیں بھی شروع کیا جاسکتا تھا۔بیٹنگ کی باریاں لینے کا بہت خوب صورت اندازتھا۔ ایک ہموار جگہ پر کھلاڑیوں کی تعدادکے مطابق لکیریں لگا دی جاتی تھیں اور ان کے پیچھے نمبر لکھ کر بیٹ کے نیچے چھپا دیئے جاتے تھے۔ باہر سے صرف لکیریں ہی نظر آتی تھیں۔ہر کھلاڑی ان میں سے کسی ایک لکیر پر انگلی رکھ دیتا تھا۔ پھر بیٹ اٹھا دیا جاتا اور ہر ایک کو اپنا نمبر دیکھ کر پتہ چل جاتا تھا کہ اس کی بیٹنگ کی باری کب آنی ہے۔ جگہ کا بھی تکلف نہیں تھا۔ کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا میدان مل جاتا تو ٹھیک، اور جو نہ بھی ہوتا تو محلے کی کچی پکی گلیاں تو تھیں نا۔ عموماً ایک لڑکا جو کسی کھاتے پیتے گھر کا ہوتا تھا، اپنے ذاتی وسائل سے بیٹ بال اور وکٹیں لے آ تا تھا۔ باقی چونکہ سارے ہی مفت خورے ہوتے اس لیے اس لڑکے کی کھیل میں موجودگی بڑی اہمیت رکھتی تھی۔اس کے بڑے ناز نخرے اٹھائے جاتے اور اس کو آنکھ کا تارا بنا کر رکھتے تھے۔بلے بازی میں بھی اس کو پہلی باری دے دی جاتی تھی۔






کئی دفعہ تو وہ کلین بولڈ بھی ہو جاتا تو فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا۔ مزاج برہم ہونے کی صورت میں وہ اپنا بیٹ بال اوروکٹیں اٹھا کر کھلاڑیوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل جاتا اور مستقبل کے عمران خان ا ور حنیف محمد منھ تکتے رہتےاس قسم کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے اکثر بچے چندہ ا کٹھاکرکے ہلکا پھلکا سامان لے آتے تھے، جس میں کم از کم بلا اور ٹینس گیند ضروری ہوتے۔ وکٹوں کا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ پیچھے کوئی کرسی کھڑی کر لی جاتی تھی یا کسی قریبی دیوار پر کوئلے سے تین موٹی موٹی لکیریں کھینچ کر وکٹ بنا لی جاتی تھی، تاکہ کرکٹ کی رسمیں بھی پوری ہو جائیں اور کھیل کا بھرم بھی قائم رہے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجز میں چند ہی ادارے ایسے تھے جہاں طلبا وطالبات کے لیے کھیل کود کے مواقع میسر تھے۔ ان میں بھی بیشتر اداروں میں نئے کلاس رومز تعمیر کرنے کے لیے گراؤنڈز کی جگہ کو ہی استعمال کیا گیا۔ شہروں میں پرائمری اسکولوں میں تو کھیل کے میدان کا تصور ہی نہیں تھا۔ 




بچے علاقوں میں کھلی جگہوں اور گلیوں میں جسمانی ورزش اور کرکٹ سمیت مختلف کھیلوں سے محظوظ ہوتے تھے جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما کے لیے بے حد ضروری ہے۔ انہی گلیوں سے بڑے بڑے کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا نام بنایا۔لاہور میں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج سول لائنز کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے مقابلے دیکھنے کے لیے لوگ شہر کے مختلف علاقوں سے گورنمنٹ کالج کے گراؤنڈ میں پہنچتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اسکول اور کالج/ یونیورسٹی لیول پر کرکٹ سمیت مختلف کھیل محدود ہوتے گئے اور آج کھیلوں کے یہ مقابلے شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قومی کھیل ہاکی اور سکواش میں پاکستان انتہائی پیچھے چلا گیا اور کرکٹ میں بھی ٹیلنٹ کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ باقی کھیلوں کے بارے میں تو حکومت نے کبھی سوچا بھی نہیں۔سرکاری اداروں کی سرپرستی میں قبضہ مافیا نے لاتعداد ایسی خالی زمینوں پر قبضہ کیا جہاں مقامی بچے مختلف گیمز کھیلتے دکھائی دیتے تھے۔ کئی میدانوں کو کھیلوں کے لیے وقف کرنے کے بجائے حکومت نے خود پلازے اور عمارتیں کھڑی کرنے میں پراپرٹی مافیا کی مدد کی یا پھر انہیں وہ جگہیں الاٹ کردیں۔


بیگم جہاں آرا شاہنوازکا تحریک پاکستان میں حصہ

    بیگم  جہاں آرا شاہنواز  ہند وستان کے ایک روشن خیال سیاسی گھرانے میں 7/  اپریل 1897ء کو باغبان پورہ لاہور میں پیدا ہوئیں۔آپ پاکستانی سیاستدان اور سماجی کارکن میاں سر محمد شفیع کی دختر تھیں۔آپ کے والد میاں محمد شفیع ایک  کشادہ زہن کے   بلند خیال آدمی تھے اس لیے انھوں نے جہاں آرا کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔آپ کی والدہ امیر النساء بھی عورتوں کی تعلیم وترقی کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہیں۔ابتدائی تعلیم کے بعدجہاں آرانے کوئین میری کالج کا رُخ کیا جہاں آپ کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ 1914ء میں جہاں آرا سر شاہنواز بار ایٹ لا کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھ گئیں۔سر شاہنواز تحریک پاکستان کے اہم ارکان میں شامل تھے۔آپ متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔آپ اردو اور انگریزی زبان کی ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کی سر گرم رکن بھی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کا شمار بھی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی خواتین میں ہوتا ہے۔



ابتدائی تعلیم کے بعدجہاں آرانے کوئین میری کالج کا رُخ کیا جہاں آپ کی صلاحیتیں کھل کر سامنے  آئیں۔ 1914ء میں جہاں آرا سر شاہنواز بار ایٹ لا کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھ گئیں۔سر شاہنواز تحریک پاکستان کے اہم ارکان میں شامل تھے۔آپ متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے ارکان بھی رہے۔جہاں آرا نے ابتدائی عمر سے سماجی کاموں میں دلچسپی لینا شروع کی۔ پہلی خاتون ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کی ممبر بنیں۔ 1929ء میں لاہور میں سماجی اصلاحات کی کانفرنس کی نائب صدر چنی گئیں۔ 1933ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کے فرائض انجام دیے۔ 1941ء میں قومی دفاعی کونسل کی رکن منتخب ہوئیں۔ 1943ء تا 1945ء حکومت ہند کے محکمہ  اطلاعات کی جائنٹ سیکرٹری اورعورتوں کے شعبے کی انچارج رہیں۔ 1946ء میں پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ مسلم لیگ کی سول نافرمانی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 


  قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کی مجلس قانون ساز کی رکن چنی گئیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ  بیگم جہاں آرا شاہنواز کو آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی خاتون سیاسی رکن ہونے کے باعث انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ اس کے علاوہ لیگ آف نیشنز کے اجلاس سمیت آپ نے مزدوروں کی بین الاقوامی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1930ء میں برطانیہ سے جن اہم سیاسی رہنماؤں کو گول میز کانفرس میں مدعوکیا گیا تھا، ان میں بیگم جہاں آرا کے علاوہ اہل خانہ سے ان کے والد اور بیٹی ممتا ز شاہنواز نے بھی شرکت کی۔ قیام پاکستان سے قبل بیگم جہاں آرا کو دو مرتبہ پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔بیگم جہاں آرا شاہنواز کی بیٹی ممتاز شاہنواز نے بھی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کی جدوجہد کی۔  سیاسی و سماجی خدمات   'جہاں آرا نے ابتدائی عمر سے سماجی کاموں میں دلچسپی لینا شروع کی۔ آپ  پہلی خاتون ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کی ممبر بنیں۔


 1929ء میں لاہور میں سماجی اصلاحات کی کانفرنس کی نائب صدر چنی گئیں۔ 1933ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کے فرائض انجام دیے۔ 1941ء میں قومی دفاعی کونسل کی رکن منتخب ہوئیں۔ 1943ء تا 1945ء حکومت ہند کے محکمہ اطلاعات کی جائنٹ سیکرٹری اورعورتوں کے شعبے کی انچارج رہیں۔ 1946ء میں پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ مسلم لیگ کی سول نافرمانی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جنوری 1947ء میں قید بھی کاٹی۔ قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کی مجلس قانون ساز کی رکن چنی گئیں۔ اپوا کے بانی ارکان میں سے تھیں اور اس کی نائب صدر بھی رہ چکی ہیں۔آپ اردو اور انگریزی زبان کی ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کی سر گرم رکن بھی تھیں۔ اپوا کے بانی ارکان میں سے تھیں اور اس کی نائب صدر بھی رہ چکی ہیں۔آپ نے 27 نومبر 1979ء کو لاہور میں وفات پائی اور باغبان پورہ میں اپنے خاندانی قبرستان میں سر شاہنواز کے پہلو میں دفن ہوئیں

مدو جزراصغر اور مدو جزر اکبر کیا ہوتے ہیں

     کرہء ارض پر  پروردگار عالم کا بنایا ہوا یک متوازن سسٹم مثلاً زمین، چاند کے درمیان ’’مرکزگریز قوت‘‘ کو متوازن رکھتا ہے لیکن سطح زمین پر دو قوتیں برابر نہیں ہوتیں۔ چاند کے قریب کناروں میں قوتِ کشش چاند کی طرف زیادہ ہوتی ہے جب کہ دوسری طرف ’’مرکز گریز‘‘ قوت کناروں پر مخالف سمت میں عمل کرتی ہے جوزیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ چاند زمین کے گرد طواف کرتا ہے، جس کی وجہ سے تقریباً ’51 منٹ’مدوجزر‘‘ روزانہ دیر سے پیدا ہوتا ہے۔ چناں چہ بلند مدوجز12گھنٹے 25منٹ کے فرق سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس لئےتقریباً چھ گھنٹے 45منٹ تک  مدو جزر کے عمل میں پانی آہستہ آہستہ چڑھتا ہے، پھر اُترنا شروع ہو جاتا ہےاور 6 گھنٹے 45 منٹ تک پانی اُترتا رہتا ہے۔ اس طرح ساحل سمندر کا وہ حصہ جو چڑھائو کے وقت پانی میں ڈوب گیا تھا، پھر باہر نمودار ہو جاتا ہے۔ پانی کے اس طرح اُتار چڑھائو کے عمل کو ’’مدوجزر‘‘کہتے ہیں۔ جو عربی زبان کا لفظ ہے جہاں ’’مد‘‘ پانی کے چڑھائو اور’’جزر‘‘ پانی کے اُترنے کا نام ہوتا ہے۔ ۔ جسے  اردو  زبان میں جوار بھاٹا بھی کہتے ہیں


  یہ تمام قدرتی عمل قوت کشش کے ماتحت ہوتا ہے، جس میں سورج کے مقابلے میں چاند کی قوت کشش کو بڑی فوقیت حاصل ہے لیکن اس کے علاوہ عام طور پر سطح زمین سے منسلک ارضی و جغرافیائی عوامل کی کارکردگی کی وجہ سے بھی پانی میں ’’مدوجزر‘‘ کی تخلیق ہوتی ہے لیکن اس کی شدت اور وقت میں مختلف مقامات پر فرق پایا جاتا ہے، کیوں کہ سمندر کے مختلف حصے یا سیکشن چاند اور سورج کی کشش کے حوالے سے علیحدہ ردِعمل کو ظاہر کرتے ہیں ،جس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر ایک مکمل پانی کا جسم تو ہے لیکن سمندری فرش کے ناہموار پروفائل، پہاڑی سلسلے ، ساحل کی بناوٹ اور خطےکی پوزیشن نے اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔خصوصی طور پر مدوجزر میں فرق پیدا ہونے کی صورت میں ناہموار اُبھارکی تشکیل ایک عمدہ مثال ہے، جس کی اصل وجہ وہ’’ مرکز گریز قوت‘‘ (Centrifugal Force)ہے جو زمین کی گردش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور مدوجزر کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں سورج کی وجہ سے سمندر میں جوار بھاٹا آتا ہے



 لیکن سورج زمین سے خاصی دوری پر ہونے کی وجہ سے سمندر پر اس کا اثر کم ہوتا ہے۔ چاند اور سورج کی مشترکہ کشش ثقل سمندری پانی پر عمل کرتی ہے تو پھر حالات مختلف ہو جاتے ہیں۔ مثلاً چاند کی پہلی تاریخ اور چودہ تاریخ کو سورج، زمین اور چاند ایک اُفق لائن میں آجاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کرئہ ارض پر موجود سمندر کے پانی کو چاند اور سورج آپس میں مل کر یعنی متحدہ کشش کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتے ہیں، پھر ایسا ہوتا ہے کہ سورج کی کشش سے چاند کی پیدائشی کشش میں اضافہ ہوتا ہے، نتیجے میں سمندر کے پانی میں معمول کی نسبت زیادہ اُتار چڑھاؤ پیدا ہونے لگتا ہے- پانی کا اُتارچڑھائو زیادہ تر تین سے چار فٹ تک ہوتا ہے اس قسم کے مدوجزر کو مدوجزر اصغر (Neap Tide)کہتے ہیں  یہی کیفیت مخصوص وقت میں سورج کی کشش کی وجہ سے بھی ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے اور یوں سمندر کا پانی مدوجزر کی زد میں آتارہتا ہے۔


 دراصل یہ سارا عمل نہ صرف چاند اور سورج کی گردش کا نتیجہ ہوتا ہے بلکہ جس طرح زمین کی محوری گردش 21جون کو ’’راس السرطان‘‘ کو جنم دیتی ہے ۔یعنی اس تاریخ کو خطہ سرطان پر زمین پر سورج کی کرنیں سیدھی پڑتی ہیں اور دن لمبے ہو جاتے ہیں۔ سورج آسمان پر زیادہ اونچا معلوم ہونے لگتا ہے۔ -۔ اس صورت حال میں سمندر کا پانی ٹھاٹیں مارنا شروع کر دیتا ہے ، کئی کئی فٹ اونچا ہو جاتا ہے اور سمندر میں طغیانی آتی ہے جو تباہ کن طوفان میں تبدیل ہو کر خوفناک منظر پیش کرتا ہے۔ یہ بہت بڑا جوار بھاٹا ہوتا ہے جسے ’’مدوجزر‘‘ اکبر (Spring Tide) کہتے ہیں۔ لیکن چاند کی ساتویں اور اکیسویں تاریخ کو چاند سورج کے ساتھ زاویہ قائمہ بناتاہے۔ چناں چہ چاند کی کشش پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور سورج کی کشش پانی کو اپنی طرف لیکن چونکہ چاند سورج کی نسبت زمین کے قریب ہے اسی لئے اس کی کشش زیادہ اثرانداز ہوتی ہے اور سورج کی کشش پر غالب آجاتی ہے۔ ،  


جمعرات، 16 اکتوبر، 2025

حضرت لقمان کو ندائے غیبی آئ

 

  قران  کریم  میں حضرت لقمان  کے نام کی ایک سورۃ آپ کے نام سے موسوم ہے اس سورہ میں آپ نے اپنے بیٹے کو مخا طب کر کے ایسی نصیحتیں کی ہیں جو تمام  انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں -آپ  تمام عمر بھر لوگوں کو نصیحتیں فرماتے رہے۔ تفسیر فتح الرحمن میں ہے کہ آپ کی قبر مقام صرفند میں ہے جو رملہ کے قریب ہے اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آپ کی قبر رملہ میں مسجد اور بازار کے درمیان میں ہے اور اس جگہ ستر انبیا علیہم السلام بھی مدفون ہیں۔ جن کو آپ کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس سے نکال دیا تھا اور یہ لوگ بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر وفات پا گئے تھے۔ آپ کی قبر پر ایک بلند نشان ہے اور لوگ اس قبر کی زیارت کے لیے دور دور سے جایا کرتے ہیں۔اللہ کے ایک سچّے بندے تھے اللہ سبحانہٗ نے ان کے اندر وہ خوبیاں دیکھیں جو کہ ایک نبی کے اوصاف میں ہونی چاہئے توایک دن فرشتے کو ان کے پاس اس وقت بھیجا جب کہ ایک دن وہ دوپہر کے کھانے کے بعدقیلولہ کر رہے تھے
 

 غیب سے ندائے فرشتہ آئ کہ ائے لقمان رحمۃ اللہ علیہاللہ تعالٰی آپ  کو منصبِ نبوّت عطا کرنا چاہتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ جلِّ شانہٗ نے آپ کا جواب منگوایا ہے۔حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ ندائے فرشتہ سن کر ہوشیارہو  گئے انہوں نے ادھر ادھر دیکھا لیکن فرشتہ نظر نہیں آیا لیکن فرشتہ کی اپنے قریب موجودگی کو انہوں نے محسوس کر کے جواب میں فرشتے سے کہا کہ اللہ نے میری مرضی طلب کی ہے یا مجھے حکم دیا ہے ،فرشتے نے کہا آ پ کی رضا طلب کی ہے،حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالٰی سے کہنا کہ میں اپنے آپ کو نبوّت کا گراں بار منصب اٹھا نے کا اہل نہیں پاتا ہوں   چنانچہ فرشتے حضرت لقمان کا جواب لے کر واپس چلے گئے ،اور پھر اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے علم حکمت واپس لے کر وہ علم حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیا اور منصب نبوّت پر حضرت موسٰی علیہ السّلام کو سرفراز کیا۔یاد رہے کہ دنیا کے پہلے حکیم و طبیب حضرت موسٰی علیہ السّلام تھے اور حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کے سگے خالہ زاد بھائ بھی تھے
 

  حضرت لقمان کا طریقہ علاج سادہ اور فطری اصولوں پر مبنی تھا۔ وہ بیماریوں کو دور کرنے کے لیے قدرتی جڑی بوٹیوں اور غذائی اجزاء کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ مریضوں کی روحانی اور نفسیاتی صحت پر بھی توجہ دیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ جسم اور روح دونوں کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔حضرت لقمان ایک طبیب اور حکیم کے طور پر جانے جاتے تھے، اور انکے علاج کے طریقے قرآن و حدیث میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ ان کے علاج کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:جڑی بوٹیوں کا استعمال:حضرت لقمان مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتے تھے۔ وہ جڑی بوٹیوں کی خصوصیات سے بخوبی واقف تھے اور ان کا صحیح استعمال جانتے تھے۔متوازن غذا:وہ مریضوں کو متوازن غذا کھانے کی تلقین کرتے تھے اور ان کی غذا میں مناسب مقدار میں غذائی اجزاء شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔صفائی اور پرہیز:حضرت لقمان صفائی کی اہمیت پر بہت زور دیتے تھے اور مریضوں کو پرہیز کرنے کی بھی تاکید کرتے تھے۔روحانی اور نفسیاتی علاج:وہ سمجھتے تھے کہ روحانی اور نفسیاتی صحت کا براہ راست جسمانی صحت پر اثر پڑتا ہے۔
 

حضرت لقمان  جب  مریض  کی نبض دیکھ  کر اس کے مرض کو پہچان لیتے  تب وہ مریض کی روحانی اور نفسیاتی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے تھے۔دعا اور توکل:حضرت لقمان علاج کے ساتھ ساتھ دعا اور توکل کی بھی تلقین کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ شفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور دعا اس کا ایک ذریعہ ہے۔حضرت لقمان کا طریقہ علاج ایک جامع اور فطری طریقہ تھا جو جسم، روح اور ذہن کو صحت مند بنانے پر مرکوز تھا۔حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو جن کا نام انعم تھا۔ چند نصیحتیں فرمائی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ لقمان میں ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری نصیحتیں آپ نے فرمائی ہیں جو تفاسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ مشہور ہے کہ آپ درزی کا پیشہ کرتے تھے اور بعض نے کہا کہ آپ بکریاں چراتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ حکمت کی باتیں بیان کر رہے تھے تو کسی نے کہا کہ کیا تم فلاں چرواہے نہیں ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، میں یقینا وہی چرواہا ہوں تو اس نے کہا کہ آپ حکمت کے اس مرتبہ پر کس طرح فائز ہو گئے؟ تو آپ نے فرمایا کہ باتوں میں سچائی اور امانتوں کی ادائیگی اور بیکار باتوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے   

بریسٹ کینسر -خاموش جانلیوا مرض

 

ایہ ایک سچی کہانی ہے  جو  میں   نے  معاشرے کی لڑکیوں  اور خواتین کی آ گہی  کے لئے انٹر نیٹ سے   لے کر  یہاں  تحریر کی ہے -ا ٹھائیس سالہ ایم فِل سوشیالوجی کی طالبہ نازیہ* نے نہاتے ہوئے محسوس کیا کہ چھاتی میں ایک اُبھار سا بنا ہوا ہے۔ ہاتھ لگانے پر کچھ گُٹھلی جیسا احساس ہوتا تھا۔ لیکن کوئی خاص درد تکلیف وغیرہ نہ تھی۔ اس نے سوچا والدہ سے ڈسکس کر لے گی۔ چند ہفتے یونہی بےدھیانی میں یاد نہ رہا۔ ایک دن دوبارہ نہاتے ہوئے اس طرف دھیان گیا تو ماں سے اس بارے مشورہ کر ہی لیا۔ ماں نے کہا کوئی درد یا تکلیف ہے تو دکھا لیتے ہیں ڈاکٹر کو، ساتھ مشورہ دیا کہ زیادہ مسئلہ نہیں لگ رہا تو پیاز باندھ لو اور ساتھ وظیفہ پڑھ لو یہ آپ ہی “گُھل” جائے گی۔ چند ہفتے وظیفہ پڑھا، اور پیاز بھی باندھا اور ساتھ ساتھ زیتون کے تیل سے ہلکے ہاتھ مالش بھی کی۔ گویا نازیہ نے نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو یقین دلا دیا کہ ٹوٹکوں سے ابھار کا سائز کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ مطمئن ہو گئی۔ ابھار اپنی جگہ موجود رہا۔ خاموش۔ کسی تکلیف یا درد کے بغیر۔ جیسے طوفان سے پہلے سمندر ہوتا ہے۔چھے مہینے ایسے ہی گزر گئے۔ نازیہ کو بھول گیا کہ ایک چھاتی میں ابھار ہے۔


 اب کے نازیہ کو عجیب سا درد دائیں بازو میں اٹھا، جیسے اس کی ہڈی میں کوئی سوراخ سا کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ درد کی دوا لی چند دن، اور درد کو آرام آ گیا۔ لیکن دوا چھوڑتے ہی درد نے پھر زور پکڑا۔ آخرکار قریبی ڈاکٹر سے مشورہ ہوا۔ اس نے کہا جوان لڑکی ہے اسے کیا ہونا ہے۔ کیلشیئم اور وٹامن ڈی تجویز کیا، ساتھ ایک تگڑا سا پین کِلر انجیکشن ٹھوکا اور گولیاں دے کر چلتا کیا۔ پھر سے عارضی آرام آ گیا۔ لیکن دوا کا کورس ختم ہوتے ہی پھر وہی تنگی شروع!اب نازیہ کو پریشانی ہوئی کہ یہ موئی درد جان کیوں نہیں چھوڑ رہی۔ اس نے اپنی ڈاکٹر دوست کو کہہ کر سرکاری ہسپتال سے ایکسرے کروایا۔ ایکسرے کروا کے ہڈی والے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ اس نے ایکسرے دیکھ کر کہا کہ اس میں کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے، آپ اس کو ذرا کینسر آوٹ ڈور میں دکھا کر آئیں۔ اور یوں میری نازیہ سے پہلی ملاقات کا بندوبست ہوا۔۔۔۔نازیہ نے مجھے سلام کر کے ایکسرے پکڑاتے ہوئے کہا کہ اسے بازو کی ہڈی میں درد کی شکایت ہے۔

 

 میں نے ایکسرے دیکھتے ہی ہڈی کا پوچھنے کی بجائے اس سے پوچھا “آپ کو جسم میں کہیں کوئی گِلٹی محسوس ہوتی ہے”، جس کے جواب میں اس نے کہا کہ ہاں بس چھاتی میں ابھار سا تھا لیکن وہ وظیفے اور مالش سے بہتر ہو گیا، لیکن “تھوڑا سا” ابھی بھی ہے۔ وہ “تھوڑا سا” ابھار چیک کرتے ہی الارم بجنے لگے۔ میں نے نازیہ کو بائیاپسی، ہڈیوں کا اسکین اور سی ٹی اسکین لکھ کر دیے۔ رپورٹ میں چوتھی اسٹیج کا انتہائی اگریسیو بریسٹ کینسر تھا، جس کی جڑیں ہڈیوں میں ہی نہیں بلکہ جگر، پھیپھڑوں اور ایڈرینل گلینڈ میں بھی پہنچ چکی تھیں۔۔۔۔نازیہ کے علاج کا دورانیہ لگ بھگ اٹھارہ ماہ کا تھا۔ زندگی کے آخری چار ماہ اس نے بہت تکلیف میں گزارے۔ بستر پر معذوری کے عالم میں وہ کبھی کبھار اپنے دل کی باتیں کیاکرتی تھی۔ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔ ڈگری مکمل کرنا چاہتی تھی۔ ماں بننا چاہتی تھی۔ کچھ اور جینا چاہتی تھی۔ لیکن مقدر کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا۔۔۔شاید ہمارے ارد گرد بہت سی نازیہ موجودہوں۔


 کیونکہ ہر نو میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں اس کا شکار ہوتی ہے۔ خواتین کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ چھاتی میں تبدیلیاں ہوں تو ڈاکٹر سے مشورے میں تاخیر نہ کریں۔ پہلی اسٹیجز میں اگر ہم اس بیماری کو پکڑ لیں تو اللہ کی مہربانی سے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے اچھے چانسز ہوتے ہیں۔ اگر آپ خاتون ہیں اور تصویر میں دکھائی گئی کوئی علامات آپ میں ہیں تو فوراً کسی ڈھنگ کے ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں۔ اگر آپ مرد ہیں تو اپنی خواتین کو آگہی دیں کہ جھجک، اور خواہ مخواہ کی شرم کو زندگی اور صحت سے قیمتی نہ جانیں۔       خواتین میں چھاتی کے سرطان کا شعور اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے اس کی بروقت تشخیص اور مؤثر علاج انتہائی ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت سرطان سے بچاؤ کی سہولیات کے لئے پر عزم ہیں۔ چھاتی کے سرطان کی بروقت تشخیص سے کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔چھاتی کے کینسر سے آگاہی کا مہینہ، ہر اکتوبر میں منایا جاتا ہے، چھاتی کے کینسر کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا ایک اہم وقت ہے، جو دنیا بھر میں خواتین کو متاثر کرنے والے سب سے عام کینسروں میں سے ایک ہے۔ 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر