جمعہ، 12 دسمبر، 2025

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

 


باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے 1960  ء کے لگ بھگ باؤ فاضل کے والد کا لاہو ر ریلوے اسٹیشن کے قریب معمولی سا ہوٹل تھا-       وہ اپنے والد کے چھوٹے سے چائے کے  ہوٹل میں مسافروں کے لئے چا ئے بناتے اور چائےکے گندے برتن بھی خود دھوتے تھے۔ باؤ کو یہ کام پسند نہ تھا۔خصوصاََ ان کو گاہکوں کے فضول قسم کے تبصرے سننا سخت نا پسند تھا۔ باؤ فاضل اپنا کوئی کام کرنا چاہتے تھے۔ ان دنوں فوٹو کھینچوانے کا بہت رواج تھا۔ چنانچہ آپ نے فوٹو گرافی کا کام کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے والد سے کچھ رقم ادھار لے کر ایک پرانا سا کیمرا خریدا اور اندرون شہر دو موریہ پل کے قریب فٹ پاتھ پر اپناکیمرا سیٹ کیا۔ یہ سارا دن فٹ پاتھ پر تصویریں کھینچتے اور ساری رات ہوٹل کے چھوٹے سے سٹور میں تصویریں دھوتے اور ان کے پرنٹ تیار کرتے۔ ان کا کیمرا پرا نا تھا جس کی وجہ سے بعض اوقات کوئی تصویر خراب ہو جاتی تو گاہک وہ تصویر ان کے منہ پر دے مارتا مگر باؤ نےحوصلہ نہ چھوڑا اور دن رات کام کرتے رہے۔ یہ کام ان کو پسند تھا اس لئے وہ ہر ناپسندیدہ بات کو نظر انداز کرتے گئے ۔ پانچ چھ سال کی سخت محنت کے بعد انھوں نے کچھ پیسے جمع کر لئے اور اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی دکان خرید لی۔ اس طرح اپنا سٹوڈیو فٹ پاتھ سے دکان میں منتقل کر لیا۔ اب وہیں تصویریں کھینچتے، وہیں دھوتے اور پرنٹ تیار کرتے۔انہی دنوں فوٹو کاپی مشین نئی نئی پاکستان میں آئی تھی۔ 


انھوں نے بھی ایک فوٹو کاپی مشین خرید لی اور سارا دن فوٹو کاپی کرتے۔ ان کے خیال میں جس دن انھوں نے فوٹو کاپی مشین خرید ی اسی دن سے ان کی قسمت بدل گئی۔ اب ان کی آمدن میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور جلد ہی ان کی آمدن دوگنا ہو گئی،پھر انھوں نے دکان کی دوسری منزل بھی تعمیر کروا لی۔ 1970 ء میں ان کے دو بیٹے بھی ان کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے اپنے کام کو بڑھایا ۔ اب یہ کیمرے کی فلم تھوک میں خریدتے اور پرچون میں فروخت کرتے۔ ان سے ان کو اچھا منافع ہوتا۔1980ء میں انھوں نے کلر لیب بنائی جہاں رنگین فوٹو تیار ہوتے۔ اب ان کا کام اور بڑھ گیا۔ باؤ کے بیٹے بھی باپ کی طرح مواقع کی تلاش میں رہتے۔ اب انھوں نے کیمرے کی فلم باہر سے منگوانی شروع کی اور اسے پاکستان میں تھوک میں فروخت کرتے۔ یہ فلم اور پرنٹنگ پیپر ’’مٹسوبشی‘‘ والوں سے منگواتے تھے۔ فلم اور پرنٹنگ کاغذ کے بزنس میں انھیں خوب کمائی ہوئی۔ 1995 ء میں یہ کیمرے کی فلم اور پرنٹنگ کاغذ کے ہول سیلر بن گئے۔اب انھوں نے نسبت روڈ چوک کے پاس چیمبر لین روڈ پر پہلے ایک چھوٹی سی دکان خرید ی کچھ عرصہ بعد اس کے ساتھ والی دکان بھی خرید لی۔1998ء کے لگ بھگ نئے ڈیجیٹل کیمروں کی وجہ سے کیمرے کی فلم اور پرنٹنگ کے کاغذ کا بزنس کچھ کم ہوگا۔ انہی دنوں ان کا چھوٹا بیٹا لندن سے  کر کے لوٹا تھا۔ وہ بھی والد کے بزنسمیں شامل ہو گیا۔ اسے کوئی نیاکام کرنے کا شوق تھا۔ 


چنانچہ انھوں نے پہلے انرجی سیور بلب اور پھر مٹرولا موبائل کا بزنس کیا۔ اس بزنس میں انھیں کوئی تجربہ نہ تھا جس کی وجہ سے انھیں کا فی نقصان اٹھانا پڑا۔باؤ فاضل کافی عرصہ سے’’مٹسو بشی‘‘ والوں کے ساتھ کیمرے کی فلموں اور پرنٹنگ کے کاغذ کا کاروبار کر رہے تھے۔ انھوں نے باؤ فاضل سے کہا کہ وہ پاکستان میں ان کی دوسری چیزیں بھی فروخت کریں۔ شروع میں یہ جھجکے مگر بعد ازاں ہامی بھر لی۔ چنانچہ ’’مٹسو بشی‘‘ والوں نے انھیں ان کے  فروخت کرنے کو کہا۔ باؤ فاضل نے پانچ سو   منگوائے اور معمولی منافع پر انکی فروخت کا اشتہار دیا۔ اس طرح یہ سارے   پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی فروختہ و گئے۔1998ء سے 2004 ء تک یہ’’مٹسو بشی‘‘ کے  معمولی منافع پر فروخت کرتے رہے تا کہ وہ ایک بار   کی مارکیٹ میں داخل ہو جائیں۔ پھر انھیں خود   تیار کرنے کا خیال آیا۔ چنانچہ باؤ فاضل نے 2005 ء میں چوہنگ کے قریب 10 لاکھ روپے میں 32 کنال زمین خرید کر’’ مٹسوبشی‘‘ کے تعا ون سے ان کے AC اسمبل کرنے کا پہلا پلانٹ لگایا۔ 2007ء میں اورینٹ گروپ نے اپنی چیزیں بھی بنانا شروع کیں۔ اب یہ ’’مٹسو بشی‘‘ کے AC کے علاوہ اپنے)ORIENT( AC


 ‘ فریج‘ اوون اور واٹر ڈسچارجر وغیر ہ بنا رہے ہیں اورینٹ گروپ نے بہت تیزی سے ترقی کی تو ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ چنانچہ کوریا کی مشہور کمپنی Samsung والوں نے ان سے رابطہ کیا اور باؤ فاضل کے ساتھ مل کر کاروبار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ چنانچہ 2009 ء سے باؤ فاضلSamsung والوں کے ٹی وی‘ فریج اور واشنگ مشین وغیرہ پاکستان میں فروخت کر رہے ہیں۔باؤ فاضل صرف پندرہ سال پہلے اپنے تین بیٹوں اور دو ملازمین کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اب ان کی کمپنی میں پانچ ہزار لوگ کام کر رہے ہیں۔ فٹ پاتھ سے کام شروع کر نے والا باؤ فاضل 30 سال کی محنت کے بعد اب ارب پتی بن گئے اور مصری شاہ کے چار مرلے کے مکان کے بجائے گلبرگ میں ساڑھے چھ کنال کے خوبصورت گھر میں شفٹ ہو گئے۔ ان کے خیال میں ان کی کامیابی کی وجہ اپنے رب پر بھر پور یقین، کام ، کام اور کام یعنی سخت محنت، کامیاب ہونے کی جستجو، نیک نیتی سے کام کرنا اور احساس کمتری کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینا ہے۔ باؤ فاضل پر ایسا وقت بھی آیا جب وہ تین تین دن بھوکے رہتے، کھانا نصیب نہ ہوتا مگر پھر بھی انھوں نے کوشش ترک نہ کی اور ثابت قدم رہے۔محمد فاضل انتقال کر گئے ہیں مگر ان کی اولا د پھل پھول رہی ہے۔آپ نے اورینٹ کا نام یقیناََ سنا ہو گا۔ یہ کمپنی ائر کنڈیشنر سے لے کر مائیکرو ویو تک گھریلو مشینری بنا تی ہے ۔ یہ کمپنی باؤ فاضل نام کے ایک ان پڑھ شخص نے بنائی اور انہوں نے اسے اللہ کے کرم اور شبانہ روز محنت سے پاکستان کے بڑے صنعتی گروپوں کی قطار میں لا کھڑا کیا۔آپ نے اورینٹ کا نام یقیناََ سنا ہو گا۔ یہ کمپنی ائر کنڈیشنر سے لے کر مائیکرو ویو تک گھریلو مشینری بنا تی ہے ۔یہ کمپنی باؤ فاضل نام کے ایک ان پڑھ شخص نے بنائی اور انہوں نے اسے اللہ کے کرم اور شبانہ روز محنت سے پاکستان کے بڑے صنعتی گروپوں کی قطار میں لا کھڑا کیا۔

//

جمعرات، 11 دسمبر، 2025

لاہورکی سینڑل جیل میں فیض احمد فیض کے قید کے دن

 

بھائی کی موت کے کچھ ہی عرصہ بعد عزیز دوست رشید جہاں   کے ماسکو میں گزر جانے کی خبر ملی۔ ایلس کو خط میں لکھارشید کے ماسکو میں مرنے کی خبر کل پڑھی۔ اگر میں جیل سے باہر ہوتا تو شاید زارو قطار روتا لیکن اب تو رونے کو آنسو ہی باقی نہ                                         رہے۔فیض کے دل پر جو بیت رہی تھی اس کا تخلیقی اظہار ان کی شاعری میں ہورہا تھا، ان کی کئی عمدہ نظمیں اسی زمانے میں لکھی گئیں جب وہ پسِ دیوار زنداں تھے۔ یہ زمانہ ذاتی حوالے سے عہد زیاں تھا لیکن تخلیقی اعتبار سے بہت بار آور رہا۔دونوں میاں بیوی جگ بیتی   خطوط کی صورت رقم کر رہے تھے۔ فیض کے خطوط برسوں بعد انھی کے قلم سے ترجمہ ہو کر ’صلیبیں مرے دریچے میں‘ کے عنوان سے                   دنیا کےسامنے آ ئے۔ ایلس کے خطوط ’ڈیئر ہارٹ‘ کے نام سے انگریزی میں شائع ہوئے۔ ان کا اردو میں ترجمہ 'عزیز دلم' کے عنوان سے نیر رباب نے کیا۔ یہ خطوط ان کی زندگی کی ظاہری اور باطنی کیفیات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔اس کے بارے میں میں فیض کے دوست شیر محمد حمید نے لکھا’فیض ایک لا ابالی، بے نیاز این و آں اور خود فراموش سا نوجوان تھا۔ ایلس نے اس کی زندگی میں ترتیب اور سنوار پیدا کر دی۔ اس کی بے قرار روح کو ایک حسین قالب میسر آ گیا۔


 ایلس نے مغرب اور اس کی تہذیبی روایات کو خیر باد کہہ کر مشرق اور اس کی ثقافتی اقدار کو اپنا لیا۔ دیس کے ساتھ بھیس اور وطن کے ساتھ زبان قید خانے میں میں فیض کے دل پر جو بیت رہی تھی   وہ تو ان کا دل ہی جانتا ہو گا لیکن چونکہ وہ کرب کے دور سے گزر رہے تھے  ان کے قلم  سے  اس کا تخلیقی اظہار ان کی شاعری میں ہورہا تھا، ان کی کئی عمدہ نظمیں اسی زمانے میں لکھی گئیں جب وہ پسِ دیوار زنداں تھے۔ یہ زمانہ ذاتی حوالے سے عہد زیاں تھا لیکن تخلیقی اعتبار سے بہت بار آور رہا۔ دونوں میاں بیوی جگ بیتی اور ہڈ بیتی خطوط کی صورت رقم کر رہے تھے۔ فیض کے خطوط برسوں بعد انھی کے قلم سے ترجمہ ہو کر ’صلیبیں مرے دریچے میں‘ کے عنوان سے سامنے آ ئے۔ ایلس کے خطوط ’ڈیئر ہارٹ‘ کے نام سے انگریزی میں شائع ہوئے۔ ان کا اردو میں ترجمہ 'عزیز دلم' کے عنوان سے نیر رباب نے کیا۔ یہ خطوط ان کی زندگی کی ظاہری اور باطنی کیفیات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔’عزیز دلم‘ میں شامل آخری خط میں ایلس نے اپنے محبوب سے کہا’میری زندگی میں اور ہے کیا، تمھاری محبت، تمھارا انتظار اور تمھارے ساتھ مستقبل کے خواب۔ فیض صاحب   کو   حکومت وقت نے جب    لاہور سینڑل جیل میں    پابند سلاسل کر دیا تھا۔


وہ اُن دنوں علیل رہتے تھے۔ ایک روز اُن کے دانت میں سخت درد اُٹھا- جیل کے حکام نے اُنہیں پولیس کی حفاظت میں چیک اپ کرانے کے لیے دانتوں کے اسپتال بھیج دیا۔ ڈاکڑ صاحب اُن کے پرستاروں میں سے تھے لہٰذا اُنہوں نے روزانہ چیک اپ کے لیے بلانے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ اس طرح جیل کے ماحول سے کچھ دیر کے لیے اُنہیں نَجات حاصل ہو جایا کرے- یوں روزانہ اُنہیں جیل کی گاڑی میں اسپتال لایا جاتا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ جیل والوں کے پاس گاڑی نہیں تھی- جیلر نے اُنہیں تانگے میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس صورت میں انہیں ہتھکڑی پہنانا ضروری تھا۔ فیضؔ صاحب مان گئے- اس طرح وہ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھ گئے- پولیس کے سپاہی بندوق لیے اُن کے ساتھ تھے۔ اس حال میں وہ لاہور کے گلی کوچوں سے گزرے، انہوں نے تازہ ہوا کو محسوس کیا۔


 بازاروں سے گزرتے ہوئے خوانچے والے، تانگے والے، بیل گاڑیاں سب بچھڑے ہوئے یاروں کی طرح اُن کے قریب سے گزرتے رہے- عجیب منظر تھا- وہ لاہور شہر کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزرتے رہے- شہر اور اہلیانِ شہر یہ تماشا دیکھتے رہے- شاید کچھ لوگوں نے اُنہیں پہچان بھی لیا ہو- ارد گرد لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا جن میں نانبائیوں سے لیکر صحافیوں تک سبھی شامل تھے- اس طرح ایک جلوس کی شکل بن گئی- فیضؔ صاحب کہتے تھے میں نے زندگی میں ایسا دلکش جلوس نہیں دیکھا- اسی واقعہ سے متاثر ہو کر اُنہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم لکھی

 "آج بازار میں پابجولاں چلو۔"

چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں

تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو

دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

حاکم شہر بھی مجمع عام بھی

تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے

دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

زینبِ علیا ،بنت نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم)

 

سیّدالاصفیا ء خاتم الانبیاء تاجدار دوعالم حضرت رسول خدا محمّد مصطفٰے صلّی ا للہ علیہ واٰلہ وسلّم کی پیاری بیٹی جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیآغوش مبارک میں گلستان نبوّت کی ایک تروتازہ کلی نے آنکھ کھولی تو آ پ سے دو برس بڑے بھائ اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین کی انگلی تھام کر اپنی مادر گرامی کے حجرے میں آئے ،اور ننھی بہن کے ننّھے ملکوتی چہرے کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اپنے پدر گرامی مولائے متّقیان کو دیکھ کر مسکرائے  اور سلطان اولیاء مولائے کائنات نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے چھپاتے ہوئے فرمایا کہ ,حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تشریف لے آئیں توبچّی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے جس طرح اپنے نواسوں کے نام حسن وحسین تجویز کئے تھےنبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بی بی زینب کی ولاد ت کے وقت شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔چنانچہ تین دن کے بعدسفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ کےسلام اللہ علیہا حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی 


آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں  لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہواٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھااور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ  رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘  لے کر آئےہیں


یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا ،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے  جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ  درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،



 پھر یہ ننھی کلی  بوستان نبوت کے آنگن  کی پُر نور فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی-  بچپن  کی ہی عمر میں چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے ،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو  اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے تھے۔ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا  رکھ دیا۔ .


بدھ، 10 دسمبر، 2025

جب فیض احمد فیض غدار قرار دے کر پابند سلاسل کئے گئے

 یک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے   تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسکل پر اپ گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا


فیض کے نام خطوط سے چند منتخب اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’ لاہور میں رہنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ 16روپے من آٹا ہوگیا ہے اور ہم مشکل سے گزارا کر پا رہے ہیں۔‘’آخر یہ حکومت کر کیا رہی ہے؟ لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ کل میں نے سولہ روپے کا ایک من آٹا خریدا۔ پچھلے سال مارچ میں جب تم گئے تھے تو من بھر آٹے کی قیمت نو روپے تھی‘ (میں نے اپنی حساب کی پرانی ڈائری میں چیک کیا تھا۔)’چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب تین روپے بارہ آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ چار روپے کا، ہم نے گھر میں ٹوتھ پاﺅڈربنا لیا تھا جو دو مہینے چلا۔‘اضافی یافت کے لیے ایک طالب علم کو انگریزی بھی پڑھائی۔ وائی ایم سی اے سے شارٹ ہینڈ کا کورس اس لیے کیا کہ نوکری جاتی رہے تو یہ کہیں اور کام کے لیے کام آ سکے۔ نوکری کے تین برس ہونے پر تنخواہ میں اضافے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ایک دفعہ آموں کا موسم آنے پر شوہر رہ رہ کر یاد آیا۔ خط میں لکھا:خط کے ذریعے فیض اور ایلس کی آدھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ ’آموں کا موسم ہے اور میرا دل اداس ہے، مجھے یاد آتا ہے جب تم دوپہر کو کھانے پر گھر آتے تو بڑے بڑے آموں سے بھرا ایک تھیلا تمھارے ہاتھ میں ہوتا اور کبھی بھولتے نہیں تھے۔‘


 شوہر بھی صابر شاکر، راضی برضا، ایک خط میں بیوی سے کہا:تم نے پوچھا ہے کہ تمھارے لیے ساتھ کیا لاﺅں؟ تم خود آجاﺅ اور ان دو ہنستے ہوئے چہروں کو ساتھ لیتی آﺅ، اس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے۔‘ایلس کو تنہائی ستاتی اور وہ تلخیِ ایام کا ذکر خطوں میں کرتیں تو جواب ملتا:’ دن بہت آہستہ آہستہ گزر رہے ہیں اور ہر گزرنے والا دن دل کی سطح پر کراہت اور درد کا ایک ہلکا سا غبار چھوڑ جاتا ہے لیکن چند روز اورمری جان فقط چند ہی روز۔‘ تم نے اپنے گھر کی تنہائی کا ذکر کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ تنہائی کتنی کڑی اور جدائی کے لمحے کتنے گراں ہیں۔‘دونوں میاں بیوی خطوں میں دنیا جہاں کی باتیں کرتے، ذاتی دکھ درد، موسم، باغ باغیچے، بچوں کی باتیں، لوگوں کے رویے، کتابوں کی اشاعت کے معاملات اور بہت کچھ،فیض جیل میں جو کچھ پڑھتے اس کے بارے میں تاثرات سے اہلیہ کو آگاہ کرتے۔ کتابیں جیل بھجوانے کا تقاضا کرتے۔ ایک دفعہ چیخوف کے ڈرامے ’تھری سسٹرز‘ پڑھنے کو جی چاہا۔ ایلس سے فرمائش کی جو پوری کردی گئی۔ اس پر خوش ہوکر لکھا



’مجھے خوشی ہے کہ تم نے مجھے چیخوف کی کتاب بھیج دی۔ پڑھنے میں بہت لطف آ رہا ہے۔ چیخوف کی تحریر سے کتنا گہرا پیار اور کتنی بے پناہ شفقت ٹپکتی ہے۔‘ ایلس بھی کتاب پڑھنے سے حاصل ہونے والی خوشی کے بارے میں شوہر کو بتاتیں:’میں رابرٹ برائوننگ کی سوانح عمری پڑھ رہی تھی، بہت زبردست ہے۔ کیا نفیس انسان تھا اور کیا بہترین شاعر، دل سوزی بھی اور سریلا پن بھی۔ اس کتاب میں چند خطوط بھی شامل ہیں جو اپنی ذات میں خالص شاعری ہیں۔‘خط کے ذریعے دونوں کی آدھی ملاقات ہوجاتی تھی۔ جیل میں بالمشافہ ملاقات ذاتی اعتبار سے جاں گسل ہوتا۔ اس کے لیے ایلس کو تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا خاص طور پر گرمیوں میں حیدر آباد جیل جانے کے لیے لمبا سفر انھیں نڈھال کر دیتا۔ بعض دفعہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سفرمؤخر کرنا پڑتا۔جیل میں بیوی بچوں کی جدائی کا غم اپنی جگہ عذاب ضرور تھا لیکن بہرحال یہ آس تو تھی کہ بھلے دن بھی آئیں گے لیکن حیدر آباد جیل میں انھیں بھائی کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا جو اس لیے بھی زیادہ شدت اختیار کر گیا کہ عزیز از جان بھائی طفیل ان سے ملنے کے مقررہ وقت سے کچھ ہی دیر پہلے اچانک جاں سے گزر گیا۔ غم زدہ فیض نے بیوی کو لکھا: آج صبح میرے بھائی کی جگہ موت میری ملاقات کو آئی۔‘

بھائی کی موت پر شکستہ دل شاعر نے یہ مرثیہ تحریر کیا:

 مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے

لے گئے ساتھ مری عمرِ گذشتہ کی کتاب

اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں

اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب

 اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے

اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوںرنگ گلاب

کیا کروں بھائی، یہ اعزاز کیونکر پہنوں

مجھ سے لے لومری سب چاک قمیصوں کا حساب

آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال

آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوس جواب

آ کے لے جاﺅ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول

مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گذشتہ کی کتاب

جاری ہے

جب فیض احمد فیض غدار قرار دے کر پابند سلاسل کئے گئے

 

1959ء میں فیضؔ  میں راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض کی گرفتاری ان کے خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ ان پر جو مقدمہ قائم ہوا اس کی سزا پھانسی تھی یا پھرعمر قید، ایلس فیض ابھی گرفتاری کے صدمے سے نہیں سنبھلی تھیں کہ سی آئی ڈی کا تلاشی کے لیے گھر آنا مزید ذہنی اذیت کا باعث بنا۔41 ایمپرس روڈ لاہور پر پولیس اور سی آئی ڈی کا پہرہ لگ گیا۔ آنے جانے والوں پر نظر رکھی جاتی۔ ان کے نام نوٹ ہوتے۔ اخبارات فیض کو غدار قرار دینے کی مہم میں پیش پیش تھے۔ فیض اور دیگر ملزموں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ ہونے لگا۔ایلس پر چاروں طرف سے مصیبتوں نے یورش کر دی۔ ایک طرف شوہر کے پابندِ سلاسل ہونے کا غم تو دوسری طرف گھربار چلانے کی ذمہ داری کا بار، لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں الگ۔ایلس کی زندگی کس ڈھب سے گزر رہی تھی اس کا اندازہ فیض کے نام خطوط سے ہوتا ہے-اس کڑے وقت میں ایلس نے بڑی ہمت اور تدبر سے کام لیا۔ حالات کے سامنے سپر ڈالنے کے بجائے ان کا مقابلے کرنے کی ٹھانی۔ پاکستان ٹائمز میں ملازمت کرلی۔ خواتین اور بچوں کا صفحہ ترتیب دینے لگیں۔گاڑی بیچ کر وکیل کو فیس کی پہلی قسط کی ادائیگی ممکن بنائی۔ 150 روپے کی فلپس سائیکل خریدی جو دفتر آنے جانے کی کام آتی۔ اس زمانے میں ان کی زندگی کس ڈھب سے گزر رہی تھی اس کا اندازہ فیض کے نام خط کے اس اقتباس سے ہوتا ہے 


کاموں کی زیادتی میں صبح سے شام ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ بچوں کو صبح 8 بجے سکول پہنچنا ہوتا ہے اور مجھے 9 بجے صبح آفس اور میری واپسی 4 بجے ہوتی ہے۔ پھر دن کا باقی حصہ بچوں کو ہوم ورک کروانے، مہمانوں کی مدارات کرنے، کتابیں پڑھنے، کپڑے دھونے میں گزر جاتا ہے اور پھر تھک کر بستر پر گرجاتی ہوں۔‘ایک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔ایک خط میں لکھا:فیض کو جیل میں بچوں کی یاد ستاتی ہے جس کا ذکر ایلس کے نام لکھے گئے خطوط میں ملتا ہے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے کچھ تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسیکل پر اپنے گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔’لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا۔


فیض کے نام خطوط سے چند منتخب اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’ لاہور میں رہنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ 16روپے من آٹا ہوگیا ہے اور ہم مشکل سے گزارا کر پا رہے ہیں۔‘’آخر یہ حکومت کر کیا رہی ہے؟ لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ کل میں نے سولہ روپے کا ایک من آٹا خریدا۔ پچھلے سال مارچ میں جب تم گئے تھے تو من بھر آٹے کی قیمت نو روپے تھی‘ (میں نے اپنی حساب کی پرانی ڈائری میں چیک کیا تھا۔)’چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب تین روپے بارہ آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ چار روپے کا، ہم نے گھر میں ٹوتھ پاﺅڈربنا لیا تھا جو دو مہینے چلا۔‘اضافی یافت کے لیے ایک طالب علم کو انگریزی بھی پڑھائی۔ وائی ایم سی اے سے شارٹ ہینڈ کا کورس اس لیے کیا کہ نوکری جاتی رہے تو یہ کہیں اور کام کے لیے کام آ سکے۔ نوکری کے تین برس ہونے پر تنخواہ میں اضافے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ایک دفعہ آموں کا موسم آنے پر شوہر رہ رہ کر یاد آیا۔ خط میں لکھا:خط کے ذریعے فیض اور ایلس کی آدھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ ’آموں کا موسم ہے اور میرا دل اداس ہے، مجھے یاد آتا ہے جب تم دوپہر کو کھانے پر گھر آتے تو بڑے بڑے آموں سے بھرا ایک تھیلا تمھارے ہاتھ میں ہوتا اور کبھی بھولتے نہیں تھے۔‘ شوہر بھی صابر شاکر، راضی برضا، ایک خط میں بیوی سے کہا:تم نے پوچھا ہے کہ تمھارے لیے ساتھ کیا لاﺅں؟ تم خود آجاﺅ اور ان دوہنستے ہوئے چہروں کو ساتھ لیتی آﺅ، اس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے۔

ک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔ایک خط میںلکھا:فیض کو جیل میں بچوں کی یاد ستاتی ہے جس کا ذکر ایلس کے نام لکھے گئے خطوط میں ملتا ہے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے کچھ تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسیکل پر اپ گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا
جاری ہے

منگل، 9 دسمبر، 2025

جگنی -جڑی نام علی دا لیندی آ- فخر پاکستان لوک گلوکارعالم لوہار

  محمد عالم لوہار خطۂ پنجاب پاکستانی حصہ کے ایک مشہور پنجابی لوک موسیقی فنکار تھے۔ انہوں نے موسیقی کی اصطلاح  میں جگنی کو متعارف کرایا جو پنجابی لوک موسیقی میں بہت مقبول ہے۔ 

جگنی

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

اب خدائی روشنی کا مشاہدہ کریں۔

شبنم کے قطروں کی طرح

میں نے پیار کی دعا مانگی ہے۔

اور سارے غم دور ہو جاتے ہیں۔

تو میں جگنی گاتا ہوں۔

میں آپ کی جگنی گاتا ہوں۔

میں گاتا ہوں تیری جگنی اپنے محبوب کی

اللہ بسم اللہ تیری جگنی

ہاں! تیری جگنی، میرے محبوب

 عالم لوہار کی پیدائش 01 مارچ 1928ء میں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے ایک قصبہ  میں ہوئی۔ ان کے والد ان کی خوش الحانی کی وجہ سے انہیں قاری بنانا چاہتے تھے مگر ان کا اپنا رجحان لوک داستانیں گانے کی طرف تھا چنانچہ وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے اپنا گھر چھوڑ کر تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور نہایت کم عمری میں بہت مقبول ہوگئے۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن سے بھی اپنے فن کا جادو جگایا اور پاکستان کے مقبول ترین لوک گلوکاروں میں شمار ہونے لگے۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال فن حاصل تھا ۔ ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے ۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا ۔ انہوں نے چمٹے کوبطور میوزک انسٹرومنٹ  دنیا کو ایک نئے ساز سے متعارف کرایا۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔ ان کی گائی ہوئی "جگنی "آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔


" جگنی "اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔ جگنی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی "جگنی "کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا جبکہ جگنی کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی ۔ "جگنی "کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اورمنفرد دھنیں بھی تخلیق کیں جن میں"دھرتی پنج دریاں دی" بہت مقبولیت ہوئی ۔عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے ۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔


عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا،وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے، ان کی گائی ہوئی جگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔جک گنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔جگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔عالم لوہار کی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے، خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے


 اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیت آج بھی سماعتوں پر وجد طاری کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔عالم لوہار کا’’چمٹا‘‘ بھی ان کی ایک الگ پہچان بنا۔ان کی گائی ہوئی جُگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔ان کی گائی ہوئی جُگنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکاجُگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔ خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ انہوں نے عالم لوہار کو’’شیر پنجاب‘‘ کا خطاب بھی دیا۔حکومت پاکستان نے ان کی فنی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دی-ہمارا یہ ہونہار فنکار  لالہ موسیٰ کی  خاک میں محو آرام ہے اللہ کریم مرحوم کو اپنی رحمت کی ٹھنڈی چھاؤں عطا فرمائے آمین

کراچی کے مین ہولز پر ڈھکن کون لگائے گا

    

 کراچی کے مین ہولز پر ڈھکن کون لگائے گا  -کچھ مہینے پہلے بھی  کراچی ہی میں  ایک معصوم بچہ کھلے گٹر میں جاں بحق ہوا تھا اور جب مئر کراچی پر انگلیاں اٹھیں تو انہوں نے بیان دیا تھا کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں گلیوں میں گٹر کے دھکن لگواؤں-پیپلز  پارٹی سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر آپ کے ایجنڈےمیں کراچی کی فلاح شامل نہیں ہے  تو برائے مہربانی اس  شہر کو 100 سال کیلیز پر چائنا کو دے دیجئے  کراچی پاکستان کا معاشی انجن، تین کروڑ سے زائد آبادی کا شہر اور ساحلی خطّے کا اہم ترین معاشی و ماحولیاتی مرکز آج بنیادی شہری انفرااسٹرکچر کے انہدام کا ایسا شکار ہے کہ یہاں رہائش، نقل و حمل، نکاسی آب، صحتِ عامہ اور ماحول کے ہر شعبے میں سنگین بحران جنم لے چکے ہیں۔ یہی بگاڑ بالآخر ایسی دل دہلا دینے والی خبروں میں ڈھلتا ہے "بچّہ گٹر میں گر کر جاں بحق۔”گزشتہ دنوں کمسن ابراہیم کا گٹر میں گر کر موت کے منہ میں چلے جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا، اور یہی اس شہری سانحے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ کراچی میں کھلے مین ہولز، ٹوٹے ڈھکن، غیر تسلی بخش نکاسی آب اور برسوں سے نظرانداز کردہ شہری منصوبہ بندی نے بچوں کی زندگیوں کو روزانہ کی بنیاد پر خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ ابراہیم کی موت ایک سوال ہے، آخر کراچی جیسا شہر، جس کی معیشت پورے ملک کو سہارا دیتی ہے، اپنے بچوں کے لیے بھی محفوظ کیوں نہیں؟آج کھلے مین ہولزایک خاموش قاتل کا روپ دھار چکے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں اور گلیوں‌ کے سیکڑوں مین ہولز کے ڈھکن نہیں ہیں۔ کچھ برساتی پانی میں چھپ جاتے ہیں، کچھ چوری ہو جاتے ہیں، اور کچھ محکمہ جاتی غفلت کا نتیجہ ہی


 بدقسمتی سے یہ صورتحال کوئی عارضی بے ترتیبی کی نہیں بلکہ شہر کے پورے نکاسی آب کے نظام میں موجود دیرینہ بدانتظامی کی علامت ہے۔ کے یم سی، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، ڈی ایم سیزاور دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی صورتحال کے بگاڑ میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔ غیر مربوط شہری منصوبہ بندی، سڑکوں اور سیوریج لائنوں کی مرمت میں بے حد تاخیر، بارشوں کے بعد ہنگامی اقدامات کا فقدان یہ تمام عوامل مل کر ایسے سانحات کو مسلسل جنم دیتے ہیں جن کا شکار وہ بچے بنتے ہیں جن کے کندھوں پر قوم کا مستقبل رکھا جاتا ہے۔ابراہیم کے ساتھ ہونے والا اور اس جیسے دوسرے حادثات صرف بدانتظامی نہیں بلکہ موسمیاتی بحران کے بڑھتے اثرات سے بھی جڑے ہیں۔ کراچی سمندر کے ساتھ واقع ایک کم بلندی اور گنجان آبادی والا شہر ہے جہاں بارشیں معمول سے کہیں زیادہ اور شدید ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں شہری سیوریج سسٹم کا بار بار اوور فلو ہونا معمول بن چکا ہے۔ شہر کے کئی علاقے عارضی جھیلوں میں بدل جاتے ہیں اور مین ہولز کے ساتھ کھلے نالے پانی میں ڈوب کر موت کے جال بن جاتے ہیں۔ ماہرین پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ کراچی جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی خطرات کے مرکز میں داخل ہو چکے ہیں۔


یعنی اگر شہری انفرااسٹرکچر پہلے ہی بوسیدہ ہو تو ماحول اور موسم میں ہر معمولی تبدیلی بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کراچی کا بنیادی انفرا اسٹرکچر کم از کم دو دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ سیوریج لائنیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے پاس فنڈز اور عملے کی کمی ہے، غیر رسمی بستیوں میں بغیر نقشے کے تعمیرات کھلے عام ہو رہی ہیں اور کوئی ادارہ انہیں روکنے والا نہیں، نالوں پر تجاوزات اور ان پر بنے غیر سائنسی ڈھانچے شہری انفرااسٹرکچر کا منہ چڑا رہے ہیں، کچرے اور پلاسٹک کے بوجھ سے بند ہوتی ڈرینج اور سولڈ ویسٹ کے مسائل، ان سب عوامل نے مل کر پاکستان کے معاشی حب کو ناقابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسے شہر میں مین ہول کا کھلا ہونا محض ایک غفلت نہیں بلکہ انتظامی ذمے داریوں کے پورے نظام کا انہدام ہے۔کیا یہ ماحولیاتی مسئلہ ہے یا انتظامی؟ اصل میں دونوں۔ یہ امر اب حقیقت بن چکا ہے کہ کراچی کے شہری مسائل اب ایک اجتماعی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جہاں، موسمیاتی تبدیلی، سمندر کی سطح میں اضافہ، اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ، سیلابی بارشیں اور شہری اداروں کی بدانتظامی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی چپقلش یہ سب ایک ہی لڑی میں جڑ چکے ہیں۔ ابراہیم کی موت اسی بڑے ماحولیاتی و شہری بحران کی ایک المناک مثال ہے۔


اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہر سانحے کے بعد یہی سوال اٹھتا ہے، مین ہول کس نے کھلا چھوڑا؟ ذمہ دار کون ہے؟ اداروں نے بروقت کارروائی کیوں نہ کی؟ احتیاطی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ لیکن ان سوالات کے جواب کبھی نہیں ملتے، اور کچھ دن بعد زندگی معمول پر آ جاتی ہے، تاوقتیکہ کوئی نیا ابراہیم ایک اور کھلے مین ہول میں گر کر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔اگر کراچی کو محفوظ شہر بنانا ہے تو چند بنیادی اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہو چکے ہیں جن میں سیوریج سسٹم کی مکمل آڈٹ اور ری ڈیزاننگ، پرانی اور ٹوٹی لائنوں کی ہنگامی تبدیلی، مین ہول مانیٹرنگ سسٹم، GPS ٹیگ شدہ، لاکڈ کور، اور موبائل ایپ رپورٹنگ سسٹم۔شہری اداروں کے درمیان اختیارات کی وضاحت، کے یم سی، ڈی ایم سیز، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے درمیان مربوط حکمت عملی۔ بارشوں کے دوران ایمرجنسی رسپانس یونٹ، ہر علاقے میں مین ہول کور کی مستقل نگرانی کے ساتھ شہر کی ماحولیاتی منصوبہ بندی، کلائمیٹ رسک بیسڈ اربن پلاننگ، تاکہ شہر کو آنے والے موسمیاتی واقعات سے محفوظ رکھا جا سکے۔عوامی آگاہی کی مہمات، گلی، محلے، اسکول، کالونی سطح پر کھلے مین ہولز کی فوری رپورٹنگ اور حفاظتی علامات کی تنصیب شامل ہے۔ابراہیم کی موت شہر کے لیے آخری وارننگ ہونی چاہیے۔ یہ سانحہ ایک بچے کی موت نہیں، یہ کراچی کے شہری نظام کے لیے ریڈ الرٹ ہے۔ اگر یہ شہر آج بھی نہیں جاگتا، اگر شہری ادارے اور شہر میں متحرک سیاسی جماعتیں اب بھی اپنی ترجیحات کا تعین اور درست سمت کا اںتخاب نہیں کرتے، اگر ماحولیاتی اور موسمیاتی حقیقتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر