ہفتہ، 28 جون، 2025

حیدرآباد دکن میں قطب شاہی دور میں عزاداری کی ابتداء ہوئ

 

  جنوبی  ہندوستان  میں عزاداری  سید الشہدا کا آغاز    قطب شاہی  دور  میں  ہوا جبکہ بنگال میں سراج الدولہ کی شہادت کے بعد بنگال سے بھی بڑے پیمانے پر شیعہ مسلم ہجرت کر کے سرزمین حیدر آبا د پر وارد ہوئے   ۔ قطب شاہی  بادشاہوں  نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے بہت سے عاشور خانے یعنی امام باڑے تعمیر کرائے، اس سلسلہ میں بہت سی زمینیں اور جاگیریں وقف کیں۔ تیلگو عوام کی رسم و رواج کے مطابق گاؤں گاؤں علم نصب کرائے اور عاشور خانے تعمیر کرا کر عزاداری کو فروغ دیا۔مغلیہ بادشاہ اورنگزیب کے دور اقتدار میں یہاں عزاداری تقریبا بند تھی بس گھروں میں انتہائ رازداری کے ساتھ  غم عاشور منایا جاتا تھا ۔ لیکن  جب آصف جاہ  کا دور حکومت  شروع ہوا تو عزاداری میں پھر رونق آگئی۔محرم کے عشرہ اول میں یہاں موجود 30 سے زیادہ عمومی عاشور خانوں کہ جن میں سے زیادہ تر دورہ قطب شاہی میں تعمیر ہوئے ہیں،  عاشور خانوں کے احاطوں بڑا  علم نصب کیا جاتا ہے جس میں چاند رات سے شب عاشور تک شیعوں کے علاوہ امام حسین علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے اہل سنت اور اہل ہنود زیارت کے لئے آتے ہیں۔‌

حیدرآباد دکن میں کچھ خاص تبرکات مندرجہ ذیل ہیں

1.  جسکی 10 محرم کو مرکزی جلوس میں ہاتھی کی سواری نکلتی ہے۔بی بی کا علم: بتایا جاتا ہے کہ جس تخت پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو غسل دیا گیا تھا اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حیدر آباد لایا گیا اور اس پر سونا چڑھا کر علم کی شکل دی گئی۔ واضح رہے کہ روز عاشورا مرکزی جلوس بادشاہی عاشور خانے سے دن میں ایک بجے برآمد ہوتا ہے اور شام کو سات بجے مسجد الہیہ پر اختتام پذیر ہوتا۔2. نعل مبارک: بیان کیا جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے خود (جنگی ٹوپی) کا ایک ٹکڑا حیدرآباد لایا گیا جسے صندل میں محفوظ کیا گیا اس کی سواری شب عاشور رات 11 بجے نکلتی ہے جو تقریبا 10 کلومیٹر گشت کرنے کے بعد صبح 10 بجے واپس آتی ہے۔3. حضرت عباس علیہ السلام کی انگوٹھی۔ جسے صندل کے ڈبی میں رکھ کر علم مبارک میں نصب کر دیا گیا ہے۔ یہ علم درگاہ حضرت عباس علیہ السلام میں نصب ہے۔4. الاوے سرطوق: امام زین العابدین علیہ السلام کے طوق کا ٹکڑا جسے علم مبارک میں نصب کر دیا گیا ہے۔5. حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی چادر کا چھوٹا سا ٹکڑا جو خلوت کے عاشور خانے میں محفوظ ہے۔

6. پیراہن امام زین العابدین علیہ السلام۔

محرم الحرام کے عشرہ اول میں نماز صبح کے بعد سے گھر گھر عزاداری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو اکثر ظہر تک جاری رہتی ہے، اس کے بعد سہ پہر سے دیر رات تک یہاں عزاداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں کے تقریبا ہر گھر میں عاشور خانے موجود ہیں، یہاں لوگ اپنے گھروں میں 29 ذی الحجہ کو علم نصب کرتے ہیں۔ شہنشاہیت کے زمانے سے اب تک یہاں بڑی شان و شوکت سے عزاداری ہوتی آ رہی ہے۔ کرونا وبا میں جب ہر جگہ عزاداری محدود ہو گئی تھی لیکن یہاں اپنے روایتی انداز سے عزاداری منعقد ہوئی۔ہندوستان میں شیعہ مذہب کے پھیلاؤ کی تاریخی جڑیں ساتویں صدی ہجری میں منگولوں کے ایران پر حملہ کے بعد کے برسوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت بہت سے ایرانیوں نے اس سرزمین کی طرف ہجرت کی۔ بعض ہندوستانی حکمرانوں کے شیعیت کی طرف مائل ہونے کے بارے میں کچھ تاریخی شواہد کو اس بات سے  تقویت ملتی ہے کہ ایران سے ہجرت کرنے والوں نے تشیع کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لکھنؤ شہر، جسے ہندوستان کے اہم شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اثناء عشری شیعوں کا عظیم مرکز ہے اور اس شہر میں قدیم شیعہ مساجد اور امام باگاہوں کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ حیدرآباد، دکن اور میسور کے شہر ہندوستان کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں سے ہیں۔

چار مینار کے جلوس کا پرشکوہ منظر-ارض دکن کا تاریخی اہمیت کا حامل بی بی کے علم کا جلوس   یوم عاشورہ کو دوپہر ایک بجے الاوہ بی بی دبیر پورہ سے ہاتھی پر برآمد ہوتاہے۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت عظمی کی یاد میں نکالاگیا جلوس مختلف راستوں اور تاریخی چارمینار سے ہوتا ہوا مسجد الہی چادرگھاٹ پر پڑاؤ ڈالتا ہے۔قبل ازیں علم پر آصف جاہی خاندان اور نظام ٹرسٹ کے عہدیداران کے علاوہ سیاسی، سماجی رہنماوں اور پولیس کے اعلی حکام کی جانب سے ڈھٹی نذرکیجاتی ہے۔جلوس کے دوران مختلف شیعہ ماتمی انجمنیں   ماتم کرتی ہیں ۔ اس تاریخی جلوس میں ہزاروں عزادار شرکت کرتے ہیں  ۔ بی بی کے علم کے سامنے پولیس کا چاق و چابند  گھڑسواردستہ بھی موجود  ہوتا ہے


 شہر حیدرآبادمیں بی بی کے علم کے جلوس کی روایت کافی قدیم ہے۔زائد از400سال قبل قطب شاہی دور میں عبداللہ قطب شاہ کی والدہ حیات بخشی بیگم نے اس کا آغاز کیا تھا۔بعد ازاں آصفیہ خاندان کے فرمانرواوں نے نہ صرف اس روایت کو برقراررکھابلکہ بڑے پیمانہ پر گرانٹس کی منظوری بھی عمل میں لائی۔سلاطین آصفیہ کے دور میں بی بی کے علم پرہیروں کی چھ تھیلیاں بھی چڑھائی گئیں جو آج بھی موجود ہیں۔آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے بھی عاشورخانوں پر خصوصی توجہ دی۔بڑے پیمانہ پر انتظامات کئے گئے۔نظام ٹرسٹ کے تحت محرم کے تمام انتظامات روبہ عمل لائے گئے۔اس کا سلسلہ آج تک بھی جاری ہے۔دکن میں قطب شاہی حکمرانو ں کے سلسلے میں پانچویں حکمران محمد قُلی قطب شاہ تھے جو ابراہیم قطب شاہ کے فرزند تھے۔ان کی پیدائش گولکنڈے میں ہوئی۔ ان کو اس اعتبار سے تاریخ ساز شخصیت کہا جا سکتا ہے  


جمعرات، 26 جون، 2025

میر انیس مرثیہ گوئ کے اوج کمال تک

 


میر انیس کا تعارف:

سنہ ء 1802 میں لکھنؤ میں  اقامت گزیں  میر مستحسن خلیل  کے گھر ایک  بچہ پیدا ہوا جس کا نام انہوں نے میر ببر علی انیس  رکھا   -میر مستحسن خلیل  خود بھی   شاعر  اہلبیت تھے  اس طرح میر  انیس کو شاعری کی تربیت اپنے گھر میں اپنے والد سے  ہی ملی۔مرثیہ گوئ سے پہلے  انہوں عاشقانہ  بحر میں طبع آزمائ کی جس کا علم ان کے والد  کو ہو گیا اور انہوں نے  بیٹے کو کربلا کے میدان میں شاعری کی تلقین کی جس کی اطاعت میر  انیس کی -میر  انیس کو  فارسی اور عربی زبانوں میں بھی مہارت حاصل  تھی لیکن ان کی اصل شہرت کا ان کی مرثیہ نگاری ہے،انہوں نے رباعیات اور قطعات بھی لکھے۔میر انیس اردو ادب کے ایک عظیم مرثیہ نگار تھے، جنہیں اس صنف میں کمال حاصل تھا۔ انیس نے مرثیہ نگاری کو اس اوج کمال  تک پہنچایا جو کسی دوسرے شاعر کا مقدر نہیں تھا  اسی لئے انہیں اردو ادب میں ایک منفرد اور بلند  مقام حاصل ہے۔ ان کے مرثیوں میں جذبات و احساسات کی عکاسی، کردار نگاری اور منظر کشی کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔


 ان کے مرثیوں میں جذبات کی سچی تصویر کشی، کرداروں کی حقیقی عکاسی اور واقعات کی منظر کشی نے مرثیے کو ایک زندہ اور متاثر کن صنف بنا دیا۔ ان کے مرثیوں میں جذبات کی شدت اور زبان کی سلاست پڑھنے والے کو تو   متاثر کرتی ہے  ساتھ میں مجالس میں موجود عزاداروں کے قلوب کو بھی پگھلا دیتی ہےیہاں تک کہ  کہ پڑھنے والا اور سامع دونوں اپنے آپ کو خود میدان کربلا میں موجود پاتے ہیں۔منظر کشی انیس کے مرثیوں میں واقعات کی منظر کشی اتنی واضح اور تفصیلی ہوتی ہے کہ قاری کے ذہن میں ایک تصویر سی بن جاتی ہے۔ میرانیس کی زبان سادہ اور سلیس ہے لیکن اس میں ایک خاص قسم کی اثر انگیزی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے الفاظ کا چناؤ نہایت احتیاط سے کیا ہے اور ان کے مرثیوں میں زبان کی روانی اور خوبصورتی پڑھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔



میر ببر علی انیس ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو کی رثائی شاعری کو   معراج کمال تک پہنچا دیا۔ صنف مرثیہ میں انیس کا وہی مقام ہے جو مثنوی کی صنف میں ان کے دادا میر حسن کا ہے۔ انیس نے اس عام خیال کو باطل ثابت کر دیا اردو میں اعلی درجہ کی شاعری صرف غزل میں کی جا سکتی ہے  وہ خدا کے گھر سے رثائی شاعری کا  مرتبہ لے کر آئے اور اپنے اس  مرتبے کو پہچان کر انہوں نے مرثیے کی صنف کو جس بلندی پر پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میر انیس آج بھی اردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں

 ایک بندمرثیہ حضرت علی اکبر سے

،،،،،،،،،،،،،

تا دیر تو سنتے رہے تلواروں کی جھنکار​

تکتے تھے پر اکبر نہ نظر آتا تھا زنہار​

لشکر میں ستمگاروں کے یہ غل ہوا اک بار​

برچھی علی اکبر کے کلیجے سے ہوئی پار​

لو سیدِ مظلوم کے دلدار کو مارا​

مارا اسے کیا احمدِ مختار کو مارا​ ۔ 

یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب تک آپ مقامی انداز کے روایات و انسانی جذبات کو بیان میں نہ شامل کریں ۔۔سننے والے اس تاثر کو بعینہ محسوس نہیں کرسکتے خود کو ان واقعات سے متصل نہیں کرپاتے۔۔  مثال یہ ہے کہ میر انیس کے مرثئے کے اشعار میں مہندی،  نیگ ،  سہرا ،  اور شادی کی دیگر  رسومات کا تذکرہ کرنا یا  بہن بھائی کی رخصت پر جذباتی گفتگو ۔۔دکھ کے لمحات کا بیان  بے ساختہ خوشی اور غم کا اظہار کرنا ہے  ۔۔   ان جزئيات کی آمیزش جو خالصتا” برصغیر پاک وہند سے متعلق تھیں ۔مختصر یہ کہ میر انیس اردو ادب کا ایک ایسا نام ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کے مرثیے نہ صرف اردو 

ادب کا سرمایہ ہیں بلکہ انسانی جذبات اور احساسات کی سچی تصویر بھی ہیں۔

مرثیہ حضرت علی اصغر سے ایک بند

،،،،،،،،،،،،،،،

اب خون میں ڈوب کے یاقوت بنے گا

جس جھولے میں وہ پلتے ہیں تابوت بنے گا

اِن پھول سے رُخساروں کے کُمہلانے کو دیکھو

اِن سُوکھے ہوئے ہونٹوں کے مُرجھانے کو دیکھو

   میر انیس نےاپنی فکر کے مطابق  سنائے جانے والے واقعات کو  اپنے الفاظ میں ڈھال  کر مرثیہ کو اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ  دیا تاکہ سامع اپنے رشتوں اور جذبات کو ان واقعات میں رکھ کر اس درد کو محسوس کرے جو کربلا میں آلِ محمد پر وارد ہوئے  ۔یوں سمجھئے کہ جہاں امام حسین اپنی بہن سے مخاطب ہیں یا بیٹی سے رخصت طلب ہیں سننے والا خود کو انکی جگہ رکھتے ہوئے ان تمام حادثات و صدمات کو محسوس کرتا ہے ۔اور گریہ کرتا ہے۔  گویا اس وقت تک آپ اس درد کو جذبے کو درک نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی یاداشت میں محفوظ کوئی اسی جیسا واقعہ یا دکھ آپ کے سامنے نہ آن موجود ہو۔۔میر انیس اس طرح منظر نامہ تحریر کیا کرتے تھے کہ گویا چشم تصور نے خود دیکھا اور محسوس کیا ہو۔ میر انیس کی طرح منظر کشی میں شاید ہی کوئی شاعر ایسی مہارت سے شعر کہنے پر قادر ہو۔وہ اگر فوج کا بیان کرتے ہیں تو اسکی شان و شوکت،  زرہ،  تلوارِ آبدار،  خورد آہنی اس میں موجود زنجیریں یہاں تک کہ سواروں کے قدموں کی دھمک اور قدو قامت بھی سننے والے کے لئے مفصل طور پر بیان کرتے ہیں یوں جیسے تصور میں ہر لفظ بصورت تصویر دیکھا جارہا ہو ۔ میر انیس کا  29 شوال سنہ 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو 72 سال کی عمر میں لکھنؤ میں انتقال ہوا   اور لکھنؤ میں ان کے اپنے مکان میں ہی ان کی تد فین ہوئ۔ لکھنؤ میں ان   کا  عالیشان مقبرہ ہے

 خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را   

  



منگل، 24 جون، 2025

دنیا کی معیشت میں سونے کے زخائر کی اہمیت کیوں ہے



پاکستان  میں گزشتہ چند برسوں  کے دوران سونے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے-   سونے کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں عالمی سطح پر سونے کی قیمتوں میں اضافہ، افراط زر، کرنسی کی قدر میں کمی اور معاشی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔ان حالات کے نتیجے میں سونا عام آدمی کی قوت خرید سے باہر جا چکا ہے دنیابھر میں سونے کے ذخائر کے حوالے سے امریکا پہلے نمبر پر ہے جبکہ ، بھارت عالمی سطح پر آٹھویں اور ایشیا میں دوسرے نمبر پر ہے، پاکستان عالمی فہرست میں 49 ویں نمبر ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں نے 2024ء میں 1,000 میٹرک ٹن سے زائد سونا خریدا، جو مسلسل تیسرے سال بڑی پیمانے پر خریداری کی عکاسی کرتا ہے اور پچھلی دہائی کی اوسط سالانہ خریداری کے تقریباً دگنا کے برابر ہے۔ مرکزی بینکوں کی جانب سے سونے کی خریداری 2025ء میں بھی جاری رہی، جس میں پولینڈ، بھارت، چین، کرغزستان اور ازبکستان نمایاں رہے۔ ایشیا ایشیاء میں سب سے زیادہ ذخائر چین کے پاس ہیں جبکہ کل 940.92  ٹن سونے کے ساتھ، بھارت جنوبی ایشیا میں سب سے آگے ہے اور اس نے سال 2024 میں 22.54 ٹن کا اضافہ کیا۔


دنیا کے اکثر دریاؤں کی گزرگاہ میں سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور ان میں گھلے سونے کے ذرات شامل ہوتے رہتے ہیں۔ ارضیاتی عمل کے تحت اب بھی دنیا میں بہت سے دریا ایسے ہیں جہاں سونے کے ذرات اور بڑے ڈلے بھی ملے ہیں۔انیسویں صدی میں سونے کی تلاش کی ایک دوڑ شروع ہوئی تھی -دنیا میں اب بھی بعض دریائی مقامات ایسے ہیں جہاں عام افراد بھی سوناتلاش کرسکتے ہیں۔ ایسے دریا امریکا میں بہت زیادہ ہیں اور کچھ کناروں پر معمولی فیس کے عوض عام افراد بھی سنہرے خزانے کے لیے اپنی قسمت آزما سکتے ہیں۔ سونے کی تلاش کے لیے اب بھی دنیا کے کئی دریا مشہور ہیں۔ اس فہرست میں امریکا کے کئی دریا شامل ہیں۔رِیڈ گولڈ مائن، شارلوٹ، امریکاامریکا میں واقع ریڈ گولڈ مائن کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ 1799ء میں ایک شوقیہ مہم جو شخص، کونراڈ ریڈ یہاں سے گزررہا تھا کہ اس کی نظر سونے کے ایک ٹکڑے پر پڑی۔ جب اسے اٹھایا گیا تو یہ 17 پاؤنڈ یعنی ساڑھے سات کلو گرام کا ٹکڑا تھا۔


اب بھی لوگ رِیڈ گولڈ مائن کی طرف آتے ہیں اور اپنا نصیب آزماتے ہیں اور ان میں سے بعض خوش نصیبوں کو سونے کے ذرات ملتے رہتے ہیں۔کرو کریک، الاسکا، امریکاالاسکا کے سرد صوبے میں نصف میل کا علاقہ ہے جہاں عام افراد جاتے ہیں اور اپنا نصیب آزماتے ہیں۔ اس ضمن میں باریک چھلنی سے مٹی کو چھان کر دیکھا جاتا ہے اور اس طرح سونے کے چھوٹے اور بڑے ذرات مل جاتے ہیں۔ کروکریک میں پانی کے نیچے بہاؤ والے مقام پر سونا ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں دریائے امریکا، کیلی فورنیا، امریکادریائے امریکا (امریکن ریور) میں سونے کی تلاش کی دوڑ 1848ء میں شروع ہوئی تھی۔ سب سے پہلے دریا کے کنارے کولوما کے مقام پر اس کے آثار ملے۔ دریائے امریکا کے دو مقامات پر عام افراد کو مٹی چھاننے اور سونا ڈھونڈنے کی عام اجازت ہے۔ اگرچہ یہاں پائے جانے والے سونے کی مقدار کا ریکارڈ موجود نہیں لیکن لوگوں کی بڑی تعداد اب بھی اپنی قسمت آزماتی ہے۔رائے پیچ، نیواڈا، امریکایہ علاقہ ماحوبہ پہاڑیوں کے پاس موجود ہے۔


یہاں پر خاص شکل کے سونے کے ذرات مل سکتے ہیں۔ خوبصورت شکل کے سونے کے ذرات نودرات جمع کرنے والے ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں۔واضح رہے کہ سونے کے ذرات یہاں کی نرم مٹی میں پائے جاتے ہیں۔ لوگ یہاں چھلنی اور دھاتی ڈٹیکٹر سے اپنی قسمت آزماتے ہیں۔ اس جگہ سرکاری اراضی سے سونا اٹھانے اور لے جانے کی اجازت ہے۔دریائے کلنڈائک، یاکون، کینیڈااس مقام میں ایک جگہ بونینزا کریک ہے (جس کا پرانا نام ریبٹ کریک تھا)۔ یہاں پر پہلی مرتبہ 1896ء میں سونا ملا تھا۔ ہاں صرف اسی علاقے سے سونا نکالا جاسکتا ہے جو اراضی وفاق کے زیرِ اہتمام ہوتی ہے۔ اگر کوئی جگہ مقامی افراد یا قبائل کے زیرِ اثر ہے تو پہلے ان سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ مقامی لوگوں کو یہاں فرسٹ نیشن پیپل کہا جاتا ہے۔دریائے 'ایئرو' اوٹاگو، نیوزی لینڈنیوزی لینڈ میں سونے کی تلاش ایک اچھا مشغلہ ہے۔ اس ملک میں بہت جگہ پر سونے کے ذخائر موجود ہیں۔


 نیوزی لینڈ کے ساؤتھ آئی لینڈ میں  ایک چھوٹا سا علاقہ 'ایئروٹاؤن' سونا ڈھونڈنے کی سب سے بہترین جگہ ہے اور دلچسپ بات یہے کہ حکومت عوام کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنی قسمت ضرور آزمائیں۔ مقامی افراد کی بڑی تعداد یہاں سونے کی تلاش میں آتی ہے۔دریائے ایلوو، اٹلیاٹلی کے شہر پائیڈمونٹ میں دریائے ایلوومیں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں۔ اگرآپ کو 5 گرام سونا مل گیا ہے تو وہ کسی کو بتائے بغیر آپ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ اس سے زائد ملنے والے سونے سے حکومت کو آگاہ کرناہوگا۔گلگت، بلتستان، پاپاکستان میں دریائے گلگت سے سونے کے ذرات ملتے ہیں۔ اس ضمن میں 4000 سال قبل یونانی مؤرخ، ہیروڈوٹس نے بھی اس علاقے میں سونے کے ذرات کا احوال بیان کیا ہے۔ آج بھی یہاں کے لوگ سونے کے ذرات تلاش کرتے ہیں اوربسا اوقات بڑے ذرات بھی مل جاتے ہیں 

پیر، 23 جون، 2025

کراچی کا پانی واٹر مافیا کے قبضے میں


 


 پانی زندگی کی کتنی بڑی اور بنیادی ضرورت ہے اس کا  اندازہ اس بات سے لگا ئیے کہ اللہ کریم و  کارسازنے دنیا  کاتین چو تھائ  حصہ پانی کے لئے  رکھا  - لیکن اس  نعمت   کوکراچی کے شہریوں کے لئے نعمت عنقا بنا دیا گیا ہے - اب   کراچی  شہر میں عام واٹر ٹینکرز کے علاوہ واٹر سپلائرز میں  سولہ  وہیلر ٹینکر بھی   کے بڑے مالک یعنی بڑے صاحبان بھی  مستفید ہو رہے ہیں - ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ جس نے کراچی کے پانی پر قبضہ کر لیا اس کی سات  نسلیں   نوکری کے بغیر راج کریں گی  کراچی کے ایک شہری اپنی روداد بتاتے ہیں کہ عید  سے دو دن پہلے اچانک پانی ختم ہوگیا۔ ٹینک کھول کر دیکھا تو پانی موجود ہی نہیں۔ ہائیڈرنٹ تو بند تھا۔ اب کیا کیا جائے۔ ایسے میں پانی فراہم کرنے والے منی ہائیڈرنٹس پر جا پہنچے۔ ایک لمبی لائن دیکھ کر حیرت ہوئی۔ واٹر بورڈ کا ایک سولہ ویلر ٹینکر وہاں پانی اتار رہا تھا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ پانی نہیں۔ عید کے بعد ملے گا۔ اور چھ ہزار روپے کا ٹینکر دستیاب ہے۔


یہ سن کر جھٹکا نہیں لگا۔ کیوں کہ یہاں پر پانی مافیا بہت مظبوط ہوچکی ہے۔ واٹر بورڈ پر کمپلین کرنے کا بھی کوئی فایدہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ وہاں بیٹھے نااہل افسران ہیں جن کی چھتر چھایا میں یہ پورا سسٹم چل رہا ہے اوپر سے نیچے تک سارے انہی کے لوگ موجود ہیں۔ ایسے میں آپ شکایت کرکے اپنا ہی وقت برباد کریں گے۔ ایسے میں مرتا کیا کرتا والی کہانی تھی۔ سو ہم نے بھی ہامی بھری اور اپنا نام لکھوا دیا۔ عید کے دوسرے دن دوپہر بارہ بجے کا وقت ملنے پر دوبارہ پانی کی تلاش میں موٹر سائیکل پر پورے بلدیہ کا گشت لگانا شروع کردیا ہر طرف پانی والی سوزوکی اور ہزار گیلن والے ٹینکر گھومتے نظر آئے لیکن جس سے بات کی سب نے منع کردیا کہ پانی نہیں۔یہ حال صرف بلدیہ نہیں پورے کراچی کا تھا۔ واٹر بورڈ کے ٹینکر جگہ جگہ پرائیوٹ ہائیڈرنٹس پر پانی اتارتے نظر آئے لیکن شہریوں کو دینے کے لیے ان کے پاس پانی کا قطرہ بھی نہیں تھا۔ محض عید سے دو دن پہلے اور عید کے چوتھے دن تک ان ہائیڈرنٹس نے عوام کی جیب سے اربوں روپے نکال لیے اور کسی ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔


مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مصطفی کمال نے اپنا انتخابی سلسلہ بلدیہ ٹائون سے شروع کیا تو ان کے ہر جلسے کی تقریر کا پہلا جملہ بلدیہ کو پانی کی فراہمی کا ہوتا تھا۔ کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ بلدیہ کو پانی کی اشد ضرورت ہے۔ اس سیاسی گیم میں مصطفی کمال صاحب بڑے کھلاڑی نکلے اور اسی پانی کو اپنی ترجیحات میں رکھ کر بلآخر عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی۔ مد مقابل مخالفین نے بھی پانی کو ہی مدعا بناکر انتخابات لڑنے کی کوشش کی۔ سب کو اپنے حصے کی فتوحات مل گئیں لیکن بلدیہ کو پانی آج تک نہ مل سکا۔ اب جب کبھی ان لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور پانی کا وعدہ انہیں یاد کرایا جاتا ہے تو یہ وہی لوگ ہیں جو پہلے عوام عوام کرتے تھے اب یہ حال ہے کہ پانی کا نام سن کر ایسے چڑ جاتے ہیں جیسے کبھی انہوں نے وعدہ کیا ہی نا ہو۔ہر گلی محلے میں منی ہائیڈرنٹس دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں پانی کا کال ہے۔ اور اب یہ حقیقت ہے کیوں کہ واٹر بورڈ نے بھی سمجھ لیا ہے کہ ڈائریکٹ عوام کو پانی دینے سے وہ بچت نہیں ہوتی جو مافیاز کو دینے سے ہوتی ہے۔ اس لیے کرش پلانٹ سے نکلنے والے ہر واٹر ٹینکر کی منزل اب کسی عام شہری کا گھر نہیں بلکہ پرائیوٹ پانی مافیا کا ہائیڈرنٹس ہوتی ہے۔


واٹر بورڈ کی ایپلی کیشن پر آپ لاکھ مرتبہ بھی پانی کی عرضی ڈال لیں۔ لیکن پانی آپ کو نہیں ملنا۔ ہاں یہاں ایک اور چور بازاری یہ بھی ہو رہی ہے کہ آپ کو آسرے پر رکھنے کے لیے ٹریکنگ وغیرہ سب کچھ دکھائی جائے گی۔ ٹائم تک بتا رہا ہوگا کہ فلاں وقت تک ٹینکر آپ کی دہلیز پر ہوگا۔ لیکن جب آپ مطلوبہ وقت پر ٹینکر کو اپنی دہلیز پر نا پاکر ایپلی کیشن چیک کریں گے تو وہاں اس پانی کے نرخ جو پہلے اگر دو ہزار تھے۔ اچانک سے چارہزار روپے دکھانا شروع ہو جائے گا۔ اور وقت میں مزید بارہ سے چوبیس گھنٹے کا ٹائم دکھانا شروع کردے گا۔ آپ اگر اس کی کمپلین بھی کرنا چاہیں تو کوئی فایدہ نہیں۔ کیوں کہ وہاں سننے والا کوئی نہیں۔ آپ صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر پھر سے انتظار کی سولی پڑ لٹکے ہوں گے اور جیسے ہی وقت پورا ہوگا آپ ایپلی کیشن کھولیں گے تو پتا چلے گا کہ مطلوبہ ٹینکر آپ کے گھر پر پانی اتار کر چلا گیا ہے لیکن حقیقت میں آپ کا ٹینک خالی ہی ہوگا۔ اور مافیا اپنا کام پورا کر چکی ہوگی آپ کا ٹینکر کسی کو مہنگے داموں فروخت کردیا گیا ہوگا۔


پانی ایک بنیادی ضرورت ہے جسے حکومت وقت کی ذمے داری میں شامل ہے کہ وہ ہر ایک شہری کو باعزت طریقے سے ان کی دہلیز پر مہیا کرے۔ اس کے لیے حکومت نے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے نام سے ادارہ بھی بنایا اور اس میں کام کرنے والیے ملازمین کو اربوں روپے کی مد میں سالانہ تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی فراہم کی جارہی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ نا ملازمین اپنا کام ایمانداری سے کررہے ہیں اور نا ہی ادارے کے سربراہان اپنی روش تبدیل کررہے ہیں۔ سب ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں جن کا مقصد پانی  کی غیر قانونی فروخت کے ذریعے عوام سے پیسہ وصول کرنا اور اپنا بینک بیلنس بڑھاناآج اگر یہ ادارہ پرائیویٹ کردیا جائے تو یقینا شہر بھر میں واٹر بورڈ کے ملازمین مظاہرے اور دھرنے شروع کردیں گے کیوں کہ اس سے ان کی اوپر کی آمدن بند ہو جائے گی۔ میئر کراچی اب واٹر بورڈ کے کرتا دھرتا ہیں تاہم وہ بھی اپنی دیگر ذمے داریوں کی طرح اس ذمے داری کو نبھانے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ اور اب تمام کراچی میں پانی کا کال پڑا ہوا ہے  اور شہریوں کی روداد سننے والا کوئ نہیں  باقی رہے نام اللہ کا ' 

اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں  کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں  بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے -القران 


اتوار، 22 جون، 2025

سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ

 

 سلطان العارفین ہے جھنگ کے پنڈ اعوان میں (1039ھ – 1628ء) پیدا ہوۓ۔ آپکے والد صاحب حضرت بازید رحمتہ اللہ، متقی اور عالم تھے۔تعلیم آپ پیدائشی ولی تھے۔ ہندو آپکو دیکھ کر قلمہ پڑھ لیتے تھے۔آپ صبح سے شام تک ماں کا دودھ نہیں پیتے تھے۔آپ نےابتدائی تعلیم اپنی والہ سے حاصل کی حضرت سلطان باہوؒ وہ صوفی شاعر اور بزرگ ہیں، جنہیں ساری دنیا برصغیر پاک و ہند کے بڑے صوفیا ء کرام  میں سے ایک مانتی ہے۔آپ 1630ء میں شورکوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے اور2 110ھ بمطابق 1691ء جمادی الثانی میں آپ کا وصال ہوا۔ آپ کو کاہر جاناں میں دفن کیا گیا ۔ مناقب سلطانی کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ کے آبائو اجداد حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لے آئے ۔انہوں نے پنڈ دادن خان اور احمد آبادکے گردونواح کے دیہاتوں اور شہروں کے ہندو سرداروں کو شکست دی اور لوگوں میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔ حضرت سلطان باہوؒ کے والد ضلع جھنگ کے باشند ے تھے۔ ان کا نام بایزید ؒاور آپ کی والدہ محترمہ کا نام بی بی راستی تھا، آ پ نے چار شادیاں کیں اور آپ کے آٹھ بیٹے تھے۔ سلطان باہو ؒ کو اپنی والدہ سے بہت زیادہ لگائو تھا اور اسی لیے انہوں نے اپنی کتاب " عین الفقر" میں اپنا نام باہو رکھنے پر والدہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔


فارسی اور اردو کے ہوتے ہوئے پنجابی زبان کا انتخاب علاقائی مقبولیت کی بنا پر کیا۔ یہ با آسانی سمجھ آجاتی تھی۔ تعلیم و تربیت کے لئے مؤثر تھی۔ایک طرف پنجابی زبان کو نئ جہتیں دیں جبکہ دوسری طرف اسلامی تصوف کو نیا رنگ ریا۔لفظ ‘ھو’ کا مطلب؟حضرت سلطان باہوؒ کے بچپن کے متعلق کئی کرامات مشہورہیں ،ان میں ایک کا ذکر دل چسپی سے خالی نہ ہو گا ، بچپن میں آپ کے چہرے کے گردنور کا ایک ہالہ سا تھا۔جوں جوں اس ہالے کے معجزات سامنے آ نا شروع ہوئے تو علاقے کے ہندو متاثر ہونے لگے۔ جن کی درخواست پر آپ گھر میں ہی رہنے لگے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں اپنی والد ہ محترمہ سے حاصل کی اور آپ کی اولاد ہو گئی تو آ پ نے اپنی والدہ کو اپنا مر شد بننے کی درخواست کی، مگر انہوں نے درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی اسلام میں عورتوں کو پیر و مر شد بننے کی اجازت نہیں ۔ اس لئے حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے خاندان کو چھوڑ کر دریائے راوی کے کنارے آباد ایک گائوں بغداد میں حضرت حبیب اﷲ قادریؒ کے خدمت میں حاضر ی دی۔


 مرید بننے کے بعد آپ اپنی کرامتوں کی بدولت اپنے مرشد پر سبقت لے گئے۔ یہ دیکھتے ہوئے حضرت حبیب اﷲ قادریؒ نے کشادہ دلی سے کام لیتے ہوئے انہیں مزید تعلیم دینے سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ وہ ان کے استاد حضرت سید عبدالرحمان قادری ؒکے پاس دلی جائیں۔ سید عبدالرحمان قادریؒ شہنشاہ کے منصب دار اور روحانی علم کو اچھی طرح سمجھتے او ر جانتے تھے اس لئے حضرت سلطان باہوؒ دلی پہنچے اور مطلوبہ علوم حاصل کیے۔ "تواریخ سلطان باہو ؒ" کے مطابق آپ نے عربی، فارسی میں 150 کے قریب کتابیں لکھیں۔ ان کی پنجابی تصنیف کے بارے میں کچھ ذکر نہیں ملتا صرف اتنا لکھا ملتا ہے کہ انہوں نے پنجابی میں شعر کہے ۔ حضرت سلطان باہوؒ کی ایک طویل سہ حرفی چھپی حروف تہجی کے ہر حرف کے نیچے دو یا چار چھوٹی نظمیں (ابیات) ہیں۔ ان ابیات کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہر دو مصرعوں کے آخر میں "ہوُ" آتا ہے ۔ "ہوُ" اﷲ کا نام ہے اور اس کا ورد بہت برکت والا سمجھا جاتا ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کی تمام کی تمام شاعری بڑی سادہ اور خیالات سے پر ہے۔


 اس میں کسی قسم کی بناوٹ نہیں ہے ، مزید یہ کہ حضرت سلطان باہوؒ شاعری کی زبان جھنگ اور اس کے گردونواح کے اضلاع میں بولی جانے والی پنجابی ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کو اہل بیتؓ سے بہت خاص لگائو تھا ، اس لیے آپ کا معمول تھا محرم الحرام کے پہلے عشرہ میں واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین ؑ کا ذکر کرتے عقیدت مند بڑی تعداد میں حاضری دیتے ہیں ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دوسری کرامت آپ  رحمتہ اللہ علیہ کی کتب ہیں ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ اُمی تھے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کسی مدرسہ سے تعلیم حاصل نہیں کی اس کے باوجود آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس وقت کی مروجہ زبان فارسی میں140کتب تصنیف فرمائیں ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب کا اعجاز ہے اور میرا مشاہدہ بھی ہے کہ باوضو ہوکر صدق، اخلاص اور ادب سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو قلب منور ہونے لگتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب سراسر الفاظِ نوری اور کلماتِ حضوری پر مشتمل ہیں۔


آپ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ اعلان آپ کی ہر کتاب میں موجود ہے ’’ اگر کسی کو تلاش کے باوجود مرشدِکامل نہ ملتا ہو وہ ہماری کسی بھی کتاب کو مرشداور وسیلہ بنائے تو ہمیں قسم ہے کہ اگر ہم اسے اس کی منزل تک نہ پہنچائیں۔ ‘‘ اس فقیر کا یہ مشاہدہ ہے کہ صدقِ دل سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب کا مطالعہ کرنے والا اپنی طلب کے مطابق مرشدِکامل اکمل تک پہنچ جاتا ہے ۔ دِل کے اندھوں کیلئے آپ  رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فرمان بھی ہے’’ ہماری کتاب معرفت سے ازلی محروم اور کور چشم شوم کو ہرگزپسند نہیں آئے گی۔ ‘‘ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب کا یہ اعجاز بھی ہے کہ عارفین کیلئے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب خواہ وہ عارف ابتدائی مقام پر ہو یا متوسط یا انتہائی مقام پر وحدت میںغرق ہو، ہر ایک کیلئے علیحدہ علیحدہ   اسرار کا خزانہ رکھتی ہیں، وہ جس مقام پر ہوگا اسی مقام کے مطابق ان کتب سے راہنمائی پائےگا

ہفتہ، 21 جون، 2025

عید مباہلہ -ایک عظیم الشان دن

 

عید مباہلہ کی اہمیت:

مباہلہ کا واقعہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے، جس میں سورہ آل عمران کی آیت 61 میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. اہل تشیع اس دن کو اہل بیت (ع) کی فضیلت اور حقانیت کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس دن کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ مباہلہ کے معنی مباہلہ کا مطلب ہے ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا، یعنی ایک دوسرے کو بد دعا دینا۔ یہ اس وقت کیا جاتا ہے جب دو فریق کسی بات میں اختلاف رکھتے ہوں اور دلائل سے بات واضح نہ ہو رہی ہو، تو وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ جو جھوٹا ہے اس پر لعنت بھیجے۔نجران کے میدان کا واقعہ تاریخِ اسلام کا ایک اہم اور روحانی اعتبار سے غیر معمولی واقعہ ہے، جو عیدِ مباہلہ سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ واقعہ ہجرت کے دسویں سال (10 ہجری) نجران کے عیسائی وفد کے ساتھ پیش آیا، اور قرآنِ کریم کی سورہ آلِ عمران (آیت 61) میں اس کا ذکر موجود ہےنجران کا میدان  ایک قدیم  علاقہ  ہے ۔ زمانۂ جاہلیت اور ابتدائی اسلام میں یہ ایک اہم عیسائی مرکز تھا۔1. عیسائی وفد کی آمد:نجران کے 60 کے قریب عیسائی علماء اور رہنما، جن میں ان کا بڑا پادری ابوحارثہ بن علقمہ بھی شامل تھا،


 مدینہ منورہ آئے تاکہ رسول اللہ ﷺ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت  بارے میں گفتگو کریں۔2. مذاکرہ اور بحث:آپ ﷺ نے ان سے قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کی حیثیت بیان کی:بیشک عیسیٰؑ اللہ کے بندے اور اُس کے نبی ہیں، نہ وہ خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے۔"(سورہ آل عمران 3:59لیکن عیسائی اپنے عقیدہ "تثلیث" (Trinity) پر قائم رہے اور بات کسی نتیجے تک نہ پہنچی۔3. مباہلہ کی پیشکش:جب عیسائی وفد قائل نہ ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی:"فمن حاجّک فيه من بعد ما جاءک من العلم فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم ثم نبتهل فنجعل لعنت الله على الكاذبين"(آل عمران 3:61)"پس جو شخص اس (عیسیٰؑ کے بارے میں) تم سے جھگڑا کرے، علم کے آجانے کے بعد، تو کہہ دو: آؤ ہم بلاتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے  بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنے نفسوں کو اور تم اپنے نفسوں کو، پھر ہم مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔


"میدانِ نجران میں مباہلہ کا دن:صبح کا وقت تھا اور کساء یمنی کے زیر سایہ آنے والے پاک پنجتن  اس شان سے میدا ن نجران میں آتے دکھائ دئے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کی اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی انگشت مبارک تھامے ہوئے تھے اورسید الکونین کی آغوش مبارک میں حسین علیہ السلام  تھے آپ تینوں کے پیچھے  بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا اور بی بی کے عقب میں مولائے کائنات  چل رہے تھے یہ اہلِ بیت کا وہ پاک گروہ تھا جنہیں آپ ﷺ نے چادر کے نیچے لیا تھا — جسے "  کساء" کہا جاتا ہے۔عیسائیوں کا پیچھے ہٹ جانا:جب عیسائیوں نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ اپنے سب سے عزیز اہلِ بیت کو لے کر آئے ہیں،چنانچہ جب نصرانیوں کے بڑے پادری نے ان مقدس حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا اے جماعت نصاریٰ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے پہاڑ کو ہٹا دینے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ پہاڑ کو اس جگہ سے ہٹا دے گا، تم ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا۔


 یہ سن کر نصاریٰ مباہلہ سے رک گئے اور آخر کار انھوں نے جزیہ دینا منظور کیا۔ سرکار دو عالم نے فرمایا اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دیے جاتے، جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا اور وہاں کے رہنے والے پرندے بھی نیست و نابود ہو جاتے اور ایک سال تک تمام نصاریٰ ہلاک ہو جاتےتو ان کے سردار نے کہا:اگر یہ سچے نبی نہ ہوتے تو اپنے اہل کو ہلاکت کی دعا کے لیے نہ لاتے۔"چنانچہ وہ مباہلہ سے پیچھے ہٹ گئے اور جزیہ (ایک معمولی ٹیکس) دینے پر رضامند ہو کر صلح کر لی۔یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے صدق و حقانیت کی زبردست دلیل ہے۔اہلِ بیتؑ کی عظمت اور مقام کا ایک درخشاں پہلو ہے۔"عیدِ مباہلہ" کے طور پر یہ دن بہت سے مسلمان بالخصوص اہلِ تشیع میں منایا جاتا ہے (24 ذوالحجہ)

  عید مباہلہ کی اہمیت:

یہ دن اہل بیتؑ کی عظمت کا دن ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی سچائی اور رسالت کا ثبوت ہے۔

یہ دن اتحاد، حق کی فتح، اور باطل کے انکار کی علامت ہے۔

شیعہ مسلمان اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں، نماز، دعا، زیارت، اور نذریں کرتے ہیں۔

 








جمعہ، 20 جون، 2025

حضرت میثم تما ر عاشق مولا علی ع

  میثم تمار عاشق مولا علی علیہ السلام' کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔وہ  بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے اسی قبیلے سے منسوب کیے گئے ہیں۔بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: "میرا نام سالم ہے"؛ حضرت علیؑ نے فرمایا: "پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمھارے عجمی والدین نے تمھارا نام "میثم" رکھا تھا"، میثم نے تصدیق کردی- امیر المومنینؑ نے فرمایا: "اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبرؐ نے بھی تمھیں پکارا ہے"، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت "ابو سالم" ٹھہری۔ ان کی دوسری کنیت "ابو صالح" تھی سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔


 امام علی علیہ السلام کے نامی گرامی صحابی ہیں۔ میثم کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ہاں اتنا ملتا ہے کہ نبی پاک کو بہت پسندتھے اور ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیر المومنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کیے۔  وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ دوسری روایت کے مطابق، میثم کوفہ کے بعض تاجروں کی درخواست پر کوفہ کے عامل کی شکایت پہنچانے کی غرض سے، ان کے ہمراہ ابن زیاد کے پاس پہنچے تا کہ ان سے مطالبہ کریں کہ وہ کوفہ کے عامل کو برطرف کر دے۔ میثم نے وہاں بلیغ خطبہ دیا۔ عَمروبن حُرَیث، جو ـ ابن زیاد کی طرف سے کوفہ کا والی، عثمانی مسلک اور دشمن اہل بیت ؑ تھا اور ـ دارالامارہ میں موجود تھا، ـ


 اس بد بخت  نے میثم پر جھوٹ اور جھوٹوں کی پیروی کا الزام لگایا لیکن میثم نے کہا "میں سچا اور سچے (مولاعلی علیہ السلام) کا پیروکار ہوں"۔ ابن زبیر نے میثم کو حکم دیا کہ علی ؑ سے بیزاری کا اظہار اور آپؑ کی بدگوئی کریں اور اس کی بجائے عثمان سے دوستی اور محبت کا اظہار کریں اور ان کا خیر و نیکی سے تذکرہ کریں۔ اس نے میثم کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس کے حکم کی تعمیل نہ کی تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے گا اور انھیں تختہ دار پر لٹکائے گا۔ گوکہ میثم اس موقع پر تقیہ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے شہادت کا انتخاب کیا اور کہا: "امام علیؑ نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ ابن زیاد میرے ساتھ یہی سلوک روا رکھے گا اور میری زبان بھی کاٹے گا"۔ ابن زیاد نے بزعم خود، اس غیبی خبر کو جھٹلانے کی خاطر حکم دیا کہ میثم کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں اور انھیں عمرو بن حریث کے گھر کے قریب تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ میثم کی زبان کاٹ دی گئ میثم نے تختۂ دار پر بلند آواز سے لوگوں کو بلایا اور کہا کہ حضرت علیؑ کی حیرت انگیز اور پر اسرار حدیثیں سننے کے لیے جمع ہوجائیں۔


 انھوں نے بنو امیہ کے فتنوں اور بنو ہاشم کے بعض فضائل کوبیان کیا۔ عمرو بن حریث نے میثم کی حق بیانی اور عوام کے ازدحام کو دیکھا تو عجلت کے ساتھ ابن زیاد کے پاس پہنچا اور اس کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ ابن زیاد نے رسوائی کے خوف سے، حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ میثم تمّار اسلام میں وہ پہلے شخص تھے جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔ ایک روایت کے مطابق، عمرو بن حریث نے ـ جو لوگوں کے میثم کے کلام کی طرف رجحان اور یزیدی حکومت کے خلاف ان کی شورش سے خوفزدہ تھا ـ ابن زیاد سے درخواست کی کہ میثم کی زبان کٹوا دے۔ ابن زیاد مان گیا اور اپنے ایک محافظ کو ایسا کرنے کے لیے روانہ کیا۔ میثم نے زبان کٹوانے سے پہلے حاضرین کو یادآوری کرادی کہ "امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ابن زیاد میرے ہاتھ پاؤں اور زبان کٹوا دے گا اوراب ابن زیاد نے کہا ہے کہ وہ میری زبان نہیں کٹوائے گا اور میرے مولا کی پیشنگوئی کو جھٹلا دے گا لیکن وہ اس پیشنگوئی کو نہ جھٹلا سکا۔


شہا دت اور  تدفین -ایک روایت کے مطابق میثم کے تختۂ دار پر لٹکائے جانے کے تیسرے روزایک خنجر سے ان کے پیٹ کو زخمی کیا گیا اور انھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ ۔  البتہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ بنو امیہ کے خلاف اور بنو ہاشم کے حق میں خطاب کرنے کے ایک دن بعد ان کے منہ پر لگام باندھی گئی، ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہوا اور تیسرے روز میثم تمّار کی زبان کاٹ دی گئی تو   آ پ اپنے ہی لہو میں نہا گئے  اور کچھ لمحے بعد  ہی   آ پ کی  شہادت  ہو گئ ۔ ۔ میثم تمّار کی شہادت 22 ذوالحجہ سنہ 60 ہجری قمری میں، امام حسینؑ کے عراق میں داخلے سے قبل واقع ہوئی۔ ابن زیاد نے ان کے جسم بے جان کی تدفین سے منع کیا تاہم کوفہ کے چند کھجور فروشوں نے رات کی تاریکی میں ان کی  میت تختۂ دار سے اتار کر قبیلۂ مراد کی زمینوں میں واقع پانی کی ایک گودال میں سپرد خاک کر دیا 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

     حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ الس...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر