پانی زندگی کی کتنی بڑی اور بنیادی ضرورت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا ئیے کہ اللہ کریم و کارسازنے دنیا کاتین چو تھائ حصہ پانی کے لئے رکھا - لیکن اس نعمت کوکراچی کے شہریوں کے لئے نعمت عنقا بنا دیا گیا ہے - اب کراچی شہر میں عام واٹر ٹینکرز کے علاوہ واٹر سپلائرز میں سولہ وہیلر ٹینکر بھی کے بڑے مالک یعنی بڑے صاحبان بھی مستفید ہو رہے ہیں - ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ جس نے کراچی کے پانی پر قبضہ کر لیا اس کی سات نسلیں نوکری کے بغیر راج کریں گی کراچی کے ایک شہری اپنی روداد بتاتے ہیں کہ عید سے دو دن پہلے اچانک پانی ختم ہوگیا۔ ٹینک کھول کر دیکھا تو پانی موجود ہی نہیں۔ ہائیڈرنٹ تو بند تھا۔ اب کیا کیا جائے۔ ایسے میں پانی فراہم کرنے والے منی ہائیڈرنٹس پر جا پہنچے۔ ایک لمبی لائن دیکھ کر حیرت ہوئی۔ واٹر بورڈ کا ایک سولہ ویلر ٹینکر وہاں پانی اتار رہا تھا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ پانی نہیں۔ عید کے بعد ملے گا۔ اور چھ ہزار روپے کا ٹینکر دستیاب ہے۔
یہ سن کر جھٹکا نہیں لگا۔ کیوں کہ یہاں پر پانی مافیا بہت مظبوط ہوچکی ہے۔ واٹر بورڈ پر کمپلین کرنے کا بھی کوئی فایدہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ وہاں بیٹھے نااہل افسران ہیں جن کی چھتر چھایا میں یہ پورا سسٹم چل رہا ہے اوپر سے نیچے تک سارے انہی کے لوگ موجود ہیں۔ ایسے میں آپ شکایت کرکے اپنا ہی وقت برباد کریں گے۔ ایسے میں مرتا کیا کرتا والی کہانی تھی۔ سو ہم نے بھی ہامی بھری اور اپنا نام لکھوا دیا۔ عید کے دوسرے دن دوپہر بارہ بجے کا وقت ملنے پر دوبارہ پانی کی تلاش میں موٹر سائیکل پر پورے بلدیہ کا گشت لگانا شروع کردیا ہر طرف پانی والی سوزوکی اور ہزار گیلن والے ٹینکر گھومتے نظر آئے لیکن جس سے بات کی سب نے منع کردیا کہ پانی نہیں۔یہ حال صرف بلدیہ نہیں پورے کراچی کا تھا۔ واٹر بورڈ کے ٹینکر جگہ جگہ پرائیوٹ ہائیڈرنٹس پر پانی اتارتے نظر آئے لیکن شہریوں کو دینے کے لیے ان کے پاس پانی کا قطرہ بھی نہیں تھا۔ محض عید سے دو دن پہلے اور عید کے چوتھے دن تک ان ہائیڈرنٹس نے عوام کی جیب سے اربوں روپے نکال لیے اور کسی ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مصطفی کمال نے اپنا انتخابی سلسلہ بلدیہ ٹائون سے شروع کیا تو ان کے ہر جلسے کی تقریر کا پہلا جملہ بلدیہ کو پانی کی فراہمی کا ہوتا تھا۔ کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ بلدیہ کو پانی کی اشد ضرورت ہے۔ اس سیاسی گیم میں مصطفی کمال صاحب بڑے کھلاڑی نکلے اور اسی پانی کو اپنی ترجیحات میں رکھ کر بلآخر عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی۔ مد مقابل مخالفین نے بھی پانی کو ہی مدعا بناکر انتخابات لڑنے کی کوشش کی۔ سب کو اپنے حصے کی فتوحات مل گئیں لیکن بلدیہ کو پانی آج تک نہ مل سکا۔ اب جب کبھی ان لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور پانی کا وعدہ انہیں یاد کرایا جاتا ہے تو یہ وہی لوگ ہیں جو پہلے عوام عوام کرتے تھے اب یہ حال ہے کہ پانی کا نام سن کر ایسے چڑ جاتے ہیں جیسے کبھی انہوں نے وعدہ کیا ہی نا ہو۔ہر گلی محلے میں منی ہائیڈرنٹس دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں پانی کا کال ہے۔ اور اب یہ حقیقت ہے کیوں کہ واٹر بورڈ نے بھی سمجھ لیا ہے کہ ڈائریکٹ عوام کو پانی دینے سے وہ بچت نہیں ہوتی جو مافیاز کو دینے سے ہوتی ہے۔ اس لیے کرش پلانٹ سے نکلنے والے ہر واٹر ٹینکر کی منزل اب کسی عام شہری کا گھر نہیں بلکہ پرائیوٹ پانی مافیا کا ہائیڈرنٹس ہوتی ہے۔
واٹر بورڈ کی ایپلی کیشن پر آپ لاکھ مرتبہ بھی پانی کی عرضی ڈال لیں۔ لیکن پانی آپ کو نہیں ملنا۔ ہاں یہاں ایک اور چور بازاری یہ بھی ہو رہی ہے کہ آپ کو آسرے پر رکھنے کے لیے ٹریکنگ وغیرہ سب کچھ دکھائی جائے گی۔ ٹائم تک بتا رہا ہوگا کہ فلاں وقت تک ٹینکر آپ کی دہلیز پر ہوگا۔ لیکن جب آپ مطلوبہ وقت پر ٹینکر کو اپنی دہلیز پر نا پاکر ایپلی کیشن چیک کریں گے تو وہاں اس پانی کے نرخ جو پہلے اگر دو ہزار تھے۔ اچانک سے چارہزار روپے دکھانا شروع ہو جائے گا۔ اور وقت میں مزید بارہ سے چوبیس گھنٹے کا ٹائم دکھانا شروع کردے گا۔ آپ اگر اس کی کمپلین بھی کرنا چاہیں تو کوئی فایدہ نہیں۔ کیوں کہ وہاں سننے والا کوئی نہیں۔ آپ صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر پھر سے انتظار کی سولی پڑ لٹکے ہوں گے اور جیسے ہی وقت پورا ہوگا آپ ایپلی کیشن کھولیں گے تو پتا چلے گا کہ مطلوبہ ٹینکر آپ کے گھر پر پانی اتار کر چلا گیا ہے لیکن حقیقت میں آپ کا ٹینک خالی ہی ہوگا۔ اور مافیا اپنا کام پورا کر چکی ہوگی آپ کا ٹینکر کسی کو مہنگے داموں فروخت کردیا گیا ہوگا۔
پانی ایک بنیادی ضرورت ہے جسے حکومت وقت کی ذمے داری میں شامل ہے کہ وہ ہر ایک شہری کو باعزت طریقے سے ان کی دہلیز پر مہیا کرے۔ اس کے لیے حکومت نے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے نام سے ادارہ بھی بنایا اور اس میں کام کرنے والیے ملازمین کو اربوں روپے کی مد میں سالانہ تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی فراہم کی جارہی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ نا ملازمین اپنا کام ایمانداری سے کررہے ہیں اور نا ہی ادارے کے سربراہان اپنی روش تبدیل کررہے ہیں۔ سب ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں جن کا مقصد پانی کی غیر قانونی فروخت کے ذریعے عوام سے پیسہ وصول کرنا اور اپنا بینک بیلنس بڑھاناآج اگر یہ ادارہ پرائیویٹ کردیا جائے تو یقینا شہر بھر میں واٹر بورڈ کے ملازمین مظاہرے اور دھرنے شروع کردیں گے کیوں کہ اس سے ان کی اوپر کی آمدن بند ہو جائے گی۔ میئر کراچی اب واٹر بورڈ کے کرتا دھرتا ہیں تاہم وہ بھی اپنی دیگر ذمے داریوں کی طرح اس ذمے داری کو نبھانے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ اور اب تمام کراچی میں پانی کا کال پڑا ہوا ہے اور شہریوں کی روداد سننے والا کوئ نہیں باقی رہے نام اللہ کا '
اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے -القران
خدا وند عالم ہم مسلمانوں کو نیکی کا راستہ سجھا دے آمین
جواب دیںحذف کریں