منگل، 15 جولائی، 2025

لبنانی عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا

   


   امام  دنیا امام عقبیٰ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ نے مجھ کو علوم اس طرح  سے سکھائے جس طرح چڑیا  اپنے بچوں کو  چوگا کھلاتی ہے اسی لئے آپ علیہ السلام  کا علم  ایک بحر زخار کی مانند تھا ۔ آپ علیہ السلام زبور والوں کے  علمی سوالات کے جواب انہی کی کتاب سے دیتے   انجیل والوں کے ان کی کتاب سے اور توریت والوں کو ان کی کتاب سے -یہی وجہ تھی  کہ غیر ملکی مشاہیر عالم کی نظر میں  آ پ علمی اور فکری میدان میں ایک عظیم مقام  پر فائز نظر آتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام کی علمی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "باب العلم" قرار دیا تھا۔ لبنانی  عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا، اس نے ایک کتاب ''صوت العدالۃ الانسانیہ'' یعنی ندائے عدالت انسانی، حضرت علی کے بارے میں تحریر کی تھی لیکن کسی مسلمان نے اسے چھاپنا گوارا نہ کیا تو  وہ کافی بے چین ہو گیا، لبنان کے ایک بشپ نے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا گوش گزار کر دیا، بشپ نے اسے رقم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ اس کتاب کو خود چھپواؤ،جارج جرداق رقم کی تھیلی لے کر چلا گیا  اور اس نے کتاب  پرنٹ کے لئے پبلشر کو دے دی


 جب یہ کتاب پبلش  ہوئ تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا    اور کی اشاعت  اس کی اشاعت سے جارج کو  بھاری  منافع ہوا، جارج نے بشپ کی رقم ایک تھیلی میں ڈال کربشپ کے پاس پہنچا اور کتاب کی  رقم واپس کرنی چاہی  تو بشپ نے کہا کہ یہ میرا تمہارے اوپر احسان نہیں تھا بلکہ یہ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے کہ جب وہ خلیفہ تھے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علیؑ کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا اسلئے حضرت محمد رسول اللہ ص کے بعد ان کے وصی امیر المومینن حضرت علیؑ کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا اسلئے میں نے حضرت علیؑ کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے اسلئے یہ رقم مجھے واپس کرنے کی بجائے غریبوں میں بانٹ دو۔جارج جرداق لکھتا ہے کہ حقیقت میں کسی بھی مورخ یا محقق کے لئے چاہے وہ کتنا ہی بڑا زیرک اور دانا کیوں نہ ہو، وہ اگر چاہے تو ہزار صفحے بھی تحریر کر دے لیکن علیؑ جیسی ہستیوں کی کامل تصویر کی عکاسی نہیں کرسکتا، کسی میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ذات علیؑ کو الفاظ کے ذریعے مجسم شکل دے، 


لہذا ہر وہ کام اور عمل جو حضرت علیؑ نے اپنے خدا کے لئے انجام دیا ہے، وہ ایسا عمل ہے کہ جسے آج تک نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور وہ کارنامے جو انہوں نے انجام دیئے، اس سے بہت زیادہ ہیں کہ جن کو زبان یا قلم سے بیان اور آشکار کیا جائے۔ اس بنا پر ہم جو بھی علیؑ کا عکس یا نقش بناییں گے، وہ یقیناً ناقص اور نامکمل ہوگا۔جارج جرداق مزید لکھتے ہیں کہ اے زمانے تم کو کیا ہوجاتا اگر تم اپنی تمام توانائیوں کو جمع کرتے اور ہر زمانے میں اسی عقل، قلب، زبان، بیان اور شمشیر کے ساتھ علی جیسے افراد کا تحفہ ہر زمانے کو دیتے؟جارج جرداق معروف یورپی فلسفی کارلائل کے متعلق لکھتا ہے کہ کارلائل جب بھی اسلام سے متعلق کچھ لکھتا یا پڑھتا ہے تو فوراً اسکا ذہن علی ابن ابی طالب کی جانب راغب ہوجاتا ہے، علی کی ذات اسکو ایک ایسے ہیجان، عشق اور گہرائی میں لے جاتی ہے کہ جس سے اسے ایسی طاقت ملتی ہے کہ وہ خشک علمی مباحث سے نکل کر آسمان علم  میں پرواز شروع کر دیتا ہے اور یہاں اسکے قلم سے علیؑ کی شجاعت کے قصے آبشار کی طرح پھوٹنے لگتے ہیں،


اسی طرح کی کیفیت باروین کاراڈیفو کے ساتھ بھی پیش آتی ہے، وہ بھی جب کبھی علی کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اس کی رگوں میں حماسی خون دوڑنے لگتا ہے اور اسکے محققانہ قلم سے شاعری پھوٹنے لگتی ہے اور جوش اور ولولہ اسکی تحریر سے ٹپکنے لگتا ہے۔لبنانی عیسائی مفکر خلیل جبران بھی حضرت علیؑ کے عاشقوں میں سے ہے۔ اسکے آثار میں یہ چیز نظر آتی ہے کہ وہ جب بھی دنیا کی عظیم ہستیوں کا ذکر کرتا ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لیتا ہے۔ خلیل جبران لکھتا ہے کہ علی ابن ابی طالب دنیا سے اس حالت میں چلے گئے کہ انکی اپنی عظمت و جلالت انکی شھادت کا سبب بنی۔ علی نے اس دنیا سے اس حالت میں آنکھیں بند کیں جب انکے لبوں پر نماز کا زمزمہ تھا، انہوں نے بڑے شوق و رغبت اور عشق سے اپنے پروردگار کی طرف رخت سفر باندھا، عربوں نے اس شخصیت کے حقیقی مقام کو نہ پہچانا، لیکن عجمیوں نے جو عربوں کی ہمسائیگی میں رہتے تھے، جو پتھروں اور سنگ ریزوں سے جواہرات جدا کرنے کا ہنر جانتے تھے، کسی حد تک اس ہستی کی معرفت حاصل کی ہے۔


خلیل جبران ایک جگہ تحریر کرتا ہے کہ میں آج تک دنیا کے اس راز کو نہ سمجھ پایا کہ کیوں بعض لوگ اپنے زمانے سے بہت آگے ہوتے ہیں، میرے عقیدے کے مطابق علی ابن ابی طالب اس زمانے کے نہیں تھے، یا وہ زمانہ علیؑ کا قدر شناس نہیں تھا، علیؑ اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہوگئے تھے، مزید کہتے ہیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ علی ابن ابی طالب عربوں میں وہ پہلے شخص تھے، جو اس کائنات کی کلی روح کے ساتھ تھے میرے عقیدے کے مطابق ابو طالب کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا اور وہ ان کا ساتھی لگتا تھا، رات ان کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھی، علی علیہ السلام پہلے انسان تھے جن کی روحِ پاک سے ہدایت کی ایسی شعائیں نکلتی تھیں جو ہر ذی روح کو بھاتی تھیں، انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہوگا، اسی وجہ سے لوگ ان کی پُرمعنی گفتار اور اپنی گمراہی میں پھنس کے رہ جاتے تھے، پس جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے، وہ فطرت سے محبت کرتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا جاہلیت میں غرق ہے۔علی علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن خود کو شہید ِاعظم منوا گئے، وہ ایسے شہید تھے کہ لبوں پر سبحانَ ربی الاعلیٰ کا ورد تھا اور دل لقاء اللہ کیلئے لبریز تھا، دنیائے عرب نے علی علیہ السلام کے مقام اور اُن کی قدرومنزلت کو نہ پہچانا، یہاں تک کہ اُن کے ہمسایوں میں سے ہی پارسی اٹھے جنہوں نے پتھروں میں سے ہیرے کو چن لیا۔معروف مسیحی دانشور کارا ڈیفو لکھتا ہے کہ علی وہ دردمند، بہادر اور شھید امام ہے کہ کہ جسکی روح بہت عمیق اور بلند ہے، علی وہ بلند قامت شخصیت ہے جو پیامبر ﷺ کی حمایت میں لڑتا تھا اور جس نے معجزہ آسا کامیابیاں اور کامرانیاں اسلام کے حصے میں ڈالیں، جنگ بدر میں کہ جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی، ایک ضرب سے قریش کے ایک سوار کے دو ٹکڑے کر دیئے،    جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی 

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را



اتوار، 13 جولائی، 2025

حمیرا اصغر کی تدفین ہوگئ

 

 میرے کچھ مقاصد ہیں جن کو مکمل کرنا  میرا حاصل زندگی ہے  اور میری زندگی میں اتنا وقت نہیں کہ میں کسی کو سنجیدگی سے  کسی  کا ساتھ دے سکوں  -یہ الفاظ حمیرا اصغر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہے -وہ  10 اکتوبر 1992ء کو لاہور میں ایک فوجی ڈاکٹر کے گھر پیدا ہوئیں  تین بہن بھائ ان سے  پہلے ان کے خاندان کا حصہ بن چکے تھے -تعلیمی دور  میں انہوں نے اپنے خاندانی تعلیمی پس منظر میں جانے کےبجائے فنون لطیفہ کا انتخاب کیا اور وہ  پاکستان کے مشہور زمانہ کالج این سی اے میں  چلی گئیں -ان کےتعلیمی  راستے جدا کرنے پر ان کے اپنے والد سے اختلاف ضرور ہوئے تھے لیکن وہ  اپنے گھر سے وابستہ رہتی تھیں -   ، انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس اور جامعہ پنجاب کے کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن سے مصوری اور مجسمہ سازی کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے فن پاروں کا مرکزی موضوع خواتین کا معاشرے کی تشکیل میں کردار اور خواتین کو بااختیار بنانا تھا جب کہ ان کا تخلیقی مواد اکثر اردو شاعری اور ادب سے ماخوذ ہوتا تھا۔پھر ان کو اپنا بہتر مستقبل کراچی میں نظر آیا  اور وہ 2018ء سے اپنی وفات تک کراچی کے ڈیفنس فیز سِکس میں کرائے کے فلیٹ میں مقیم تھیں۔


کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع ایک فلیٹ سے ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش ملنے کے بعد پولیس نے واقعے کی نوعیت جاننے کے لیے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔8 جولائی 2025ء کو حمیرا اصغر کی لاش کراچی کے ڈی ایچ اے فیز سِکس اتحاد کمرشل ایریا میں واقع اُن کے اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی جب کرایہ کی عدم ادائیگی پر عدالتی حکم کے تحت انخلا کی کارروائی کی جا رہی تھی۔ فلیٹ سے اٹھنے والی بدبو کے باعث پولیس اور عدالتی عملے نے دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو کر اُن کی لاش کو گل سڑ جانے کی حالت میں پایا۔ سندھ پولیس کے مطابق اپارٹمنٹ کے تمام دروازے، کھڑکیاں اور  (بالکونی) اندر سے بند تھیں اور نہ زبردستی داخلے یا مزاحمت کے کوئی آثار نہیں ملے اور نہ کسی مجرمانہ عمل کے شواہد ملے۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں کیے گئے بعد الموت معائنہ کے مطابق لاش گلنے سڑنے کے ”انتہائی  آخری مراحل“ میں تھی۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ موت کو دو سے تین ہفتے گذر چکے تھے۔ 


تاہم تفتیشی اداروں اور عرب نیوز کے رپورٹ کردہ ڈیجیٹل شواہد و فرانزک تجزیے کے مطابق حمیرا کی وفات غالباً اکتوبر 2024ء میں ہوئی یعنی جولائی 2025ء میں دریافت ہونے سے تقریباً نو ماہ قبل۔ اس نتیجے کی بنیاد کال ریکارڈوں، سوشل میڈیا کی غیر فعالیت،  کچن  میں  رکھے ہوئے    فرج میں  سڑے ہوئے کھانے اور دیگر فرانزک شواہد پر رکھی گئی-فوری اطلاع، اداکارہ حمیرا اصغر علی لاپتہ ہیں۔ آخری بار 7 اکتوبر 2024 کو آن لائن دیکھی گئیں۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو گذشتہ سال ایک ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ کیے گئے مگر کسی کو خبر نہ ہوئی۔یہ الفاظ کس کے تھے اور کسی نے ان پر کان کیوں نہ دھرے اس سے پہلے کچھ اہم باتیں دہرانا ضروری ہیں۔کراچی کے پُرہجوم شہر میں ایک فلیٹ کے بند دروازے کے پیچھے حمیرا اصغر علی   اپنی  چکا چوند زندگی    موت  کے اندھیروں میں خاموشی سے گم ہو چکی تھی۔ وہ دروازہ جس پر کبھی دستک نہیں دی گئی، منگل کی صبح عدالت کے بیلف نے اسے زبردستی کھولا۔ڈان نیوزکے مطابق  سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ساؤتھ (ایس ایس پی) مہظور علی نے اداکارہ کی موت کی نوعیت جاننے کے لیے ایس پی کلفٹن عمران علی جاکھرانی کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔


تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیم میں ایس ڈی پی او ڈیفنس اورنگزیب خٹک، اے ایس پی ندا جنید اور ایس ایچ او گزری فاروق سنجرانی کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ سب انسپکٹر محمد امجد اور آئی ٹی برانچ کے پولیس کانسٹیبل محمد عدیل بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کو روزانہ کی بنیاد پر اعلیٰ حکام کو پیش رفت سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔پولیس کے مطابق تحقیقاتی ٹیم واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی، جن میں طبعی موت، حادثہ، خودکشی یا قتل سمیت تمام امکانات شامل ہیں۔ٹیم جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ فلیٹ میں موجود اشیا، سی سی ٹی وی فوٹیج اور اداکارہ کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔حمیرا اصغر نے اپنے فنی سفر کا آغاز کالج کے زمانے میں رفیع پیر تھیٹر سے کیا جس کے بعد وہ ماڈلنگ کی دنیا میں داخل ہوئیں۔ انھوں نے کئی مشہور برانڈز کے لیے ماڈلنگ کی بعد ازاں انھوں نے ٹیلی ویژن اور فلموں کی جانب رخ کیا۔ صغر نے اپنے فنی سفر کے دوران کئی پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں کام کیا۔ انھیں سب سے زیادہ شہرت اے آر وائی ڈیجیٹل کے رئیلٹی شو تماشا سے ملی جو بین الاقوامی فرنچائز بگ برادر سے مشابہت رکھتا تھا۔ ٹیلی ویژن میں، انھوں نے ”بے نام“، ”جسٹ میریڈ“، ”لو ویکسین“، ”چل دل میرے“، ”صراط مستقیم مستقیم“ (لالی)، ”احسان فراموش“ اور ”گرو“ جیسے سیریلوں میں کام کیا۔ فلم میں وہ 2015ء کی ایکشن تھرلر جلیبی میں ماڈل کے طور پر نظر آئیں۔ انھوں نے فلم ”ایک تھا بادشاہ“ (2016ء) میں علی حمزہ اور علی نور کے ہمراہ مرکزی کردار ادا کیا۔ 



2022ء میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون چاندی رنگ کا چوغہ پہن کر ایک جلتے ہوئے ٹیلے کے سامنے چلتی دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی طور پر اس ویڈیو کو حمیرا اصغر علی سے منسوب کیا گیا اور بین الاقوامی میڈیا بشمول اے ایف پی نے غلطی سے ان کے نام سے رپورٹ کیا۔ بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ یہ ویڈیو دراصل ٹک ٹاک صارف  کی تھی جنھوں نے کیپشن دیا تھا: ”جہاں میں ہوتی ہوں آگ لگ جاتی ہے۔“ یہ غلط فہمی وسیع پیمانے پر واضح کر دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش 8 جولائی کو ان کے فلیٹ سے ملی تھی، جہاں وہ 2018 سے تنہا رہائش پذیر تھیں۔ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لاش تقریباً 8 سے 10 ماہ پرانی تھی اور ڈی کمپوزیشن کے آخری مراحل میں تھی۔

ہفتہ، 12 جولائی، 2025

شہادت تصویرِ مصطفیٰ ﷺ حضرت علی اکبر

 روائت ہے کہ روز عاشور خیام اہلبیت سے  جناب علی اکبر علیہ السلام    میدان کارزار میں   رجز پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے  

انَا عَلىُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ عَلى نَحْنُ وَبِيْتُ اللَّهِ اوْلى بالنَّبِى

اطْعَنُكُمْ بالرُّمْحِ حَتَّى يَنْثَنى اضْرِبُكُمْ بالسَّيْفِ احْمى عَنْ ابى

ضَرْبَ غُلامٍ هاشِمِىٍّ عَرَبى وَاللَّهِ لا يَحْكُمُ فينَا ابْنُ الدَّعى

میں علی، حسین بن علی کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ہم پیغمبر اسلام کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔اس قدر نیزہ سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ قضا تم پر وارد  ہو جائے اور اپنی تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ کند ہو جائے تاکہ اپنے بابا کا دفاع کر سکوں۔ایسی تلوار چلاوں گا جیسی بنی ہاشم اور عرب کا جوان چلاتا ہے۔ خدا کی قسم اے ناپاک کے بیٹے تم ہمارے درمیان حکم نہیں کر سکتے۔آپ نے اپنے شجاعانہ حملوں کے ساتھ دشمن کی صفوں کو چیر دیا اور ان کی چیخوں کو بلند کر دیا۔ نقل ہوا ہے کہ جناب علی اکبر نے سب سے پہلے حملہ میں ایک سو بیس دشمنوں کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد اس حال میں کہ زخموں سے چھلنی تھے اپنے بابا کے پاس واپس آئے اور کہا: اے بابا پیاس ہلاک کئے جا رہی ہے اور اسلحہ کی سنگینی مجھے زحمت میں ڈالے ہے کیا پانی کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے؟ تاکہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لیے کچھ طاقت حاصل ہو جائے۔ ۔ بیٹا اپنی زبان کو میری زبان میں دے دو  لیکن آپ نے جیسے ہی اپنی زبان اپنے بابا کی زبان سے مس کی تڑپ کر چھوڑ دی اور کہنے لگے  بابا  آپ کی  زبان میں مجھ سے زیادہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں  فرمایا: یہ انگوٹھی لے لو اور اسے اپنے منہ میں رکھ لو اور دشمن کی طرف واپس چلے جاو ۔ انشاء اللہ جلدی ہی آپ کے جد امجد جام کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی پیاسے نہیں ہو گے۔جناب علی اکبر میدان کی طرف پلٹ گئے اور پھر رجز پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے: جنگ کے حقائق آشکارا ہو گئے اس کے بعد سچے شاہد اور گواہ ظاہر ہوئے اس خدا کی قسم جو عرش کا پیدا کرنے والا ہے میں تمہارے لشکر سے دور نہیں ہوں گا جب تک کہ تلواریں غلاف میں نہ چلی جائیں -   حضرت علی اکبر کی شہادت کا منظر-


پھر اس کا دوسرا بیٹا طلحہ بن طارق غم و غصے میں شہزادہ علی اکبر  علیہ السلام پر حملہ آور ہوا تو آپ نے خود کو بچا کر اس کی گردن کو اس انداز سے مروڑا کہ اس کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ شہزادے کے رعب و دبدبہ سے تمام یزیدی خوفزدہ ہوگئے۔ابن سعد نےخوفزدہ ہو کر مصراع بن غالب کو بھیجا اس نے آتے ہی شدید حملہ کیا جسے آپ نے کمال مہارت سے روکا اور آپ نے اس انداز سے نعرہِ تکبیر بلند کیا کہ تمام لشکر پہ ہیبت چھا گئی اور آپ نے فوراً اس کے سر پہ وار کر کے مصراع کو ایسی تلوار ماری کہ وہ ملعون دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔ابن سعد نے دوہزار سواروں کو ان پہ حملے کے لئے بھیجا مگر شہزادہ جلیل علیہ السلام نے تعداد کی پرواہ کئے بغیر ایسے حملے کئے کہ دوہزار افراد بھی ان کے سامنے نا ٹھہر سکے ۔ آپ جس طرف گھوڑے کو موڑتے لوگ آپ سے دور بھاگتے آپ نے جنگ کو دوبارہ روکا اور واپس آقا حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔اور پانی طلب کیا ۔ تب امام حسین  علیہ السلام  نے فرمایا ! اے جان پدر غم نا کر تو ابھی حوضِ کوثر سے سیراب ہونے والا ہے۔


 حضرتِ علی اکبر  علیہ السلام  نے اس بشارت کو سنا تو دوبارہ لشکرِ اشرار پر حملہ کردیا دورانِ جنگ آپ  علیہ السلام  کو کئی زخم آ چکے تھے اچانک حصین بن نمیر ملعون نے حضرتِ علی اکبر علیہ السلام کے سینے میں برچھی کا وار کیا اور آپ  علیہ السلام گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے۔ اور فریاد بلند کی : بابا جان میری دستگیری فرمائیں۔ ا ب  علی اکبر چاروں جانب سے نرغہ ء اعدا میں گھر چکے تھے  -  اپنی شہادت کے بلکل آخری لمحوں میں اپنے بابا کو آواز دیتے ہو ئے آواز دی بابا جان آپ بھی جلدی سے آئیے ۔آواز سنتے ہی امام علیہ السلام میدان کی طرف دوڑ پڑے اور  امام  نے دیکھا  برچھی کا پھل  علی اکبر کے سینے میں پیوست تھا  'امام حسین علیہ السلام نے جیسے ہی برچھی  کا پھل نکالا ساتھ علی اکبر کا کلیجہ بھی نوک سناں کے ساتھ باہر آ گیا ۔روایت میں نقل ہوا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا گریہ و فغاں کے عالم میں یہ کہتی ہوئی آئیں: "اے میرے دل کے چین"  ۔


امام حسین  علیہ السلام  ۔ امام نے ان کا سر اپنی آغوشِ طاہرہ میں لیا تو شہزادہ علی اکبر نے عرض کی بابا میں دیکھ رہا ہوں کہ نانا (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم) میرے استقبال کے لئے کھڑے ہیں۔ساتھ ہی تصویرِ مصطفیٰ ﷺ اپنے جدامجد محمد المصطفیٰ (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم) کی بارگاہ میں پہنچ گئے ۔ امام حسین  علیہ السلام کی ہمت و جرأت کو لاکھوں کروڑوں درود و سلام جنہوں نے جوان بیٹے کے جسدِ مقدس  کو اٹھایا اور شہزادہ اپنے بابا کے ہاتھوں میں قربان ہو گیا میدانِ کربلا سے واپس خیموں کے قریب آنے تک امام حسین (علیہ السلام) کے سر کے اور داڑھی کے تمام بال سفید ہو چکے تھے (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) ۔

 



جمعہ، 11 جولائی، 2025

استاد شہید سبط جعفر زیدی اور فن سوز خوانی

 

(کتاب اقتباس سوز خوانی کا فن )

اب تک یہ فنِ سوز خوانی جن مراحل سے گزرا ، جن گھرانوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں اس فن کو اب تک شامل کر رکھا ہے ، سوز خوان خواتین و حضرات میں سے وہ نام جنہوں نے بیشمار شاگرد بھی تیار کئے ، اس کتاب میں تقریبا" تمام تفصیل درج کی گئی ہے۔ وہ شعرا جو محض ایک سلام یا نوحے سے کئی صدیوں کے بعد بھی عوام میں چاہے جاتے ہیں انکا بھی تذکرہ اس کتاب میں کیا گیا ہے ۔سوز خوانی کے آداب ،لوازمات ، سوز خوان ساتھیوں کی تربیت اور اپنے سربراہ سے معاونت کس قدر ضروری ہے ،اسکی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اب تک سوز خوانی پر جو کتب شائع کی گئیں ہیں انکی تفصیل بھی کتاب میں موجود ہے۔کہا جاتا ہے  اور ریکارڈ پر بھی موجود ہے کہ  شہید سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے لیےروزنامہ جنگ سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سےتکنیکی و تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھے جو بعد ازاں کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔ مستند زرائع  بتاتے ہیں  کہ ہارڈ ورڈ یونیورسٹی ،کولمبیا یونیورسٹی اور فلوریڈا میں امریکی محققین و ماہرین پروفیسر سبطِ جعفر زیدی کے دبستان سوز خوانی اور فن سوز خوانی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات ماہرین فن اساتذہ اور محققین کی نگرانی میں باقاعدہ استفادہ کررہے ہیں۔تاکہ سوز خوانی کا یہ ورثہ اگلی نسل کو منتقل کیا جاسکے۔


شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں ایک سو سے زائد سوز خواں اپنی خدمات بغیر معاوضہ کے انجام دے رہے ہیں ۔اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کار خیر کو  جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ مختلف شہروں میں مقبول سوز خوانوں کا مختصر تعارف اور نام بھی لکھ دیئے  گئے ہیں استاد سبط جعفر زیدی کو 18 مارچ 2013ء کو پیر کے دن دوپہر کے وقت کالعدم سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے اس وقت شہید کیا جب لیاقت آباد میں قائم کالج سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد اپنے انتہائی خستہ حال موٹرسائیکل پر گھر جارہے تھےشہادت کے وقت آپ 56 برس کے تھے۔آپ کی نماز جنازہ امروہہ گراوٴنڈ انچولی میں ادا کی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء، شعراء، مدارس اور کالجز کے اساتذہ اور اپنی تعلیم سے سرفراز ہونے والے شاگردوں نے شرکت کی۔ اان کی شہادت پر صوبہ سندھ کے تمام کالجز بطور احتجاج ایک دن بند رہے۔ آپ کو وادی حسینؑ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔سبط جعفر سے نقل کیا جاتا ہے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ "مرنا تو سب کو ہے تو پھر کینسر یا روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے سے بہتر ہے کہ چلتے ہاتھ پاؤں شہادت کی موت نصیب ہو۔ ان کے کسی قریبی دوست نے باہر آنے جانے میں احتیاط برتنے کا کہا تو از راہِ مذاق کہنے لگے کہ "تم لوگ تو مجھ سے جلتے ہو، چاہتے ہی نہیں ہو کہ مجھے شہادت ملے۔" وہ ہمیشہ شہادت کے متمنی رہتے تھے یہاں تک کہ شہادت سے کئی ماہ قبل اپنے وصیت نامے کو دو منظوم کلام کی شکل میں لکھ کر گئے۔ایک کلام احباب کے نام اور دوسرا قاتلوں کے نام۔ ان دونوں کلاموں کے آخر میں انہوں نے اپنا نام شہادت سے قبل ہی *"شہید سبط جعفر بقلم خود" لکھا۔ 


سبط جعفر زیدی سنہ 1990ء سے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے اور پاکستان ٹیلی ویژن پر آپ نے صوتی علوم و فنون اسلامی پر "لحنِ عقیدت" کے نام سے پروگرام نشر کئے۔ آپ بین الاقوامی ادارہ ترویج سوز خوانیانجمن محبان اولیاء کے بانی، انجمن وظیفہ سادات پاکستان اور انجمن محمدی کے صدررہےکر ایسوسی ایشن، سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن، انجمن سوز خوانان کراچی اور آرٹس کونسل کے رکن رہے۔آپ J.D.C بورڈ کے بانی اور خادمان علم جامعہ امامیہ کے سرپرست بھی رہے۔سبط جعفر نے سندھ بھر میں 7 کالجز پانچ خیراتی ادارے، مختلف تعلیمی ادارے اور ٹنڈو آدم میں ایک سکول بنوایا جس میں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ہا جاتا ہے کہ آپ کو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے ایک ایوارڈ بھی ملا ہے۔سید سبط جعفر زیدی پاکستان کے شیعہ معاصر شاعر، سوزخواں، مصنف، استاد اور سماجی شخصیت تھے۔ سنہ 1957ء کو آپ کراچی میں پیدا ہوئے۔ سنہ 2013ء کو سپاہ صحابہ کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ سبط جعفر گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے۔ آپ نے کئی کالجز، سکول اور فلاحی ادارے قائم کئے اور اردو زبان میں سوزخوانی کو حیات نو بخشی۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے آپ کو ایوارڈ ملا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ بین الاقوامی ادارہ ترویج سوزخوانی اور بعض دیگر اداروں کے بانی اور عہدے دار بھی رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر سوزخوانی کے متعدد پروگرام کئے۔ ان کی سوزخوانی پر مشتمل کئی کیسٹیں اور سی ڈیز منظر عام پر آگئی ہیں۔

سوزخوانی

سبط جعفر اپنے اشعار میں اہل بیتؑ کے صرف مصائب ہی نہیں بلکہ عقائد اور احکام پر بھی تاکید کرتے تھے۔زیدی اپنے آپ کو شاعر کے بجائے سوزخواں سمجھتے تھے۔ برصغیر میں سوز خوانی کو مجلسِ امام حسینؑ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شہید سبط جعفر زیدی سوز خوانی سے اپنی وابستگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سکول کے زمانے سے ہی سوز خوانی سے شغف تھا اور سنہ 1988ء میں شاعر اہل بیت ریحان اعظمی نے انہیں پاکستان ٹیلی ویژن لے گئے اور اسی سال ریحان اعظمی کی کوششوں سے پہلا کیسٹ منظر عام پر آگیا۔ یہ سلسلہ سنہ 2006ء تک جاری ریا اور اس وقت تک پچاس سے زائد آڈیو ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز منظر عام پر آگئیں -شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں متعدد سوز خواں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوز خوانی کی مجالس میں مصائب اہل بیتؑ بیان کرتے ہیں۔سید سبط جعفر کو مختلف راگ اور سُروں کے علم پر بھی عبور حاصل تھا مگر ان کی بندشوں یعنی کمپوزیشنز میں کہیں بھی گانے یا غنا و موسیقی کا گمان تک نہیں ہوتا تھا اور وہ ذکرِ اہل بیتؑ کو گانوں کی طرز پر بیان کرنے کے سخت مخالف تھے


سوز فارسی کا لفظ ہے، جس کے معنی دکھ درد اور جلن کے ہیں اور خوانی کے معنی پڑھنے سنانے اور دہرانے کے ہیں اور سوزخوانی کے معنی دکھ درد کا بیان کے ہیں۔ اصطلاح میں مصائب اہل بیت علیہ السلام اور بالخصوص واقعہ کربلا کے منظوم کلام کو لحن یا طرز میں اور وضع کردہ طریقوں میں ادائیگی کو "سوز خوانی" کہا جاتا ہے-تالیفات -سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے سنہ 1418ھ میں ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے میں باصلاحیت نوجوانوں کو سوز خوانی سکھانے کے لئے عزاداری اور عزاداروں کا تحفۃ العوام "بستہ" کے نام سے کتاب تالیف کیانٹرمیڈیٹ اور ڈگری کلاسز کے نصاب تعلیم کیلئے کئی کتابیں تصنیف کیں جو 1985ء سے 1988ء تک متعدد بار شائع ہوئیں۔مطالعہ پاکستان، عمرانیات اور اطلاقی عمرانیات وغیرہ؛ نیز منتخبات نظم و نثر، زاد راہ، نشان راہ اور صوتی علوم و فنون اسلامی وغیرہ ان کی تالیف کردہ نصابی کتب میں شمار کیا جاتاےسوز خوانی کی ترویج کے لیے "روزنامہ جنگ" سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سے تکنیکی تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھتے رہے، جو بعد ازاں سنہ 1995ء کو کتابی شکل میں منظر عام پر آئ -آپ کا پہلا تکنیکی تحقیقی مضمون سوزخوانی کے نام سے سنہ 1989ء کو روزنامہ جنگ کراچی کے مڈ ویک میگزین  میں شائع ہوا۔

میں نے یہ مضمون انٹرنیٹ سے لیا ہے 



جمعرات، 10 جولائی، 2025

اسیران حرم دربار یذید میں

 



سن 61ہجری میں ماہ صفر کی پہلی تاریخ کو اسیران کربلا کا قافلہ اور امام حسین علیہ السلام سمیت تمام شہداء کربلا کے سر شام کے شہر دمشق لائے گئے، اس موقع پر یزید کے حکم پر پورے شہر کو سجایاگیا  اور تمام شہر میں یذیدی   ہرکاروں نے منادی کروائ کہ کوئ شہری اس دن گھروں میں نا رہے بلکہ زرق برق لباس پہن کر باہر نکلے اور اس دن کو مثل عید کے منائے اور جس وقت قیدی شہر میں داخل ہوں لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ کر قیدیوں پر پتھراؤ کریں  ' اور پھر جب اہل حرم شہر دمشق میں داخل ہوئے  تو بچوں اور بیبیوں پر پتھروں کی بارش ہونے لگی  'لوگوں نے دیکھا  کہ یہ کیسی  قیدی  خواتین ہیں   جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں   عرب کی عورتیں  جو چادر نشین ہوتی تھیں لیکن ان کے سروں پر چادریں بھی نہیں ہیں اور معصوم کمھلائے ہوئے بچوں کے چہرے  خوف زدہ  اور بھوکے نظر آرہے ہیں   تب ایک عورت اپنے زینے سے نیچے اتر آئ اور اس نے بیبیوں  اور بچوں کی جانب  کچھ کھجوریں پھینکیں  تاکہ وہ  اسے کھالیں  'لیکن بی بی  زینب نے کہا ہم پر صدقہ  حرام ہے  اس عورت نے سوال کیا سے سوال کیا تم کون لوگ ہو؟  


بی بی نے بتایا کہ ہم آل رسول ہیں تب شام کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کے آخری نبی کا خاندان      کس بے دردی سے شہید کر دیا گیا ہے  اور خاندان رسالت کی مقدس خواتین اور آل رسول کے بچوں کو قید کرنے کا جشن منایا  جا رہا ہے ۔اور پھر اسیران کربلا کو بازاروں سے گزار کر جب یزید کے دربار میں لایا گیا امام حسین  علیہ السلام کے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھ کر یزید کے سامنے پیش کیا گیا، یزید ملعون کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس ملعون نے اس چھڑی کو امام حسین  علیہ السلام کے ہونٹوں اور دانتوں پر مارنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی اپنے کفر کا اظہار کرنے کے لیے یہ اشعار بھی پڑھتا رہا: ترجمہ: اے کاش بدر میں قتل ہونے والے میرے آبا واجداد زندہ ہوتے اور ان آل رسول کےنالہ و فریاد اور گریہ و زاری کو دیکھتے۔ وہ خوشی سے مجھے مبارکباد دیتے اور مبارک وصول کرتے، اور کہتے اے یزید تمہارے ہاتھ سلامت رہیں تم نے بہت اچھا کیا۔ ہم نے اس قوم کے بزرگوں کو قتل کر دیا ہے اپنے بدر میں مارے جانے والوں کا بدلہ برابر کر دیا ہے۔


 بنی ہاشم نے حکومت کے حصول کے لیے (نبوت کا) صرف ڈھونگ رچایا تھا ورنہ کوئی وحی نازل ہوئی اور نہ ہی آسمان سے کوئی خبر آئی۔ یہ منظر دیکھ کر دربار یزید میں موجود ایک صحابی اٹھے اور یزید کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی فرمایا : خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لبوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے-صحابی رسول حضرت زید ابن ارقم بھی اس وقت در بار میں موجود تھے ان سے یہ گستاخی دیکھی نہ گئی جوشِ عقیدت میں چیخ پڑے۔ظالم! کیا کرتا ہے؟چھڑی ہٹالے، نسبتِ رسول کا احترام کر، میں نے بارہاسرکار کو اس چہرے کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ابن زیاد نے غصہ سے بیچ وتاب کھاتے ہوئے کہا۔ تو اگر صحابی رسول نہ ہوتا تو میں تیرا سر قلم کروادیتا۔ حضرت زید ابن ارقم نے حالت غیظ میں جواب دیا اتنا ہی تجھے رسول اللہ کی نسبت کا خیال ہوتا تو ان کے جگر گوشوں کو تو کبھی قتل نہ کراتا۔ تجھے ذرا بھی غیرت نہیں آئی کہ جس رسول کا تو کلمہ پڑھتا ہے انہی کی اولاد کوتہِ تیغِ کروایا ہے اور اب ان کی عفت مآب بیٹیوں کو قیدی بناکر گلی گلی پھرا رہا ہے۔یذیدیہ  جواب سن کر تلملا گیا۔ لیکن مصلحتاً خون کا گھونٹ پی کے رہ گیا۔


یذید نےحضرت زینب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ خدانے تیرے سرکش سردار اور تیرے اہل بیت کے نافرمان باغیوں کی طرف سے میرا دل ٹھنڈاکردیا یذید کی اس گستاخی کے جواب میں  بی بی زینب نے   جواب دیا - اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد)  کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔

 

۔یذید ملعون  کے جواب میں بی بی  زینب نے ایک تاریخ ساز خطبہ دیا ا اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور  'مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ کبھی ناتھکیں  (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد)  کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔


 تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔ تو سمجھتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟ ! (جلدی  نہ کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔

ختم شد


 

منگل، 8 جولائی، 2025

اسیران کربلا کا اندوۃ آگیں سفر جانب کوفہ

 

مقتل  میں ہر   بی بی  فریاد کناں تھی  جن کو اپنے پیاروں کے  کو رونے بھی نہیں دیا گیا ،مقتل کربلا سے رخصت ہوتے ہوئے بی بی زینب نے  اللہ تعالیٰ کے حضور خاموش  آنسوؤں سے نذرانہ  ء شہیداں پیش کیا -بار الٰہا ہمیں آنسو بہانے کیجازت بھی نہیں ملی -یہ تیرا حسینؑ ہے جو خون میں غلتان ہے اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے، یا محمداہ! تیری بیٹیوں کو اسیر بنا لیا گیا اور تیرے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا ہے  یہ تیرا حسینؑ ہے جو خاک پر پڑا ہے جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور جن کے عمامے اور ردا کو لوٹ لیا گیا۔اب جانب کوفہ سفر کا آغاز ہوا-اسیران کربلا کے سفر کے لئے عرب کے سب سے وحشی اونٹ لائے گئے تھے   جن کو یذیدی فوج نے دوڑانا شروع کیا تو بچے جو بن ماؤں کے اونٹوں پر بٹھائے گئے  وہ راستے میں گرنے لگے اگر کسی گر جانے والے بچّے پر بی بی زینب کی نظر پڑ جاتی تھی تو بی بی زینب اپنے آپ کو خود اونٹ سے گرادیتی تھیں اس طرح فوج اشقیاء کے کہنے سے دوڑتے ہوئے اونٹ زبردستی روکے جاتے تھے ،


ورنہ بچہ اونٹ کے پیروں تلے آکر کچل کر شہید ہو جاتا تھا بالآخر شہر کوفہ جب چند کوس کے فاصلے پر رہ گیا اس وقت عمر بن سعد نے فوج اشقیاء کو وہیں ٹہرنے کا حکم دیا  اور اسیروں کو بتایا گیا کہ شہر کی آئینہ بندی ہونے تک یہیں ٹہرنا ہے،اس حکم کے ملتے ہی فوج اشقیاء کے آرام کرنے کے لئے خیمے لگائے گئے،اور لٹی ہوئ آل نبی کو ریت پر بیٹھ جانے کا حکم ملا ،یہاں یذیدی فوج کے لئے ٹھنڈے پانی کا بندو بست کیا گیا ،وہ ٹھنڈے پانئ سے اپنے سیاہ چہرے دھو دھو کر اپنے اپنے کارنامے فخریہ بیان کر رہے تھے۔ایک شقی نے کہا،مین نے حسین نے کے کڑیل جوا ن کے سینے میں برچھی کا پھل مارا اور برچھی کی انی سینے میں ہی رہنے دی پھل توڑ کر انی سے الگ کر لیا اور حسین کی کمر توڑ دیدوسرے نے کہا بھلا عبّاس کو بھی کوئ عام ہستی شکست دے سکتی تھی میں نے اس شجاعوں کے شجاع کا ایک ایک بازو قلم کر کے یذید کے دل خوش کرنے کا سامان بہم پہنچایا


تیسرے نے کہا ،میں نے حسین کے بوڑھے کمر جھکے ساتھی کو ہلاک کیا ،یہ تمام آوازیں ریت پر بیٹھی ناموس رسول صلی اللہ عل عم تک آرہی تھیں لکن لٹے ہوئے قافلے پر موت کا سکوت طاری تھا ،زندہ بچ جانے والے بچّے اتنے سہمے ہوئے تھے کہ اپنی ماؤں سے ناکھانا مانگتے تھے نا ہی پانی طلب کرتے تھے ۔الغرض ایک اور رات ریت بسر کر کے پھر صبح ہوئ تو قیدیوں کو اونٹوں پر سوار ہونے کا حکم ملااور پھر قافلہ کوفہ کے دروازے تک جب پہنچا تو بیبیوں نے اور بیمار امام نےایک مانوس آواز سنی ،اسّلام علیک یا رسول ا للہ ،،بیبیوں کی شرم سے جھکی ہوئ نگاہیں اس مانوس آواز پر بے اختیار اٹھیں تو سامنے سفیر کربلا جناب حضرت مسلم بن عقیل کا  سر بریدہ تن  اطہر باب کوفہ کی بلندی پر آویزاں نظر آیا,اب بی بی زینب نے دیکھا کہ شہر کوفہ میں جشن کا سمان  ہے لوگ جوق درجوق باغیوں کا تماشہ دیکھنے ہجوم کی شکل میں امڈے چلے آرہے ہیں اور یہ ہجوم خوشی کے شادیانے بجاتا ،،باغیون کے خلاف نعرے لگاتا قافلے کے گرد جمع ہورہا ہے تو بی بی زینب نے بالون میں چھپے نورانی اور پر جلال لہجے میں ہجوم کو للکار کر کہا


 ،،خاموش ہو جاؤ ،زینب کی للکار کے جواب میں مجمع پر سکوت طاری ہوگیااور زینب نے خطاب شروع کیا ،،جو علی علیہ السّلام کو سن چکے تھے انہوں نے سنا وہی ہیبت و جلال ،،تمام تعریفیں اللہ کی بزرگی و جلالت کے لئے ہیں اور سلام ہو میرے جدّ اعلٰی محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر اور اپنے آبائے طاہرین پر اور ان کی پاکیزہ تر آل پر جن کو اللہ نے ہر عیب سے مبرّا رکھّا اور منزّہ قرار دیا ،،آپ پھر گویا ہوئین ،بد بخت اور شقی لوگوں آگاہ ہو جاؤ کہ قیامت کے دن کے واسطے تم نے اپنے لئے آگ کے الاؤ دہکا کر تیّار رکھّے ہیں ،اس دن وہ کامران ہوں گے جنہوں نے اس کے سچّے دین کے لئے قربانیاں دیں اور حق کا پرچم بلندکیا زینب کا خطاب تھا اور مجمع پر سکوت طاری تھا کہ قیدیون کی تشہیر کا حکم نامہ آگیا ،کوچہ بکوچہ قیدیو ن کا قافلہ گزارا جانے لگا اور پھر دربار ابن زیاد میں پیشی کا حکم آ یا 

پیر، 7 جولائی، 2025

گیارہ محرم اسیران کربلا اور وداع مقتل

 


 قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والی بیبیوں  اور معصوم بچوں کے لئے  میدان کربلا میں  ایک اور صبح غم طلوع ہوئ یہ وہ عترت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم  کے خانوادے  کا وہ گھرانہ تھا جس کے لئے آپ نے فرمایا تھا  ان  سے محبت میری رسالت کا اجر ہے   ۔ ۱۱ محرم آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں اور اسی لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب  حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین,,اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے



اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ  پس گردن بندھوائے   اور سب سے آخر میں بی بی زینب کے ہاتھ   حضرت سید سجاد نے خود باندھے زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک دوسرے کو سوار کروایا ،،اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ قیدی اپنے قافلے کی  مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا -کے سخت و دشوار ترین لحظات میں سے بلکہ تاریخ کربلا کا سنگین ترین وقت وہ ہے جب اسیروں کا یہ قافلہ اپنے عزیزوں کے ٹکڑوں میں بٹے ہوۓ اجساد  کو وداع کرنے  کا وقت آتا ہے۔ دشمن کی فوج نے عمدا اس قافلے کو اس جگہ سے گزارا جہاں پر ان کے عزیز ترین افراد بے گور و کفن  سر بریدہ آسمان کے نیچےبے کسی کے عالم میں تھے-بیبیوں کو  مقتل گاہ  میں جب اپنے پیاروں کو دیکھا تو بے اختیار  ان کےنالہ و شیون کی صدائیں بلند ہوئیں۔ یزید کے سپاہیوں نے حکم دیا کہ نالہ ء شیون کی اجازت نہیں ہے


  بیبیوں نے دیکھا  عزیزوں کے لاشے جو گھوڑوں کے سموں تلے کچل دیے گئے تھے کہ جن کی شناسائی بھی ممکن نہ تھی یقینا بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن علیؑ کی بہادر بیٹی نے صبر و استقامت  سے  یہ منظر دیکھا ۔لیکن مقتل میں  سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر پڑی آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیااور بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو وارث امامت اپنے بھتیجے سے پل بھر کو بھی غافل نہیں تھیں ان کی نظر جو اما م وقت پر گئ اسی لمحے بی بی زینب سلا م اللہ علیہا نے اپنے آپ کو کھڑے ہوئے اونٹ کی پشت سے نیچے زمین پر گرا دیا ،امام زین العابدین سکتے کے عالم میں اپنے بابا حسین کے سر بریدہ خون میں ڈوبے ہوئے اور لاتعداد پیوستہ تیروں سے آراستہ لاشے کو دیکھ رہے تھے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے زمین پر گرتے ہی  بی بی زینب کی جانب جلدی سے آگئےاور اپنے نحیف ہاتھوں سے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو سہارا دیتے ہوئے سوال کیا پھو پھی ا مّاں کیا ہوا ?


بی بی زینب نے جناب امام سجّاد کو جواب دیا ،بیٹا سجّاد تم امام وقت ہو ،خدائے عزّو جل تمھین اپنی امان میں رکھّے تمھارا عہد اما مت بہت ہی کڑی منزلون سے شروع ہوا ہے ،،اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنے بابا حسین کے حسینی مشن کی تکمیل کے لئے تیّار ہو جاؤ-تمھیں یاد ہوگا کہ بھائ حسین نے کہا تھا کربلا کے دو حصّے ہون گے ایک حصّے کی تکمیل کے لئے ان کی شہادت کی ضرورت ہو گی اور دوسرے حصّے کی تکمیل ہمیں کرنی ہوگی بھائ حسین شہادت کی اولٰی و اعلٰی منزل پر پہنچ کر اپنا فریضہ ادا کر کے جاچکے ہیں  اب کربلا کی تکمیل کا دوسرا حصّہ  شروع ہوا  ہےجس کے مکمّل کرنے کےلئے ہماری باری ہے ,,اپنی چاہنے والی پھوپھی کی زبان سے یہ باتین سن کر جناب سیّد سجّاد نے اپنی لہو روتی آنکھیں صاف کیں اور اپنے بابا کو سلام آخر کیا ،اسّلام علیک یا ابا عبداللہ ،پھر انتہائ پیارے چچا کو مخاطب کیا پیارے چچا الوداعی سلام لیجئے،،


پھر بھائیوں سے مخاطب ہوئے اے میرے کڑیل جوا ن بھائ علی اکبر ننھا علی اصغر بھی تمھارے ساتھ ہے,, پیارے چچامسلم کے بیٹوں,،میری چاہنے والی پھوپھی کے بیٹون ,,،میرا سلام لو ،ائے ہمارے بابا کے انصاران باوفا خدا حافظ,مقتل میں اپنے تمام شہید پیاروں کو الوداعی سلام کرکے جناب سیّد سجّاد نےپھر ایک بار قافلہ سالاری کے لئے اونٹوں کی مہار تھام لی, اور اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشوں پر بین کرتی بیبیوں کا قافلہ جانب کوفہ اس طرح سے اونٹوں کو  ہنکا یا گیا کہ کربلا سے کوفے تک ستّاون میل کا فاصلہ جو عام کیفیت میں اونٹ ڈھائ سے تین دن میں طے کرتے تھے انہوں نے تیز تیز ہنکائے جانے کے باعث صرف ایک دن میں طے کیا     


 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

     حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ الس...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر