ہفتہ، 19 جولائی، 2025

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم

   ' ٹیلی ویژن کی معروف سینئر ادکارہ عائشہ خان کی انکے گھر سے7 روز پرانی لاش ملی، پولیس کے مطابق عائشہ خان کی طبعی موت واقع ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی صف اول کی اداکارہ عائشہ خان 77 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں، وہ گلشن اقبال بلاک 7نجیب پلازہ میں واقع اپنے فلیٹ سے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مردہ حالت میں پائی گئیں، پولیس ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ متوفیہ طویل عرصہ سے گھر میں اکیلی رہتی تھیں، جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اداکارہ کے فلیٹ سے تعفن اٹھا تو اہل محلہ نے پولیس کو بلا کر انکے فلیٹ کا دروازہ توڑ کراندر داخل ہوئےتو اداکارہ گھر میں مردہ حالت میں پائی گئیں جبکہ انکی لاش مسخ ہوچکی تھی،


لاش کی اطلاع پر پولیس اور ریسکیو اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر متوفیہ کی لاش کو اسپتال منتقل کیا، جہاں پر متوفیہ کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا، پولیس کا کہنا ہےکہ متوفیہ بیمار تھی اور گھر میں اکیلی ہونے کی وجہ سے انکی دیکھ بھال نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے انکی طبعی موت واقع ہوئی ہے،اداکارہ کے بچے ملک سے باہر ہیں جس کی وجہ سے پولیس نے ضابطے کی کارروائی کے بعد لاش کو سرد خانہ منتقل کردی ہے، پولیس کا کہنا ہےکہ ادکارہ عائشہ خان کے 3 بچے ہیں اور وہ ملک سے باہر مقیم ہیں ان سے رابطہ ہوگیا ہے، وہ ہفتہ کو کراچی پہنچیں گے، جسکے بعد اداکارہ کی لاش کو انکے بچوں کے حوالے کردی جائے گی



لیجنڈری اداکارہ عائشہ خان 76 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں،داکارہ عائشہ خان کی آخری رسومات خاموشی سے ادا کی گئیں،یہ المیہ ہمیں سمجھا رہا ہے کہ خاندان، خلوص، محبت اور خدا سے تعلق ہی فرد کی تنہائی کا مداوا ہیں جن کا نعم البدل کوئی ذہین سے ذہین ترین سائنسی ایجاد نہیں ہوسکتی۔ نہ میڈیا کو اطلاع دی گئی اور نہ ہی شوبز سے وابستہ کوئی شخصیت جنازے میں شریک ہوسکی۔ تاہم جس پہلو نے عوام کو گہرے دکھ میں مبتلا کیا وہ اُن کی المناک اور تنہائی بھری موت تھی۔یہ المیہ ہمیں سمجھا رہا ہے کہ خاندان، خلوص، محبت اور خدا سے تعلق ہی فرد کی تنہائی کا مداوا ہیں جن کا نعم البدل کوئی ذہین سے ذہین ترین سائنسی ایجاد نہیں ہوسکتی۔ اداکارہ کے انتقال کی خبر ایک ہفتے تک منظرِ عام پر نہ آسکی۔


بعدازاں، پڑوسیوں کی شکایت پر پولیس نے کارروائی کی اور ان کی لاش کو ایدھی سرد خانے میں منتقل کردیا۔عائشہ خان کے جنازے میں کوئی شوبز شخصیت شریک نہ ہو سکی کیونکہ کسی کو اطلاع نہیں دی گئی اور تمام معاملات بہت خاموشی اور نجی انداز میں انجام دیے گئے۔ایک خوش اخلاق اور ملنسار خاتون تھیں، مگر زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے خود کو تنہا کر لیا تھا، اداکارہ کے پاؤں میں فریکچر ہوا تھا اور وہ شدید مایوسی کا شکار تھیں۔ماہرین نے اس تحقیق کے لیے بوڑھے، اور بڑھاپے میں چست رہنے والے افراد کا انتخاب کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ افراد جو بڑھاپے میں بھی چست تھے، دراصل وہ کبھی بھی یہ سوچ کر کسی کام سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے کہ زائد العمری کی وجہ سے اب وہ اسے نہیں کرسکتے۔وہ نئے تجربات بھی کرتے تھے اور ایسے کام بھی کرتے تھے جو انہوں نے زندگی میں کبھی نہیں کیے۔ یہی نہیں وہ ہمیشہ کی طرح اپنا کام خود کرتے تھے اور بوڑھا ہونے کی توجیہہ دے کر اپنے کاموں کی ذمہ داری دوسروں پر نہیں ڈالتے تھے۔ماہرین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں معمر افراد کی موجودگی کے باعث مختلف ایشیائی ممالک اپنے صحت کے بجٹ کا بڑا حصہ معمر افراد کی دیکھ بھال پر خرچ کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھاپے میں لاحق ہونے والی مختلف بیماریوں جیسے ڈیمنشیا، الزائمر، اور دیگر جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اوائل عمری سے ہی صحت کا خیال رکھا جائے اور صحت مند غذائی عادات اپنائی جائیں۔


ایک ڈرامہ ایکٹر نے بتایا کہ یہ خبر میرے لیے ایک صدمہ تھی۔‘انھوں نے ساتھی فنکاروں سے تعلق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈسٹری میں دوست ہوتے ہیں لیکن سب کی ذاتی مصروفیات اور گھریلو ذمہ داریاں بھی ہیں اور زیادہ تر دوستیاں اور ملاقاتیں سیٹ پر ہی ہو پاتی ہیں۔ چند ایک دوستیاں عام زندگی تک ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے لوگ چند ہی ہوتے ہیں سارے نہیں ہوتے۔ ہمارے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ملاقات ہی چھ سے آٹھ ماہ بعد ہوتی ہے۔ ہاں اگر کام کر رہے ہوں تو روزانہ مل لیتے ہیں۔سینیئر اداکاروں میں شامل شہود علوی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ویسے ہم سب کو ایک دوسرے کا پتا بھی ہوتا ہے اور ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ہم کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں یا عمر زیادہ ہوجاتی ہے اور کام بند کر دیتے ہیں تو تعلق کم سے کم ہو جاتا ہے۔‘’سینیئر آرٹسٹ جب کام چھوڑ دیتے ہیں۔ٹی وی سے بہت دور ہو جاتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کئی روز لاشوں کی خبر تک نہ ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ تعلق واسطہ کم سے کم رکھا جاتا ہے۔شہود علوی کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ ملتے ہی سال میں ایک بار ہیں اور صرف کام کے لیے۔ تو مشکل ہوتا ہے سب کچھ جاننا

ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافے کا بل ارکان اسمبلی کو مبارک ہو

 

   یہ جون 2025 کے  آخری دنوں کی بات ہے جب مہنگائ اور بجلی اور گیس کے بلوں میں پستے ہوئے عوام  کو خبر سنائ گئ  کہ ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل ایوان نے کثرت رائے سے منظورکرلیا ۔تنخواہوں میں اضافے کا بل صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پیش کیا،بل پر اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے اعتراض اٹھایا،اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن لیڈر کااعتراض مسترد کر دیا،انہوں نےکہا یہ بل قوانین کے مطابق ہے اور حکومت کا اچھا اقدام ہے۔بل کی منظوری کے بعد اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ کر دی گئی ہے۔صوبائی وزراء کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار،اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25 ہزار سے بڑھا کر 9 لاکھ 50 ہزار کر دی گئی۔ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار سے بڑھا کر 7 لاکھ 75 ہزار ہو گی،پارلیمانی سیکریٹریز کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ 51 ہزار کر دی جائے گی۔بل کی منظوری کے بعد اسپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار، ایڈوائزر کی تنخواہ بھی ایک لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار ہوگی۔


سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافےکامطالبہ  پاکستان  ریلوے ایمپلائز پریم یونین سی بی اے کے مرکزی صدر شیخ محمد انور نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کم از کم سو فیصد اضافہ کیا جائے کیونکہ گزشتہ 3سال کے دوران موجودہ حکومت نے یوٹیلیٹی بلوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں جس قدر اضافہ کردیاہے اس نے عام آدمی خصوصاً سرکاری ملازمین کی زندگی اجیرن کردی ہے اور ان کے لیے بلوں کی ادائیگی کے بعد بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی، تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات پورا کرنا ممکن نہیں رہا۔شیخ محمد انور نے مطالبہ کیا کہ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ پر سرکاری ملازمین اور پنشنرز پر بلاجواز نئے ٹیکس لگانے اور پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے بجائے وزراء، ارکان اسمبلی، اعلیٰ افسران اور اعلیٰ عدلیہ کے جج -صاحبان کے پروٹوکول اور بے پناہ مراعات کا سلسلہ ختم کرےخیال رہے کہ اراکین اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر کیا گیا ہے۔ ان کو ملنے والا ٹی اے ڈی اے، فری میڈیکل، رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔تنخواہوں پر نظر ثانی کے اس بل کی منظوری پر  پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کی اکثریتی حکومت کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور سوشل میڈیا پر اس عنوان کو لے کر خوب تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے


ایسے ہی کچھ خیالات کا اظہار سابق رکن پی ٹی آئی فواد چوہدری نے کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہ بڑھانا درست فیصلہ ہے، ہمارے ہاں ممبران اسمبلی کے لیے یہ ماڈل بنا دیا گیا ہے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سیاست میں آہی نہ سکے تا کہ صرف اشرافیہ سیاست کرے ممبران کی تنخواہیں اچھی ہونی چاہئیں بلکہ ان کو اپنے حلقوں میں دفتر بھی دیں اور الیکشن کمپین اسپانسر کرنے کا بھی طریقہ کار ہو تا کہ متوسط طبقہ سیاست میں فعال ہو، اس کے ساتھ ممبران اسمبلی کی تربیت سازی بھی کریں پنجاب حکومت اور سپیکر کا فیصلہ درست ہے دوسرے صوبوں کو بھی تنخواہیں بڑھانی چاہئیں۔۔‘انھوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان دیوالیہ ہے، آئی ایم ایف کے قرض اور شرائط پر گزرا کر رہا ہے لیکن شریفوں کو پرواہ نہیں۔‘صارفین کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کے بل کی منظوری کو حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف احمد خان بچھر نے اس بل پر اعتراضات اٹھائے۔جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما مونس الہی نے بھی اس اضافے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے پیسہ ضائع کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان اراکین میں سے کسی کو بھی اس اضافے کی ضرورت نہیں اور یہ رقم کہیں اور خرچ ہونی چاہیے تھی۔


پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب کے سیکرٹری انفارمیشن اور رکن اسمبلی شوکت بسرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں اس موقعے پر جب عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اراکین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا غلط اقدام ہے۔یہ ایسا وقت ہے جب مہنگائی سے تنگ عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور حکومت اس قسم کی شاہ خرچیاں کر رہی ہے۔ ایسا کرنے سے پاکستان کے عوام کو غلط پیغام گیا ہے۔‘پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی شوکت بسرا اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سے قبل اراکین اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ بہت زیادہ کم تھی۔ وہ کہتے ہیں حکومت غلط بیانی کرتی ہے جب وہ یہ کہتی ہے کہ رکن اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار روپے تھی۔یہ صرف 76 ہزار روپے نہیں تھی۔ اسمبلی کے ایک رکن اور اس کی فیملی کو مفت علاج معالجے کی سہولت ملتی ہے، سال کے 150 سے زیادہ دن اسمبلی کا سیشن چلتا ہے تو اس کو ٹی اے ڈی اے کی مد میں بھی بہت پیسے ملتے ہیں۔ دیگر بے شمار مراعات اس کے علاوہ ہیں۔‘


شوکت بسرا کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے اسمبلی کے فلور پر بھی اس بل کی مخالفت کی تھی اور وہ آئندہ بھی اس کی مذمت کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی جماعت اس بل کی منظوری کے خلاف اسمبلی میں ایک قرارداد لانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔  عوا م کا کہنا ہے کہ  ان کو دی جانے والی  مفت بجلی، گیس، پیٹرول، عالیشان رہائش، مہنگی گاڑیاں اور عیش و عشرت کے دیگر سامان کی فراہمی کی بچت کی رقم سے اندرونی اور بیرونی قرضے اداکیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزراء اورارکان اسمبلی کو 800فیصد تک اضافی تنخواہیں ادا کی جاسکتی ہیں تو غریب ملازمین اور پنشنرز کو 100فیصد اضافہ کیوں نہیں دیا جاسکتا؟ کیا ہمیشہ آئی ایم ایف کو سرکاری ملازمین اور پنشنرز ہی نظر آتے ہیں جبکہ ارکان اسمبلی، سینیٹ اور عدلیہ کے لوگ کبھی نظر ہی نہیں آتے۔ کیسا قانون ہے ہمارے ملک کا کہ جو شخص سب کچھ خرید سکتا ہے اُس کے لیے بجلی، گیس، پانی، پیٹرول اور تمام اشیاء مفت ہیں اور جو نہیں خرید سکتا اُس پر لازم ہے کہ وہ ہر چیز اپنی جیب سے خریدے۔

بدھ، 16 جولائی، 2025

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

 



  حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ السلام نے، محمد، رکھا آپ کی کنیت ابو جعفر اور آپ کے القاب جواد، قانع، مرتضی تھے اور مشہور ترین لقب تقی تھا۔یہ ایک حسرتناک واقعہ ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام کو نہایت ہی کمسنی کے زمانہ میں مصائب اور پریشانیوں کا سامنا ہوا انہیں بہت ہی کم وقت ماں باپ کی محبت اور شفقت و تربیت کے سایہ میں زندگی گزارنے کا موقع مل سکا۔ آپ صرف پانچ برس کے تھے کہ، جب حضرت امام رضا علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ امام محمد تقی علیہ السلام اس وقت سے جو اپنے باپ سے جدا ہوئے تو پھر زندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا، امام محمد تقی علیہ السلام سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام رضا علیہ السلام کی وفات ہو گئی، دنیا سمجھنے لگی کہ امام محمدتقی کے لیے علمی اور عملی بلندیوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا


، اس لیے اب امام جعفرصادق علیہ السلام کی علمی مسند شاید خالی نظر آئے، مگر خالق خدا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پہلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علماء سے فقہ و حدیث و تفسیر اور کلام پر مناظرے کرتے اور ان سب کو قائل ہو جاتے دیکھا۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اپنے والد ماجد کے سایہ عاطفت سے ان کی زندگی ہی میں محروم ہو گئے تھے، ابھی آپ کی عمر 6 سال کی بھی نہ ہونے پائی تھی کہ آپ اپنے پدر بزرگوار کی شفقت و سائہ عاطفت    سے محروم کر دیئے گئے، اور مامون رشید عباسی نے آپ کے والد ماجد حضرت امام رضا علیہ السلام کو اپنی سیاسی غرض کے ماتحت مدینہ سے خراسان طلب کر لیا تھا۔  اور ساتھ میں حکم حاکم تھا کہ خاندان کا کو فرد آپ کے ہمراہ نہیں جائے گا  -مدینے سے خراسان جیسے دور دراز علاقے میں لے جانے کا مطلب  یہ  تھا کہ آپ کو ازیت پہنچا کر  اہل  و عیال سے دور کیا جائے - جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ سب کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر خراسان تشریف لے گئے اور وہیں عالم غربت میں سب سے جدا مامون رشید کے ہاتھوں ہی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔



حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے لیے حضرت امام رضا علیہ السلام کی جدائی ہی کیا کم تھی کہ اب اپنی پھوپھی کے سایہ سے بھی محروم ہو گئے۔ ہمارے امام کے لیے کمسنی میں یہ دونوں صدمے انتہائی تکلیف دہ اور رنج رساں تھے لیکن مشیت الہی یہی تھا۔ آخر آپ کو تمام مراحل کا مقابلہ کرنا پڑا اور آپ صبر و ضبط کے ساتھ ہر مصیبت کو جھیلتے رہے۔امام جواد (ع) کم سنی میں ہی بے مثل شخصیت کے طور پر ابھرے شیعہ علماء و اکابرین کے مجمع میں دین پر وارد ہونے والے شبہات کا جواب، یحیی بن اکثم وغیرہ جیسے افراد کے ساتھ کم سنی میں مناظرے کیے، جن میں سب آپ (ع) کی منطق و علم دانش کے سامنے مغلوب ہوئے ـ یہ وہ اسباب تھے جن کی بنا پر آپ (ع) ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر جانے پہچانے لگے۔ ایک طرف سے یہ مقبولیت عامہ حاسد علمائے دربار کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، تو دوسری طرف ظلم و جور کی بنیادوں پر استوار ہونے والی سلطنت عباسیہ کو خطرے کا احساس ہوا۔


حضرت امام محمد تقی  فضا ئل کے حامل تھے ،دنیا کے تمام لوگ اپنے مختلف ادیان ہونے کے باوجود آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے حیرت زدہ تھے ،آپ سات سال اور کچھ مہینے کی عمر میں درجہ ٔ امامت پر فائز ہوئے ،آپ نے ایسے علوم و معارف کے دریا بہائے جس سے تمام عقلیں مبہوت ہو کر رہ گئیں ، تمام زمانوں اور آبادیوں میں آپ کی ہیبت اور آپ کی عبقری (نفیس اور عمدہ )صفات کے سلسلہ میں گفتگو ہونے لگی۔ اس عمر میں بھی فقہا اور علماء آپ سے بہت ہی مشکل اور پیچیدہ مسا ئل پوچھتے تھے جن کا آپ ایک تجربہ کار فقیہ کے مانند جواب دیتے تھے ۔ راویوں کا کہنا ہے کہ آپ سے تین ہزار مختلف قسم کے مسائل پوچھے گئے جن کے جوابات آپ نے بیان فرمائے ہیں ۔ ظاہری طور پر اس حقیقت کی اس کے علاوہ اور کو ئی وجہ بیان نہیں کی جا سکتی ہے کہ شیعہ اثناعشری مذہب کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ اہل بیت کو علم ،حکمت ،اور فصل الخطاب عطا کیا ہے اور وہ فضیلت عطا کی ہے جو کسی شخص کونہیں دی ہے ہم ذیل میں مختصر طور پر اس امام سے متعلق بعض خصوصیات بیان کر رہے ہیں :



 امام نے اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ اور آغوش پدری میں پرورش پا ئی اور تکریم و محبت کے سایہ میں پروان چڑھے،   جب مام رضا خراسان میں تھے تو امام محمد تقی آپ کے پاس خطوط لکھا کرتے تھے جو انتہا ئی فصاحت و بلاغت پر مشتمل ہوتے تھے ۔ امام علی رضا نے اپنی اولاد کو جو اعلیٰ تربیت دی ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ان کو ہمیشہ نیکی، اچھا ئی اور فقراء کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے جیسا کہ آپ نے خراسان سے اُن کے نام ایک خط میں بسم اللہ کے بعد یوں تحریر فرمایا : ''میری جان تم پر فدا ہو   میں یہ چا ہتا ہوں کہ تمہاری آمد و رفت صرف بڑے دروازے سے ہونی چا ہئے ،اور جب بھی تم سوار ہو کر نکلو تو تمہارے ساتھ سونے ،چا ندی (درہم و دینار کے سکے )ضرور ہونا چا ہئیں ،تاکہ جو بھی تم سے مانگے اس کو فوراً عطا کردو ،اور تمہارے  اقرباء میں سے جو کو ئی تم سے نیکی کا مطالبہ کرے اس کو پچاس دینار سے کم نہ دینا اور تمھیں زیادہ دینے کا بھی اختیار ہے ، امام رضا نے اپنے فرزند ارجمند کے دل کی گہرا ئیوں میں مکارم اخلاق سے آراستہ کیا تھا 

سمندر میں مد وجزر کیسے بنتے ہیں

 مدّ و جَزَر،   سے مراد چاند و سورج کی ثقلی قوّتوں اور زمین کی گردش کے مجموعی اثرات کی وجہ سے سمندری سطح کا اُتار چڑھاؤ ہے۔ اِسے عام زبان میں جوار بھاٹا بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ چاند قریب آ جاتا ہے  تب اس کی کشش ثقل کیوجہ سے وہ سمندر کے پانی کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کوشش کیوجہ سے پانی اوپر آتا ہے۔حقیقت میں مدوجذر کا چاند کے دور یا قریب آنے سے تعلق نہیں ہے بلکہ سورج اور چاند کی  ایسی  پوزیشن سے ہے جو جوار بھاٹے کا سبب بن جاتی ہے -  یعنی جب سورج، زمین اور چاند ایک ہی لائن میں ہوتے ہیں اس وقت سمندر کے پانی پر چاند کی کشش کا اثر کچھ زیادہ ہوتا ہے اور سمند کا پانی کچھ بلند ہو جاتا ہے۔چاند زمین کے موسم پر اثر انداز کیوں ہوتا ہے؟آج سے ساڑھے چار ارب سال قبل دو قدیم سیارے آپس میں ٹکرائے اور مل کر اُس سیارے کو جنم دیا جس پر آپ اور ہم رہتے ہیں۔ان دو سیاروں   کے اس ملاپ کے دوران ایک چٹان الگ ہو کر ہمارا چاند بن گئی ۔زمین پر چاند کا جو اثر سب سے واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ جوار بھاٹا ہے یعنی سمندری لہروں کا چڑھنا اور اترنااور یہ عمل چاند کی پہلی تاریخ سے لے کر 14 تاریخ تک سمندر کی دنیا پر جواربھاٹے کی شکل میں راج کرتا ہے جبکہ دریاؤں میں اچانک طغیانی کا بھی باعث بن جاتا ہے 


کائنات کی اس اتھاہ گہرائی اور تاریکی میں ہمارا قریب ترین ساتھی چاند ہے جو  ہمارے وجود سے بہت قریبی طور پر منسلک ہے اور ہماری زندگی کے ردھم چاند کی گردش کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔چاند ہماری زمین پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے، سائنسدان اس گتھی کو آج تک مکمل طور پر سلجھا نہیں پائے ہیں۔زمین پر چاند کا جو اثر سب سے واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ جوار بھاٹا ہے یعنی سمندری لہروں کا چڑھنا اور اترنا ہے -زمین دن میں ایک مرتبہ اپنے ہی محور پر گھومتی ہے اور اس دوران چاند کی کششِ ثقل زمین کے قریب ترین حصے پر موجود سمندر کے پانی کو اپنی جانب کھینچتی ہے جس سے زمین کی سطح پر ایک طرح کا ابھار پیدا ہو جاتا ہے۔اسی طرح زمین کے گھومنے کے باعث پیدا ہونے والی قوّت   سمندر کے پانی کو دوسری جانب سے بھی اٹھاتی ہے چنانچہ یہ ابھار زمین کے دوسری طرف بھی پیدا ہوتا ہے۔زمین ان دونوں ابھاروں کے درمیان گھومتی ہے جس کے باعث دن میں دو مرتبہ ہائی ٹائید یا جوار یعنی اونچی لہریں اور دو مرتبہ لو ٹائیڈ یا بھاٹا یعنی کم سطح کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔


ہر 18.6 سال کے دوران چاند کا مدار بھی زمین کے خطِ اُستوا یعنی ایکوئیٹر کی بہ نسبت پانچ ڈگری اوپر سے لے کر پانچ ڈگری نیچے تک جاتا ہے۔اس چکر کو سب سے پہلے سنہ 1728 میں دستاویزی شکل دی گئی تھی اور اسے لونر نوڈل سائیکل کہا جاتا ہے۔جب چاند کا مدار زمین کے خطِ استوا سے دور جانے لگتا ہے تو جوار بھاٹا کی شدت میں کمی آنے لگتی ہے اور جب یہ ایکویئٹر سے ہم آہنگ ہونے لگتا ہے تو جوار بھاٹا کی شدت بڑھ جاتی ہےاب امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سطحِ سمندر بڑھنے کے اثرات اس لونر نوڈل سائیکل کے ساتھ مل کر سنہ 2030 تک جوار بھاٹا کے باعث آنے والے سیلابوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ کر سکتے ہیں۔ناسا کی سطحِ سمندر میں تبدیلی پر نظر رکھنے والی سائنسی ٹیم کے سربراہ بینجمن ہیملنگٹن جائزہ لے رہے ہیں کہ سطحِ سمندر کیسے قدرتی اور انسانی عوامل پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کا ساحلی علاقوں کی آبادیوں پر کیا اثر ہو گا۔کیلیفورنیا منتقل ہونے سے قبل بینجمن امریکہ کی ساحلی ریاست ورجینیا میں رہتے تھے جہاں سیلاب پہلے سے ہی ایک بڑا مسئلہ تھے۔


وہ کہتے ہیں کہ ’بلند لہروں سے پیدا ہونے والے سیلاب ساحلی آبادیوں کی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس سے ملازمت پانے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے اور کاروبار کھلا رکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ابھی یہ صرف ایک دقت ہے لیکن وقت کے ساتھ اسے نظرانداز کرنا اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا نہایت مشکل ہو جائے گا۔‘ سنہ 2030 میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ساحلی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا-بینجمن کہتے ہیں کہ ان سیلابوں سے ساحلی پٹیوں کی ساخت تبدیل ہو گی، انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچے گا اور چاند کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بگاڑ کا شکار ہو جائے گا۔ہر اگلی دہائی کے ساتھ سیلابوں کی شدت میں چار گنا تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ لونر نوڈل سائیکل دنیا بھر میں ہر جگہ اثرانداز ہوتا ہے اور سمندری سطح بھی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ اس لیے ہم دنیا بھر میں بلند لہروں کے باعث پیدا ہونے والے سیلابوں کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہوتا دیکھیں گے۔‘چاند کے اس نوڈل سائیکل کے باعث انسانوں کے لیے کئی ایک مشکلات پیدا ہوں گی تاہم ساحلی علاقوں میں پائی جانے والی جنگلی حیات کے وجود کے لیے یہ ایک خطرہ بن سکتا ہے۔ر


ٹگرز یونیورسٹی کی ایلیا روشلن لونر نوڈل سائیکل اور نمکین دلدلی علاقوں میں مچھروں کی آبادی کے درمیان تعلق کو پرکھ رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب یہ نوڈل سائیکل اپنے عروج پر ہوتا ہے تو اونچی لہریں زمین میں کافی اندر تک موجود مچھروں کی آبادیوں کو متاثر کرتی ہیں۔‘کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ چاند ہی ہے جس کے باعث زمین پر زندگی ممکن ہوئی ہے۔زمین جب اپنے محور پر گھوم رہی ہوتی ہے تو چاند کی کشش اسے متوازن رکھتی ہے جس کے باعث ہمیں ایک مستحکم آب و ہوا میسر ہوتی ہے۔اس کی عدم موجودگی میں زمین پریشان کن حد تک ڈگمگاتی رہتی اور موسم، دن اور راتیں سب نہایت مختلف دکھائی دیتے۔مگر جن لہروں نے ممکنہ طور پر زمین پر زندگی کو جنم دیا، وہ یقینی طور پر چاند کو ہم سے دور دھکیل رہی ہیں۔ہر سال چاند زمین پر پیدا ہونے والی لہروں کے باعث ہم سے چار سینٹی میٹر دور جاتا جا رہا ہے۔زمین چاند کے مدار کے مقابلے میں اپنے محور پر زیادہ جلدی گھوم جاتی ہے اس لیے چاند کی کشش سے پیدا ہونے والا لہروں کا ابھار چاند کو زمین کی طرف زیادہ شدت سے کھینچتا ہے اور چاند کی اس شدت کی وجہ سے یہ اپنے مدار سے تھوڑا ہٹ جاتا ہے اور یوں اس کا مدار بڑا ہوتا جا رہا  ہے-باقی رہے نام اللہ کا یہ حساب و کتاب روئے زمین کے انسانوں کے تخلیق کردہ ہیں اصل حساب تو بس میرا رب ہی جانے 


منگل، 15 جولائی، 2025

لبنانی عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا

   


   امام  دنیا امام عقبیٰ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ نے مجھ کو علوم اس طرح  سے سکھائے جس طرح چڑیا  اپنے بچوں کو  چوگا کھلاتی ہے اسی لئے آپ علیہ السلام  کا علم  ایک بحر زخار کی مانند تھا ۔ آپ علیہ السلام زبور والوں کے  علمی سوالات کے جواب انہی کی کتاب سے دیتے   انجیل والوں کے ان کی کتاب سے اور توریت والوں کو ان کی کتاب سے -یہی وجہ تھی  کہ غیر ملکی مشاہیر عالم کی نظر میں  آ پ علمی اور فکری میدان میں ایک عظیم مقام  پر فائز نظر آتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام کی علمی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "باب العلم" قرار دیا تھا۔ لبنانی  عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا، اس نے ایک کتاب ''صوت العدالۃ الانسانیہ'' یعنی ندائے عدالت انسانی، حضرت علی کے بارے میں تحریر کی تھی لیکن کسی مسلمان نے اسے چھاپنا گوارا نہ کیا تو  وہ کافی بے چین ہو گیا، لبنان کے ایک بشپ نے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا گوش گزار کر دیا، بشپ نے اسے رقم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ اس کتاب کو خود چھپواؤ،جارج جرداق رقم کی تھیلی لے کر چلا گیا  اور اس نے کتاب  پرنٹ کے لئے پبلشر کو دے دی


 جب یہ کتاب پبلش  ہوئ تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا    اور کی اشاعت  اس کی اشاعت سے جارج کو  بھاری  منافع ہوا، جارج نے بشپ کی رقم ایک تھیلی میں ڈال کربشپ کے پاس پہنچا اور کتاب کی  رقم واپس کرنی چاہی  تو بشپ نے کہا کہ یہ میرا تمہارے اوپر احسان نہیں تھا بلکہ یہ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے کہ جب وہ خلیفہ تھے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علیؑ کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا اسلئے حضرت محمد رسول اللہ ص کے بعد ان کے وصی امیر المومینن حضرت علیؑ کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا اسلئے میں نے حضرت علیؑ کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے اسلئے یہ رقم مجھے واپس کرنے کی بجائے غریبوں میں بانٹ دو۔جارج جرداق لکھتا ہے کہ حقیقت میں کسی بھی مورخ یا محقق کے لئے چاہے وہ کتنا ہی بڑا زیرک اور دانا کیوں نہ ہو، وہ اگر چاہے تو ہزار صفحے بھی تحریر کر دے لیکن علیؑ جیسی ہستیوں کی کامل تصویر کی عکاسی نہیں کرسکتا، کسی میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ذات علیؑ کو الفاظ کے ذریعے مجسم شکل دے، 


لہذا ہر وہ کام اور عمل جو حضرت علیؑ نے اپنے خدا کے لئے انجام دیا ہے، وہ ایسا عمل ہے کہ جسے آج تک نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور وہ کارنامے جو انہوں نے انجام دیئے، اس سے بہت زیادہ ہیں کہ جن کو زبان یا قلم سے بیان اور آشکار کیا جائے۔ اس بنا پر ہم جو بھی علیؑ کا عکس یا نقش بناییں گے، وہ یقیناً ناقص اور نامکمل ہوگا۔جارج جرداق مزید لکھتے ہیں کہ اے زمانے تم کو کیا ہوجاتا اگر تم اپنی تمام توانائیوں کو جمع کرتے اور ہر زمانے میں اسی عقل، قلب، زبان، بیان اور شمشیر کے ساتھ علی جیسے افراد کا تحفہ ہر زمانے کو دیتے؟جارج جرداق معروف یورپی فلسفی کارلائل کے متعلق لکھتا ہے کہ کارلائل جب بھی اسلام سے متعلق کچھ لکھتا یا پڑھتا ہے تو فوراً اسکا ذہن علی ابن ابی طالب کی جانب راغب ہوجاتا ہے، علی کی ذات اسکو ایک ایسے ہیجان، عشق اور گہرائی میں لے جاتی ہے کہ جس سے اسے ایسی طاقت ملتی ہے کہ وہ خشک علمی مباحث سے نکل کر آسمان علم  میں پرواز شروع کر دیتا ہے اور یہاں اسکے قلم سے علیؑ کی شجاعت کے قصے آبشار کی طرح پھوٹنے لگتے ہیں،


اسی طرح کی کیفیت باروین کاراڈیفو کے ساتھ بھی پیش آتی ہے، وہ بھی جب کبھی علی کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اس کی رگوں میں حماسی خون دوڑنے لگتا ہے اور اسکے محققانہ قلم سے شاعری پھوٹنے لگتی ہے اور جوش اور ولولہ اسکی تحریر سے ٹپکنے لگتا ہے۔لبنانی عیسائی مفکر خلیل جبران بھی حضرت علیؑ کے عاشقوں میں سے ہے۔ اسکے آثار میں یہ چیز نظر آتی ہے کہ وہ جب بھی دنیا کی عظیم ہستیوں کا ذکر کرتا ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لیتا ہے۔ خلیل جبران لکھتا ہے کہ علی ابن ابی طالب دنیا سے اس حالت میں چلے گئے کہ انکی اپنی عظمت و جلالت انکی شھادت کا سبب بنی۔ علی نے اس دنیا سے اس حالت میں آنکھیں بند کیں جب انکے لبوں پر نماز کا زمزمہ تھا، انہوں نے بڑے شوق و رغبت اور عشق سے اپنے پروردگار کی طرف رخت سفر باندھا، عربوں نے اس شخصیت کے حقیقی مقام کو نہ پہچانا، لیکن عجمیوں نے جو عربوں کی ہمسائیگی میں رہتے تھے، جو پتھروں اور سنگ ریزوں سے جواہرات جدا کرنے کا ہنر جانتے تھے، کسی حد تک اس ہستی کی معرفت حاصل کی ہے۔


خلیل جبران ایک جگہ تحریر کرتا ہے کہ میں آج تک دنیا کے اس راز کو نہ سمجھ پایا کہ کیوں بعض لوگ اپنے زمانے سے بہت آگے ہوتے ہیں، میرے عقیدے کے مطابق علی ابن ابی طالب اس زمانے کے نہیں تھے، یا وہ زمانہ علیؑ کا قدر شناس نہیں تھا، علیؑ اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہوگئے تھے، مزید کہتے ہیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ علی ابن ابی طالب عربوں میں وہ پہلے شخص تھے، جو اس کائنات کی کلی روح کے ساتھ تھے میرے عقیدے کے مطابق ابو طالب کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا اور وہ ان کا ساتھی لگتا تھا، رات ان کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھی، علی علیہ السلام پہلے انسان تھے جن کی روحِ پاک سے ہدایت کی ایسی شعائیں نکلتی تھیں جو ہر ذی روح کو بھاتی تھیں، انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہوگا، اسی وجہ سے لوگ ان کی پُرمعنی گفتار اور اپنی گمراہی میں پھنس کے رہ جاتے تھے، پس جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے، وہ فطرت سے محبت کرتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا جاہلیت میں غرق ہے۔علی علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن خود کو شہید ِاعظم منوا گئے، وہ ایسے شہید تھے کہ لبوں پر سبحانَ ربی الاعلیٰ کا ورد تھا اور دل لقاء اللہ کیلئے لبریز تھا، دنیائے عرب نے علی علیہ السلام کے مقام اور اُن کی قدرومنزلت کو نہ پہچانا، یہاں تک کہ اُن کے ہمسایوں میں سے ہی پارسی اٹھے جنہوں نے پتھروں میں سے ہیرے کو چن لیا۔معروف مسیحی دانشور کارا ڈیفو لکھتا ہے کہ علی وہ دردمند، بہادر اور شھید امام ہے کہ کہ جسکی روح بہت عمیق اور بلند ہے، علی وہ بلند قامت شخصیت ہے جو پیامبر ﷺ کی حمایت میں لڑتا تھا اور جس نے معجزہ آسا کامیابیاں اور کامرانیاں اسلام کے حصے میں ڈالیں، جنگ بدر میں کہ جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی، ایک ضرب سے قریش کے ایک سوار کے دو ٹکڑے کر دیئے،    جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی 

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را



اتوار، 13 جولائی، 2025

حمیرا اصغر کی تدفین ہوگئ

 

 میرے کچھ مقاصد ہیں جن کو مکمل کرنا  میرا حاصل زندگی ہے  اور میری زندگی میں اتنا وقت نہیں کہ میں کسی کو سنجیدگی سے  کسی  کا ساتھ دے سکوں  -یہ الفاظ حمیرا اصغر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہے -وہ  10 اکتوبر 1992ء کو لاہور میں ایک فوجی ڈاکٹر کے گھر پیدا ہوئیں  تین بہن بھائ ان سے  پہلے ان کے خاندان کا حصہ بن چکے تھے -تعلیمی دور  میں انہوں نے اپنے خاندانی تعلیمی پس منظر میں جانے کےبجائے فنون لطیفہ کا انتخاب کیا اور وہ  پاکستان کے مشہور زمانہ کالج این سی اے میں  چلی گئیں -ان کےتعلیمی  راستے جدا کرنے پر ان کے اپنے والد سے اختلاف ضرور ہوئے تھے لیکن وہ  اپنے گھر سے وابستہ رہتی تھیں -   ، انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس اور جامعہ پنجاب کے کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن سے مصوری اور مجسمہ سازی کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے فن پاروں کا مرکزی موضوع خواتین کا معاشرے کی تشکیل میں کردار اور خواتین کو بااختیار بنانا تھا جب کہ ان کا تخلیقی مواد اکثر اردو شاعری اور ادب سے ماخوذ ہوتا تھا۔پھر ان کو اپنا بہتر مستقبل کراچی میں نظر آیا  اور وہ 2018ء سے اپنی وفات تک کراچی کے ڈیفنس فیز سِکس میں کرائے کے فلیٹ میں مقیم تھیں۔


کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع ایک فلیٹ سے ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش ملنے کے بعد پولیس نے واقعے کی نوعیت جاننے کے لیے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔8 جولائی 2025ء کو حمیرا اصغر کی لاش کراچی کے ڈی ایچ اے فیز سِکس اتحاد کمرشل ایریا میں واقع اُن کے اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی جب کرایہ کی عدم ادائیگی پر عدالتی حکم کے تحت انخلا کی کارروائی کی جا رہی تھی۔ فلیٹ سے اٹھنے والی بدبو کے باعث پولیس اور عدالتی عملے نے دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو کر اُن کی لاش کو گل سڑ جانے کی حالت میں پایا۔ سندھ پولیس کے مطابق اپارٹمنٹ کے تمام دروازے، کھڑکیاں اور  (بالکونی) اندر سے بند تھیں اور نہ زبردستی داخلے یا مزاحمت کے کوئی آثار نہیں ملے اور نہ کسی مجرمانہ عمل کے شواہد ملے۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں کیے گئے بعد الموت معائنہ کے مطابق لاش گلنے سڑنے کے ”انتہائی  آخری مراحل“ میں تھی۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ موت کو دو سے تین ہفتے گذر چکے تھے۔ 


تاہم تفتیشی اداروں اور عرب نیوز کے رپورٹ کردہ ڈیجیٹل شواہد و فرانزک تجزیے کے مطابق حمیرا کی وفات غالباً اکتوبر 2024ء میں ہوئی یعنی جولائی 2025ء میں دریافت ہونے سے تقریباً نو ماہ قبل۔ اس نتیجے کی بنیاد کال ریکارڈوں، سوشل میڈیا کی غیر فعالیت،  کچن  میں  رکھے ہوئے    فرج میں  سڑے ہوئے کھانے اور دیگر فرانزک شواہد پر رکھی گئی-فوری اطلاع، اداکارہ حمیرا اصغر علی لاپتہ ہیں۔ آخری بار 7 اکتوبر 2024 کو آن لائن دیکھی گئیں۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو گذشتہ سال ایک ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ کیے گئے مگر کسی کو خبر نہ ہوئی۔یہ الفاظ کس کے تھے اور کسی نے ان پر کان کیوں نہ دھرے اس سے پہلے کچھ اہم باتیں دہرانا ضروری ہیں۔کراچی کے پُرہجوم شہر میں ایک فلیٹ کے بند دروازے کے پیچھے حمیرا اصغر علی   اپنی  چکا چوند زندگی    موت  کے اندھیروں میں خاموشی سے گم ہو چکی تھی۔ وہ دروازہ جس پر کبھی دستک نہیں دی گئی، منگل کی صبح عدالت کے بیلف نے اسے زبردستی کھولا۔ڈان نیوزکے مطابق  سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ساؤتھ (ایس ایس پی) مہظور علی نے اداکارہ کی موت کی نوعیت جاننے کے لیے ایس پی کلفٹن عمران علی جاکھرانی کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔


تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیم میں ایس ڈی پی او ڈیفنس اورنگزیب خٹک، اے ایس پی ندا جنید اور ایس ایچ او گزری فاروق سنجرانی کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ سب انسپکٹر محمد امجد اور آئی ٹی برانچ کے پولیس کانسٹیبل محمد عدیل بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کو روزانہ کی بنیاد پر اعلیٰ حکام کو پیش رفت سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔پولیس کے مطابق تحقیقاتی ٹیم واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی، جن میں طبعی موت، حادثہ، خودکشی یا قتل سمیت تمام امکانات شامل ہیں۔ٹیم جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ فلیٹ میں موجود اشیا، سی سی ٹی وی فوٹیج اور اداکارہ کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔حمیرا اصغر نے اپنے فنی سفر کا آغاز کالج کے زمانے میں رفیع پیر تھیٹر سے کیا جس کے بعد وہ ماڈلنگ کی دنیا میں داخل ہوئیں۔ انھوں نے کئی مشہور برانڈز کے لیے ماڈلنگ کی بعد ازاں انھوں نے ٹیلی ویژن اور فلموں کی جانب رخ کیا۔ صغر نے اپنے فنی سفر کے دوران کئی پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں کام کیا۔ انھیں سب سے زیادہ شہرت اے آر وائی ڈیجیٹل کے رئیلٹی شو تماشا سے ملی جو بین الاقوامی فرنچائز بگ برادر سے مشابہت رکھتا تھا۔ ٹیلی ویژن میں، انھوں نے ”بے نام“، ”جسٹ میریڈ“، ”لو ویکسین“، ”چل دل میرے“، ”صراط مستقیم مستقیم“ (لالی)، ”احسان فراموش“ اور ”گرو“ جیسے سیریلوں میں کام کیا۔ فلم میں وہ 2015ء کی ایکشن تھرلر جلیبی میں ماڈل کے طور پر نظر آئیں۔ انھوں نے فلم ”ایک تھا بادشاہ“ (2016ء) میں علی حمزہ اور علی نور کے ہمراہ مرکزی کردار ادا کیا۔ 



2022ء میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون چاندی رنگ کا چوغہ پہن کر ایک جلتے ہوئے ٹیلے کے سامنے چلتی دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی طور پر اس ویڈیو کو حمیرا اصغر علی سے منسوب کیا گیا اور بین الاقوامی میڈیا بشمول اے ایف پی نے غلطی سے ان کے نام سے رپورٹ کیا۔ بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ یہ ویڈیو دراصل ٹک ٹاک صارف  کی تھی جنھوں نے کیپشن دیا تھا: ”جہاں میں ہوتی ہوں آگ لگ جاتی ہے۔“ یہ غلط فہمی وسیع پیمانے پر واضح کر دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش 8 جولائی کو ان کے فلیٹ سے ملی تھی، جہاں وہ 2018 سے تنہا رہائش پذیر تھیں۔ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لاش تقریباً 8 سے 10 ماہ پرانی تھی اور ڈی کمپوزیشن کے آخری مراحل میں تھی۔

ہفتہ، 12 جولائی، 2025

شہادت تصویرِ مصطفیٰ ﷺ حضرت علی اکبر

 روائت ہے کہ روز عاشور خیام اہلبیت سے  جناب علی اکبر علیہ السلام    میدان کارزار میں   رجز پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے  

انَا عَلىُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ عَلى نَحْنُ وَبِيْتُ اللَّهِ اوْلى بالنَّبِى

اطْعَنُكُمْ بالرُّمْحِ حَتَّى يَنْثَنى اضْرِبُكُمْ بالسَّيْفِ احْمى عَنْ ابى

ضَرْبَ غُلامٍ هاشِمِىٍّ عَرَبى وَاللَّهِ لا يَحْكُمُ فينَا ابْنُ الدَّعى

میں علی، حسین بن علی کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ہم پیغمبر اسلام کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔اس قدر نیزہ سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ قضا تم پر وارد  ہو جائے اور اپنی تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ کند ہو جائے تاکہ اپنے بابا کا دفاع کر سکوں۔ایسی تلوار چلاوں گا جیسی بنی ہاشم اور عرب کا جوان چلاتا ہے۔ خدا کی قسم اے ناپاک کے بیٹے تم ہمارے درمیان حکم نہیں کر سکتے۔آپ نے اپنے شجاعانہ حملوں کے ساتھ دشمن کی صفوں کو چیر دیا اور ان کی چیخوں کو بلند کر دیا۔ نقل ہوا ہے کہ جناب علی اکبر نے سب سے پہلے حملہ میں ایک سو بیس دشمنوں کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد اس حال میں کہ زخموں سے چھلنی تھے اپنے بابا کے پاس واپس آئے اور کہا: اے بابا پیاس ہلاک کئے جا رہی ہے اور اسلحہ کی سنگینی مجھے زحمت میں ڈالے ہے کیا پانی کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے؟ تاکہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لیے کچھ طاقت حاصل ہو جائے۔ ۔ بیٹا اپنی زبان کو میری زبان میں دے دو  لیکن آپ نے جیسے ہی اپنی زبان اپنے بابا کی زبان سے مس کی تڑپ کر چھوڑ دی اور کہنے لگے  بابا  آپ کی  زبان میں مجھ سے زیادہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں  فرمایا: یہ انگوٹھی لے لو اور اسے اپنے منہ میں رکھ لو اور دشمن کی طرف واپس چلے جاو ۔ انشاء اللہ جلدی ہی آپ کے جد امجد جام کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی پیاسے نہیں ہو گے۔جناب علی اکبر میدان کی طرف پلٹ گئے اور پھر رجز پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے: جنگ کے حقائق آشکارا ہو گئے اس کے بعد سچے شاہد اور گواہ ظاہر ہوئے اس خدا کی قسم جو عرش کا پیدا کرنے والا ہے میں تمہارے لشکر سے دور نہیں ہوں گا جب تک کہ تلواریں غلاف میں نہ چلی جائیں -   حضرت علی اکبر کی شہادت کا منظر-


پھر اس کا دوسرا بیٹا طلحہ بن طارق غم و غصے میں شہزادہ علی اکبر  علیہ السلام پر حملہ آور ہوا تو آپ نے خود کو بچا کر اس کی گردن کو اس انداز سے مروڑا کہ اس کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ شہزادے کے رعب و دبدبہ سے تمام یزیدی خوفزدہ ہوگئے۔ابن سعد نےخوفزدہ ہو کر مصراع بن غالب کو بھیجا اس نے آتے ہی شدید حملہ کیا جسے آپ نے کمال مہارت سے روکا اور آپ نے اس انداز سے نعرہِ تکبیر بلند کیا کہ تمام لشکر پہ ہیبت چھا گئی اور آپ نے فوراً اس کے سر پہ وار کر کے مصراع کو ایسی تلوار ماری کہ وہ ملعون دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔ابن سعد نے دوہزار سواروں کو ان پہ حملے کے لئے بھیجا مگر شہزادہ جلیل علیہ السلام نے تعداد کی پرواہ کئے بغیر ایسے حملے کئے کہ دوہزار افراد بھی ان کے سامنے نا ٹھہر سکے ۔ آپ جس طرف گھوڑے کو موڑتے لوگ آپ سے دور بھاگتے آپ نے جنگ کو دوبارہ روکا اور واپس آقا حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔اور پانی طلب کیا ۔ تب امام حسین  علیہ السلام  نے فرمایا ! اے جان پدر غم نا کر تو ابھی حوضِ کوثر سے سیراب ہونے والا ہے۔


 حضرتِ علی اکبر  علیہ السلام  نے اس بشارت کو سنا تو دوبارہ لشکرِ اشرار پر حملہ کردیا دورانِ جنگ آپ  علیہ السلام  کو کئی زخم آ چکے تھے اچانک حصین بن نمیر ملعون نے حضرتِ علی اکبر علیہ السلام کے سینے میں برچھی کا وار کیا اور آپ  علیہ السلام گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے۔ اور فریاد بلند کی : بابا جان میری دستگیری فرمائیں۔ ا ب  علی اکبر چاروں جانب سے نرغہ ء اعدا میں گھر چکے تھے  -  اپنی شہادت کے بلکل آخری لمحوں میں اپنے بابا کو آواز دیتے ہو ئے آواز دی بابا جان آپ بھی جلدی سے آئیے ۔آواز سنتے ہی امام علیہ السلام میدان کی طرف دوڑ پڑے اور  امام  نے دیکھا  برچھی کا پھل  علی اکبر کے سینے میں پیوست تھا  'امام حسین علیہ السلام نے جیسے ہی برچھی  کا پھل نکالا ساتھ علی اکبر کا کلیجہ بھی نوک سناں کے ساتھ باہر آ گیا ۔روایت میں نقل ہوا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا گریہ و فغاں کے عالم میں یہ کہتی ہوئی آئیں: "اے میرے دل کے چین"  ۔


امام حسین  علیہ السلام  ۔ امام نے ان کا سر اپنی آغوشِ طاہرہ میں لیا تو شہزادہ علی اکبر نے عرض کی بابا میں دیکھ رہا ہوں کہ نانا (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم) میرے استقبال کے لئے کھڑے ہیں۔ساتھ ہی تصویرِ مصطفیٰ ﷺ اپنے جدامجد محمد المصطفیٰ (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم) کی بارگاہ میں پہنچ گئے ۔ امام حسین  علیہ السلام کی ہمت و جرأت کو لاکھوں کروڑوں درود و سلام جنہوں نے جوان بیٹے کے جسدِ مقدس  کو اٹھایا اور شہزادہ اپنے بابا کے ہاتھوں میں قربان ہو گیا میدانِ کربلا سے واپس خیموں کے قریب آنے تک امام حسین (علیہ السلام) کے سر کے اور داڑھی کے تمام بال سفید ہو چکے تھے (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) ۔

 



نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اور ڈاکٹر امجد کا جنازہ تیار تھا

  آپ کی عمر اگر پچاس سال ہو گئ ہے تو سمجھ لیجئے توبہ کا وقت آچکا ہے نا جانے  زندگی کی رسی کسی بھی وقت کھینچ لی جائے گی اور آپ یہ حقیقت جتنی ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر