ہفتہ، 19 جولائی، 2025

ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافے کا بل ارکان اسمبلی کو مبارک ہو

 

   یہ جون 2025 کے  آخری دنوں کی بات ہے جب مہنگائ اور بجلی اور گیس کے بلوں میں پستے ہوئے عوام  کو خبر سنائ گئ  کہ ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل ایوان نے کثرت رائے سے منظورکرلیا ۔تنخواہوں میں اضافے کا بل صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پیش کیا،بل پر اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے اعتراض اٹھایا،اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن لیڈر کااعتراض مسترد کر دیا،انہوں نےکہا یہ بل قوانین کے مطابق ہے اور حکومت کا اچھا اقدام ہے۔بل کی منظوری کے بعد اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ کر دی گئی ہے۔صوبائی وزراء کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار،اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25 ہزار سے بڑھا کر 9 لاکھ 50 ہزار کر دی گئی۔ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار سے بڑھا کر 7 لاکھ 75 ہزار ہو گی،پارلیمانی سیکریٹریز کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ 51 ہزار کر دی جائے گی۔بل کی منظوری کے بعد اسپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار، ایڈوائزر کی تنخواہ بھی ایک لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار ہوگی۔


سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافےکامطالبہ  پاکستان  ریلوے ایمپلائز پریم یونین سی بی اے کے مرکزی صدر شیخ محمد انور نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کم از کم سو فیصد اضافہ کیا جائے کیونکہ گزشتہ 3سال کے دوران موجودہ حکومت نے یوٹیلیٹی بلوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں جس قدر اضافہ کردیاہے اس نے عام آدمی خصوصاً سرکاری ملازمین کی زندگی اجیرن کردی ہے اور ان کے لیے بلوں کی ادائیگی کے بعد بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی، تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات پورا کرنا ممکن نہیں رہا۔شیخ محمد انور نے مطالبہ کیا کہ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ پر سرکاری ملازمین اور پنشنرز پر بلاجواز نئے ٹیکس لگانے اور پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے بجائے وزراء، ارکان اسمبلی، اعلیٰ افسران اور اعلیٰ عدلیہ کے جج -صاحبان کے پروٹوکول اور بے پناہ مراعات کا سلسلہ ختم کرےخیال رہے کہ اراکین اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر کیا گیا ہے۔ ان کو ملنے والا ٹی اے ڈی اے، فری میڈیکل، رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔تنخواہوں پر نظر ثانی کے اس بل کی منظوری پر  پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کی اکثریتی حکومت کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور سوشل میڈیا پر اس عنوان کو لے کر خوب تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے


ایسے ہی کچھ خیالات کا اظہار سابق رکن پی ٹی آئی فواد چوہدری نے کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہ بڑھانا درست فیصلہ ہے، ہمارے ہاں ممبران اسمبلی کے لیے یہ ماڈل بنا دیا گیا ہے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سیاست میں آہی نہ سکے تا کہ صرف اشرافیہ سیاست کرے ممبران کی تنخواہیں اچھی ہونی چاہئیں بلکہ ان کو اپنے حلقوں میں دفتر بھی دیں اور الیکشن کمپین اسپانسر کرنے کا بھی طریقہ کار ہو تا کہ متوسط طبقہ سیاست میں فعال ہو، اس کے ساتھ ممبران اسمبلی کی تربیت سازی بھی کریں پنجاب حکومت اور سپیکر کا فیصلہ درست ہے دوسرے صوبوں کو بھی تنخواہیں بڑھانی چاہئیں۔۔‘انھوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان دیوالیہ ہے، آئی ایم ایف کے قرض اور شرائط پر گزرا کر رہا ہے لیکن شریفوں کو پرواہ نہیں۔‘صارفین کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کے بل کی منظوری کو حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف احمد خان بچھر نے اس بل پر اعتراضات اٹھائے۔جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما مونس الہی نے بھی اس اضافے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے پیسہ ضائع کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان اراکین میں سے کسی کو بھی اس اضافے کی ضرورت نہیں اور یہ رقم کہیں اور خرچ ہونی چاہیے تھی۔


پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب کے سیکرٹری انفارمیشن اور رکن اسمبلی شوکت بسرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں اس موقعے پر جب عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اراکین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا غلط اقدام ہے۔یہ ایسا وقت ہے جب مہنگائی سے تنگ عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور حکومت اس قسم کی شاہ خرچیاں کر رہی ہے۔ ایسا کرنے سے پاکستان کے عوام کو غلط پیغام گیا ہے۔‘پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی شوکت بسرا اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سے قبل اراکین اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ بہت زیادہ کم تھی۔ وہ کہتے ہیں حکومت غلط بیانی کرتی ہے جب وہ یہ کہتی ہے کہ رکن اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار روپے تھی۔یہ صرف 76 ہزار روپے نہیں تھی۔ اسمبلی کے ایک رکن اور اس کی فیملی کو مفت علاج معالجے کی سہولت ملتی ہے، سال کے 150 سے زیادہ دن اسمبلی کا سیشن چلتا ہے تو اس کو ٹی اے ڈی اے کی مد میں بھی بہت پیسے ملتے ہیں۔ دیگر بے شمار مراعات اس کے علاوہ ہیں۔‘


شوکت بسرا کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے اسمبلی کے فلور پر بھی اس بل کی مخالفت کی تھی اور وہ آئندہ بھی اس کی مذمت کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی جماعت اس بل کی منظوری کے خلاف اسمبلی میں ایک قرارداد لانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔  عوا م کا کہنا ہے کہ  ان کو دی جانے والی  مفت بجلی، گیس، پیٹرول، عالیشان رہائش، مہنگی گاڑیاں اور عیش و عشرت کے دیگر سامان کی فراہمی کی بچت کی رقم سے اندرونی اور بیرونی قرضے اداکیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزراء اورارکان اسمبلی کو 800فیصد تک اضافی تنخواہیں ادا کی جاسکتی ہیں تو غریب ملازمین اور پنشنرز کو 100فیصد اضافہ کیوں نہیں دیا جاسکتا؟ کیا ہمیشہ آئی ایم ایف کو سرکاری ملازمین اور پنشنرز ہی نظر آتے ہیں جبکہ ارکان اسمبلی، سینیٹ اور عدلیہ کے لوگ کبھی نظر ہی نہیں آتے۔ کیسا قانون ہے ہمارے ملک کا کہ جو شخص سب کچھ خرید سکتا ہے اُس کے لیے بجلی، گیس، پانی، پیٹرول اور تمام اشیاء مفت ہیں اور جو نہیں خرید سکتا اُس پر لازم ہے کہ وہ ہر چیز اپنی جیب سے خریدے۔

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اور ڈاکٹر امجد کا جنازہ تیار تھا

  آپ کی عمر اگر پچاس سال ہو گئ ہے تو سمجھ لیجئے توبہ کا وقت آچکا ہے نا جانے  زندگی کی رسی کسی بھی وقت کھینچ لی جائے گی اور آپ یہ حقیقت جتنی ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر