جمعہ، 19 اپریل، 2024

ماضی کا حسین بھاولپور

 یک دفعہ کا ذکر ہے کہ نواب آف بہاولپور لندن میں ایک عام شہری کی طرح اپنا دیسی  لباس کرتا  پاجامہ پہن کر بازار گئے  ۔بازار میں   ؎ گاڑیوں  کے شوروم میں کھڑی رولز رائس کار بہت پسند آئی۔ وہ اندر گئے اور سیلز مین سے قیمت پوچھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ ایک عام ایشیائی شہری ہے،شوروم میں موجود  آدمی نے  ان کی خوب بے عزتی کرتے ہوئے کہا  تم جیسا پھکڑ آدمی یہ گاڑی نہیں خرید سکتا ہے- نواب صاحب ہوٹل واپس آئے اور اگلے دن وہ پورے شاہانہ شان کے ساتھ ملازمین کی پوری فوج لے کر شوروم میں گئے اور  اسی  آدمی  سے پوچھا کہ  شو روم میں کتنی گاڑیاں موجود ہیں -آدمی نے جواب دیا چھ ہیں -اسی وقت نواب نے چھ رولس رائس گاڑیاں خرید کر ملازمین کو دیں اور  ان سے کہا کہ ان گاڑیوں کو فوری طور پر بہاولپور پہنچا کر بلدیہ کے حوالے کیا جائے اور انہیں شہر کی صفائی اور کچرا اٹھانے کا ٹاسک دیا جائے اور یہ اس وقت تک کیا گیا جب تک یہ بات پوری دنیا میں پھیل گئی اور رولس رائس کی مارکیٹ بن گئی۔ نیچے رولز رائس کا نام سن کر لوگ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہی ہے جو ریاست بہاولپور میں شہر کا کچرا اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کچھ عرصے بعد رولز رائس کمپنی کا مالک خود بہاولپور آیا اور نواب صاحب سے معافی مانگی اور چھ نئی رولز رائس گاڑیاں بھی بطور تحفہ دی اور درخواست کی کہ گاڑیوں کو اس گھناؤنے کام سے ہٹا دیا جائے۔ ان چھ نئی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی قائداعظم کو نواب صاحب نے تحفے میں دی تھی، 

میں نے یہ چھوٹی سی سچی کہانی اپنے قارئین کے لیے وقف کی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ماضی میں بھاولپور کے نوابوں کے پاس کتنی دولت تھی۔ کرتا نور محل کو نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے 1872 میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے یہ محل اپنی بیگم کے لیے بنوایا جو تین سال میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اس کی طرف منسوب ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے نوابوں نے دل کھول کر اپنی دولت کو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے استعمال کیا اور اپنے عالی شان محلات بھی بنوائے۔ ریاست کا وجود نہیں تھا لیکن نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں اس کی کہانی سنانے کے لیے موجود ہیں۔ جب آپ بہاولپور جاتے ہیں تو آپ کو صرف ایک 'دیکھنے والی آنکھ' کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ وکٹوریہ ہسپتال، لائبریری، میوزیم، ڈرنگ اسٹیڈیم، ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتیں اگر آپ نور محل پہنچیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کے دوران تعمیر کی گئی سہولیات اس خطے کے لیے کافی جدید تھیں۔

 نور محل مغربی اور اسلامی طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی آب و ہوا اور خوبصورتی آپ کو دور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ نور محل نے اپنے اطراف میں سبز کمبل بچھا دیا ہے۔ آپ اس کے بالکل سامنے سرکلر لان پر  موجود ہلکی سرخ اور سفید عمارت سے پیار کر سکتے ہیں جو پہلی نظر میں دل کو موہ لیتی ہے۔ تقریباً 150 سال پرانا محل ان بہت سے محلوں میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔ 20ویں صدی کے اواخر اور اوائل میں بہاولپور میں بنایا گیا۔ باقی محلات تو شاید اس سے زیادہ خوبصورت ہیں لیکن نور محل کے بارے میں کچھ الگ ضرور ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے آخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے پوتے صاحبزادہ قمر الزمان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ تعمیر کے سال کے علاوہ اس کہانی میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

 نہ رہانے اور یہ محل نہ تو کسی بیگم کے لیے بنایا گیا تھا اور نہ ہی اس کے نام کی روشنی کسی بیگم کے نام پر ہے۔ ان دنوں بیگم کا نام لینا برا سمجھا جاتا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بہاولپور کے تاریخی صادق ایجرٹن کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق صدر ہیں اور سابق ریاست کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کسی بیگم سے نور محل کی تعمیر کا منصوبہ غلط ہے۔ اس وقت اس علاقے میں بیگم کے نام کا کھلے عام ذکر کرنا غلط سمجھا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ نواب صاحب کی  بیگمات  کا نام لینا منع ہے۔ یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نور محل کچھ عرصے تک اوقاف کے پاس رہا اور پھر اسے پاکستانی فوج کو کرایہ پر دے دیا گیا جنہوں نے بعد میں اسے خرید لیا۔ ان دنوں یہ فوج کے زیر انتظام ہے۔ اس کی عمارت میں ریاست کی تاریخ اور خصوصاً نواب سر صادق محمد خان پنجم سے متعلق چیزیں رکھی گئی ہیں۔ آپ تھوڑی سی رقم میں ٹکٹ خرید کر اس کا دورہ کر سکتے ہیں۔

 اس محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں سورج کی روشنی داخل ہونے کے لیے خاص طریقے ہیں۔ محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھے دربار کے بالکل اوپر شیشوں کی دیوار ہے۔ شیشوں کو اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی ہو۔ اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب ہے۔ ان دنوں یہاں ہفتے کے آخری دو دن لائٹ شو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ منظر قابل دید ہے جو نور محل کے حقیقی معنی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں محل باہر کی روشنیوں سے منور ہے۔ اس کے گنبد پر نوابوں کی تصویریں بھی آویزاں ہیں۔ صاحبزادہ قمر الزمان عباسی کے مطابق نور محل ایک گیسٹ ہاؤس تھا۔ اس وقت کی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں پاکستان کےسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات نے بھی یہاں قیام کیا -یہاں نوابین کی یاد گاریں باقی ہیں لیکن نوابین دنیا سے کبھی کے جاچکے ہی-کیونکہ باقی رہے نام اللہ کا 

بدھ، 17 اپریل، 2024

شاہ ایران۔دائمی عبرت کا نشان




  ایران۔  ایران قدیم سے جدید کا سفر کرتے ہوئے بالآخر رضا شاہ پہلوی تک آ پہنچا ـ رضا شاہ ایرانی فوج کے ایک کم پڑھے لکھے سپاہی کے بیٹے تھے  معمولی تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی میں فوج میں بھرتی ہو گئے اور جلد ہی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گئے۔ 1921ء میں حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 1923ء میں وزیر اعظم کا عہدہ خود سنبھال لیا۔ انھوں نے فارس کو ایران کا نام دیا۔ 1925ء میں خاندان قاجار خاندان کے آخری بادشاہ احمد شاہ قاجار کو معزول کرکے خود بادشاہ بن گئے اور رضا شاہ پہلوی کا لقب اختیار کیا۔ایران میں 1925 سے 1941 تک رضا شاہ پہلوی کی حکومت کو جدید بنانے کی اہم کوششوں اور ایک آمرانہ حکومت کے قیام کے ذریعے نشان زد کیا گیا تھا۔ان کی حکومت نے سخت سنسر شپ اور پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ قوم پرستی، عسکریت پسندی، سیکولرازم اور اینٹی کمیونزم پر زور دیا۔   اس نے متعدد سماجی و اقتصادی اصلاحات متعارف کروائیں جن میں فوج، حکومتی انتظامیہ اور مالیات کی تنظیم نو شامل ہے۔  رضا شاہ کا دورِ حکومت اہم جدیدیت اور آمرانہ حکمرانی کا ایک پیچیدہ دور تھا، جس میں بنیادی ڈھانچے اور تعلیم دونوں کامیابیوں اور جبر اور سیاسی جبر کے لیے تنقید کا نشان تھا۔ان کے حامیوں کے نزدیک رضا شاہ کے دور کو نمایاں ترقی کے دور کے طور پر دیکھا گیا، جس کی خصوصیت امن و امان، نظم و ضبط، مرکزی اتھارٹی، اور جدید سہولیات جیسے اسکول، ٹرین، بسیں، ریڈیو، سینما اور ٹیلی فون شامل ہیں۔  تاہم، اس کی تیز رفتار جدید کاری کی کوششوں کو "بہت تیز" ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا  اور "سطحی" کچھ لوگوں نے اس کے دور حکومت کو جبر، بدعنوانی، حد سے زیادہ ٹیکس، اور صداقت کی کمی کے طور پر دیکھا۔

 .سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اس کی حکمرانی کو پولیس سٹیٹ سے بھی تشبیہ دی گئی  اس کی پالیسیاں، خاص طور پر جو اسلامی روایات سے متصادم ہیں، مسلمانوں   میں عدم اطمینان پیدا کیا، جس کے نتیجے میں نمایاں بدامنی پیدا ہوئی، جیسا کہ مشہد میں امام رضا کے مزار پر 1935 کی بغاوت۔بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شروع کیے گئے، جن میں وسیع سڑک کی تعمیر اور ٹرانس ایرانی ریلوے کی عمارت شامل ہے۔تہران یونیورسٹی کے قیام نے ایران میں جدید تعلیم کو متعارف کرایا۔عورت کے پردے کا حق چھین لیا گیا  تیل کی تنصیبات کو چھوڑ کر جدید صنعتی پلانٹس کی تعداد میں 17 گنا اضافے کے ساتھ صنعتی ترقی کافی تھی۔ملک کا ہائی وے نیٹ ورک 2,000 سے 14,000 میل تک پھیلا ہوا ہے۔  رضا شاہ نے ڈرامائی طور پر فوجی اور سول سروسز میں اصلاحات کیں، 100,000 افراد پر مشتمل فوج کی بنیاد رکھی، قبائلی افواج پر انحصار سے منتقلی، اور 90,000 افراد پر مشتمل سول سروس قائم کی۔اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مفت، لازمی تعلیم کا قیام عمل میں لایا اور پرائیویٹ مذہبی اسکولوں کو بند کر دیا — اسلامی، عیسائی، یہودی وغیرہ  تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور صنعتی منصوبوں کے طور پر۔   رضا شاہ کی حکمرانی خواتین کی بیداری (1936–1941) سے مماثل تھی، ایک تحریک جو کام کرنے والے معاشرے میں چادر کو ہٹانے کی وکالت کرتی تھی، یہ دلیل دیتی ہے کہ یہ خواتین کی جسمانی سرگرمیوں اور سماجی شرکت میں رکاوٹ ہے - اس اصلاحات کو مذہبی رہنماؤں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔نقاب کشائی کی تحریک کا 1931 کے شادی کے قانون اور 1932 میں تہران میں مشرقی خواتین کی دوسری کانگریس سے گہرا تعلق تھا

۔مذہبی رواداری کے لحاظ سے، رضا شاہ یہودی برادری کا احترام کرنے کے لیے قابل ذکر تھے، وہ 1400 سالوں میں پہلے ایرانی بادشاہ تھے جنہوں نے اصفہان میں یہودی برادری کے دورے کے دوران ایک عبادت گاہ میں نماز ادا کی۔اس عمل نے ایرانی یہودیوں کی خود اعتمادی کو نمایاں طور پر بڑھایا اور رضا شاہ کو ان میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی، سائرس اعظم کے بعد دوسرے نمبر پر۔اس کی اصلاحات نے یہودیوں کو نئے پیشوں کا پیچھا کرنے اور یہودی بستیوں سے باہر جانے کی اجازت دی۔ تاہم، ان کے دور حکومت میں تہران میں 1922 میں یہودی مخالف واقعات کے دعوے بھی کیے گئے تھے تاریخی طور پر، "فارس" کی اصطلاح   مغربی دنیا میں عام طور پر ایران کے لیے استعمال ہوتے تھے۔1935 میں، رضا شاہ نے درخواست کی کہ غیر ملکی مندوبین اور لیگ آف نیشنز رسمی خط و کتابت میں "ایران" کو اپنائیں - جو نام اس کے مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں اور جس کا مطلب ہے "آریوں کی سرزمین"۔اس درخواست کی وجہ سے مغربی دنیا میں "ایران" کے استعمال میں اضافہ ہوا، جس نے ایرانی قومیت کے لیے عام اصطلاحات کو "فارسی" سے "ایرانی" میں بدل دیا۔بعد میں، 1959 میں، رضا شاہ پہلوی کے بیٹے اور جانشین شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت نے اعلان کیا کہ "فارس" اور "ایران" دونوں کو باضابطہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود مغرب میں ’’ایران‘‘ کا استعمال زیادہ ہوتا رہا۔خارجہ امور میں، رضا شاہ نے ایران میں غیر ملکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی۔اس نے برطانیہ کے ساتھ تیل کی رعایتوں کو منسوخ کرنے اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ اتحاد کے خواہاں جیسے اہم اقدامات کئے۔اس نے غیر ملکی اثر و رسوخ کو متوازن کیا، خاص طور پر برطانیہ، سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان۔ ، اس کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی منہدم ہوگئی، جس کے نتیجے میں 1941 میں ایران پر اینگلو سوویت حملے اور اس کے بعد جبری دستبرداری ہوئی۔[  1979ء کو شاہ محمد رضا پہلوی ایران سے باہر جانے کے لیے اپنے خصوصی ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو وہ زار و قطار رو رہے تھے۔


وہ ایران کی سرزمین نہیں چھوڑنا چاہتے تھے لیکن  ملک سے باہر جانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے آمادہ کیا۔ 11شاہ پور بختیار نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ اب ایرانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے-اور پھر یہی ہوا کہ فروری 1979 میں ایران کی شاہی حکومت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مختلف ملکوں میں پھرتے رہے۔ ۔ سب سے پہلے مصر کے شہر اسوان گئے، اس کے بعد مراکش کے شاہ حسن دوم کے مہمان رہے۔ مراکش کے بعد بہاماس کے پیراڈائز آئی لینڈ میں قیام پزیر ہوئے اور پھر میکسیکو سٹی کے قریب کورناواکا شہر میں میکسیکو کے صدر جوز لوزپیز پورٹیلو کے مہمان بنے۔ چھ ہفتے نیویارک کے ہسپتال کورنیل میڈیکل میں جراحتی علاج کرواتے رہے۔ قیام کے دوران ڈیوڈ ڈی نیوسم کے خفیہ نام کا استعمال کیا جو اس وقت کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور کا اصل نام تھا۔ ایران میں امریکی سفارتی خانے کے جلائے جانے پر شاہ ایران کو امریکا سے جانا پڑا۔ فیڈل کاسترو کی وجہ سے میکسیکو نے دوبارہ میزبانی سے انکار کر دیا، مجبوراََ پانامہ کے تفریحی جزیرے اسلا کونتا دورا میں قیام کیا۔ پانامہ میں مقامی افراد کے ہنگاموں اور فوجی حکمران کے ناروا سلوک سے تنگ آ کر مارچ 1980 میں مصر کی سیاسی پناہ قبول کر لی۔ یہاں تک کہ 27 جولائی، 1980ء کو قاہرہ کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال یہ وہ مطلق العنان شہنشاہ تھے جن کی  مرضی کے خلاف بولنے والوں کے مقدّر میں صرف دردنا ک موت ہی لکھی ہوتی تھی اور اس بے پناہ دولت سے وہ اپنے لئے زندگی نہیں خرید سکے نا ہی صحت کی دولت خرید سکے اور بالآخر بیماری کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ کر قبر میں اتر گئے(موت کے وقت شاہ کی جو دولت بیرونی بینکوں میں جمع تھی وہ دس ہزار ملین پونڈ سے بھی زیادہ تھی)

  ایران میں رہنا نصیب نہیں ہوا اس کے بعد خود شاہ کو سلطنت چھوڑ کر جلاوطن ہو جانا پڑا۔ شہنشاہ ايران محمد رضا پہلوی نے دنيا بھر كی ناياب اشياء  اپنے اس  نادر الوجود پیلس ميں جمع كيں اور دس سال بعد 1968ء ميں اس ميں رہائش پذير ہوئے۔ انقلاب ايران تک وہ اسی محل ميں اپنی ملكہ فرح پہلوی کے ہمراہ مقيم تھے اور يہیں سے انھیں ملک بدر ہونا پڑا۔ محل كی ہر چيز كو محفوظ کر ديا گيا ہے۔ اسی محل کے سا‍تھ ايک اور قديم محل موجود ہے جو قاچار خاندان كے زير استعمال رہا تھا اور بعد ميں شہنشاہ ايران نے اسے اپنے سركاری آفس میں تبديل كر ليا تھا۔ محل سے ملحقہ شہنشاہ ايران کے آفس میں دنيا كی عظيم شخصيات كی تصاوير ركھی گئی ہیں جن میں سابق وزيراعظم پاكستان ذو الفقار علی بھٹو كی تصوير بھی موجود ہے۔ 

جمعرات، 11 اپریل، 2024

سا نحہ اوجڑی کیمپ- پردے میں رہنے دو

 

   یہ مضمون  میں نے انٹر نیٹ سے 33 لیا ہے

   10 اپریل، 1988 کی صبح عام صبحوں کی طرح مشرق سے سورج نکلا۔ بظاہر یہ عام دنوں کی طرح کا ایک دن تھا، سردیاں تو رخصت ہو گئی تھیں لیکن ابھی گرمیوں نے پوری طرح سے جڑواں شہروں میں قدم نہیں جمائے تھے۔مری روڈ پر گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ دفاتر میں آفیسر چائے کی چُسکیاں لے کر سوچ رہے تھے آج کس فائل کو پہلے کھولا جائے۔سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہلا پیریڈ اختتام کے مراحل میں تھا، تاجر اپنی دکانیں کھول کر مال کو طے شدہ جگہ پر لگا رہے تھے کہ اچانک جڑواں شہر دھماکوں سے لرز اٹھے، شور اتنا زیادہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔دھویں اور غبار کے بادل نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، لگاتار دھماکوں کی گونج سے جڑواں شہروں کے باسیوں نے سمجھا کہ بھارت نے حملہ کر دیا ہے۔دھماکوں نے لوگوں کے اوسان خطا کر دیے۔ انہی دھماکوں کے دوران اچانک ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس سے جڑواں شہروں کے درودیوار لرز اُٹھے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، اوجھڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو سے میزائل اُڑ اُڑ کر گلیوں اور محلوں میں تباہی پھیلا رہے تھے، موت چاروں اور رقص کناں تھی۔ ضعیف زن و مرد، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں، لگ بھگ ایک گھنٹہ تک آسمان آتش و آہن کی بارش برساتا رہا۔ ایک گھنٹے بعد میزائل پھٹنا بند ہوئے مگر ہر سو تباہی کی داستان چھوڑ گئے۔ ریڈیو نے 12 بجے کی خبروں میں اتنا بتایا کہ شہر میں اسلحہ ڈپو میں آگ لگنے سے کچھ اسلحہ دھماکے سے پھٹ گیا مگر 'گھبرانے کی کوئی بات نہیں حالات مکمل کنٹرول میں آ گئے ہیں۔'

اس حادثے میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 103 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ 1500 کے قریب تھی جبکہ آزاد ذرائع کا کہنا تھا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی گُنا زیادہ تھی۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی بھی مری سے راولپنڈی واپس آتے ہوئے میزائل لگنے سے جان کی بازی ہار بیٹھے۔جس وقت اوجھڑی کیمپ آتش و آہن کی آگ برسا رہا تھا، وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو سندھ اور صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کویت کے دورے پر تھے۔دونوں نے اپنی مصروفیات ترک کر کے اسلام آباد کی راہ لی۔ جنرل ضیا نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ ہم بڑا کام کر رہے تھے اور اس کی سزا ہمیں ملنا تھی وزیراعظم محمد خان جونیجو نے حقائق کی جانچ پرکھ کے لیے کورکمانڈر دہم لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی۔ ساتھ ہی پانچ وزرا پر مشتمل ایک اور کمیٹی کی تشکیل کی گئی، جس نے جنرل عمران کی دی گئی رپورٹ کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کر کے وزیراعظم کو پیش کرنا تھی۔معروف صحافی اظہر سہیل اپنی کتاب ’سندھڑی سے اوجھڑی کیمپ تک‘ میں لکھتے ہیں: 'مذکورہ ڈپو آئی ایس آئی کے اس شعبے کی نگرانی میں چل رہا تھا جو افغانستان جہاد اور افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے پاکستان کی ایما پر معاملات کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے.'وہ مزید لکھتے ہیں کہ 'میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس اسلحہ خانہ میں اس انداز میں بے احتیاطی کے ساتھ اسلحہ جمع کیا گیا تھا جیسے لکڑی کے ٹال پر فالتو لکڑیاں بکھری پڑی ہوں۔ بنیادی طور پر اس ڈپو میں تین اسلحہ خانے تھے۔ ان میں صرف راکٹ، پراجیکٹائل اور میزائل ہی موجود نہیں بلکہ بعض معلومات کے مطابق فاسفورس بم بھی تھے۔'

اس افسوس ناک واقعے کو گزرے لگ بھگ 33 سال ہونے کو ہیں۔ اس وقت کے وزیراعظم جونیجو نے حقائق جاننے کے لیے جس کمیٹی کی تشکیل کی تھی اُس نے مقررہ وقت پر رپورٹ پیش کی تھی، تاہم رپورٹ عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی اور اسے دبا دیا گیا۔اظہر سہیل لکھتے ہیں کہ 'جنرل عمران اللہ جب وزارتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو رانا نعیم محمود جو دفاع کے وزیر مملکت اور کمیٹی کے رکن تھے، انہوں نے جنرل سے تین سوال کیے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ اس کیمپ کا قیام کس کی ذمہ داری تھی؟

’جنرل نے جواب دیا کہ 'اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی،' دوسرا سوال جنرل سے پوچھا گیا کہ کیا جنرل اختر عبدالرحمٰن جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، کیا کیمپ بنانے کا فیصلہ ان کا تن تنہا تھا یا کسی سے منظوری لی گئی تھی تو جنرل نے جواب دیا کہ 'متعلقہ افسر کسی سے صلاح مشورہ کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔'رانا نعیم محمود نے جنرل سے سوال و جواب کے بعد جو رپورٹ تیار کی اس میں لکھا کہ کیمپ کا قیام اور اس کا انتظام مکمل طور پر آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کی ذمہ داری تھا اور ہے، اس لیے سفارش کی جاتی ہے کہ سابق ڈی جی جنرل اختر عبدالرحمٰن اور موجودہ جنرل حمید گل کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس رپورٹ پر قاضی عابد، ابراہیم بلوچ اور رانا نعیم محمود تینوں نے دستخط کیے اور رپورٹ وزیراعظم کے حوالے کر دی۔

وزیراعظم جونیجو چاہتے تھے کہ رپورٹ حسب وعدہ قوم کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کی جائے بلکہ اس کی روشنی میں صدرمملکت جنرل ضیا الحق کو سفارش کی جائے گی کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کے خلاف کارروائی کریں۔جنرل حمید گل کے خلاف جونیجو خود کارروائی کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔رپورٹس حاصل کرنے کے بعد جونیجو صاحب کوریا اور دیگر ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ انہیں اپنی منتخب حثییت پر اتنا ناز اور یقین تھا کہ انہوں نے دورے پر روانہ ہونے سے قبل رپورٹس صدر مملکت کے سامنے رکھ دیں۔جب صدر مملکت نے پوچھا یہ کیا ہے تو وزیراعظم صاحب نے دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ 'سائیں یہ کمیٹی کی رپورٹس ہیں۔ آپ ان پر غور کریں، وطن واپسی پر آپ کی مشاورت سے فیصلہ کروں گا۔'جنرل ضیا الحق نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان رفقا کے خلاف کارروائی کریں جو ان کے اقتدار کی طوالت کا سبب رہے، یوں سانحہ اوجھڑی کیمپ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے اقتدار کا سانحہ ثابت ہوا اور ان کے اقتدار کا اختتام اوجھڑی سے سندھڑی تک ہوا۔ 


بدھ، 10 اپریل، 2024

پا کستان میں خفیہ وڈیوز کی بیماری

 

پا کستان میں  خفیہ وڈیوز کی بیماری- مجھے اس موزی بیماری کا اس وقت پتا چلا جب لیبیا کے صدر قذّافی پاکستان کے دورے پر آئے اور ان کے بیڈروم میں خاص تواضع کے لئے سامان راحت فرام کیا گیا اور جب قذّافی واپس لیبیا گئے تب ان کے سامنے کچھ مطالبات رکھّے گئے -جب قزّافی نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کیا تو ان کے سامنے وہ خفیہ وڈیوز رکھّی گئیں جو خفیہ طور پر ان کے تخلیہ کے لمحات کی تھیں اور پھر قذافی نے خاموشی سے مطالبات مان لئے-یہ کہانی میں نے سنی تھی اللہ جانے سچ کہ جھوٹ-لیکن آج کل توایسے نت نئے طریقوں سے خواب گاہوں کی خفیہ ریکارڈنگز سامنے آ رہی ہیں کہ جن کے بارے میں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اللہ اپنی پناہ میں رکھّے -ان وڈیوز میں انتہائ اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں کے معلمین بھی شامل ہیں تو قوم کے مسیحا بھی شامل ہیں -ایسی ہی ایک خفیہ وڈیو کہانی پھر منظر عام پر آئ -اسکول کے پرنسپل کی خفیہ وڈیوز-خواتین سے زیادتی کی ویڈیوز بھی بناتا تھا، (ایس ایس پی) ملیر حسن سردار کے مطابق ملزم کے دفتر سے ملنے والی زیادتی کی 25 ویڈیوز برآمد کرلی گئیں۔انہوں نے بتایاکہ ملزم خواتین کو نوکری کا جھانسہ دےکر زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اور پھر زیادتی کی سی سی ٹی وی دکھاکر خواتین کو بلیک میل کرتا تھاان کا کہنا تھاکہ ملزم کے دفتر میں زیادتی کا نشانہ بننے والی 5 خواتین کی نشاندہی کر لی گئی جبکہ متاثرہ خواتین سے بھی معلومات حاصل کی جائیں گی۔دوسری جانب انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) سندھ رفعت مختار نے واقعے کا نوٹس لے لیا اور ایس ایس پی ملیر سے تفصیلات طلب کرلیں۔انہوں نے ہدایت کی کہ غیرجانبدار اور شفاف انکوائری کو یقینی بناتے ہوئے کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔اُدھر  نگران وزیرتعلیم سندھ رعنا حسین کی ہدایت پر4رکنی انکوائری کمیٹی قائم کرلی گئی ہے۔ایڈیشنلڈائریکٹررجسٹریشن کے مطابق کمیٹی ڈپٹی ڈائریکٹر قربان بھٹو کی سربراہی میں بنائی گئی ہے اور کمیٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ممتازقمبرانی، زید مگسی اور جاوید قاضی شامل ہیں۔انہوں نے بتایاکہ انکوائری کمیٹی کل اسکول کا دورہ کر کے تفصیلات حاصل کرے گی، حقائق اورکمیٹی کی سفارشات پر مزید کارروائی کی جائے گی۔


  پا کستان میں خفیہ وڈیوز کی بیماری کب شروع ہوئ فیصل آباد کے ہاسٹل کے واش روم میں طالبہ کی ویڈیو بنانے کا معاملہ پرائیویٹ ہاسٹلز کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں: ثریا منظور سماجی کارکنابتدائی تفتیش میں ملزم پر ویڈیو بنانے کا الزام ثابت ہوا ہے: تفتیشی افسر-میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس قدر افسوس ناک ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گھریلو اور معاشرتی پریشر الگ سے ہے کہ بے قصور ہونے کے باوجود یہاں لوگ متاثرہ لڑکی کو ہی باتیں سناتے ہیں اور اسے تماشا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے جو قدم اٹھایا وہ اگرچہ آسان تو نہیں لیکن کسی لڑکی کی عزت ہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔"یہ کہنا ہے پنجاب کے شہر فیصل آباد کی جی سی یونیورسٹی میں چوتھے سمسٹر کی ایک طالبہ فرضی نام (ر) کا جن کے ساتھ حال ہی میں ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ہے جس پر قانونی کارروائی بھی کی جا رہی ہے

۔ تاہم (ر) مسلسل ذہنی اذیت سے گزر رہی ہے فیصل آباد کے ایک نجی گرلز ہوسٹل میں یونیورسٹی کی طالبہ کی خفیہ طور پر واش روم سے ویڈیو بنانے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس پر پولیس نے ہاسٹل کی خاتون انچارج اور اس کے بھائی کو حراست میں لے لیا ہے۔ ملزم عمر پر الزام ہے کہ اس نے واش روم میں نہاتے ہوئے طالبہ کی اپنے موبائل فون پر ویڈیو بنائی۔ تھانہ ویمن فیصل آباد میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 354، 509، 292 اور 34 ت پ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور پولیس نے ملزم عمر کے قبضے سے موبائل فون برآمد کر کے اسے فرانزک آڈٹ کے لیے پنجاب فرانزک لیب لاہور بھیج دیا ہے۔پولیس نے دونوں ملزمان کو عدالت میں پیش کیا جس پر عدالت نے ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ اور اس کے بھائی ملزم عمر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ہے۔ہاسٹل انچارج کے بھائی نے میری نہاتے ہوئے ویڈیو بنائی: ایف آئی ار میں الزام تھانہ ویمن فیصل آباد میں درج ہونے والا یہ مقدمہ جی سی یونیورسٹی کی فورتھ سمسٹر کی طالبہ ( ر) کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جو کہ ضلع بھکر کی رہائشی ہیں اور یہاں جی سی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔"میں اپنے ہاسٹل کے واش روم میں نہا رہی تھی عمر نامی لڑکا ساتھ والے واش روم کے سوراخ سے میری ویڈیو بناتا رہا۔ سوراخ میں سیاہ کور والا موبائل میں نے خود دیکھا تھا جس سے وہ میری ویڈیو بنا رہا تھا، میں واش روم سے فوری طورپر باہر آئی اور شور مچایا۔"

مدعی مقدمہ کے مطابق جب ملزم عمر کی بہن ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا تو اس نے بھی الٹا مجھے برا بھلا کہا اور میری بات کا یقین نہ کیا۔ یوں ملزم عمر نے اپنی بہن کے ایما پر ویڈیو بنا کر مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا ہےابتدائی تفتیش میں ملزم پر ویڈیو بنانے کا الزام ثابت ہو گیا، تفتیشی آفیسرتھانہ ویمن فیصل آباد کی ایس ایچ او انسپکٹر مدیحہ ارشاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے ہاسٹل جا کر دونوں واش روم چیک کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں قیام پذیر طالبات سے بھی بات چیت کی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہاسٹل انچارج نے اپنے بھائی 27 سالہ عمر کو کاموں کے لیے ہاسٹل آنے کی اجازت دے رکھی تھی اور وہ یہاں باقاعدگی سے آتا جاتا رہتا تھا۔ ۔ لیکن ان کی ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم عمر قصور وار ہے جس نے ویڈیو بنائی لیکن طالبہ کی طرف سے شور مچانے اور دیگر طالبات کے احتجاج پر اس نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویڈیو کلپ فوری طور پر ڈیلیٹ کر دیا۔"ملزم کے موبائل کو پنجاب فرانزک لیب لاہور بھجوادیا گیا ہے جہاں سے اس کا فرانزک آڈٹ ہو گا اور ملزم کی طرف سے موبائل کلپ بنانے یا نہ بنانے کے بارے میں حتمی رپورٹ آ جائے گی جس کی بنیاد پر ملزم کا چالان مرتب کر کے مجاز عدالت میں پیش کر دیا جائے گا جہاں مقدمہ چلے گا۔ وضو کرنے کے لیے واش روم گیا تھا

: ملزم کا ابتدائی بیان تھانہ ویمن فیصل آباد میں ملزم بہن بھائی کے بیانات بھی قلم بند کر لیے گئے ہیں۔زیرِ حراست ملزم عمر نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزام کی تردید کی اور پولیس کو بتایا کہ وہ تو وضو کرنے کے لیے واش روم گیا تھا۔ملزم کا کہنا تھا کہ اسے نہیں علم تھا کہ ساتھ والے واش روم میں کوئی طالبہ نہا رہی ہے، اس نے جب اپنا ہاتھ اوپر کیا تو اس کے ہاتھ میں موبائل فون تھا جس وجہ سے طالبہ یہ سمجھی کہ شاید میں اس کی ویڈیو بنا رہا ہوں۔ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ کئی برسوں سے اپنا ہاسٹل چلا رہی ہے اور کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ بھائی کو ہاسٹل کے ضروری کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے۔ خاتون کہتی ہیں کہ انہیں مقدمے میں ناجائز طور پر ملوث کیا گیا ہے۔جرم ثابت کرنا مشکل ہے: قانونی ماہرین-سائبر کرائم قوانین کے ماہر شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس نوعیت کے مقدمے میں ملزم کو آسانی سے ریلیف مل جاتا ہے اور مدعی کے لیے جرم ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں تعزیرات پاکستان کی جو دفعات لگائی گئی ہیں ملکی قانون میں ان کی سزائیں کم ہیں۔

منگل، 9 اپریل، 2024

جب چوری ہوامیرا اجلا میاں


وہ  میرے گھر میلے کپڑے دھونے آئ تھی اور میرا اجلا میاں چراکرلے گئ- انیلہ کی جاب ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر کی تھی اس نے شہر کے ایک ریسٹورنٹ کے کچن کی  لائیو رپورٹ تیّار کر کے نیوز ایجنسی کو بھیجی ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے اس رپورٹنگ کے لئے اسے خود بلایا تھا تاکہ عوام میں اس کے ریسٹورینٹ  کے مذیدارکھانوں  کی اوراچھّی سروس کی پبلسٹی ہو سکے -رپورٹ تیّار کرتے ہی انیلہ کو اپنی جاب پر پہنچنا تھا وہ جیسے ہی ریسٹورینٹ سے باہر آئ ریسٹورینٹ کا مالک بھی عجلت میں اس کے پیچھے ہی چلا آیا اور اس نے انیلہ سے درخواست کی کہ وہ چند منٹ کا توقّف کر لے اس کے ساتھ ہی ایک معقول قسم کی  خاتون ریسٹورینٹ سے باہر نکل کران کے قریب  آ گئیں ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے کہا خالہ آپ ان کے ساتھ چلی جائیے یہ آ پ کو راستے میں اتار دیں گی ،انیلہ نے  خاتون کو دیکھا  اور سلام کر کے عزّت کے ساتھ ان کو کار میں بٹھایا ،کار جب سڑک پر رواں ہوئ تو انیلہ نے خاموشی توڑنے کے لئے خاتون سے پوچھا آ پ رہتی کہاں ہیں ،خاتون نے اپنا پتا بتایا اور پھر گویا ہوئین کہ   ریسٹورینٹ کا مالک ان کا بھتیجا ہے جس کے پاس وہ کبھی کبھی ملنے آتی ہیں اب  انیلہ کے تجسس نے سر ابھارا اور اس نے ان کے اپنے گھر بار کے لئے سوال و جواب کئے تو وہ خاتون جیسے دل کے پھپھو لے   پھوڑنے کو تیّار ہی بیٹھی تھیں -

پھر انہوں نے بتایا کہ  یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے علاقے میں پانی کا قحط شروع ہوا میری اپنے سامنے گلی کے گھر سے اچھّی علیک سلیک تھی ہم اچھّا پکاتے تو ایک دوجے کو ضرور بھیجتے یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا اعتبار بھی اپنا بھرم کھو دیتا ہے ،،بہر حال ہو یہ رہا تھا کہ گلی دو رویہ تھی ایک جانب پانی کی فراوانی تھی دوسری جانب قحط کا سماں تھا اس گھر میں ایک کنواری لڑکی تھی جو میرے بچّو ں کا بھی خیال کرتی تھی  بس وہ لڑکی میرے گھر پانی بھرنے کے لئے انے لگی کچھ دن تو کچھ بھی نہیں محسوس ہوا لیکن ایک دن جب میرے میاں گھر پر تھے وہ آ گئ اور اس نے آ کر پوچھا کیا میں تمھارے گھر میلے کپڑے دھونے آجاوں بڑا ڈھیر جمع ہو گیا ہے میں نے بہت خلوص سے کہا ہاں ہاں آ جاو وہ کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھّر لے کر آ گئ اور جب کپڑے دھو کر واپس جانے  لگی تو گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی کا وزن زیادہ ہو چکا تھا ایسے میں میرے میاں   نے کمرے سے نکل کر اسے دیکھا اور لپک کر اس کے ہاتھ سے گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہنے لگے ارے یہ تو بہت بھاری ہے آپ کس طرح اٹھائیں گی اور پھر میرے میاں نے وہ بھری بالٹی اس کے گھر پہنچا دی -

اس دن کی پہلی ملاقات جانے کس طرح رنگ لائ کہ میرے میاں شا م کو زرا جلدی گھر آنے لگے اور گھر کی بالکونی میں دیر دیر تک کھڑ ے رہنے لگے پہلے پہلے تو م اس تبدیلی کو سمجھ نہیں سکی جب سمجھ آئ تو میں بھی ایک دن میاں جی کے برابر میں  جا کرکھڑی ہوگئ تو سامنے والی لڑکی گلی کے بچّوں کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہی تھی  ،میرے بالکونی میں جاتے ہی میرے میاں وہاں سے ہٹ کر کمرے میں چلے گئے تھے تب میں سمجھی تھی کہ کوئ دال میں کالا ہے ،،پھر کچھ اور بھی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں تھیں کہ  میرے میاں نت نئ خوشبو کی بوتلیں لا لا کر استعمال کر نے لگے تھے نئے نئے کلر کی شرٹس بھی ےبدل  بد ل کر پہننے   لگے تھے جبکہ اس سے پہلے وہ کہتے  تھے کہ مجھے صرف سفید رنگ ہی پسند ہے میں نے زیادہ کچھ کریدنا بہتر نہیں جانا تاکہ گھر کا ماحول پراگند ہ نا ہو لیکن ایک دن میرے بیٹے نے اپنے برابر میں کھڑے اپنے پاپا سے کہا پاپا آپ نے کاغذ کیوں نیچے پھینکا ؟ آپ ہمیں تو منع کرتے ہیں کہ گلی میں کوئ چیز ناپھینکو اور بیٹے کی بات پر میرے شوہر نے بے اختیار میری جانب دیکھا اور بیٹے کی بات ادھر ادھر کر کے اسے اپنے ساتھ وہاں سے ہٹا لے گئے،

یعنی اب بالکونی سے ان کی خط و کتابت کا آغاز بھی ہو چکا تھا ،،میں نے اپنے شوہرسے کچھ سوال جواب کئےتوبس اب ہمارے گھر طوفانو ں کی آمد کی ابتداء ہو گئ  ،یہی وہ وقت تھا جب میں اپنے شوہر کی محبّت جیتنے کے لئے کچھ سوچتی میں نے شوہر سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی اور بالآخر انہوں نے کہ دیا کہ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں اورشادی کا  فیصلہ کر چکے ہیں اب  یا تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیدو کہ میں اپنے شوہر کو بخوشی دوسری شادی کی اجازت دے رہی ہوں  اس صورت میں ،میں تم کو تمھارا خرچہ پانی دیتا رہوں گا اور انصاف سے چلوں گا میں نے شوہر کی بات کے جواب میں خودکشی کی دھمکی دی انہوں نے کہا اگر تم کو حرام موت مرنے کا شوق ہے تو کل کی مرتی آج مر جاوُمیری  بلا سے اور کہ کر گھر سے نکل گئے اور پھر چند روز کے اندر مجھے طلاق نامہ بھیج دیا ،میں شوہر کے انتقام میں اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ  میں نے اپنے تینوں معصوم  بچّوں کو رکشہ میں بٹھایا  اور لے جاکر ان کی بوڑھی دادی کے منہ پر یہ کہ کر مارا کہ تمھارے بیٹے کے بچّے ہیں میں میکے سے تو لائ  نہیں تھی ،میرا بڑا بیٹا سات برس کا بیچ والی بیٹی پانچ برس کی اور تیسرا بیٹا چاربرس کاتھا جب میں ان کی دادی کے گھر سے نکل رہی تھی میرا چار برس کا بیٹا میرے پیچھے روتا ہوا بھاگا تھا اور میں نے بے رحمی سے دروازہ بند کیا اور پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا گھر حالانکہ میرے شوہر کے نام تھا لیکن شوہر نے گھر سے بیدخل نہیں کیا-

پھرکچھ  برس بعد میرے دل مِیں بچّوں کی مامتا جاگی اور میں نے اسکول جاکر ملنے کی کوشش کی تو وہ  بے  سود ثابت ہوئ پھر بارہ برس پہلے بچّوں کی دادی کا انتقال ہوا تب مین نے ان کی دادی کے جنازے میں شرکت چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ دادی کی و صیّت ہے کہ مجھے ان کے جنازے میں شامل نا کیا جا ئَے  دادی کے مرنے کے بعد بچّون کے چچا اور چچی نے  ان کی پرورش کا فریضہ انجام دیابس اس کے بعد پھر اب تو اٹھّارہ برس بیت گئے ہیں سوکن آج بھی میرے شوہر کے ساتھ خوش و خرّم زندگی گزار رہی ہے کئ بچّے ہو چکے ہیں اورمیں جنم جلی اپنے ہاتھوں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے پیچھے تنہا تنہا جی رہی ہوں دو برس پہلے میری بیٹی کی شادی ہوچکی ہے ،بڑے بیٹے کی منگنی اس کے چچا نے اپنی بیٹی سے کر دی ہے چھوٹا بیٹا ابھی حال میں پڑھائ سے فارغ ہوا ہے وہ بچّہ جو میرے بغیر ایک گھڑی نہیں رہتا تھا-اسے تو اب میری شکل سے نفرت ہے اور بڑے بھائ سے کہتا ہے کہ امّی ملنے آئیں تو مجھے کمرے سے باہر نہیں بلانا ہے ،بڑے بیٹے کوکچھ خوف خدا ہے تو   مجھ سے ملنے بھی آجاتا ہے اور اپنے فلیٹ پر بھی بلا لیتا ہے اس نے شادی کرنے سے پہلے ہی اپنا زاتی فلیٹ لے لیا ہے،میں اسی فلیٹ پر جا کر اس سے مل لیتی ہوں   خاتون خاموش ہو گئیں تو انیلہ نے ان سے سوال کیا کیا آپ معاشرے کی خواتین کو کوئ پیغام دینا چاہیں گی-خاتون نے کہا ہاں ضرور دوسری شادی مرد کا جائز اور اللہ کا مقّررکردہ حق ہے جبکہ وہ انصاف سے چلنے کی بات بھی کر رہا ہو اس لئے ایسی صورت میں اس کو دوسری شادی کی اجازت ضرور دے دینی چاہئے -خاتون  کی منزل آچکی تھی اور وہ اتر کر چلی گئیں اور انیلہ کو اس کی نئ کہانی کا عنوان دے گئین تھیں  اور انیلہ شام کو جب تھکی ہاری واپس گھر آئ تب بستر پر لیٹ کر اسے ان خاتون کا خیال آیا اور ان کے الفاظ یاد آئے ،،،دوسری شادی مرد کا جائز حق ہے  اسے خوشی خوشی اجازت دے دینی چاہئے ورنہ وہ جبریہ چھین لیتا ہے

سمو گ 'سردی 'بارش اور معصوم فرشتے

ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ نمونیا کی علامات میں تیز بخار، بلغم، کھانسی، تھکاوٹ اور سانس لینے میں دشواری اور اس کے ساتھ سینے میں درد بھی شامل ہے۔دراصل نمونیا ایک یا دونوں پھیپھڑوں میں بیکٹیریا، وائرس یا فنجائی کی وجہ سے ہونے والا انفیکشن کہلاتا ہے یہ انفیکشن پھیپھڑوں کی ہوا کی تھیلیوں میں سوزش کا باعث بنتا ہے، جسے الیوولی کہتے ہیں، بعد ازاں الیوولی سیال یا پیپ سے بھر جاتا ہے، جس سے سانس لینا مشکل اور نہایت تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔لاہور : پنجاب میں نمونیا سے مزید 14 بچے انتقال کرگئے، جس کے بعد نمونیا سے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 275 ہوگئی ہے۔تفصیلات کے مطابق پنجاب میں سردی اور نمونیہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ نہ رک سکا ، محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے کہا گیا کہ 24 گھنٹے میں پنجاب میں نمونیہ سے مزید 14 بچے انتقال کرگئے۔محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ جنوری میں نمونیہ سے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 275 ہوگئی، پنجاب بھرمیں 24 گھنٹےمیں 872 بچے نمونیہ میں مبتلا ہیں۔محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں میں رواں سال اب تک 2149نمونیا کا شکار بچے لائے گئے جنوبی پنجاب کے تمام بڑے اسپتالوں میں ان 2149 بچوں میں سے  1854نمونیا کا شکار بچوں کو داخل کر کے علاج شروع کیا گیا جبکہ یکم جنوری سے اب تک جنوبی پنجاب کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں نمونیہ کا شکار 56بچوں کی موت واقع  ہوئی ہے 

ویسے تو نمونیا ہلکا یا سنگین ہو سکتا ہے یہ بیماری 5 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں میں زیادہ عام ہوتی ہے، نمونیا اگر کسی صحت مند انسان کو ہو تو وہ اس کا مقابلہ با آسانی کرسکتا ہے مگر بچوں کے لیے اس سے نمٹنا بعض اوقات انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔بچوں کو نمونیا ہونے کی وجوہات میں انہیں دودھ پلانے کی کمی، آلودگی، غذائیت کی کمی، ٹھنڈ میں زیادہ دیر تک رہنا اور کمزو مدافعتی نظام شامل ہے۔سمیت جنوبی پنجاب اندرون سندھ بلوچستان کے مریض بچوں کا بوجھ اٹھانے والے چلڈرن کمپلیکس میں اس وقت نمونیہ چیسٹ انفیکشن کا شکار 80 سے زائد بچے زیر علاج ہیں جبکہ ترجمان چلڈرن کمپلیکس ملتان ڈاکٹر معاز کے مطابق یکم جنوری سے 18 جنوری 2024 کے درمیان نمونیہ چیسٹ انفیکشن کے شکار 1ہزار 65 بچے چلڈرن کمپلیکس رپورٹ ہوئے رپورٹ ہونے والے نمونیہ کا شکار بچوں میں سے 18 روز کے دوران 40 بچوں نے چلڈرن کمپلیکس میں دم توڑا جبکہ 928 بچے صحت یاب ہو کر گھروں کو واپس چلے گئے جبکہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چلڈرن کمپلیکس میں نمونیہ کا شکار کسی بچے کی موت واقع نہیں ہوئی  

کیس بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں رپورٹ، 4بچے زندگی کی بازی ہارگئے، سکولوں میں جانیوالے معصوم بچوں کی زندگیاں بھی خطرے میں،موسم میں مزید شدت اوربارشوں کابھی امکان۔ تفصیلات کے مطابق صوبہ بھرسمیت بہاولپورمیں بھی سردی کی شدت اورسموگ میں کوئی کمی نہ ہوسکی بلکہ آئے روز سردی کی شدت میں اضافہ ہوتانظرآرہاہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی بالکل مفلوج ہوکررہ گئی ہے،شدیددھند اورسموگ کی وجہ سے آئے روزحادثات میں بھی اضافہ ہورہاہے جبکہ دوسری طرف ہسپتالوں میں سانس اورپھیپھڑوں سے متاثر مریضوں کی تعدادمیں بھی اضافہ بتایاجارہاہے۔ذرائع کے مطابق اب تک اس شدیدسردی کے موسم کی وجہ سے صوبہ بھرمیں نمونیاکی وجہ سے 140 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ بہاو ل وکٹوریہ ہسپتال کے زرائع کے مطابق یکم جنوری سے 18جنوری تک 150سے زائد بچے نمونیاسے متاثرہوکرہسپتال آئے جن میں ایمرجنسی مریضوں کی تعداد 94، اِن ڈورمریضوں کی تعداد 174 بتائی جاتی ہے جبکہ 4بچوں کی ڈیتھ بھی واقع ہوچکی ہے

 جبکہ دوسری طرف پنجاب بھرمیں مزیدسردی کی شدت میں اضافے اوربارشوں کاامکان بھی بتایاجارہاہے اس سنگین صورتحال میں سکولوں میں جانیوالے بچوں کی صحت اورزندگیاں بھی خطرے کاشکارہیں۔اس حوالے سے والدین سمیت عوامی سماجی حلقوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے پرزورمطالبہ کیاہے کہ فوری طورپرمعاملے کی سنگینی کانوٹس لیاجائے اور کچھ عرصے کیلئے بچوں کے سکولوں کوبندکردیاجائے جب تک کہ سردی اورسموگ کی شدت میں واضح کمی نہیں ہوجاتی۔ ڈاکٹر ید اللہ کہتے ہیں کہ صوبے میں نمونیا سے بچاؤ کے لیے بچوں کو ویکسین بھی لگائی جاتی ہے۔ لیکن وہ بچے جن کی قوتِ مدافعت کم ہو ان کے سردی سے متاثر ہو کر نمونیا سے مبتلا ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ اُن کے بقول پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں نمونیا کے کیسز زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ید اللہ کہتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں چھ سے سات ہزار بچے متاثر ہوئے ہیں اور ان میں زیادہ تر صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اُن کے بقول بچوں کو اسپتال پہنچنے میں تاخیر کی وجہ سے ان کی اموات واقع ہوئی ہیں۔نمونیا کی علامات اور بچاؤ-ڈاکٹر یداللہ کہتے ہیں کہ اگر کسی بچے کو تیز بخار کے ساتھ کھانسی ہے، سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے اور اس کی چھاتی چلنا شروع ہو جائے تو ان کے بقول یہ نمونیا کی بڑی علامتیں ہیں۔اُن کے بقول نمونیا سے پانچ سال سے کم عمر بچے اور وہ معمر افراد متاثر ہوئے ہیں جو شوگر، بلڈ پریشر اور دمے سے متاثر ہیں یا وہ لوگ جن کے پھیپھڑے کووڈ کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئے۔انھوں نے کہا کہ بچوں اور معمر افراد کو سردی سے بچانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ماسک کا استعمال کریں اور ہاتھوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ اس کے ساتھ بچوں کو نمونیا سے بچاؤ کی ویکسین لگوانا بھی ضروری ہے۔


 


 

ایک طلسماتی جشن شہنشاہی

    جب دنیا کی تاریخ میں  منعقد کی جانے والی  ڈھا ئ      ہزار سالہ شاندار ترین تقریب   کا انعقاد ہو نے والا  تھا اس وقت  کا ایرانی  معاشرہ     شیطان کے رنگ  میں  کس طرح رنگ چکا تھا اس تقریب کا احوال پڑھ کر قا رئین کو اندازہ ہو گا کہ ایران کے نوجوان اپنی آزادی کی قیمت لینے کے لئے سر سے کفن باندھ کر نکلے اور تہران کی سڑکوں پر اپنے لہو کا نذرانہ دے کر  اپنی آزادی واپس لے کر ہی دم لیا - سلطنت فارس کے قیام کا 2500 سالہ جشن 12 سے 16 اکتوبر 1971ء کو ایران میں منایا گیا۔یہ دنیا کی تاریخ میں کی جانے والی شاندار ترین تقریبات میں سے ایک تھی۔اس تقریب میں دنیا کے ہر برِاعظم سے بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، شیخ، سلطان، سربراہانِ مملکت، وزیر، سفیر، بزنس کی اہم شخصیات سبھی اس محفل میں شریک ہوئے۔تقریب کا انتظام کرنے کے لیے ڈیڑھ سال پہلے اس کی تیاری شروع کر دی گئی۔ ایران میں انفراسٹرکچر موجود نہ ہونا ایک مسئلہ تھا۔ تقریب کے شایانِ شان ہوٹل نہیں تھے۔ سوچ بچار کے بعد اس کے لیے قدیم شہر پرسیپولس کے صحرا کا انتخاب کیا گیا۔اس صحرا کو جنگل میں بدلا گیا۔ درخت درآمد کیے گئے۔ پندرہ ہزار درخت جہازوں پر لائے گئے۔ پھولدار پودے لگائے گئے۔اٹلی کے مشہور باغبان جارج ٹرروفوٹ کو بلایا گیا کہ وہ چار ہیکٹئر پر مشتمل خوشبودار باغ لگائیں۔ اس کے لیے مٹی منگوائی گئی۔ اس جگہ پر سانپ اور بچھو بہت تھے جو مہمانوں کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔ تیس کلومیٹر تک کے علاقے پر کیمیکل چھڑکے گئے اور رینگنے والے جانوروں کے ٹرکوں کے ٹرک پکڑے گئے۔ اس دوران ایسی انواع بھی ملیں جو نامعلوم تھیں اور انھیں یونیورسٹیوں کو تحقیق کے لیے دیا گیا۔اس جنگل کو آباد کرنے کے لیے یورپ سے پچاس ہزار چہچانے والے پرندے درآمد کیے گئے۔ بیس ہزار چڑیوں کو سپین سے منگوایا گیا

 لیکن پرندوں کی بڑی تعداد چند روز میں ہی مر گئی۔ وہ یہاں کے موسم سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ صحرا میں گالف کورس بنایا گیا۔اس تقریب کا زیادہ تر کام مشہور یورپی کمپینیوں کے حوالے ہوا۔پرسیپولس میں خیموں کا شہر-شاہی خیموں کا شہر بنانے کے لیے پیرس کی مشہور جینسن کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے رہائش کے لیے ائیر کنڈیشنڈ ٹینٹ ڈیزائن کیے جس میں لگژری سویٹ ہوں اور انھیں روایتی ایرانی پردوں سے ڈھکا گیا۔ ہر خیمے میں دو بیڈروم، دو باتھ روم، ایک لاونج، ایک کچن تھا جس میں باورچی اور خدمت گار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر تھے۔ فرانسیسی آرکیٹکٹ، انٹیرئیر ڈیزائنر اور ہنرمندوں کو ایک سال سے زیادہ ان خیموں کی تعمیر پر لگا۔ ان کو پیرس کے ہوائی اڈے کے قریب تعمیر کیا گیا اور سینکڑوں جہازوں میں انھیں پرسیپولس پر پہنچایا گیا۔ خیموں کا یہ شہر 160 ایکڑ پر پھیلا تھا۔ ایک سوشل خیمہ بنایا گیا تھا جس میں بار، ریسٹورنٹ، کسینو تھا۔ ایک اور سپیشل خیمے میں میک اپ سیلون، ہیرڈریسنگ سیلون سیٹ کیے گئے تھے۔ ان میں پیرس کے بہترین ہیرڈریسرز اور میک اپ کے ماہرین کو بلایا گیا تھا کہ وہ مہمانوں کو خدمات مہیا کریں۔ ان کی مہینوں تک خاص ٹریننگ کی گئی تھی کہ وہ تیز رفتاری سے کام کر سکیں۔ اور کیسے صرف چند منٹ میں تاج فٹ کر سکیں۔

 پیرس سے فیشن ڈیزائنرز کی ایک ٹیم بھی بلوائی گئی تھی تا کہ اگر کسی کو اپنے لباس میں آخری وقت پر تراش خراش کروانی پڑے تو خدمات دستیاب ہوں۔ کھانے کے لیے فرانس کے مشہور میکسیم ڈی پیری سے معاملہ ہوا۔ یہ اس وقت دنیا کا بہترین ریسٹورنٹ سمجھا جاتا تھا۔ پارٹی کے وقت یہ ریسٹورنٹ دو ہفتے بند رہا۔ اس کا تمام سٹاف ایران میں دس روز پہلے پہنچ گیا تھا۔ فرانس سے اٹھارہ ٹن خوراک منگوائی گئی۔ ڈھائی لاکھ انڈے۔ 2700 کلوگرام گوشت اور بہت کچھ اور۔ یہاں تک کہ تیس کلوگرام خاویار بھی! مشہور ترین ہوٹلییر میکس بلوئے، اپنی ریٹائرمنٹ چھوڑ کر انتظامات سپروائز کرنے پہنچے۔ اس جگہ تک اتنا سامان پہنچانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس سے پچاس کلومیٹر دور شیراز تھا جہاں ایئر فیلڈ تعمیر ہوا جہاں جہازوں کی آمدورفت ہو سکتی تھی۔ اس ائیرفیلڈ کو پرسیپولس سے ملانے کے لیے ایک ہائی وے تعمیر کی گئی۔ سامان لانے کا کام ایرانی ائرفورس کے سپرد ہوا۔ چھ ماہ تک ایرفورس شیراز اور پیرس کے درمیان سامان کی ترسیل میں مصروف رہی۔ 

شیراز سے آرمی کے ٹرکوں میں سامان منزل تک پہنچا دیا جاتا۔ پردے اور قالین اٹلی سے آئے۔ باکاراٹ کرسٹلز پہنچے۔ برتن لموژے چائنہ کے بنوائے گئے جس میں پہلویوں کا کوٹ آف آرمز کنندہ تھا۔ تولیہ اور چادریں پورٹہو سے۔ پرچ اور پیالیاں رابرٹ ہاویلانڈ سے۔ اور مہنگی ترین شراب کی ہزاروں بوتلیں آئیں جن کا وزن بارہ ٹن تھا۔ کھانا پکانے کے لیے پیرس سے جو سامان آیا، وہ تیس ٹن وزنی تھا۔ جہاز اس کو سرد رکھنے کے لیے برف لے کر آئے۔ تیس میل کی سڑک کو روشن کرنے کے لیے ایرانی آئل کمپنی نے مشعلیں جلانے کا بندوبست کیا۔سیاحت کی وزارت نے شیراز میں دو نئے ہوٹل تعمیر کروائے۔ کروش اور درویش نامی ان ہوٹلوں میں کم اہم مہمانوں اور میڈیا کے لوگوں کو ٹھہرایا گیا۔سیکورٹی -د نیا کے اہم ترین لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو رہے تھے۔ شاہ کی غیر مقبولیت کی دوسری کئی وجوہات بھی تھیں۔ شاہ کو طلبہ کی طرف سے سبوتاژ کیے جانے کا خطرہ تھا۔ سیکورٹی پر 65000 اہلکار تعینات ہوئے۔

 یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں کوئی کھانے میں کوئی چیز نہ ملانے میں کامیاب ہو جائے۔ کھانے کی حفاظت خاص طور سے کی گئی جس تک بہت کم لوگوں کو رسائی تھی۔ بیرے سوئٹزلینڈ سے منگوائے گئے۔ ایران کی سرحد کو تقریب کے دوران سیل کر دیا گیا۔ یونیورسٹیاں اور اسکول بند کر دئے گئے۔ شک کی بنیاد پر ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ طلبہ تنظیموں میں متحرک لوگوں کو تقریب سے چند ماہ قبل احتیاط کے طور پر جیل میں ڈال دیا گیا -اس تقریب کی تشہیرپر خاص توجہ دی گئی۔ مختلف ممالک کے ٹی وی چینلوں کے ساتھ اس کو براہِ راست دکھانے کی ڈیل کی گئی۔ ایران کے قومی فلم بورڈ نے اس تقریب پر فلم “فارس کے شعلے” کے نام سے بنائی جو کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔ انگریزی ڈبنگ کے لیے ہالی وڈ کے ایکٹر اور ڈائریکٹر اورسن ویلز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایرانی سفارتخانوں کو اس تقریب کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک سال پہلے سے کانفرنس، پارٹی، سمپوزیم اور دوسری کلچرل تقریبات کے لیے کہا گیا۔ کئی کتابیں لکھوائی گئیں اور دنیا بھر میں تقسیم کی گئیں۔ یہ کامیاب رہا اور دنیا بھر کے میڈیا میں یہ دعوت توجہ کا مرکز رہی۔ “کون آ رہا ہے؟ کیا پہن رہا ہے؟ کھانے میں کیا ہو گا؟” یہ قیاس آرائیاں خبروں کے طور پر لگتی رہیں۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

عید مباہلہ -ایک عظیم الشان دن

  عید مباہلہ کی اہمیت: مباہلہ کا واقعہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے، جس میں سورہ آل عمران کی آیت 61 میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. اہل تشیع ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر