جمعہ، 31 مئی، 2024

نقل کا زہر ہمارے سماج میں

اس  سال  کراچی کے طالب علموں کے ساتھ جو ظلم ہوا اس کی تمہید میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں  ہے -یوٹیوب پر تمام  کاروائ کی وڈیوز خود منہ بولا ثبوت ہیں -اب اس سے بھی آ گے دیکھئے  کیاکیا  ہوا ہمارے معاشرے میں مستقبل کے معماروں کے ساتھ چیئرمین میٹرک بورڈ سید شرف علی شاہ کو یہ بات ماننا ہوگی کہ اُن کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے نہ صرف خرابیوں میں مزید اضافہ ہوا بلکہ اُن کے ادارے نے ثابت کردیا کہ یہ کام اب اس کے بس کا نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ امتحانات اور رجسٹریشن کی مد میں غریبوں سے کروڑوں روپے بٹورنے والا کراچی ثانوی بورڈ امیدواران کو پُر سکون امتحانی ماحول فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ثانوی بورڈ کراچی اپنی اصل ذمہ داریاں پسِ پشت ڈال کر میٹرک بورڈ آف ریونیو بن چکا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا  یو ٹیوب پر ایک منظر نامے  کی وڈیو دیکھئے -نقل کرنے کی رشوت 500 روپے یہ ایک پیپر کی نقل کی رشوت ہے وصول کرنے والا وصول کر رہا ہے -

یہ منظر سانگھڑ شہر کا ہے  اب آ گے ملاحظہ کیجئے-ایک حکومتی  عہدہ دار کا بھتیجا انتظامیہ کے کمرے میں بیٹھا  نقل کر رہا ہے  مجال ہے جو کوئ اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے نجی اسکولوں کی تعلیمی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی کراچی میٹرک بورڈ کی نااہلی پر۔تو جناب ہوتا یہ ہے کہ امتحانی مراکز سرکاری اور نجی اسکولوں کی عمارتوں میں بنائے جاتے ہیں جبکہ عملہ بھی انہی کا ہوتا ہے،ان عمارتوں کا میٹرک بورڈ کراچی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یعنی یہ بورڈ کی ملکیت نہیں ہوتیں، جب کہ امتحان لینا بورڈ کا کام ہے تو اس اعتبار سے امتحانی مراکز بنانے کی تمام تر ذمہ داری کراچی میٹرک بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔اب یہ اس ادارے کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ کا بندوبست کرے ورنہ کوئی اور کام کرے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ سرکاری اور نجی عمارتوں کو امتحانی مراکز بنا کر وہاں کے عملے کو وہ خیرات کی صورت تھوڑی سی رقم ادا کر کے برسوں سے اربوں روپے بٹور رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امتحانات کے نام پر ہونے والے اس کھلواڑ پر سنجیدگی سے توجہ دیں تاکہ آنے والی نسلوں کو نہ صرف بہترین امتحانی ماحول میسر آ سکے بلکہ تعلیمی میدان میں کامیابیاں حاصل کرنے کی پوری آزادی بھی مل سکے۔ اگر حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو یقیناً ہمارے تعلیمی ڈھانچے میں بہتری لائی جا سکتی ہے،ورنہ علم کی شمع کو بجھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو تاریکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا 

اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات کا آغاز ہوگیا ہے۔ صبح کی شفٹ میں نویں اور دوپہر کی شفٹ میں دسویں جماعت کے پرچے ہوں گے۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، شہید بینظیرآباد، لاڑکانہ، اور میرپورخاص میں ہونے والے امتحانات میں مجموعی طور پر 7 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات شرکت کر رہے ہیں۔اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں نویں جماعت کے پہلے پرچے میں ہی قوانین کی دھجیاں اڑا دی گئیں، کئی شہروں میں امتحانی وقت کے قبل ہی پرچہ واٹس ایپ گروپ پر آؤٹ ہوگیا جب کہ طلبہ وطالبات نے بلا خوف وخطر نقل کی جس کے لیے موبائل فون کا بھی آزادانہ استعمال کیا گی ۔خیرپور میں نویں جماعت کا انگلش کا پرچہ آؤٹ ہوگیا اور واٹس ایپ گروپس میں پیپر شروع ہونے سے قبل ہی گردش کرتا رہا۔ طلبہ موبائل فون کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے بلا خوف وخطر نقل اور فون کی مدد سے پرچے حل کرتے رہے۔یہی صورتحال کوٹ ڈیجی، نارو، تھری میر واہ اور دیگر علاقوں میں رہی جہاں نقل کرانے والا مافیا سرگرم رہا اور تعلیمی بورڈ سکھر کی جانب سے تشکیل دی گئی چھاپہ مار ٹیمیں بھی اس مافیا کے سامنے بے بس ہوگئیں۔لاڑکانہ تعلیمی بورڈ کے زیراہتمام شکارپور، قمبر، دادو، جیکب آباد اور کندھ کوٹ اضلاع میں نویں جماعت کا سندھی کا پرچہ بھی قبل از وقت آؤٹ ہوگیا جس کو واٹس ایپ گروپ کے ذریعے امیدواروں تک پھیلا دیا گیا۔ یہاں بھی دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ کے باوجود موبائل فون کا کھلے عام استعمال کیا گیا۔

 کئی امتحانی مراکز میں ایک گھنٹہ تاخیر سے پیپر شروع کرائے جانے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔: میٹرک امتحانات، کراچی میں راتوں رات امتحانی مراکز تبدیل، طلبہ پریشانسکھر، میرپورخاص، عمر کوٹ سمیت دیگر اضلاع میں پرچہ قبل از وقت آؤٹ ہوا اور  کھلے عام نقل جاری رہی جب کہ  کئی جگہوں پر عملہ بھی نقل میں مدد فراہم کرنے میں مصروف نظر  آیا  مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب تعلیمی بورڈز گورنر کے پاس تھے تو گورنر ہاﺅس کی جانب سے محکمہ تعلیم کے ساتھ ویجی لینس ٹیمیں تشکیل دی جاتی تھیں جو روزانہ کی بنیاد پر میٹرک اور انٹر کے امتحانی مراکز کا دورہ کرتیں اور نقل کرنے والے طلبہ اور انہیں مدد دینے والوں خلاف کارروائی کرتیں، جس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں خاصی کمی ہوئی تھی۔ لیکن رواں سال تو صورتحال انتہائی سنگین ہے۔اس سال امتحانات میں ساڑھے 3 لاکھ سے زائد طلبا و طالبات شریک ہوئے۔ نقل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر کے کئی اسکولوں کو گنجائش سے زیادہ طلبہ کا امتحانی مرکز بنا دیا گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے اسکولز کو مراکز بنایا گیا ہےنقل کے جن کو قابو کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ امتحانات کا انعقاد مقابلے کے امتحانات کی طرح یونیورسٹیز اور بڑے کالجز میں لیا جائے اور اگر ضرورت بڑے تو اسٹیڈیم اور کھیلوں کے گراﺅنڈز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔  

کراچی ہو یا اندرون سندھ سب جگہ ہی بورڈ انتظامیہ کی کارکردگی صفر ہی نظر آرہی ہےاور آج سکھر میں ریاضی کا پرچہ شروع ہونے کے 4 منٹ بعد ہی آؤٹ ہو گیا ۔ امتحانی مراکز کے باہر دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے لیکن پھر بھی اسکولوں کے باہر عوام کا رش ہے جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ گورنمنٹ میونسپل اسکول مینا روڈ کے باہر لڑکیا ں نقل کیلئے مدد فراہم کرتی رہیں۔سندھ بھر ہی میں نقل مافیا کے سامنے میترک بورڈ کی چھاپہ مار ٹیمیں بے بس نظر آرہی ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ سانگھڑ میں پرچہ شروع ہونے سے 15 منٹ پہلے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور ادھر عمر کوت میں امتحانی پرچہ واٹس ایپ پر وائرل ہوا جس کے بعد نقل مافیا سرگرم ہوا اور پھر امتحانی مراکز میں بھرپور نقل جا ری رہی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی میں بھی فزکس کا امتحانی پرچہ شروع ہونے کے 4 منٹ بعد ہی آؤٹ ہو گیا تھا جس کے بعد طلبہ واٹس ایپ کے زریعے نقل کرنے میں مصروف رہے   اگر یہی تعلیمی نظام ہمارے سماج کا خدانخواستہ حصہ بن گیا تو اس وطن کے معماروں کا مستقبل اللہ جانے کیا ہونا ہے

جمعرات، 30 مئی، 2024

یوگی کے استھان پر-میرا افسانہ

 


مندر  میں  موجود اور دیوداسیوں کی طرح  مندر کے بوڑھے  پجاری کی خدمت کرتے ہوئے ایک روز اس نے  پجاری سے سوال کیا تھا پجاری جی میری ماں نے مجھے  یہاں کس لئے چھوڑ اتھا -پجاری اس کے سوال پر کہنے لگا  تیری ماں کی کوئ منت تھی جس کے پورا ہونے پر      اس نے  مندر  کے استھان پر  دان دیا تھا  -اور پھر یوں ہوا کہ مندر کے  بوڑھے پجاری  کے چرنوں میں بیٹھی اس کی  جوانی     جب جوبن پر آئ  تب پجاری  کو اس کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی   وہ اسی کے چرنوں میں ہی  بیٹھی  ہوئ تھی  --پجاری   بلکل بوڑھا ہو گیا تھا   اور تب بھی اس نے اس سے ایک بار بھی نہیں کہا تھا کہ وہ کہیں جا کر باہر کی دنیا دیکھ آئے  -    لیکن ایک روز ایک اجنبی اس کے من مندر میں آ پہنچا   اس نے پجاری کو بتایا  تو پجاری نے اس کو  اپنے جھرّیوں بھرے  چہرے میں دھنسی  ہوئ  آنکھوں سےدیکھتے ہوئے   پہلے تو  ایک دم  آگ بگولہ سا گرم ہو اٹھا  پھر نا جانے کیا سوچ کر ایک دم ہی سنبھل کر  بولا  دیکھ   دیوداسی میں تجھ کو منع نہیں کروں گا ،چل تو خود دیکھ لے  ،،یہاں تو تُو اپنے  من کے رشتے سے رہتی ہے ،،وہاں تو تن  من  د ونوں کے رشتے سے رہے گی ،پھر بھی وہ تیرا نہیں ہو گا ،کیوں پجاری  جی   وہ مجھ سے بہت محبّت کرتا ہے ،
،ہاں میں کب کہ رہا ہوں  کہ وہ محبّت نہیں کرتا ہے ،،اچھّا جا اب  آزما لے پھر آ جایئو ، پھر وہ من مندر کے دیوتا کے لیئے  اپنی سیج سجا کے بیٹھ گئ،اس سیج کو سجانے کے لئے اس کے پریمی  نے مندر کے قریب ہی ایک کرائے کی کھولی لے لی تھی،وہ حسبِ وعدہ  آنے لگا  وہ  شادی شدہ تھا اس لئے دن کے اجالے میں نہیں آسکتا تھا  بس رات ہی اس کو  موزوں تھی اس لئے وہ  ہر  دوسری تیسری رات بلا دھڑک آ تا اس کے ساتھ وقت گزارتا  اور چلا جاتا  -لیکن یہ رات اور راتوں سے زرا مختلف رات تھی ابی دو چار ہفتے ہی  گزرے تھے  کہ اس رات وہ بہت سخت بیمار تھی  اور ہر پل دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی کہ اب وہ آ ئے گا  اور پھر ہر رات کی طرح آج کی رات بھی وہ آیا تھا لیکن آ ج کی رات    وہ بہت بے قرار  تھی   تپ سے اس کا بدن جل رہا تھا  اس کی خواہش تھی آج کی رات اس کا پریمی اس کے پاس ہوتا ،بخار کی حدّت میں وہ پوری طرح ہوش میں نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنے دل میں ایک موہوم سی خواہش  جاگتی  محسوس کی آنے والا اس کے  اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر  تے ہوئے بہت آہستہ سے پوچھے  گا  کہ کیا ہوا؟- پھر وہ آ گیا لیکن وہ بہت  خوفزدہ تھا -اس نےدیوداسی  کو  بتایا  کسی   نے  مخبری کر دی ہے   کہ میں تیرے  دوارے آتا ہوں اس لئے تو جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے کہیں اور چلی جا -اس نے بس اتنا کہا  کہ دیو داسی مجھے  معاف کر دیجو  اور پھر وہ تیزی سے چلا گیا -
  اس کے دل کے کواڑ تمام رات اذیّت سے بجتے رہے  اور لمبی کالی وہ ایک  رات اس کے  دل کی تنہائیوں میں  سسکتی ہوئ  دھیرے دھیرے کھسکتی  رہی  صبح دم وہ اس قابل تو نہیں تھی لیکن اپنے آ پ کو زبردستی اٹھا کر  یوگی کے استھان پر جا پہنچی ابھی تو مندر  کے سنہرے کلس پر دھوپ کی پہلی کرن پر بھی نہیں پڑی تھی ،کلس  ابھی اجلا نہیں میلا نظر آرہا  تھا اور کلس کی مانند اس کا دل بھی میلا تھا ،  مندر کی سیڑھیوں پر اس نے پہلا قدم رکھّا ہی تھا کا مندر کی گھنٹیاں گھونگھر بجانے لگیں اور  سیڑھیا ں چڑھتے ہی  مندر  کے پجاری  نے اس کو دیکھا جو گھنٹیا ں بجا کر ہٹ رہا تھا  اس   کی بھی پہلی نظر پجاری پر پڑی اور  پھر اس نے  ہولے ہولے آگے بڑھتے ہوئے  بلکل مریل آواز میں پجاری کے قدموں میں جھک  کراسے پرنا م کیا  جو اس کو آتا دیکھ کر وہیں ٹھٹھک کر  کھڑا ہو گیا تھا  وہ سیدھی ہوئ  ،تو پجاری نے کہا  بول دیو داسی  کیا ہوا ،وہ کچھ نہیں بول سکی  کیونکہ آنسو اس کے دل  سے نکل کر گلے میں اٹک گئے تھے   پجاری نے اپنی بوڑھی گردن کو ایک  جانب ہلکا سا جھٹکا دیا   اور معنی خیز لہجے میں بولا جان گیا کیا ہوا ،،ہرجائ نہیں  آیا پجاری کی بات کا جواب دینے کے بجائے وہ مندر کے فرش پر پاؤں پسار کر بیٹھ گئ  اور پجاری سے روتے ہوئے کہنے لگی  -
   اور پھر اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آنسووں کی قطاریں اس کے چہرے کو بھگونے لگیں-ہاں مرد کی زات ایسی ہوتی ہےبوڑھے  پجاری نے اپنی جہاں دیدہ  نظروں سے  اسے دیکھتے ہوئے  کہا  ،،،،دیکھ  دیوداسی   میں نے پہلے بھی تجھے سمجھایا تھا  کہ تو بھو گی سنسار کے  ان  ظالم جھمیلوں میں   نا جا -پر تو مانی ہی نہیں  ،،، خیر  ابھی بھی  خیر ہے ---   تو جا  تیرا  مسکن سونا ہے جا کر اسے آباد کر ،،میں جانتا تھا   یہی ہونا تھا ،،پجاری بڑبڑاتا ہوا وہاں سے ہٹ کر  چلا گیا اور دیو داسی اپنی ساری کے پلّو سے اپنے آنسوؤں  کو صاف کرتے ہوئے  یوگی کے استھان  پہ دوبارہ   پناہ لے لی تھی 

بدھ، 29 مئی، 2024

پیر علی محمد راشدی۔روداد چمن


  محترم پیر علی محمد راشدی مرحوم   ہمارے وطن کے ایک جید سیاسی رہنما گزرے ہیں  ان کی ایک تحریر دل کو اچھی لگی جو آپ کے لئے پیش خدمت ہے۔اللہ پاک کا حکم کہ اپنے غصے پر قابو رکھو اور احسان کروانسانوں پر )یہاں لفظ ’’انسان ‘‘ خاص اہمیت کاحامل ہے )۔ہمارے پیغمبر ﷺ کا وہ سلوک جوانہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنے پرانے دشمنوں تک سے روا رکھا۔۔ہمارے قائدا عظم کے ارشادات ،پاکستان دستور ساز اسمبلی کی اولین نشست کے سامنے، ان کے الفاظ یہ ہیں۔’ایک حکومت کی اولین ذمہ داری امن وامان کو برقرار رکھناہوتا ہے ،تا کہ مملکت کی طرف سے اپنے باشندوں کی جان ومال اور مذہبی عقائدکی پوری حفاظت کی جاسکے۔ اس تقسیم میں ایک یا دوسری ڈومینین میں اقلیتوں کا باقی رہنا ناگزیر تھا۔ ہمیں اپنی ساری توجہ لوگوں با لخصوص عوام اور غریبوں کی بہبود پر مرکوز کردینی چاہیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ،ذات یا عقیدہ سے ہو۔اس کا کاروبار َمملکت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی شہری ہیں۔ میرے خیال میں اب ہمیں اس بات کو بطور نصب العین پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور وقت گزرنے پر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ،ہندو نہیں رہیں گے۔ مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی لحاظ سے نہیں، کیونکہ وہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ مملکت کے شہریوں کے طور پر سیاسی لحاظ سے‘‘اس سے وسیع اور بہتر چارٹر کسی نئی ریاست کو پختہ بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے تصور میں آنا مشکل تھا۔مگر قائداعظم کا انتقال ہوتے ہی یہاں WITCH HUNTING کی ابتدا ہو گئی، غدار سازی کے کارخانے کھل گئے، جس اپنے پرائے کو سیاست سے بھگانا مقصود تھا، اس پر غدار اور ’’پاکستان دشمن‘‘ کا لیبل چسپاں ہونے لگا۔

جو الفاظ ہم یہاں کے رہنے والوں نے شاید ہی کبھی سنے تھے وہ یکایک مروج ہوگئے۔ ’’غدار‘‘، ’’ملک دشمن‘‘، ’’سبوئیٹر‘‘، ’’کٹرلنگ‘‘، ’’تخریب پسند‘‘ (بھارت کا جاسوس)، یعنی پچھلی عالمی لڑائی کے دوران اتحادیوں نے جو الفاظ اپنے دشمنوں کی تذلیل اور دل آزاری کیلئے گھڑ لئے تھے، وہ ہم نے بغیر سوچے سمجھے اپنی سیاسی لغت اور اخباری زبان میں شامل کرلئے اور ان کا استعمال اس سارے عرصے میں ہمارا روزمرہ کا مقبول ترین مشغلہ بنا رہا (اعتبار نہ آئے تو اس دور کے اخبارات کے فائل اور تقریروں کا ریکارڈ ملاحظہ کرلیجئے)اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ رہی کہ جس شخص کو آج غدار قرار دیا کل اسی کو بشرط ضرورت گلے لگالیا، پھر الٹا کر دیا، پھر سیدھا کر دیا، پھر جیل میں ڈال دیا یا پڑودا کے تحت خارج کر دیا، پھر اس کو کسی نہ کسی بڑے عہدے پر بٹھا دیا!

غرض اکھاڑ پچھاڑ، الٹ پلٹ، باہمی آبروریزی اور دل آزاری کا یہ سلسلہ برابر 1970-71ء تک جاری رہا اور جو وقت اور قوت قوم کے مختلف ’’طفلان گریزپا‘‘ کو درس محبت دے کر، اپنے ساتھ ملاکر قومی تعمیر کے کام میں لگا دینے پر صرف ہوتی تو داخلی انتشار، باہمی تلخیوں اور جمہوریت کی پراگندگی کے وہ مناظر سامنے نہیں آتے جو پاکستان کے دشمنوں کیلئے باعث خوشنودی اور دوستوں کیلئے وجہ دل گرفتگی بنتے رہے۔افسوس یہ ہے کہ کسی نے یہ نہں سوچا کہ اس کے نتائج آگے چل کر قومی اتحاد و تنظیم اور جمہوریت کے حق میں کیا ہونے والے ہیں۔زبان سے تو سب پاکستان کا بھلا چاہتے تھے اور کہتے یہ تھے کہ وہ قوم کو ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ بنانا چاہتے ہیں، مگر عملاً اپنی غیر مال اندیشی سے، اس دیوار میں ایسے شگاف ڈالتے رہے جن کی نہ مرمت ہو سکتی تھی نہ ان کو چھپایا جا سکتا تھا۔ہاتھ کے زخم مندمل ہو سکتے ہیں، زبان کے چرکے ناسور بن جاتے ہیں۔ آدمی جسمانی اذیت بھول سکتا ہے مگر بے آبروئی بھول نہیں سکتا۔ انسان آخر بشریت کے تقاضوں کے سامنے مجبور ہی رہتا ہے۔یہ مشغلہ غدار سازی کا صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہی نہیں رہا، بلکہ بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ گئی۔ مثلاً منتخب عوامی نمائندوں کو بے آبرو اور مجبور کر کے نوکر شاہی کے قدموں میں ڈال دینے، اور اس طرح سے جمہوری سیاست کو ناکام بنانے کے مقصد سے، درون خانہ نوکر شاہی کے ہی ایما پر قائداعظم کے انتقال کے بعد (ان کی زندگی میں اس قسم کے ’’قانون‘‘ بنانے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی) ایک خاص قانون پروڈا بنایا گیا جس کا بظاہر مقصد تو انتظامی بدعنوانیوں کا احتساب تھا مگر نتیجہ کے اعتبار سے اس کا حقیقی مقصد یہ لگتا تھا کہ، منتخب قومی نمائندوں، وزیروں وغیرہ کی داڑھیاں مستقلاً نوکر شاہی کے ہاتھوں میں دے دی جائیں،تا کہ وہ وزیر، اپنی آبرو بچانے کی خاطر نوکر شاہی کے آدمیوں سے اختلاف نہ کر سکیں۔یہ پہلا قدم تھا، اولاً جمہوریت کو نوکر شاہی کا تابع فرمان بنانے کیلئے اور ثانیاً دنیا کے سامنے پاکستانی عوام اور پبلک لائف کو ذلیل و خوار کرنے کیلئے۔ پروڈا کی کارگزاریوں کے ذریعے یہ دکھا کر کہ پاکستان کے عوام بالعموم ایسے آدمیوں کو منتخب کرتے ہیں جو بددیانت اور بدعنوان ہوتے ہیں اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان کو پکڑنے کیلئے ایک خاص قانون بنانے کی ضرورت پیش آ گی ہے۔ایسا ’’قانون‘‘ دنیا میں کہیں نہیں بنا تھا،حالانکہ یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ دنیا کی جملہ جمہورتیں (بھارت سمیت) فرشتوں پر مشتمل تھیں اور ان کے خلاف کبھی بدعنوانی کی شکایتیں نہیں ہوئیں،اور یہ کیفیت محض پاکستان میں رونما ہوئی تھی کہ پاکستاان بنتے ہی ایک سال کے اندر اندر اکثر سیاست دان بدعنوان بن گئے تھے جن کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ایک خاص قانون کی ضرورت محسوس ہو گئی تھی۔ کون سی جمہوریت میں بدعنوانی کی شکایتیں نہیں ہوئیں؟ امریکہ کے کتنے صدور کے خلاف بدعنوانی کے الزامات اٹھے،(ایک پوری کتاب ہے اس مضمون پر)۔ برطانیہ کے وزیراعظم لائڈ جارج پر الزام آیا کہ اس نے القاب بیچے ہیں، وہیں مارکونی کمپنی کے شیئرز پر بڑے ہنگامے ہوتے رہے، کرچل ڈائون کے پلاٹوں میں ہیرا پھیری ہوئی اور ایک وزیر زیر عتاب آیا، جنوبی امریکہ تو سرتاپا مجسمہ اسکینڈل بنا رہا ہے،مگر کہیں ’’پروڈا‘‘ جیسا ’’قانون‘‘ نہیں بنا،  

پیر، 27 مئی، 2024

ہمارے سفارت کار کس مرض کی دوا ہیں

 دو برس پہلے ہمارے بچے یوکرائن میں رہائ کے لئے دہائیاں دے رہے تھے اور ہمارے سفیر بھنگ پی کر سو رہے تھے -اور پھر آج کے حاضر میں کر غیزستان میں وہی صورتحال ہے 

روس یوکرین جنگ: روس کے زیرِ قبضہ سومی شہر جہاں پاکستانی طلبا کا ایک گروہ محصور ہے

-منزہ انوار-بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آ باد میں یہ  بی بی سی کی رپورٹ جوں کی توں پیش کر رہی ہوں

26 فروری 2022 کی رپورٹ-بلال احمد، ثنا اللہ اور مصباح اللہ۔ ان طلبا کا کہنا ہے کہ آج تیسرا دن ہے وہ دن میں پانچ پانچ چھ چھ مرتبہ سفارت خانے سے رابطہ کرکے مدد مانگ رہے مگر کوئی رسپانس نہیں مل رہا’شہر پر دو دن سے روسی فوجیوں کا قبضہ ہو چکا ہے، ہمارے پاس کھانے پینے کی اشیا اور پیسے ختم ہو رہے ہیں۔۔۔ہم 15 طلبا یہاں پھنسے ہوئے ہیں، ایک دوست نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے روسی فوجیوں نے مارا اور وہ واپس آ گیا۔۔۔ ہم نے یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے مدد کے لیے فون کیا تو اہلکار نے پوچھا ’سومی کہاں ہے‘ ہم تو دنگ رہ گئے کہ کیا آپ واقعی سفارتخانے میں کام کرتے ہیں۔۔۔‘روس کے حملے کے بعد یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستانی طلبا کی اکثریت کو ملک سے نکلنے میں مدد فراہم کی جا رہی ہے اور اب صرف چند ہی طلبا ایسے ہیں جو یوکرین میں موجود ہیں لیکن پاکستانی طلبا کا ایک گروہ یوکرین کے ایسے شہر میں پھنس چکا ہے جہاں روس کی فوج قبضہ کر چکی ہے۔یوکرین پر روسی حملے کے تیسرے دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر صوابی سے تعلق رکھنے والے ثنا اللہ اور ان کے 14 پاکستانی ساتھی روسی سرحد سے 40-50 کلومیٹر پر واقع سومی شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 

یہ سب افراد سومی سٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں -ان طلبا نے مدد کے لیے یوکرین میں واقع پاکستانی سفارتخانے فون کیا تو  پہلے تو بڑیہ مشکل  سے فون ریسیو کیا اور پھرانھیں کہا گیا کہ وہ لییو یا ترنوپل شہر پہنچیں (یہ دونوں شہر سومی سے بالترتیب 900 اور 800 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں)۔دوسری جانب یوکرین میں موجود پاکستانی سفیر میجر جنرل (ریٹائرڈ) نوئیل اسرائیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ انھوں نے سومی میں پھنسے ان طلبا سے بات کی ہے مگر سومی روسی فوجوں کے قبضے میں ہے اور ہم اپنے ذرائع سے انھیں وہاں سے نہیں نکال سکتے۔ تاہم طلبا ایسی کسی بھی گفتگو کی تردید کرتے ہیں۔پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے وزارتِ خارجہ کے ذریعے ماسکو میں سفارتخانے سے درخواست کی ہے کہ وہ روسی فوجوں سے کہیں کہ ان طلبا کی حفاظت کی جائے اور جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے ہم انھیں وہاں سے نکال لیں گے۔’روسی فوجیں ہمیں شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہیں‘

ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ’پہلی بات تو یہ کہ روسی فوجیں ہمیں شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ دوسرا لییو یہاں س90 کلومیٹر جبکہ ترنوپل تقریباً 800 کلومیٹر دور ہے۔ ہمارے پاس نہ تو گاڑی ہے نہ شہر میں پٹرول مل رہا ہے اور نہ یہاں سے کوئی بس یا ٹرین چل رہی ہے۔۔۔ ہر طرف جنگ جاری ہے، ہم اپنے طور پر یہاں سے ان دونوں شہروں تک کیسے جائیں۔‘یہ 15 طالبعلم چاہتے ہیں کہ سفارتخانہ لییو یا ترنوپل پہنچنے کے لیے روسی فوج سے ان کے لیے اجازت نامہ لے اور ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرے یا کسی اور راستے سے انھیں نکالنے کا انتطام کرے مگر ان کے مطابق سفارتخانہ مصر ہے کہ وہ خود اپنے طور پر لییو یا ترنوپل پہنچیں جو فی الحال ناممکن اور خطرناک نظر آتا ہے۔

’یوکرین سے پاکستانی طلبا کی اکثریت کو نکالا جا چکا ہے‘یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق اب تک تقریباً 70 طلبہ کو یوکرین کے شہر خرخیو سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جاری حملوں کا زور بھی اسی شہر میں ہے۔پاکستانی سفیر ڈاکٹر نوئیل اسرائیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں 3000 پاکستانی طلبہ تھے جن میں سے زیادہ تر کو حملوں کی زد میں آئے دو شہروں خرخیو اور کیئو سے نکال لیا گیا ہے۔ ان طلبہ کو دو سے تین گروپ میں پولینڈ بھیجا جائے گا جہاں سے پاکستانی سفارتخانہ انھیں وطن واپس بھیجے گااس سے پہلے یوکرین کے شہر ترنوپل پہنچنے والے 35 طلبہ کو بھی پولینڈ کے ذریعے پاکستان واپس پہنچایا جائے گا۔ ڈاکٹر نویئل کے مطابق اس وقت فائرنگ کی آواز ہر دوسرے منٹ سنائی دے رہی ہے جبکہ ملک کے کئی شہروں میں حملے جاری ہیں۔پاکستانی سفارتخانے نے یوکرین میں موجود طلبہ کو مغربی یوکرین کی طرف جانے کا کہا ہے جو اس وقت سب سے محفوظ ترین خط بتایا جارہا ہے۔

یاد رہے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کی طرح انڈین حکومت بھی اپنے شہریوں کو یوکرین سے نکالنے میں مصروف ہے اور اب تک 470 انڈین طلبا کو یوکرین سے نکال کر رومانیہ کی سرحد پر پہنچایا جا چکا ہے۔ انڈین طلبا کو پولینڈ میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے پولینڈ - یوکرین کی سرحد پر بھی تیاریاں تیز کر دی گئی ہیں۔سفارتخانے نے کہا ’آپ پڑھائی پر توجہ دیں‘ثنا اللہ بتاتے ہیں کہ چونکہ ان کا شہر بالکل سرحد کے قریب ہے اسی لیے آج سے تقریباً ایک ہفتہ قبل انھوں نے سفارتخانے کو مطلع کیا تھا کہ ’یہاں حالات بہت خراب ہو رہے ہیں اور ہم یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، بتائیں ہم کیا کریں؟ جس پر سفارتخانے نے پہلے تو یہ پوچھا کہ ’سومی ہے کہاں؟‘ ہم تو دنگ رہ گئے اور ان سے پوچھا ’کیا آپ واقعی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں؟‘وہ بتاتے ہیں کہ ان کا میڈیکل کے تیسرے سال کا امتحان ہونے والا تھا جس کے باعث یونیورسٹی نے انھیں ہفتہ قبل نکلنے کی اجازت نہیں دی، انھوں نے سفارتخانے سے یہ کہہ کر مدد مانگی کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کریں کیونکہ انھیں خدشہ تھا سب سے پہلے اسی شہر پر قبضہ ہو گا جس پر سفارتخانے نے کہا ’آپ پڑھائی پر توجہ دیں‘۔‘ان طلبا کے مطابق جمعرات کو جب حالات مزید خراب ہوئے اور شہر پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا تو انھوں نے ایک بار پھر سفارتخانے سے رابطہ کیا جس پر انھیں کہا گیا کہ ’آپ خود وہاں سے نکلیں پھر ہم کچھ کرتے  ہیں -زرا سوچیئے کیا   سفارت کاروں کو یہی طریقہ کا ہونا چاہئے جو ہمارے ان مہربانوں کا ہے 

 

 

طلعت حسین -خدا حافظ

  





  زندگی کے پچاس  برسوں پر محیط  فن اداکاری  کے ایک دور کا نام  طلعت حسین  ہے  جو پاکستان کی  نسل نو کے لئے اپنے نقش قدم چھوڑ کر  اپنے مالک کی بارگاہ میں  حاضری  کے لئے  آج  جا چکا  ہے -وہ کچھ عرصے سے علیل  تھے -اب آئیے ان کے فن پر کچھ بات کتے ہیں -ان کا نام ہر ڈرامہ کی کامیابی کی سند ہوا کرتا تھا -لیکن یہ مقام انہوں نے اپنے    خون  جگر کی قیمت دے کر  حاصل کیا تھا -وہ بتاتے ہیں  کہ وہ      ملک سے باہر ویٹر کا کام کرتے تھے ،کیونکہ  اپنی تعلیم کی تکمیل کے لئے ان کو جس اضافی رقم کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہیں ہوتی تھی اس لئے انہوں نے ایک جگہ ویٹر کا کام کرنا شروع کر دیا -اس بارے میں وہ کہتے ہیں ’’مشکل اُس وقت ہوتی تھی جب کوئی پاکستانی فیملی ہوٹل میں کھانا کھانے آتی۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیتی۔ مجھے آرڈر دیتے ہوئے اُنہیں جھجک ہوتی۔ میں ان سے کہتا کہ وہ بے چین نہ ہوں اور اطمینان سے اپنا آرڈر لکھوا دیں۔ اس کے بعد صورتِ حال اُس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی جب اُنہیں بل کے ساتھ ٹپ دینا ہوتی۔ پاکستانی مجھے ٹپ دیتے ہوئے شرماتے تھے۔‘‘طلعت حسین بتاتے ہیں کہ میں نے انگلش لٹریچر میں گریجو یشن کیا۔پھر لندن چلا گیا اور تھیٹر آرٹس میں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے ٹریننگ حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تھیٹر آرٹس پڑھنے کے ساتھ مجھے بی بی سی پر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ یہ اس لحاظ سے یادگار کہہ سکتے ہیں کہ میں نے نہایت پروفیشنل ماحول میں کام کیا اور بہت کچھ سیکھا اور پھر اس کا فائدہ میں نے پاکستان میں آکر خوب اُٹھایا۔ طلعت حسین نے لندن میں ریڈیو پر کام کے دوران یہ کبھی نہیں سوچا تھاکہ کریئر بھی یہیں بنالیا جائے۔ان کاٹارگٹ تھیٹر آرٹس میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آنا تھا۔ اس لئے جونہی تعلیم مکمل ہوئی وطن آگئے۔ وہ وہاں کام کررہے تھے، مواقع مل رہے تھے چاہتے تو وہیں رُک جاتے ۔لیکن انہیں وطن کی محبت  واپس اپنی مٹی پر لے آئ 

اُنہوں نے نا صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائےبچپن میں طلعت حسین کو گلوکار بننے کا شوق تھا۔والد نے ہارمونیم بھی لا کر دیالیکن والدہ کو یہ پسند نہیں تھا۔یوں اُنہیں یہ شوق ترک کرنا پڑا۔پھر وہ پینٹنگ کی طرف راغب ہوئے۔اگر ایک مقابلے میں ہار نہ جاتے تو شاید پینٹر ہوتے۔والد کی یہ خواہش بھی تھی کی وہ لٹریچر خوب پڑھیں۔وہ اُنہیں انگریزی ناول لا کر دیتے بس یہیں سے اُنہیں پڑھنے کا شوق ہوا۔وہ زیادہ تر پیسے کتابوں کی خریداری میں خرچ کرتے۔طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد ہے اور انہوں نے فنون لطیفہ  نصف صدی دی ہےیعنی انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اداکاری، صداکاری اور فنون لطیفہ کو دی۔طلعت حسین نے 1970 سے قبل کم عمری میں ہی اداکاری شروع کردی تھی لیکن انہیں 1970 کے بعد شہرت ملنا شروع ہوئی۔لندن سے تعلیم حاصل کرنے والے طلعت حسین نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغا ز کیا اور انہوں نے برطانوی ٹی وی سمیت بالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔

طلعت حسین نے ٹیلی ویژن کے سیکڑوں ڈراموں میں ایسی لازوال اداکاری کی ہے کہ ان کے نام بتانا بھی بہت مشکل ہے تاہم وہ جس ڈرامے میں نظر آئے ، ان کی جاندار اداکاری کی وجہ سے وہ ڈرامہ ہٹ ہوگیا-طلعت حسین نے زندگی کا نہایت مشکل دور بھی دیکھا ، وہ اداکاری کی اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن میں تھے، اُنہیں ایک نشریاتی ادارے میں تو کام ملنا شروع ہو گیا تھا لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کام سے گزر بسر ممکن نہیں تھی۔اس لئے ویٹر کی جزوقتی ملازمت بھی کی ۔وہ اداکار کے طور پر ایک پہچان بنا چکے تھے اِس لئے یہ کام بہت مشکل ہوتا تھا۔طلعت حسین وہ شخصیت ہیں جو اپنی ذات میں فن کی یونیورسٹی ہیں۔ اُنہوں نے نا صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ گلوکاری اور پیٹنگ میں دلچسپی رکھنے کے باوجود اداکاری کے شعبے میں نام اور مقام بنایا اور کئی اہم دستاویزی فلموں اور کمرشلز میں پس پردہ آواز کا جادو جگایا۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طلعت حسین کے کریئر کی ابتدا بچوں کے ایک رسالہ میں مضامین لکھنے سے ہوئی۔ طلعت حسین دو مرتبہ قرآن پاک کا ترجمہ ریکارڈ کرانے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔ بہت کم فنکار ایسے ہوتے ہیں جن کو تلفظ کی ادائی پر عبور حاصل ہو اور طلعت حسین کا شمار ایسے ہی فنکاروں میں ہوتا ہے جو لفظوں کی ادائی میں بھر پور صوتی تاثرات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ طلعت حسین اداکاری پر ہی نہیں ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں اور ہر وقت ان شعبوں کی قدیم و جدید کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔طلعت حسین بلا شبہ وہ فنکار ہیں جوپاکستان کی پہچان ہیں اور انہوں نے عوام کے دلوں پہ اپنی اداکاری کے وہ نقش ثبت کئے ہیں کہ انہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ارجمند، آنسو،طارق بن زیاد ،یس پردیس، عید کا جوڑ،افنون لطیفہ، ہوائیں،اک نئے موڑ پہ، پرچھائیاں،دی کاسل ،ایک امید،ٹائپسٹ، انسان اور آدمی، رابطہ، نائٹ کانسٹیبل اور درد کا شجر وغیرہ ان کے مقبول ڈرامے ہیں۔انہوں نے متعدد فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں چراغ جلتا رہا گمنام، انسان اور آدمی، جناح، لاج قربانی، سوتن کی بیٹی(انڈین) ،اشارہ ،آشنا ،بندگی اورمحبت مر نہیں سکتی وغیرہ شامل ہیں۔

جیسا کہ بتایا گیا کہ بچپن میں طلعت حسین کو گلوکار بننے کا شوق تھا۔والد نے ہارمونیم بھی لا کر دیالیکن والدہ کو یہ پسند نہیں تھا۔یوں اُنہیں یہ شوق ترک کرنا پڑا۔پھر وہ پینٹنگ کی طرف راغب ہوئے۔اگر ایک مقابلے میں ہار نہ جاتے تو شاید آج پینٹر ہوتے۔والد صاحب کی یہ خواہش بھی تھی کی وہ لٹریچر خوب پڑھیں۔وہ انہیں انگریزی ناول لا کر دیتے بس یہیں سے انہیں پڑھنے کا شوق ہوا۔وہ زیادہ تر پیسے کتابوں کی خریداری میں خرچ کرتے۔درحقیقت طلعت حسین کے والدین پڑھے لکھے اور براڈ مائنڈڈ لوگ تھے۔والد تقسیمِ ہندسے پہلے سرکاری ملازم تھے اور والدہ ریڈیو پر شوقیہ پروگرام کیا کرتی تھیں۔ ا    ن کے خاندان  کے  لوگ دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔

اتوار، 26 مئی، 2024

امام جعفر صادق علیہ السلام

 

۔ لاکھوں درود وسلام حضرت محمّد نبئ آخر الزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر اور آپ کے ائمّہ ہدیٰ پر کہ جن پر خدائے پاک خود بھی درودبھیجتا ہے ،پروردگارِ عالم نے اس ارض البلاد پر انسانوں کی رہبری کے واسطے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین مبعوث کئے اور ختمی مرتبت سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم کی آمدِ مبارک کے ساتھ سلسلہء نبوّت کو موقوف کردیالیکن شانِ خداوندی اور کرمِ الٰہی کہ یہ شرف صرف خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو عطا کیا کہ نسلِ ابراہیم علیہ السّلام شروع ہونےوالا یہ سلسلہء ہدائت افضل الانیبیاء  کی نسلِ پاک و مطّہر تک آیا اورپھرنبوّت کے  اسی سلسلے سے  ہی امامت کے دائماً روشن مینارے صحنِ امامت میں نصب کر دئے-یہ ائمّہ ء ہدیٰ اپنے اپنے وقت کے ظلم و جور سے بھرے ہوئے معاشرے میں زہدو تقویٰ ایثارِ کریمانہ کے اور پیکرِ صبر و استقامت کے مجسّم علامت ونمونہ تھے 

امام باقر علیہ السّلام کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند امام ششّم حضرت امام جعفرِ صادق علیہ السّلام مسندِ اما مت پر جلوہ افروز ہوئے اما م جعفر صادق علیہ السّلام، حضرت محمد باقر کے فرزند اور اہل تشیع میں حضرت علی علیہ السّلام  سے شروع ہونے والے سلسلۂ امامت کے چھٹے  امام تھے۔  تمام شیعان علی  کے  افراداپنے نام کے ساتھ جعفری  آپ  کی نسبت سے لگاتے ہیں۔ان کا نام جعفر، کنیت ابو عبداللہ اور لقب صادق تھا۔ آپ امام محمد باقرعلیہ السلام کے بیٹے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اورشہید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے پرپوتے تھے۔ سلسلۂ عصمت کی آٹھویں  منزل  اور آئمۂ اہلبیت علیہم السّلام میں سے چھٹےامام تھے آپ کی والدہ حضرت محمد ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں جن کی والدہ قاسم ابن محمد رضی اللہ عنہ مدینہ کے سات فقہا میں سے تھے۔83ھ میں 17 ربیع الاول کو آپ کی ولادت ہوئی۔ اس وقت آپ کے دادا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بھی زندہ تھے۔ آپ کے والدحضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی عمر اس وقت چھبیس برس تھی۔ خاندان آلِ محمد میں اس اضافہ کا انتہائی خوشی سے استقبال کیا گیا۔ا

س دور میں بنوامیّہ کے اقتدار کا کالا سورج غروب ہو کر ایک اور ظلمتوں کی تاریک رات اپنے جلو میں لے کرسیاہ سورج بنو عبّاس کے نام سے طلوع ہو رہا تھا یہ دوربھی حسبِ سابق اما م ِوقت کا دشمن تھا لیکن اس وقت کی ایک اچھّی بات یہ ہوئ کہ بنو امیّہ اوربنو عبّاس کے انتقالِ اقتدار اور حصولِ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں امام ِ وقت حضرت جعفرِ صادق علیہ السّلام  کی جانب ان کودیکھنے کا موقع نہیں مل سکا اور اس طرح امام جعفرِ صادق علیہ السّلام کواپنے دیگر آبائے طاہرین کی نسبت فروغِ علم کے لئے کام کرنے کابہتر موقع میسّر آیا اور اسی دور میں آپ علیہ السّلام نے اپنی مشہورِ زمانہ جعفریہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھ کر اس کو ایک ایسے درخشان مرکز علم کا درجہ دےدیا جس کی روشنی تا قیامت ماند نہیں ہو سکتی ہے

۔ لاکھوں درود وسلام حضرت محمّد نبئ آخر الزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر اور آپ کے ائمّہ ہدیٰ پر کہ جن پر خدائے پاک خود بھی درودبھیجتا ہے ،پروردگارِ عالم نے اس ارض البلاد پر انسانوں کی رہبری کے واسطے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین مبعوث کئے اور ختمی مرتبت سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم کی آمدِ مبارک کے ساتھ سلسلہء نبوّت کو موقوف کردیالیکن شانِ خداوندی اور کرمِ الٰہی کہ یہ شرف صرف خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو عطا کیا کہ نسلِ ابراہیم علیہ السّلام شروع ہونےوالا یہ سلسلہء ہدائت افضل الانیبیاء  کی نسلِ پاک و مطّہر تک آیا اورپھرنبوّت کے  اسی سلسلے سے  ہی امامت کے دائماً روشن مینارے صحنِ امامت میں نصب کر دئے  -یہ ائمّہ ء ہدیٰ اپنے اپنے وقت کے ظلم و جور سے بھرے ہوئے معاشرے میں زہدو تقویٰ ایثارِ کریمانہ کے اور پیکرِ صبر  استقام کے مجسّم علامت ونمونہ تھے ،تمام کے تمام گیارہ امامینِ کریمین کو انتہائ نامساعد صورتحال میں زندگی بسر کرنے کے حالات کا سامنا رہا 

جبکہ بارہویں اما م علیہ السلام کوپردہء غیبت میں نہائت صغر سنی میں بلا لیا گیارہ اماموں کی حیات طیّبہ کا مطالعہ کرتے ہوئے اما مِ مظلوم سیّداشّہدا نے کارزارِ کربلامیں شہادت کا مرتبہ پایا اور باقی ائمّہ طاہرین نے اپنے اپنے وقت کےستمگروں کے ہاتھوں شہادت پائ ان ائمّہ طاہرین میں  بالخصوص چوتھے اما م سیّدِ سجّاد جوکائنات کے سانحہء عظیم معرکہء کربلا سے گزر کر مدینے تشریف لائے تھے آپ علیہ السّلام کو اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی دشمنانِ اسلا م چین سے نہیں بیٹھنے دیتے تھے ،،لیکن آفرین ہے -میرے غریب امام علیہ السّلام پرکہ اتنے کڑے وقتوں میں بھی آپ نے دعاؤں کے زریعے اپنا علمی سرمایہ مدینے کے عوام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا،آپ کے وقت کی سب سے بڑی فتنہ انگیزی یہ تھی کہ آئے دن امامت  کے مرتبہ پر کسی بھی دینی پیشواکو  تخت شاہی پر اما م بنا کر متعارف کروا دیا جاتا تھا -اس طرح چار فقہ وجود میں آگئے -آپ علیہ السلام نے    شیعان علی علیہ السلام کی جداگانہ شناخت کی حفاظت کے لئے شیعہ  قوم کے ہر فرد کو جعفری کی نسبت سے جوڑ دیا

بدھ، 22 مئی، 2024

بھنبھور کی قدیم مسجد

ِ

 


کھدائی شروع تو ہوئی مگر بات کچھ زیادہ آگے نہ بڑھ سکی اور کچھ عرصے بعد یہ کھدائی روک دی گئی۔ پاکستان بننے کے بعد سنہ 1951 میں محکمہ آثار قدیمہ کے ایک افسر لیزلی الکوک کی نگرانی میں یہ کام دوبارہ شروع ہوا۔الکوک صاحب نے سرسری کھدائیاں کیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں اسلامی زمانے سے پہلے کے کوئی آثار موجود نہیں و یہاں کی کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ وہی شہر دیبل ہے جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا۔

سنہ 1957 میں اس کام کی نگرانی پاکستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ایف اے خان کے سپرد کر دی گئی جنھوں نے سنہ 1965 تک اس شہر کی کھدائی کا کام سرانجام دیا۔ ان کھدائیوں کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ شہر تقریباً دو ہزار سال قدیم ہے اور پہلی صدی عیسوی سے 13ویں صدی عیسوی تک اپنے عروج پر تھا۔سنہ 1966 میں شائع ہونے والے پاکستان محکمہ آثار قدیمہ کے کتابچے ’بنبھور‘ کے مطابق انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ وہی بندرگاہ تھی جہاں سکندر اعظم نے اپنی فوجوں کو تقسیم کیا تھا۔تازہ کھدائیوں کے بعد محققین نے دعویٰ کیا کہ لیزلی الکوک کا خیال غلط ہے اور یہ وہی شہر ہے جو عرب میں بنو امیہ کے دور حکومت کے وقت ہندوستان میں دیبل کے نام سے آباد تھا اور اس وقت سندھ کا تجارتی مرکز تھا۔ یہاں سے تاجروں کے قافلے سمندر اور خشکی کے راستے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کرتے تھے۔ یہی وہ شہر تھا جسے محمد بن قاسم نے 712 میں فتح کیا تھا۔رفتہ رفتہ اس شہر کی قدامت اور تہذیب کے مختلف پہلو سامنے آتے رہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس شہر کے وجود کی نشاندہی ہوتی رہی۔ کچھ محققین نے بتایا کہ یہی وہ شہر ہے جو محبت کی مشہور لوک داستان سسی پنوں کا مرکز تھا۔

محبت کی یہ داستان شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی کتاب ’شاہ جو رسالو‘ میں رقم کی اور یوں اسے لازوال بنا دیا۔ سسی پنوں کی داستان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنبھور ایک بہت ہی خوشحال اور بڑا شہر تھا۔ پنوں کیچ مکران کا شہزادہ تھا اور وہ تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ بنبھور آیا تھا۔دو مارچ 1958 کو بنبھور میں آثار قدیمہ کی کھدائی کا آغاز ہوا۔ ایف اے خان کو ان کھنڈرات میں دو اہم تعمیرات کا سراغ ملا، ایک تو مضبوط قلعہ بند شہر پناہ جو مشرق سے مغرب کی طرف 200 فٹ چوڑی اور شمال سے مغرب کی طرف 1200 فٹ طویل تھی۔محکمہ آثار قدیمہ کے کتابچے ’بنبھور‘ میں درج تفصیلات کے مطابق اس شہر پناہ کی تعمیر کا سراغ سنہ 1958 میں ملا، دو برس بعد 17 جون 1960 کو محکمہ آثار قدیمہ کو انھی کھنڈرات میں ایک مسجد کے آثار ملے جو محکمہ آثار قدیمہ کے بیان کے مطابق برصغیر میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد کے آثار تھے۔مسجد سے برآمد ہونے والے کتبوں پر خط کوفی میں تحریر کی گئی ایک عبارت کے مطابق یہ مسجد 109 ھجری (سنہ 727) میں تعمیر ہوئی تھیاس مسجد کے ساتھ ہی کچھ کتبے بھی برآمد ہوئے جن پر خط کوفی میں تحریر کی گئی ایک عبارت کے مطابق یہ مسجد 109 ھجری (سنہ 727) میں تعمیر ہوئی تھی۔

اس تحریر کی برآمدگی کے بعد ماہرین آثار قدیمہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مسجد برصغیر میں تعمیر ہونے والی اولین مسجد تھی جو محمد بن قاسم کے ساتھیوں نے تعمیر کروائی تھی۔ تاہم چیرامن کے مقام پر سنہ 628 میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے دعوے کے بعد بنبھور کی یہ مسجد برصغیر کی پہلی مسجد تو نہیں کہلائی جا سکتی البتہ اسے موجودہ پاکستان کی سرزمین پر تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ماہرین آثار قدیمہ کے اس دعوے کو مشہور مؤرخ اے بی راجپوت نے اپنی کتاب ’آرکیٹیکچر اِن پاکستان‘ میں بھی تسلیم کیا اور محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی شائع کردہ مطبوعات خصوصاً ’بنبھور‘ نامی کتابچے میں مزید سند عطا کی۔بنبھور کے آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والی اس پہلی مسجد کے آثار کی برآمدگی 23 ستمبر 1962 کو مکمل ہوئی۔ بتایا گیا کہ یہ مسجد کم و بیش مربع تھی۔ اس مسجد کا طول 122 فٹ اور عرض 120 فٹ تھا۔ اس کے چاروں طرف چونے کے پتھر کی اینٹوں کی ایک ٹھوس دیوار تھی جس کی موٹائی تین سے چار فٹ تھی۔ مسجد کے صحن کا طول 75 فٹ اور عرض 58 فٹ تھا، یہ صحن اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔

مسجد کے تین اطراف میں دالان اور غلام گردشیں تھیں، جن کی چھت لکڑی کے قطار در قطار ستونوں پر قائم تھی۔ کھدائیوں سے ملنے والے آثار سے معلوم ہوا کہ یہ دالان چھوٹے چھوٹے حجروں میں تقسیم تھے اور ہر حجرہ نو سے گیارہ فٹ بڑا تھا۔مسجد کی مغربی جانب ایک وسیع ایوان تھا جس کی چھت 33 ستونوں پر قائم تھی۔ مسجد میں وضو کرنے کا ایک چبوترا بھی تھا جس پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔یہ بھی اندازہ ہوا کہ آخری زمانے میں یہ چبوترا گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا -

یہ بھی اندازہ ہوا کہ آخری زمانے میں یہ چبوترا گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا جس پر مٹی کے چراغ رکھے جاتے تھے۔ فرش پر ان چراغوں کا ایک ڈھیر بھی برآمد ہوا۔ مسجد کے دو بڑے دروازے تھے جو مشرقی اور شمالی سمت میں واقع تھے اور ایک چھوٹا دروازہ مغرب میں تھا جس کے ساتھ سیڑھیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔مشرقی دروازہ مسجد کا صدر دروازہ تھا جو ساڑھے پانچ فٹ چوڑا تھا۔ اس دروازے کے قریب ایک بڑے کتبے کے ٹکڑے بھی ملے جن پر خط کوفی میں تحریریں موجود ہیں۔یہ صدر دروازہ خاصی بری حالت میں ملا تاہم مسجد کا شمالی دروازہ نسبتاً اچھی حالت میں تھا۔ یہ دروازہ سات فٹ چوڑا تھا اور اس کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ اس دروازے کے اندرونی حصے میں بھی چوکھٹے اور دہلیز کے نشانات موجود تھے۔

ان چوکھٹوں پر لگی ہوئی لکڑی گل چکی تھی۔ اس مسجد میں کوئی محراب نہیں تھی اوراس کا نقشہ کوفہ اور واسط کی مساجد سے مشابہہ تھا اور انھی کا تسلسل لگتا تھا۔ کوفہ اور واسط کی مساجد بالترتیب 670 اور 702 میں تعمیر ہوئی تھیں اور ان میں بھی کوئی محراب نہیں تھی۔ بنبھور میں برآمد ہونے والی یہ مسجد تیرہویں صدی عیسوی تک قائم رہی۔بنبھور کی اس مسجد سے خط کوفی میں لکھے ہوئے کئی کتبات بھی برآمد ہوئے جو پتھروں پر کندہ تھے۔ یہ کتبات فن خطاطی کا بہت عمدہ نمونہ ہیں۔ یہ کتبات 109 ہجری (سنہ 727) اور 294 ہجری (سنہ 906) کے دوران تحریر کیے گئے تھے۔س مسجد کے شمال کی جانب ایک نہایت وسیع عمارت کے آثار بھی پائے گئے جس کے متعلق گمان کیا گیا کہ یا تو یہ مسجد سے ملحقہ مدرسہ ہے یا سرکاری نظم و نسق کی کوئی عمارت۔ اس عمارت کا دروازہ بہت شاندار تھا جو مسجد کے شمالی دروازے کے بالکل سامنے کھلتا تھا۔بنبھور کے آثار کی کھدائی مکمل ہونے کے بعد 14 مئی 1967 کو نیشنل بینک آف پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر ممتاز حسن نے اس مقام پر ایک تاریخی عجائب گھر کا افتتاح کیا جہاں وہ نوادرات رکھے گئے ہیں جو بنبھور کی کھدائی کے دوران برآمد ہوئے تھے اور بنبھور کی تاریخ کا پتا دیتے ہیں۔جس پر مٹی کے چراغ رکھے جاتے تھے۔ فرش پر ان چراغوں کا ایک ڈھیر بھی برآمد ہوا۔ مسجد کے دو بڑے دروازے تھے جو مشرقی

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

عید مباہلہ -ایک عظیم الشان دن

  عید مباہلہ کی اہمیت: مباہلہ کا واقعہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے، جس میں سورہ آل عمران کی آیت 61 میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. اہل تشیع ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر