اس سال کراچی کے طالب علموں کے ساتھ جو ظلم ہوا اس کی تمہید میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے -یوٹیوب پر تمام کاروائ کی وڈیوز خود منہ بولا ثبوت ہیں -اب اس سے بھی آ گے دیکھئے کیاکیا ہوا ہمارے معاشرے میں مستقبل کے معماروں کے ساتھ چیئرمین میٹرک بورڈ سید شرف علی شاہ کو یہ بات ماننا ہوگی کہ اُن کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے نہ صرف خرابیوں میں مزید اضافہ ہوا بلکہ اُن کے ادارے نے ثابت کردیا کہ یہ کام اب اس کے بس کا نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ امتحانات اور رجسٹریشن کی مد میں غریبوں سے کروڑوں روپے بٹورنے والا کراچی ثانوی بورڈ امیدواران کو پُر سکون امتحانی ماحول فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ثانوی بورڈ کراچی اپنی اصل ذمہ داریاں پسِ پشت ڈال کر میٹرک بورڈ آف ریونیو بن چکا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا یو ٹیوب پر ایک منظر نامے کی وڈیو دیکھئے -نقل کرنے کی رشوت 500 روپے یہ ایک پیپر کی نقل کی رشوت ہے وصول کرنے والا وصول کر رہا ہے -
یہ منظر سانگھڑ شہر کا ہے اب آ گے ملاحظہ کیجئے-ایک حکومتی عہدہ دار کا بھتیجا انتظامیہ کے کمرے میں بیٹھا نقل کر رہا ہے مجال ہے جو کوئ اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے نجی اسکولوں کی تعلیمی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی کراچی میٹرک بورڈ کی نااہلی پر۔تو جناب ہوتا یہ ہے کہ امتحانی مراکز سرکاری اور نجی اسکولوں کی عمارتوں میں بنائے جاتے ہیں جبکہ عملہ بھی انہی کا ہوتا ہے،ان عمارتوں کا میٹرک بورڈ کراچی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یعنی یہ بورڈ کی ملکیت نہیں ہوتیں، جب کہ امتحان لینا بورڈ کا کام ہے تو اس اعتبار سے امتحانی مراکز بنانے کی تمام تر ذمہ داری کراچی میٹرک بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔اب یہ اس ادارے کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ کا بندوبست کرے ورنہ کوئی اور کام کرے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ سرکاری اور نجی عمارتوں کو امتحانی مراکز بنا کر وہاں کے عملے کو وہ خیرات کی صورت تھوڑی سی رقم ادا کر کے برسوں سے اربوں روپے بٹور رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امتحانات کے نام پر ہونے والے اس کھلواڑ پر سنجیدگی سے توجہ دیں تاکہ آنے والی نسلوں کو نہ صرف بہترین امتحانی ماحول میسر آ سکے بلکہ تعلیمی میدان میں کامیابیاں حاصل کرنے کی پوری آزادی بھی مل سکے۔ اگر حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو یقیناً ہمارے تعلیمی ڈھانچے میں بہتری لائی جا سکتی ہے،ورنہ علم کی شمع کو بجھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو تاریکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا
اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات کا آغاز ہوگیا ہے۔ صبح کی شفٹ میں نویں اور دوپہر کی شفٹ میں دسویں جماعت کے پرچے ہوں گے۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، شہید بینظیرآباد، لاڑکانہ، اور میرپورخاص میں ہونے والے امتحانات میں مجموعی طور پر 7 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات شرکت کر رہے ہیں۔اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں نویں جماعت کے پہلے پرچے میں ہی قوانین کی دھجیاں اڑا دی گئیں، کئی شہروں میں امتحانی وقت کے قبل ہی پرچہ واٹس ایپ گروپ پر آؤٹ ہوگیا جب کہ طلبہ وطالبات نے بلا خوف وخطر نقل کی جس کے لیے موبائل فون کا بھی آزادانہ استعمال کیا گی ۔خیرپور میں نویں جماعت کا انگلش کا پرچہ آؤٹ ہوگیا اور واٹس ایپ گروپس میں پیپر شروع ہونے سے قبل ہی گردش کرتا رہا۔ طلبہ موبائل فون کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے بلا خوف وخطر نقل اور فون کی مدد سے پرچے حل کرتے رہے۔یہی صورتحال کوٹ ڈیجی، نارو، تھری میر واہ اور دیگر علاقوں میں رہی جہاں نقل کرانے والا مافیا سرگرم رہا اور تعلیمی بورڈ سکھر کی جانب سے تشکیل دی گئی چھاپہ مار ٹیمیں بھی اس مافیا کے سامنے بے بس ہوگئیں۔لاڑکانہ تعلیمی بورڈ کے زیراہتمام شکارپور، قمبر، دادو، جیکب آباد اور کندھ کوٹ اضلاع میں نویں جماعت کا سندھی کا پرچہ بھی قبل از وقت آؤٹ ہوگیا جس کو واٹس ایپ گروپ کے ذریعے امیدواروں تک پھیلا دیا گیا۔ یہاں بھی دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ کے باوجود موبائل فون کا کھلے عام استعمال کیا گیا۔
کئی امتحانی مراکز میں ایک گھنٹہ تاخیر سے پیپر شروع کرائے جانے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔: میٹرک امتحانات، کراچی میں راتوں رات امتحانی مراکز تبدیل، طلبہ پریشانسکھر، میرپورخاص، عمر کوٹ سمیت دیگر اضلاع میں پرچہ قبل از وقت آؤٹ ہوا اور کھلے عام نقل جاری رہی جب کہ کئی جگہوں پر عملہ بھی نقل میں مدد فراہم کرنے میں مصروف نظر آیا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب تعلیمی بورڈز گورنر کے پاس تھے تو گورنر ہاﺅس کی جانب سے محکمہ تعلیم کے ساتھ ویجی لینس ٹیمیں تشکیل دی جاتی تھیں جو روزانہ کی بنیاد پر میٹرک اور انٹر کے امتحانی مراکز کا دورہ کرتیں اور نقل کرنے والے طلبہ اور انہیں مدد دینے والوں خلاف کارروائی کرتیں، جس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں خاصی کمی ہوئی تھی۔ لیکن رواں سال تو صورتحال انتہائی سنگین ہے۔اس سال امتحانات میں ساڑھے 3 لاکھ سے زائد طلبا و طالبات شریک ہوئے۔ نقل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر کے کئی اسکولوں کو گنجائش سے زیادہ طلبہ کا امتحانی مرکز بنا دیا گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے اسکولز کو مراکز بنایا گیا ہےنقل کے جن کو قابو کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ امتحانات کا انعقاد مقابلے کے امتحانات کی طرح یونیورسٹیز اور بڑے کالجز میں لیا جائے اور اگر ضرورت بڑے تو اسٹیڈیم اور کھیلوں کے گراﺅنڈز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
کراچی ہو یا اندرون سندھ سب جگہ ہی بورڈ انتظامیہ کی کارکردگی صفر ہی نظر آرہی ہےاور آج سکھر میں ریاضی کا پرچہ شروع ہونے کے 4 منٹ بعد ہی آؤٹ ہو گیا ۔ امتحانی مراکز کے باہر دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے لیکن پھر بھی اسکولوں کے باہر عوام کا رش ہے جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ گورنمنٹ میونسپل اسکول مینا روڈ کے باہر لڑکیا ں نقل کیلئے مدد فراہم کرتی رہیں۔سندھ بھر ہی میں نقل مافیا کے سامنے میترک بورڈ کی چھاپہ مار ٹیمیں بے بس نظر آرہی ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ سانگھڑ میں پرچہ شروع ہونے سے 15 منٹ پہلے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور ادھر عمر کوت میں امتحانی پرچہ واٹس ایپ پر وائرل ہوا جس کے بعد نقل مافیا سرگرم ہوا اور پھر امتحانی مراکز میں بھرپور نقل جا ری رہی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی میں بھی فزکس کا امتحانی پرچہ شروع ہونے کے 4 منٹ بعد ہی آؤٹ ہو گیا تھا جس کے بعد طلبہ واٹس ایپ کے زریعے نقل کرنے میں مصروف رہے اگر یہی تعلیمی نظام ہمارے سماج کا خدانخواستہ حصہ بن گیا تو اس وطن کے معماروں کا مستقبل اللہ جانے کیا ہونا ہے