بدھ، 1 مئی، 2024

پیار کا وعدہ ففٹی'ففٹی-پارٹ 2

<\head>

 ماسی نےپانچ سو کانوٹ اپنے ایک ہاتھ مین پکڑ کر اسے دوسرے ہاتھ سےلپیٹ کر اپنی میلی کچیلی اوڑھنی کے پلّو مین باندھ لیا اور دعائیں دیتی ہوئ گھر سے چلی گئ ماسی کوگئے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ایک چھٹّی کے دن راحیل اور انیتا دونو ں ہی لاؤنج میں بیٹھے یہی بات کر ہےتھے اس بارگاؤں سے آنے والی ماسی بار بار کےجانے آنے کی فرمائشیں کر کے تنگ نہ کرے گی ان کے درمیان ابھی یہی بات چیت  جاری تھی دروازے کی بیل پر راحیل نے دروازہ کھولاتو ماسی چند روز ہی گاؤن میں گزار کر واپس آگئ تھی اوراپنے ساتھ ایک پکّے رنگ کی سانولی سلونی اچھّے قد کاٹھکی لڑکی بھی ساتھ لے کر آئ تھی ،،،،گھر کے اندر آتے ہی اس نے انیتا سےکہا یہ میری نواسی ہے بیگم صاب اور پھر لڑکی کی طرف گھوم کر بولی سلام کر شنّو،،شنّو نےاس حکم پر مشینی انداز میں اپنا ایک ہاتھ ماتھے پررکھ کرکھردری آوازمیں کہا سلام بیگم صاب ،صاب جی کو بھی سلام کر،اور پھر شنّو نے راحیل کو دیکھکرکہا سلام صاب جی ،وعلیکم وسّلا م اور سلام کا جواب دے کر راحیل نے محسوس کیا کہ اب اسکی وہاں ضرورت نہیں ہے اس لئے اٹھ کر اندر چلاگیا اور پھر بوڑھی مدقوق ماسی تو وہیں انیتاکے قدموں میں بیٹھ گئ لیکن شنّوجہاں کھڑی تھی کھڑی ہی رہی ،تم تو زیادہ  دن کی چھٹّی  کا کہ کر گئیں تھیں پھر اتنی جلدی کیسے آگئیں -

بیگم صاب جنازہ تو ہو ہی گیا تھا پھر میں کیا کرتی وہاں رہ کر  اس لئے واپس آگئ -اچھا کیا   انیتا نے ماسی کو جواب دیا پھر شنّو سے سوال کیا -کیا کیا کام کر لیتی ہو؟ انیتا نے جیسے ہی شنّو سے سوال کیا اس کی زبان قینچی کی طرح چل پڑی بیگم صاب سارے کام کر لیتی ہوں جھاڑو پونچھا ،آٹا روٹی ،ہنڈیا سالن،کپڑے استری ،،،،اور۔ اور،لیکن انیتا نے اسے روک دیا ،،بس ،،،معلوم ہو گیا آؤ اب میں تمھیں  تمھارے رہنے کی جگہ دکھا دوں ،انیتا کہ کر اٹھ کھڑی ہوئ اوردونوں نانی نوا سی کو اپنے ساتھ لے کر سرونٹ کواٹر   راحیل نے صرف اسی ایک مقصدسے نوک پلک سے سنوارا تھا کہ نئ آنے والی ماسی کا دل کواٹر کی آسائشیں دیکھ کرہی لگ جائے ،،،،کواٹر کے اندر آکر شنّو کی آنکھوں میں خوشی کے ستارے چمکنے لگےاور اس کی بوڑھی نانی کی چندھی آنکھیں مذید چندھیا گئیں کہ اب وہ بھی اس جگہ چین سکون سے بیٹھ کر دو روٹی کھاسکے گی ,,,,,,اور پھر شنّو کے شب وروز انیتا کےاحکامات کے پابند ہو گئے ،آ نے والے دنون میں جب ایک چھٹّی کا دن تھا اور اسوقت شنّو کو انیتا کے حکم کے مطابق کچن کیبنٹ کی صفائ کرنا تھی جس کے لئے وہ کچن میں آچکی تھی  کہ انیتابھی اپنے چہرے پر کولڈ کریم کا مساج کرتے ہوئے آگئ اور شنّو سے بولی,ارے شنّو دیکھ صاحب کے کپڑے پہلے استری کر دے پھر دوسرا کام کرنا,,وہ کہیں جانے کو کہ رہے تھے اور شنّو انیتا کے حکم دیتے ہی وہاں سے پل بھر میں چھلاوے کی طرح ہٹ کر استری اسٹینڈ پر تھی ،،

اس نے راحیل کے کپڑے استری کر کے ان کو ہینگر پر ڈالا اور ہینگر پکڑ کرانیتا کے پاس آکر بولی بیگم صاب کپڑے استری کردئے ہیں ،اور انیتا نے اس سے کہا ارے یہ میرے پاس کیوں لائ ہئے صاب کے پاس لے جا ! اور شنّو پلک جھپکتے میں راحیل کے کمرے کے دروازےپر آ گئ اور دروازے میں ہی کھڑے ہوئے بولی صاب جی اپنے کپڑے لے لو راحیل اسوقت کمپیوٹر پر مصروف تھا اس لئے اس نے شنّو کی طرف دیکھے بغیر کہا میں کام کر رہاہوں تم ہی آ کر الماری میں سیٹ کردو اور اب شنّوکو راحیل کا حکم ماننا تھا,,پھر شنّو نے جیسے ہی الماری کھولی ویسے ہی بے ساختہ بولی اف توبہ! کتنی بھر رہی ہے تمھاری الماری اور پھر جگہ بنا کر اس نے کپڑے ٹانگ دئے اور کمرے سے جاتے جاتے کہنے لگی زراباورچی خانے کی صفائ ہو لے تو پھر تمھاری الماری بھی صاف کر دوں گی ،راحیل نےماؤس پکڑے پکڑے شنّو پر ایک نظر ڈالی جو اب کمرے سے واپس جارہی تھی ،اورپھر اس نے شنّو کو آہستہ سے پکارا ،،شنّو !،جی صاب جی شنّو راحیل کی پہلی آواز پر ہی گھوم کر اس کے پاس آگئ اور بولی جی صاب جی اور راحیل کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے شنّو کو کیوں اپنے پاس بلایا ہے پھر ایک دم کہنے لگا زرا میرے لئے ایک پیالی چائے تو بنا لا ،،اور شنّوبغیر ایک لمحے کی دیر کئے اس کے کمرے سے پھر باورچی خانے میں آ گئ اورپھر اسےخیال آیا کہ وہ انیتا سے بھی پوچھ لے کہ اگر اسے بھی چائے پینی ہو تو دو پیالی بنا لے ،اس نے انیتاکے کمرے میں اسے جاکر دیکھاتو وہڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اسٹو ل پر بیٹھی اپنے سامنے رکھّی گرم پانی کی دیگچی سے بھاپ لینے کی تیّاری کر رہی تھی

پھر شنّو نے بس راحیل کے لئےایک پیالی چائے بنائ اور اس کے کمرے میں دینے چلی گئ ،راحیل نے دیکھا صرف ایک پیالی چائے کو ہی شنّو کس سلیقے سے لے کر آئ تھی ،شنّو راحیل کے سامنےچائے رکھ کرجاتے جاتے کہنے لگی صاب جی چائے میں چینی نہیں ہے اپنے حساب   سے ڈال لینا،شنّو میں مصروف ہوں ،راحیل نے کہا تو وہ واپس پلٹ کر آ گئ اور راحیل سےپوچھا صاب جی چینی کتنی ڈالو ں ? ڈیڑھ چمچ ! راحیل نے مختصر لفظوں میں اس

کوجواب دیا تو کہنے لگی نا جی نا ں صاب جی ! اتنی چینی مت پیا کرو نقصا  ن کرتی ہے ،بس ایک چمچ پینے کی عادت ڈال لو اور چائے مین چینی ڈال کر راحیل کے رو برو دینےآ ئ تو اس نے شنّو کوپہلی بار نظر بھر کر دیکھا ،،عمر یہی کوئ ا ٹھّارہ انّیس برس کے لگ بھگ ,گہرے پکّے سانولے رنگ پر نارنجی رنگ کے لباس مین ملبوس لڑکی جس کے سرسرسوں کے تیل کی بدبوبھبھک رہی تھی اور بالون کی کس کر گوندھی ہوئ چوٹی میں رنگ برنگ کا لہراتا پراندہ ڈالے آنکھوں میں گہرا گہرا کاجل لگائے وہ میلے میں سجائ ہوئ گائے کی مانند نظر آرہی تھی ،،لیکن اس لڑکی کے گھر آجانے سے راحیل کی زندگی میں ترتیب آ گئ تھی ،اب اس کو شرٹس کےبٹن کبھی بھی ٹوٹے نہیں ملتے تھے ،شنّو اسے چائے دے کر چلی گئ اور راحیل کے دل میں ایک سوال نے جنم لیا ،شنّو کی عمرتو ایسی ہے جس میں انکی منگنی یا شادی انہی کے خالہ زاد چچا زاد یا پھر کسی اور سے ہو جاتی ہیں تو شنّواب تک کیوں اپنے گھر کی نہیں ہوئ ,,,, شنّو کو انیتا نے حکم دے دیا تھاکہ جب وہ گھر پر نا ہو تب وہ کواٹر سے اپنی نانی کے ساتھ ہی گھر کا کام

کرنےآیا کرے ،،اور اس کی نانی بھی انیتا کے کہنے کی پاسداری کر رہی تھی  لیکن ایک دن جب کہ صبح راحیل کو ناشتہ دینے شنّو آئ تو انیتا اپنی بہن کوچھوڑنے ائر پورٹ جاچکی تھی اور راحیل کے لئے شنّو نے ناشتہ تیّار کر کے لگایااور راحیل سے جا کر کہا کہ ناشتہ میز پر لگا دیا ہے اور خود بھی وہ کچھ فاصلے پرکارپٹ پر اپنی چائے لے کر بیٹھ گئ -راحیل  

 ٹیبل پر ناشتے کے لئے آیا تو ادھر ادھر دیکھ کر بولا آج تمھار ی نانی کہاں  ہے ،صاب جی وہ تو سو رہی بوڑھی جان کو میں نے اٹھانا ٹھیک  نہیں جانا اور راحیل نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائ اور پھر بولا آج  دفتر سے بازار ہوتا ہوا آؤں گا تمھارے لئے کیا لاؤں ,,اور شنّو نے   کہا صاب جی  اسی کول پیسے نہیں ہیں -میں  تمھاری پسند کو پوچھ رہا ہو ں-پیسے نہیں ،راحیل کے کہنے سے اس کی ہمّت ہوئ تو کہنے لگی صاب جی میرے کو تو کلائ میں پہننے والی گھڑی اچھّی لگتی ہےاور راحیل نے موقع ملتے ہی اس سے پوچھ لیا ،،شنّو گاؤں میں تیراکسی سے رشتہ وشتہ ہوا ہے تو شنّو تنک کر کہنے لگی توبہ کرو صاب جی ،و  ہ  مری خالہ کا لڑکاہے ناں ! بھنگی ،چرسی،جواری ، ماں کہ رہی تھی تیر ی خایخالہ نے رشتہ ڈالا ہئے ،پر میں نے کہ دیا اس نکمّےسے مجھے بیاہ   نہیں کرنا ہے،سارا سارا دن چارپائ پر پڑے پڑے روٹیاں توڑتا رہتا ہئے یا نشے میں دھت  پڑا رہتا ہے ،اس سے تو اچھا ہے میں خود گھروں میں کام کاج کر کے دوروٹی کھا لوں گی شنّو کی بات بہت غور سے سن کر نا شتہ ختم کر کے آفس چلاگیا ,,,,اور پھر ایک دن وہ انیتا سے چھپا کر بازار سے شنّو کی گھڑی لے کرآیا اور پھر گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ انیتا گھر پر نہیں ہے اور شنّو اکیلی ہی کام کر رہی ہے ،،تو وہ گھر آگیا اور آتے ہی اس نے شنّو کو گھڑینکال کر دی تو وہ خوشی سے کھل اٹھی اور اس نےگھڑی دیکھ کرکہا ہائے ربّامیں تو خواب میں بھی ایسی گھڑی نہیں خرید سکتی تھی  


خواب کا وجود برحق ہے

 

                انسان کبھی نیند کی حالت میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری اورجاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خلاصة التفاسیر میں ہے کہ خواب میں روح جسم سے نکل کر عالم علوی اور عالم سفلی میں سیرکرتی ہے جو جاگنے میں نہیں دیکھ سکتی وہ دیکھتی ہے۔ اسے حِسِّ روحانی کہنا چاہیے، حس جسمانی صرف حاضر پر حاوی ہوسکتی ہے اور حِس روحانی حاضر وغائب دونوں کا ادراک و احساس کرتی ہے، اس لئے خواب میں ایسے احوال وکیفیات مشاہدہ  میں آ تی ہیں جن سے خود خواب دیکھنے والے کو بڑی حیرت ہوتی ہے، کبھی مسرت انگیز اورکبھی خوفناک تصویریں ذہن میں ابھرتی ہیں اور بیداری کے ساتھ ہی یہ تمام کہانی یکلخت مٹ جاتی ہے۔ قرآن کے متعدد مقامات میں مختلف نوعیتوں سے خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اوراحادیث میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کا وجود حق ہے۔ انبیاء کرام کے علاوہ دیگر افراد کا خواب اگرچہ حجت شرعی نہیں تاہم یہ فیضان الوہیت اور برکات نبوت سے ہے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اس سے مراد علم نبوت ہے یعنی رویاء صالحہ علم نبوت کے اجزاء اور حصوں میں سے ایک جزو حصہ ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم) غور کیاجائے تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور بہتر خواب کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی ہے اوراسے نبوت کا پرتو قرار دیا ہے۔

                واضح رہے کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: پہلی قسم نفس کا خیال ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اوراس کے دل ودماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکّل ہوکر نظر آتی ہیں، مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ ور روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن وخیال ان ہی باتوں کی فکر اور ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ ور روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، یا ایک شخص اپنے محبوب کے خیال میں مگن رہتا ہے اوراس کے ذہن پر ہروقت اسی محبوب کا سایہ رہتا ہے تو اس کے خواب کی دنیا پر بھی وہی محبوب چھایا رہتا ہے۔ غرض کہ عالمِ بیداری میں جس شخص کے ذہن وخیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے، وہی اس کو خواب میں نظر آتی ہے۔ اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔

                دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ شیطان چوں کہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ جس طرح عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا۔ چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اورڈرانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔ کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل وصورت میں نظر آتا ہے جس سے خواب دیکھنے والا انتہائی خوفزدہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح کے خواب دکھلاتا ہے جس میں سونے والے کو اپنی زندگی جاتی نظر آتی ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہوگیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح خواب میں احتلام کا ہونا کہ جو موجب غسل ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ سے نماز فوت یا قضا ہوجاتی ہے اسی شیطانی اثرات کا کرشمہ ہوتا ہے۔ پہلی قسم کی طرح یہ بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے۔ اسی طرح کے ڈراؤنے اور برے خواب سے حفاظت کے لیے حدیث میں اس دعا کی ہدایت دی گئی ہے۔ اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضبِہ وَعَذَابِہ وَمِنْ شَرِّ عِبَادِہ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیاطِیْنَ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ․ (ابوداؤد وترمذی) ”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کے ذریعہ خود اس کے غضب اور عذاب سے اوراس کے بندوں کے شر سے اور شیطانی وساوس و اثرات سے اوراس بات سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں“۔

                خواب کی تیسری قسم وہ ہے جس کو منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اوراس کے قلب کے آئینہ میں بطورِ اشارات وعلامات ان چیزوں کو مشکل کرکے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے یا جن کا تعلق موٴمن کی روحانی وقلبی بالیدگی وطمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے، خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اورجس کی فضیلت و تعریف حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ (مظاہرحق جدید)

                اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور خوشخبری ہوتی ہے کہ وہ بندہ خوش ہو اور اس کا وہ خواب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے حسن سلوک اورامید آوری کا باعث اور شکر خداوندی میں اضافہ کا موجب بنے اور برا خواب شیطانی اثرات کا عکاس ہوتاہے یعنی برے خواب سے انسان فطری طور پر پریشان اور غمگین ہوتا ہے جس سے شیطان بڑا خوش ہوتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ جو شخص برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھے اس کو چاہیے کہ بائیں طرف تین بار تھتکار دے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور اپنی اس کروٹ کو تبدیل کردے جس پر وہ خواب دیکھنے کے وقت سورہا تھا۔(مشکوٰة:۳۹۴)


                دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی اس طرح کا خواب دیکھے تو اس طرف توجہ نہ دے اور نہ اس کو کسی دشمن یا دوست کے پاس بیان کرے، اللہ کی پناہ مانگنے اور تین بار تھتکارنے سے انشاء اللہ وہ اس برے خواب کے مضر اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ایساخواب کسی دشمن یا دوست کے سامنے بیان نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ سننے والا خواب کی ظاہری حالت کے پیش نظر جب خراب تعبیر دے گاتواس کی وجہ سے فاسد وہم میں مبتلا ہونا لازم آئے گا۔ دل ودماغ میں مختلف قسم کے اندیشے، وسوسے اور مختلف اوہام وخیالات پیدا ہوں گے جن سے وہ شخص پریشان ہوگا اور خواہ مخواہ اس کا سکون و چین متاثر ہوگا، اسی کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے

پیار کا وعدہ ففٹی،ففٹی پار ٹ1


 یہ بات نہیں تھی کہ راحیل کو انیتا سے محبّت نہیں تھی لیکن انیتا کی سست روی نے جہان گھر کو ماسیون کا محتاج بنادیا تھا وہیں راحیل کے رویّے  میں بھی ایک بےزاری کی جھلک نظر آنے لگی تھی وہ سو چ بھی نہیں سکتا تھا کہ یونیورسٹی کی تعلیمی زندگی میں چاق و چوبند رہنے والی انیتا شادی کے بعد گھر یلو زندگی میں ایک کاہل الوجودبیوی ثابت ہو گی،راحیل کو انیتا سےشادی کےبعد اس میں صرف دو ہی باتین بہت مرغوب نظر آرہی تھیں ایک وقت بےوقت اٹھکر میکے چلے جانا دوسرے ،اپنی بیوٹی کی نگہداشت کے نام پر کئ کئ گھنٹےکے لئے بیوٹی پارلرمیں جا کر بیٹھ جانا ،اس کی بے توجّہی کا یہی ،نتیجہ نکلنا تھا کہ ہر وقت خوش خوش رہنے والا راحیل بھی جھنجھلا ہٹ کا شکار ہو ہی گیا ،،،،،،کیا مصیبت ہئے! راحیل آفس جانے سے پہلے گریبان کےٹوٹے ہوئے بٹن والی شرٹ ہاتھ میں اٹھا کر انیتا کو دکھاتے ہوئے بولا جس کے جواب میں انیتا نے بلکل ٹھنڈے لہجے میں اطمینان سے کہا -،،،،ہاں ! کلماسی نہیں آئ تھی ،،،اور تم مجھ سے پہلے بتا دیتے تو میں اسے بٹن لگانےکو کہدیتی ,

ہاں تمھارے پاس تو میرے اور گھر کے ہر مسئلے کا ایک ہی جواب ہے،یہ کام کیوں نہیں ہو ا? ماسی نہیں آئ ،،،وہ کام کیوں نہیں ہوا ماسی نہیں آئ ،،تو اس میں اتنا خفا ہونے کی کیا ضرورت ہئے کوئ سی ٹی شرٹ  پہن لو ، انیتا نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے سے ہیر برش اٹھاکر اسٹولپربیٹھتے ہوئے بلکل اطمینان بھرے لہجے میں راحیل سے کہا تو راحیل نےاسے بھڑک کر جوابدیا ہاں ! کمپنی ڈائریکٹر کے ساتھ میٹنگ میں کاؤ بوائے بن کر جاؤں یہ تم کواچھا لگے گا پھر راحیل شرٹ اپنے شانے پر ڈال کر الماری سے دوسری شر ٹ ڈ ھونڈتے ہوئے بڑ بڑایا ،اس سے اچھّا تھا کہ میں کسی ماسی سے شادی کرلیتا راحیل کی آواز اتنی اونچی تھی کہ انیتا نے سنی اور اپنی جگہ سےجواب میں کہا ,,,اگر تمھاری اوقات ماسی کا شوہر بننے کی ہئے تو اب کر لو-ماسی سے شادی ،انیتا راحیل کی بات کا جواب دے کر کمرے سے باورچی خانے میں آ گئ اور راحیل شانے پر پڑی ہوئ شرٹ کارپٹ پر پٹخ کر الماری سے دوبارہ دوسری شرٹ ڈھونڈنےمیں لگ گیا

،زرا سی دیر میں ایک شرٹ اس کے ہاتھ لگی جو پینٹ  اور ٹائ سے میچ تونہیں کر رہی تھی لیکن کام چلانے کی حد تک پہنی جاسکتی تھی ،اس نے ٹائ بھی وہیں کارپٹ پر پھینک دی،،،،،جلدی جلدی تیّار ہوکر-ڈائیننگ ٹیبل پر آ یا تو ناشتہ ڈائیننگ ٹیبل پر لگا ہوا تھا لیکن انیتا خود موجود نہیں تھی اس لئے وہ ناشتے کے بغیر ہی گاڑی میں آ بیٹھا اور گھرسے گاڑی سے تیزی سے نکال لے گیا ,,سرونٹ کواٹر کی تکمیل میں ابھی وقت باقی تھا کہ راحیل کوآ فس کے سلسلے سے ایک ہفتےکے لئے,,ناشتے کے بغیر راحیل کے یوں چلے جانےسےانیتا کے ضمیر نے اس کو آگاہ کیا کہ وہ ماسیون کے معاملے میں واقعی کوئ رعائت نا کر کے خود ہی تکلیف اٹھاتی ہئے ،محلے میں الگ مشہور ہو گیاتھا کہ انیتا ماسیون سے بے رحمانہ سلوک کرتی ہےاور ماسی کتنی ہی محنت کااچھّا کام کیوں نا کرلے اس کے کام کو کبھی سراہتی بھی نہیں ہےنتیجہ یہ ہواکہ اب اس کا گھر مایوسیو ں کے معاملے میں اتنا بد نام ہو چکا تھا کہ اب اس کے گھرکو ئ ماسی آنے کو تیّار ہی نہیں تھی اور گھرکئ روز سے ماسی کے بغیر چل رہا تھا جس کی وجہ سے گھر کی ہر' ہر شے بےترتیب ہو گئ تھئ اس صورتحال پر انیتا نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ اب ماسیوں سے الجھے گی نہیں ,تو دوسری جانب راحیل نے فیصلہ کیا کہ گھر میں چوبیس گھنٹے رہنےوالی ملازمہ کا بندوست کر لیاجائے ،تاکہ یہ ماسی کے آنے اور جانے کا چکّرہی ختم ہوجائے ،

جب راحیل نے انیتا سے اپنی خواہش کا زکرکیا تو وہ خوشی یےکھل اٹھی -راحیل نے انیتا سے کہا کہ بنگلے کے اوپر سرونٹ کواٹربنوا لیتے ہیں -لیکن انیتا نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تم نے پیچھے گیلری میں ناریل کے پودے لگانے کی جو جگہ رکھّی ہئے وہاں پر بنوالو اور پھر انہی دنوں میں انیتا کو ایک نحیف و نزار چندھیائ ہوئ آنکھوں والی ماسی مل ہی گئ اور اب اسکوکم سے کم برتن دھونے اور جھاڑو پونچھے کی مصیبت سےچھٹکارہ چاہئے تھا سو اس نے اسی لاغر ،بوڑھی ماسی کو دل و جان سے قبول کرلیا-ادھر 'راحیل کو دوسرے شہر جانے کے آرڈر مل گئے اور وہ کواٹر کی تعمیر کاکام ٹھیکیدار کے سپرد کر کے جاتے جاتے بھی چوبیس گھنٹے گھر پر رہنےوالی ملازمہ کا اشتہار اخبار میں دے کر گیا ،ٹوور سے واپسی پرشام کی چائےپر دونوں آمنےسامنے بیٹھے تھے کہ راحیل نے چائے کا گھونٹ لے کرانیتا سےسوال کیا،،،،کیا ہوا بھئ ? کس بارے میں سوال کر رہے ہو ?انیتا نے اس سے خود بھی سوال  کردیا،،،وہ جو مین نے ملازمہ کا اشتہار دیا تھا،،راحیل نے وضاحت کی تو انیتا کہنے لگی فون توکئ ایک آئے ہیں ٹیلیفونریکارڈر میں محفوظ ہیں خود ہی دیکھ کر جو کوئ مناسب لگے تو اسے رکھ لوانیتا کہ کر جیسے اپنی طرف سے اپنی زمّہ داری سے بر ی ہو گئ اور اس کی باتپرراحیل کہنے لگا بھئ گھر پر تم رہتی ہو میرے مناسب اور نا مناسب کہدینے سے کیا ہوتا ہئے اصل رضامندی تو تمھاری ہو نی چاہئے راحیل نے انیتاسے کہا تو کہنے لگی میرے دل کو تو کوئ بھی مناسب نہیں لگا ہئے،،ایسا کرتےہیں کہ کچھ اور انتظار کرلیتے ہیں ،

 جیسا تم پسند کرو ،کہ کر راحیل اپنے  کام سے اس کے پاس سے اٹھ گیا ،،،،اور پھر انیتا کے بھائ کی شادی   سر پر آگئ ،انیتا حسب معمول اس کی تیّاریوں میں لگی تو دوسری جانب ایک دن بوڑھی ماسی کام کاج سے فارغ ہو کرگھر جانے سے پہلےراحیل کے سر پر کھڑی اس سے مخاطب تھی ،،صاب جی! ہاں بولئے کیابات ہئے ،،میں کل گاؤں جارہی ہوں ،صاب جی میری بہن بیمار ہے،،گاؤں سےچٹّھی آئ ہے وہ کہ رہی ہئے ملنے آجاؤ,,ماسی کی بات پر را حیل کچھ جز بزسا ہو کربولا,,,, تو جائیں ،،،راحیل کے جواب میں ماسی کہنےلگی صاب جی ہم غریب لوگ ہیں کہتے ہوئے لاج آتی ہئے پر کیا کریں،،تم ہی سےتو کہیں گے ،بولئے کیا بات ہئے راحیل کی سمجھ میں اس وقت قطعی نہیں آسکا کہ ماسی کیا کہنا چاہ رہی ہئے ،،صاب جی کچھ مدد کردو ،،،ماسی کےجواب میں راحیل نے پرس سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کو دیتے ہوئے کہاماسی جی آپ کو ہمارا بھی ایک کام کرنا ہو گا ،،کیا کام ہے بو لو صاب جی،ماسی نے کہا ،،گاؤں سے واپسی پر زرا ایک اچھّے ہاتھ پاؤں والی گھرسنبھالنے کےلئے ملازمہ لیتی آئے گا اور ہم آپ کو بھی نہیں ہٹائیں گے اسیطرح سے کام کرتی رہئے گا جیسے کر رہی ہیں راحیل نے سہولت سے کہا تو وہ دعا   دیتے ہوئے بولی،صاب جی تینوں جم جم جیو یں ست ہزاریاں ،می تینو ں لائے لاوان گی ر احیل کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئےماسی چلی گئ- جاری ہے

منگل، 30 اپریل، 2024

میں کیا کروں ؟ایک بیٹی کا سوال

   


کراچی میں  کاؤنسلنگ  کے کیسز پر کا م کرتے ہوئے  بعض  بڑے  ہی دکھ  بھرے کیسز میرے سامنے آئے ،،کاش  آج کی لڑکی سمجھ سکے کہ شادی  کی اہمیت کیا ہوتی ہے شوہر کی اہمیت کیا ہوتی  ہے سسرال کے ہر ستم کو سہہ جانے   کا درس اس کے دل کے ورق 'ورق پر لکھا ہو تو شائد ہمارے معاشرے میں  یہ ستم گر داستانیں جنم ہی نالیں

آیئے   ایک کہانی ا یک   بیٹی کی زبانی سنتے ہیں

میں کیا کروں ؟

میں بیرونِ ملک مقیم ہوں ،یہ میری دوسری شادی ہے ،میرے پہلے شوہر انتہائ خوبرو   اور مجھ سے عمر میں صرف دو سال بڑے تھے  - وہ  ہماری امی کے قریبی عزیز تھے میری  ساس بہت ظالم اور انا پرست تھیں  اور میرے شوہر ماں کے تابعدار تھے سال پیچھے اللہ نے میری گود بھر دی تب میری ساس  نے دھوم دھام سےمیری نومو لود  بیٹی کا عقیقہ کیا  لیکن میرے ماں باپ  تک کو نہیں پوچھا گیا   بس اخبار کے ایک ٹکڑے  کی  ایک پڑیا میں لپیٹ کر عقیقہ کا گوشت بھیج دیا گیا  جسے میری امّی نے واپس کر دیا  ،،خیر سوا مہینہ کا زچّہ خانہ سسرال  میں پورا کر کے مجھے میکہ  بھیجا گیا  کہ میں اپنے گھر والوں سے مل کر آجاؤں میری امّی کو عقیقہ میں نا بلائے جانے کا غبار تھا  سو جب میرے  شوہر مجھ سے اور بیٹی سے ملنے آتے امّی ان سے اچھّا برتاؤ نہیں کرتی تھیں-ابھی مجھے آئے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ میرے شوہر مجھ سے اور اپنی بیٹی سے ملنے ہمارے گھر آنے لگے   اور امّی کی کڑوی باتیں اور ان کا پھیکا رویہّ دیکھ کر انہوں نے مجھ سے کہا گھر واپس چلو  دوسری طرف سے میری ساس بھی میرے شوہر کے کان بھر کر  ان کو ہمارے گھر بھیجتی تھیں اس طرح چند روز میں ہی  بات بڑھ گئ اور میری امّی نے مجھے سسرال واپس بھیجنے سے انکار کر دیا  اور میرے شوہر سے خلع کا مطالبہ کر دیا 

امّی کے جواب میں میرے شوہر نے بھی   اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا میری بیٹی مجھے واپس کردو اور  میں ابھی خلع نامہ پر سائن کر دیتا ہوں اور میری امّی نے میری گود سے میری سوا مہینے کی بیٹی لے کر  میرے شوہر کے حوالے کی اور  خلع نامہ پر ان کے دستخط لے لیئے ،میرے جہیز کا تنکا تنکا میرے گھر پر چند روز بعد واپس آ گیا  -جب تک جہیز واپس نہیں آیا تھا میرے دل کو  ناجانے کیوں یقین نہیں آتا تھا کہ میں طلاق جیسے حادثہ سے گزر چکی لیکن جس دن جہیز واپس آیا مجھےبلکل ایسا لگا کہ میرا  جنازہ کسی  نے  میری قبر سے واپس  باہر پھینک دیا ہو مجھے اسی رات سے دورے پڑنے لگے اور میں چیختی ہوئ اٹھ اٹھ کر گھر سے بھاگنے لگی ،میری بیٹی مجھے لا دو،میری بیٹی مجھے لادو ،،پھر میرا نفسیاتی علاج شروع ہوا اور میں برس بھر میں نارمل زندگی میں لوٹ سکی ایسے میں ایک صاحب جو باہر رہتے تھے ان کا رشتہ میرے لئے آیا  امّی نے  میری مرضی پوچھی میں نے کہا امّی جینا ہی تو ہے تو بس یہاں یا وہاں بات برابر ہے آپ کے سر سے میرا بوجھ اتر جائے گا  سو میری شادی اپنے باپ کے برابر اس شخص سے  ہو گئ  جو پہلے سے ایک 15 برس کے بیٹے کا باپ تھا  پھر وہ مجھے بھی  باہر لے آیا یہاں بھی ایک ہی سٹریٹ پر بھری پُری انتہائ جھگڑالو  سسرال ملی جو میرے شوہر پر حاوی تھی  اللہ نے یہاں بھی مجھے  اولاد عطا کر دی  لیکن میرے شوہر مجھے اٹھتے  اور بیٹھتے طعنہ دیتے  ہیں کہ تم کتنی ظالم عورت ہو اپنی  ننھی بچّی کو  کتنے آرام سے  جدا کر دیا مجھے تمھارا قطعئ اعتبار نہیں کل کلاں کو میرے بچّے بھی میرے حوالے کر کے چلتی بنو گی ،

لڑکی نے بتا یا کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے  کہ  میرے موجودہ شوہر میرے ماں باپ کو ہر دوسرے تیسرے دن کال کر کے  انہیں زہنی ازّیت پہنچانے کو کہتے ہیں کہ میں آپ کی بیٹی کو  جہاز میں بٹھا رہا ہوں  طلاق نامہ گھر پر مل جائے گا  میری بوڑھی  ماں میرا بیمار اور ضعیف باپ  ان کے دلوں پر ایسی کالز سن کر کیا گزرتی ہو گیپھر اس نے کہا آنٹی یقین جانئے  کہ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ میں اپنے شوہر کی طعنہ زنی سے بچنے کو کہاں جاؤں -میں نے لڑکی کو کچھ نصحتیں کیں اور روحانی علاج میں سورہء نساء پڑھنے کی تاکید کی اور گھر میں ہر پکنے والے کھانے پر یا ودودُ پڑھ کر دم کرنے کو کہا -کچھ مہینوں بعد لڑکی جب کراچی آئ تب ا مجھ سے بھی ملنے آئ  اوراس نے بتایا کہ اس کی  زندگی میں کلام الٰہی کی بر کت سے یہ تبدیلی آئ کہ وہ ماں کی بیماری پر کراچی آسکی ہے اور اس کے شوہر نے اسے خود سے بھیجا   -پھر اس نے  مجھے بتایا کہ سورہء نساء  پڑھنے کی برکت سے شوہر کا دل موم ہو گیا ہے  اوراب وہ ازیّت بھری   باتیں بھی نہیں  کرتے ہیں،،میں نے  لڑکی  کی باتوں پر اطمینان کا اظہار کیا  اور اس سے کہا تم  اپنے سماج کو اپنی زندگی کے اس تلخ تجربہ سے کیا پیغام دو گی: توو ہ کہنے لگی شادی کے بعد ہر لڑکی بس یہ سمجھ لے کہ میکہ اس  کی شادی کے بعد کہیں ایسی جگہ ہجرت کر گیا جہان  تک اس کی سسرال کی  شکایات کی  رسائ ناممکن ہےتبھی لڑکی اپنا گھر بسا سکتی ہے ،

میں اپنی زندگی کے اجڑنے کی زمّہ دار اپنی ماں سے شکایات  کرنے کو  ٹہراتی ہوں اور ساتھ ہی اپنی امّی کو بھی پورا  پورا قصوروار کہتی ہوں کہ انہوں نے میری شکایات کرتے رہنے کی حوصلہ افزائ کیوں کی مجھے سمجھایا کیوں نہیں کہ ہر لڑکی کو انہی منزلوں سے گزرنا ہوتا ہےاور اس پر ستم یہ کیا میری ماں نے کہ  میری گود سے میری لختِ جگر چھین کر مجھے  شوہر سے طلاق دلوائ ، میری امّی چاہتیں تو مجھے سمجھا سکتی تھیں کہ ہر لڑکی اپنی شادی شدہ  زندگی کےابتدائ برس ا سی طرح مرتے جیتے گزارتی ہے اس لئے تم بھی    گزارو ،لڑکی خاموش ہو گئ اور کہانی تمام ہو گئ اور میرے اپنے دل پرگہرا اثر چھو ڑگئ- ننھی بچّی نے  جب اپنی  ماں کے سینے پر اترنے والا اپنا دسترخوان ڈھونڈا ہو گا تو کیا ہوا ہو گا-اس کہانی میں لڑکی تمام وقت بولتی رہی تھی اور بہت بولنے والی ماں  کے لب بلکل خاموش  تھے اور نظریں زمین پر جھکی  رہی تھیں

   

پیر، 29 اپریل، 2024

ایک گوہر نایاب'حمایت علی شاعر

 
 زندگی میں کبھی  'کبھی اتنے خوبصورت اتّفاقات آ جاتے ہیں کہ زہن کے پردے پر تمام عمر ان لمحات کا نقش قائم رہتا ہے-تو ہوا یوں کہ انیس ننانوے کی پہلی سہ ماہی چل رہی تھی اور میں الحمد للہ جنوری اور فروری میں تینوں بچّوں کی شادیوں سے فراغت پا کر بیٹھی تھی کہ میرے والد کا نارتھ ناظم آباد سے فون آیا 'و الد کہ رہے تھے کہ اورنگ آباد سےوحید الحسن  بھائ صاحب آئے ہیں اگر تم ملنا چاہو تو آ جاؤ - ابا جان کا فون سن کر میرا دل خوشی سے بھر گیا -اس وقت بڑی بہو اپنے میکے گئ ہوئ تھی اور چھوٹی میرے پاس تھی میں نے چھوٹی بہو سے کہا کہ بیٹا تم ڈرائور کو بلا کر اپنے میکے چلی جاؤ تو میں اپنے والد کے پاس ہوآؤں -بہو نے جواب دیا      آپ اپنے والد کے پاس چلی جائیے میں اکیلے رہ لوں گی  -چنانچہ میں اپنے والد صاحب کے پاس چلی گئ  اور اپنے منجھلے تایا سید وحید الحسن عابدی سے ملی -تایا جان بہت دیر مجھے اپنے سینے سے لگائے رہے اور پھر میں نے اپنے تایا جان سے بہت سی باتیں کیں  انہوں نے  لکھنے کے لئے قلم اور پیپر رکھّا ہوا تھا  وہ جو سوال کرتے گئے میں  ان  کوجواب دیتی گئ  اور وہ لکھتے گئے -بچّوں کی تعلیم بہووں کی تعلیم بیٹیوں کی تعلیم دامادوں کی تعلیم انہوں نے تعلیم پوچھی میں تعلیم کے ساتھ عہدے بھی بتاتی گئ اور  تایاجان سبحا ن اللہ ماشاللہ کہتے گئے -                    پھر تایا جان نے مجھ سے کہا کہ  ان کو حمائت علی شاعر نے اپنے  گھر  بلایا ہے  -اگر تم چلنا چاہو تو ساتھ چلو اور مین بغیر چوں چرا کے اپنے تایا جان اور والد صاحب کے ہمرا جناب حمائت علی شاعر کے گھر پہنچ                 گئ -

 

وہ ملاقات بہت ہی خوبصورت تھی جس میں میرے والد اور حمائت علی شاعر  اور میرے تایا جان  اپنے بچپن کی باتوں اور شرارتوں کو یاد کر کےدل کھول  کر ہنس رہے تھےاسی ملاقات میں مجھے معلوم ہوا کہ  درپن اور سنتوش کی فیمیلی  بھی انہی کی گلی  کی رہائشی تھی  -اس ملاقات کے بہانے  جناب حماءت علی شاعر نے بہت ہی پر تکلف کھانے کا اہتمام کیا تھا -اس نشست میں جناب  حما    ئت علی  شاعر اور میرے درمیان  شاعری اور ادب لطیف پر بہت سیر حاصل گفتگو ہوئ  اور انہوں نے مجھے ہدائت کہ کہ میں  نثری ادب یاد رکھوں یا نہیں یاد رکھوں لیکن مجھے  اپنی  شاعری ضرور یاد رکھنی ہے   ملاقات کے اختتام پر انہون نے اور میں نےدوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کیا  'لیکن جیسا کہ میں نے اوپر زکر کیا کہ  حال ہی حال میں بچوں کی شادیا  ں ہوئیں تھیں اس لئے  میری گھریلو مصروفیات دوچند تھیں  اور پھر  وہ  کینیڈا آ گئے اور میں بھی  کینیڈا آ گئ  اور ہماری ملاقات کی آرزو تشنہ ہی رہ گئ کیونکہ وہ مسی ساگا میں رہائش پذیر تھے اور میری سکونت ایڈمنٹن  میں تھی  جس کا فاصلہ

 

پانچ گھنٹے کی فلائٹ پر ہے-اب کچھ جناب حمائت  علی شاعر کے بارے میں
                                      میں نے ا      پنے بچپن میں کسی سے سنا تھا کہ حیدر آباد کی سرزمین چونکہ آتش فشانی ہے اس لئے یہاں پر ہیرے بکثرت پائے جاتے ہیں قارئین کو یاد بھی ہو گا کہ شہرہء آفاق ہیرا کوہ نور بھی سرزمین دکن سے برامد ہوا تھا ،،جب آگے میری عمر نے شعور کی سیڑھِی پر قدم رکھّا اور مجھے زمانہ آ شنائ ملی تب معلوم ہوا کہ سر زمین دکن صرف اپنے تہہ زمین خزانوں میں ہی ہیرے نہیں رکھتی بلکہ اس کے اوپر کی  آباد دنیا بھی ہیرے اور جواہرات سے مرصّع ہے جنوبی ہندوستان کے شہرحیدرآباد کے ایک ضلع اورنگ آباد میں ایک میر خاندان سے تعلّق رکھنے والے معزّز فرد سیّد تراب علی کے گھر میں چودہ جولائ سنہء انّیس سو چھبّیس کو   ایک بچہ پیدا   ہوا جس  کا پیدائشی نام حمایت تراب علی رکھّا گیا جو اپنے تخلّص کی بنیا د پر حمائت علی شاعر زبان زد عام ہو گیا ہےجی ہاں تو میں بات کر رہی ہوں اس سرزمین کے شعراء کی جن کا سرا والئ ء دکن قلی قطب شاہ سے شروع ہو ا اور پھر اس قافلے نے اپنا سفر روکا نہیں ہجرت کے قافلے میں شامل ہو کر ہندوستان سے لے کر پاکستان کی سر زمین تک حمائت علی شاعر بن کر محیط ہو گیا '  انہوں نے  پاکستان کی سر زمین  پر اپنی لیاقت اور ہونہاری کے جھنڈے  گاڑے-

 

2002ء میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ثلاثی  کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ حمایت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے۔ گیت نگار اسکرپٹ رائٹر،لاتعداد فِلمی گیتوں کے خالق ، ڈرامہ نگار، ہدایت کار، فلم ساز اور نا جانے کتنے گن جو میری رسائ میں نہیں آ سکے ہیں جبکہ ان کی نثری تصانیف"شیخ ایاز" شخص وعکس کھلتے کنول سے لوگ 'بنگال سے کوریا تک نے اردو بینوں میں بہت پذیرائ ملی مشاعروں میں ان کی خوش الحانی اور ترنّم کا جداگانہ اور دل کو موہ لینے والا انداز لوگ ابھی تک یاد کرتے ہیں انہوں نے روایات سے انحراف بھی نہیں کیا اور معاشرے کی دھڑکتی ہوئ نبض کو بھی سنبھالے رکھاوہ  لاتعداد تصانیف کے مصنّف ہیں اور ان کی کئ تصانیف کے کئ کئ ایڈیشن چھپتے رہے قرض   تشنگی کا سفر آگ میں پھول ، حرف حرف روشنی شکست آرزو د چراغ محفل (مختلف شعرا کے کلام)، عقیدت کا سفر (نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)،آئینہ در آئینہ (منظوم خودنوشت سوانح حیات)،، کھلتے کنول سے لوگ(دکنی شعرا کا تذکرہ)،ہارون کی آواز (نظمیں اور غزلیں)، تجھ کو معلوم نہیں(فلمی نغمات) محبتوں کے سفیر(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام)۔ حمایت علی شاعر کونگار ایوارڈ(بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا

 

۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازامحترم حمایت علی شاعر سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بحیثیت استاد درس دیا اور اس کے بعد ریڈیو سے بھی اپنے ہنر کا لوہا منوایا ۔جب وہ بحیثیت استاد کے کھڑے ہوئے تو انہوں نے اپنے طالبعلموں کو صرف زیورعلم نہیں دیا بلکہ درس انسانیت سے بھی بہرہ مند کیا جب انہوں فلمی گیت لکھے تو گیتوں کے بول دل کی گہرائ میں ثبت ہو گئےجب وہ ہدائت کار بنے تو ہیرے تراش کر سماج کو دے دئے مشاعروں میں بلائے گئے تو اسٹیج پر ان کے آنے سے مجمع دم بخود ہو کر سنتا رہا اور سر دُھنتا رہا انہوں نے شاعری کو سخن ملبوس دے دیا اور وہ بیسویں صدی کا ترنّم آمیز دور بن گئے ہجرت کے بعد پہلے کراچی میں سکونت اختیار کی اور اب مستقلاً کینیڈا میں آباد ہیں۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ثلاثی کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔میں نے جب یہ مضمون لکھا تھا وہ حیات تھے-'اللہ انکو  اپنی رحمت کے سائے میں رکھے -آمین 

ہفتہ، 27 اپریل، 2024

ڈاؤن سنڈروم-وجوہات

  دورانِ حمل ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہونے پر 90 فیصد خواتین اسقاطِ حمل کا انتخاب کرتی ہیں، جو پیدائش تک قانونی ہے۔ لیکن اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ متوقع والدین کو فرسودہ مشورے اور اسقاطِ حمل کی ترغیب دی جاتی ہے۔بی بی سی نے تین ماؤں سے بات کی جو چاہتی ہیں کہ نظام بدلا جائے۔’مدد صرف اس صورت میں موجود تھی اگر میں اسقاط حمل کا انتخاب کرتی‘جیکسن بک ماسٹر ایک عام سا چھ سالہ لڑکا ہے۔ جسے تیراکی، کاریں، ڈایناسور، مکی ماؤس اور اپنے میوزیکل تھیٹر گروپ کے ساتھ سٹیج پر پرفارم کرنا پسند ہے۔پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے انھیں’ایک چھوٹا سا مزاح نگار‘ کہا جاتا ہے جس سے مل کر کچھ حد تک ’شرارتی مزاح‘ کا احساس ہوتا ہے۔جیکسن ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ جیکسن میں ایک اضافی کروموزوم موجود ہے اور انھیں سیکھنے میں معذوری کا سامنا ہے۔لورین کا کہنا ہے کہ اپنے بیٹے جیکسن کا اسقاطِ حمل کروانے کے لیے ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا


ان کی والدہ لورین کا کہنا ہے کہ ’جیکسن کو کسی کام کو مکمل کرنے زیادہ وقت لگتا ہے، لیکن ہم اس چیز کو بہت زیادہ مناتے ہیں کیونکہ یہ اس کے لیے یہ ایک کامیابی ہے۔‘جیکسن اپنے سکول میں بہت اچھا شاگرد ہے جہاں اس کے بہت سے دوست ہیں اور اسے صحت کے کسی اور مسائل کا سامنا نہیں ہے۔اسی لیے لیے اب ملٹن کینس میں رہنے والی لورین سمجھ نہیں پا رہیں کہ جب وہ حاملہ تھیں تو دائیاں ان کی حالت کے متعلق اتنا منفی رویہ کیوں رکھتیں تھیں۔ان کی عمر کی وجہ سے اضافی سکریننگ اور بلڈ ٹیسٹ کروانے پر رضامندی کے بعد انھیں پتہ چلا کہ جیکسن کو ڈاؤن سنڈروم ہوسکتا ہے۔وہ کہتی ہیں ’اس وقت میں 45 سال کی تھی اور میں جانتی تھی کہ خطرہ ہے لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ دائی نے کہا کہ ہمیں سکرین پر جیکسن کو دیکھنے کے لیے زیادہ وقت چاہیے لہذا ہم نے ایسا ہی کیا۔‘


سونوگرافر نے وضاحت کی کہ اگر بچے نے اس حالت کو ظاہر کیا تو اگلا قدم امونیوسنٹیسیس ہوگا، ایک ایسا ٹیسٹ جس میں اسقاط حمل کا تھوڑا سا امکان ہو سکتا ہے۔میں نے کہا نہیں، ہمیں اس میں دلچسپی نہیں ہوگی، کیونکہ ہم نے پچھلے سال ایک بچہ کھو دیا تھا۔ وہ بہت غصے میں تھیں اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسی عورتیں مجھے پسند نہیں۔ اگر آپ اس بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتیں تو سکریننگ کرنے کی زحمت کیوں کی؟‘جیکسن اپنے سکول میں بہت اچھا شاگرد ہے جہاں اس کے بہت سے دوست ہیں اور اسے صحت کے کسی اور مسائل کا سامنا نہیں ہےبعد میں ایک دایہ نے فون کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں بہت افسوس ہے‘ لیکن ان کے پاس ’واقعی بری خبر‘ تھی۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بچے میں ڈاؤن سنڈروم ہونے کا پانچ میں سے ایک امکان موجود ہے۔لورین اور اس کے شوہر مارک نے مزید جانچ کرانے سے انکار کردیا۔ وہ اپنے بچے کو دنیا میں لانا چاہتے تھے، چاہے وہ جیسا بھی ہو۔لورین کا مزید کہنا ہے کہ ’مدد صرف اسی صورت میں میسر تھی اگر میں اسقاط حمل کا انتخاب کرتی، لیکن جب میں نے کہا کہ میں جیکسن کو جنم دینا چاہتی ہوں تو ان کو کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔‘


جیکسن اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے-جیکسن کی پیدائش کے وقت ہی اس میں ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہو گئی تھی اور لورین کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے دوسرے بچے جیکسن سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس بات پر آپس میں لڑتے ہیں کہ بڑے ہونے پر ان میں سے جیکسن کی دیکھ بھال کون کرے گا۔وہ کہتی ہیں ’میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی ہو اور وہ نوکری کرے اور اس کا نارمل مستقبل ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ اسے ہمیشہ مدد کی ضرورت ہوگی لیکن ہمیں واقعتاً یقین ہے کہ وہ ایک بھرپور زندگی گزارے گا۔ وہ ایک شو مین اور ایک بہترین انٹرٹینر ہے اور ہمارا خیال ہے کہ وہ سٹیج تک پہنچے گا۔‘’38ویں ہفتے میں مجھے بتایا گیا کہ میں اب بھی اسقاطِ حمل کروا سکتی ہوں‘20 ہفتوں کے سکین پر ایما کو بتایا گیا کہ ان کی بیٹی جیمی کے دماغ میں کچھ سیال مادہ موجود ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے معذور ہونے کا امکان ہےپورے نو ماہ کے حمل کے دوران ایما میلر نے اپنی بیٹی جیمی کا اسقاطِ حمل کروانے کا دباؤ محسوس کیا۔ اس وقت 24 سال کی عمر میں ان کا اپنے شوہر سٹیو سے پہلے ہی ایک جوان بیٹا تھا۔


وہ کہتی ہیں ’پوری ایمانداری کے ساتھ بتاؤں تو ہمیں 15 مرتبہ اسقاطِ حمل کا مشورہ دیا گیا، اگرچہ ہم نے یہ واضح کردیا تھا کہ ہمارے لیے یہ کوئی آپشن نہیں تھا، لیکن وہ دباؤ ڈالتے رہے اور ایسا لگتا تھا کہ وہ واقعتاً یہ چاہتے تھے کہ ہم اسقاطِ حمل کروا دیں۔‘20 ہفتوں کے سکین پر ایما کو بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کے دماغ میں کچھ سیال مادہ موجود ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے معذور ہونے کا امکان ہے۔’اسی لمحے انھوں نے مشورہ دیا کہ ہم اسقاطِ حمل کروا دیں اور ہمیں کہا گیا کہ سوچیں آپ کے بیٹے اور اس کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔‘ن کا بیٹا لوگن اس وقت سرجری کروانے کے لیے منتظر مریضوں کی فہرست میں تھا۔ لوگن دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔38ویں ہفتے میں ڈاکٹروں نے واضح کر دیا کہ اگر کسی دن صبح اٹھنے پر میرا ارادہ بدل جائے تو میں انھیں بتاؤں کیونکہ ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی‘ایما کا کہنا ہے کہ جس وقت وہ اپنے بیٹے کے ٹھیک ہونے کے منتظر تھے، اپنی بیٹی کی دھڑکن کو روکنے کے لیے دل میں انجیکشن لگا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں (یہ 22 ہفتے ختم ہونے کے بعد اسقاطِ حمل کا تجویز کردہ طریقہ ہے)۔’اس چیز نے ہمیں درست فیصلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔ یہ  مضمون میں نے  انٹر نیٹ سے لیا ہے-


جمعہ، 26 اپریل، 2024

پاکستان کی زراعت میں نہروں کا کردار



تقسیم سے پہلے برصغیر کا بڑا حصہ زراعت کے لیے بارشوں پر انحصار کرتا تھا۔ انگریز نے دیکھا کہ گلیات کے پہاڑوں سے  اترائ کی زمین پر بارشوں کا تناسب  گھٹتا جاتا ہے اور یہاں کی زمین زرخیز ہونے کے باوجود بڑی حد تک بیابان کا منظر پیش کرتی ہے اس لیے انہوں نے ان علاقوں کو آباد  کاری کا فیصلہ کیا   ان کے جیا لوجیکل ماہرین  نے سروے کر کے بتایا  کہ اس علاقے میں نہریں آسانی سے کھودی جا سکتی ہیں، کیوں کہ پوٹھوہار کے بعد ایک بتدریج ڈھلوان ہے جو سندھ  تک چلی گئی ہے۔ ویسے تو اکا دکا نہریں چھوٹے پیمانے پر کھودنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا مگر باقاعدہ نہری نظام کا آغاز 1886 میں ہوا، جس کے تحت انگریزوں نے سب سے پہلے جنوبی پنجاب میں ملتان کے قریب سدھنائی نہر کھودی۔یہ صرف نہر ہی نہیں تھی بلکہ اس سے جو علاقہ سیراب ہوا، وہاں دوسرے علاقوں سے 2705 کسانوں کو لا کر ان میں پونے دو لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ اراضی تقسیم کی گئی۔ اس طرح یہ صرف زرعی نہیں بلکہ سماجی منصوبہ بھی تھااس کے بعد سہاگ پاڑا، چونیاں، چناب، جہلم، لوئر باری دوآب، اپر چناب، اپر جہلم، اور نیلی بار میں لاکھوں ایکڑ سیراب کر کے وہاں لوگوں کی آباد کاری کی گئی۔ان نہروں سے پہلے پنجاب کا کل زرعی رقبہ 30 لاکھ ایکڑ سے بڑھا کر ایک کروڑ 40 لاکھ ایکڑ پر لے گئے۔ یہ سارا کام جدید مشینری اور بلڈوزروں کے بغیر بیلچوں،  اورگھریلو اوزاروں اور مزدوروں کے ذریعے کیا گیا  

قدرتی حسن سے مزیں یہاں، دریا، ندی ،پہاڑ،صحرااورکہیں کہیں تو چپے چپے پہ جھیلیں ، جنگلا  ت سر سبز وشاداب نظارے دکھائی دیتے ہیں۔تاہم کچھ عرصہ سے پانی کی کمی وجہ سے سرسبزہریالی اور زراعت کی کھیتی باڑی پربڑا اثر پڑا ہے۔ درمیان میں بھارت سے آنے والے دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث زراعت سے لے کر باغات اور نہری نظام والے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح میں بھی کمی شروع ہوئی۔ادھر بارشوں کی کمی کے باعث وطن عزیز کے کئی علاقوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قبل ازیں ملک کے اکثر وبیشتر علاقوںمیں پانی کی وافر مقدار سے زراعت ، باغات اور پینے کے لئے پانی وافر مقدار میں ملتا تھا۔ تاہم اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں کاریز سسٹم موجود تھا۔ پانی کے قدرتی چشموں سے بھی پہاڑی جگہوں پر ضروریات زندگی کا استعمال اور فصلات اگائی جاتی تھیں۔ملک میں بارشیں اور زیادہ سرد بالائی علاقوںمیں برف باری بڑی مقدارمیں ہوتی رہتی، بعض پہاڑی جگہوں پر برف کے تودے بن جاتے تھے جن کے پگھلنے کے باعث پانی کی زیر زمین سطح میں اضافہ ہوتا رہتا۔دریا، ندی، نالے بہتے رہتے۔تاہم آج کل ان میں کمی واقع ہوگئی ہے۔


 اس حوالے سے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دنیا کے سرد علاقوںمیں سردی کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ گرمی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بتاتے  ہیں کہ دنیا بھر میں برفانی تودے بھی جلدی سے پگھل رہے ہیں۔کیونکہ پانی اسٹاک کے حوالے سے قدرتی طور پربرفانی تودے اپنابڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم دنیا میں کشمیروتبت کے مقام پر بھی برفانی تودے بڑی مقدار میں بنتے ہیں جن کے پگھلنے سے پانی وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں میں آتا ہے جس سے ملک میں ضروریات زندگی اور نہری نظام کے ذریعے زراعت کی جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود کا صرف 2 فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے باقی 98 فیصد پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔سمندر کا پانی نہ تو پینے کے لئے اور نہ ہی زراعت کے استعمال میں آتاہے۔دوسری جانب1960میں بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہواتھا۔ اس حوالے سے پاکستان کے تین دریا بھارت کو دیئے گئے تھے، جن میں ستلج ، بیاس اور راوی جبکہ دریائے سندھ ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیئے گئے تھے۔


ان دریاؤں پر دونوں ممالک کوڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت تھی۔ ادھر بھارت نے پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں پربھی ڈیم بنانا شروع کر دیئے ، کشن گنگا ڈیم اس کی کڑی ہے۔ تاہم بھارت کی جانب سے پانی کی تقسیم کے بارے عداوت چلتی رہی ہے، ابھی کچھ عرصہ پہلے بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی بند کر دیا تھا۔جس سے پاکستان کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں اور نہری نظام پر بڑااثرا پڑا۔مذکورہ علاقوں میں پانی کی کمی ہوگئی، بھارت اس حوالے سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان نے کئی بار عالمی سطح پر اس کی شکایات بھی کی ہیں۔واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدے میں ضامن کا کردار ورلڈبینک نے ادا کیا تھا۔بھارت نے پانی بند کیا تو پاکستان نے اس مسئلے کے لئے ثالثی عدالت کے قیام جبکہ بھارت نے اس سے فراریت اختیار کی۔تاہم عالمی بینک کے مرکزمیں ہونے والے مذاکرا ت میں بھارت اعتراضات اورتحفظات کو دور نہیں کر سکا اور عالمی بینک کو بھی مطمئن نہیں کر سکا حالانکہ یہ ایک بڑا معاہدہ ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اس کی پاسداری رکھی اور اسے مقدم جانا۔ویسے بین الاقوامی اصول کے تحت دنیا میں اوپری حصے والے ممالک نیچے والے ملکوں کو پانی دیں گے اور یہ قدرت کا نظام ہے کہ پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی جانب جاتاہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کے دریاؤں میں پانی اوپری سطح سے بھارت، کشمیر اورتبت کے مقام سے آتاہے۔ ان آنے والے دریاؤں میں پانی کو یہاں نہری نظام اور ندی نالوں کے ذریعے باغات ،کھیتی باڑی اور پینے کے لئے بھی استعمال میں لایاجاتا ہے۔ نہری نظام پر مشتمل علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے کے سبب ہینڈ پمپ اور اس پر واٹرموٹر رکھ کر پانی حاصل کیا جاتا ہے۔

یہ امر حقیقی ہے کہ پانی کی وافرمقدار بنجر زمین کو آباد کرتی ہے، اس سے غذائی پیداوار کے معاملے میں خودکفیل ہو اجاتا ہے۔ اسی طرح ملکی پیداوار ، زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ افراط زر کا خاتمہ بھی پیداوارمیں اضافے سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن بھارت آئے دن پاکستانی دریاو ں پر بند باندھ کر پاکستان کو خشک سالی سے ددو چار کرتا رہتا ہے۔ درمیان میں بھارت سے آنے والے دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث زراعت سے لے کر باغات اور نہری نظام والے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح میں بھی کمی شروع ہوئی۔ادھر بارشوں کی کمی کے باعث وطن عزیز کے کئی علاقوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قبل ازیں ملک کے اکثر وبیشتر علاقوںمیں پانی کی وافر مقدار سے زراعت ، باغات اور پینے کے لئے پانی وافر مقدار میں ملتا تھا۔ تاہم اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں کاریز سسٹم موجود تھا۔ پانی کے قدرتی چشموں سے بھی پہاڑی جگہوں پر ضروریات زندگی کا استعمال اور فصلات اگائی جاتی تھیں۔ملک میں بارشیں اور زیادہ سرد بالائی علاقوںمیں برف باری بڑی مقدارمیں ہوتی رہتی، بعض پہاڑی جگہوں پر برف کے تودے بن جاتے تھے جن کے پگھلنے کے باعث پانی کی زیر زمین سطح میں اضافہ ہوتا رہتا۔دریا، ندی، نالے بہتے رہتے۔تاہم آج کل ان میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دنیا کے سرد علاقوںمیں سردی کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ گرمی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بتاتے ہیںکہ دنیا بھر میں برفانی تودے بھی جلدی سے پگھل رہے ہیں۔کیونکہ پانی اسٹاک کے حوالے سے قدرتی طور پربرفانی تودے اپنابڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم دنیا میں کشمیروتبت کے مقام پر بھی برفانی تودے بڑی مقدار میں بنتے ہیں جن کے پگھلنے سے پانی وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں میں آتا ہے جس سے ملک میں ضروریات زندگی اور نہری نظام کے ذریعے زراعت کی جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود کا صرف 2 فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے باقی 98 فیصد پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔سمندر کا پانی نہ تو پینے کے لئے اور نہ ہی زراعت کے استعمال میں آتاہے-پاکستان میں اس وقت اور مستقبل میں پانی کے بحران سے بچنے کا واحد حل نئے ڈیم بنانا ہیں تاکہ سیلابی پانی کو زخیرہ کیا جاسکے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

عید مباہلہ -ایک عظیم الشان دن

  عید مباہلہ کی اہمیت: مباہلہ کا واقعہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے، جس میں سورہ آل عمران کی آیت 61 میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. اہل تشیع ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر