منگل، 9 اپریل، 2024

پردیسیوں کی کہانیاں

یہ اب سے تقریباً پچیس برس پہلے کا زکر ہے میں  

 ایک رو حانی محفل   میں شریک    -تھی بہت سے جانے پہچانے چہرے تھے اور کئ چہرے نا شناسا بھی تھے ان نا شناسا چہروں میں ایک نازک اندام  لڑکی اپنی ننّھی منّی سی گڑیا جیسی  بیٹی کو لئے بیٹھی تھی لڑکی بھی شکل و صورت کی اچّھی تھی لیکن اس کی گود میں بچّی ماشاللہ بہت پیاری تھی میں نے پیار سے دیکھا توبچّی میرے پاس ہمک کر آ گئ ، میں کچھ دیر اس سے کھیلتی رہی پھر وہ بچّی اپنی ماں کے پاس واپس چلی گئ ،مین نے لڑکی سے کہا معلوم ہوتا ہے تمھارے والد بہت خوبصورت ہوں گے کیونکہ بیٹی کی اولاد اکثر اپنے نانا کی شکل پر ہوتی ہے ،لڑکی کہنے لگی آپ نے ٹھیک پہچانا لیکن میرے والد کا مقدّر ان کی ساری وجاہت کے بر عکس بڑا کھوٹا نکلا-کیون ؟کیا ہوا؟میرے اندر ایک احساس سا جاگا جیسے وہ لڑکی مجھ سے کچھ شئر کرنا چاہ رہی ہےلڑکی پھر گویا ہوئ-ہم درمیانے طبقے کے لوگ ہیں  ،امّی نے ابّو کو زبردستی باہر یہ کہ کر بھیجا کہ میرا اس پیسے میں گزارہ نہیں ہوتا ہے ابّو نے بالآخر امّی کے آگے ہا ر مان لی اور باہر چلے گئے ،ابّو کے باہر جانے کے بعد ہمارے ایک عزیز امّی سے کچھ چھوٹی عمر کے امّی کے پاس آنے لگے اور ابّو کا بھیجا ہوا پیسہ ہمارے گھر میں خوشحالی تو لایا لیکن ساتھ امّی کی بے راہروی بھی لایا اور میرے ابّو کی پردیس کی خون پسینے کی کمائ امّی بے دریغ اُن پر خرچ کرنے لگیں، ہم بہن بھائیوں کو ان کا آنا بہت ناگوار گزرتا تھا لیکن امّی نے سختی سے کہ دیا کہ کوئ بچّہ ان کے معاملات میں دخیل ناہو اور ہم بہن بھائ چپ ہو گئے

اور پھر دو برس تو جیسے پلک جھپکتے میں گزر گئے اور ابّو پاکستان آ گئے امّی نے ابّو کے آگے طلاق کا مطالبہ رکھ دیا ابوّ بہت روئے لیکن حالات اس نہج پر تھے کہ ابّو کو با لآخر طلاق دیتے بنی اور پھرطلاق ہوتے ہی امّی کی تقدیر کی بساط الٹ گئ،وہ شخص جو دو برس سے امّی کا پل پل رات اور دن کا ساتھی تھا وہ جو امّی سے کہتا تھا کہ طلاق لے لو میں تم سے شادی کروں گا وہ ا مّی کی زندگی کے آسمان سے دھواں بن اس طرح تحلیل ہو گیا کہ جیسے وہ امّی کی زندگی میں آ یا ہی نا ہو - ابّو کے طلاق دینے کے بعد اب امّی ہم سب کو چھوڑ کر اپنے میکہ جاچکی تھیں ،اور ابّو پردیس دوبارہ جانے سے انکاری تھے کیونکہ پھر ہم تینوں بھائ بہن اکیلے رہ جاتے

اس عرصہ میں، میں انّیس برس کی - چھوٹی بہن ستّرہ برس کی اور بھائ پندرہ برس کا  ہوچکا تھا ابّو اب پردیس تو واپس نہیں جا سکتے تھے گھرکے اندر  سامنے کے حصّے  کریانہ کی دکان کھول لی تھی تاکہ ہم بہن بھائ گھر میں اکیلے نہیں رہیں ایسے میں میرا ایک اچھّا رشتہ آیا جسے ابّو نے دیکھ بھال کر میری شادی کر دی اس سنگین حادثہ کی وجہ سے میرا انتہائ نفیس مزاج معصوم بھائ نفسیاتی مریض ہو گیا تھا جس کو میرے شوہر نے بہت سمجھداری سے سنبھالا اور پھر وقت گزرتا رہا بس ہمیں اتنا پتا چلا کہ امّی کے بھائیوں نے ان کی شادی کراچی کے بجائے سندھ کے کسی اور شہر میں کر دی ہے،ظاہر سی بات ہے کہ میرے ماموؤں کی اپنی فیمیلیز تھیں اور حقیقت بھی یہ تھی کہ امّی کے کردار کو ان کے میکہ میں سب ہی برا کہ رہے تھے

پھر ابّو نے ایک اچھّا رشتہ دیکھ کر مجھ سےچھوٹی بہن کی شادی بھی کر دی ہمارا امّی سے ہر قسم کا ناطہ ختم ہو چکا تھا لیکن ہوا یوں کہ شادی کے سال بھر کے بعدبہن کے یہاں پہلے بچّے کی ولادت ہوئ تو اس نے امّی کو  نا جانے کس کے  زریعہ رابطہ کر کے  اپنے پاس بلالیا بہن ہاسپٹل میں تھی اور میں ابّو اور میرے شوہر بچّے اور بہن سے ملنے جب ہاسپٹل پہنچے تو امّی وارڈ میں بچّے کو اپنی گود میں لیئے بیٹھی تھیں اور ابّو جیسے ہی وارڈ میں داخل ہوئے ویسے ہی واپس ہو لئے میں نے ابّو کو دیکھ کر کہا کیا ہوا ابّو کہنے لگے وہاں کوئ اجنبی خاتون ہیں جب وہ چلی جائیں گی تب جاؤں گا میں نے ابّو سے کہا ابّو وہ امّی ہیں میرے کہنے ساتھ ایسالگا کہ ابّو کا کسی نے لہو نچوڑ لیا ہو،

میں نے ابّو سے کہا ابّو آپ اپنے آپ کو سنبھالئے کہ اب ہمارے لئے آپ ہی سب کچھ ہیں ،ابّو نے اپنی آنکھوں کے گوشوں پر ٹکے ہوئے آنسو صاف کئے اور بولے ان سے پوچھو کیا وہ بیمار ہیں ،یا ان کو پیسہ کی ضرورت ہے ،امّی کا حسن گہنا گیا تھا اور وہ ایک مدقوق ضعیف خاتون دکھائ دے رہی تھیں-یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ میری امّی بھی حسن و خوبصورتی میں یکتا ئے روزگار تھیں-جب میں نے امّی سے یہ بات کہی امّی بے اختیار رونے لگیں پھر آہستہ سے بولیں ان سے کہو مجھے معاف کر دیں،جب لڑکی خاموش ہوئ تو اس کے منہ سے بے اختیار ایک سرد آہ نکلی اور اس نے کہا ،پھر امّی نے بتایا کہ وہ گھارو شہر میں ایک جھگّی محلّہ میں بیاہی گئیں ہیں اور ان کا شوہر ضعیف کمزور اور مدقوق ہے اور امّی کو ان کی کئر ٹیکر بننے کے لئے ان کا نکاح کیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ مجھے بھی امّی کو اس حال میں دیکھ کر شدید صدمہ ہواتھا ،وہ سراپا غربت کی تصویر تھیں وہ بال جن کو وہ اپنے محبوب کے لئے رنگ کر سنوارا کرتی تھیں اپنے سفید رنگ ہو چکے تھے شائد رزق کی کمی نے ان کو بلکل نڈھال کر دیا تھا-لڑکی پھر خاموش ہو گئ اور پھر چند ثانیوں کے بعد بولی-یہ میری امّی کی داستانِ عشق و الم تھی جن کے حسن کو ان کی ہوائے نفسانی نے بہت جلد خزاں رسید کر دیا تھااس بار جب لڑکی خاموش ہوئ میری واپسی کا وقت آ چکاتھا ،میں نے چلتے چلتے اسے دعائیں دیں اور گھر آگئ لیکن کئ دن تک یہ قصّہ میرے حواس پر محیط رہا ،  

اتوار، 7 اپریل، 2024

ایک شہر کئ صدیوں کا سفر -دہلی


تیمور  نے دہلی کو اجاڑ کر ہی دم لیا -لیکن پحر اس اجڑی ہوئ  بستی کو ہندوستان  کے کونے کونے سے لوگوں نے آ کر بسا لیا  ۔   پھر مغل  بادشا  ہوں کے آنے سے دلی  کو کچھ رونق ملی -لیکن پھر  فضلت مآب شہر آگرہ بن گیا ۔    اکبر نے آگرہ کو اکبر آباد بنایا تو اسے ہفت آسمان کا دمکتا نگینہ بنا دیا ۔پھر جہانگیر کے بعد دور شاہجہانی آیا -شاہجہاں کی زندگی کے بہترین سال بھی یہیں گزرے۔ ممتاز کی موت نے اسے آگرہ سے کچھ بد دل سا کر دیا، مگر چلتے چلاتے تاج محل سا تحفہ آگرہ کو دے کر آیا۔ نظر انتخاب دلی پر پڑی، سوکھے دانوں پانی پڑا۔ آن کی آن میں کایا پلٹ گئی۔ حسن کچھ ایسا نکھرا، جیسے کالی بدلیوں سے چھٹ کر چاند نکل آیا۔ اس زمانے کی نئی دلی اور آج کی پرانی دلی کو دل کھول کر سجایا گیا۔ لال قلعہ بنا، جامع مسجد بنی، چاندنی چوک، فیض بازار اور چوک سعد اللہ جیسے بازار بسے۔ محل سرائیں تعمیر ہوئیں۔تمام دلی باغ و بہار ہوگئ ۔ اہل قلم، اہل سیف، اہل دولت اور اہل حرفہ غرض سبھی کی آنکھوں کا تارا بنی۔ دولت اور فراغت نصیب ہوئی تو دلی کی معاشرت نکھر آئی۔ مزاجوں میں نفاست آ گئی۔ طبیعتیں سیر و تفریح کی طرف راغب ہوئیں۔ معیارِ زندگی اونچا اٹھا تو اچھی چیزوں کی مانگ بڑھی۔ معیاری چیزیں بننے لگیں۔ قدردانی فن میں توانائی اور بلندی پیدا کرتی ہے۔ اس میں ہُن برستی دلی میں بادشاہ کی سر پرستی اور امراء کی قدردانی نے پارس کا کام کیا۔ جو چیز چھو لی گئی، سونا بن گئی۔ اہل حرفہ کے حوصلے ایسے بڑھے کہ ہر شخص اپنے فن کا ماہر بن گیا۔ اہل حرفہ ہی پر کیا موقوف، جو جہاں تھا وہیں اس نے اپنے جوہر دکھائے۔ یہ عہدِ زریں اورنگ زیب کے دم تک رہا۔ کامیابی دولت اور عیش کے سامان مہیا کرتی ہے تو تن آسانی، قویٰ، کوشل اور احساسِ فرض کو سرد کرکے انحطاط کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہی کچھ مغلوں کے ساتھ ہوا۔

کہاوت ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے، لیکن ہر زروال صرف تخریب کی جانب نہیں لے جاتا، بلکہ اس سے تعمیر کے سوتے بھی پھوٹتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس دورِ انحطاط میں بھی ہوا۔ دلی میں مغلیہ دور (شاہجہاں تا بہادر شاہ ظفرؔ) جو معاشرہ وجود میں آیا، اسے مشترکہ تہذیب، گنگا جمنی تہذیب کہا گیا اور جو بعد ازاں دلی کی تہذیب کہلائی۔ اسی دورِ انحطاط میں اس کی نشوونما ہوئی۔ اسی دورِ انحطاط میں شمالی ہند میں اردو شعر و ادب کا آغاز ہوا۔ دلی شعرو ادب کا مرکز بن گئی۔ یہاں شعر و ادب پر تبصرہ کرنا مقصود نہیں، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ دلی کی تہذیب نے شعر و ادب کو اس طرح متاثر کیا کہ یہ الگ دبستان بن گیا  اور آج یہ   لگ بھگ تین  کروڑ سے اوپر آبادی والا دلی شہر اپنے اندر ایک  گونا گوں   دنیا آباد کیے ہوئے ہے - یہ پورے ملک کی ثقافتوں، مذاہب اور روایات کا عکاس ہے۔گذشتہ کئی صدیوں پر محیط عالمی تجارت، فتوحات اور نوآبادیاتی نظام کی تاریخ نے دلی کو واقعی ایک کثیر الثقافتی رنگ دیا ہے۔دلی کا ثقاتی تنوع تو اپنی جگہ لیکن یہاں پر بسنے والے نوجوان ہوں یا بزرگ، سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ایک اچھی پارٹی (تقریب) سے لگاؤ۔ یہاں ایک شادی پانچ سے دس دنوں تک جاری رہتی ہے جس میں ایک ہزار سے زیادہ مہمان صرف ایک شادی سے جڑی رسومات اور پارٹیز کا حصہ بن سکتے ہیں۔ویسے تو پورے انڈیا میں ہی شادی کی رسم کئی دنوں تک جاری رہتی ہے لیکن دلی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر مبارک سمجھی جانے والی تاریخ پر ایک دن میں 60 ہزار شادیاں بھی ہو چکی ہیں۔ دلی کی شادیوں اور ان پر ہونے والے خرچوں کے اتنے چرچے ہو چکے ہیں کہ انڈیا میں کئی اراکین اسمبلی شادیوں میں فضول خرچی کے خلاف بل متعارف کروا چکے ہیں۔


چاندنی  چوک  بھارت کے شہر دہلی کا قدیم ترین اور مصروف ترین بازار ہے۔ یہ پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کی قربت میں واقع ہے۔ یہ بھارت کا سب سے بڑا تھوک فروش بازار بھی ہےاردو بازار بھارت کے شہر دہلی کی جامع مسجد کے قریب کی ایک گلی ہے۔یہ پرانے زمانے میں دہلی کے دیواری شہر کا سب سے اہم بازار تھا۔ شہنشاہ شاہجہان نے قلعہ معلّٰی دہلی کے قریب اردو بازار کے نام سے اس محلہ کو بسایا تھا۔نئی دہلی حکومت بھارت کا دار الحکومت اور قدیم شہر ہے۔ یہ پہلے بھی بادشاہوں کی دار الحکومت ہو کرتا تھا اور آج بھی یہ اس ملک کا دار الحکومت ہے مغلوں کے زمانے میں تعمیر شدہ عمارتین آپ کو اس شہر میں بھی کافی تعداد میں ملتی ہیں جن میں دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد اور قطب الدین کی تعمیر کردہ قطب مینار سر فہرست ہے۔ نئی دہلی میں اعلی درجے کی سیاحتی پرکشش مقاماتاس شہر میں جادوئی مساجد، تاریخی یادگاروں، پرانے اور شاندار قلعوں کی ایک لکیر ہے جو مغل حکمرانوں کی میراث   ہے- دلی میں جہاں سالانہ دس لاکھ شادیوں کی پارٹیز اور روایتی رسومات کا چرچا ہوتا ہے وہیں یہاں کے باسیوں نے کلبو ں  ا ریستوران کے ذریعے ایک مغربی پارٹی کلچر بھی اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رکھا ہے۔دہلی کے  گم گشتہ  عوام-دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لیے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔  دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے--بات کہنے میں آتی ہے تو اتنا سمجھ لیجیے، دلی والے علم مجلسی میں بھی دوسروں کی نسبت آگے ہی تھے۔ حالتِ غیظ میں بھی ’’آدمیت‘‘ کو نہ چھوڑتے۔ 


کبھی ایسا بھی وقت آتا کہ زبان پر گالی بھی آجائے تو طبقہ اشرافیہ کی زبان پر تیرا یا تیری جیسے الفاظ نہ آتے۔ گالی دینے میں بھی ایک سلیقہ ہوتا تھا۔ دلی کے مشہور طبیب اور مدبر، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے دیوان خانے کے تعلق سے بہت سی باتیں منظرعام پر آ چکی ہیں حکیم صاحب نے ملک میں دیسی ادویات کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک بڑی تحریک چلائی اور اپنے مشن کو انجام تک پہنچانے کے لیے دہلی میں تین اعلیٰ اداروں کی بنیاد رکھی، پہلا سنٹرل کالج، دوسرا ہندوستانی دواخانہ اور تیسرا طبیہ کالج، جو اب آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج کے نام سے جانا جاتا   ہےاگر آپ ہندوستان کا دورہ کرتے ہیں ، تو آپ کو ذیل میں درج ذیل مقامات کا دورہ کرنا چاہیے۔ یہاں ان مقامات کی فہرست ہے جو دہلی میں دیکھنے کے لیے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پرکشش مقامات ہیں۔ان مقامات کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر عوامی دوروں کے لیے مفت ہیں۔ آپ کی ضرورت ہے انڈیا ای ٹورسٹ ویزا  انڈین ویزا آن لائن ہندوستان میں ایک غیر ملکی سیاح کے طور پر حیرت انگیز مقامات اور تجربات کا مشاہدہ کرنے کے لیے۔ متبادل طور پر، آپ ایک پر ہندوستان کا دورہ کر سکتے ہیں۔ انڈیا ای بزنس ویزا اور ہندوستان میں کچھ تفریح ​​اور سیر کرنا چاہتے ہیں۔ دی انڈین امیگریشن اتھارٹی ہندوستان آنے والوں کو درخواست دینے کے لئے حوصلہ افزائی کرتا ہے انڈین ویزا آن لائن ہندوستانی قونصل خانہ یا ہندوستانی سفارتخانے جانے کے بجائے۔جامع مسجد۔دہلی میں دیکھنے کے لیے بہت سے شاندار جواہرات میں سے ایک جامع مسجد ہے۔ عبادت گاہ ہونے کے علاوہ، جامع مسجد مشہور مغل فن تعمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تقریباً شہر کے کھوئے ہوئے اور پائے جانے والے خزانے کی طرح ہے۔ یہ ملک کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ مسجد کا صحن اتنا کشادہ ہے کہ تقریباً 25,000 عازمین آرام سے رہ سکتے ہیں۔ اس قد کاٹھ کی مسجد بنانے میں کاریگروں، مزدوروں، انجینئروں اور منصوبہ سازوں کو اس بے مثال خوبصورتی کو عملی جامہ پہنانے میں 12 سال لگے۔ آخر کار یہ سال 1656 میں مکمل ہوا۔یادگار کے جنوبی ٹاور کی چوٹی تک ایک محنتی چڑھائی آپ کو دلکش شہر دہلی کا ایک دلکش نظارہ پیش کرے گی(تاہم، یہ علاقہ دھاتی حفاظتی گرلز سے بند ہے)۔ مسجد میں آسانی سے داخل ہونے کے لیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے آپ کو ٹھیک سے ڈھانپیں (اپنی جلد کا زیادہ حصہ نہ دکھائے) کیونکہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک مقدس عبادت گاہ ہے۔ جلد تاہم، اگر آپ اب بھی اس جگہ کے لیے مطلوبہ لباس پہننا بھول جاتے ہیں، تو مسجد میں داخل ہونے اور تبدیل کرنے کے لیے مختلف لباس موقع پر فراہم کیے جاتے ہیں۔یہ جگہ پرانی دہلی کے چاندنی چوک کے قریب لال قلعہ کے قریب واقع ہے۔،

دہلی  میں سیّاحوں کی کششپراشر جھیل

فطرت کے شائقین کے لیے ایک چھوٹی سی پناہ گاہ، پراشر جھیل ان میں سے ایک ہے۔ ہماچل پردیش میں دیکھنے کے لئے سب سے خوبصورت مقامات. یہ پرسکون چھوٹی وادی 2730 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ دیودار کے گھنے جنگلات اور دھولدھر سلسلوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔. کچھ واقعی خوبصورت مناظر کا مشاہدہ کرنے کے لیے تیار رہیں کیونکہ اس جھیل کے بیچ میں ایک خوبصورت چھوٹا تیرتا ہوا جزیرہ کھڑا ہے، اور کنارے پر ایک 100 سال پرانا پگوڈا نما مندر دیکھا جا سکتا ہے جو سنت پراشر کے لیے وقف ہے۔ اگر آپ اس تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو جھیل تک جانے کی کوشش کریں اور ایک رات کے لیے کنارے پر کیمپ لگائیں!ریوالسر جھیلریوالسر جھیل ایک مربع شکل کی جھیل ہے جو 1360 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور ایک پہاڑی اسپر سے دور ہے۔ اس نام سے بہی جانا جاتاہے Tso-Pema، اس کا تقریباً ترجمہ "لوٹس لیک" سے کیا جا سکتا ہے اور یہ منڈی میں دیکھنے کے لیے سب سے خوبصورت مقامات میں سے ایک ہے۔ حیرت انگیز خوبصورتی کے علاوہ، اس جگہ پر، آپ کو بھی مل جائے گا 3 ہندو مندر جو بالترتیب بھگوان شیو، بھگوان کرشنا اور سیج لوماس کے لیے وقف ہیں، دیگر خانقاہوں، گرودواروں کے ساتھ، اور پدم سمبھوا کا ایک بہت بڑا مجسمہ جو روحانی مسافروں کو لانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ 

جمعرات، 4 اپریل، 2024

عمر شریف -لیجنڈ آف ظرافت




 کہتے ہیں کہ پُوت کے پاؤں  پالنے میں  نظر آ جاتے  ہیں -تو  ننھے عمر شریف کے ساتھ بھی یہی ہوااپریل کی 19 تاریخ اور سن 1955 تھا جب لیاقت آباد میں کرائے کے گھر میں مقیم غریب گھرانے میں محمد عمر نے آنکھ کھولی۔ کئی بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ 4  ہی برس کے  ہوئے تھے کہ  والد نے داغ مفار قت  دے گئے۔ ہوش سنبھالا تو 2 بڑے بھائی بھی محنت مزدوری کر کے ماں اور بڑی بہن   کی کفالت  کرتے نظر آئے  ۔محمد عمر پڑھائی سے زیادہ اہل محلہ اور عزیز و اقارب کی چال ڈھال اور آواز کی نقل اتارنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ محلے میں جو بھی فق آتا عمر اس کی ہوبہو نقل اتارتا اور اہل محلہ سے داد پاتا، کم سنی سے ہی کوئی فنکار ان میں پنپ رہا تھا۔ والدہ نے اپنے تئیں جتن کرکے ہار مان لی تھی اور بڑے بھائی بھی مار پیٹ کا ہتھکنڈہ آزما کر ناکام ہوئے تو محمد عمر کو مرضی کی زندگی گزارنے کا لائیسنس مل گیا تھا۔محمد عمر نے زندگی کی 12ویں سیڑھی پر قدم رکھا تو اداکاری کا شوق انہیں سینما بینی کی جانب لے گیا۔ پیسے پس انداز کرکے ف دیکھنا معمول بن چکا تھا۔ غربت زدہ ماحول میں شوق کی آبیاری کے لیے خود بھی محنت مزدوری شروع کر دی تھی۔لیکن غور کیجئے  غربت کے ڈیروں میں بہن بھائ کی کثرت کے باوجود ننھے عمر شریف کی  تخلیقی صلاحیتون کو زیر نہیں  کر سکی  - 

ان دنوں آدم جی ہال کراچی میں سٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ کسی دوست نے راہ دکھائی تو وہاں کی کینٹین میں ملازمت کرلی لیکن تھیٹر کا دروازہ ان پر نہ کھل سکا۔ لوگوں کی چائے اور کھانے  پینے سے تواضع کرتے بلکہ انہیں اپنی منفرد صلاحیتیوں اور مشاہدے کے جوہر بھی دکھاتے ۔یہاں تک کہ ایک روز قسمت کی دیوی ان پر آخر مہربان ہو ہی گئ ان دنوں آدم جی ہال میں صمد یار خان کی ڈائریکشن میں ڈرامہ جاری تھا۔ معروف اداکار اے کے پٹیل، ہندو جوتشی کا کردار نبھا رہے تھے انہیں بیوی کے انتقال کی اطلاع ملی تو وہ اچانک  ڈرامہ چھوڑ کر چلے گئے۔ کچھ دیر میں شو شروع ہونا تھا اسی پریشانی میں صمد یار خان کے اسسٹنٹ نے انہیں  کینٹین بوائے محمد عمر  کے لئے  بتایا کہ وہ یہ کردار کرسکتا ہے۔ مجبوراً محمد عمر کو کردار دیا گیا اور میک اپ کے دوران ہی انہیں ڈائیلاگز پڑھ کر سنائے گئے۔ کردار کی ڈرامے میں صرف 3 انٹریاں تھیں۔سنہرے مستبقل کی آس، اپنی صلاحتیوں پر اعتماد اور دھڑکتے دل کے ساتھ محمد عمر نے پہلی انٹری دی۔ ڈائیلاگز کے مطابق خود کو کردار میں ڈھالا اپنی طرف سے جنتر منتر بھی پڑھے، آخری موقع جان کر جان کی بازی لگادی اور یہی وجہ تھی کہ انٹری ختم ہونے پر شائقین نے ہال میں کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔ڈرامے کا سپیل ختم ہوا تو ڈائریکٹر کی جانب سے معاوضے کی مد میں 5 ہزار روپے اور انعام کے طور پر موٹرسائیکل اور سال بھر کے لیے پیٹرول دیا گیا-

چھوٹے سے کردار نے 14 برس کے محمد عمر کا دل اور دماغ ہی نہیں بلکہ بھرپور زندگی کی طرف جانے والے سبھی رستے بھی کھول دیے تھے۔فرقان حیدر کراچی تھیٹر کا معروف اور کامیاب نام تھا۔ معین اختر جیسے نابغہ روزگار فنکار بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھے۔ ایک روز محد عمر، ان کے گھر چلے گئے کہ انہیں بھی ٹیم میں شامل کیا جائے۔ فرقان حیدر نے کہا میں نے آپ کا کام دیکھا ہے، شاندار ہے لیکن میری ٹیم میں شامل ہونا چاہتے ہو تو کسی بڑے کو ساتھ لیکر آؤ۔محمد عمر نے والدہ کو راضی کیا اور وہ فرقان حیدر کے پاس آئیں کہ میرے ننھے (محمد عمر کا نک نیم) کو بھی اداکاری کا موقع دیں۔ کراچی تھیٹر کی تاریخ گواہ ہے کہ محمد عمر اور فرقان حیدر کی جوڑی نے سٹیج کی دنیا میں کیسے کیسے ناقابل تسخیر ریکارڈ قائم کیے۔محمد عمر کو پاکستانی اداکار ’شہنشاہ ظرافت‘ منورظریف بہت پسند تھے، انہیں غائبانہ استاد مانتے تھے، اسی مناسبت نام بدل کر عم ظریف کرلیا تھا۔ تاہم جب مصری اداکار عمرشریف کی فلم ’لارنس آف عربیہ‘ دیکھی تو نام کو ہمیشہ کے لیے عمرشریف کرلیا۔سٹیج ڈراموں میں پرواز کے ساتھ ساتھ آڈیو کیسٹ کے زمانے میں ’عمرشریف شو‘ کے نام سے 5 کیسٹز بھی جاری کیں جنہوں نے نہ صرف نیا معیار قائم کیا بلکہ عمرشریف کی شہرت کو پَر بھی لگا دیے تھے۔اور پھر تھڑے اور ڈھابے کی زبان لے کر  وہ بچہ ظرافت کے میدان میں کود پڑاجس کو زمانے نے اپنے شانوں پر بٹھا لیا -قدم قدم پر تہذیب  کا دوشالہ اوڑھے معاشرے میں ڈھابے کی زبان کو خوب پذیرائ ملی

معین اختر کی رفاقت کی بدولت محمد عمر کو پاکستان ٹیلی وژن میں ’ففٹی ففٹی‘ اور چند دیگر ڈراموں میں مختصر کردار دیے گئے لیکن وہاں جاری گروہ بندی اور محمد عمر کا خداداد ٹیلنٹ ہی ان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے پی ٹی وی پر موقع نہیں دیا گیا، لوگ گھبراتے تھے، لیکن شاید اس وقت میرے نصیب میں ہی نہ تھا، کیوں کہ وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کسی کو کچھ نہیں ملتا۔‘عمرشریف نے روایتی تھیٹر کو بدل کر رکھ دیا تھا، ان کا کرشمہ یہ تھا کہ وہ ڈرامے کے موضوعات کو نہ صرف زمین پر لے آئے تھے بلکہ ان کے ڈائیلاگز اور زبان بھی زمین سے جڑے افراد کی تھی، بلکہ تھڑے اور ڈھابے کی زبان تھی۔عمر شریف کا خاصہ ان کی پرفیکٹ ٹائمنگ، برجستگی اور فی البدیہہ جملے بازی تھی۔ لالو کھیت، چھچھورا، ابے او، بڈھا اور لعنت جیسے الفاظ ان کے ڈراموں میں عام تھے۔ ان پر کڑی تنقید بھی کی گئی لیکن شائقین ڈرامہ انہیں پسند کرتے تھے90 کی دہائی میں کراچی سے لاہور منتقل ہوئے، شمع سنیما کو لاہور تھیٹر میں بدلا اور کئی یادگار ڈرامے پیش کیے۔ فلم ’مسٹر 420‘ کے لیے 2 نیشنل اور 4 نگار ایوارڈز بھی ملے جو ایک منفرد اعزاز ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ماں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاؤں دبائے بغیر کبھی اپنے بستر پر نہیں جاتے تھے۔


 ایک بار سٹیج ڈرامہ کرنے سے پہلے والدہ کے انتقال کا پتا چلا لیکن کمٹمنٹ کے باعث ڈرامہ مکمل کرکے شائقین کو جنازے کا وقت بتایا گیا۔ ساتھی فنکاروں اور غربا کی کھلے دل سے مدد کرتے تھے۔ فلاحی تنظیم عمر شریف ٹرسٹ بھی قائم کی،پھر غریبوں کے مفت علاج کے لیے ’ماں‘ اسپتال بھی شہرت کی دیوی رام ہونے پر دنیا بھر میں شوز کیے، انہیں بھارت میں بھی کئی کامیڈی شوز میں بطور جج بلایا گیا۔ تمام بڑے بھارتی اسٹارز ان کے مداح ہیں۔پاکستان میں بھی مختلف نجی ٹی وی چینلز پر شوز کیے۔ کینسر اسپتال شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ میں بھی عمر شریف کا اہم کردار تھا ، اس کے لیے انہوں نے عمران خان کے ہمراہ دنیا بھر میں بے تحاشا شوز کیے۔عمرشریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی پہلی بیگم دیبا عمر ہیں، دوسری شکیلہ قریشی تھیں اور تیسری زرین غزل ہیں۔ پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے جواد عمر شریف اور فواد عمر شریف ہیں جبکہ صاحبزادی حرا عمر شریف تھیں۔ 17 فروری 2020 کو ان کی بیٹی حرا عمر شریف گردوں کی پیوندکاری میں پیچیدگی کے باعث لاہور میں انتقال کر گئی تھیں۔ عمر شریف شوز کے لیے امریکا میں تھے تاہم بیٹی کے انتقال کی اطلاع ملنے پر وہ فوراً واپس لوٹ آئے تھےبنایا تھالاڈلی اور اکلوتی بیٹی حرا شریف کی جدائی کا غم ان کے لیے روگ بن گیا تھا، جب بھی بیٹی کا ذکر کرتے تو آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ اسی کیفیت کا نتیجہ تھا کہ ستمبر 2021 میں ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ پرستاروں کے دباؤ پر حکومت سندھ نے بیرون ملک علاج کے لیے 4 کروڑ روپے جاری کیے- لیکن موت کی ساعتیں مقرر تھین جو  ایک زندہ دل  انسان  کو ہم سے چھین کر لے گئیں ۔ 

ہفتہ، 30 مارچ، 2024

شہادت حضرت علی علیہ السلام


19حضرت  علی ابن ابی طالب  علیہ السلام  پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود تلوار کے ذریعہ نماز کے دوران میں قاتلانہ حملہ کیا۔یہ تلوار امیر شام کے محل میں پورے ایک مہینے اپنے وقت کے سب خطرناک زہر میں ڈبو کر رکھّی گئ تھی  - مولا کو شہادت سے بہت انسیت تھی اور شہادت کے طلبگار تھے۔ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت، شہد کی طرح شیرین و خوبصورت ہے۔یہ ایک ایسا احساس ہے جس میں ، اپنی تمام خواہشات ، مال و دولت،  اور اپنا ہر عمل خدا کیلئے انجام دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ شہادت کی شیریں لذت کو محسوس کرتا ہے-امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت شُکر اور خوشی کا مقام ہے۔امیر المومین علی علیہ السلام بہترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ہمدرد حاکم ، کامل ترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین، کو روئے زمین پر سب سے شقی انسان عبد الرحمنٰ ابنِ ملجم نے شدّت سے مجروح کرڈالا اورآپ  علیہ السلام  زخمی ہونے کے بعد شہادت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوکر ۔۔پیغمبروں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجودِ بابرکت سے محروم کر گئے۔


۔دنیا میں بادشاہوں اور حکمرانوں کو انکی نا انصافیوں اور ظلم و جبر کی وجہ سے قتل کیا جاتا ھے لیکن مولا علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جنکو انکے شدت عدل کی وجہ سے شہید کیا گیا۔حضرت علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلودر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی، آپؓ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہٖ وآلہٖ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے۔حضرت    علی علیہ السلام ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش کی فضیلت  ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، حضرت علی ؓعلیہ السّلام  کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ؐ ان کی بہت عزت کرتے تھے اورخصوصی التفات بھی برتتے تحھے اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی ﷺمیں موجود ہیں کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔


 حضرت علیؓ  علیہ السلام کا حسبِ نسب:آ پ ؓکے والد حضرت ابو طالب اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔حضرت علی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اوروہیں پرورش پائی۔ پیغمبرکی زیرنگرانی آپ کی تربیت ہوئی، وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضورؐ ان کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔روزہ دار پر سجدے میں وار کیا:کون تھا یہ قاتل؟ ایک مسلمان کلمہ گو نماز پڑھنے والا، اللہ اکبر ہم ایسے مسلمانوں کو مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں جو دل میں بُغض رکھتے ہوں۔کیا شان ہے ہمارے خلیفہ علی علیہ السلام کی انھیں علم تھا آج انھیں قتل کردیا جائے گا اور قاتل کو جانتے تھے


حضرت  علی علیہ السلام کی تین فضیلتیں:وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علیؓ علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ علیہ السلام کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی   کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا۔آخر میں غ دیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔ حضرت   پر 19 رمضان 40 ہجری میں شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے سر پر زہر بجھی تلوار سے وار کرکے زخمی کردیا، زخمی ہونے پر آپ کے لبوں پر جو پہلی صدا آئی وہ تھی کہ ”ربِ کعبہ کی قسم آج علی کامیاب ہوگیا“


شب ضربت آپ علیہ السلام مسجدِ کوفہ میں تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں اُلٹا لیٹا ہوا سو رہا تھا اس نے اپنے نیچے زہر میں بُجھی  تلوار چھپا کر رکھّی   ہوئی تھی ۔۔مولا مسجد تشریف لائے اور ابن ملجم کوسوتا دیکھ کر اس سے کہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔جب مولا علی نے آخری سجدہ ادا کیا وہ ملعون اٹھا اوریکایک تلوار سےایسا وار کیا کہ مولا سرِ مبارک پر ایک ہی وار میں اپنے ہی لہو میں تر بتر ہوگئے زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجدکوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہم السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔اصحاب حضرت علیؓ کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا زینب و کلثوم تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔تین دن تک آپ زخمی حالت میں اضطراب میں رہے اور اکیسویں روزے کو مالک یزداں کے حضور حاضر ہو گئے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را




 

جمعہ، 29 مارچ، 2024

ملکہ سبا جنات کی اولاد تھیں

  اللہ تعالیٰ ملکہ بلقیس کی ماں جنّات میں سے تھی: ملکۂ سبا کا نام تاریخی کتب میں ’’بلقیس بنتِ شراحیل‘‘۔ بتایا گیا ہے کہ ملکہ بلقیس کے باپ، دادا ملکِ یمن کے بادشاہ تھے۔ روایت کے مطابق ۔ اُن کے باپ نے ایک جن عورت سے شادی کی تھی، جس کا نام ’’بلعمہ بنتِ شیعان‘‘ تھا۔ اس کے بطن سے بلقیس پیدا ہوئیں-اللہ تعالیٰ   نے ملکہ بلقیس کو وسیع مملکت، شان و شوکت، مال و دولت، ہیرے جوہرات کے علاوہ خوب حسن و جمال بھی عطا فرمایا تھا۔  ۔ اُن کی قوم سورج کی پرستش کرتی تھی۔ بعض نے لکھا کہ مجوسی تھے، جو آگ سمیت ہر روشنی کی پرستش کرتے ہیں۔ (قصص الانبیاء، مفتی محمد شفیع، صفحہ 559)۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔

انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔  بالآخر انہیں اُن کی ناشکری اور سرکشی کی سزا دی گئی اور اُنھیں فراہم کردہ تمام نعمتیں سلب کرلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن کا سب سے بڑا بند، سدِمآرب ٹوٹ گیا اور یوں ایک خوف ناک سیلاب قہرِ خداوندی بن کر اُن پر ٹوٹ پڑا اور اس قوم کا نام و نشان ایسا مٹا کہ دنیا میں اُن کی صرف داستانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ قومِ سبا پر سیلاب کے عذاب کا یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً سوا سو سال قبل یعنی450عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ بند ٹوٹنے کی وجہ سے یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا، سیلاب کے عذاب سے زندہ بچ جانے والے لوگ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرگئے۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل اوس اور خزرج کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ قومِ سبا کی تباہی کے بعد مذکورہ تجارتی شاہ راہ پر قریشِ مکّہ کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ (بیان القرآن، ڈاکٹر اسرار، 72/6)۔ 

چیونٹیوں کی ملکہ نے جب انبوہِ کثیرِ، لشکر کو دیکھا، تو کہا۔ ’’اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمانؑ اور اُن کا لشکر تمہیں روند ڈالے۔‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس کی بات سنی تو مسکرادیے اور اللہ سے دُعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! تُو مجھے توفیق دے کہ مَیں تیری ان نعمتوں ، احسانات کا شُکر بجا لائوں، جو تُونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکیے ہیں۔‘‘ (سورئہ نمل، آیات 18-19)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ ’’نبیؐ نے چار جانوروں (حشرات )کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور لٹورا۔‘‘ (سنن ابو دائودؑ، 5267)۔ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم: ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سفر کے دوران ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ہُدہُد اُس وقت موجود نہیں تھا۔ اُس کے بغیر اطلاع غیر حاضر ہونے پر آپ کو غصہ آگیا اور فرمایا۔ ’’اگر ہُدہُد نے غیرحاضری کی معقول وجہ نہیں بتائی، تو اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔‘‘ (سورۃ النمل،21)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں سے صرف ہُدہُد کو کیوں بلایا گیا؟ آپ نے جواب دیا، ’’ 

اللہ تعالیٰ نے ہُدہُد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ ہُدہُد سے معلوم کریں کہ اس میدان میں کتنی گہرائی میں پانی ہے؟ ہُدہُد کی نشان دہی کے بعد وہ جنّات کو حکم دیتے کہ زمین کھود کر پانی نکالو۔ ’’ہُدہُد زمین کے اندر کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسے زمین کے اوپر شکاری کا بچھایا ہوا جال نظر نہیں آتا اور عموماً جال میں پھنس جاتا ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر، صفحہ 556)۔قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔ 

قومِ سبا پر تیرہ انبیاء کا نزول:   ’’سبا، یمن کے بادشاہوں اور اُس ملک کے باشندوں کا لقب ہے۔ ملکہ بلقیس بھی اُسی قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کو بے حساب رزق اور آرام و آسائش کے تمام اسباب مہیّا فرمانے کے علاوہ اپنے تیرہ انبیاء کا نزول بھی فرمایا، تاکہ یہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار، احکام کی اطاعت کریں اور نعمتوں، انعام و اکرام اور کا شکر ادا کرتے رہیں، لیکن وہ لوگ اپنی غفلت و نافرمانی سے باز نہ آئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایک سیلاب کا عذاب نازل فرمایا، جس نے اُن کے شہر اور باغات سمیت ہر چیز کو ویران و برباد کردیا۔‘‘ امام احمد بن حنبل، حضرت عبداللہ بن عباسؐ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’سبا، جس کا قرآن میں ذکر ہے، وہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا زمین کے کسی حصّے کا؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’یہ ایک مرد کا نام ہے، جس کی اولاد میں دس لڑکے ہوئے۔ جن میں سے چھے یمن میں آباد رہے اور چار ملکِ شام چلے گئے۔‘ دنیا کی سب سے مال دار قوم: سبا کا اصل نام عبدشمس (بندئہ آفتاب یا سورج کا پرستار) اور لقب سبا تھا۔ قومِ سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی۔ جس کا دارالحکومت مآرب تھا، جو موجودہ یمن کے دارالسلطنت ’’صنعاء‘‘ سے55میل بجانب شمال مشرق میں واقع تھا۔ اس کا زمانۂ عروج 1100 قبل مسیح سے شروع ہوا اورلگ بھگ ایک ہزار برس تک عرب میں اس کی عظمت کے ڈنکے بجتے رہے۔  لیکن ان کی نافرمانی کے سبب اللہ تعالیؑ نے ان پر سیلاب کا عذاب بھیج کر انہیں ڈبو مارا-

جمعرات، 28 مارچ، 2024

ایڈز کا مہلک مرض اور پاکستان

  ACOUIRED AIMMUNO DEFICENCY SYNDROME عالمی ادارہ صحت نے پا کستان کو ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کرلیا-سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ایڈز کے مرض کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے تو اس کی سب سے پہلی شروعات ہم جنس پرستی سے ہوتی ہے--پھر جب یہ مرض کسی شخص میں بنیا د بنا چکا ہوتا ہے اور وہ متاثّرہ شخص کسی دوسرے فرد کے ساتھ جنسی ملاپ کرتا ہے تو پھر یہ مرض کے پھیلنے کا دوسرا مرحلہ ہو تا ہے اور یوں یہ مرض پورے معاشرے کو ناسور کی شکل میں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے-معاشرے کی قبیح مکروہات سے بچنے کے لئے اللہ پاک نے نکاح جیسی نعمت انسان کے لئے رکھِّی ہے ایڈز کا مرض غربت کا شکار معاشروں کے لیے ایک ناسور بنا ہوا ہے، کیونکہ وہاں اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ یہ مریض کس مرض سے مرا ہے-یکم دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ ایڈ ز کا عالمی دن دنیا میں پہلی مرتبہ 1987 میں منایا گیا ۔اس کے مقاصد میں عوام الناس کو اس مہلک مرض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا شامل ہے ۔ایڈ ز ہے کیا؟اس کی علامات کیا ہیں؟اسباب اور علاج کے بارے میں اور سب سے اہم اس کی وجوہات بارے لوگوں میں شعور و آگاہی فراہم کرنا ہے ۔اس دن کی مناسبت سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کالم اور پروگرام کیے جاتے ہیں ۔زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا آغاز بیسویں صدی میں شمالی افریقہ کے علاقہ سحارہ سے شروع ہوا۔ لیکن اب یہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ، اور ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تین کروڑ چھیاسی لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ایڈز ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے ایچ آئی وی کہتے ہیں، جس میں یہ وائرس ہو اس کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے، یعنی بیماریوں کے خلاف جو قوت ہوتی ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے، AIDS اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب 


علامات اور تشخیص میں فرق ہوتا ہے، تشخیص کسی مرض کی موجودگی کی تصدیق ،ثبوت کو کہتے ہیں ۔ایڈز کی علامات عام سی ہی ہیں، مثلاََ بخار، سردی کا لگنا اور پسینہ ( خاص کردوران نیند پسینہ)دست ،وزن میں بہت زیادہ کمی،کھانسی اور سانس میں تنگی ،مستقل تھکاوٹ،جلد پر زخم ،مختلف اقسام کے نمونیائی امراض ،آنکھوں میں دھندلاہٹ ،جوڑوں کا درد ،گلے میں سوجن اور نزلہ زکام کا ہونا اور مسلسل سردردوغیرہHIV کیسے جسم میں داخل ہوتا ہے ؟ ایڈز وائرس یعنی HIV دیگر وبائی امراض کی طرح کسی متاثرہ شخص کے قریب ہونے ، بات کرنے ، اسکو چھونے یا اسکی استعمال کردہ چیزوں کو ہاتھ لگانے سے جسم میں داخل نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء سے ہونے والے (اخراجات) یا رطوبتیں ، متاثرہ شخص کے خون سے ،لعاب (saliva) یعنی آب دھن یا تھوک ،انجکشن کی سرنج ، ایڈز میں مبتلا ماں کا دودھ،کان ،ناک چھدوانے کے لیے جو اوزار استعمال ہوتے ہیں، ان کی مناسب صفائی نہ ہونا ، متاثرہ فرد کاشیونگ بلیڈ سے شیو کرنا اور دانتوں کی صفائی کے دانتوں کے ڈاکٹر جو اوزار وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان کا مناسب صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہونا وغیرہ ، اس کا سبب بنتی ہیں ۔اب کوئی معمولی بیماری بھی حملہ کرے تو انسان میں قوت مدافعت نہ ہونے کے سبب اس کا علاج ممکن نہیں رہتا ۔

اس مرض کا سب سے اہم سبب انفیکشن ہے ۔ایڈز کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ہے، اس بات میں کافی سچائی ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تازہ ترین تحقیقات میں امید کی کرن بھی نظر آتی ہے جن کا ذکر آگے کریں گے ۔اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے یہ کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے ہی یہ مرض لگتا ہے۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے تا حال اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ،اس کے لیے اس کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، اس لیے بھی کہ یہ عین اسلامی تعلیمات ہیں مثلا َصفائی جسے اسلام میں نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اور جن اوزار وغیرہ سے دانت ،ناخن صاف کیے جائیں ان کا صاف ہونا ۔ایک مرد کے اپنی بیوی سے ہٹ کر زیادہ عورتوں سے تعلقات رکھنا خاص کر پیشہ ور عورت سے تعلقات رکھنا اسی طرح عورتوں کو یہ مرض مردوں سے منتقل ہوتا ہے ۔

ایک بہت ہی خاص بات جس سے میں اپنی قوم کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ۔ ایڈز یقینا ایک خطرناک بیماری ہے مگر جنسی ذرائع سے اس کے پھیلنے کا تناسب بارہ فیصد ہے ۔ جبکہ دیگر ذرائع سے پھیلنے کا تناسب اندازاََ اٹھاسی فیصد ہے ،پھر صرف جنس پر ہی اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے ۔یہ ایک پراپیگنڈہ ہے، جس کا مقصد آگاہی کے پردے میں معاشرہ بے باکی و جنس پر گفتگو کی راہ ہموار کرنا ہے ۔اس کا مقصد ہمارے معاشرے سے فطرہ شرم و جھجک کا خاتمہ ہے ۔کچھ لوگوں کا مشن ہے کہ ہمارے نصاب میں جنسی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ معاشرہ میں بے حیائی پھیل سکے اور عطائی کالم نویس اس کو پڑھ کر اس کے حق میں لکھ رہے ہیں ۔جیسے ایڈز سے بچاؤ کی صرف ایک یہ ہی صورت رہ گی ہو اس لیے ان دیگر وجوہات پر بھی بات ہونی چاہئے ،جو اس کا سبب بن رہی ہیں ۔خیر اب آتے ہیں، اصل موضوع کی طرف ۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایڈز کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے، جو کسی مریض کے ساتھ بیٹھنے ،چھونے سے منتقل نہیں ہوتی اس لیے جو اس کے مریض ہوں، ان سے ہمدری کا اظہار کرنا چاہیے، اس سے نفرت کا نہیں، بات احتیاطی تدابیر کی ہو رہی تھی تو کسی کا بھی خون لگواتے وقت اس کے خون کے مکمل ٹیسٹ کروا لینے چاہیے ۔

پاکستان کو عالمی ادارہ صحت نے ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کر لیا ہے، اب تک پاکستان میں تقریبا 8 ہزار مریض اس مرض میں مبتلارجسٹرڈہوئے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ اس مرض میں مبتلا ہونے کا امکان ہے، پاکستان میں لوگ شرم کے مارے خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے بلکہ اپنے گھر والوں سے اس مرض کو چھپاتے ہیں اور اسی حالت میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں پھر پاکستان میں جہاں مردم شماری نہ ہوئی ہوں وہاں کسی قسم کے اعداد و شمار کا درست حالت میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ جہاں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں میڈیکل چیک اپ کا تصور کہاں ،خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے یا وہ جن کی زندگی قرض اور خیرات پر گزر رہی ہو وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو ٹیسٹ کہاں کرواتے ہیں اور کروا بھی کیسے سکتے ہیں چپ چاپ قبر میں جا اترتے ہیں اور اپنے پیچھے اسی مرض کے اور مریض چھوڑ جاتے ہیں ۔  


 

جناب خدیجة الکبریٰ سلام اللہ علیہا

جناب خدیجة الکبریٰ سلام  اللہ علیہا وہ ہستی ہیں جن کے  دین اسلام پر بے انتہا احسانا ت ہیں -،سب سے پہلے تو آپ وہ  عظیم ہستی  ہیں جن کے شوہر نبی  ءخدا، خاتم النبیین، جن کی بیٹی  سید ۃالنسا العالمین جنھیں خاتون جنت کا خطاب ملا اور داماد وہ جو آئمہ طاہرین کے والد اور وصی خدا۔ جناب خدیجۃ الکبریٰ کی ذات مقدس  بے شمار اوصاف کی مالک ہستی ہیں  لیکن دوسری جانب دین اسلام کے لئے اتنی قربانیاں ہیں کہ شاید ہی ان کا شمار ممکن ہو۔ نبی کریم نے حضرت خدیجہؑ کے بارے میں ارشاد فرمایا: "خدا نے خدیجہ سے بہتر کوئی  بیوی  مجھے نہیں دی، جب لوگ مجھے جھوٹا کہتے تو وہ میری سچائی کی گواہی دیتی اور جب لوگوں نے مجھ پر پابندیاں لگائیں تو اس نے اپنی دولت کے ذریعے میری مدد کی اور خدا نے اس سے مجھے ایسی اولاد عطا کی، جو دوسری زوجات سے عطا نہیں کی۔"(شیخ مفید، الافلاح، ص ۷۱۲)

جناب خدیجہ بنت خویلد (متوفی سنہ ۰۱ھ) جو کہ خدیجۃ الکبریٰؑ اور ام المومنین کے نام سے مشہور ہیں، پیغمبر اکرم کی پہلی زوجہ تھیں، جن سے نبی کریم نے بعثت سے قبل نکاح کیا تھا۔ نبی کریم حضرت محمد، حضرت خدیجہؑ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ان کی زندگی میں دوسری شادی نہ کی بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ اچھے الفاظ سے انہیں یاد فرمایا۔ ۔ حضرت خدیجہؑ جو کہ خاتون حجاز یا ملیکة العرب کے نام سے مشہور تھی، نہایت ہی عقلمند خاتون تھیں۔ آپؑ کی مادی قوت اور مال و دولت سے زیادہ اہم آپؑ کی روحانی اور معنوی دولت تھی۔ آپ نے قریش کے ان اشراف زادوں سے شادی کی درخواست مسترد کر دی بلکہ آپ نے حضرت محمد کو اپنے شریک حیات کے طور پر منتخب کیا اور اپنی تمام مادی اور دنیاوی دولت اسلام کی راہ میں خرچ کر دی۔" ایک دفعہ نبی کریم بہت پریشان بیٹھے تھے، بی بی خدیجہؑ نے دریافت کیا کہ ”یارسول اللہ! اتنے  پریشان  کیوں ہیں؟" فرمایا: لوگ میری بات نہیں سنتے ہیں۔ اس موقع پر آپؑ نے پورے عرب میں منادی کروا دی کہ جس جس نے میرا قرض دینا ہے، آئے اور اپنا قرض معاف کروا لے۔ اس طرح لوگوں کی ایک کثیر تعداد جو آپؑ کی مقروض تھی، وہ آگئے۔ وہ پہلے نبی کریم کے پاس جاتے ان کی بات سنتے (تبلیغ اسلام) پھر بی بیؑ اس کے عوض ان کا قرض معاف فرما دیتیں۔

نبی کریم فرماتے ہیں: "کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا فائدہ مجھے خدیجہؑ کی دولت نے پہنچایا۔   رسول کریم کی وفادار شریک حیات کے بارے میں جتنا بیان کیا جائے، اتنا ہی کم معلوم ہوتا ہے۔ محسنہ اسلام، وہ خاتون جنھوں نے نبی کریم کے دین اسلام کو لبیک کہا۔ جو ہر قدم پر نبی پاک کے ساتھ ساتھ رہیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب اہل قریش نے شعب ابی طالب جیسی گھاٹی میں بنی ہاشم کو محصور کر دیا تو  اپنے شوہر رسول خدا کے ساتھ رہیں۔اسی لیے جب وہ محاصرہ ختم ہوا اور نبی کریم کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی تو حضرت خدیجہؑ اور نبی کریم کے چچا جان (والد حضرت علیؑ) جناب ابو طالب بستر مرگ تک پہنچ چکے تھے۔ تقریباً محاصرہ کے اختتام کے دو ماہ کے اندر اندر بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہ حضرت ابو طالبؑ کی رحلت یا شاید شہادت کہنا بھی غلط نہ ہوگا کے 54 دن بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔ اس سال کو نبی کریم نے ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال قرار دیا۔

؎ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓمکہ کی ایک نہایت معزز اور دولت مند خاتون تھیں۔ آپؓ کا لقب طاہرہ اور کنیت اُمّ ہند تھی، رسول اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ جو قریش کے ممتاز خاندان اسد بن عبدالعزیٰ سے تھیں۔  حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کے صدق و دیانت کا تذکرہ سن کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ’’میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، میرا غلام آپﷺ کے ہمراہ ہوگا۔ آپ ﷺ نے حامی بھرلی اور بصریٰ (شام) کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر جو سامان ساتھ لے گئے تھے اسے فروخت کیا اور دوسرا سامان خرید لیا۔ نیا سامان جو مکہ آیا تھا اس میں بھی بڑا نفع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ نے آمدنی سے خوش ہوکر جو معاوضہ ٹھہرایا تھا اس کا دگنا ادا کیا۔ نبی کریم ﷺ کی نیک نامی، حسن اخلاق اور امانت و صداقت کی شہرت کے چرچے ہونے لگے جو ہوتے ہوتے حضرت خدیجہؓ تک بھی پہنچے۔ چنانچہ واپس آنے کے تقریباً 3 ماہ بعد حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے پاس شادی کا پیغام بھیجا اس وقت آپؓ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا لیکن آپؓ کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ تاریخ معین پر آنحضرت ﷺ ، حضرت ابوطالبؓ اور تمام رئوسائے خاندان جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے، حضرت ابوطالبؓ نے آنحضرت ﷺ کا خطبۂ نکاح پڑھا اور 500 درہم طلائی مہر قرار پایا۔ شادی کی تقریب بعثت سے 15 سال پیشتر انجام پذیر ہوئی۔ یہ 25 عام الفیل تھا۔ آغازِ وحی کے وقت سے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی حمایت و معاونت کا فیصلہ کرلیا تھا اور آپؓ نبوت ملنے کی ابتدائی گھڑیوں میں ہی آنحضور ﷺپر ایمان لے آئی تھیں مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں۔  پھر آ نے اپنی  دولت و ثروت تبلیغ دین و اشاعت اسلام کے لیے وقف  کر دی۔اور آنحضرت ﷺ تجارتی کاروبار چھوڑ کر عبادتِ الٰہی اور تبلیغِ اسلام کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔

حضرت خدیجہؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت ابراہیمؓ کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی تمام اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ انہیں اکثر یاد کیا کرتے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرکے فرمایا کرتے کہ: ’’خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی۔ خدیجہؓ نے مجھے اپنے مال میں شریک کرلیا۔‘‘ ام المومنین حضرت خدیجہؓ میں اتنی خوبیاں تھیں کہ آپ ﷺزندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سلام لے کر آتے تھے۔ مولانا صفی الدین مبارک پوریؒ اپنی کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے صفحہ 634 پر ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ ’’ہجرت سے قبل مکہ میں نبی ﷺ کا گھرانہ آپﷺ اور آپؐ کی زوجۂ مبارکہ حضرت خدیجہؓ پر مشتمل تھا۔ آپ ﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیمؓ کے ماسوا تمام اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھی آپؐ جب تک   زندہ رہیں نصرت و حمایت کا حق ادا کرتی رہیں اور رسالت مآبؐ کی ہر طرح معین و مددگار رہیں  اور دس  رمضا ن  کو   مالک  بر حق کی جانب لوٹ گئیں -وقت ِ تدفین رسول اکرم ﷺ خود قبر میں اترے، آپؓ کواپنے دست مبار ک سے قبر میں اتارا ۔حضرت ابو طالبؓ اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے سال کو’’ عام الحزن‘‘ قرار دیا


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت میثم تما ر عاشق مولا علی ع

   میثم تمار عاشق مولا علی علیہ السلام' کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔وہ  بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر