بدھ، 20 مارچ، 2024

لیو ان ریلیشن شپ

  


 آ ج کے آج کے جدید اور روشن زمانے تعلیم یافتہ  نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ایک نیا ٹرینڈ سامنے آیا ہے کہ وہ میں حرام رشتے کوخوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر اسے حلال کرنے کی کوشش کرتے ہی اور اس رشتے کا نام ہے "لیو ان ریلیشن شپ' -لیکن اس صورتحا ل کاپیدا ہونے والے بچے کو جس طرح ایک ماں کی گود اور اس کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بلوغت کے بعد اس کو ایک پیار کرنے والے جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سکھ دکھ بانٹ سکے اور ایک مضبوط تعلق بنا سکےمگر کچھ معاشرتی وجوہات کے مطابق اگر ایک صحت مند انسان کی شادی بلوغت کے بعد نہ ہو سکے تو اس کے اثرات انسانی صحت پر بھی ہو سکتے ہیں جو کہ کچھ اس طرح سے ہو سکتے ہیںپریشانی اور ذہنی دباؤاگر کسی انسان کی شادی میں تاخیر ہوجاۓ تو وہ تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ تنہائی کے سبب ان کی نفسیاتی کیفیت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔ زمّہ دار آخر کون ہے کیا لڑکا اور لڑکی یو والدین یا حالات جو شادی کی عمر ہونے کے باوجود مالی استحکام کا ناہونا -شادی کا مطلب روحانی خوشی  مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے نے مختلف اثرات کے سبب شادی کے اتنا دشوار بنا دیا ہے کہ جہیز اور بری کی تیاری میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کی اصل عمر گزر جاتی ہے ۔

اس میں کوئ شک نہیں کہ دنیا میں پیدا ہونے والے بچے کو جس طرح ایک ماں کی گود اور اس کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بلوغت کے بعد اس کو ایک پیار کرنے والے جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سکھ دکھ بانٹ سکے اور ایک مضبوط تعلق بنا سکےمگر کچھ معاشرتی وجوہات کے مطابق اگر ایک صحت مند انسان کی شادی بلوغت کے بعد نہ ہو سکے تو اس کے اثرات انسانی صحت پر بھی ہو سکتے ہیں جو کہ کچھ اس طرح سے ہو سکتے ہیں پریشانی اور ذہنی دباؤاگر کسی انسان کی شادی میں تاخیر ہوجاۓ تو وہ تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ تنہائی کے سبب ان کی نفسیاتی کیفیت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں بے شمار سینکڑوں نہیں ہزاروں لڑکے ایسے موجود ہیں جو نہ صرف تعلیمی زیور سے آراستہ برسر روزگار‘ معقول آمدنی کے حامل اور ساتھ ہی شادی کرنے کے نہ صرف خواہشمند بلکہ شادی کر بھی سکتے ہیں -شادی کا عمل پوری دنیا میں ایک نیک اور مقدس عمل کے طور پر کیا اور جانا پہچانا جاتا ہے جن ممالک میں اس عمل کو قانون سے آزاد ہوکر کیا جاتا ہے وہاں آج بے شمار اخلاقی‘ سماجی اور جنسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جیسا کہ آزاد خیال ترقی یافتہ ممالک میں یہ امر بالکل نہ صرف عام ہے بلکہ اس جنسی فعل کو معیوب بھی نہیں جانا جاتا ہے۔

اگر ہم عقل وشعور کی کسوٹی پر جنس کے حوالے سے غور کریں تو ہمیں یہ جاننے میں ذرا دیر نہیں لگے گی کہ جس طرح ہمیں پیاس لگتی ہے ہم پانی پیتے ہیں‘ بھوک لگتی ہے تو کھانا کھالیتے ہیں اور جب لڑکا لڑکی بلوغت کی منزل پرآتے ہیں تو خود بخود جنس مخالف کی جانب مائل ہوتے ہیں اور یہیں سے ان کی زندگی کی اگلی منزل کی راہوں کا تعین ہوتا ہے -ایک پاکیزہ خاندانی اکائ وجود میں آ تی اور لڑکا لڑکی دونوں پاک دامن کے رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں - شادی ایک نئی زندگی کی ابتدا کا نام ہے اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ انسان شادی سے جڑی ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں نبھانے کے قابل ہو سکے اللہ پاک نے پہلے پہل  روئے زمین پر اسی مقدّس اور پاکیزہ رشتے کو نازل کیا -کہیں پروردگار عالم ارشاد فرما رہا ہے کہ تم ایک دوسرے کا لباس ہو کہیں فرما رہو کہ تم ایک دوسرے سے تسکین حاصل کرو تو کہیں فرما رہا ہے کہ میں نے تم کو جوڑ ے جوڑے کی صورت اتارا ہے-لیکن عصر حاضر نے انسان کو بہت کچھ دے دیا ہے تو اس کی زندگی سے سچّی مہرو محبت کے جذبا ت بھی چھین لئے ہیں -لیو ان ریلیشن شپ -یعنی جب تک دل چاہے اس حرام رشتے میں ساتھ رہو دل بھر جائے تو اپنی راہ لو  

اس حوالے سے ماہرین نے ایک طویل ریسرچ کے بعد لڑکیوں کے لیۓ شادی کی بہترین عمر 20 سال سے لے کر 25 سال تک قرار دی ہے جب کہ مرد حضرات کے لیۓ یہ عمر 22 سال سے 27 سال تک قرار دی ہے اس سے زیادہ دیر تک شادی نہ کرنے والے افراد کی شادی کو دیر سے شادی قرار دیا گیا ہےدیر سے شادی کرنے کے صحت پر اثرات انسان کو اللہ تعالی نے اس فطرت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا ہے ۔ عام طور پر ایسے افراد کی قوت فیصلہ کمزور ہو جاتی ہے اور وہ جلد غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیںآج ہمارے معاشرے میں بے شمار سینکڑوں نہیں ہزاروں لڑکے ایسے موجود ہیں جو نہ صرف تعلیمی زیور سے آراستہ برسر روزگار‘ معقول آمدنی کے حامل اور ساتھ ہی شادی کرنے کے نہ صرف خواہشمند بلکہ شادی کر بھی سکتے ہیںشادی کا عمل پوری دنیا میں ایک نیک اور مقدس عمل کے طور پر کیا اور جانا پہچانا جاتا ہے جن ممالک میں اس عمل کو قانون سے آزاد ہوکر کیا جاتا ہے وہاں آج بے شمار اخلاقی‘ سماجی اور جنسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جیسا کہ آزاد خیال ترقی یافتہ ممالک میں یہ امر بالکل نہ صرف عام ہے بلکہ جنسی فعل کو معیوب بھی نہیں جانا جاتا ہے۔


جب کہ شادی شدہ انسان جب اپنے جیون ساتھی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں آکسی ٹاکسن اور اینڈورفن نامی ہارمون خارج ہوتا ہے جس سے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے اور انسان پرسکون نیند سو سکتا ہے ۔جن افراد کی شادی دیر سے ہوتی ہے ایسے افراد کے جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی طاقت میں کمی واقع ہوتی ہے ایسے افراد ہر تھوڑے دن بعد کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگرچہ اس کے دیگر کئی عوامل بھی ہو سکتے ہیں مگر ماہرین نفسیات کا یہ ماننا ہے کہ جن افراد کی بڑی عمر تک شادی نہیں ہوتی وہ اپنی ذات کے حوالے سے کافی حد تک لاپرواہ ہو جاتے ہیں جس سے ان کی یاداشت بھی کمزور ہو سکتی ہےدل کے دورے کے خطرے میں اضافہ  -ایک تحقیق کے مطابق جو مرد حضرات بلوغت کے بعد دیر تک میرج  نہ ہونے کے سبب قربت کے لمحات نہیں پا سکتے ایسے افراد کے اندردل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ایسے افراد کے اندر دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ان کی شریانوں میں خون کے جمنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو دل کا دورہ بھی پڑسکتا ہے

منگل، 19 مارچ، 2024

مہنگائ کے پاٹوں میں پستے ہوئے عوام

 ایک لب دم بچّے کی ماں کو آئ ایم ایف کے نام سے کوئ مطلب نہیں -اسے ورلڈ بنک کی ملکی معیشت کے ہیرا پھیری معاملات سے سے بھی مطلب نہیں وہ تو بس اپنے بچّے کے لئے دوا چاہتی ہے جو خریدنا اس کے بس میں نہیں ہے  -ہم نام تو اللہ کا لیتے ہیں  مسلمان بھی کہلاتے ہیں اللہ کا شکر ہے ہم مسلمان  ہیں‘ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہم میں دراصل مسلمانوں والا کوئی کام کوئی معاملہ ہے ہی نہیں۔ دور کیا جانا‘ رمضان المبارک کا  مبارک مہینہ شروع ہوا ہے تو اسی کی بات کر لیتے ہیں۔ یہ رحمتوں کے نزول‘ برکتوں کے بڑھنے کا مہینہ ہے لیکن ہماری تاجر برادری اور دکانداروں نے اسے مال بنانے کا مہینہ بنا لیا ہے۔ ہمارے ہاں شعبان شروع ہوتے ہی مال دار ذخیرہ اندوز اور لالچی ناجائز منافع خور متحرک ہو جاتے ہیں‘ اور ہر اس چیز کو ذخیرہ کر لیتے ہیں جس کی رمضان المبارک میں زیادہ ضرورت پڑنے والی ہوتی ہے۔ پھر جب رسد کم ہوتی ہے اور طلب بڑھتی ہے تو اپنی ذخیرہ شدہ چیزیں مارکیٹ میں لا کر منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ رمضان شروع ہوتے ہوتے اشیائے صرف‘ خاص طور پر  کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ قیمتیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ عام آدمی کی قوتِ خرید جواب دے دیتی ہے۔ یہ مثال دیتے ہوئے تو اب شرم سی محسوس ہونے لگی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں جب کوئی مذہبی یا سماجی تہوار آتا ہے تو وہاں پر چیزوں کی سیل لگا دی جاتی ہے تاکہ سال بھر میں جو لوگ ان چیزوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکے‘ وہ بھی تہوار کے دنوں میں لطف اندوز ہو سکیں‘ اور یہ سیل چھوٹی موٹی نہیں ہوتی بلکہ عوام کو‘ خصوصاً نچلے طبقے کو اچھا خاصا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

 ہمارے ہاں معاملہ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح الٹ ہے۔ یہاں رمضان المبارک میں رحمتیں اور عوام کی دعائیں سمیٹنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ابھی اس مبارک مہینے کی ابتدا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ مارکیٹ میں جو اشیا چند ہفتے پہلے تک معمول کی قیمتوں پر دستیاب تھی‘ اب ان کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک خبر کے مطابق کراچی میں ماہ رمضان سے پہلے ہی مہنگائی کے طوفان نے عوام کی چیخیں نکلوا دیں۔ ڈیڑھ سو روپے فی کلو ملنے والا پیاز 280 روپے کا ہو گیا جبکہ ادرک پانچ سو اور لہسن چھ سو پچاس روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ ہری مرچ تین سو پچاس روپے کلو مل رہی ہے اور بھنڈی نے ٹرپل سنچری عبور کر لی ہے۔ لاہور میں ٹماٹر ڈبل سنچری کر چکے ہیں یعنی دوسو روپے میں ایک کلو مل رہے ہیں‘ لیموں بھی دو سو روپے کلو ہو گئے ہیں۔ کوئی سبزی ایسی نہیں جو سو روپے فی کلو سے کم میں دستیاب ہو۔ اسی طرح پھلوں کی قیمتوں کو بھی جیسے آگ لگ گئی ہو۔ اچھا کیلا 260 جبکہ سیب 330 روپے کلو ہو گئے ہیں۔ عوام شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ملک بھر میں ناجائز منافع خور بے لگام ہو چکے ہیں، اور من مانے ریٹ وصول کر رہے ہیں جبکہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کسی قسم کے کوئی اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے۔ حکومت نے عوام کو سہولت پہنچانے کے لیے یوٹیلٹی سٹورز پر کچھ چیزوں کی قیمتوں میں کمی کر رکھی یا پھر انتظامیہ کی نگرانی میں رمضان بازار سجائے ہیں لیکن لوگوں نے وہاں کی قیمتوں اور عام مارکیٹوں کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق محسوس نہیں کیا۔

اب ہونا تو یہ چاہیے کہ تاجروں اور دکان داروں کو اگر اپنے طور پر اس چیز کا احساس نہیں ہوتا کہ رمضان المبارک میں دوسروں کے لیے سہولت اور آسانی پیدا کرنی چاہیے اور صرف جائز منافع کمانا چاہیے تو پھر حکومت کو یہ ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تاکہ وہ مال ذخیرہ کر کے ان کی من مانی قیمتیں وصول نہ کر سکیں۔مارکیٹوں میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنانا بھی انتظامیہ کی ہی ذمہ داری ہے‘ لیکن حکومت اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے امدادی پیکیج لے کر آتی ہے اور اس کے تحت لوگوں کو اشیا صرف مفت یا کم نرخوں پر فراہم کی جاتی ہیں۔ حکومت کی اس کاوش کی تحسین کی جانی چاہیے کیونکہ اس سے بہرحال سماج کے کسی نہ کسی حصے کو فائدہ پہنچتا ہے‘ لیکن یہاں بھی معاملات شفاف نظر نہیں آتے۔ گزشتہ سال بھی رمضان المبارک میں لوگوں کو آٹے کی مفت فراہمی کے بعد حکومت کے ہی ایک اہم رہنما نے کہا تھا کہ مفت آٹے کی فراہمی کے معاملات شفاف نہیں ہیں۔ وہ اہم رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تھے۔ انہوں نے پہلے الزام لگایا کہ مفت آٹا تقسیم کے پروگرام میں 20 ارب روپے تک کی خورد برد کی گئی ہے۔

 بعد ازاں اپنے ایک اور بیان میں انہوں نے بتایا کہ 20 ارب روپے تک کی خورد برد کا ان کا ابتدائی تخمینہ درحقیقت کم ہے۔ مطلب یہ کہ کرپشن اس سے کہیں زیادہ ہوئی۔ اب اس سال آٹے کے حوالے سے کیا صورت بنتی ہے‘ اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن مہنگائی نے واقعی لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔اب اس تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مسئلے کے دو ہی حل نظر آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ عوام مہنگی اشیا کا بائیکاٹ کریں اور مہنگی چیزیں خریدنے کے بجائے صرف وہی چیزیں استعمال کریں جو بہت زیادہ ضروری ہیں۔ وہ چیزیں جن کے بغیر کھانا نہیں بن سکتا‘ جن کے بغیر افطاری یا سحری نہیں ہو سکتی۔ پھلوں کے بغیر اگر گزارہ ہو سکتا ہے تو مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اور مہنگی سبزیوں کے بغیر اگر گزارہ ہو سکتا ہے تو مہنگی سبزیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے‘ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ غریب بندہ یا متوسط طبقے کا بندہ تو اس کام کے لیے تیار ہو جائے گا۔ یوں بائیکاٹ والا معاملہ 100 فیصد کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ بہرحال ج تنا ہو سکتا ہے اتنا تو کرنا چاہیے تاکہ ناجائز منافع خوروں کو لگام دی جا خداوند عالم ہمارے حال پر رحم فرمائے آمینہے

جام نگر کے راجہ رانی

 مکیش امبانی  انڈیا کے امیر ترین امبانی خاندان کی ہونے والی چھوٹی بہو کون ہیں جب میں نے رادھیکا کو دیکھا تو میرا دل ایک لمحے کے لیے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ میں سات سال پہلے اُن سے ملا تھا، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں رادھیکا سے ملاقات کو اپنی 100 فیصد خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔‘یہ بات مکیش امبانی کے بیٹے آننت امبانی نے جام نگر (گجرات) میں اپنی شادی سے قبل منعقد کی گئی اُس تقریب میں کہی جو اپنی چکا چوند کے باعث اُس وقت پوری دنیا میں زیرِ بحث ہے۔شادی سے پہلے کی اس تین روزہ تقریب میں بل گیٹس، مارک زکربرگ، ریحانہ، ایوانکا ٹرمپ اور انڈیا کی مقبول شخصیات نے شرکت کی اور ان کی وائرل ویڈیوز اور تصاویر اِس وقت بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔انڈیا کے امیر ترین امبانی خاندان کے بارے میں تو یقیناً آپ بھی بہت جانتے ہوں گے لیکن آننت امبانی کی ہونے والی اہلیہ رادھیکا مرچنٹ کے حوالے سے اکثر افراد کے ذہنوں میں تجسس پایا جاتا ہے ۔ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ رادھکا مرچنٹ کون ہیں  رادھیکا مرچنٹ کا تعلق گجرات سے ہے لیکن وہ کئی برسوں سے ممبئی میں رہائش پزیر ہیں۔ انھوں نے ممبئی کے معروف سکول کیتھڈرل اینڈ کینن سکول کے ساتھ ایکول مونڈیالے ورلڈ سکول سے بھی تعلیم حاصل کی ہے

  ممبئی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد رادھیکا نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکی شہر نیویارک کا رخ کیا۔ انھوں نے نیویارک یونیورسٹی سے سیاست اور معاشیات میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔رادھیکا انکور ہیلتھ کيئر کے بورڈ ممبرز میں بھی شامل ہیں۔ بزنس کے علاوہ رادھیکا کو جانوروں کے فلاحی پروگرامز میں کافی دلچسپی ہے۔ان سب کے علاوہ وہ باضابطہ طور پر بھرت ناٹیم (ایک قسم کا رقص) ڈانسر ہیں اور انھوں نے اس کی تعلیم گرو بھاونا ٹھکر سے شری نبھا آرٹس میں حاصل کی ہے۔۔رادھیکا مرچنٹ دوا ساز (فارماسوٹیکل) کمپنی ’انکور ہیلتھ کیئر‘ کے سی ای او ویرن مرچنٹ کی بیٹی ہیں۔ خیال رہے کہ ویرن مرچنٹ کے بارے میں عام معلومات دستیاب نہیں ہیں اور وہ عموماً اپنی ذاتی معلومات کی تشہیر نہیں کرتے ہیں لیکن انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق اُن کے اثاثوں کی کل مالیت 750 کروڑ انڈین روپے کے لگ بھگ ہے۔مرچنٹ خاندان کو انڈیا میں فارماسوٹیکل انڈسٹری میں ایک بڑی کمپنی تصور کیا جاتا ہے۔گذشتہ کئی برسوں سے آننت اور رادھیکا کی نسبت طے ہے۔ اننت 28 سال کے ہیں جبکہ رادھیکا 29 برس کی ہیں۔ رادھیکا نے مکیش امبانی کی بیٹی ایشا امبانی اور بڑے بیٹے آکاش امبانی دونوں کی شادیوں میں بھی شرکت کی تھی۔رادھیکا مرچنٹ کا تعلق گجرات سے ہے لیکن وہ کئی برسوں سے ممبئی میں رہائش پزیر ہیں۔


انھوں نے ممبئی کے معروف سکول کیتھڈرل اینڈ کینن سکول کے ساتھ ساھ ایکول مونڈیالے ورلڈ سکول سے بھی تعلیم حاصل کی ہے-ممبئی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد رادھیکا نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکی شہر نیویارک کا رُخ کیا۔ انھوں نے نیو یارک یونیورسٹی سے سیاست اور معاشیات میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔رادھیکا اپنے والد کی کمپنی انکور ہیلتھ کيئر کے بورڈ ممبرز میں بھی شامل ہیں۔ بزنس کے علاوہ رادھیکا کو جانوروں کے فلاحی پروگرامز میں کافی دلچسپی ہے۔ان سب کے علاوہ وہ باضابطہ طور پر بھرت ناٹیم (ایک قسم کا رقص) ڈانسر ہیں اور انھوں نے اس کی تعلیم گورو بھاونا ٹھکر سے شری نبھا آرٹس میں حاصل کی ہے۔رادھیکا کے لنکڈ ان پروفائل کے مطابق وہ کاروبار کے علاوہ شہری حقوق، اقتصادیات، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔دسمبر 2022 میں آننت اور رادھیکا کی راجستھان کے سری ناتھ جی مندر میں منگنی ہوئی تھی۔مکیش انبانی کے بیٹے کی    شادی جون میں ہو گی ابھی شادی سے پہلے کی تقریبات تھیں تین دن بین الاقوامی مہمانوں کے لیے تھے جبکہ تین دن ریلائنس گروپ کے ایمپلائیز کی دعوت تھی۔


 جام نگر جو ایک خواب نگر لگ رہا تھا اس کے پچاس ہزار لوگوں کو تین دن تک کھانا کھلایا گیا جس میں مکیش امبانی اور دلہا آنند امبانی نے خود مہمانوں کی تھالی میں کھانے کی اشیاء سرو کیں۔اس شادی کی سب سے متاثر کن بات پورے امبانی خاندان کی عاجزی اور انکساری ہے کسی چہرے پہ رعونت نہیں ہے  یہ خاندان حیران کن حد تک ملنسار اور مہمان نواز ہے۔مکیش امبانی کی پوری باڈی لینگویج سے عاجزی ظاہر ہوتی ہے ان کے چہرے سے انکساری پھوٹ پھوٹ پڑتی ہے جو ان کے چہرے کو روشن کر دیتی ہے۔ مکیش امبانی کی بیگم نیتا امبانی ایک شاندار ، ویل ڈریسڈ، قابل، اور کمپوزر پرسنیلٹی ہیں۔ دلہا آنند امبانی امیر باپ کے عیاش بیٹے کے بجائے ایک اعلی تعلیم یافتہ قابل اور وژنری انسان ہیں جھک جھک کے مہمانوں سے مل رہے ہیں ایسے اپنائیت سے کبھی کسی کے بچے کو پیار کر رہے کبھی کسی بوڑھی خاتون کو تھام کے کھڑے۔کروڑوں ڈالر ان تقریبات میں خرچ کرنے کے بعد بھی امبانی فیملی آپے سے باہر نہیں ہوئی امبانی خاندان انڈیا ہی نہیں ایشیا کا امیر ترین خاندان ہے ان کی ریلائنس گروپ آف کمپنی کے انڈر بے شمار صنعتیں ہیں جام نگر ان کا آبائی علاقہ ہے اس میں ان کی صنعتوں کی وجہ سے آلودگی نا ہو انہوں نے صنعتوں کے قریب ہزاروں ایکٹر زمین خرید کے اس پہ آم کا باغ لگایا یہ آم دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہو کے بھارت میں زر مبادلہ لاتے ہیں۔پورے بھارت کی صنعتی پروڈکشن میں امبانی  کی ریلائنس کا میجر شئیر ہے 'صنعت' جو بڑے پیمانے پہ روز گار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے ملکی آمدنی بڑھتی ہے. 

ہفتہ، 16 مارچ، 2024

فارسی شاعر فردوسی


 ویسے تو شاعری دنیا کی بے شمار زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں-ہر شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں -لیکن فردوسی نے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کو اپنی شاعری میں عکس بند کیا اس کی نظیر کم ہی کم شعراء میں نظر آتی ہے -ایران کے مشہور  حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی جو فردوسی کے نام سے مشہور ہیں ، ۱۰؍ ویں صدی کے نامور فارسی شاعر ہیں جو ۹۴۰ء میں ایران کے علاقے خراسان کے شہر طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شاہکار ’’شاہنامہ‘‘ ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔ شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے میں یا کارنامہ ہے۔ شاہنامہ، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً۱۰۰۰ء میں لکھی۔

 فردوسی طوس کے علاقے کا رہنے والا تھا۔ان کے شاعرانہ  مجموعہ میں ’’عظیم فارس‘‘ کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً ۶۰؍ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکارمیں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ادب و تہذیب سے تعلق رکھنے والے فردوسی کو یونانی شاعر ہومر کا ہم پلہ قرار دیتے  ہیں فردوسی کے والد زمیندار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی بھی زمینداروں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا انتقال ۳۷؍ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس کا ذکر ’’شاہنامہ‘‘ میں موجود ہے۔ فرودسی کا انتقال ۸۰؍ سال کی عمر میں ۱۰۲۰ء میں ہوا۔ بعض روایات میں ان کا سالِ وفات ۱۰۲۵ء اور عمر ۸۵؍ سال بھی ملتی ہے۔۔ ۱۹۳۳ء میں فردوسی کے نئے مزار کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس کا رقبہ ۳۰؍ ہزار میٹرکیوبک ہے۔ نامور ایرانی شاعر کے مزار کے قریب ایک میوزیم اور لائبریری بھی موجود ہیں  شاہنامے کے بعض اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی شروع شروع میں طوس میں کھیتی باڑی کا کام کر تا تھا ۔  اُسے ہر طرح کی اسائشیں حاصل تھی، جوانی بھی اس نے راحت اور آرام میں بسر کی۔

 وہ  ایک باغ میں رہتا تھا جہاں اس کے دوست اس کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ بہت اطمینان سے زندگی گزارتا تھا۔ اس دوران وہ شاہنامے کےلکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ خیال تھا کہ شاہنامے کا کچھ صلہ ملے تو وہ اس سے بیٹی کا جہیز تیار کرے گا۔ بالا آخر شاہنامہ مکمل ہوگیا،۔ )نظام غروضی سے  پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شروع کیا تھا۔  جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو  گھیر  لیا  تھا،  خوشحالی کی جگہ افلاس  نے لے لی تھی۔اسی اثنا میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔تیاری میں اس نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی نظام غروضی سے  پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شرووع کیا تھا۔ فارسی شاعر فردوسی کے اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو  گھیر  لیا  تھا،  خوشحالی کی جگہ افلاس  نے لے لی تھی۔اسی اثنا میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔محمود غزنوی میں فردوسی کی آمد-فردوسی کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی لازوال تخلیق سے نہ صرف فارسی زبان بلکہ پوری فارسی ثقافت اور تاریخ کو امر کر دیا۔ ان کے ایک ایک لفظ سے ایرانی عوام کے ساتھ ان کے جذبہ صادق کی جھلک ملتی ہے بلکہ انھیں بھی اپنی کام کی اہمیت کا بخوبی علم تھا کہ وہ کس قد اہم دستاویزی حیثیت کی حامل ہیں۔

چنانچہ خود فردوسی نے کہا کہ کہ انھوں نے شاہ نامہ کی تصنیف میں بہت رنج و مصیبت اٹھائی لیکن 30 سالوں کی محنت کے نتیجے میں انھوں نے اپنی فارسی میں عجم کو زندہ کر دیا۔یہ شخص سنہ ۹۴۰عیسوی میں بیچ گاؤں شاداب کے کہ ضلع طوس میں جو ملک خراسان میں واقع ہے، پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ بطور باغبان کے حاکم طوس کا نوکر تھا اور فردوسی کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی محنت مزدوری کرتا جاتا اور دل میں مختلف مضامین سوچا کرتا اور تحصیل علوم میں بھی مشغول رہتا اور اس طرح سے بہت سے سال گذر گئے۔  فردوسی بیان کرتا ہے کہ جب میں شہر غزنی میں وارد ہوا تو میں نہایت حیران ہوا کہ میں کس طور سے رسائی سلطان تک حاصل کروں اور اپنی لیاقت اس کے روبرو ظاہر کروں لیکن اخیر کو ایک کتاب مسمی ’’ماسہ نامہ‘‘ کہ جس کے نام کی ہم کو صحت نہیں ہے، ایک نسخہ اس کے ہاتھ آیا، اس میں سے اس نے چند مقاموں کو نظم میں لکھ کر ایک اپنے دوست کی معرفت سلطان محمود کی خدمت میں بھیجا اور محمود نے ان اشعار کو ملاحظہ کرکے انھیں نہایت پسند کیا اور فرمایا کہ تاریخ مذکور زمانہ سلف ایران کے فردوسی تیار کرے اور سلطان نےا قرار کیا کہ فی شعر ایک اشرفی دوں گا اور فردوسی نے یہ معلوم کر کے خوشی خوشی اس کار عظیم کو اس امید سے کہ بذریعہ اس ترکیب کے ایک تو ہمیشہ کو نیک نامی اور دوم دولت حاصل ہوگی،۔ فردوسی ہمہ تن اس کتاب کے تیار کرنے میں مصروف ہو گیا اور تیس برس تک محنت کرتا رہا اور آخر کو وہ کتاب مذکورہ تاریخ کی کہ جس کا نام ’’شاہنامہ‘‘ رکھا گیا، تیار ہوئی لیکن اس عرصہ میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔علاوہ از ایں بد نصیبی فردوسی کا سبب یہ بھی ہوا کہ ایک شخص ایاز تھا، اسے بادشاہ بہت چاہتا تھا۔ اس شخص اور فردوسی میں دشمنی ہوگئی اور اس واسطے اس نے سلطان کے کان میں بڑی بڑی باتیں نسبت فردوسی کے پھونکیں اور یہ بیان کیا کہ فردوسی بادشاہ کے خلاف ہے

اگرچہ اور امور میں محمود بڑا عاقل تھا لیکن اس نے غیب فردوسی کو مان لیا    سلطان نے    فردوسی  ایک کوڑی بھی نہ دی۔ آخرکار فردوسی نے چند اشعار کہے کہ مضمون ان کا یہ تھا کہ سلطان جو کہ مثال ایک بحر کے ہے اور گو میں نے اس میں غوطہ مارا لیکن موتی میرے ہاتھ نہ لگا تو وہ میری قسمت کی خطا ہے اور نہ سلطان کی فیاض کے بحر کی۔ لیکن چند عاقل آدمیوں نے سچ کہا ہے کہ جب کہ محمود ’’شاہنامہ‘‘ کے ملاحظہ سے نہ نرم ہوا تو چند اشعار کا تو اسے کیا خیال ہو، تو محمود نے بجائے اپنے اقرار پورا کرنے کے فردوسی کو ایک رنج دیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ سلطان نے جو یہ فردوسی سے اقرار کیا تھا کہ میں فی شعر ایک اشرفی دوں گا تو شاہنامہ کے ساٹھ ہزار اشعار ہیں تو بموجب اقرار کے اسے ساٹھ ہزار اشرفی فردوسی کو دینی لازم تھیں لیکن برعکس اس کے سلطان محمود نے بجائے ساٹھ ہزار اشرفی ساٹھ ہزار درہم فردوسی کے پاس بھیجے اور یہ کہا کہ یہ انعام تیاری شاہنامے کا ہے۔ جس وقت یہ روپیہ پہنچا اس وقت فردوسی حمام میں غسل کر رہا تھا اور یہ خبر سن کر محمود غزنوی کو اپنی کوتاہی کا احساس ہوا تو اس نے دوبارہ پوری ۶۰ ہزار اشرفیاں فردوسی کو روانہ کیں لیکن ایک دروازے سے اشرفیاں لانے والے داخل ہو رہے تھے اور دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ قبرستان جا رہا تھا

بعد میں یہ پوری رقم محمود غزنوی نے فردوسی کے مزار اور اس کی املاک کے پر خرچ کی ۔ 

جمعہ، 15 مارچ، 2024

- دنیائے ادب کا روشن ستارہ * منور رانا *


 شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لیے مخصوص ہے شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پہ بنے نقش و نگار آثار قدیمہ سے ملنے والی اشیا سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہےایران کے مشہور  حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی جو فردوسی کے نام سے مشہور ہیں ، ۱۰؍ ویں صدی کے نامور فارسی شاعر ہیں جو ۹۴۰ء میں ایران کے علاقے خراسان کے شہر طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شاہکار ’’شاہنامہ‘‘ ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔ شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے میں یا کارنامہ ہے۔ شاہنامہ، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً۱۰۰۰ء میں لکھی۔

 اس شعری مجموعہ میں ’’عظیم فارس‘‘ کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً ۶۰؍ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکارمیں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ادب و تہذیب سے تعلق رکھنے والے فردوسی کو یونانی شاعر ہومر کا ہم پلہ قرار دیتے  ہیں فردوسی کے والد زمیندار تھے۔ یوں تو فردوسی کی ابتدائی زندگی کے تعلق سے زیادہ معلومات نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی بھی زمینداروں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا انتقال ۳۷؍ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس کا ذکر ’’شاہنامہ‘‘ میں موجود ہے۔ فرودسی کا انتقال ۸۰؍ سال کی عمر میں ۱۰۲۰ء میں ہوا۔ بعض روایات میں ان کا سالِ وفات ۱۰۲۵ء اور عمر ۸۵؍ سال بھی ملتی ہے۔ فردسی کا مزار فارسی ادب اور ثقافت میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے جو پاژ نامی گاؤں کے قریب میں واقع ہے۔ فردوسی کا مزار گزشتہ ہزار برسوں سے اب تک بار بار قدرتی آفات اور تاریخی واقعات کا شکار ہوا ہے مگر اسے ہر بار از سرنو تعمیر کیا گیا ہے۔ ۱۹۳۳ء میں فردوسی کے نئے مزار کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس کا رقبہ ۳۰؍ ہزار میٹرکیوبک ہے۔ نامور ایرانی شاعر کے مزار کے قریب ایک میوزیم اور لائبریری بھی موجود ہیں ۔


یوں تو دربار غزنی میں چارسو شعراء موجود تھے لیکن جو شہرت وعظمت اُن میں سے شاہنامہ کے خالق فردوسی کے حصے میں آئی ہے وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ فارسی شاعر فردوسی ایران کی تاریخ اور داستان کو زندہ کرنے والا اور فارسی زبان میں نئی جان ڈالنے  والا  ایران  کا  سب سے  بڑا  شاعر ہے۔  علم شعر  تاریخ اور اخلاق کے اعتبار سے فردوسی عہد غزنویہ کی تمام ادبیات کا محور نظر آتا ہے،اس لئے اس کو  اگرفردوسی عہد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

   ( فردوسی کی حالات زندگی۔)

اُس کا شاعر انہ لقب فردوسی اور کنیت ابوالقاسم ہے۔ اس کے تخلص اور کنیت پر کسی محقق کو اختلاف نہیں لیکن اس کے نام اور اس والد کے نام پر تذکرہ نویسوں میں اختلاف ہے. فردوسی علاقہ طوس میں طاہران کے قریب ایک گاؤں ریگبار میں پیدا ہوئے ۔وہاں ان کے آباؤ اجداد کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن تیموری شہزادہ بایسنفر مرزا نے جو شاہنامہ کا مقدمہ لکھا ہے، اُس میں فردوسی کے گاؤں کا نام  شاداب رقم کیا ہے۔بہر حال یہ مسلم ہے کہ فردوسی طوس کے علاقے کا رہنے والا تھا۔ یہ وہی مردم خیز خطہ ہے جس نے امام غزالی جیسے محقق طوسی اور نظام الملک جیسے نامور عالم پیدا کیے۔

فارسی شاعر فردوسی کی تاریخ پیدائش نہ تو روایتوں کے  ذریعے اور نہ ہی شاہنامہ کے زریعے سے پتہ چل سکی لیکن یہ بات ختمی طور پر کہی جاتی ہے کہ شاہنامہ 1009 عیسوی میں مکمل ہوا کیونکہ خود فردوسی کی شہادت اس سلسلے میں موجود ہے۔

  ( شاہنامہ  لکھنے  کے  محرکات۔ )

شاہنامے کے بعد اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی شروع شروع میں طوس میں کھیتی باڑی کا کام کر تا تھا ۔  اُسے ہر طرح کی اسائشیں حاصل تھی، جوانی بھی اس نے راحت اور آرام میں بسر کی۔ وہ طاہران  کے ایک باغ میں رہتا تھا جہاں اس کے دوست اس کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ بہت اطمینان سے زندگی گزارتا تھا۔ اس دوران وہ شاہنامے کےلکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ خیال تھا کہ شاہنامے کا کچھ صلہ ملے تو وہ اس سے بیٹی کا جہیز تیار کرے گا۔ بالا آخر شاہنامہ مکمل ہوگیا، اس کی تیاری میں اس نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی ۔

    (  شاہنامہ  کی  تکمیل۔ )

نظام غروضی سے  پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شرووع کیا تھا۔ فارسی شاعر فردوسی کے اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو  گھیر  لیا  تھا،  خوشحالی کی جگہ افلاس  نے لے لی تھی۔اسی اثنائ میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔

  تذکرہ نویسوں کا بیان ہے کہ ایک دفعہ محمود ہندوستان کی مہم سے واپس آرہا تھا اور راستے میں کوئی  ہندوستانی راجہ کا قلعہ تھا، محمود نے راجہ کو پیغام بھیجا کہ حاضر ہوکر اطاعت بجا لائے۔ راجہ کے جواب میں دیر ہوئی تو محمود نے اپنے وزیر حسن مہمندی سے کہا اگر جواب ہماری منشائ کے مظابق نہ ہوا تو حسن مہمندی نے بے ساختہ طور پر کہا ۔

اگر خیز  بکام من آید جواب      ہمیں گر زو میدان افرا سیاب

    ( شعر  سننے  پر  ‏محمود  کا  رد  عمل۔)

    محمود نے سنا تو پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے اس میں شجاعت اور مردانگی نظر آتی ہے۔ حسن نے جواب  دیا  کہ  یہ شعر  اُس بد نصیب کا ہے جس  نے پچیس سال محنت کرکے شاہنا مہ لکھا لیکن دربار غزنویہ سے محروم و نا مراد لوٹا ۔ محمود نادم ہوا اور کہا کہ غزنی پہنچ کر مجھے یاد کرانا ۔حسن مہمندی نے غزنی پہنچ کر محمود کو یاد دلایا اور ساٹھ ہزار اشرفیاں فردوسی کو بھجوادی گئی لیکن جب اُس کے شہر میں انعام ایک دروازے سے داخل ہوا تو دوسرے دروازے سے فارسی شاعر فردوسی کا جنازہ شہر سے باہر نکل رہا تھا۔ بالا آخر محمود کا یہ انعام فردوسی کی بیٹی کو پیش کیا گیا لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ محمود نے حکم دیا کہ اس رقم سے فردوسی کے نام پر کاروان سرائے بنادی جائے۔بعض تذکرہ نویسوں کے  بیان کے مطابق فردوسی کی وفات 1040ئ میں ہوئی۔       

(  فردوسی کی وطن پرستی۔ )

فردوسی محب وطن شاعر تھے، ایران کی سرزمین سے اُسےبے پناہ عقیدت اور محبت تھی۔ وہ  ایران کے لئے ہر  چیز  قربان  کرنا  چاہتا تھا،  اس کا مقام دربار  غزنویہ  کے  دوسرے  شعراء سے مختلف ہے۔  اگر کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے فردوسی کو پیشکش کی تھی کہ شاہنامہ کا ایک شعر لکھنے کیلئے وہ انہیں سونے کی ایک اشرفی دیں گے۔ لیکن فردوسی نے کہا کہ شاہنامہ کے مکمل ہونے پر انہیں پوری رقم ایک ساتھ ادا کی جائے۔ شاہنامہ مکمل ہونے پر محمود غزنوی نے انہیں ۶۰؍ ہزار سونے کے سکے بھجوائے مگر جس سے سکے بھجوائے گئے تھے ا س نے خیانت کی اور اس طرح فردوسی، محمود غزنوی سے بد ظن ہوگئے۔ حقیقت معلوم ہونے پر سلطان نے انہیں دوبارہ ۶۰؍ ہزار سونے کے سکے بھجوائے لیکن جب ان کا کارواں طوس میں داخل ہوا ، اسی وقت لوگ فردوسی کا جنازہ قبرستان لے کر جارہے تھے جن کا دل کا دورہ پڑنے سے موت ہوچکی تھی۔ 

منور رانا کا پیدائشی نام سید منور علی ہے، وہ سید انور علی کے ہاں 26 نومبر 1952 کو بھارت کے شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ کالج، رائے بریلی میں جاری رہا، کچھ سال بعد مزید تعلیم کے لیے انھیں لکھنو بھیج دیا گیا جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہُوا، قیامِ لکھئنو کے دوران انھوں نے یہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں پختہ کیں، لکھنو شہر میں کچھ سال کی عارضی سکونت کے بعد والد کے روزگار کے پیشِ نظر کلکتہ منتقل ہونا پڑا، جہاں 1968میں محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اورگریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ شہر کے ہی امیش چندرا کالج میں بی کام کے لیے داخلہ لیا۔منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے، ان کی سوچ کو نیا رنگ دینے میں لکھنو کے ماحول کا خاص اثر رہا، خاص طور پر ان کے ادب نواز، محبت پرور دادا سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہدِ طفلی میں دوسروں کی غزلیں باقاعدہ پڑھوایا کرتے، جس سے ان کو بہت سے شعرا کے اشعار ازبر ہو جاتے۔ منور رانا کی شاعری کا بنیادی موضوع غزل ہے، جس میں ماں جیسی عظیم ہستی کی عظمت پر ان کے سیکڑوں اشعار کسی اور شاعر کے ہاں پڑھنے کو نہیں ملتے۔ ان کا یہ شعر مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

تقریبا ستر کی دہائی میں میدانِ شعر وسخن کے ابتدائی دنوں میں ان کا نام ’’ منور علی آتش‘‘ رکھتے ہوئے پروفیسر اعزاز افضل کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوئے، ان سے اکتسابِ فیض پاتے ہوئے اپنی شعلہ بیانی اور خوش اخلاقی کا بھرپور مظاہرہ کیا، انھوں نے اپنی پہلی نظم سولہ سال کی کم عمری میں کہی جو اُس وقت محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی، لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق 1972 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ماہنامہ ’’ شہود‘‘ میں شایع ہوئی، یہ رسالہ اپنے عہد کے معیاری رسالوں میں سے ایک تھا۔کچھ برس تک منور علی آتش کے نام سے مشہور ہونے پر نازش پرتاپ گڑھی اور راز الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدل کر ’’ منور علی شاداں‘‘ رکھ لیا یوں اس نئے ’’ شاداں‘‘ تخلص سے غزلیں کہنے لگے، لیکن چند ہی ماہ کے بعد والی آسیؔ جیسے شخصیت سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے اور ان کے مشورے سے 1977میں ایک بار پھر اپنا تخلص بدل کر ’’ منور رانا ‘‘ بن گئے۔

منور رانا کی شاعری میں اکثر موضوعات نئی نسل کا المیہ، وصال و ہجر، مردہ ضمیروں کا مرثیہ، زندگی کے نشیب و فراز، سدا بہار موسم کی طرح ملنے والے دُکھ، خزاں کی ستم ظریفی، روز مرہ کے جھگڑے اور وسائلِ زندگی سے محرومیاں ہیں۔ منور رانا نے شاعری کے علاوہ ڈرامہ نگاری میں بھی جوہر دکھائے، ان کا اپنا تخلیق کردہ ڈرامہ 1971 میں ’’جئے بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے کلکتہ کے ہومیو پیتھی کالج میں منعقدہ ڈرامہ مقابلے میں نہ صرف پیش کیا بلکہ اس کی ہدایت کاری بھی انجام دی اور یوں یہ ڈرامہ انعام یافتہ قرار پایا۔اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری بھی کی، جس پر معلوم ہُوا کہ ’’ بالخصوص سجن کمارکی زیر ہدایت آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ ’’آنکھ کا نشہ ‘‘ میں بینی پرشاد کے مرکزی کردار میں ان کی اداکاری اتنی پسندکی گئی کہ اس ڈرامہ کے کئی کامیاب شوز منعقد کیے گئے، بالآخر انھوں نے فلم اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جوگندرکی ایک فلم کے لیے کہانی لکھ کر ہی دم لیا، جس کا ٹائٹل اندراج بھی ہُوا لیکن کسی وجہ سے یہ فلم نہ بن سکی۔ اس ناکامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے سر سے فلم اور اداکاری کا آسیب اتر گیااور وہ مغربی بنگال کی تاریخ شاعری کی زندہ روایات کا مستحکم عزم لیے میدان شاعری میں آ گئے ۔‘‘منور رانا کی تصانیف میں بدن چوپال، چوڑی ٹوٹ جاتی ہے، بغیر نقشے کے مکان، کہو ظلِ الٰہی سے، چہرے یاد رہتے ہیں، سخن سرائے، سفید جنگلی کبوتر، جنگلی پھول، مہاجر نامہ نمایاں ہیں۔  

یاد رہے کہ تقسیم ہند کے وقت ان کے بہت سے رشتے دار پاکستان ہجرت کر گئے تھے، لیکن ان کے والدنے بھارت کو ہی اپنا مسکن بنائے رکھا۔ ان کے کلام میں ہجرت کا دکھ بھی پایا جاتا ہے جس پر وہ غم زدہ اور افسردہ رکھتے ہوئے اپنے اس دُکھ کر ہمیشہ تازہ رکھتے۔ منور رانا صاحب کی شاعری ، صرف عشق و عاشقی کے موضوع پر ہی نہیں،  شخص اور بنگلہ دیش کی

جمعرات، 14 مارچ، 2024

ہارٹ اٹیک سے بچنے کے روحانی زرائع

۔زرا سوچئے کیا آ ج سے پہلے کے زمانے میں ہارٹ اٹیک کی کوئ خبر ملتی تھی-کم از کم میرے اپنے پاس ایسی کوِ خبر کبھی نہیں تھی کہ میں کہہ سکتی کہ فلاں کو ہارٹ اٹیک ہو ا ہےپھر آج کے دور میں یہ مرض اتنا عام کیوں ہو گیا تو سب سے پہلے میں اپنے شوہر کے بارے میں بتاوں گی کہ ہم سب گھر والے چین سکون کی محنت کش زندگی گزار رہے تھے -میں گھر پر ٹیوشن پڑھاتی تھی اور شوہر حق حلال کی کمائ میں مگن تھے لیکن ایک دن یوں ہوا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ چھوٹے صاحبزادے نے سیاست کی خا رزار وادی میں قدم رکھ دیا ہے-یہاں تک بھی سب معمول کے مطابق تھا لیکن ایک شام ہمارے گھر پر کچھ نوجوان آ ئے اور انہوں نے کہا آج رات بیٹے کو کہیں کسی رشتہ دار کے گھر بھیج دیا جائے کیونکہ آج کی رات مہار نوجوانوں پر بھاری رات ہے میں نے فوراً بیٹے کو گھر سے دور اپنی والدہ کے گھر بھیج دیا لیکن اس خبر نے میرے شوہر کو ہارٹ اٹیک سے دوچار کیا میں ایمر جنسی میں ان کو لے کر بھاگی اور صبح کی پہلی خبر تھی کہ کراچی کے اٹھائیس نوجوانوں کی لاشین خون میں لت پت سڑکوں پر پھینک دی گئیں تھیں-اس سے آگے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کراچی کی خونی تاریخ رقم کی جاتی رہی ہے-میرے وطن کے ہر' ہر حاکم نے اپنا حصّہ بقدر جثّہ کراچی کی غارت گری میں ڈالا ہے  -اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیرونی حالات کا اثر اندرونی دباو کی صورت میں شدت سے نکلتا ہے 'چاہے وہ ہارٹ اٹیک ہو

‘‘ انسان کے جسم میں دل کا کردار بہت عظیم ہے۔قلب، انسانی بدن میں تمام اعضا کا سردار ہے، جسم کے تمام اعضا کا دارومدار اسی پر ہے، اسی لیے حضو نے امت کو دل کے بارے میں ہدایات دیں۔ یہ دل کیا ہے؟ یہ پٹھوں کے مجموعے پر مشتمل ایک ایسا عضو ہے جو انسانی بدن کو مسلسل خون پہنچاتاہے۔ یہ انسانی تن میں موجود خون کے نظامِ گردش کے درمیان واقع ہے۔ یہ پورانظام، خون کی رگوں کے ایک جال پر مشتمل ہے۔ خون‘ دل سے پورے انسانی بدن کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا پھر واپس دل کی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دل کا نظام ایسا رکھا ہے کہ اس میں غور کرتے ہوئے انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق دل‘ ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ دل‘ہر منٹ میں تقریباً پانچ یا چھ ہزار کوارٹرگیلن خون انسانی بدن کے مختلف اعضا تک پہنچاتا ہے۔ انسان کے جسم میں یہ واحد عضو ہے جس کی حرکت پر انسانی زندگی کی بقا ہے۔اس کا حجم انسانی مٹھی جتنا ہے، جسے انسان آسانی سے اپنے ہاتھ میں تھام سکتا ہے۔

یہ دل ہی ہے اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو ظاہری و باطنی امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ظاہری مرض تب ہوتا ہے، جب دل کی نالی تنگ ہوجاتی ہے، جس کے سبب خون کا بہاؤ کم ہوجاتاہے، نتیجے کے طور پرسینے میں درد شروع ہوجاتا ہے اور سانس مشکل سے آنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دل کا دورہ پڑجاتا ہے، جسے انگریزی میں کہتے ہیں۔ صرف امریکا میں سالانہ ایک ملین افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ ظاہری مرض کا علاج ڈاکٹر اور حکیم کرتے ہیں، جن پر انسان ہزاروں روپے پانی کی طرح بہادیتے ہیں۔ دل کے باطنی امراض بھی بہت ہیں، جن میں اکثر انسان مبتلا ہیں، جن کا احساس بھی انسان کو کم ہی ہوتا ہے، جیسے: کینہ، بغض، عداوت، دشمنی، حسد اور تکبر ہے۔ یہ ایسے امراض ہیں جو بغیر توبہ اور اصلاح کے ختم نہیں ہوتے۔ حدیث مبارک سے بھی یہی مراد ہے۔اس کا علاج بہت ضروری ہے۔ پوری دنیا ان امراض میں مبتلا ہے۔ آج پوری دنیا سکون و راحت کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے، آرام و سکون کیسے حاصل ہوگا؟ جبکہ ہم نے اپنے دل کو بغض، عداوت، حسد، کینہ اور تکبر جیسے گناہ سے جو بھر رکھا ہے۔   حضرت ابوہریرہ سے روایت مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا ـ: ’’إیاکم والحسد فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب‘‘۔ ’’ اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ! اس لیے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔‘‘ یہ حسد ہے جو تمام نیکیوں کو برباد کردیتا ہے، ساری محنت پر پانی پھیر دیتا ہے

،  شیطان تکبر کی وجہ سے برائی اور نافرمانی میں مبتلا ہوا۔دوسری چیزآدمی کا لالچ ہے،کیونکہ آدم  نے لالچ کی وجہ سے پھل کھایا اور جنت سے نکالے گئے۔تیسری چیز آدمی کا حسد ہے، کیونکہ دنیا میں سب سے پہلا خون حسد کی وجہ سے ہوا۔ قابیل نے ہابیل سے حسد کیا کہ اس کو وہ چیز کیوں مل رہی ہے جو مجھے نہیں مل رہی، اس نے چاہا کہ یہ اس کونہ ملے، اسی بات نے اُسے پہلے خون پر آمادہ کیا۔ یہ حسد بنیادی چیز ہے جوبہت سارے برے اعمال، اخلاقی برائیوں اور انسانوںکے ساتھ تعلقات میں اپنا کردار ادا کرتی ہے تو ان سب سے ہمیں بچنا چاہیے۔ دل تو ابتداہی سے بالکل خالی پیالے کی طرح تھا، ہم نے خود اس میں لذات کا اضافہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  کی محبت کی جگہ ہی نہیں رکھی۔ دل کا سکون حاصل کرنے کے لیے ایک ملک سے دوسرے ملک سیروتفریح کی غرض سے سفر کرتے ہیں۔ آج کا مسلمان،بیہودہ فلموں اورحیا باختہ گانوں میں اپنا سکون تلاش کرتا ہے، اسی کو اپنا مقصد ِحیات بنایا ہوا ہے، حالانکہ اس میں سکون رکھاہی نہیں۔ سکون اور اطمینان قلب وہاں ڈھونڈنا چاہیے جہاں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’أَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘۔(الرعد:۲۸) ’’خبردار! ( سن لو) اللہ کے ذکر ہی سے دل سکون و اطمینان پاتے ہیں‘‘


  خدا کی ذات کو یاد کرنے والے کتنے لوگ چین و آرام کی زندگی پاتے ہیں، ان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ سکون و اطمینان اللہ کے گھر اور وہاں ہوتاہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کی بات کی جاتی ہے۔توآئے اللہ پاک کی زات سے منسلک ہو جائیے اور اپنے دل کی راحت کا انتظام اپنے اعمال سے کیجئے اسی میں دنیا اور عقبیٰ کی راحت ہےہم اپنی زندگی کو سادہ بنا کر اور دوسروں کی مدد کرکے سکون حاصل کر سکتے ہیں اور ڈپریشن سے باہر نکل سکتے ہیں۔انسان اپنے جسم کو خوراک پہنچانے کی جدوجہد کرتا ہے اور جسم کو آرام دینے کے لئے طرح طرح کی آسائشیں تلاش کرتا ہے، لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اس جسم کے اندر ایک روح بھی ہے،جو اس کے جسم کی رگ رگ میں دوڑ رہی ہے اور اس روح کی بھی ایک غذا ہے اور جب تک اس روح کو غذا نہیں ملے گی،تب تک جسم کو آرام پہنچانے کی ہر کوشش بے کار ثابت ہوجائے گی،جس کا مشاہدہ ہر کوئی باآسانی کرسکتا ہے کہ انسان نفس کی تسکین کے لئے جتنی جدوجہد کیوں نہ کرلے، وہ سکون و آرام سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتاہے، لیکن جب انسان رب کی تابعداری شروع کردیتا ہے تو اس کی روح کو اتنا ہی چین و قرار آتا چلاجاتا ہے۔


ایوب خان کا اسلام آباد'زندہ باد


کراچی میں سیاستدانوں کی دال نہیں گلنی تھی اس کے لئے مادر -پدر آزاد دارلخلافہ چاہئے تھا سو فیصلہ ہو گیا کہ اب ایوب خان کا اسلام آباد دارلخلافہ بنایا جائے گا -اسلام آباد کی تاریخ میں باغ کلاں نامی گاؤں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اسلام آباد کی شروعات اسی گاؤں سے ہوئی ۔ کٹاریاں گاؤں یعنی جی فائیو سے تھوڑا پیچھے باغ کلاں نام کا یہ گاؤں تھا ۔ اسے باگاں بھی کہا جاتا تھا ۔ اسی گاؤں میں سیکٹر جی سکس آباد ہوا ۔ ادھر ہی اسلام آباد کا سب سے پہلا کمرشل زون تعمیر کیا گیا ۔ سرکاری ملازمین کے لیے سب سے پہلے رہائشی کوارٹرز بھی اسی گاؤں میں تعمیر کیے گئے ۔ انہی زیر تعمیر کوارٹرز میں سے ایک میں اسلام آباد کا پہلا پولیس اسٹیشن اور پہلا بنک قائم کیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں قائم تھے ۔ یہ کوارٹرز آج بھی موجود ہیں اور انھیں لال کوارٹر کہا جاتا ہے ۔ 1961ء کی مردم شماری میں راولپنڈی کی حدود میں باغ کلاں یعنی باگاں نام کا یہ گاؤں موجود تھا ۔ اس کا رقبہ 698 ایکڑ تھا اور اس کی آبادی 663 افراد پر مشتمل تھی ۔ باگاں بعد میں دار الحکومت بن گیا مگر 1961ء کی مردم شماری تک یہ جی سکس نہیں، باغ کلاں تھا۔بری امامؒ کے والد گرامی سید محمود شاہ کاظمیؒ ہجرت کر کے اہل خانہ کے ساتھ اسی گاؤں میں آباد ہوئے تھے اور یہیں وہ مدفون ہیں ۔ شاہراہ کشمیر (سری نگر ہائی وے کہلاتی ہے) اور خیابان سہروردی کے بیچ گرین بیلٹ میں ان کی آخری آرام گاہ ہے ۔ بری امامؒ کی والدہ ، بہن اور بھائی بھی یہیں دفن ہیں ۔ ماسٹر پلان کے نقشے میں سڑک مزار کے اوپر سے گذر رہی تھی ۔ اس مزار کے احترام میں ماسٹر پلان کو بدلتے ہوئے شاہراہ کشمیر کو روز اینڈ جیسمین گارڈن کی طرف موڑ کر گزارا گیا اور مزارات محفوظ رکھے گئے ۔ یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ دائیں بائیں سے سڑک اتنے فاصلے سے گذرے کہ اس مدفن اور اس سے ملحقہ تکیے کا سکون ممکن حد تک برقرار رہے ۔ آج بھی یہاں زائرین ہر وقت موجود ہوتے ہیں ۔ یہیں شمال کی جانب بوڑھ کے ایک اور گھنے درخت کے نیچے اسلام آباد کا پہلا بس اسٹاپ قائم کیا گیا۔

اسلام آباد کی باقاعدہ شروعات باگاں سے ہوئیں اور یہاں سرکاری ملازمین کے کوارٹر بنا کر کراچی سے ملازمین کو یہاں بھیجا گیا ۔ ان ملازمین میں بڑی تعداد مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تھی ۔ ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ۔ یہ اس نئے شہر میں جنت سے آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا گیا ۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ “ رکھا ۔ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ مبارک دینے عبد الواحد کے گھر آئیں تو پوچھا بیٹی کا کیا نام رکھا ہے ۔ بتایا گیا کہ اس کا نام آب پارہ ہے۔انہی دنوں باگاں گاؤں میں اسلام آباد کی پہلی مارکیٹ تعمیر ہو رہی تھی ۔ سی ڈی اے نے یہ مارکیٹ اپنے اس بیٹی سے منسوب کر دی اور آج ہم اسے آب پارہ مارکیٹ کہتے ہیں ----

خطہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اللہ نے پاکستان میں بے پناہ خوبصورتی اور بے شمار نعمتیں رکھی ہیں۔ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد جس کا شمار نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق لندن دنیا کا خوبصورت تریندارالحکومت ہے جس کے بعد اسلام آباد کا نمبر آتا ہے۔جس کو اللہ نے نعمتوں سے مالا مال کیا ہے اور خوبصورتی کے حساب سے تو وہ شہر اپنی مثال آپ ہے۔اس فہرست میں برلن تیسرے، واشنگٹن چوتھے، پیرس پانچویں، روم چھٹے، ٹوکیو ساتویں، بڈاپسٹ آٹھویں، اوٹاوا نویں جبکہ ماسکو دسویں نمبر پر ہے۔ اسلام آباد کی وجہ شہرت سرسبز و شاداب درخت، آسمان سے باتیں کرتے مارگلہ کے پہاڑ، آبشاریں، سواں کا موجیں مارتا دریا ہے۔1958 تک کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ لیکن اس کے بعد اس وقت کے صدر ایوب خان نے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی، معاشیات اور دفاعی اعتبار سے غیر معقول ہونے کی وجہ سے دارالحکومت کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا، اس ضمن میں کمیشن تشکیل دیا گیا اور ایسے خطے کی تلاش شروع کی گئی جو کہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی اعتبار سے بھی محفوظ ہو۔ چنانچہ کمیشن نے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواں کے سنگم پر مارگلہ کے دامن میں واقع خطہ پوٹھوہار کا انتخاب کیا اور 1960 میں دارالحکومت کی تعمیر کی داغ بیل ڈالی گئی۔ شہر کی طرز تعمیر یونانی معمار ڈاکسی ایسوسی ایشن کمپنی نے کی۔ اس دوران راولپنڈی کو عارضی طور پر دارالحکومت کا درجہ دے دیا گیا۔جب بات آئی دارالحکومت کے نام رکھنے کی تو ایوب خان نے قوم سے تجاویز مانگی، اور پھر 24 فروری 1960 کو ایوب خان کے زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔ زیادہ تر تجاویز میں مسلم آباد، جناح آباد اور اسلام آباد کے نام آئے، لہٰذا مشاورت کے بعد اس جگہ کا نام اسلام آباد رکھ دیا گیا۔ اسلام آباد کا نام ارب والا سے تعلق رکھنے والے 

ایک اسکول ٹیچر قاضی عبدالرحمن نے تجویز کیا۔ بعد ازاں اسلام آباد کے انتطامی امور کےلیے سی ڈی اے کا قیام عمل میں آیا۔تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو خطہ پوٹھوہار کی انسانی تاریخ 20 لاکھ سال پرانی ہے۔ اس کا ثبوت دریائے سوا کے کنارے سے ملنے والے پتھر کی کلہاڑی اور شاہ اعلیٰ وتا گاؤں میں موجود غار ہے جو کہ انسان کے پتھر کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ تاریخ اس بات کا پتہ بھی دیتی ہے کہ خطہ پوٹھوہار آریاں خاندان کے وسط ایشیا میں پہلا مسکن تھا۔اس کے علاوہ یہاں موجود گوردوارے، سرائے، مندر، بارہ دریاں اور ہزاروں سالوں پرانی زیارت گاہوں کے آثار اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغانستان سے آنے والے جنگجو جس میں شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی، سکندر اعظم، چنگیز خان اور مغل بادشاہ کا لشکر اس علاقے میں نہ صرف قیام کرتا تھا بلکہ یہاں سے برصغیر ہند پر حملہ آور بھی ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں اولیاء کرام نے بھی ڈیرے ڈالے ہیں جن میں میر علی شاہ اور سید عبدالطیف کاظمی نے نور پور شاہ میں پڑاؤ کر کے اس خطے کے لوگوں کو اسلام کے نور سے منور کیا۔شہر اقتدار اسلام آباد کے محل وقوع کی تو اس کے شمال میں مری اور مارگلہ، مغرب میں ٹیکسلا اور مشرق میں راولپنڈیواقع ہے۔کسی بھی شہر کا موسم اس علاقے کی آب و ہوا میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اسلام آباد کے شہری 5 موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نومبر سے اپریل سردی، مئی جون گرمی، جولائی اگست مون سون، ستمبر اکتوبر خزاں کا موسم ہوتا ہے ۔ جب کے سب سے زیادہ گرمی جون اور سخت سردی جنوری کے موسم میں ہوتی ہے ۔ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45 ڈگری ہوتا ہے جو کہ دوسرے شہروں سے کم ہے؛ جس کی وجہ یہاں سرسبز و شاداب درختوں اور پہاڑی سلسلہ ہے۔اسلام آباد چونکہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے، تو کوئی بھی علاقہ خوبصورت ہو اور اس میں تفریح مقامات نہ ہوں، یہ کیسے ممکن ہے۔شہر اقتدار اسلام آباد میں شکر پڑیاں، مونومینٹ میں جاسمین گارڈن، ایف 9 میں پارک، راول اے پارک، چڑیا گھر، پلے لینڈ، لوک ورثا کے علاوہ دامن کوہ پیر سواہا کے مقامات واقع ہیں اور 2011 کے بعد سینٹورس شاپنگ مال اسلام آباد بھی ایک خاص مقبولیت رکھتا ہے۔-

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت میثم تما ر عاشق مولا علی ع

   میثم تمار عاشق مولا علی علیہ السلام' کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔وہ  بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر