بدھ، 16 جولائی، 2025

سمندر میں مد وجزر کیسے بنتے ہیں

 مدّ و جَزَر،   سے مراد چاند و سورج کی ثقلی قوّتوں اور زمین کی گردش کے مجموعی اثرات کی وجہ سے سمندری سطح کا اُتار چڑھاؤ ہے۔ اِسے عام زبان میں جوار بھاٹا بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ چاند قریب آ جاتا ہے  تب اس کی کشش ثقل کیوجہ سے وہ سمندر کے پانی کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کوشش کیوجہ سے پانی اوپر آتا ہے۔حقیقت میں مدوجذر کا چاند کے دور یا قریب آنے سے تعلق نہیں ہے بلکہ سورج اور چاند کی  ایسی  پوزیشن سے ہے جو جوار بھاٹے کا سبب بن جاتی ہے -  یعنی جب سورج، زمین اور چاند ایک ہی لائن میں ہوتے ہیں اس وقت سمندر کے پانی پر چاند کی کشش کا اثر کچھ زیادہ ہوتا ہے اور سمند کا پانی کچھ بلند ہو جاتا ہے۔چاند زمین کے موسم پر اثر انداز کیوں ہوتا ہے؟آج سے ساڑھے چار ارب سال قبل دو قدیم سیارے آپس میں ٹکرائے اور مل کر اُس سیارے کو جنم دیا جس پر آپ اور ہم رہتے ہیں۔ان دو سیاروں   کے اس ملاپ کے دوران ایک چٹان الگ ہو کر ہمارا چاند بن گئی ۔زمین پر چاند کا جو اثر سب سے واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ جوار بھاٹا ہے یعنی سمندری لہروں کا چڑھنا اور اترنااور یہ عمل چاند کی پہلی تاریخ سے لے کر 14 تاریخ تک سمندر کی دنیا پر جواربھاٹے کی شکل میں راج کرتا ہے جبکہ دریاؤں میں اچانک طغیانی کا بھی باعث بن جاتا ہے 


کائنات کی اس اتھاہ گہرائی اور تاریکی میں ہمارا قریب ترین ساتھی چاند ہے جو  ہمارے وجود سے بہت قریبی طور پر منسلک ہے اور ہماری زندگی کے ردھم چاند کی گردش کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔چاند ہماری زمین پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے، سائنسدان اس گتھی کو آج تک مکمل طور پر سلجھا نہیں پائے ہیں۔زمین پر چاند کا جو اثر سب سے واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ جوار بھاٹا ہے یعنی سمندری لہروں کا چڑھنا اور اترنا ہے -زمین دن میں ایک مرتبہ اپنے ہی محور پر گھومتی ہے اور اس دوران چاند کی کششِ ثقل زمین کے قریب ترین حصے پر موجود سمندر کے پانی کو اپنی جانب کھینچتی ہے جس سے زمین کی سطح پر ایک طرح کا ابھار پیدا ہو جاتا ہے۔اسی طرح زمین کے گھومنے کے باعث پیدا ہونے والی قوّت   سمندر کے پانی کو دوسری جانب سے بھی اٹھاتی ہے چنانچہ یہ ابھار زمین کے دوسری طرف بھی پیدا ہوتا ہے۔زمین ان دونوں ابھاروں کے درمیان گھومتی ہے جس کے باعث دن میں دو مرتبہ ہائی ٹائید یا جوار یعنی اونچی لہریں اور دو مرتبہ لو ٹائیڈ یا بھاٹا یعنی کم سطح کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔


ہر 18.6 سال کے دوران چاند کا مدار بھی زمین کے خطِ اُستوا یعنی ایکوئیٹر کی بہ نسبت پانچ ڈگری اوپر سے لے کر پانچ ڈگری نیچے تک جاتا ہے۔اس چکر کو سب سے پہلے سنہ 1728 میں دستاویزی شکل دی گئی تھی اور اسے لونر نوڈل سائیکل کہا جاتا ہے۔جب چاند کا مدار زمین کے خطِ استوا سے دور جانے لگتا ہے تو جوار بھاٹا کی شدت میں کمی آنے لگتی ہے اور جب یہ ایکویئٹر سے ہم آہنگ ہونے لگتا ہے تو جوار بھاٹا کی شدت بڑھ جاتی ہےاب امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سطحِ سمندر بڑھنے کے اثرات اس لونر نوڈل سائیکل کے ساتھ مل کر سنہ 2030 تک جوار بھاٹا کے باعث آنے والے سیلابوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ کر سکتے ہیں۔ناسا کی سطحِ سمندر میں تبدیلی پر نظر رکھنے والی سائنسی ٹیم کے سربراہ بینجمن ہیملنگٹن جائزہ لے رہے ہیں کہ سطحِ سمندر کیسے قدرتی اور انسانی عوامل پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کا ساحلی علاقوں کی آبادیوں پر کیا اثر ہو گا۔کیلیفورنیا منتقل ہونے سے قبل بینجمن امریکہ کی ساحلی ریاست ورجینیا میں رہتے تھے جہاں سیلاب پہلے سے ہی ایک بڑا مسئلہ تھے۔


وہ کہتے ہیں کہ ’بلند لہروں سے پیدا ہونے والے سیلاب ساحلی آبادیوں کی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس سے ملازمت پانے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے اور کاروبار کھلا رکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ابھی یہ صرف ایک دقت ہے لیکن وقت کے ساتھ اسے نظرانداز کرنا اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا نہایت مشکل ہو جائے گا۔‘ سنہ 2030 میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ساحلی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا-بینجمن کہتے ہیں کہ ان سیلابوں سے ساحلی پٹیوں کی ساخت تبدیل ہو گی، انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچے گا اور چاند کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بگاڑ کا شکار ہو جائے گا۔ہر اگلی دہائی کے ساتھ سیلابوں کی شدت میں چار گنا تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ لونر نوڈل سائیکل دنیا بھر میں ہر جگہ اثرانداز ہوتا ہے اور سمندری سطح بھی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ اس لیے ہم دنیا بھر میں بلند لہروں کے باعث پیدا ہونے والے سیلابوں کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہوتا دیکھیں گے۔‘چاند کے اس نوڈل سائیکل کے باعث انسانوں کے لیے کئی ایک مشکلات پیدا ہوں گی تاہم ساحلی علاقوں میں پائی جانے والی جنگلی حیات کے وجود کے لیے یہ ایک خطرہ بن سکتا ہے۔ر


ٹگرز یونیورسٹی کی ایلیا روشلن لونر نوڈل سائیکل اور نمکین دلدلی علاقوں میں مچھروں کی آبادی کے درمیان تعلق کو پرکھ رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب یہ نوڈل سائیکل اپنے عروج پر ہوتا ہے تو اونچی لہریں زمین میں کافی اندر تک موجود مچھروں کی آبادیوں کو متاثر کرتی ہیں۔‘کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ چاند ہی ہے جس کے باعث زمین پر زندگی ممکن ہوئی ہے۔زمین جب اپنے محور پر گھوم رہی ہوتی ہے تو چاند کی کشش اسے متوازن رکھتی ہے جس کے باعث ہمیں ایک مستحکم آب و ہوا میسر ہوتی ہے۔اس کی عدم موجودگی میں زمین پریشان کن حد تک ڈگمگاتی رہتی اور موسم، دن اور راتیں سب نہایت مختلف دکھائی دیتے۔مگر جن لہروں نے ممکنہ طور پر زمین پر زندگی کو جنم دیا، وہ یقینی طور پر چاند کو ہم سے دور دھکیل رہی ہیں۔ہر سال چاند زمین پر پیدا ہونے والی لہروں کے باعث ہم سے چار سینٹی میٹر دور جاتا جا رہا ہے۔زمین چاند کے مدار کے مقابلے میں اپنے محور پر زیادہ جلدی گھوم جاتی ہے اس لیے چاند کی کشش سے پیدا ہونے والا لہروں کا ابھار چاند کو زمین کی طرف زیادہ شدت سے کھینچتا ہے اور چاند کی اس شدت کی وجہ سے یہ اپنے مدار سے تھوڑا ہٹ جاتا ہے اور یوں اس کا مدار بڑا ہوتا جا رہا  ہے-باقی رہے نام اللہ کا یہ حساب و کتاب روئے زمین کے انسانوں کے تخلیق کردہ ہیں اصل حساب تو بس میرا رب ہی جانے 


1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

     حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ الس...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر