یہ سچی کہانی حرام کھانے اور کھلانے والو کے لئے ایک عبرتناک مثال۔وڈیو دیکھ کر میں سوچ رہی ہوں کہ اس بے رحم اور قاتل شخص کی بے شمار زمینیں اور جائدادیں کہاں گئیں جو اس نے کراچی کے مہاجر نوجوانوں کو پکڑ' پکڑ کر ان کے خاندانوں سے پیسہ بٹور کر بنائ تھیں ۔اس کا یک بنگلہ بڑا بیٹا کاغذات سمیت بیرون ملک بھاگ چکا ہے اور دوسرا بنگلہ اس نے چھوٹے بیٹے کے نام کیا تھا اس بنگلے کو بیٹا پولیس کے زریعے باپ سے خالی کروا رہا ہے-ابھی حال کی ہی بات ہے انٹر نیٹ پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک کم زور‘ نحیف بزرگ شخص دو پولیس اہلکاروں کے سامنے کھڑا تھا اور وہ بار بار پولیس والوں سے الجھ رہا تھا‘ اس کے ساتھ درمیانی عمر کی ایک خاتون تھی جب کہ سامنے پچاس اکاون سال کا ایک شخص کھڑا تھا اور وہ بار بار پولیس اہلکاروں کو کہہ رہا تھا آپ اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے‘ آپ اس کا سامان کیوں نہیں نکالتے؟
بزرگ پولیس والوں سے تکرار کر رہا ہے اور خاتون کہہ رہی تھی آپ مجھے آرڈر دکھائیں‘اے ایس آئی انہیں یقین دلا رہا تھا میرے پاس کورٹ آرڈر ہے‘ آپ اب گھر کے اس پورشن میں نہیں رہ سکتے‘ بزرگ پولیس کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا‘ پولیس اہلکار انہیں سمجھارہے تھے بریگیڈیئر صاحب آپ ہمارے بزرگ ہیں‘ ہمارے محترم ہیں‘ آپ ہمارے ساتھ کوآپریٹ کریں‘ ہمارے پاس آرڈر ہے اور ہم نے ہر صورت اسے پورا کرنا ہے‘ یہ تکرار بڑھ جاتی ہے اور آخر میں اے ایس آئی کانسٹیبل کو کہتا ہے گاڑی منگوا ؤ اور ان تینوں کو اٹھا کر تھانے لے جا ؤ اور ویڈیو ختم ہو جاتی ہے‘ دوسری ویڈیو میں پچاس اکاون برس کا شخص پولیس والوں کو کہتا ہے آپ ان لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ پولیس اہلکار جواب دیتا ہے‘ یہ بزرگ بھی ہیں اور بیمار بھی‘ ہم انہیں کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟ آپ اپنا سامان لے آئیں اور وہ شخص سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا جاتا ہے۔یہ بوڑھا اور کینسر زدہ بیمار شخص بریگیڈیئر امتیاز احمد عرف بریگیڈیئر بلا تھا‘
ایک زمانہ تھا پورے ملک میں بریگیڈیئر امتیاز کا طوطی بولتا تھا‘ حکومتیں بھی تبدیل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور جس کو دل چاہتا تھا اسے اٹھا کر برہنہ کر کے سزا دیا کرتے تھے -انہوں نے ہی کمیونسٹ لیڈر نذیر عباسی تک کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا ‘ پاک فوج کی انجینئرنگ کور سے ان کو عروج ملنا شروع ہوا قدرت نے اسے مکار نیلی آنکھیں دی تھیں لہٰذا ساتھی اسے بلا اور باگڑ بلا کہتے تھے‘ یہ انجینئرنگ کور سے انٹیلی جنس میں آیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ 1980ء کی دہائی میں یہ انٹرنل سیکورٹی کا سربراہ بن گیااور میاں نواز شریف کے ساتھ جڑ گیا اور پھر ان کی آنکھوں کا تارا بن گیا‘ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی‘ بریگیڈیئر امتیاز نے حکومت گرانے کا منصوبہ بنایا‘یہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے اور میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کر رہا تھا‘ ا نہوں نے راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے ایم این ایز توڑنے کی کوششیں شروع کر دیں‘ مسعود خان اس وقت آئی بی کے ڈی جی تھے‘ انہیں بھنک پڑ گئی اور انہوں نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کی پی پی کے دو ایم این ایز کے ساتھ آڈیوز اور ویڈیوز ریکارڈ کر لیں
‘ وزیراعظم کے ہاتھ میں ثبوت آ گیا لہٰذا اس نے آرمی چیف اسلم بیگ کو بلا کر پوچھ لیا‘ اسلم بیگ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شمس الرحمن کلو (المعروف جنرل کلو)مکر گئے اور ملبہ جنرل امتیاز پر آ گرا‘ اس نے میجر عامر کو بھی ساتھ لپیٹ لیا جب کہ میجر عامر اس سازش میں شامل نہیں تھے‘یہ اس وقت اسلام آباد کے سیکٹر کمانڈر تھے مگر ڈی جی نے انہیں اس معاملے سے الگ کر رکھا تھا‘ یہ سارا آپریشن بریگیڈیئر امتیاز ایڈیشنل ڈی جی انٹرنل ونگ کی حیثیت سے ان کے ہی زمہ تھا ‘ یہ آپریشن تاریخ میں مڈنائیٹ جیکال کے نام سے مشہور ہوا‘ بہرحال قصہ مختصر جنرل اسلم بیگ نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کا کورٹ ماشل کر کے انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا‘ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے‘ انہوں نے بریگیڈیئر امتیاز کو برخاستگی کے باوجود پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری لگا دیا‘ یہ 1990ء میں الیکشن جیت کر پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے بریگیڈیئر بلا کو ڈی جی آئی بی بھی لگا دیا اور یہاں سے بریگیڈیئر بلا کو ایک بار پھر عروج ملا‘ یہ 1993ء تک ڈی جی آئی بی رہے-زمانے نے اپنی آنکھوں سے ا ن کا جاہ و جلال دیکھا ‘ بڑے بڑے نامی گرامی وزراء ا نکے دفتر کے باہر بیٹھے رہتے تھے‘اقتدار اور طکی گنگا ان کی میز کے نیچے بہتی تھی اور یہ اپنے قریبی ساتھیوں سمیت خود بھی اس میں غسل کرتے اور اپنے دوست احباب کو بھی اس میں گنگا اشنان کرواتے ‘
بہرحال قصہ مزید مختصر 1994ء میں بے نظیر بھٹو دوبارہ آ گئیں اور بریگیڈیئر امتیاز اب قانون کے شکنجے میں آ گئے‘ 2001ء میں جنرل مشرف نے نیب بنایا‘‘ اس زمانے میں اسلام آباد میں اس کی 24 پراپرٹیز نیب نے دریافت کیں‘ زمینیں‘ زیورات‘ بینک اکائونٹس اور بے نامی جائیدادیں ان کے علاوہ تھیں‘ نیب نے عدالت میں کرپشن ثابت کر دی اور یوں اسے 8 سال قید ہو گئی‘ یہ 2008ء میں اڈیالہ جیل سے رہا ہوااور 2010ء میں اسے ایک بار پھر چیئرمین او جی ڈی سی عدنان خواجہ کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا مگر یہ اس وقت تک کینسر کا مریض بن چکا تھا‘ اس کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی لہٰذا عدالت نے اسے رہا کر دیا اور یہ اس کے بعد گوشہ گم نامی میں چلا گیا‘ زمانہ بھی اسے بھول گیا لیکن پھر اچانک اس کی ویڈیو سامنے آئی اور میں قسمت کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔بریگیڈیئر امتیاز کی تازہ ترین کہانی یہ ہے‘ یہ اپنی جس اولاد کے لیے لوٹ کھسوٹ کرتا رہا‘ اس نے جن بچوں کے لیے کراچی کے مہاجر نوجوانوں کو بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا یا پھر ان کے خاندانوں نے ان کی رہائ کے لئے لاکھوں روپے تاوان وصول کیا آج وہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں پولیس کے نرغے میں گھرا کھڑا ہے