پیر، 13 مئی، 2024

شاہ ایران کا جشن شہنشاہی ۔ایک ہوشربا داستان پارٹ2


     تقریب میں مہمان مغربی ممالک سے بھی تھے اور سوویت بلاک سے بھی۔ امریکی نائب صدر، سوویت یونین کی طرف سے نکولائی پوڈگورنی۔ آسٹریا، فن لینڈ، سویٹزرلینڈ کے سربراہانِ مملکت۔ فرانس، جنوبی کوریا اور سوازی لینڈ کے وزرائے اعظم۔ پاکستان کے صدر یحیٰی خان، انڈیا کے صدر گیری، ترکی، ہنگری، برازیل، چیکوسلواکیہ، انڈونیشیا، لبنان، جنوبی افریقہ، ماریطانیہ، سینی گال، زائرے، یوگوسلاویہ، رومانیہ کے صدور آئے۔کینیڈا اور آسٹریلیا کے گورنر جنرل آئے۔ چین، جرمنی، پرتگال، پولینڈ نے بھی اپنے وزرائے خارجہ یا سفیروں کو بھیجا۔ پوپ نے بھی اپنا خصوصی نمائندہ بھیجا۔لیکن سب سے زیادہ نظریں دوسرے بادشاہوں پر تھیں۔ اتنے زیادہ بادشاہ، ملکائیں، شہزادے اور شہزادیاں ایک جگہ پر کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ ڈنمارک، بلجیم، نیپال اور گریس کے شاہی جوڑے۔ اردن، ناورے، ایتھیوپیا اور لیسوتھو کے بادشاہ۔ قطر، کویت، ابوظہبی کے امیر، عمان کے سلطان، افغانستان، لگزمبرگ، لیکٹنسٹائن، موناکو، فرانس، سویڈن، سپین، اٹلی، جاپان، مراکش، تھائی لینڈ، اردن اور ملیشیا سے شہزادے اور شہزادیاں۔برطانوی ملکہ الزبتھ نے اس میں شرکت نہیں کی کیونکہ بادشاہوں کے بادشاہ کہلانے والے کی میزبانی قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن انھیں نے اپنے شوہر فلپ اور شزادی این کو بھیجا۔ چند جگہوں سے مہمان اندرونی پریشر کی وجہ سے نہیں آئے کیونکہ شاہ کو کئی ممالک میں ڈکٹیٹر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مہمانوں کو ائیرپورٹ سے لانے کے لیے 250 بلٹ پروف لموزین گاڑیاں منگوائی گئی تھیں۔


تقریب کا آغاز سائرس کے مزار پر تقریب سے ہوا۔ ملکہ فرح اور ولی عہد رضا کے ساتھ سٹیج پر شاہ نے جذباتی تقریر کی اور سائرس سے وعدہ کیا کہ ان کے جانشین اس تابناک ماضی کی وراثت کا صحیح طور پر حق ادا کریں گے۔ پہلی شام کو شاہ نے مہمانوں کو پرتعیش ضیافت دی۔ یہ بندوبست بڑے خیمے میں کیا گیا تھا۔ یہاں کے فانوس اور سونے کا ملمع چڑھائی گئی کٹلری ایک صدی پہلے کے کسی یورپی دربار کا نظارہ پیش کر رہے تھے۔ کھانے کو 70 میٹر لمبی سانپ کی طرح بل کھاتی ایک میز پر پیش کیا گیا۔ اس کا میزپوش سینے میں 125 خواتین نے چھ ماہ تک کام کیا تھا۔ عام مہمانوں، جیسے کہ سفیر یا سربراہان کے ساتھ آئے وفود کے لیے خیمے میں الگ چھوٹی میزیں تھیں۔ مشرق و مغرب، کمیونسٹ اور کیپیٹلسٹ، ترقی یافتہ اور ترقی پزیر، بادشاہتیں، سابق کالونیاں، سب کھانے پر اکٹھے تھے۔ مینو فارسی اور فرنچ میں لکھا تھا۔ اس میں جو چیزیں پکائی گئی تھیں، وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ ثابت مور، جن کو اپنے پروں کے ساتھ پیش کیا گیا، خاص توجہ کا باعث رہے۔ چھ سو مہمانوں کی یہ ضیافت چھ گھنٹے جاری رہی۔ مسلمان اکثریت والے ملک ایران میں الکوحل ناپسند کی جاتی تھی لیکن شاہ کی دعوت میں ڈھائی ہزار شمپین کی بوتلیں، ایک ہزار بورڈو کی بوتلیں، ایک ہزار برگنڈی کی بوتلیں شامل تھیں۔ شیمپین ساٹھ سال پرانی تھی جبکہ کوگنیک 1860 کی تھی۔ ان سب کو بحفاظت رکھنے کے لیے خاص سیلر تعمیر کروایا گیا تھا جہاں چار ہفتے انھیں محفوظ رکھا گیا تھا۔


 اس پارٹی میں ہر کوئی تھا لیکن ایرانی نہیں تھے۔ شاہ نے اپنے وزراء کو بھی نہیں بلایا تھا۔ صرف چند لوگ جو انتظامی امور دیکھ رہے تھے، موجود تھے۔ اگلے روز بڑا ایونٹ تھا۔ اس میں فارس کی عظیم سلطنت کے ڈھائی ہزار سال دکھانے کا شو ہوا۔ ایران کے پونے دو ہزار فوجیوں اور سینکڑوں گھوڑوں اور اونٹوں نے اس میں حصہ لیا۔ اس کی تفصیلات پر بہت توجہ دی گی تھی کہ تاریخ دکھانے میں ٹھیک ماحول پیدا کیا جائے۔ ہر دور کے اپنے کاسٹیوم، داڑھیاں، وگ، یونیفارم، سواریاں، ہتھیار، جنگی جہاز، ٹوپیاں۔ یہ سب بنانے کے لیے ملٹری مورخین کے ملٹی نیشنل ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ تہران کی ملٹری ورک شاپ نے کئی طرح کے کاسٹیوم بنائے تھے۔ قدیم باجے اور بھولے بسرے موسیقی کے آلات بنائے گئے تا کہ وہ آوازیں صحرا میں گونجیں جو صدیوں سے نہں سنی گئی تھیں۔ زورکسس کے تین قدیم بحری جہازوں کے ریپلیکا بھی تیار کیے گئے۔ غروبِ آفتاب کے بعد فارس کی تاروں بھری رات میں روشنی اور آوازوں کی پرفارمنس مہمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔ اس میں مختلف فارسی حکمرانوں کی آوازوں میں فارس کے تابناک ماضی کو یاد کیا گیا۔ اور آخر میں آتشبازی کے شاندار مظاہرے کے ساتھ روشن ہونے والے آسمان کے بعد تقریب اختتام پزیر ہوئی۔

 تیسرے روز وی آئی پیز کو تہران لے جایا گیا۔ یہاں پر کچھ پروگرام رکھے گئے تھے جس میں شاہِ ایران کی یاد میں تعمیر کردہ شاہ یاد ٹاور کی افتتاحی تقریب بھی تھی۔ تقریب خود میں بہت کامیاب شو رہا۔ شاہ نے دنیا کو دکھایا کہ پارٹی کیسے کی جاتی ہے۔ ملکہ فرح کے لباس اور زیور دنیا بھر کی خبروں میں رہے۔ ایک اور مشہور موضوع ایتھیوپیا کے بادشاہ کا پالتو کتا تھا جس کا ہیروں جڑا پٹہ کئی ملکاوٗں کے زیورات سے زیادہ قیمتی تھا۔ دنیا کے ہر میگیزین میں اس پارٹی کو بڑی کوریج ملی۔ “دعوتوں کی ماں”، “صدی کی سب سے بڑی تقریب” جیسے عنوانات دئے گئے۔ کچھ دیر ایران میں بھی اس کے کامیاب انعقاد کی خوشیاں منائی گئیں۔ ایرانی ٹی وی سکرین پر شاہ کو دنیا کے طاقتور ترین ممالک سے ملنے والی عزت دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ لیکن یہ سب زیادہ دیر نہیں رہا اور ایران کے اندر ان شاہ خرچیوں پر اعتراضات سامنے آنے لگے 


۔آیت اللہ خمینی، جو اس وقت عراق میں جلاوطن تھے، نے اس کو “شیطان کی دعوت” کہا۔ اس پارٹی میں استعمال ہونے والی شراب کی تفصیلات، ایرانیوں کی اس میں غیر موجودگی اور تقریب کی تفصیلات عام ایرانیوں کے لیے حیران کن تھیں۔ٹائم میگیزین نے اندازہ دس کروڑ ڈالر (آج 2020ءکے حساب سے 65 کروڑ ڈالر) لگایا۔ فرانس کے پریس نے اس سے دگنی لاگت کا اندازہ لگایا۔ شاہ کی انتظامیہ یہ اعداد سامنے آنے پر اس کی تردید کی اور کہا کہ خرچہ بہت کم ہوا ہے اور صرف ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر (آج کے حساب سے بارہ کروڑ ڈالر) ہے۔ شاہ نے کہا کہ خرچہ تو صرف وہ ہے جو کھانے پر آیا تھا۔ باقی تو ملک میں ہونے والی تعمیرات ہیں۔ اور ساتھ یہ کہ اس پارٹی میں آنے والوں نے جو عطیات دئے ہے اس سے ایران کے دیہاتوں میں تین ہزار سے زائد اسکول بنائے جائیں گے۔ یہ سب نیک مقصد کے لیے کیا گیا تھا۔ 


اس تقریب نے شاہ کی عوامی سپورٹ میں بہت کمی کر دی۔ اپوزیشن پارٹیاں، جو نظریاتی اعتبار سے بہت فرق رکھتی تھیں، شاہ کے خلاف متحد ہو گئیں۔ اس سے تین سال بعد شاہ نے عوام سے معذرت کی اور لوگوں سے معافی طلب کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ دہائیوں سے جاری غلط فیصلوں، کرپشن اور ظلم کا جاری طریقہ بدلیں گے۔ لیکن تاخیر ہو چکی تھی۔ ایران میں جاری بغاوت کامیاب ہوئی۔ ۔ 1979 میں پہلوی خاندان کو انقلاب کے نتیجے میں ایران چھوڑنا پڑاتقریب کے مقام موجودہ صورت حالتقریب کے بعد خیموں کا شہر استعمال کیا جاتا رہا۔ یہاں کرائے پر سرکاری اور نجی تقریبات منعقد ہوتیں۔ انقلاب کے دوران اس کو لوٹ لیا گیا۔ اب یہاں پر سڑکیں اور لوہے کی سلاخیں بچی ہیں۔ شاہ یاد مینار کا نام بدل کر آزادی ٹاور رکھ دیا گیا جو اب تہران کا ایک لینڈ مارک ہے ۔ ۔  

شاہ ایران کا جشن شہنشاہی۔ایک ہوشربا داستان پارٹ ۱

ایران میں جشن شہنشاہی منانے کے لئےخیموں کا ایک عارضی شہر بسانے کا۔ منصوبہ بنایا گیا جس کے لیے پیرس کی مشہور جینسن کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے رہائش کے لیے ائیر کنڈیشنڈ ٹینٹ ڈیزائن کیے جس میں لگژری سویٹ ہوں اور انھیں روایتی ایرانی پردوں سے ڈھکا گیا۔ ہر خیمے میں دو بیڈروم، دو باتھ روم، ایک لاونج، ایک کچن تھا جس میں باورچی اور خدمت گار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر تھے۔ فرانسیسی آرکیٹکٹ، انٹیرئیر ڈیزائنر اور ہنرمندوں کو ایک سال سے زیادہ ان خیموں کی تعمیر پر لگا۔ ان کو پیرس کے ہوائی اڈے کے قریب تعمیر کیا گیا اور سینکڑوں جہازوں میں انھیں پرسیپولس پر پہنچایا گیا۔ خیموں کا یہ شہر 160 ایکڑ پر پھیلا تھا۔ ایک سوشل خیمہ بنایا گیا تھا جس میں بار، ریسٹورنٹ، کسینو تھا۔ ایک اور سپیشل خیمے میں میک اپ سیلون، ہیرڈریسنگ سیلون سیٹ کیے گئے تھے۔ ان میں پیرس کے بہترین ہیرڈریسرز اور میک اپ کے ماہرین کو بلایا گیا تھا کہ وہ مہمانوں کو خدمات مہیا کریں۔ ان کی مہینوں تک خاص ٹریننگ کی گئی تھی کہ وہ تیز رفتاری سے کام کر سکیں۔ اور کیسے صرف چند منٹ میں تاج فٹ کر سکیں۔ پیرس سے فیشن ڈیزائنرز کی ایک ٹیم بھی بلوائی گئی تھی تا کہ اگر کسی کو اپنے لباس میں آخری وقت پر تراش خراش کروانی پڑے تو خدمات دستیاب ہوں۔ کھانے کے لیے فرانس کے مشہور میکسیم ڈی پیری سے معاملہ ہوا۔ یہ اس وقت دنیا کا بہترین ریسٹورنٹ سمجھا جاتا تھا


‎  سلطنت فارس کے قیام کا 2500 سالہ جشن 12 سے 16 اکتوبر 1971ء کو ایران میں منایا گیا۔یہ دنیا کی تاریخ میں کی جانے والی شاندار ترین تقریبات میں سے ایک تھی۔اس تقریب میں دنیا کے ہر برِاعظم سے بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، شیخ، سلطان، سربراہانِ مملکت، وزیر، سفیر، بزنس کی اہم شخصیات سبھی اس محفل میں شریک ہوئے۔تقریب کا انتظام کرنے کے لیے ڈیڑھ سال پہلے اس کی تیاری شروع کر دی گئی۔ ایران میں انفراسٹرکچر موجود نہ ہونا ایک مسئلہ تھا۔ تقریب کے شایانِ شان ہوٹل نہیں تھے۔ سوچ بچار کے بعد اس کے لیے قدیم شہر پرسیپولس کے صحرا کا انتخاب کیا گیا۔اس صحرا کو جنگل میں بدلا گیا۔ درخت درآمد کیے گئے۔ پندرہ ہزار درخت جہازوں پر لائے گئے۔ پھولدار پودے لگائے گئے۔اٹلی کے مشہور باغبان جارج ٹرروفوٹ کو بلایا گیا کہ وہ چار ہیکٹئر پر مشتمل خوشبودار باغ لگائیں۔ اس کے لیے مٹی منگوائی گئی۔ اس جگہ پر سانپ اور بچھو بہت تھے جو مہمانوں کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔ تیس کلومیٹر تک کے علاقے پر کیمیکل چھڑکے گئے اور رینگنے والے جانوروں کے ٹرکوں کے ٹرک پکڑے گئے۔ اس دوران ایسی انواع بھی ملیں جو نامعلوم تھیں اور انھیں یونیورسٹیوں کو تحقیق کے لیے دیا گیا۔اس جنگل کو آباد کرنے کے لیے یورپ سے پچاس ہزار چہچانے والے پرندے درآمد کیے گئے۔ بیس ہزار چڑیوں کو سپین سے منگوایا گیا لیکن پرندوں کی بڑی تعداد چند روز میں ہی مر گئی۔ وہ یہاں کے موسم سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ صحرا میں گالف کورس بنایا گیا۔اس تقریب کا زیادہ تر کام مشہور یورپی کمپینیوں کے حوالے ہوا۔


۔ پارٹی کے وقت یہ ریسٹورنٹ دو ہفتے بند رہا۔ اس کا تمام سٹاف ایران میں دس روز پہلے پہنچ گیا تھا۔ فرانس سے اٹھارہ ٹن خوراک منگوائی گئی۔ ڈھائی لاکھ انڈے۔ 2700 کلوگرام گوشت اور بہت کچھ اور۔ یہاں تک کہ تیس کلوگرام خاویار بھی! مشہور ترین ہوٹلییر میکس بلوئے، اپنی ریٹائرمنٹ چھوڑ کر انتظامات سپروائز کرنے پہنچے۔ اس جگہ تک اتنا سامان پہنچانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس سے پچاس کلومیٹر دور شیراز تھا جہاں ایئر فیلڈ تعمیر ہوا جہاں جہازوں کی آمدورفت ہو سکتی تھی۔ اس ائیرفیلڈ کو پرسیپولس سے ملانے کے لیے ایک ہائی وے تعمیر کی گئی۔ سامان لانے کا کام ایرانی ائرفورس کے سپرد ہوا۔ چھ ماہ تک ایرفورس شیراز اور پیرس کے درمیان سامان کی ترسیل میں مصروف رہی۔ شیراز سے آرمی کے ٹرکوں میں سامان منزل تک پہنچا دیا جاتا۔ پردے اور قالین اٹلی سے آئے۔ باکاراٹ کرسٹلز پہنچے۔ برتن لموژے چائنہ کے بنوائے گئے جس میں پہلویوں کا کوٹ آف آرمز کنندہ تھا۔ تولیہ اور چادریں پورٹہو سے۔ پرچ اور پیالیاں رابرٹ ہاویلانڈ سے۔ اور مہنگی ترین شراب کی ہزاروں بوتلیں آئیں جن کا وزن بارہ ٹن تھا۔ کھانا پکانے کے لیے پیرس سے جو سامان آیا، وہ تیس ٹن وزنی تھا۔ جہاز اس کو سرد رکھنے کے لیے برف لے کر آئے۔ تیس میل کی سڑک کو روشن کرنے کے لیے ایرانی آئل کمپنی نے مشعلیں جلانے کا بندوبست کیا۔سیاحت کی وزارت نے شیراز میں دو نئے ہوٹل تعمیر کروائے۔ کروش اور درویش نامی ان ہوٹلوں میں کم اہم مہمانوں اور میڈیا کے لوگوں کو ٹھہرایا گیا


‎سیکورٹی -د نیا کے اہم ترین لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو رہے تھے۔ شاہ کی غیر مقبولیت کی دوسری کئی وجوہات بھی تھیں۔ شاہ کو طلبہ کی طرف سے سبوتاژ کیے جانے کا خطرہ تھا۔ سیکورٹی پر 65000 اہلکار تعینات ہوئے۔ یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں کوئی کھانے میں کوئی چیز نہ ملانے میں کامیاب ہو جائے۔ کھانے کی حفاظت خاص طور سے کی گئی جس تک بہت کم لوگوں کو رسائی تھی۔ بیرے سوئٹزلینڈ سے منگوائے گئے۔ ایران کی سرحد کو تقریب کے دوران سیل کر دیا گیا۔ یونیورسٹیاں اور اسکول بند کر دئے گئے۔ شک کی بنیاد پر ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ طلبہ تنظیموں میں متحرک لوگوں کو تقریب سے چند ماہ قبل احتیاط کے طور پر جیل میں ڈال دیا گیا -اس تقریب کی تشہیرپر خاص توجہ دی گئی۔ مختلف ممالک کے ٹی وی چینلوں کے ساتھ اس کو براہِ راست دکھانے کی ڈیل کی گئی۔ ایران کے قومی فلم بورڈ نے اس تقریب پر فلم “فارس کے شعلے” کے نام سے بنائی جو کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔ انگریزی ڈبنگ کے لیے ہالی وڈ کے ایکٹر اور ڈائریکٹر اورسن ویلز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایرانی سفارتخانوں کو اس تقریب کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک سال پہلے سے کانفرنس، پارٹی، سمپوزیم اور دوسری کلچرل تقریبات کے لیے کہا گیا۔ کئی کتابیں لکھوائی گئیں اور دنیا بھر میں تقسیم کی گئیں۔ یہ کامیاب رہا اور دنیا بھر کے میڈیا میں یہ دعوت توجہ کا مرکز رہی۔ “کون آ رہا ہے؟ کیا پہن رہا ہے؟ کھانے میں کیا ہو گا؟” یہ قیاس آرائیاں خبروں کے طور پر لگتی رہیں 

اتوار، 12 مئی، 2024

بارود سے آلودہ یوکرینی گندم پاکستانی عوام کھائیں گے

 پاکستا ن کے ایمان دار غزائ ماہرین کا کہنا تھا کہ پنجاب میں گندم کے ذخائر40لاکھ 47 ہزار 508میٹرک ٹن پہلےسےموجودتھے،لیکن بارود میں رچی گندم بڑے آقا کے حکم پر درآمد کی ڈیل  کی گئ -اس کے علاوہ گندم کو 2600 سے 2900 فی من تک درآمد کرکے 4700تک فروخت کی گئی اور گندم کےاسٹاک کو روک کرمصنوئی قلت ظاہرکی گئیذرائع کے مطابق وفاقی اداروں نےہی پرائیویٹ کمپنیوں کو درآمدکرنےکی اجازت دی، وزارت خزانہ کےچندآفیشلز نےبھی اتنی بڑی درآمد کو چیک نہیں کیا-  گندم کی  کہانی کی ابتدا  تب شروع ہوئی جب باجوہ اور رجیم چینج کے بعد شہباز حکومت کے وزیر احسن اقبال نے یوکرین کی وہ گندم خریدنے کی ڈیل کی جسے دنیا میں کوئی اس لئے نہیں خرید رہا تھا کہ جنگ کے باعث اس میں بارود کے اثرات تھے گندم یوکرین کے سٹوریج ہاوسز میں پڑی پرانی ہو رہی تھی جو مال سیل پر کباڑ کے دام بکنے کیلئے تیار تھا اس کی مارکیٹ پرائس سے کئی گنا قیمت پر خریدنے کی ڈیل امریکی دباو پر ہوئی اس پر ظلم یہ کہ ساری لاٹ ہی خرید لی گئ کیونکہ حکم آقا تھا-اس پر عمل نگران دور میں ہوا اس پرمستزاد یہ کہ یہ گندم جن بحری جہازوں پر آئی انہیں کئی ہفتے اسے ان لوڈ کرنے میں اس لئے لگے کہ یہ بڑے بڑے جہاز گوادر کی بندرگا ہ پر اس لئے لنگر انداز ہوئے کہ کراچی کا سمندر بڑے جہازوں کے لئے گہرا نہیں ہے


پھر کراچی  پورٹ سے قریبا 50 کلومیٹر دور لنگر انداز بڑے جہازوں سے چھوٹے جہازوں میں گندم بھر بھر کر لائی جانے سے سمندری ہوا کی نمی اس میں رچ گئی کسان اور اکثر عوام جانتے ہیں کہ گندم کیلئے نمی زہر قاتل ہے یہ گندم ملک بھر کے پاسکو سٹوریج ہاوسز میں سٹور کر دی گئیمنصوبہ یہ تھا کہ یہ خراب ، جنگ زدہ اور سیلی گندم ملک میں سپلائی کریں گے اور مقامی تازہ اور صحت مند گندم ایکسپورٹ کر دینگے پاسکو کے پاس سٹوریج کی جگہ پر یوکرین کی خراب گندم نے قبضہ کر رکھا ہے اور صوبائی حکومتوں کے پاس کسان سے گندم خرید کر رکھنے کی جگہ ہی نہیں اسلئے تھوڑی بہت جو گندم خریدی وہ بھی فلور ملز کو ڈائریکٹ بھجوا دی گئیگندم اسکینڈل میں کس نے کتنا کمایا صوبائی حکومتیں سٹوریج نہ ہونے کے باعث بے بس ہیں لیکن انکی حکومت برقرار رکھنے کی مفاد پرستی انہیں سچ بتانے نہیں دیتی کہ پاکستان ، پاکستان کی زراعت اور ملکی مفاد کے ساتھ کس نے کتنا بڑا کھلواڑ کر دیا ہےمقامی فصل کا بڑا حصہ سٹوریج نہ ہونے سے خراب ہو جائیگا یا کسان اپنی فصل سڑک پر رکھ کر 200 روپے من بیچنے پر مجبور ہو گا اور حکومتی ایجنٹوں کے گدھ اس سے فائدہ اٹھائیں گےکیا یہ کسان اگلے سال گندم لگائے گا؟


 ایک اہم رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتیں فوڈ سیکیورٹی اور کامرس پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی نے گندم کی غیر قانونی درآمد کو روکنا تھاپنجاب میں گندم ذخائر40لاکھ 47 ہزار 508میٹرک ٹن پہلے سے موجود تھے، گندم کو 2600 سے 2900فی من تک درآمد کرکے 4700تک فروخت کی گئی اور گندم کےاسٹاک کو روک کرمصنوئی قلت ظاہر کی گئی۔گندم درآمد سے متعلق انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ درآمدات26ستمبر 2023سے شروع ہوئی اور31مارچ 2024 تک جاری رہی جو لگ بھگ 6 ماہ کا عرصہ بنتا ہے، ہمارا ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے غریب لوگوں کے روٹی کھانے کے بھی حالات نہیں ایسےمیں گندم کا بحران  وہ بھی مصنوعی آج کا نہیں بلکہ گزشتہ 11 سال سے زائد عرصے میں مختلف ادوار میں یہ بحران شدت سے پیدا کیا گیا ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران اس صورتحال سے کچھ سیکھ پائے ہیں یا نہیں؟، ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ میں وفاقی ادارے غیرضروری گندم درآمد کے ذمہ دار قراردیے گئے ہیں۔ذرائع   کا کہنا تھا کہ وفاقی وزارتیں فوڈسیکیورٹی ، کامرس پر مشتمل کمیٹی نے غیر ضروری درآمد کو روکنا تھا۔رپورٹ میں محکمہ خوراک پنجاب اور پاسکو کے چند آفیشلزکو بھی مشکوک قرار دیا گیا ہے۔کمیٹی تجاویز میں کہا ہے کہ 43 لاکھ 65 ہزار220 میٹرک ٹنگندمموجودہونےکےباوجوددرآمد کی گئی، 35 لاکھ 87 ہزار 378میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔، تاہم آئندہ3روز میں مکمل رپورٹ حکومت کو پیش کردی جائے

جمعرات کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ملک میں گندم کے ذخائر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں وفاقی وزرا احد خان چیمہ، رانا تنویر حسین، محمد اورنگزیب، جام کمال خان، وزیرِ اعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضال اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے وزیراعظم شہباز شریف  کو بتا یا کہ اللہ کے فضل و کرم سے رواں سال گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے اور اب اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ گندم کی خریداری میں کسی قسم کی دیر نہ ہو۔انہوں نے ہدایت کی کہ گندم کی خریداری کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں اور کسانوں کو ان کی محنت کا معاوضہ جلد پہنچایا جائے۔و زیرِ اعظم نے گزشتہ برس گندم کی درآمد کے حوالے سے وزارت قومی غذائی تحفظ سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس گندم کی اچھی پیداوار کے باوجود گندم کی درآمد کا فیصلہ کن وجوہات کی بنا پر لیا گیا۔

۔ادارہ شماریات کے مطابق نئی حکومت کے پہلے ماہ 6 لاکھ 91 ہزار 136 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، نگران دور میں27 لاکھ 58 ہزار 226 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی، مارچ 2024 میں57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی۔ادارہ شماریات نے بتایا کہ رواں مالی سال فروری تک 225 ارب 78 کروڑ 30 لاکھ روپے کی گندم امپورٹ ہوئی، رواں مالی سال مارچ تک کل 34 لاکھ 49 ہزار 436 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، رواں مالی سال مارچ تک 282 ارب 97 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی۔اس سے قبل وزیراعظم نے گندم کے بحران کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری قومی غذائی تحفظ اور تحقیق محمد آصف کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔وائے افسوس ہماری اندھی لالچ جو قبر کے اندھیروں سے اور جزا و سزا کے دن سے بے خوف اور بے نیاز ہے

آخر علاقائ بنیادوں پر قتل عام کیوں



صوبہ  پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات افراد کو فش ہاربر جیٹی کے علاقے میں ایک رہائشی گھر میں رات کے وقت سوئے ہوئے سات حجاموں کو قتل کر دیا گیا-ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) گوادر امام بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلوچستان کے ضلع گوادر میں سربندر پولیس سٹیشن کی حدود میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سات افراد جان سے چلے گئے’میرا سب کچھ لٹ گیا، میرے گھر کی کفالت کرنے والے دونوں بیٹے مارے ’میرا سب کچھ اجڑ گیا۔ جس کا سب کچھ اجڑ جائے اس کے پاس اپنے غم اور دکھوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے۔‘یہ کہنا تھا پنجاب کے ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والے حیبب الرحمان کا جن کے دو بیٹے اور ایک بھتیجا بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے سربندر میں نامعلوم افراد کے حملے میں مارے گئے۔


بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے حیبب الرحمان کا کہنا تھا کہ اس واقعے نے نہ صرف ان کے گھر بلکہ پورے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا۔حبیب الرحمان نے بتایا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق ان کے خاندان سے ہے۔یاد رہے کہ بدھ کی رات بلوچستان کے ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔مقامی پولیس کے مطابق ان افراد کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال سے تھا اور یہ سربندر میں حجام کا کام کرتے تھے۔


’میرے گھر کی کفالت کرنے والے دونوں بیٹے مارے گئے‘

سربندر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں میں دو سگے بھائی سجاد اور حسیب بھی تھے۔ ان کے والد حبیب الرحمان خانیوال میں ایک سرکاری سکول سے نائب قاصد کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔حبیب الرحمان نے بتایا کہ ایک حادثے میں ان کا بازو متاثر ہونے کے بعد گھر کی کفالت ان کے بیٹے ہی کرتے تھے۔میرے دونوں بیٹے خاندان کا معاشی سہارا بننے کے لیے گھر سے سینکڑوں میل دور سربندر محنت مزدور کرنے گئے تھے۔‘


ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ان کے دونوں بیٹیوں کے ساتھ ساتھ ان کا بھتیجا بھی مارا گیا جبکہ زخمی ہونے والا فرد بھی ان ہی کے خاندان کا ہے۔کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ساڑھے تین بجے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے سربندر میں فش ہاربر جیٹی کے قریب ایک رہائشی کوارٹر پر حملہ کیا، جہاں آٹھ افراد سو رہے تھے جن میں سے سات افراد جان سے چلے گئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔ گوادر پولیس کے مطابق لاشوں اور زخمی کو گوادر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس حملے کا نشانہ بننے والے افراد سربندر میں حجام کی دکان پرمزدوری کرتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال سے تھا


۔پولیس حکام کے مطابق اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے گوادر میں سات افراد کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کا یہ واقعہ ملک دشمنوں کا بزدلانہ فعل ہے،‘ ساتھ ہی انہوں نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عزم کا بھی اظہار کیا۔انھوں نے بتایا کہ اس بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا، جنھیں کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔


پولیس کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ساڑھے تین بجے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے سربندر میں فش ہاربر جیٹی کے قریب ایک رہائشی کوارٹر پر حملہ کیا، جہاں آٹھ افراد سو رہے تھے جن میں سے سات افراد جان سے چلے گئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔ گوادر پولیس کے مطابق لاشوں اور زخمی کو گوادر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس حملے کا نشانہ بننے والے افراد سربندر میں حجام کی دکان پرمزدوری کرتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال سے تھا۔پولیس حکام کے مطابق اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے گوادر میں سات افراد کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کا یہ واقعہ ملک دشمنوں کا بزدلانہ فعل ہے،‘ ساتھ ہی انہوں نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عزم کا بھی اظہار کیا۔ علاقوں سے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد کوئٹہ سے تفتان جانے کے لیے مسافر بس میں بیٹھے تھے۔ ایس ایس پی نوشکی نے بتایا کہ انہی شرپسندوں کی طرف سے سلطان چڑھائی کے علاقے میں ایک اور گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ گاڑی کے نہ رکنے پر شرپسندوں نے گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس کے باعث گاڑی ایک کھائی میں گر گئ اس کے بعد بس پر فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک کیا گیا


آخر خاص طور پر پنجاب کے لوگوں کو کیوں قتل کیا جاتا ہے وجوہات جاننے کے لئے کیا کسی دانشور کی ضرورت ہے-اس کا جواب بہت آسان ہے کہ مقامی لوگ جب محرومی کا حد درجہ شکار ہوتے ہیں تو وہ انتقام پر آمادہ ہوتے ہیں تو آج ہی سے مقامی نوجوانوں کو روزگار دے دیا جائے تومقامی آبادی بھی پرسکون ہو جائے گی اور پنجاب کے لوگ بھی ناحق قتل ہونے سے بچ جائیں گےپاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد سمیت کل 11 افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے۔ایس ایس پی نوشکی اللہ بخش بلوچ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ نوشکی شہر سے اندازاً چھ کلومیٹر پہلے سلطان چڑھائی کے علاقے میں پیش آیا۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک بس سے اتارنے کے بعد انھیں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے کے پہاڑی علاقے میں مسلح شرپسندوں نے کوئٹہ سے تفتان جانے والی ایک بس کو روک کر بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا، جنھیں کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا-زرا سوچیے اگر اس واقعہ کے بعد شر پسند پکڑے جاتے اور انہیں سزا ہوتی تو یہ دلخراش سانحہ کیوں پیش آتا لیکن حکومت اپاہج ہو تو امید رکھنا عبث ہے

پیر، 6 مئی، 2024

سید مصطفیٰ علی ہمدانی

 



یہ 1947ء کی بات ہے جب گھڑی کی سوئیوں کے 12 کے ہندسے پر آنے کے ساتھ کلینڈر پر تاریخ 14 اگست ہوئی تو ریڈیو پر ایک اعلان نشر ہوا، ‘السلامُ علیکم، پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، ہم لاہور سے بول رہے ہیں، 13 اور 14 اگست سنہ 47 عیسوی کی درمیانی شب ہے، 12 بجے ہیں، طلوعِ صبح آزادی۔جی ہاں ! قیامِ پاکستان کی نوید سناتی یہ آواز صدا کار مصطفٰی علی ہمدانی کی تھی۔نئی مملکت کے قیام کا اعلان سننے والے مسلمانوں‌ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ ہجرت بھی شروع ہوئی جس میں‌ لاکھوں افراد جانوں سے گئے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والے اب آل انڈیا ریڈیو کی جگہ ریڈیو پاکستان پر مزید خبریں، ترانے اور ضروری اعلانات سماعت کررہے تھے۔پاکستان کی آزادی کا ریڈیو پر اعلان کرنے والے مصطفیٰ علی ہمدانی 1969 تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور چیف اناؤنسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے لیکن    1971 میں بھارت سے غیر علانیہ جنگ کے دوران رضا ہمدانی رضاکارانہ طور پر ریڈیو پاکستان پر قوم کا جذبہ بڑھاتے رہے  لیکن پھر  سانحہ مشرقی پاکستان  ہوگیا۔

بعد میں اس وقت کے وزیراطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی کے بے حد اصرار پر انہوں نے ایک معاہدے کے تحت 1975 تک اناؤنسر کی تربیت کی ذمہ داری بھی نبھائی۔آج مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1980ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ مصطفیٰ علی ہمدانی 29 جولائی 1909ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کے گھر میں گزرا اور ایک علمی و ادبی ماحول میں رہتے ہوئے 0ان کے اندر مطالعہ اور علم و ادب کا شوق کیسے پیدا نہ ہوتا۔ 1939ء میں وہ تقسیم سے قبل لاہور ریڈیو اسٹیشن سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہوئے تھے۔مصطفٰی علی ہمدانی ہی نے لاہور اسٹیشن سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کی جانکاہ خبر بھی سنائی تھی۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لاہور اسٹیشن سے خصوصی نشریات کے دوران قوم اور سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ بڑھایا۔مصطفٰی علی ہمدانی اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھیں تلفظ اور الفاظ کی درست ادائی کے حوالے سے سند تسلیم کیا جاتا تھاواپس روانہ ہو گئے


صطفٰی ہمدانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پر اردو میں پہلا اعلان آزادی ان کی آواز میں سنا گیا۔ اس اعلان کے الفاظ یہ تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام و علیکم 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوع صبح آزادی مصطفٰی علی ہمدانی محض ایک براڈکاسٹرنہیں بلکہ ایک صحافی، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ انیس سو تیس کے اواخر عشرے میں انھوں نے لاہور سے اپنا اخبار " انقلاب " بھی نکالا تھا۔ جو تقریباً ایک عشرے تک شائع ہوتا رہا۔ سید مصطفٰی ہمدانی کے خانوادے میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق صحافت اور ادب سے رہا ہے۔ ان میں ان کے برادرِ نسبتی رضا ہمدانی، بہنوئی فارغ بخاری شامل ہیں جبکہ ان کے فرزند صفدر علی ہمدانی نے ان سے ورثہ میں نہ صرف شاعری کو پایا بلکہ صحافت اور براڈ کاسٹنگ کے میدان میں بھی سرگرمِ عمل ہیں سید مصطفٰی علی ہمدانی 29 جولائی 1909ء کو موچی دروازہ، لاہور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام جناب صفدر علی ہمدانی تھا۔ مصطفٰی ہمدانی کے دادا ایران کے شہر ہمدان سے ہجرت کر کے کوئٹہ میں آباد ہوئے تھے۔  

  کوئٹہ کے قیامت خیز 1935 زلزلے کے بعد اس خاندان میں سے کچھ گھر انے پشاور ہجرت کر گئے اور باقی لاہور آ کر آباد ہوئے مصطفٰی   ہمدانی کے گھر میں شروع سے فارسی بولنے کا رواج تھا۔ مصطفٰی علی ہمدانی نے تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کرنے کے بعد اورینٹیل کالج سے اورینٹیل لینگویجیز میں گریجویشن کی ( جو لسان شرقیہ میں مہارت کہلاتی تھی)۔ لسان فہمی کا یہ عالم تھا کہ بشمول انگلش ،اردو، عربی اور فارسی کے وہ سات زبانوں میں مہارت رکھتے تھے ۔ناصر قریشی نے اسی کتاب ‘‘یادوں کے پھول‘‘ کے ایک اور باب میں لکھا ہے‘‘1938ء کی بات ہے کہ ہمدانی صاحب نے کسی تقریر کے سلسلے میں ریڈیو لاہور پر نظرکرم کی اسٹیشن ڈائریکٹر نے ان کی آواز سن کر ماہرانہ مگر عاجزانہ انداز میں عرض کیا ’’جناب آپ کی آواز تو بنی ہی ریڈیو کے لیے ہے ‘‘ چنانچہ اگلے سال موصوف ریڈیو میں بطور اناؤنسر رکھ لیے گئے۔ 1938 میں انھوں نے اس وقت کے آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اسٹیشن سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ 1938 سے 1969 تک مسلسل مائیکروفون کے ذریعے کروڑوں عوام کے دلوں سے رابطہ رکھنے والے مصطفٰی علی ہمٰدانی 1969 میں ریڈیو پاکستان، لاہور سے چیف اناؤنسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ تاہم 1971 کی پاک بھارت جنگ میں جذبہ حب الوطنی نے گھر نہ بیٹھنے دیا اور وہ رضاکارانہ طور پر مائیکروفون پر آ گئے۔

 بعد ازاں اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات اور ان کے بے حد مداح مولانا کوثر نیازی کے بے حد اصرار پر وہ ایک معاہدے کے تحت 1975 تک اناؤنسرز کی تربیت کاکام کرتے رہے ۔مصطفٰی ہمدانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پر اردو میں پہلا اعلان آزادی ان کی آواز میں سنا گیا۔ اس اعلان کے الفاظ یہ تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام و علیکم 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوع صبح آزادی -مصطفٰی علی ہمدانی محض ایک براڈکاسٹرنہیں بلکہ ایک صحافی، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ انیس سو تیس کے اواخر عشرے میں انھوں نے لاہور سے اپنا اخبار " انقلاب " بھی نکالا تھا۔ جو تقریباً ایک عشرے تک شائع ہوتا رہا۔ سید مصطفٰی ہمدانی کے خانوادے میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق صحافت اور ادب سے رہا ہے۔ ان میں ان کے برادرِ نسبتی رضا ہمدانی، بہنوئی فارغ بخاری شامل ہیں جبکہ ان کے فرزند صفدر علی ہمدانی نے ان سے ورثہ میں نہ صرف شاعری کو پایا بلکہ صحافت اور براڈ کاسٹنگ کے میدان میں بھی سرگرمِ عمل  ہیں ۔


جمعہ، 3 مئی، 2024

ہاں! میں موچی کا بیٹا ہوں


ابراہام لنکن نے 1861 ءمیں امریکہ کے  صدر کا عہدہ سنبھا لا   تو اس وقت امریکی سینیٹ میں  معاشرے کے امراء  تاجر ، صنعتکاراور سرمایہ دار سینٹ پر قابض تھے  ، جوسینیٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی  ہر ممکن  حفاظت  کرتے تھے۔ ابراہام لنکن نے  صدر بنتے ہی    امریکہ  سے غلامی کا خاتمہ کر دیا، اس نے ایک حکم نامے کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کر کے فوج میں شامل کر لیا، امریکی اشرافیہ ابراہام لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھی، چنانچہ یہ لوگ ابراہام لنکن کے خلاف ہو گئے، یہ ابراہام لنکن کی شہرت کو بھی نقصان پہنچاتے تھے اور اس کی کردار کشی کا بھی کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے۔ سینیٹ کے اجلاس میں عموماً ابراہام لنکن کا مذاق اڑاتے تھے لیکن وہ کبھی اس مذاق پر دکھی نہیں ہوا، ہمیشہ کہتا تھا میرے جیسے شخص کا امریکہ کا صدر بن جانا ان تمام لوگوں کے ہزاروں لاکھوں اعتراضات کا جواب ہے، اس لیے مجھے جواب دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ابراہام لنکن کس قدر مضبوط اعصاب اور حوصلے کا مالک تھا۔ اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے لگا لیجئے۔ یہ اپنے پہلے صدارتی خطاب کے لئے سینیٹ میں داخل ہوا، صدر کے لئے مخصوص نشست کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ”لنکن صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا کہ ”تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا“۔ 

یہ فقرہ سن کر پورے سینیٹ نے قہقہ لگایا۔‎لنکن مسکرایا اور سیدھا ڈائس پر چلا گیا اور اس رئیس سینیٹر سے مخاطب ہو کر بولا ۔‎”سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراءکے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا۔ میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تے بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا، کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے“ ۔‎ابراہام لنکن تقریر ختم کرکے صدارت کی کرسی پر بیٹھ گیا، پورے ہال کو سانپ سونگھ گیا، ابراہام لنکن پر فقرہ کسنے والے سینیٹر نے شرمندگی کے عالم میں سر جھکایا، اس کے بعد کسی امریکی سیاستدان نے ابراہام لنکن کو موچی کا بیٹا نہیں کہا۔


امریکی تاریخ کے عظیم ترین صدر کا اعزاز اکثر ابراہم لنکن کو دیا جاتا ہے۔ریاستہائے متحدہ امریکا کے پہلے سیاہ فام اور سولہویں صدر’ابراہم لنکن‘ کی شخصیت ویسے تو کسی تعارف کی محتاج نہیں کیوںکہ ان کی محنت اورجدوجہد سے بھرپور زندگی ایک ایسا دور تھا، جسے ان کے رخصت ہوجانے کے اتنے عرصے بعد بھی دنیا بھرمیں مقبولیت حاصل ہے۔انھوں نے امریکا میں سیاہ فام افراد کی آزادی کے معاملے پر ہونے والی خانہ جنگی میں کامیابی حاصل کی اور ملک کو ٹوٹنے سے بچایا۔ مگر اتنے بڑے صدر کا بچپن شدید غربت میں گذرا۔ لنکن کے والد ایک چھوٹے کاشتکار تھے۔ ان کے پاس ریاست کنٹکی میں تھوڑی زمین تھی جہاں پر وہ اپنا فارم چلاتے تھے۔ لنکن جب دو سال کے تھے تو ان کے والد اپنی زمین کے حوالے سے ایک مقدمہ ہار گئے اور ان کے پاس یہ فارم بھی نہ رہا۔ لنکن فیملی اس موقعے پر ریاست انڈیانا منتقل ہو گئی۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد نے سرکاری زمین پر لکڑی کا  ایک غیر قانونی کیبن بنایا اور اسی گھر میں لنکن بڑے ہوئے۔ ابراہم لنکن زندگی میں صرف ایک سال ہی اسکول گئے  کینونکہ ان کے غریب  والدین کی اسطاعت نہیں تھی کہ وہ لنکن کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے اور ان     کی تمام  تعلیم ان کی سوتیلی ماں سارہ جانسٹن کے ہاتھوں ہوئی  حالانکہ ان کے والد نے کئے پیشے اختیار کئے لیکن ان کو کامیابی  اپنے ہی جیسے لوگوں کے جوتوں کی  مرمت میں ملی -انھوں نے دوسروں کی زرعی زمین پربھی کام کیا ، جولاہے کے پاس بھی کام کیا، اور جوتے کی مرمّت کرنا بھی سیکھا اور پھر لوگوں کے جوتے سیتے اور مرمت کر کے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ اپنے محنتی باپ کی اسی جانفشانی نےابراہم لنکن کو زندگی کو شان سے جینے کا قرینہ سکھایا۔ اور بلآخر امریکی صدارت کی کرسی تک پہنچے

‎ابراہام لنکن نے اپنے بیٹے کے استاد کو ایک شہرہ آفاق خط لکھا، جو پاکستان کے تمام والدین کو ضرور پڑھنا چاہئے۔اس نے لکھا:‎”میرے بیٹے کو وہ طاقت عطا کرنے کی کوشش کیجئے کہ یہ ہر شخص کی بات سنے لیکن یہ بھی بتائیے کہ جو کچھ سنے اسے سچ کی کسوٹی پر پرکھے اور درست ہو تو عمل کرے۔‎اسے دوستوں کے لیے قربانی دینا سکھائیے۔‎اسے بتائیے کہ، اداسی میں کیسے مسکرایا جاتا ہے، ‎اسے بتائیے کہ آنسوؤں میں کوئی شرم نہیں۔‎  اسے سمجھائیے کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو خاطر میں مت لائے۔ خوشامد اور بہت زیادہ مٹھاس سے ہوشیار ر۔‎اسے سکھائیے کہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا بہترین معاوضہ وصول کرے لیکن کبھی بھی اپنی روح اور دل کو بیچنے کی کوشش نہ کرے۔ ‎اسے بتائیے کہ شور مچاتے ہوئے ہجوم کی باتوں پر کان نہ دھرے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے تو اپنی جگہ پر مظبو طی سے قائم رہے قانون کی حکمرانی، غلامی کا خاتمہ یا پھر امریکا کے عام افراد کی زندگی سہل اورآسان بنانے کے حوالے سے ابراہم لنکن کا نام سنہری حرف میں یاد رکھا جائے گا۔

آپ اس کے استاد ہیں اس سے شفقت سے پیش آئیے مگر پیار اور دلاسہ مت دیجئے، ‎کیونکہ یاد رکھیئے، خام لوہے کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی فولاد بنایا کرتی ہے۔‎اسے سیکھنا ہو گا کہ ہر شخص کھرا نہیں ہوتا۔ لیکن اسے یہ بھی بتائیے کہ ہر غنڈے کے مقابلے میں ایک ہیرو بھی ہوا کرتا ہے۔ ہر خود غرض سیاستدان کے مقابلے میں ایک دوست بھی ہوا کرتا ہے۔‎آپ اسے  ضرور بتائے کہ حسد سے دور   رہنا کتنا بڑا مرتبہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کر سکیں تو اسے خاموش قہقہوں کے راز کے بارے میں بھی بتائیے۔‎اسے یہ سیکھ لینا چاہئے کہ بدمعاشوں کا مقابلہ کرنا سب سے آسان کام ہوا کرتا ہے۔   ‎اگر آپ بتا سکیں تو اسے کتابوں کے سحر کے بارے  ، لیکن اسے اتنا وقت ضرور دیجئے کہ وہ آسمانوں پر اڑنے والے پرندوں کے دائمی راز، شہد کی مکھیوں کے سورج سے تعلق اور پہاڑوں سے پھوٹنے والے پھولوں پر بھی غور کر سکے۔‎اسے بتائیے کہ اسکول میں نقل کر کے پاس ہونے سے فیل ہو جانا زیادہ ۔‎ابراہم لنکن کی موت کے بارے میں لکھئےاسے بتائیے کہ جب سب کہتے بھی رہیں کہ وہ غلط ہے تو اپنے خیالات پر پختہ یقین رکھے۔“لیکن آخر کار اتنے اچھے انسان کو ایک جنونی نے اس وقت مار ڈالا جب وہ تھیٹر میں ایک فلم دیکھ رہے تھے

 

جمعرات، 2 مئی، 2024

پیار کا وعدہ 'ففٹی'ففٹی افسانہ پارٹ 3


،سارا سارا دن چارپائ پر پڑے پڑے روٹیاں توڑتا رہتا ہے یا نشے میں دھت پڑا رہتا ہے ،اس سے تو اچھا ہے میں خود گھروں میں کام کاج کر کے دوروٹی کھا لوں گی شنّو کی بات بہت غور سے سن کر  راحیل نا شتہ ختم کر کے آفس چلاگیا ,,,,اور پھر ایک دن وہ انیتا سے چھپا کر بازار سے شنّو کی گھڑی لے کرآیا اور پھر گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ انیتا گھر پر نہیں ہے اور شنّوکیلی ہی کام کر رہی ہے ،،تو وہ گھر آگیا اور آتے ہی اس نے شنّو کو گھڑی نکال کر دی تو وہ خوشی سے کھل اٹھی اور اس نےگھڑی دیکھ کرکہا ہائے ربّا-میں تو خواب میں بھی ایسی گھڑی نہیں خرید سکتی تھی پھر اس نے شنّو سےکہا بھاگ کر یہ گھڑی کواٹر مین چھپا کر آجاؤ بیگم صاحب کو پتا نا چلے اورشنّو چھلاوے کی مانند گھڑی رکھ کر پھر اس کے حضور حاضر تھی -ارے شنّو تو نے مجھ سے پوچھا نہیں ،کھانا چائے شربت ،راحیل نے شوخی سےکہا تو بولی ارے معاف کرنا صاب جی ،،بتادو کی لاواں چاء-  شربت،کھانا شانا-راحیل نے اس کے جواب میں کہا  کچھ نہیں صرف دو گلاس شربت لے آؤ ،اور شنّو نے پھر ٹوکا 'ناں صاب جی ،دو گلاس مت پینا میں تو صرف ایک گلاس ہی لاواں گی اور راحیل نے اس سے کہا ،دو ہی گلاسلانا ایک تیرا ایک میرا ،شنّو شربت سے بھرے گلاس لے کر آگئ اور راحیل کےقریب ہی زمین پربیٹھنے لگی تو اس نے کہا

و وہاں نہیں یہاں بیٹھو اس نےاپنے روبرو کرسی کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا تو   شنّو کچھ جھجھکتی ہوئ اس کے ربرو کرسی پر بیٹھ گئ,,,,راحیل کو اب ایو  گونہ تو اطمینان ہو گیا تھا کہ شنّو کی کہیں بات نہیں ہوئ ہئے اس لئے اس نے   منصوبہ بندی شروع کر دی تھی,,,,ابھی ان دونو ں نے شربت پینا شروع بھی نہیں کیاتھا کہ انیتا گھر واپس آگئ اور دروازے پر بیل ہوتے ہی شنّو نے اپنا شربت کابھرا گلاس بھاگ کربرتن دھونے والے سنک میں الٹ دیا اور پھر دروازہ کھولنےگئ،اس بیچ راحیل اٹھ کر اپنے کمرے میں جا چکاتھا ،انیتا نے شنّو سے کہا تیری نانی کہاں ہے-ایک تو انیتا کو راحیل کی گاڑی بے وقت کھڑی ملی اور اس پرسے گھر میں شنّو بھی اکیلی ہی ملی تو پھر اس کا غصّہ ابال کھا گیا ،،تیری نانی کہاں ہے وہ پھنکاری ،بیگم صاب اسے تو رات ہیضہ ہو گیاتھا ابھی بھی وہ کمزوری میں غش کھائ پڑی ہئے ،تم کہوتومیں واپس چلی جاؤں ،،اور انیتا نےپھر اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے کہا چل جا میرا دماغ مت کھا اور میرےلئے چائے بنا کر لا سر درد سے پھٹا جارہا ہے ,,

,راحیل سے الجھنا انیتانے بہتر نہیں جانا اس لئے خاموش ہوگئ ،اور راحیل نے اب یہ دستور ہی بنالیا کہ وہ گھر پر فون کر کے انیتا کی مصروفیات کا اندازہ لگا لیتا اوراسی حساب سے اس طرح گھر آجاتا جس مین اس کو شنّو سے تنہائ میں کچھ وقت ملاقاتک کا مل جاتھا ،اس طرح انیتا راحیل سے دور ہونے لگی اور شنّو اس سے قریب ہونے لگی ایسے میں ایک دن راحیل کچھ دوپہر کے بعد گھر لوٹ آیا شنّو کام کر کےواپس کواٹر جاچکی تھی ،اس نے کواٹر کی بیل کی تو اس کی نانی اپنی چندھیائ ہوئ آنکھوں کو اوڑھنی کے پلّو سے صاف کرتی ہوئ دروازے پر آئ نانی کو دیکھتے ہی راحیل نے کہاوہ زرا شنّو کو بھیج دیں کام ہے،اور کہ کر واپس بنگلے میں آگیا اورشنّو کچھ ہی دیر میں اس کے پاس آ گئ،، کی گل ائے صاب جی شنّو نےادائے بے نیازی سے اس سے پو چھا ،میرے کپڑے الماری سے لے کر استری کر دو اس نےبہانہ بنایا ،تو شنّو بولی صاب جی کل ہی تو سارے کپڑے استری کر کے ٹانگے ہیں،ٹھیک ہئے لیکن مجھے تو جو دوسرے کپڑے پہننے ہیں وہ استری کے بغیر ہیں ،

راحیل نےاس کو جواب دیا تو وہ کہنے لگی چلو بتادو کون سے پہننے ہیں وہی استری کر دوں-پھر راحیل اس کے ساتھ کمرے میں آگیا شنّو اب کھلی الماری کے دونوں پٹوں کےدرمیان کھڑی کپڑے دیکھ رہی تھی کہ راحیل نے اس قریب پہنچ کر اس کے نکلنے کاراستہ  مسدود کر دیا اور شنّو موقع کی نزاکت دیکھ کر رونے لگی ،صاب جی میری چنری کو داغ مت لگا نا-میری ماں نے نانی کے بھروسے پر تمھارے گھر بھیجا اگر مجھے کچھ ہوا تو میری ماں مجھ سے پہلے جیتے جی مر جائے گی ،شنو نے فریاد کی شکل میں رونا جو شروع کیاتو راحیل نے بھی بہت محبّت کے ساتھ اس سے کہا میں بازاری آدمی نہیں ہوں،میں تیرے بھروسے کا مان نہیں توڑوں گا ،پر تجھ کو اپنی دلہن ضرور بناؤںگا ،تجھے اپنے پیار کا دوشالہ اڑھاؤں گا ،میں تو تجھے تیرے کپڑے دکھانےلایا ہوں الماری کے اندر دیکھ تو سہی ،،شنّو روتے بولی صاب جی ہم کمّی کمین لوگ تمھارے قابل کہاں دیکھو تمھاری بیگم کتنی حسین ہیں اور میں چمارن ،شنّوبس کر راحیل نے اسے جواب دیا اور دل ہی دل میں کہنے لگا تو ،تو میرےلیئے حسینہء عالم ہے تجھے کیا پتا اب مجھے ہر کام کیا کرایا مل جاتا ہے ور شنّو سسکیاں بھربھر کر راحیل کی بتائ ہوئ جگہ سے اپنے کپڑے اور گہنے پاتے نکالتی گئ لہنگا ٹیکہ جھومر کنگن اور پھر شنّو دلہن بن گئ 

،راحیل اسے لے کر ہواکے دوش پر گاڑی اڑاتامولوی کے پاس حاضر ہو ا ،،اس نےحجلہء عروسی سرو نٹ کواٹر کے ایک کمرے کو بنادیا ،،شام کو انیتا واپس آئ تو شنّو کو دیکھ کر حیرانی سے بولی یہ تو کیا دلہن بنی پھر رہی ہئے ،شنّو نے جھٹ اس کو جواب دیا ہا ں جی میں تمھارے صاحب کی دلہن ہی تو بن گئ ہوں اور انیتا ایک چیخ مار کر وہیں فرش پر گر کر بے ہوش ہو گئ ،،انیتا کے گرنے کی آواز پر راحیل دوڑا ہوا آیا اور شنّو سے بولاارے شنّو جلدی پانی لا ،،،شنّو راحیل کے بلانے پرانیتا کے پاس آئ توسہی لیکن پانی نہیں لائ بلکہ کہنے لگی صاب جی جوتی سنگھا دو ابھی ہو ش آ جائےگا ،پانی تو ایسے  میں نقصان کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی شنّو اپنے پیر کی جوتی اتار کر انیتا کو سنگھا کر ہوش میں بھی لے آئ ,,,انیتا ہوش میں آ کر مسلسل روئے جا رہی تھی ،اب چپ ہو جاؤ ،راحیل نے اسے تنبیہ ک ی تو کہنے لگی کیسے چپ ہو جاؤں تم نے میرے سینے پر سوکن بٹھا دی وہ بھی ماسی،،یہ کیسی محبّت تھی تم کو مجھ سے ،،تو راحیل نے اس سے کہا انیتا بیگم شادی عورت کی کل وقتی جاب ہوتی ہے اس جاب کا اوّلین فرض شوہر کی خدمت اور اس کا خیال ہوتا ہے جو تم کو ناگوار گزرتاتھا سو میں نے تمھاری محبّت کوبہت ہی مجبور ہو کر ففٹی،ففٹی تمھارے اور شنو کےدرمیان تقسیم کر لیا  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

عید مباہلہ -ایک عظیم الشان دن

  عید مباہلہ کی اہمیت: مباہلہ کا واقعہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے، جس میں سورہ آل عمران کی آیت 61 میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. اہل تشیع ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر