منگل، 14 نومبر، 2023

میں سہاگن بنی مگر

اللہ میاں کے دستوربھی کتنے نرالے ہیںہمارےگھر میں صرف پہلوٹھی کے بھیّا کو دینے کے بعد ہم چار بہنوں  فرحت فرحین آپی جن کو میں اور ہم سب بہنیں بڑی آپا کہتے ہیںپھر منجھلی آپا ندرت  ماہین ،ان کے بعد فریال رامین جو ہمارے لئے فریال بجّو ہیں اور ان کے بعد نرگس زرمین  آپی ہیں ،ان چاروں کو او پر تلے  امّاں کے آنگن میں بھیج دیا  ،پھر چار برس تک ان کے آنگن سوکھے دھانوں کوئ پانی ناپڑا کہ میں نصرت نگین کا نام لے کر ان کے آنگن میں اتر آئ،مجھے نہیں معلوم کہ امّاں لڑ  کیوں سے بیزاری کے سبب اتنی تلخ زبان  رکھتی تھیں  یا ان کا مزاج ہی ایسا تھا ،لیکن ابّا بہت مشفق و مہربان تھے ،امّاں عام بات بھی کرتی تھیں تو ہم بہنوں  کو ان کا حکم ہی لگتا تھا ،ابّا  کبھی کبھی کہتے ارے نیک بخت ان کے ساتھ اتنی سختی نا برتو ,,یہ توہما رے آنگن کی چڑیاں ہیں ،دیکھ لینا ایک دن ہمارا آنگن ان کے بنا سائیں سائیں کرتا ہو گا اور امّاں ابّا سے کہتی تھیں تم بلاوجہ ان کے دماغ مت خراب کیا کرو ،آخر ان کو دوسرا گھر اپنا پتّہ  مار کر سنبھانا ہے ابھی سے عادت نہیں ڈالی جائے تو لڑکی نخرے دار اٹھتی ہمیری  سمجھ میں امّاں کی باتیں ہرگز نہیں آتی تھیں ناجانے ابّا سمجھتے تھے کہ نہیں پھر وہ امّاں سے کچھ بولتے نہیں تھے اور امّا ں کے دل شکن نعروں کی گونج میں جب میں کچھ کچھ بڑی ہوئ تو گھر سے بڑی آپا کی رخصت کی گھڑی آ گئ تھی بڑی آپا  ہما رے تایا ابّا کے گھر بچپن کی مانگ تھیں مجھے یاد ہے وداعی والے دن بڑی آپا جب بیوٹی پالر جانے کے لئے گھر سے لگیں تو اچانک ہی گھر کے دروازے سے لپٹ  کر دھا ڑیں مار کر رونے لگیں ،ایسے میں امّا ں بوتل کے جن کی طرح گھر کے کسی کونے سے  برآمد ہو ئیں اور بڑی آپا سےکہنے لگیں بند کرو یہ بین اور جاکر گاڑی میں بیٹھو  اور ہم بہنیں حیران ہو کر امّاں کو دیکھنے لگے

میں نے سو چا کم از کم آ ج کے دن تو امّاں کو بڑی آپا کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہئے ،،مگر امّا ں تو امّاں تھین جو اپنے ماں ہونے کےفلسفے کے بنیادی اصول اچھّی طرح جانتی تھیں بڑی آپا  گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے نا طے بہت زمّہ دار تھیں لیکن مزاج کی  بے حد شرمیلی  اور کم گو بھی تھیں وداعی والے د  دلہن بننے کے بعد وہ میک اپ کے خراب ہونے کی پرواہ کئے بغیر چپکے چپکے گھونگھٹ کی اوٹ میں روئے جا رہی تھیں اور رخصتی کے وقت ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور دھاڑیں مار کر روئیں تو ہم سب بہنیں بھی بے حد رو ئے تھے ،لیکن حیرت کی بات تھی کہ جب آ پا اگلے دن اپنی سسرال سے ہمارے گھر طلال بھائ کے ساتھ  آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں میں بڑی آپا کو حیران ہو کر دیکھ رہی تھی اور پوچھنا بھی چاہ رہی تھی کہ اب وہ رو کیوں نہیں رہی ہیں کہ اچانک میری نظر ا نکی  مہندی لگے ہاتھوں کی کلایوّں پر گئ جہاں امّاں کی پہنائ ہوئ   سہاگ کی ہری اور لال کانچ کی  کھنکتی ہوئ چوڑیوں کے ہمراہ سو نے کے خوبصورت جڑاؤ کنگن  نظر آرہے تھے میں بڑی  آپا سےاو ر سب پوچھنا  بھول گئ ،میں نے ان کے مہندی رچے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا ،بڑی آپا یہ سونے کے کنگن کل تو آپ کے  ہاتھ میں نہیں تھے ،میری بات پر بڑی آپا کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا اور انہوں نے حیا بار نظریں جھکا کر کہا یہ تمھارے طلال بھائ نے منہ دکھائ میں پہنائے ہیں ہماری تائ امّی کی پوری فیمیلی بہت نیک تھی اور بڑی آپا  بڑی جلدی  اپنی سسرال میں رچ بس گئیں

اب میں نے دیکھا منجھلی آپا ہر وقت امّاں کے نشانے پر رہتی تھیں ،اور بس امّاں کی زبان پر ایک جملہ ہوتا پرائے گھر جانا ہے اپنی  عادتیں سدھار لو ،منجھلی آپا بھی اپنی جگہ اچھّی تھیں لیکن ان کی زبان پر امّاں کی بات کا ہر جواب موجود ہوتا تھا جس سے امّا ں بہت ناراض ہوتی تھیں اور منجھلی آپا کو صبر کی تلقین کا سبق بھی پڑھاتی رہتی تھیں اور بالآخر بڑی آپا کے دو برس بعد منجھلی آ پا بھی گھر سے رخصت ہو کر سدھار گئیں ،مہندی مایوں سے لے کر رخصت کی گھڑی تک منجھلی آپاکی آنکھو ں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی  مین نے نہیں دیکھا ،ناجا نے ان کو کیا ہو گیا تھا ،ان کے دلہناپے کو سکوت ساتھا اور وہ اسی طرح ساکت ہی رخصت ہو گئیں لیکن میرے لئے اچنبھے کی بات تھی کہ اگلے دن منجھلی آپا  کوسسرال جاکر بھیّاانہیں  لے آئے تھے انکے ساتھ ان کے دولہا رفاقت بھائ بھی نہیں آئے تھے ان کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن بھی نہیں تھے اور وہ بڑی آپا کی طرح خوش بھی نہیں تھیں بلکہ  آنسو انکی آنکھوں میں چھلکے چھلکے آرہے چھلکے چھلکے آرہے تھے امّا ں بیٹی  کے پر ملال چہرے پر نظر ڈال کر کچھ چونکیں تو  ضرور تھیں لیکن انہوں نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا نا ہی کچھ پوچھ کر ان کو کچھ بول نے کا حوصلہ دیاتھااور پھر شادی کے صرف چند روز بعد منجھلی آپا امّاں کے سامنے بیٹھی رو رو کر کہ رہی تھیں امّا ں آپ نے مجھ کو یہ کیسی سسرال بھیج دیا جس کو گھر نہیں جہنّم کہنا زیادہ بہتر ہے- اور شوہر ایسا ہے جو اپنی امّاں کے پلّو سے بندھا پھرتا ہے جو بات کرو امّاں سے  پوچھ لو ،جو کام کہو امّاں راضی نہیں ہو ں گی ,,جب اسے اپنی امّاں کے پہلو سے لگ کر بیٹھنا اتنا ہی پسند تھا تو پھر شادی کی کیا ضرورت تھی ،

 منجھلی آپا  امّاں کو رو رو کر بتاتی رہیں کہ ان کی ساس ان سے کس طرح گھر کے سارے کام کرواتی ہیں اور کھانا پکا کر سب سے آخر میں کھانا کھانے دستر خوان پر بیٹھتی ہیں تب ان کی ساس  منجھلی آپا کے کھانا کھائے بغیر ہی دستر خوان سمیٹ دیتی ہیں اور بڑی دو بہوؤں کے مقابلے میں ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ،منجھلی آپا نے یہ بھی بتایا کہ ان کو طبیعت کی خرابی میں بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہے ،اور رفاقت کا کہتے ہیں کہ ہماری ماں کے حکم کے مطابق ہی گھر چل رہا ہے اب اگر تم کو کوئ اعتراض ہے تو تم میکے جا سکتی ہو -  اب امّاں نے دھیرے دھیرے بولنا شروع کیا دیکھ منجھلی ہر لڑکی انہی حالات سے گزرتی ہے تب جا کر گھر بنتا ہے -امّا ں ہمارا کمرہ اوپر ہے رفاقت دفتر سے آ کر سیدھے اپنی امّاں کے کمرے میں جاتےہیں -ٹھیک ہے امّاں مجھے کوئ حق نہیں کہ میں ان کو منع کروں لیکن جب امّاں کے کمرے سے باہر نکلتے ہیں تو من بھر کا سوجا ہوا چہرہ لے کر نکلتے ہیں اور پھر اوپر جا کرمجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے ہیں میں سارا دن نیچے رہتی ہوں ساس کا حکم ہے کہ دن میں نیچے رہوں اور سارا دن نیچے رہ کر سارے گھر کی خدمت کر کے یہ صلہ ملتا ہے کہ شوہر سیدھے منہ بات نہیں کرتا ہے -منجھلی صبر بھی تجھی کو کرنا ہے خدمت  بھی تجھی کو کرنا ہے اور یہ کہہ کر امّاں منجھلی آپا کے پاس سے بیٹھک میں چلی گئیں 

جاری ہے

اسموگ -خود بلایا ہوا عذاب

 


پاکستان میں سردیوں کا موسم شروع ہونے پرایک مدھم 'مدھم گنگناتا خوشگوار موسم جو شروع ہوتا تھا اب وہ خوشگوار تو کجا  ایک خوف کی علامت بن کر آتا ہے-لاہور جیسے بحر زخّار شہر میں چہار جانب اسموگ اتر آتی ہے اور اتنی شدید کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا ہے-اللہ پاک نے جو بھی موسم پیدا فرمائے ہیں سب میں اللہ جل شانہ  کی بے شمار حکمتیں  موجود ہیں ۔موسم سرما بھی ،دیگر موسموں کی طرح اللہ پاک کی ایک نعمت ہے۔ یہ موسم عبادت کا موسم کہلاتا ہے کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ ے نے ارشاد فرمایا :سردی کا موسم مومن کے لیے موسم بہار ہے اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو مومن ان میں روزہ رکھتے ہیں اور راتیں لمبی ہوتی ہیں تو راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب سردی کا موسم آتا تو فرماتے:سردی کو خوش آمدید ،اس میں اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں شب بیداری کرنے والے کےلیے اس کی راتیں لمبی اور روزہ دار کے لیے اسکا دن چھوٹا ہوتا ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت ِ  علی علیہ السّلام  نے فرمایا:’’سردی کا موسم تہجد گزاروں کے لئے  رب کا انعام  ہے ۔مگر پچھلے چند برسوں سے پاکستان کے کچھ شہروں میں  سموگ نے اس خوش گوار تبدیلی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ چند سالوں سے اکتوبر کے آخر دنوں سے سموگ کا آغاز ہوتا ہے جو نومبر کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔اگر نومبر کے مہینے میں بارش ہو جائے تو سموگ جلد ختم ہو جاتی ہے، لیکن بارش نہ ہونے کی صورت میں اس کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش کا نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے اور بارشوں کے دورانیے میں شدید کمی واقع ہوئی ہے، جس سے سموگ کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔جنوب ایشائی ممالک کو سموگ نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ان ممالک کے کچھ شہروں کو سموگ ہر سال بری طرح متاثر کرتی ہے۔ لاہور، بیجنگ، اور دہلی کا شمار ان شہروں میں کیا جاتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں لوگ سموگ کی وجہ سے طبی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

سموگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر ملک اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی ادارہ صحت بھی کوشش کر رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں ستر لاکھ لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سموگ ماحولیاتی آلودگی کا  نام ہے، جس سےنجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کا تعین کیا جائے۔ وجوہات کے تعین کے بعد اس مسئلے سے چھٹکارا پانا آسان ہو جائے گا۔اور یوں  اس فضائ بیماری کا علاج ممکن ہو سکے گا-محکمہ زراعت کی جانب سے شائع کیے گئے تشہیری مواد میں بھی کسانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ گاڑیوں کی ریل پیل، کارخانوں سے پیدا شدہ دھوئیں، اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھنے والے گرد و غبار اور فصلوں کی باقیات  کو جلانے کی وجہ سے پیدا ہونے والا دھواں سموگ کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ لیکن اسی تشہیری مواد میں اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا بھی بار بار ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں زراعت کے شعبے کا سموگ کے بننے میں حصہ محض 20 فی صد ہے جبکہ اس میں صنعتی شعبے کا حصہ 25 فی صد اور ٹرانسپورٹ کا حصہ 45 فی صد ہے۔یہ   تشہیری مہم اپنی جگہ ٹھیک لیکن  سب سے بڑی اور اہم وجہ  تو یہ ہے کہ 9 نومبر تک وسطی پنجاب کے مختلف ضلعوں سے سرکاری طور پر 3297 ایسے واقعات کی نشاندہی ہو چکی تھی جن میں کسانوں نے چاول کی باقیات سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے کھیتوں میں آگ لگائی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ واقعات کی سرے سے نشاندہی ہی نہیں ہوئی۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زراعت کے پروفیسر ڈاکٹر راشد احمد کا کہنا ہے کہ ایف اے او کی جس رپورٹ کو بنیاد بنا کر محکمہِ زراعت سموگ کا الزام دوسرے شعبہ ہائ زندگی پر منتقل کررہا ہے اس کا طریقہِ کار ہی غیر سائنسی ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'اس طرح سے آلودگی کے بننے میں مختلف انسانی سرگرمیوں کا تناسب نکالنا اور پھر اس تناسب کو بنیاد بنا کر آلودگی کی روک تھام کے لیے پالیسیاں بنانا کوئی سائنسی نقطہِ نظر نہیں' فصلوں کی باقیات کو جلانا-پاکستان میں فصلیں اگانے کے لیے آج بھی قدیم طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ قدیم طریقے استعمال کرنے کی وجہ سے نہ صرف فصل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔موسمِ گرما میں پنجاب کے زیادہ تر اضلاع میں چاول کی فصل کی کاشت کی جاتی ہے جو کہ اکتوبر کے مہینے میں پک جاتی ہے۔ چاولوں کی فصل کی کٹائی اکتوبر میں شروع ہوتی ہے اور نومبر تک جاری رہتی ہے۔ اس فصل کی کٹائی کے بعد کھیتوں میں بہت زیادہ باقیات بچ جاتی ہیں۔جب تک ان باقیات کو تلف نہ کر لیا جائے، اگلی فصل کاشت نہیں کی جا سکتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کچرا کو ختم کرنے کے لیے جدید مشینری استعمال کی جاتی ہے جو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔ اس کے برعکس وطن عزیز میں اس کچرا کو ختم کرنے کے لیے آگ لگائی جاتی ہے۔بڑے پیمانے پران باقیات کو جلانے کی وجہ سے دھواں بہت زیادہ فضا میں پھیل جاتا ہے۔ جس سے سموگ کا ماحولیاتی مسئلہ وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

شہر میں فضائ آلود  گی کی بہت بڑی وجہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیاں -پاکستان میں ایسی گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو بہت زیادہ مقدار میں دھواں خارج کرتی ہیں۔ دھوئیں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔بارشوں میں کمی اور دھواں خارج کرتی گاڑیوں کی وجہ سے سموگ ہر سال شدت اختیار کرتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے احکامات جاری کیے ہیں کہ ان گاڑیوں پر جلد از جلد پابندی لگائی جائے تا کہ فضا میں دھواں نہ پھیلے اور سموگ کی شدت اختیار نہ کرے۔ان وجوہات کی وجہ سے سموگ ہر سال شدت اختیار کر جاتی ہے- جنگلات کا کٹاؤ۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں جنگلات کو تیزی سے کاٹا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں پہلے ہی جنگلات بہت تھوڑے رقبے پر اگائے گئے تھے، مگر اب درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ماحول پر بہت برا اثر ظاہر ہو رہا ہے۔جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے بارشیں کم ہو رہی ہیں اور گرمی کی شدت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں بارشیں کم یا نہ ہونے کی وجہ سے سموگ کا مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔ اس لیے اب بین الاقوامی تنظیمیں آواز بلند کر رہی ہیں کہ جنگلات کی حفاظت کے لیے حکومتوں کو اقدامات اٹھانے چاہیں تا کہ سموگ جیسے ماحولیاتی مسائل سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔اس میں عام آدمی بھی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے کہ زیادہ زیادہ درخت لگائے ۔

ان کے مطابق اس سوال کو پیشِ نطر رکھنا اہم ہے کہ ٹرانسپورٹ، صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے سارا سال دھوئیں کا اخراج ہوتا رہتا ہے لیکن سموگ کی تہہ آخر ایک خاص موسم میں ہی کیوں بنتی ہے؟  'اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے بننے کے لیے ماحول میں بہت زیادہ گرد و غبار موجود ہونا لازمی ہے'۔گرد و غبار ویسے تو فضا میں سارا سال موجود رہتا ہے لیکن چاول کی باقیات کو جلائے جانے سے اس میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ 'آلودہ دھواں گرم ہونے کی وجہ سے ہوا سے ہلکا ہوتا ہے اس لئے وہ عام حالات میں  بالائی فضا میں چلا جاتا ہے لیکن جب ہوا میں موجود دھول اور گردوغبار کی تہہ موٹی ہوتی ہے تو یہ دھواں زمین کی سطح سے زیادہ اوپر نہیں جا پاتا اور سموگ کی شکل میں ہمارے ارد گرد کی فضا میں ہی ٹھہر جاتا ہے'۔ 'ان میں فصلوں کا جلایا جانا یقینی طور پر ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے'۔اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایک تحقیق سامنے آئ ہے  نئ تحقیق کے مطابق ہے  چاول کی فصل کے ایک ہزار کلو گرام باقیات جلانے سے تین کلو کثیف دھواں، 60 کلو کاربن مانو آکسائیڈ، 1460 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ، 199 کلو راکھ اور دو کلو سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی چیزیں پیدا ہوتی ہے جو خاص طور پر آنکھوں اور جلد کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔اس حساب کتاب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر یہ فرض کیا جائے کہ ایک ایکڑ چاول کی فصل سے پانچ سو کلو گرام باقیات پیدا ہوتی ہیں تو اس کا مطلب ہے پنجاب میں چاول کے مجموعی طور پر زیرِ کاشت رقبے – چھیالیس لاکھ ایکڑ – سے دو ارب 30 کروڑ کلو گرام باقیات پیدا ہوتی ہیں جن کو جلانے سے پیدا ہونے والی راکھ ہی چار لاکھ 57 ہزار سات سو کلو گرام ہو گی جبکہ اس سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 33 لاکھ 58 ہزار کلو گرام ہو گی۔آلودگی کے ذمہ دار لوگوں کو کون پکڑے گا؟قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کی طرف سے نو نومبر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق حکومتی اہل کاروں نے فضا میں زہریلی گیسیں اور آلودہ دھواں خارج کرنے والی فیکٹریوں کو صرف 58000 روپے جرمانہ کیا تھا۔ اسی طرح  صوبے کے طول و عرض میں موجود بیسیوں ہزار چھوٹی اور بڑی فیکٹریوں میں سے صرف 487 کو آلودگی پھیلانے کی وجہ سے بند کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق ان کا دھواں سموگ کے بننے میں 25 فی صد حصہ ڈالتا ہے -سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرے ۔ سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے ۔یہ  سرمئی دھند کی تہہ کی مانند  ہوا میں جم سا جاتا ہے۔ سموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا سموگ کی وجہ بنتا ہے  ۔ ۔

پیر، 13 نومبر، 2023

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا


آج میں اپنی قلم کہانی  میں اپنی زندگی کے وہ اوّلین دن بتانے چلی ہوں جو بہت پر مشقّت تو تھے لیکن بچپن کی انوکھی آرزؤں سے معمور تھے ،پہلے یہ بتا دوں کہ میں اپنے بچپن میں ایک اچھّی طالبہ ہرگز نہیں تھی ،مجھے زندگی نے بعد مین یہ سبق پڑھایا کہ علم کے بغیر دنیا اندھیری ہے ،میرا رزلٹ گھر میں ہمیشہ تھرڈ نمبر پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے بہن بھائ اوّل اور دوئم ہوتے تھے ،لیکن پھر مجھے کچھ رعائت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں گھر کا کام سب سے زیادہ کرتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن بھائ کو بھی سنبھالتی تھی-بہر حال میرا بچپن کا ایک انتہائ شوق تھا کہ میں کسی طرح ڈھولک بجانا سیکھ جاؤں اس زمانے میں جب کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو رات کے وقت ڈھو لک کی محفل ضرور سجتی تھی اور میرے پیروں میں پہئے لگ جاتے تھے کہ کس طرح میں اس گھر میں پہنچ جاؤں جہاں ڈھولک بج رہی ہے ،مقصد واحد ہوتا تھا کہ ڈھول بجانے ولی لڑکی کی انگلیاں کس طرح چل رہی ہیں خود دیکھوں اور سیکھوں مگر یہ شوق آ ج بھی ناتمام ہی ہے

ابّا جان تو  دن کے وقت گھر سے قدم نکالنے کے ہی سخت مخالف تھے  چہ جائیکہ رات ،اور امّی جان ابّا جان کے تابع تھیں ، میری عمر یہی کوئ سات یا آٹھ برس کے دور میں تھی ایسے میں ہمارے سامنے والے محلّے کے ایک گھر سے مجھے دن کے وقت ڈھولک بجنے کی آواز آئ اور میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ابّا جان تو گھر پر نہیں ہیں مجھے اجازت دے دیجئے

بس امّی جان نے اجازت د ی اور میں نے جھٹ پٹ چھوٹے بھائ کوگود میں اٹھایا اور چند منٹ میں کلّو چھولے والے کے گھر پہنچ گئ ،میں بھائ کے بغیر گھر سے قدم نکالنے کی بھی مجاز نہیں تھی کیونکہ وہ ڈھائ برس کی جان میری واپسی تک امّی جان کا جینا حرام کردیتا ،اس وقت کلٰو چھولے والے کا گھر مجھے دور سے ہی پرستان کے شہزادے کا گھر دکھا ئ دینے لگا گھر کے اندر باہر بلاروک ٹوک آنا جانا لگا ہوا تھا مین  بھی اسی آپا دھاپی میں اندر پہنچ کر شادی کے گھر کے مناظر کے مشاہدے میں لگ گئ کچّے آنگن میں ایک طرف کوری ہانڈی میں پانی کے اندر ننھی ننھی مچھلیاں تیر رہی تھیں میں نے ہانڈی میں جھانکا اور پھر گود میں موجود بھائ کو مچھلیاں دکھائیں دوسری طرف بڑے سے تھال میں سل پر پیسی گئ کچّی مہندی بھیگی ہوئ تھی جس کی سوندھی خوشبو گلی کے اندر دور تک مہک رہی تھی اور ساتھ ہی مہکتے چنبیلی کے تیل میں ابٹن کی خوشبو بھی ملی جلی تھی

گھر کے کچّے آنگن کی ملتانی مٹّی سے شائد رات کو ہی لپائ کی گئ تھی آنگن بلکل صاف ستھرا تھااور اب اس پرگھر کی عورتیں ایک رسم  ادا کرنے جا رہی تھیں یعنی لال رنگ کے بھیگے ہوئے گیرو اور صندل کے آمیزے میں سات سہاگنوں کے ہاتھ ڈبو کر ان کو آنگن کی دیوار پر چھاپنا تھا ،بڑی بوڑھی کا سختی سے حکم تھا کہ خبر دار ہاتھ الگ الگ تھال پر نا پڑے اور ٹیڑھا میڑھا بھی نا پڑے یہ سب بد شگونیاں سہاگ بھرے بھاگ کے گھر میں بد شگونیاں مانی جاتی ہیں

،اس رسم کو پہلی دفعہ ہی دیکھنے کا میرا اتّفاق تھا گھر کی سب سے بڑی بوڑھی خاتون کو لا کر چار پائ پر بٹھا یا گیا اور گیرواور صندل کا سرخ آمیزے سے بھرا تھال ان کے آگے رکھ دیا گیا ساتھ ہی گڑ کا اور مرمروں کا بڑا سا تھا ل آیا اور پھرڈھولک کی تھاپ پر عورتوں نے کوئ اپنی دیہاتی زبان میں گیت گانا شروع کیا ساتھ ہی آوازیں بھی دی جانے لگیں اری او کہاں ہے آ ری آ ،آج ہمرے دوارے سہاگن آئ گیو رے ، عورتیں آتی گئیں ڈھول بجتی رہی اور صندل اور گیرو کے چھاپے دیوار کو سجاتے رہے-ارے کلّو چھولے والے کا تعارف تو رہ ہی گیا یہ ایک بمشکل بیس بائیس سال کا انتہائ درجے کا سانولا لیکن دلکش نقوش والا نوجوان تھا ،جو ٹھیک دس بجے دوپہر سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھ کے تیّار کئے ہوئے مزیدار چٹ پٹے چھولے کا ٹھیلا لے کر لب سڑک ہمارے گھر سے کچھ فاصلے کھڑا ہوجاتا تھا اور اس کے چھولے اتنے مذیدار ہوتے تھے کہ دوپہر کو یہ گھر واپس چلاجاتا تھا مجھے یا د ہے جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو بڑی حیرت سے دیکھتی رہی تھی سرسوں کے تیل میں چپڑا ہوا سرجس کے بال بلکل جٹ سیاہ اس پر سرسوں کے تیل کی اس کے ماتھے تک آئ ہوئ بہار، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بہتا کاجل رچا ہوا ،لیکن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ اپنے چھولوں کی دنیا میں مگن سر جھکا کے آتا اور سر جھکا کے واپس جا تا-جب اس کی شادی ہوئ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں نانی اور خالائیں اس کی شادی پر اپنے اپنے ارمان پورے کر رہی تھیں-

خیر میری دلچسپی کا ساما ن اس گھر کی رسمیں تھیں میں جن کو دل و جان سے دیکھ بھی رہی تھی اور نگاہوں کے راستے حفظ بھی کر رہی تھی-اب صاف ستھری دیوار پر سات سہاگنو ں کے چودہ ہاتھوں کے لال لال نقش لہلہا رہے تھے میں نے ان نقوش کو بار بار دیکھا ،کوئ خاص بات تو نظر نہیں آئ لیکن اب میں سوچتی ہوں شادی کے گھر میں ان معصوم لوگوں کے کتنے ہزار ارمان تو ہاتھوں کے ان نقوش میں ہی نہاں ہوتے ہوں گے-ہاتھوں کے چھاپے پورے ہو گئے اور تمام مہمانوں میں گڑ اور مرمرے تقسیم کئے گئے ،مین نے بھی وہ گڑ اور مرمرے کھائے اپنے بھائ کو بھی کھلائے سنہرا گڑ اور سفید مرمرے وہ مٹھا س آج بھی منہ میں محسوس ہورہی ہے-اگلا دن شادی کا تھا اور میری خوشی ٹھکانہ کیاتھا میں بتانے سے قاصر ہوں ایسا لگ رہا تھا کلّو چھو لے والا دنیا میں میرا سب سے بڑا عزیز تھا جس کی شادی میں شرکت مجھے بہر طور کرنی تھی ویسے بھی سارے مہاجر اس دور میں جی رہے تھے جب سب کی خوشی غمی اپنی خوشی غمی سمجھی جاتی تھی اب میرا بھائ میری گود میں کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا اس لئے میں گھر واپس آگئ-اب اگلا دن اس حسین شہزادے کی بارات کا تھا جس میں بلکل بن بلائ مہمان بن کر محلّے کے تمام بچّوں کے کی ریل پیل میں جا نے کو بے چین تھی کہ ابّا جان بے وقت گھر آگئے ،ابّا جان کو دیکھ کر میرے اوپربلاشبہ عالم نزع طاری ہوگیا   -کچھ دیر کے لئے گلے کے اندرگھگّھی سی بندھ گئ 

میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی پیا میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،ہاہاہاہاہاہاہا، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں محسوس ہوتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھے-کچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور اج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا اور دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس  کےدونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور بس بارات روانہ ہو گئ

مگر کیسے ؟

دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن ورلی گلی میں تو رہتی ہے ،ورلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی ہوں   بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آئ ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے تھےگانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسم دلہن کو ٹانگے سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئ ،اور دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا 

اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو گئ;جاری ہے


ہفتہ، 11 نومبر، 2023

ڈینگی بخار -بس مچھروں سے بچئے

     حقیقت یہ ہے کہ ڈینگی بخار کا نام سن کر ہی دل دہل جاتا ہے    یہ بیماری فلو جیسی علامات کے ساتھ تیز بخار سے ہوتی ہے۔ تاہم خون بہنے اور موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ محققین ڈینگی ویکسین پر کام کر رہے ہیں، لیکن یہ ابھی تک تیار نہیں ہے، اس لیے جن علاقوں میں یہ بیماری عام ہے، وہاں اپنے آپ کو بچانے کا بہترین طریقہ مچھروں سے بچنا ہے۔ دل کی بیماری. کیا آپ بیماری کی عام علامات سے واقف ہیں؟ لیکن کسی کو کیسے پتہ چلے گا کہ کوئی ڈینگی میں مبتلا ہے؟ تو اس کی علامات جانیں۔ علامات - بیماری کے آغاز میں، زیادہ تر لوگوں میں کوئی علامات نہیں ہوتی ہیں۔ فلو کے نتیجے میں۔ کیا آپ اکثر کھانے کے بعد تھکاوٹ اور نیند محسوس کرتے ہیں؟ ڈینگی بخار کی علامات میں سر درد، پٹھوں، ہڈیوں یا جوڑوں کا درد، متلی، قے، آنکھوں کے اندر درد، غدود کا سوجن اور خارش شامل ہیں۔ زیادہ تر مریض ایک ہفتے کے اندر ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن کئی بار علامات خراب ہو جاتی ہیں اور بیماری جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ خون بہنا شروع ہو جاتا ہے، جبکہ خون کے جمنے میں مدد کرنے والے خلیات (پلیٹلیٹس) کی تعداد بہت کم ہو جاتی

  شدید ڈینگی جان لیوا ہے اور بخار کے اترنے کے ایک یا دو دن بعد انتباہی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں، بشمول شدید پیٹ میں درد بار بار الٹی آنا، اور ناک یا مسوڑھوں سے خون بہنا۔ قابل ذکر علامات میں پیشاب میں خون، قے، سانس لینے میں دشواری یا سانس کی قلت، تھکاوٹ اور چڑچڑاپن شامل ہیں۔ ڈاکٹر سے کب مشورہ کریں؟ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، ڈینگی مہلک ہے اگر یہ بگڑ جائے، تو ایسی صورت میں فوری طبی امداد حاصل کریں۔ آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور ٹیسٹ کروانا چاہیے، خاص طور پر جب آپ کے آس پاس ڈینگی کے کیسز ہوں، بخار ہو اور اگر آپ میں دیگر علامات ہوں۔ اگر آپ ماضی میں ڈینگی کا تجربہ کر چکے ہیں، تو آپ کو دوبارہ اس بیماری کا زیادہ سنگین کیس آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جبکہ مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کا خطرہ بھی وہی ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ڈینگی ایک شخص سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتا بلکہ صرف مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ ہارٹ اٹیک کی عام عادات اور وجوہات۔ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے مچھر بھگانے والی ادویات کا استعمال کریں۔

اگر آپ کے گھر میں اے سی ہے تو اسے چلائیں، مچھروں کو کھڑکیوں اور دروازوں سے داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کریں، بازوؤں والی قمیض پہنیں اور پاؤں میں موزے۔ گھر میں ڈینگی ہے۔ اپنی اور خاندان کے دیگر افراد کی حفاظت کے لیے اضافی احتیاطی تدابیر اختیار کریں کیونکہ اگر کسی مریض کو عام مچھر کاٹ لے تو بھی ڈینگی وائرس مریض میں منتقل ہو سکتا ہے جس سے وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔ گھروں کے قریب کھڑے رہیں اور اگر کوئی ضرورت ہو تو کھڑے پانی میں تھوڑا سا مٹی کا تیل ڈال دیا جائے تاکہ وہاں مچھروں کی افزائش نہ ہو سکے۔ ہسپانوی فلو (ہسپانوی: la gripe española) جسے 1918 کی وبائی بیماری بھی کہا جاتا ہے  اور  ایک غیر معمولی طور پر مہلک انفلوئنزا وبائی مرض تھا۔ جنوری 1918 سے دسمبر 1920 تک اس عالمی وبا نے 500 ملین افراد کو متاثر کیا جو اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی تھی۔ اس کی ہلاکتوں کی تعداد کا تخمینہ 17 ملین سے 50 ملین اور ممکنہ طور پر 100 ملین تک ہے، جو اسے بلیک ڈیتھ کے بعد انسانی تاریخ کی سب سے مہلک وبا ہے۔

حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور ریاستہائے متحدہ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد خبروں کے سنسروں نے بیماری اور موت کی ابتدائی رپورٹیں شاذ و نادر ہی ظاہر کیں۔ اخبارات غیر جانبدار اسپین میں وبا کے اثرات کی اطلاع دینے کے لیے آزاد تھے، جیسا کہ کنگ الفونسو X کی سنگین بیماری، اور اسی طرح کی رپورٹس نے خاص طور پر سخت متاثرہ اسپین کے بارے میں غلط تاثر پیدا کیا۔ متاثر ہوتا ہے. اس نے وبائی بیماری، ہسپانوی فلو کو جنم دیا۔ تاریخی اور وبائی امراض کے اعداد و شمار اس وبا کی جغرافیائی اصل کی قطعی طور پر شناخت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ زیادہ تر انفلوئنزا کی وبا سے نوجوان اور بہت بوڑھے افراد ہلاک ہوتے ہیں، اور درمیانی عمر کے لوگوں میں زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے، لیکن ہسپانوی فلو کی وبا کے نتیجے میں اموات کی شرح بہت زیادہ متوقع رہی۔ .

 

بدھ، 8 نومبر، 2023

یہ مضمون طاہر محمود آسی ٹیچر کے نام


حضور صلی اللہ علیہِ وسلم نے فرمایاہے :۔

’’تمہارے تین باپ ہیں‘‘

  ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لا یا، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی، اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ اور فرمایا کہ ان سب میں سے افضل تمہارے لیے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا۔ میرے خیال میں استاد کا مقام ومرتبہ اور استاد کی عظمت اس سے زیادہ کوئی بیان نہیں کرسکتا۔استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے…وہ قوم کو تہذیب وتمدن،اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہو تا ہے، استاد ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ گویا کسی بھی قو م کو کوئی حکومت تربیت نہیںدیتی بلکہ ایک استاد تربیت دیتا ہے۔ خدا لگتی بات کی جا ئے تو قوم کی تباہی یاقوم کی سرفرازی دونوں کا باعث استا د ہی ہوتا ہے۔

                        اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے ۔      انسان کی زندگی میں استاد کا مقام ومرتبہ اہم ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی و بقا میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔ استاد ہی نو نہالانِ قوم کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہوتا ہے۔ انسان چاہے کوئی بھی ہو کاروباری ہو درزی ہو سیاستداں ہو فنکار ہو یا وکیل یا پھر کھیل کود سے دلچسپی رکھنے والاہو یا مذہبی رجحان رکھنے والاہی کیوں نہ ہو ہر کسی کو علم کی ضرورت پڑتی ہے ۔ علم حاصل کرنے کے لئے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ والدین کے بعد اگر دنیا میں انسان کسی شخصیت کی دل و جان سے عزت و احترام کرتا ہے تو وہ استاد ہے۔ ہاں استاد!   استاد علم کا گہوارہ ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی میں اساتذہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ استاد کو نئی نسل کی ترقی دینے، معاشرے کی فلاح و بہبود اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر وقت اپنے پیڑ پودوں کی کانٹ چھانٹ نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول فاروق آباد میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کا طلباء کے سامنے سئنر سائنس ٹیچر طاہر محمود آسی کیساتھ ہتک آمیز رویہ ٹیچر کے جوتے اتروادئیے 

سوشل میڈیا ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کوریج پر وزیر اعلی پنجانب کا ایکشن ڈی سی شیخوپورہ سے رپورٹ طلب کرلی جس پر سئنر ٹیچر کی داد رسی کی بجائے انتظامیہ اور محکمہ تعلیم افسران ڈی ایم او سمیرا عنبرین کو بچانے کیلئے ٹیچروں دبائو ڈالنے لگے-سی ای او ایجوکیشن جب انکوائری کے سلسلہ میں گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول فاروق آباد پہنچے تو وہاں موجود ٹیچروں نے جب ڈی ایم او کے رویہ اور سئنر ٹیچر کیساتھ ہتک آمیز رویہ پر احتجاج کیا تو سی ای او کمرہ سے باہر نکل گئےسیئنر ٹیچر نے ننگے پائوں قوم کے معماروں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا اعلان کردیا اور اس وقت تک ننگے پائوں رہیں گے جب تک ڈی ایم او ان کا خود جوتا واپس نہیں کریں گی -سیئنر سائنس ٹیچر انتظامیہ اور محکمہ افسران کے رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر بچوں کو پڑھاتے ہوئے دھاڑے مار مار کر رو پڑےکیا استاد کی تزلیل کا یہ عمل ختم ہوگا ؟ جبکہ ترکی کے ایک جہاز کے پائلٹ  کو معلوم ہوتا ہے کہ اس  جہاز میں اس کےپرائمری سکول کے ایک استاد سفر کررہے ہیں۔ معلوم ہونے پر جہاز کے پائلٹ اعلان کرتا ہے کہ ہمارے جہاز میں  میرے محترم استاد سفر کررہے ہیں۔ اعلان سنتے ہی سارے مسافر احتراما کھڑے ہوجاتے ہیں اور جہاز کا عملہ پھول لاکے استاد کو پیش کرتا ہےاور پائلٹ خود آکر استاد کے گلے لگتا ہے۔

ہمارے بہت مشہور استاد اور رائٹر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ مجھے جاپان کی ترقی کا اندازہ اس دن ہوا جب جاپان میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے مجھے ٹریفک چلان ہوا اور میں مصروفیت کی وجہ سے عدالت میں مقررہ وقت پہ پیش نہ ہو سکا۔ عدالت کے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھنے پر جب اس نے بتایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور مصروفیت کے بنیاد پہ عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔ استاد کا نام سن کے جج نے کہا ”A teacher is in court“ اور جج سمیت تمام لوگ احتراما کھڑے ہوگئے اور مجھے عزت و توقیر سے رخصت کیا۔آج اگر ہم تعلیمی، تہذیبی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی پستی کے شکار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہیں کہ ہمارے یہاں پہ کرپٹ اور نالائق دنیادار شخصیات کو تو عزت دی جاتی ہے لیکن یہاں پہ اساتذہ کی تذلیل کی جاتی ہے اور اساتذہ کو چھری مار کے قتل کیا جاتا ہے۔ یقینا جب تک ہمارے معاشرے میں اساتذہ کو سربلند نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہمارا معاشرہ زوال پذیر رہے گا   

  امام شافعی بڑے اعلیٰ درجہ کے فقیہ ومحدث گزرے ہیں جبکہ آپ ایک اہلسنت طبقہ کے امام بھی کہے جاتے  ہیں، یہ حصول ِ علم کے لیے مدینہ پہنچے،آ پ غریب  تھے، امام مالک نے اپنے اس ہونہار شاگرد کو خود اپنا مہمان بنایا او رجب تک مدینہ میں رہے، ان کی کفالت کرتے رہے، پھر جب امام شافعی نے مزید کسب ِ علم کے لیے کوفہ کا سفر کرنا چاہا تو سواری کا نظم بھی کیا اور اخراجات ِ سفر کا بھی اور شہر سے باہر آ کر نہایت محبت سے آپ کو رخصت کیا، امام شافعی کوفہ آئے اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد رشید امام محمد کی درس گاہ میں بحیثیت طالب علم شریک ہو گئے، یہاں بھی امام محمد  نے ذاتی طور پر امام شافعی کی کفالت فرمائی، بلکہ بھرپور تعاون فرمایا، امام شافعی اس حال میں کوفہ پہنچے کہ نہایت ہی معمولی کپڑا آپ کے جسم پر تھا،امام محمد  نے اسی وقت ایک قیمتی جوڑے کا انتظام فرمایا،جو ایک ہزار درہم قیمت کا تھا، پھرجب امام شافعی کو رُخصت کیا تو اپنی پوری نقدی جمع کرکے تین ہزار درہم حوالہ کیے-   ہمارے معاشرے میں اس قدر قابل عزّت طبقے کو حکومت بھی ان آسانیوں سے محروم رکھتی جو وہ اپنے دیگر سرکاری ملازمین کو دیتی ہے اور جب یہ اپنا جائز حق مانگنے سڑکوں پر آتے ہیں تو پولیس ان پر لاٹھی چارج کر ان کو لہو لہان بھی کرتی ہے اس پر سے ان پر مقدمات بھی بنائے جاتے ہیں -اللہ ہمارے سماج پر رحم فرمائے

   میں محترم سائنس ٹیچر طاہر محمود آسی کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کرنے والوں کی بھرپور مزمت کرتی ہوں 



پیر، 6 نومبر، 2023

موتیابند-آنکھوں کی حفاظت کیجئے

  ریٹنا ایک ہلکا حساس ٹشو ہے جو آنکھ کو استر کرتا ہے اور آنکھ کے پچھلے حصے میں واقع ہوتا ہے۔ یہ بادل اس وقت ہوتا ہے جب آنکھ کے عینک میں موجود کچھ پروٹین شکل بدلنا شروع کر دیتے ہیں اور بینائی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ موتیابند ان کے ابتدائی مراحل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوسکتا ہے اور بادل چھا جانا عینک کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ تاہم، وقت کے ساتھ موتیا بڑا ہو سکتا ہے اور عینک کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسے اس طرح دیکھنا مشکل ہے۔ جب کم روشنی ریٹینا میں داخل ہوتی ہے تو اسے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور بصارت دھندلی اور دھندلی ہو سکتی ہے۔ موتیا ایک آنکھ سے دوسری آنکھ میں نہیں پھیلتا لیکن بہت سے لوگوڈاکٹر ابھی تک نہیں جانتے کہ موتیابند کی وجہ کیا ہے، ان سے بچنے کا کوئی ثابت شدہ طریقہ نہیں ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی آنکھوں کا باقاعدگی سے معائنہ کرائیں کیونکہ موتیا بند اور دیگر حالات جیسے گلوکوما بڑی عمر کے بالغوں میں عام ہیں۔ اگر آپ کی آنکھوں کے مسائل 

موتیا ایک ایسی حالت ہے جہاں قدرت کا عطا کردہ شفاف لینس آ پ کی آنکھ میں مبہم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور روشنی کا راستہ روکتا ہے جو اکثر بینائی میں خلل ڈالتا ہے۔ایک اور کلاسیکی مسئلہ جس کا سامنا ہر روشنی پر مبنی شے کے گرد روشنی کا ایک حلقہ ہے جو اکثر روشنی کے پھیلاؤ کی وجہ سے مختلف رنگوں میں ہوتا ہے۔ موتیا ایک سے زیادہ اقسام کے ہوتے ہیں اور آپ کی بینائی پر مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں۔ نہ صرف اثر کا سبب بھی مختلف ہو جائے گا. عام موتیابند نیوکلیئر، کورٹیکل، پوسٹیریئر سب کیپسولر، پیدائشی، تکلیف دہ، تابکاری وغیرہ ہیں۔تشخیص کے لیے سرجن موتیابند کی قسم کا تعین کرنے کے لیے ریٹنا ویژول ایکیوٹی ٹیسٹ، سلٹ لیمپ ایگزامینیشن اور ریٹینل ایگزام کا استعمال کر سکتا ہے۔

یا ذیابیطس جیسی دیگر بیماریوں کی تاریخ ہے تو اس سے آنکھوں کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔:آنکھوں کے معائنے سے موتیا بند اور آنکھوں کے دیگر مسائل کا جلد پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اپنے ڈاکٹر سے اس بارے میں بات کریں کہ آپ کو کتنی بار اپنی آنکھوں کا معائنہ کرانا چاہیے۔ سگریٹ نوشی چھوڑیں: تمباکو نوشی چھوڑنے کے بارے میں مشورہ کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ کوئی بھی دواؤں، مشاورت اور دیگر طریقوں سے مدد لے سکتا ہے۔ صحت کے دیگر مسائل کا انتظام کریں: اگر آپ کو ذیابیطس یا کوئی اور طبی حالت ہے جس سے آپ کے موتیا بند ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تو علاج کے منصوبے کو جاری رکھیں۔ پھلوں اور سبزیوں سے بھرپور غذائیت سے بھرپور غذا کا انتخاب کریں: ایک غذا شامل کریں۔ آپ کی خوراک میں مختلف قسم کے رنگ برنگے پھل اور سبزیاں جو آپ کو وٹامنز اور معدنیات کی ایک وسیع رینج فراہم کرتی ہیں اور آپ کی آنکھوں کو صحت مند رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

دھوپ کا چشمہ پہننا:سورج کی روشنی سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعیں موتیابند کی تشکیل کا باعث بن سکتی ہیں۔ اگر آپ باہر ہیں تو دھوپ کے چشمے پہنیں جو الٹرا وایلیٹ B (UVB) شعاعوں کو روکتے ہیں۔الکحل کی کھپت کو کم کریں: بہت زیادہ الکحل کا استعمال موتیابند کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ تشخیص، یا اس بات کا تعین کریں کہ آیا آپ کو موتیا بند ہے، آپ کا ڈاکٹر آپ کی تمام علامات کے بارے میں جاننا چاہے گا۔ وہ آپ کی آنکھوں کو قریب سے دیکھیں گے اور کچھ ٹیسٹ کر سکتے ہیں، بشمول:بصری تیکشنتا ٹیسٹ: یہ "آئی چارٹ امتحان" کہنے کا ایک عمدہ طریقہ ہے۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آنکھیں کتنی صاف ہیں، ڈاکٹر دور سے مریض کو خط پڑھے گا۔ ایک آنکھ سے شروع کریں اور پھر دوسری آنکھ سے۔ اس کے بعد وہ ایک چکاچوند ٹیسٹ کر سکتے ہیں، جس میں وہ آنکھوں میں ایک روشن روشنی ڈالتے ہیں اور آپ سے حروف کو پڑھنے کو کہتے ہیں۔
سلٹ لیمپ ٹیسٹ:یہ ٹیسٹ روشن روشنی کے ساتھ ایک خاص خوردبین کا استعمال کرتا ہے جو ڈاکٹر کو آنکھ کے مختلف حصوں کا معائنہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ کارنیا، آنکھ کی شفاف بیرونی تہہ کا معائنہ کریں گے۔ وہ آئیرس، آنکھ کے رنگین حصے کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے موجود عینک کو بھی دیکھیں گے۔ آنکھ میں داخل ہوتے ہی لینس روشنی کو موڑتا ہے، جس سے مریض واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ریٹنا امتحان: ڈاکٹر شاگردوں کو پھیلانے کے لیے آنکھوں میں قطرے ڈالے گا، جو اس بات کا تعین کرے گا کہ کتنی روشنی داخل ہوتی ہے۔

 اس سے وہ ریٹنا، آنکھ کے پچھلے حصے کے ٹشوز اور موتیابند کو بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ایپلی کیشن ٹونومیٹری:یہ ایک ٹیسٹ ہے جو آنکھ میں سیال کے دباؤ کا تعین کرتا ہے۔ اس کو پورا کرنے کے لیے کئی ٹولز اور طریقے ہی۔علاج - موتیابند کا واحد علاج موتیابند کی سرجری ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ مریضوں کو اس کی فوری ضرورت نہ ہو۔ اگر آپ اس مسئلے کو جلد ہی پکڑ لیتے ہیں، تو آپ شیشے کے لیے ایک نیا نسخہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک مضبوط لینس عارضی طور پر مجموعی بصارت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ پڑھتے وقت روشن لیمپ یا میگنفائنگ گلاس استعمال کرنے پر غور کریں۔ اگر چمک آپ کو پریشان کرتی ہے تو، اینٹی چکاچوند کوٹنگ والے خصوصی شیشے چیک کریں۔ رات کو گاڑی چلاتے وقت وہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ موتیابند بینائی کو کس طرح متاثر کرتا ہے اس پر گہری نظر رکھیں۔ جب بصارت کے مسائل آپ کی روزمرہ کی زندگی میں مداخلت کرنے لگتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ ڈرائیونگ کو غیر محفوظ بناتے ہیں، تو یہ سرجری کے بارے میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کا وقت ہے۔  

پاکستان میں منشیات کا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ا ستعمال

 پاکستان میں منشیات کا   اعلیٰ تعلیمی اداروں میں استعمال -پاکستان میں آئے روز منشیات کے بڑھتے دلدل نے ہماری نوجوان نسل کے روشن مستقبل کو داؤ پر لگا کر لاکھوں پڑھے لکھے معزز خاندانوں کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر کالجوں، یونیورسٹیوں، ہاسٹلوں کے طلباؤ طالبات، جیلوں کے قیدیوں میں آئیس، ہیروئن، کوکین، چرس، افیون، شراب، مارفین کے ٹیکے سگریٹ نوشی، شیشہ نوشی کے استعمال میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو تا جار ہا ہے۔ جس پر والدین کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی ادارے بری طرح ناکام نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان نارکاٹکس کنٹرول پولیس، ایکسائز پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کی بھاری کھیپ قبضے میں لے کر قانونی کاروائی کرتے رہتے ہیں۔ سزاؤں کے قانون میں سخت ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں دھشت گردی کے بعد دوسرا سب سے سنگین جرم منشیات کی فیکٹریاں اور سمگلنگ ہے۔

بس رواں دواں چلتے ہوئے ایک جگہ حسب عادت رک گئ اور ڈرائور اتر کر چلا گیا ڈرائور کے جانے کے بعد بس کے دروازے پر ایک ہیروئنچی آ کر کھڑا ہو گیا جیسے ڈرائور کا انتظار کر رہا ہو پھردروازے سے ہٹ کر بس کے اندر آکر مسافروں سے بھیک مانگنے لگا مسافروں میں کسی نے اسے خیرات دی کسی نے نہیں دی- جب بس کے تمام مسافروں سے بھیک مانگ چکا تو دوبارہ بس ڈرائور کے دروازے پر جا کر کھڑا ہو گیا - اب چند ثانیوں میں ڈرائور آ گیا,,,اس نے دیکھا کہ بس کے دروازے پر بھکاری کھڑا ہے تو ٹیڑھا منہ بنایا اور اس کے ساتھ بھکاری نے ڈرائور سے کہا اللہ کے نام پر ایک روپیہ دے دے ڈرائور نے بھکاری سے سوال کیا ایک روپی کا کیا کرے گا بھکاری نے فوراً کہا ہیروئن پیوں گا ڈرائور نے بھکاری کو جھڑک کر کہا دیکھ تو اگر مجھ سے کھانا کھانے کو مانگتا تو میں تجھ کو ایک روپیہ نہیں پانچ 'دس روپئے دے دیتا 'لیکن تو مجھ سے زہر پینے کو مانگ رہا ہے اس لئے تجھ کو ایک دھیلا بھی نہیں دوں چل جا بس کا ڈنڈا چھوڑ دے 'ڈرائور نے غصّے سے کہا لیکن ڈرائور کے غصّے کی پرواہ نہیں کی اوردروازہ پکڑے رکھّا تو ڈرائور نے بس کو ایک جھٹکا دیا اور پھر بھکاری نے دروازہ تو چھوڑ دیا لیکن جاتے جاتے کہنے لگا اللہ تیرا بیڑہ غرق کرے اور بھکاری کے اس کوسنے سے مجھے لگا جیسے میرا دل مٹھّی میں آ گیا ہو

 بھکاری ڈرائور کو کوسنا دے کر چلا گیا اور بس ڈرائور نے بس چلا دی لیکن ہوا یہ کہبس معمول کے مطابق چلتی ہوئ اچانک ڈرائور کا ہاتھ اسٹئرنگ پر سلپ کرنے کی وجہ سے ایک دم فٹ پاتھ پر چڑھ گئ اور پھر پہلے ڈرائوراور کنڈکٹر بس سے نیچے اترا پھر ایک ایک مسافر کر کے اترے پھر ڈرائور نے بس کو ہلکا کرنے کے لئے سارے مسافروں کو بس اتار کر بس کو فٹ پاتھ سے اتارنے کی کوشش کی اس کی کوشش میں سارے مسافروں نے بھی ساتھ دیا لیکن بس اڑیل گھوڑے کی طرح ٹس سے مس نہیں ہوئ اب ڈرائور فٹ پاتھ پر کھڑا خجل لہجے میں کہہ رہا تھا 'مجھے فقیر ککو خیرات دے دینی چاہئے تھی ،میرا بھی زاتی یہی خیال ہے کہ کوئ سوالی جب اللہ کے نام پر مانگ رہا ہو تواس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاو 'اسوقت ہیروئن بھکاری کے لئے کھانے سے بڑھ کر اہم تھی ن محفوظ رہیں آمین اس وقت منشیات کی وبا نے ملک کی نوجوان نسل کی صحت پر شب خون مارا ہے ،کوئی شہر ،کوئی دیہات ، اسکول، کالج، جامعات منشیات کے مختلف آئٹموں سے محفوظ نہیں۔ چرس عام بکتی ہے، کرسٹل، لوشن ، کوکین ، افیون ، بھنگ گلی کوچوں میں دستیاب ہے، منشیات کے عادی افراد کے لیے سرکاری اسپتالوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، 

 ۔ضروری ہے کہ لیاری ، روتھ فاؤ سول اسپتال،جناح اسپتال اور ملک کے سرکاری اسپتالوں میں منشیات کے وارڈ اور اس کے معالجاتی شعبہ قائم ہونا چاہئیں، پاکستان میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2013 میں 70لاکھ کے قریب لوگ منشیات کے عادی تھے تاہم ایک اندازے کے مطابق اب یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے-اقوام متحدہ کے ادارے UNODC کی 2020 ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق، 35 ملین سے زیادہ لوگ منشیات کے استعمال کے نتائج سے دوچار ہوئے۔ ڈبلیو ایچ او کےمطابق دنیا میں تمباکو کے استعمال سے ہر سال 8 ملین سے زیادہ لوگ مرتے ہیں جن میں سے 1.2 ملین اموات صرف غیر فعال تمباکو نوشی سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں 8.1 ملین افراد منشیات کے عادی ہیں، سالانہ 50 ہزار نئے منشیات استعمال کرنے والوں کومنشیات کے عادی افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں۔

 شامل اعداد و شمار اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ منشیات کے عادی افراد میں سے 55 فیصد کا تعلق پنجاب اور 45 فیصد ملک کے دیگر صوبوں سے ہے-بتایا جاتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں اب اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں ان خطرناک نشوں کے عادی ہو رہے ہیں جن کا نجام بس موت کی گہری کھائ ہے-انسداد منشیات مہم پنجاب کے کنسلٹنٹ ذوالفقار حسین کے مطابق اپریل میں لاک ڈاؤن کے دوران لاہور کی مختلف سڑکوں، باغوں اور پارکوں میں منشیات کے عادی افراد کی 51 لاشیں ملیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے کیونکہ اس سے قبل ہر ماہ 24 سے 28 منشیات کے عادی افراد کی لاشیں لاہور کے مختلف علاقوں سے ملتی تھیں۔ مضمون کے آخر میں اپنے معاشرے کے والدین سے گزارش ہے کہ خدارا اپنی اولاد کو دوست بن کر ان کا ساتھ دیں تاکہ وہ جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے نا چڑھ سکیں -آپ کی اولاد نا صرف آپ کی بلکہ پورے سماج کی دولت ہے اللہ آپ کا حامئ و مددگار ہو آمین-ثمّہ آمین   

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر