اللہ میاں کے دستوربھی کتنے نرالے ہیںہمارےگھر میں صرف پہلوٹھی کے بھیّا کو دینے کے بعد ہم چار بہنوں فرحت فرحین آپی جن کو میں اور ہم سب بہنیں بڑی آپا کہتے ہیںپھر منجھلی آپا ندرت ماہین ،ان کے بعد فریال رامین جو ہمارے لئے فریال بجّو ہیں اور ان کے بعد نرگس زرمین آپی ہیں ،ان چاروں کو او پر تلے امّاں کے آنگن میں بھیج دیا ،پھر چار برس تک ان کے آنگن سوکھے دھانوں کوئ پانی ناپڑا کہ میں نصرت نگین کا نام لے کر ان کے آنگن میں اتر آئ،مجھے نہیں معلوم کہ امّاں لڑ کیوں سے بیزاری کے سبب اتنی تلخ زبان رکھتی تھیں یا ان کا مزاج ہی ایسا تھا ،لیکن ابّا بہت مشفق و مہربان تھے ،امّاں عام بات بھی کرتی تھیں تو ہم بہنوں کو ان کا حکم ہی لگتا تھا ،ابّا کبھی کبھی کہتے ارے نیک بخت ان کے ساتھ اتنی سختی نا برتو ,,یہ توہما رے آنگن کی چڑیاں ہیں ،دیکھ لینا ایک دن ہمارا آنگن ان کے بنا سائیں سائیں کرتا ہو گا اور امّاں ابّا سے کہتی تھیں تم بلاوجہ ان کے دماغ مت خراب کیا کرو ،آخر ان کو دوسرا گھر اپنا پتّہ مار کر سنبھانا ہے ابھی سے عادت نہیں ڈالی جائے تو لڑکی نخرے دار اٹھتی ہمیری سمجھ میں امّاں کی باتیں ہرگز نہیں آتی تھیں ناجانے ابّا سمجھتے تھے کہ نہیں پھر وہ امّاں سے کچھ بولتے نہیں تھے اور امّا ں کے دل شکن نعروں کی گونج میں جب میں کچھ کچھ بڑی ہوئ تو گھر سے بڑی آپا کی رخصت کی گھڑی آ گئ تھی بڑی آپا ہما رے تایا ابّا کے گھر بچپن کی مانگ تھیں مجھے یاد ہے وداعی والے دن بڑی آپا جب بیوٹی پالر جانے کے لئے گھر سے لگیں تو اچانک ہی گھر کے دروازے سے لپٹ کر دھا ڑیں مار کر رونے لگیں ،ایسے میں امّا ں بوتل کے جن کی طرح گھر کے کسی کونے سے برآمد ہو ئیں اور بڑی آپا سےکہنے لگیں بند کرو یہ بین اور جاکر گاڑی میں بیٹھو اور ہم بہنیں حیران ہو کر امّاں کو دیکھنے لگے
میں نے سو چا کم از کم آ ج کے دن تو امّاں کو بڑی آپا کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہئے ،،مگر امّا ں تو امّاں تھین جو اپنے ماں ہونے کےفلسفے کے بنیادی اصول اچھّی طرح جانتی تھیں بڑی آپا گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے نا طے بہت زمّہ دار تھیں لیکن مزاج کی بے حد شرمیلی اور کم گو بھی تھیں وداعی والے د دلہن بننے کے بعد وہ میک اپ کے خراب ہونے کی پرواہ کئے بغیر چپکے چپکے گھونگھٹ کی اوٹ میں روئے جا رہی تھیں اور رخصتی کے وقت ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور دھاڑیں مار کر روئیں تو ہم سب بہنیں بھی بے حد رو ئے تھے ،لیکن حیرت کی بات تھی کہ جب آ پا اگلے دن اپنی سسرال سے ہمارے گھر طلال بھائ کے ساتھ آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں میں بڑی آپا کو حیران ہو کر دیکھ رہی تھی اور پوچھنا بھی چاہ رہی تھی کہ اب وہ رو کیوں نہیں رہی ہیں کہ اچانک میری نظر ا نکی مہندی لگے ہاتھوں کی کلایوّں پر گئ جہاں امّاں کی پہنائ ہوئ سہاگ کی ہری اور لال کانچ کی کھنکتی ہوئ چوڑیوں کے ہمراہ سو نے کے خوبصورت جڑاؤ کنگن نظر آرہے تھے میں بڑی آپا سےاو ر سب پوچھنا بھول گئ ،میں نے ان کے مہندی رچے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا ،بڑی آپا یہ سونے کے کنگن کل تو آپ کے ہاتھ میں نہیں تھے ،میری بات پر بڑی آپا کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا اور انہوں نے حیا بار نظریں جھکا کر کہا یہ تمھارے طلال بھائ نے منہ دکھائ میں پہنائے ہیں ہماری تائ امّی کی پوری فیمیلی بہت نیک تھی اور بڑی آپا بڑی جلدی اپنی سسرال میں رچ بس گئیں
اب میں نے دیکھا منجھلی آپا ہر وقت امّاں کے نشانے پر رہتی تھیں ،اور بس امّاں کی زبان پر ایک جملہ ہوتا پرائے گھر جانا ہے اپنی عادتیں سدھار لو ،منجھلی آپا بھی اپنی جگہ اچھّی تھیں لیکن ان کی زبان پر امّاں کی بات کا ہر جواب موجود ہوتا تھا جس سے امّا ں بہت ناراض ہوتی تھیں اور منجھلی آپا کو صبر کی تلقین کا سبق بھی پڑھاتی رہتی تھیں اور بالآخر بڑی آپا کے دو برس بعد منجھلی آ پا بھی گھر سے رخصت ہو کر سدھار گئیں ،مہندی مایوں سے لے کر رخصت کی گھڑی تک منجھلی آپاکی آنکھو ں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی مین نے نہیں دیکھا ،ناجا نے ان کو کیا ہو گیا تھا ،ان کے دلہناپے کو سکوت ساتھا اور وہ اسی طرح ساکت ہی رخصت ہو گئیں لیکن میرے لئے اچنبھے کی بات تھی کہ اگلے دن منجھلی آپا کوسسرال جاکر بھیّاانہیں لے آئے تھے انکے ساتھ ان کے دولہا رفاقت بھائ بھی نہیں آئے تھے ان کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن بھی نہیں تھے اور وہ بڑی آپا کی طرح خوش بھی نہیں تھیں بلکہ آنسو انکی آنکھوں میں چھلکے چھلکے آرہے چھلکے چھلکے آرہے تھے امّا ں بیٹی کے پر ملال چہرے پر نظر ڈال کر کچھ چونکیں تو ضرور تھیں لیکن انہوں نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا نا ہی کچھ پوچھ کر ان کو کچھ بول نے کا حوصلہ دیاتھااور پھر شادی کے صرف چند روز بعد منجھلی آپا امّاں کے سامنے بیٹھی رو رو کر کہ رہی تھیں امّا ں آپ نے مجھ کو یہ کیسی سسرال بھیج دیا جس کو گھر نہیں جہنّم کہنا زیادہ بہتر ہے- اور شوہر ایسا ہے جو اپنی امّاں کے پلّو سے بندھا پھرتا ہے جو بات کرو امّاں سے پوچھ لو ،جو کام کہو امّاں راضی نہیں ہو ں گی ,,جب اسے اپنی امّاں کے پہلو سے لگ کر بیٹھنا اتنا ہی پسند تھا تو پھر شادی کی کیا ضرورت تھی ،
منجھلی آپا امّاں کو رو رو کر بتاتی رہیں کہ ان کی ساس ان سے کس طرح گھر کے سارے کام کرواتی ہیں اور کھانا پکا کر سب سے آخر میں کھانا کھانے دستر خوان پر بیٹھتی ہیں تب ان کی ساس منجھلی آپا کے کھانا کھائے بغیر ہی دستر خوان سمیٹ دیتی ہیں اور بڑی دو بہوؤں کے مقابلے میں ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ،منجھلی آپا نے یہ بھی بتایا کہ ان کو طبیعت کی خرابی میں بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہے ،اور رفاقت کا کہتے ہیں کہ ہماری ماں کے حکم کے مطابق ہی گھر چل رہا ہے اب اگر تم کو کوئ اعتراض ہے تو تم میکے جا سکتی ہو - اب امّاں نے دھیرے دھیرے بولنا شروع کیا دیکھ منجھلی ہر لڑکی انہی حالات سے گزرتی ہے تب جا کر گھر بنتا ہے -امّا ں ہمارا کمرہ اوپر ہے رفاقت دفتر سے آ کر سیدھے اپنی امّاں کے کمرے میں جاتےہیں -ٹھیک ہے امّاں مجھے کوئ حق نہیں کہ میں ان کو منع کروں لیکن جب امّاں کے کمرے سے باہر نکلتے ہیں تو من بھر کا سوجا ہوا چہرہ لے کر نکلتے ہیں اور پھر اوپر جا کرمجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے ہیں میں سارا دن نیچے رہتی ہوں ساس کا حکم ہے کہ دن میں نیچے رہوں اور سارا دن نیچے رہ کر سارے گھر کی خدمت کر کے یہ صلہ ملتا ہے کہ شوہر سیدھے منہ بات نہیں کرتا ہے -منجھلی صبر بھی تجھی کو کرنا ہے خدمت بھی تجھی کو کرنا ہے اور یہ کہہ کر امّاں منجھلی آپا کے پاس سے بیٹھک میں چلی گئیں
جاری ہے